Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کفارہ

MORE BYاوپندر ناتھ اشک

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو آمدنی سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس کی بیوی جب اسے فضول خرچی سے روکتی ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد اس کی مالی حالت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ وہ ٹانگہ چلانے لگتا ہے۔ ایک روز ایک سواری کو وہ جس پتے پر چھوڑتا ہے وہاں بیماری سے تڑپتی ایک جوان عورت بھی ہوتی ہے، جو کوئی اور نہیں، اس کی بیوی ہوتی ہے۔

    گاڑی نمبر ۱ پلیٹ فارم پر رکی اور تیسرے درجے کے ایک بھرے ہوئے ڈبے سے ایک گھبرائی ہوئی آواز نے پکارا، ’’کوئی قلی۔ کوئی قلی!‘‘ تب لوگوں کو تو چڑھنے اترنے کی پڑی تھی۔ اترنے والوں کی نسبت چڑھنے والے اتاولے تھے اورچڑھنے والوں کی نسبت بےصبر۔ پھر قلی کس طرح اس کمزور اور نحیف آواز کو ایک دم سن پاتا؟

    شور و شغب کو جیسے پوری کوشش سے چیر کر وہ باریک لیکن تیکھی اور گھبرائی آواز پھر ڈبے کے باہر گونجی، ’’کوئی قلی، کوئی قلی!‘‘ اور کچھ دیر بعد کھڑکی میں اترنے چڑھنے والی بھیڑ میں سے راستہ بناتا ہوا ایک قلی اندر چلا گیا۔ کچھ لمحہ بعد وہ سرپر ایک پرانا ٹرنک اور بازو میں ایک چھوٹا سا بستر لٹکائے باہر نکلا! ٹرنک۔۔۔ اگر اسے ٹرنک کہہ لیا جائے، ورنہ ٹرنک نام کی چیز وہ دکھائی نہ دیتی تھی۔۔۔ رنگ روغن اس کا اتر چکا تھا، کنارے مڑگئے تھے اور کپڑوں کی حفاظت کرنے کی بجائے وہ پاس سے گزرنے والوں کے کپڑے زیادہ پھاڑ رہا تھا۔ بستر بھی کوئی ہولڈال میں بند بستر نہ تھا۔ ایک دری میں شاید کھیس، چادر یا دو کپڑے رکھ، گول کرکے انہیں رسی سے باندھ دیا گیا تھا۔ قلی کے پیچھے ڈبے میں سے کسی نے کہا، ’’بھائی اسے ٹرنک پر رکھ لے، نہیں تو رسی ٹوٹ جائےگی۔‘‘ اور یہ کہتی ہوئی ایک نحیف و نزار بڑھیا اپنے سفید بالوں اور دہری کمر کولیے ہوئے جیسے اپنے ان بوڑھے برسوں کے بوجھ سے دبی، کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کھڑکی کاسہارا لے کر اتری۔

    ’’مجھے تانگے تک پہنچادے بھائی، تیرا بھلا ہوگا۔‘‘ پلیٹ فارم پر پاؤں رکھتے ہی سکھ کی ایک لمبی سانس لیتے ہوئے اس نے کہا۔

    ’’نمستے ماں جی!‘‘ گاڑی میں بیٹھی ہوئی ایک نازنین نے اپنی میٹھی آواز میں پکارا۔ ضعیفہ چونکی اور اسے اس نوجوان حسینہ کا خیال آ گیا جس سے ابھی کچھ دیر پہلے وہ ماں بیٹی کا رشتہ قائم کر چکی تھی۔ مڑ کر اس نے اپنا ہاتھ اٹھاکر اسے دعا دی، ’’جیتی رہو بچی، سکھی رہو۔‘‘ گارڈ نے تب جھنڈی ہلائی، انجن نے سیٹی دی اور دھواں اڑاتا ہوا پھر اپنے لمبے سفر پر روانہ ہو گیا۔

