میں چھانہ پورہ کے جس محلے میں رہتا تھا، وہ بھائی چارے کی ایک عمدہ مثال تھا۔ یہاں دس فیصد ہندوں کے ساتھ نوے فیصد مسلمان شیر و شکر کی طرح رہ رہے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی حلیمہ آپا کا گھر تھا۔ حلیمہ آپا یعنی نور چاچا کی بیوی۔ حلیمہ آپا عمر کے ساٹھ پڑاو پار کر چکی تھی مگر مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ہر ایک کے لئے حلیمہ آپا تھی۔ وہ چاہے دس برس کا چھورا ہو یا اسی برس کا بزرگ۔ ہر کوئی اسے حلیمہ آپا کے نام سے ہی بلایا کرتا تھا۔ سلیمہ آپا کا ایک بھرا پرا پریوار تھا۔ ان کے چھ بچے تھے جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑا امجد تھا جو کہ باپ کے کام میں ہاتھ بٹاتا تھا۔ نور چاچا کی مائسیمہ کے ککر بازار میں منیاری کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جسے باپ بیٹا مل کر چلا رہے تھے۔ امجد کے بعد اسلم تھا جو میرا ہم عمر تھا اور میرے ساتھ ہی سکول میں پڑھتا تھا۔ چونکہ ہم دونوں لنگوٹیا یار تھے اسلئے ہمارا ایک دوسرے کے گھر میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ حلیمہ آپا بڑی ہی حلیم اور خوش مزاج عورت تھی۔ وہ مجھ میں اور اپنے بچوں میں کوئی امتیاز نہیں برتتی تھی۔ اُسکے ہاتھوں میں جادو تھا۔ وہ جو کچھ بھی پکاتی تھی وہ اتنا لذیذ ہوتا تھا کہ کھانے والے انگلیاں چاٹ کے رہ جاتے تھے۔ مجھے کھانے کی یہی للک بار بار ان کے گھرتک لے جایا کرتی تھی ۔ اسلم میری کمزوری سے واقف تھا اس لئے جس دن وہ گوشت پکاتے تھے، اسلم مجھے کسی نہ کسی بہانے اپنے گھرپر بلاتا تھا اور پھر مجھے حلیمہ آپا کے ہاتھوں بنے ہوئے گوشتابہ، یا روغن جوش کھانے کا موقع ملتا تھا۔ یوں توہمارے گھر میں روز گوشت پکتا تھا۔ ہمارے معاشی حالات اسلم کے گھر کے حالات سے کہیں بہتر تھے۔ میرے والد ایک اونچے سرکاری عہدے پر فائض تھے۔ ان کی بالائی آمدنی، ان کی محنت کی کمائی سے کہیں زیادہ ہوا کرتی تھی اس لئے ہمارے گھر میں ہر روز گوشت پکنا ایک معمولسا بن گیا تھا مگر جو مزہ حلیمہ آپا کے ہاتھوں پکے ہوئے گوشت کا ہوتا تھا وہ مزہ میرے گھر کے پکے ہوئے گوشت میں کہاں۔
حلیمہ آپا بہت ہی وضع داراور سلیقہ مند خاتون تھی۔ اپنی خوش خلقی اور شرافت سے اس نے لوگوں کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ جو اس سے ایک بار ملتا تھا وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ میرے لئے تو وہ ایک چنار کے پیڑ کی طرح تھی جسکے چھتنار سایے میں سبھی سکون و فرحت پاتے ہیں۔ اس کے ہاتھ ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ متوسط گھرانہ ہو کر بھی اُس گھر سے کوئی خالی نہیں جاتا تھا۔ درپر جو بھی سوالی آکے کھڑا ہو جاتا تھا حلیمہ آپا اس کی جھولی بھر دیتی تھی۔ بار بار اسے شوہر کی ڈانٹ کھانی پڑتی تھی کہ وہ اپنا گھر خالی کرکے دوسروں کے گھر بھر رہی ہے۔ پروہ اپنی خو بو بدلنے والی کہاں تھی۔ وہ وہی کرتی تھی جو اس کا دل کہتا تھا۔ دراصل اس نے ایسا دردمند دل پایا تھا جو اپنے لئے ہی نہیں دوسروں کے لئے بھی تڑپتا تھا۔ کسی کی بھوک اس سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ وہ اگر کسی کو اداس یا دکھی پاتی تھی توہفتوں غمگین اور پریشان رہتی تھی۔ ایسی تھی وہ۔