    ایک لمبی سانس لے کر بڑھیا نے دیکھا۔۔۔ قلی اس کے پیچھے پیچھے آرہا ہے۔ وہ اسٹیشن کے پھاٹک کی طرف بڑھی۔ جالندھر شہر جنکشن اسٹیشنوں میں سے تو ہے، لیکن اتنا بڑا نہیں کہ مسافر پلیٹ فارم کی بھول بھلیاں ہی میں گم ہوکر رہ جائے۔ دو لمبے لمبے پلیٹ فارم میں، پل کے ذریعے، انہیں دو دو حصوں میں منقسم کرکے چار نمبر لگا دیے گئے ہیں۔ باہر نکلنے والے پھاٹک نمبر ۱ پلیٹ فارم پر ہی واقع ہیں۔ اس نے جلدی سے ٹکٹ دیا اور باہر نکل گئی اور وہ مسکراہٹ جو اس حسینہ سے باتیں کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لیے اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی، پھر غم کے پردے میں چھپ گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیمار بھتیجی کی تصویر کھنچ گئی، جسے دیکھنے کے لیے وہ ہر دوار سے سیدھی ادھر آئی تھی۔ لیکن تانگے والوں نے زیادہ دیر تک اسے اس طرح اپنے خیالات میں محو نہ رہنے دیا۔

    ’’ادھر آئیے ماں جی!‘‘

    ’’صرف ایک سواری درکار ہے۔‘‘

    ’’بس بیٹھیے۔ ابھی چل دوں گا۔‘‘

    ’’پنج پیر جائیں گی آپ؟‘‘

    ’’بستی جانا ہو تو ادھر آ جائیے۔ تانگہ بس تیار ہی ہے۔‘‘

    اس نے سب کی سنی ان سنی کردی اور کسی طرح اپنے آپ کو ان کے چنگل سے رہا کرکے قلی کے پیچھے پیچھے وہ سیدھی ایک تانگے کی طرف بڑھی، جو دوسرے تانگوں سے الگ تھلگ اس طرح کھڑا تھا گویا اسے سواریوں کی ضرورت ہی نہ ہو۔ تانگے والا نہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا تھا، نہ آگے بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہا تھا۔

    ’’تانگہ خالی ہے؟‘‘ بڑھیا نے پوچھا۔

    ’’جی ہاں۔۔۔‘‘ تانگے والے نے جواب دیا۔ وہ بیٹھ گئی۔ قلی نے ٹرنک اور بستر اس کے پاؤں کے نیچے رکھ دیا۔ تانگہ چلنے لگا۔ اسے کدھر جانا ہے؟ نہ تانگہ والے نے اس سے پوچھا، نہ گھبراہٹ میں اس نے بتایا۔

    ’’ہم کدھر جا رہے ہیں؟‘‘ بڑھیا نے کچھ دیر بعد چونک کر پوچھا۔

    ’’آپ کو کدھر جانا ہے؟‘‘ تانگے والے نے سوال کیا۔

    ’’چھاؤنی کی سڑک پر پھاٹک کے پاس!‘‘

    تانگے والا ہنسا، ’’ہم تو شہر میں آ گئے ہیں مائی!‘‘ اور پھر اس نے پوچھا، ’’چھاؤنی کی سڑک پر آپ کہاں جائیں گی؟‘‘

    ’’تھانے کے نزدیک!‘‘

    ’’آپ نے پہلے کیوں نہ بتا دیا ماں جی!‘‘ تانگے والے نے شکایت بھرے لہجے میں کہا، ’’یہ تو ہوشیارپور کا اڈہ ہے۔ اب پھر واپس جانا پڑگیا۔ بڑا چکر لگے گا۔‘‘

    ’’جیسے بھی ہو بھائی، مجھے تو وہیں لے چل!‘‘

    ’’آپ فکر نہ کریں، میں لے چلتا ہوں ابھی!‘‘ اس نے یہ کہتے ہوئے تانگہ موڑ لیا۔ گھوڑے کو پچکارتے ہوئے ٹٹکاری بھری اور کہا، ’’چل بیٹا ذرا جلدی۔‘‘ اور تانگہ ہوا سے باتیں کرنے لگا۔