اسلم میرا بہت پیارا دوست تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے بنا ایک پل بھی رہ نہیں پاتے تھے۔ یوں کہئے کہ ہم ایک جان اور دو قالب تھے۔ جو ہمیں نہیں جانتے تھے وہ یہی سمجھتے تھے کہ ہم دونوں سگے بھائی ہیں۔ رات کے دس بار ہ گھنٹے ہی ہم ایک دوسرے سے الگ ہوتے تھے۔ باقی کے بارہ گھنٹے تو ہم ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ ہماری عادتیں اور خصلتیں بھی کسی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی تھیں۔ بس اسلم میں اور مجھ میں فرق صرف اتنا تھا کہ میں جتنا شانت سبھاو کا تھا، وہ اتنا ہی گرم مزاج کا تھا۔ اس میں تحمل کا یارا نہ تھا۔ زرا سی بات اس سے اٹھائی نہیں جاتی تھی۔ اسکول کے لڑکے اُس کے جھگڑالوپن کی وجہ سے بچ کے ہی رہتے تھے۔ وہ زرا زرا سی بات پر مرنے مارنے پر اتاولا ہو جاتا تھا۔ اس کے اسی جھگڑالو سبھاو کی وجہ سے کوئی اسے منہ نہیں لگاتا تھا۔ میں اُسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا مگر وہ کہاں سدھرنے والا تھا۔ وہ تو کتے کی وہ دم تھا جسے بارہ برس نلکی میں رکھا پھر بھی ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہی۔
میٹرک تک تو ہم ساتھ ساتھ تھے۔ میٹرک پاس کرنے کے فوراََ بعد جب ہم کالج میں داخلہ لینے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ کشمیر میں شورش کا آغا ز ہوا۔ ہمیں بدلتے حالات کے پیش نظرسب کچھ چھوڑ چھاڑ کے جانا پڑا۔ وجہ یہ تھی کہ کشمیر میں ایک خونیں جنگ کی شروعات ہو چکی تھی۔ جس وادی میں پٹاخوں کی آواز بھی خال خال ہی سنائی دیتی تھی اسی وادی میں بم اور بارود کا ایسا خونی کھیل چلا کہ اقلیتی فرقے کے لوگ دہشت ذدہ ہوکے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ میں اپنے گھر اور اپنے دوستوں کو چھوڑ کے جانا نہیں چاہتا تھا مگر حالات اس حد تک بدتر ہو چکے تھے کہ موت آٹھوں پہر سر پر منڈھلاتی ہوئی نظر آتی تھی۔ نہ چاہ کر بھی مجھے اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے گھر کو الوداع کہنا پڑا۔ وہ بچھڑنے کا منظر میں جب بھی یاد کرتا ہوں تو شدت غم سے میرا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ حلیمہ آپا ہمارے دروازے پر کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگی تھی۔ اس نے لپک کر میری ماں کو اپنے گلے سے لگایا اور پھر دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ پتا جی غم و الم کی مورت بنے دور کھڑے تھے۔ وہ جیسے گنگ ہو چکے تھے۔ وہ زبان سے کچھ بول نہیں پا رہے تھے مگر اُنکی آنکھوں میں درد کا جو ساگر موجیں مار رہا تھا وہ اس بات کا غماز تھا کہ وہ اندر سے کتنے دکھیہیں۔ حلیمہ آپا نے سسکیاں بھرتے ہوئے میری ماں سے کہا۔
”سرلا بھابی میں تم سے یہ نہیں کہوں گی کہ مت جاو کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آج جس طرح کا ماحول بن چکا ہے اس میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہم تو اس جگہ کو چھوڑ کے بھی نہیں جا سکتے کیونکہ ہم روٹی روزی کے پیچ میں اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ یہاں سے نکلنے کا ہم کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بس جاتے جاتے میں تم سے صرف اتنی سیمنت کرتی ہوں کہ جب کبھی حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو اپنے گھر کو بھولنا مت۔ لوٹ کے آجانا ضرور۔ اپنے لئے نہ سہی ہمارے لئے ہی سہی پرلوٹ کے آنا ضرور“