    تانگے والا کون تھا، کہاں سے آیا تھا، یہ سب کسی کو معلوم نہ تھا۔ سب یہی جانتے تھے ک اس نے ایک درد بھرا دل پایا ہے، جس میں دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسے یہاں آئے بہت دن نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن جب تانگے والے اپنے اپنے گھوڑوں کو دانہ پانی دے کر حقہ پینے کے لیے جمع ہوئے تھے تو پہلی بار انہوں نے اسے دیکھا تھا۔ وہ ابھی نوجوان ہی تھا لیکن داڑھی اور مونچھوں کے بڑھ جانے سے اس کی عمر زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ چہرا اس کا بالوں میں چھپا رہتا تھا اور سر پر روکھے لمبے بال لہرایا کرتے تھے، جو اس کی بےپروائی اور غمگینی کا پتہ دیتے تھے۔ لیکن اس پر بھی اس میں کچھ ایسی کشش تھی کہ آدمی بے ساختہ اس کی طرف کھنچ جاتا تھا۔ شاید اس کی وجہ اس کی آنکھوں کا وہ غم تھا، جو آنکھوں میں رہ کر بھی جیسے اس کی ساری شخصیت پر چھایا جاتا تھا۔

    اسٹیشن کے نزدیک پہنچ کر بڑھیا نے کہا، ’’ہم تو واپس اسٹیشن کو جا رہے ہیں بھائی!‘‘

    ’’ہاں ماں جی۔‘‘ تانگے والے نے حلیمی سے جواب دیا۔ منڈی کے اوپر سے ہوکر ہی جانا پڑےگا۔ پرسوز، میٹھی اور حلیمی سے بھری آواز۔۔۔! دوسرے تانگے والوں میں اور اس میں یہی ایک فرق تھا۔ وہ ان سب سے کہیں زیادہ مہذب تھا۔ کسی سے لڑتا جھگڑتا نہ تھا۔ عموماً سواریوں کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کے لیے تانگے والے بےطرح جھگڑا کرتے ہیں۔ وہ وہ مغلظات بکا کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لیکن اس کے منھ سے کبھی کسی نے گالی نہ سنی تھی۔ شہر کے بیشتر شرفا اس سے واقف ہو گئے تھے اور عام طو رپر اسی کے تانگے پر سواری کرتے تھے۔

    چپ چاپ وہ اپنی جگہ کھڑا رہتا۔ زیادہ کمانے کے لیے بھی کبھی اس نے تردد نہیں کیا۔ اس کے اور اس کے گھوڑے کے لیے جتنے پیسے کافی ہوتے اتنے ہی کماکر وہ بے فکر ہو جاتا۔ اس سے زیادہ محنت اس نے اپنے جانور سے کبھی نہ لی تھی۔ اس کا تانگہ بےحد نفیس تھا اور گھوڑا۔۔۔ وہ تو جیسے اس کا بیٹا تھا۔ خوبصورت اور سڈول۔ دیکھ کر آنکھوں کی بھوک مٹتی تھی اور بےساختہ اسے پچکارنے کو جی چاہتا تھا۔ اپنے ساتھی تانگے والوں سے پہلے ہی وہ اسے کھول دیتا اور محبت سے اسے دانہ کھلاتا تھا۔ گھوڑے کا نام اس نے رکھ چھوڑا تھا۔۔۔ سنتوش۔ دونوں میں کون زیادہ صبر سنتوش کی مورت تھا یہ کہنا مشکل ہے۔ جب دانہ کھلاکر وہ اس کی پیٹھ سہلاتا اور گردن تھپتھپاکر اس کا نام پکارتا تو گھوڑا ہنہناکر گردن اٹھاتا۔ گویا کہتاہو، ’میں بھی تم سے کم پیار نہیں کرتا۔‘