یہ تھی حلیمہ آپا سے ہماری آخری ملاقات۔ میں اسلم سے مل نہ سکا کیونکہ وہ میرے جانے کی خبر سے اتنا دکھی تھا کہ اس نے اپنے آپ کو ایک کمرے میں قید کرکے رکھا تھا۔ میں اس سے ملنے گیا مگر اس نے دروازہ نہیں کھولا۔ جب ہم ایک سومو میں سوار ہو رہے تھے تو میری آنکھوں سے ساون بھادوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ میں نے جب الوداعی نگاہوں سے حلیمہ آپا کے گھر کی طرف دیکھا تبھی میری نظر اسلم پر پڑی جو کہ کھڑکی کی اوٹ میں کھڑا پھپھک پھپھک کے رو رہا تھا۔ مجھ سے اس کے آنسو دیکھے نہ گئے۔ میں نے سومو سے کودنے کی کوشش کی مگر پتا جی نے مجھے روک لیا اور مجھے ڈانٹ کر سیٹ پر بٹھا دیا۔
گھر چھوٹ گیا۔ دوست احباب چھوٹ گئے۔ وہ گلیاں اور وہ کوچے چھوٹ گئے جن میں کھیل کر میں جوان ہوا تھا۔ ہم گلستان سے نکل کر نخلستان میں پہونچ گئے۔ ہمارا قافلہ ایک ایسے شہر میں جاکے رکا جہاں سب کچھ تھا مگر اپنا پن نہیں تھا۔ جہاں مائیں تو بے شمار تھیں مگر حلیمہ آپا جیسی کوئی ماں نہیں تھی۔ دوست تو بہت سارے تھے مگر اسلم جیسا کوئی جان چھڑکنے والا دوست نہ تھا۔ یہاں گھٹن نہیں تھی۔ یہاں آزادی تھی مگر دل کا سکون نہیں تھا۔ یہاں کاروبار تو تھا مگر پیار نہیں تھا۔ یہاں کھلا پن تھا مگر اپنا پن نہیں تھا۔ یہ شہر تھا جموں جو کہ اسی ریاست کا ایک حصہ ہے۔ ہم اسی شہر میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ ہم دو کمرے کے ایک کرایے کے مکان میں کھپنے کی کوشش کرنے لگے۔ شاہانہ عادتیں قصہ پارنیہ بن چکی تھیں۔ سب کچھ پیچھے چھوٹ گیا تھا اس لئے یہاں روٹی کے لالے پڑے تھے۔ جو کچھ بھی سرکار کی طرف سے ریلیف میں مل رہا رتھا اسی سے زندگی کی گاڑی کو چلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
میں نے یہیں کے ایک کالج میں داخلہ لیا۔ دن میں میں کالج میں پڑھائی کرتا تھا، رات کو ایک ہوٹل میں پارٹ ٹائم کام کرتا تھا۔ میں اپنے پتا کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ میرے پتاجی بڑے ہی حوصلہ مند انسان تھے۔ وہ کبھی حالات کے سامنے پست نہیں ہوئے۔ میں نے زندگی میں کبھی انہیں آنسو بہاتے نہیں دیکھا۔ جب دادا جی کا سورگباش ہوا تب بھی وہ نہیں روئے۔ لیکن اسی پتا کو میں نے تب روتے دیکھا جب مالک مکان نے انہیں بری طرح سے سب کے سامنے ڈانٹ لیا تھا۔ ان سے یہ خطا ہوئی تھی کہ انہوں نے دیوار میں کیل ٹھونک کر بھگوان کرشن کی تصویر ٹانگ دی تھی۔ ماں نے جب انہیں آنسو بہاتے دیکھا تو ان کا کلیجہ چھلنی ہوا۔ وہ پتاجی کو تسلی دیتے ہوئے بولی۔
”ان لوگوں کی باتوں کا کیا برا ماننا۔ آج ہم پر برا وقت آن پڑا ہے۔ کہتے ہیں جب مصیبت آتی ہے تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ہمیں اس برے وقت کا جی داری کے ساتھ سامنا کرنا چاہے۔ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ کہتے ہیں کہ بارہ برس کے بعد گورے کے دن بھی پھر جاتے ہیں۔ کبھی نہ کبھی ہمارے دن بھی پھر جائیں گے۔“ پتا جی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