    دوسرے تانگے والوں نے بارہااس کے گھر بار کا پتہ پوچھنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس نے ہمیشہ انہیں ٹال دیا تھا۔ زیادہ اصرار کرنے کا موقع اس کی پرسوز آنکھوں نے انہیں کبھی دیا نہ تھا۔ منڈی کو پار کرکے تانگہ کمپنی باغ کو جانے والی سڑک پر بڑھا۔ اچانک تانگے والے نے پوچھا، ’’آپ کو تھانے میں جانا ہے ماں جی؟‘‘

    ’’نہیں بچہ۔ تھانے کے پاس ہی!‘‘

    ’’لیکن وہاں تو کوئی مکان نہیں ماں جی!‘‘

    ’’تم ٹھیک کہتے ہو بھائی۔‘‘ بڑھیا نے کہا، ’’لیکن میری بھتیجی بیمار ہے۔ اسے تپ دق ہو گیا ہے اور ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ اسے باہر کھلی ہوا میں رکھا جائے۔ اسی لیے میرے بھتیجے نے وہیں ایک عارضی جھونپڑی سی بنوالی ہے۔ خط میں اس نے یہی بات لکھی ہے۔ میں تو بچہ پہلی بار ہی جالندھر آئی ہوں۔ قلی نے تمہارے تانگے میں لاکر بٹھا دیا۔ اب ٹھیک جگہ پر اتار دینا بھائی۔‘‘

    ’’آپ بالکل فکر نہ کریں ماں جی!‘‘ تانگے والے نے کہا، ’’نہ ہوا، میں ڈھونڈ کر آپ کو پہنچادوں گا۔‘‘

    ’’جگ جگ جیو بیٹا۔‘‘ بڑھیا کھل چلی۔ ایک لمبی سانس لے کر اس نے کہا، ’’کیا کہوں بچہ۔ میں تو دیر سے تیرتھ یاترا کر رہی ہوں۔ اب میں ہردوار میں تھی جب مجھے چھوٹی بھتیجی کا خط ملا کہ سنتوش بیمار ہے۔‘‘

    ’’سنتوش!‘‘ تانگے والے نے چونک کر پوچھا۔

    ’’کیوں؟‘‘ بڑھیا بولی۔

    ’’کچھ نہیں!‘‘ سرد آہ بھرتے ہوئے تانگے والے نے کہا، ’’میرے گھوڑے کا نام بھی سنتوش ہے۔‘‘

    اس کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔ بڑھیا نے یہ نہیں دیکھا۔ وہ اپنی دھن میں باتیں کرتی گئی اور تانگے والے کے سامنے شاید اس کے گھوڑے کی تصویر کھنچتی گئی۔۔۔ جب وہ بیمار ہوکر سوکھ گیا ہے۔ صرف ہڈیوں کاپنجر رہ گیا ہے۔۔۔ اور بڑھیا کہہ رہی تھی، ’’کیا کہوں بھائی، چاند جیسی لڑکی ہے۔ ماں باپ اس کے لاہور میں رہتے تھے۔ وہیں ایک لڑکے کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ بعد ہی میرے بھائی اور بھاوج پر لوک باسی ہو گئے اور گھر میں صرف میرا بھتیجا اور چھوٹی بھتیجی رہ گئے۔ بعد کو وہ جالندھر نوکر ہو گیا تو چھوٹی بھتیجی بھی اپنے بھائی کے پاس یہیں آگئی۔ سنتوش کی شادی میں میں شامل نہ ہو سکی تھی۔ بہت بیمار تھی۔ تب نئی نئی چوٹ سہنی پڑی تھی۔۔۔ میرے پتی بھگوان کو پیارے ہو گئے تھے۔

    اور اپنے مرحوم خاوند کی وفات کا خیال آتے ہی بڑھیا کی آنکھیں بھر آئیں اور آواز بھی بھاری ہو گئی۔۔۔ دوپٹے سے آنکھیں پونچھ کر اس نے پھر کہنا شروع کیا، ’’تب سنا تھا کہ لڑکا خوبصورت ہے۔ لیکن شادی کے بعد بھی انہیں دیکھنے کا موقع مجھے نہ مل سکا۔ بیماری سے آرام پانے پر من ایسا اچاٹ ہواکہ میں تیرتھ یاترا کو چل پڑی۔ ہردوار میں تھی کہ جھے سنتوش کی بیماری کا خط ملا اور پھر تار۔۔۔ شاید بیمار ہوکر بھائی کے پاس آ گئی ہے۔ تبھی سب تیرتھ ویرتھ چھوڑکر بھاگی آئی ہوں۔ جانے اس کا کیا حال ہے۔۔۔ خط میں لکھا تھا بہت کمزور ہو گئی ہے۔ ہڈیوں کا پنجررہ گئی ہے۔۔۔ بھائی ذرا جلدی کر ونا۔‘‘ اور تانگے والے نے پھٹی ہوئی آستین سے آنکھوں کو پونچھتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیں اور ایک بار کہا، ’’چل بیٹا!‘‘

    آسمان پر بادل گھر آئے تھے۔ سورج مغرب کی طرف جا چکا تھا۔ چھاؤنی کی سڑک پر پھاٹک کے دائیں طرف ایک معمولی سا کچی اینٹوں کا مکان تھا۔ اس کے آگے ایک چھوٹا سا برآمدہ تھا۔ جس پر سرکنڈوں کا چھپر پڑا تھا۔ مکان کے ایک طرف کنواں تھا جو شاید شیر شاہ سوری کے زمانے کا بنا تھا اور بڑی سڑک پر لمبا سفر کرنے والوں کی پیاس بجھانے کے کام آتا تھا۔ کنوئیں پر کوئی گیارہ بارہ سال کی ایک لڑکی پانی بھر رہی تھی۔ سنسان سی جگہ اور شام کا اداس ماحول۔۔۔ اس چھوٹے سے مکان پر کچھ ایسی وحشت برس رہی تھی کہ تانگے والے نے خودبخود وہیں تانگہ روک لیا۔ لڑکی نے مڑ کر دیکھا اور دوڑ کر بڑھیا سے لپٹ گئی۔

    ’’آ گئیں بوا۔‘‘ اور بوا نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ تانگے والے نے سامان اٹھایا اور برآمدہ کی طرف چلا۔

    ’’سنتوش کہاں ہے؟‘‘ بڑھیا نے پوچھا۔

    ’’اندر!‘‘

    دونوں اندر گئیں۔ بڑھیا نے جیسے دوڑ کر اپنی بیمار بھتیجی کی پیشانی چوم لی۔ سنتوش نے پرنم، پرسوز نگاہوں سے پھوپھی کی طرف دیکھا اور پھوپھی نے ساڑی کے دامن سے اپنی آنکھیں ڈھانپ لیں۔

    زرد کالا پڑا چہرہ۔ پچکے گال۔ جبڑوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں۔ روکھے خشک بال۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ جسم۔۔۔ دق کی آگ میں جھلسی ہوئی سنتوش بستر پر پڑی تھی۔ ماضی کا جیسے سب کچھ جھلس گیا تھا۔ بچ گئی تھیں صرف آنکھیں۔۔۔ بڑی بڑی آنکھیں لیکن چمک ان کی جیسے ماند پڑچلی تھی۔ پھوپھی کا دل گویا اچھل پڑنے کو ہو گیا۔ ہڈی ایسے ہاتھ اٹھاکر سنتوش نے پھوپھی کو نمسکار کہنے کی کوشش کی لیکن ہاتھ کانپنے لگے۔ بولنا چاہا لیکن کھانسی کے مارے بے حال ہوگئی۔۔۔ تب دو بڑے بڑے آنسو اس کے سوکھے رخساروں کے گڑھوں میں ڈوب چلے۔ بڑھیا اس کے سرہانے بیٹھ گئی۔ بہتے ہوئے آنسوؤں کو اس نے پونچھ ڈالا اور تسلی کے لہجے میں بولی، ’’جی کیوں چھوٹا کرتی ہو۔ دیکھو، اب میں آ گئی ہوں۔ اب دنوں ہی میں تم اچھی ہو جاؤگی۔ بھلاہیم کہاں ہے۔ دوائی لینے گیا ہوگا؟‘‘