”سچ کہوں سرلا۔ ہم نے اپنا گھر چھوڑکے اچھا نہیں کیا۔ تمہیں یاد ہے سنجے نے کرکٹ کی بال سے نور محمد کے کتنے سارے کھڑکیوں کے کانچ توڑ دئے تھے۔ حلیمہ یا نور محمد نے کبھی تم سے کوئی شکایت کی؟ وہ اپنا پن اور بھائی چارہ اب ہمیں کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ ہم بھلے ہی ان لوگوں کو کوسیں کہ انہوں نے ہماری کوئی مدد نہیں کی مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم ان کے بنا ادھورے اور نامکمل ہیں۔ کہتے ہیں کہ اپنا مارے گا تو چھاوں میں ہی ڈالےگا۔ وہ اگر ہمیں مارتے بھی نا تو بھی پانی پلا کر مارتے۔ اس طرح ہمیں زلیل وخوارنہ کرتے۔ اس طرح ہماری مجبوری کا فائدہ نہ اٹھاتے۔“
ماں چپ تھی۔ پتا جی اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے جارہے تھے اور ماں یادوں کی سنگینوں سے لہو لہان ہوتی جارہی تھی۔ میں غم کی مورت بنے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔ میرے دل و دماغ میں بس ایک آندھی چل رہی تھی۔ میں ایک ساتھ سینکڑوں سوالات سے نبرد آزما ہو رہا تھا۔ کیا میرے ماتا پتا اسی طرح غیروں کی ڈانٹ پھٹکار سنتے رہیں گے؟ کیا وہ اسی طرح مجبور اور مظلوم بن کر جئیں گے؟ مجھے انہیں اس منجدھار سے نکالنا ہوگا۔ میں نے رات دن محنت کرکے اسی شہر میں اپنی گریجویشن پوری کی اور اس کے بعد میں نے جرنلزم کا کورس کیا۔ یہاں نوکری پانے کے چانس بہت کم تھے اس لئے میں گھر والوں کو جموں میں چھوڑ کر دلی چلا گیا۔ یہاں ایک رشتہ دار کی وساطت سے میں ٹیلی ویژن میڈیا کے ساتھ جڑ گیا۔ تقدیر سے مجھے اسی میڈیاہاوس میں رپوٹر کی نوکری مل گئی۔ نوکری کیا ملی ایسا لگا جیسے سوکھے دانوں
پانی پڑا۔ ایک اچھی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ آٹھ دس برس کیسے گزر گئے پتا ہی نہیں چلا۔ اس دوراں اسلم سے میرا کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔ یہ بات نہیں ہے کہ میں نے حلیمہ آپا یا اسلم کو یاد نہیں کیا۔ ایسا شاید کوئی پل ہی رہاہوگا جب میں نے ان کو یاد نہیں کیا۔ رات کو جب میں سونے کی کوشش کرتا تو مجھے میرا گھر یاد آتا تھا۔ گھر کی یاد آتے ہی سب سے پہلے حلیمہ آپا یاد آتی تھی۔ اُسکے ہاتھ کی بنی ہوئی ضیافتیں یاد آتی تھیں۔ اس کی باتیں یاد آتی تھیں۔ بتاشے میں گھلی ہوئی اس کی میٹھی میٹھی باتیں۔ اسلم کی شرارتیں یاد آتی تھیں۔ وہ حسین پل اور وہ خوشگوار لمحے یاد آتے تھے جو ہم نے ساتھ گزارے تھے۔ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر آ گئے تھے۔ بس اپنے ساتھ یادوں کی یہ پوٹلی لے کر آئے تھے جسے کھول کے ہم اپنے دل رنجور کو بہلاتے رہتے تھے۔