    ہیم کے نام پر مریضہ کے زرد چہرے پر ایک طنز بھری مسکراہٹ لحظہ بھر کے لیے آئی اور پھر بے کنار اداسی میں سما گئی۔ بڑھیا نے لڑکی سے پوچھا، ’’کیوں بملا ہیم کہاں ہے؟‘‘ بملا کے نتھنے پھڑکنے لگے، ’’وہی تو اس بیماری کا کارن ہے بوا۔‘‘

    ’’وہ، ہیم؟‘‘

    ’’ہاں وہی!‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘

    اور بملا کا غصہ کہنی ان کہنی بات کا خیال کیے بنا بمک اٹھا، ’’جیجا جی نے بہن کی قدر نہ کی بوا۔ فیشن کے دیوانے، وہ چاہتے تھے کہ اپنے زیادہ پڑھے دوستوں کی طرح وہ بھی بہن کا ہاتھ تھام کر ٹھنڈی سڑک پر گھومیں، لارنس کی سیر کریں۔ خود امیر نہ ہوکر چاہتے تھے امیروں کی نقل کرنا اور بہن کو تو تم جانتی ہو کیسی تعلیم ملی ہے۔ جیجا جی نے اسے نہ سمجھا۔ برے راستے پڑ گئے اور جب سب کچھ ختم ہو گیا تو ایک دن بہن کے گہنے اٹھاکر بھاگ گئے۔ سنتوش نے جیسے ناقابل برداشت تکلیف سے بے چین ہوکر تھوک نگلا۔ اس گفتگو کو سن کر جانے اس کو کتنی روحانی تکلیف ہو رہی تھی؟ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بوا نے آہستہ سے پکارا، ’’سنتوش! ‘‘ اور ایسی آنکھوں سے دیکھا گویا پوچھ رہی ہو کہ یہ سب سچ ہے کیا؟ سنتوش کی آنکھوں سے صرف آنسو بہنے لگے۔

    ’’تم ابھی یہیں بیٹھے ہو!‘‘ بڑھیا نے باہر آکر کہا۔ تانگے والا چپ رہا۔

    ’’کیا کہوں بھائی، لڑکی کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ میں تو اس کی تکلیف دیکھ کر سب کچھ بھول گئی ہوں۔ دوہی سال کی تو بات ہے۔ وہ چنگی بھلی تھی لیکن آج تو وہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی ہے بھائی۔‘‘ تانگے والے کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔ اس نے اسے چھپانے کے لیے منہ پھیر لیا۔

    ’’تم روتے ہو بھائی۔‘‘ بوانے بھرے گلے سے کہا، ’’جو بھی اسے دیکھےگا، دکھی ہوئے بغیر نہ رہے گا۔‘‘ تانگے والا خاموش رہا۔ اس نے صرف اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔

    ’’اچھا بھائی۔‘‘ پیسوں کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بوا نے کہا، ’’تمہیں دیر ہو رہی ہے۔ اب تم جاؤ۔‘‘ مغرب کی طرف سے بڑھتے ہوئے اندھیرے کو ایک نظر دیکھتے ہوئے تانگے والے نے کہا، ’’اب میں کہاں جاؤں گا مائی۔ یہیں نہ لیٹ رہوں۔ شاید بازار سے کوئی چیز ہی لانی پڑے۔‘‘ قدرے شک کے لہجے میں بڑھیا نے کہا، ’’نہیں بھائی اپنے گھر جاؤ۔ یہاں کہاں رہوگے۔ کوئی جگہ بھی ہو۔‘‘ اور یہ کہہ کر بوا نے آٹھ آنے کے پیسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ تانگے والا اٹھا، ’’اچھا تو مائی میں صبح آجاؤں گا۔ یہ جگہ شہر سے اتنی دور ہے اور پھر بیمار کی حالت ٹھیک نہیں اور شاید کوئی کوئی چیز ہی لانی پڑے۔۔۔‘‘

    اندر سے کھانسنے کی آواز آئی۔ پیسے دےکر بڑھیا اندر چلی گئی۔ شام کی تاریکی اور بھی گہری ہو گئی تھی۔ دور کہیں کہیں کوئی چراغ مرنے والے کی موہوم امید کی طرح جھلملا اٹھا تھا۔ تانگے والا اٹھا۔ بادل ناخواستہ اس نے تانگے کی بتیاں جلائیں اور پھر اسے شہر کی طرف موڑ لیا۔ اڈے کے پاس ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی اسی میں وہ رہتا تھا۔ اس رات وہ سو نہیں سکا۔ مریضہ کی مرجھائی، پھیکی، درد بھری آنکھیں ساری رات اس کے سامنے گھومتی رہیں۔ دوسرے دن سنتوش کی حالت پہلے سے بھی خراب ہو گئی۔ بملا دن بھر روتی رہی۔ بوا بھی جی کو سنبھالے اس کی تیمارداری کرتی رہی۔ سنتوش کابھائی نریندر اتنی چھٹیاں لے چکا تھا کہ اب اور چھٹی اسے ملنی مشکل تھی۔ وہ دوائی وغیرہ کا انتظام کرکے صبح ہی دفتر چلا گیا تھا۔ اس کے جاتے ہی تانگے والا وہاں پہنچ گیا۔ سارا دن اس سے جتنی ہو سکی، اس نے ان کی مدد کی۔ دوبار تپتی دھوپ میں اسے شہر جانا پڑا۔ اپنے عزیز جانور کو بھی اس نے ضرورت سے زیادہ تکلیف دی۔ اسے دانا دینا تک وہ بھول گیا۔

    دوپہر کے وقت سنتوش کے لیے وہ دوائی تیار کر رہا تھا۔ بوا اور بملا کنویں پر پانی لینے گئی تھیں کہ مریضہ کو زور کی کھانسی آئی۔ وہ ہڑبڑا کر اندر پہنچا۔ سنتوش کو خون آیا تھا۔ اس نے اسے پانی دیا۔ سنتوش نے آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا سامنے سانگے والا کھڑا ہے اور اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔ وہ آنکھیں بند نہ کر سکی۔ حیران سی اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ بھرے ہوئے گلے سے تانگے والے نے پوچھا، ’’اب جی کیسا ہے؟‘‘ مریضہ نے جواب نہیں دیا۔ صرف اس کی طرف دیکھتی رہی۔ تانگے والے نے کہا، ’’توشی اپنے ظالم خاوند کو معاف کر دو۔ لاکھ پاپی ہو پھر بھی تمہارا پتی ہے۔‘‘

    سنتوش نے آنکھیں بند کر لیں۔ جیسے اس ایک فقرے نے اس کی سب تکلیف، ساری بےچینی دور کر دی ہو۔ اس نے سر ہلایا جیسے اس شانتی دینے والے کی، اس کے دل میں بےچینی کی جو آگ جلا کرتی تھی، اسے پہچان لینے والے کی بات وہ سمجھتی ہے۔ اس نے ایک لمبی سانس لی۔ جیسے اس کے دل کا بوجھ اتر گیا ہو اور اس نے اپنے خاوند کو معاف کر دیا ہو۔ تانگے والا چپ چاپ برآمدہ میں واپس آ گیا۔ اپنی آنکھوں کے آنسو اس نے پونچھ لیے اور وہ دوائی رگڑنے لگا۔ تبھی بملا آ گئی۔ پانی رکھ کر اور ہاتھ پونچھ کر اس نے بہن کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ بخار کا نام تک نہ تھا۔ مریضہ کے چہرے پر سکون اور طمانیت برس رہی تھی۔ وہ بھاگ کر باہر آئی۔ پھوپھی کو پکار کر اس نے کہا، ’’بوا بہن کا بخار اتر گیا۔‘‘