ایک دن مجھے سری نگرجاکر ایک نیوز کوریج کرنے کا حکم ملا۔ سری نگر کا نام سنتے ہی میرے روئیں روئیں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ایسا لگا جیسے مجھے جنت کی بشارت مل گئی ہو۔ یہ سوچ کر میں پھولے نہیں سما رہا تھا کہ میں سری نگر پہونچ کر اسلم سے ملوں گا۔ وہ اپنے شکوے شکایتوں کے دفتر کھول کے رکھےگا اور میں اس سے اپنے گلے شکوے بیان کروں گا۔ سر ی نگر ائیرپورٹ پہونچتے ہی میں ٹیکسی لے کر سیدھے چھانہ پورہ پہونچ گیا۔ جب میں اپنے گھر کے سامنے رکا تو میں اپنا کلیجہ مسوسکر رہ گیا۔ گھر کیا تھا ایک کھنڈر نما محل جسکی دیواریں تو سلامت تھیں مگر کھڑکیاں اور دروازے غائب تھے۔ مجھ میں اندر جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ میں نے سوچا کہ نور چاچا کے ہوتے ہوئے اس گھر کی ایسی حالت کیسے ہو گئی۔ میں نے اپنے گھر سے نظریں ہٹاکر حلیمہ آپا کے گھر کی طرف دیکھا۔ وہ تو جوں کا توں کھڑا تھا۔ میں کلیجہ تھامکر آگے بڑھا اور ہولے ہولے دروازہ تھپتھپانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ایک عمر رسیدہ آدمی نے دروازہ کھولا۔ میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
”حلیمہ چاچی گھر میں ہیں؟“
وہ شخص پہلے مجھے کریدنے والی نگاہوں سے گھورنے لگا اور پھر اس نے عجیب سے منہ بنا کر کہا۔
”کہاں سے آئے ہو بیٹے؟“
”دلی سے۔ اُن سے کہہ دو شمبھو ناتھ جی کا فرزند سنجے ملنے آیا ہے۔“
وہ دوڑ کر اندر چلا گیا۔ چند لمحوں کے اندر گھر میں جیسے کھلبلی مچ گئی۔ گھر کے بیشتر افراد دوڑتے ہوئے باہر چلے آئے اور پھر مجھ سے دیوانہ وار لپٹ کر رونے لگے۔ میں بھی جذبات کے ریلے میں بہہ چلا تھا۔ میری آنکھوں سے بھی آنسوں کی جھڑی لگ گئی تھی۔ وہ مجھے اندر لے گئے۔ اندر کا نظارہ دیکھ کر میرا دل دھک سے رہگیا۔ ایک کونے میں حلیمہ آپا پڑی تھی۔ وہ تو کھاٹ سے لگ چکی تھی۔ امجد مجھے اس کے پاس لے گیا اور اسے بٹھاتے ہوئے بڑی بے تابی سے بولا۔
”امی اپنا بنٹو تجھ سے ملنے آ گیا ہے۔“
اس کے بے جان جسم میں جیسے جان آ گئی اور پھر اس نے دونوں ہاتھ بڑھا کر میری چہرے کو ٹٹولا اور پھر مجھے سینے سے لگا کر وہ زار زار رونے لگی۔ بہت دیر تک یہرونا دھونا چلتا رہا۔ جب ہمارے آنسو کچھ پچھ گئے تو میری آنکھیں بڑی بے چینی سے اسلم کو تلاش کر نے لگیں مگر وہ مجھے کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے امجد سے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔
”اسلم دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ وہ کہیں چلا گیا ہے کیا؟“
امجد نے ایک ٹھنڈہ آہ بھری اور اس کے بعد وہ مجھے باہر لے جاکر مجھ سے گویا ہوا، ”سنجے اس گھر پر بڑی بپتا پڑی ہے۔ تم تو جانتے ہو کہ اسلم میں بچپن سے ہی ایک آگ بھری ہوئی تھی۔ بات بات پر وہ ابل پڑتا تھا۔ اُس میں تحمل کا یارا نہ تھا۔ اس کی اس گرم مزاجی کا کچھ لوگوں نے خوب استمال کیا۔ جب بھی یہاں کوئی مظاہرہ ہوتا تھا وہ سب سے پیش پیش رہتا تھا۔ امی نے ابا نے اسے بہترا سمجھایا کہ ان جھمیلوں سے دور رہ۔ کبھی بھی آفت میں پڑ جاؤگے مگر وہ کہاں کسی کی سننے والا تھا۔ وہ تو ہمیشہ بھرا ہوا رہتا تھا۔ کبھی توڑ پھوڑ کرنے والوں کے پیش پیش رہتا تھا تو کبھی سنگ بازوں کے آگے۔ حفاظتی دستے اُسکی جان کے درپے ہو گئے۔ ایک رات چار آدمیوں نے گھر پر دھاوا بول دیاجن کے منہ پر ٹھاٹھے بندھے ہوئے تھے۔ وہ اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم نے سوچا کہ وہ ٹاسک فورس والے تھے اسلئے ہم اگلے روز پولیس تھانے میں اُسے چھڑانے چلے گئے مگر اُنہوں نے ہمیں یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا کہ وہ ان کی حراست میں نہیں ہے جاکر آرمی والوں سے پوچھو۔ ہم پاس کی چوکی میں فوجیوں سے ملنے گئے تو انہوں نے ہمیں علاقے کے پولیس تھانے میں جانے کے لئے کہا۔ اسلم نہ پولیس کی حراست میں تھا اور نہ فوج کی تحویل میں۔ آخر وہ کہاں تھا۔ اسے زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا۔ ہم یہاں سے وہاں دھکے کھاتے پھر رہے تھے مگرہمیں اسلم کا کہیں سے کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ اُسکے اس طرح لاپتہ ہونے سے امی نے کھا نا پینا چھوڑ دیا تھا۔ وہ بس اُسکی تصویر ہاتھوں میں لئے گلی گلی گھوم رہی تھی۔ کبھی وہ پولیس چوکیوں کے طواف کرتی ہوئی نظر آتی تھی تو کبھی وہ
لال چوک میں ان غم ذدگان کے ساتھ نوحہ کرتی ہوئی نظر آتی تھی جن کے رشتہ دار لاپتہ تھے۔ وہ ہر آنے جانے والے سے بس ایک ہی سوال پوچھتی تھی میرا لال کہاں ہے؟کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا تھا۔
جب ایک سال بیت گیا اور ہمیں کہیں سے اسلم کی بو باس نہ ملی تو ہم سب اپنے کلیجے پر پتھر رکھ کر اسے بھولنے کی کوشش کرنے لگے، مگر یہ نہ بھول پائی۔ یہ بلا اپنے لخت جگر کو کیسے بھول سکتی تھی۔ وہ تو اُسکے وجود کا ایک حصہ تھا۔ وہ اُسکے شریر کی ایک کونپل تھا۔ ایک ماں کے لئے اپنی اولاد کا بھولنا اتنا آسان نہ تھا۔ وہ آٹھوں پہر اس کی یاد میں آنسو بہاتی رہتی تھی۔ مسلسل رونے سے اس کی آنکھیں کمزور ہونے لگیں۔ ایک دن ایسا بھی آیا جب اس کی بینائی جواب دے گئی۔ اس کی زندگی میں تو اندھیرا پہلے سے ہی چھایا ہوا تھا، اب آنکھیں چلے جانے سے اس اندھیرے میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ اب پچھلے ایک سال سے وہ صاحب فراش ہے۔ بس اسی بستر پر پڑی رہتی ہے۔ ہاتھوں میں اسلم کی تصویر لئے۔ بس اسی تصویر کو آٹھوں پہر سینے سے لگائے رہتی ہے۔ ہم نے تو اسلم کے لوٹ آنے کی آس چھوڑ دی ہے۔ امی ہے کہ اب بھی اسی امید میں جی رہی ہے کہ ایک دن اس کا اسلم لوٹ کے آئےگا۔ ہم اس سے یہ بھی نہیں کہہ پاتے ہیں کہ وہ اب کبھی لوٹ کر نہیں آئےگا کیونکہ ڈاکٹر نے ہمیں تنبہکی ہے کہ ہم اس کی آس امید کو توڑیں نا۔ اسے یونہی بنے رہنے دیں، نہیں تو یہ اُسی وقت دم توڑ دے گی جس پل اسے پتا چلےگا کہ اسلم اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اب تم ہی بتاو ہم کیا کریں۔ کہاں سے اس کے اسلم کو ڈھونڈ کر لے آئیں؟۔“ اسکے بعد امجد رو پڑا۔
ماحول میں رقت طاری تھی۔ گھر، گھر نہیں لگ رہا تھا، ایک قبرستان لگ رہا تھا۔ ایکدم موت کا سا سناٹا۔ میں غم و الم کے اس ماحول سے نکل جانا چاہتا تھا۔ مجھ سے حلیمہ آپا کا درد دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے اسے ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں اس حلیمہ آپا کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا جو کہ ایک زندہ لاش کی طرح بستر پر پڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں درد کا اتھاہ ساگر چھپا تھا۔ میں نے امجد سے وعدہ کیا کہ میں حلیمہ آپا کو اس طرح مرنے نہیں دوں گا۔ میں اس کی امیدوں کو دم توڑنے نہیں دوں گا۔ میں اُسکے اسلم کو ڈھونڈ نے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ آخر میری میڈیا کی دھونس آج کام نہیں آئےگی تو پھر کب آئےگی۔ میں امجد سے رخصت لے کے بوجھل قدموں کے ساتھ نکل گیا۔
میں نے اسلم کو تلاش کرنے میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ میں فوج کے اعلی کمانڈروں سے ملا۔ ان سے کوئی سراغ پانے کا میں نے ہر ممکن نسخہ آزمایا مگر کوئی کامیابی نہیں ملی۔ میں پولیس کے کئی افسروں سے ملا۔ یہاں بھی نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔ جب میں ہر طرف سے مایوس ہوا تو میں امجدسے ککر بازار کی دکان پر ملا۔ میں نے امجد کو ایک سجھاو پیش کیا۔ میں نے امجد سے کہا کہ حلیمہ آپا بینائی سے محروم ہو چکی ہے۔ اگر ہم کسی اور کو اسلم بناکے پیش کریں تو حلیمہ آپا اسے پہچان نہیں پائےگی۔ وہ اسے ہی اسلم سمجھ کر جی اُٹھےگی اور اس طرح اس کی زندگی بچ جائے گی۔ امجد تھوڑی دیر کے لئے سوچ میں پڑ گیا پھر اس نے مجھسے پوچھا کہ ایسا آدمی ملےگا کہاں سے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ میرے یونٹ میں ایک لڑکا ہے جو کہ یہیں کا ہے۔ اس لڑکے کی شکل کسی حد تک اسلم سے ملتی جلتی ہے امجد نے اس پلان کو ہری جھنڈی دکھائی اور میں اسے ہاتھ ملا کر چل پڑا۔
جس لڑکے کا میں نے امجد سے زکر کیا تھا اس کا نام شفیع تھا۔ میں نے اسے اعتماد میں لے کر اسے سمجھایا۔
”شفیع تمہیں ایک نیک کام کرنا ہے۔ تمہیں ایک مردہ جسم میں نئی جان پھونکنی ہے۔ یہ ایک ثواب کا کام ہوگا جس کے لئے میں تا زیست تمہارا احسان مند رہوں گا۔ کیا تم میرے لئے یہ نیک کام کروگے۔“
شفیع دل کا بہت اچھا تھا۔ وہ فوراََ تیار ہو گیا۔ میں اگلے روز اسے اپنے ساتھ چھانہ پورہ لے گیا۔ امجد کو میں نے پہلے ہی خبر کی تھی۔ اس نے حلیمہ آپا تک یہ خبرپہونچا بھی دی تھی کہ سنجے نے اسلم کا پتا لگایا ہے۔ وہ اُسے لے کر آ رہا ہے۔ جب حلیمہ آپا نے یہ خبر سنی تو وہ سچ مچ جی اٹھی۔ جو بنا سہارے کے کھڑی نہیں ہو سکتی تھی، وہیہ خبر سن کر اپنے آپ کھڑی ہو گئی اور جاکر دروازے کے پاس بیٹھ گئی۔ امجد نے اسے سمجھایا، ”اتنی اتاولی مت ہو جاؤ امی۔ پولیس کا معاملہ ہے۔ آنے میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔ تم ایسا کرو اندر جاکر بیٹھ جاؤ۔ اگر سردی لگ گئی تو طبعیت بگڑ جائےگی۔“
حلیمہ آپا تو اپنے بچے کے لوٹ آنے کے خمار میں اس طرح ڈوبی ہوئی تھی کہ سردی گرمی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی تھی۔ وہ تو پل پل گن رہی تھی۔ ایک ایک پل اس کے لئے کاٹنا دشوار ہو رہا تھا۔ تبھی گاڑی کا ہارن بجا۔ حلیمہ آپا ایک دم اپنے بچے کا سواگت کرنے کے لئے کھڑی ہو گئی۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ جونہی میں شفیع کو اس کے قریب لے کر گیا تو اس نے بےساختہ اپنی بانہیں اس کی طرف بڑھا لیں اور پھر اس کے چہرے کو ٹٹولنے لگی۔ اچانک وہ پیچھے ہٹی اور اس کے بعد ایک زناٹےدار تھپڑ سے اس نے شفیع کا استقبال کیا۔ ہم سب سناٹے میں رہ گئے۔ حلیمہ آپا بڑ بڑاتے ہو ئے اندر چلی گئی اور پھر دھم سے اپنے بستر پر گر گئی۔
ہم ماں کی ممتا کو فریب نہیں دے سکے۔ ہم ایک ماں کو دھوکہ نہیں دے سکے۔ اگلے روز حلیمہ آپا اپنے اسلم کو ڈھونڈنے وہاں چلی گئی جہاں سبھی بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.