    بوا کا چہرہ لٹک گیا۔۔۔ تو بس انت سمجھو اور جیسے من من کے پاؤں لے کر وہ کمرے کے اندر گئی۔ سنتوش کو اس نے آواز دی، ’’بیٹی!‘‘

    ’’ہاں بوا!‘‘ نہایت ہی نحیف آواز میں سنتوش نے جواب دیا۔ بولنے کی طاقت جیسے اس میں آ گئی تھی۔

    ’’کیسا جی ہے بیٹی؟‘‘

    ’’بس اب انت آ گیا ہے بوا!‘‘

    ’’نہیں ایسا نہ کہو۔‘‘ بوا نے جیسے اس کی بہ نسبت اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ لیکن ساتھ ہی اس نے اس کی کچھ مڑتی ہوئی ناک کو خوف سے دیکھا۔ بملا کا ہاتھ سنتوش نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ میں لے لیا اور اس پر اپنا لکڑی جیسا ہاتھ پھیرا۔۔۔ بملا کے سارے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ اکھڑی اکھڑی آواز میں سانس لے لے کر سنتوش نے کہا، ’’تم سکھی رہو بہن۔ تمہاری شادی اچھی جگہ ہو، تمہیں اچھا ور ملے۔ یہی میری آخری خواہش ہے۔‘‘ پھر کچھ سانس لے کر اس نے کہا، ’’میں سکھی ہوں۔ مجھے کوئی چنتا نہیں، مجھے اب آرام آ گیا ہے اور میں آرام سے مر رہی ہوں۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کے ہاتھ بھی مڑ گئے۔ سانس اکھڑ گئی۔ دونوں نے اسے جلدی سے اٹھا کر نیچے فرش پر لٹا دیا۔

    بوا نے کہا، ’’چلو بھائی، تم بھی چلو اب!‘‘ تانگے والے نے کوئی جواب نہ دیا۔

    ’’تمہارا شکریہ میں کس منہ سے ادا کروں بھائی۔‘‘ بوا نے کہا، ’’تم نہ ہوتے تو جانے ہمیں کتنی تکلیف ہوتی۔ تمہاری وجہ سے سنتوش بھی آرام سے مری۔ تم نے اس کی بڑی سیوا کی۔ پرماتما تمھیں اس کا پھل دےگا۔‘‘ تانگے والے نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس دن دفتر سے نریندر کے آنے پر سنتوش کے جسم کو آگ کے سپرد کر دیا گیا تھا اور سب واپس شہر جانے کو تیار ہوئے تھے۔ رو رو کر بملا کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ اس کے چہرے پر کچھ جنون سا برس رہا تھا۔ ایک درخت کے سایے میں تانگے والے کا گھوڑا بھوکا پیاسا کھڑا تھا۔ تین دنوں سے اس نے گھوڑے کی سدھ نہ لی تھی۔ بیمار سنتوش کے لیے اس نے اس تندرست سنتوش کو بیمار کر دیا تھا۔ بوانے کہا، ’’اپنے گھر نہ چلو گے؟‘‘ تانگے والے نے کوئی جواب نہ دیا۔

    بوا نے پھر پوچھا، ’’اپنے گھر نہ چلو گے بھائی؟‘‘ اب تانگے والا بولا، ’’نہیں!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میں نے اپنی زندگی یہیں گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘

    ’’کیوں بیٹا؟‘‘

    ’’اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے۔‘‘

    ’’گناہ!‘‘

    ’’جو میں نے سنتوش کے ساتھ ظلم روا رکھنے میں کیے۔‘‘

    ’’سنتوش کے ساتھ؟‘‘

    نریندر تانگے والے کے نزدیک آ گیا۔ اس نے اسے اچھی طرح دیکھا اور چونک کر بولا، ’’کون، ہیم راج!‘‘ تانگے والے نے صرف آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔ نریندر نے نفرت سے منہ پھیر لیا اور ذرا کرختگی سے بوا اور بملا کو آواز دی۔ ہیم نے ایک سرد آہ بھری اور اپنے گھوڑے کے پاس جاکر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے