کہاں ہے منزل راہ تمنا۔۔۔
’’سعودی ایرلائنس کی فلائٹ ایس وی ۳۴۵ جدہ انٹرنیشنل ہوائی اڈے سے اڑان بھرنے کے لئے تیار ہے۔‘‘ تیسری اور آخری کال کا اناؤنسمنٹ ہو رہا ہے۔ میری کلائیاں اسٹیل کی قفل لگی ہتھکڑیوں میں جکڑی ہیں۔ نسوانی کمر والا شرطیٰ یعنی سعودی پولیس اہلکار ہتھکڑیوں سے بندھی موٹی زنجیر کو تھامے اس انداز سے مجھے کھینچ کر لایا ہے جیسے بھاری بھرکم قیمتی ولائتی کتوں کو مالکان کی نظر بچا کر ملازم سر بازار بے دردی سے جھٹکے دے کر ٹہلاتے ہیں۔
اس آخری کال پر شرطے نے مجھے امیگریشن کاؤنٹر کے پاس کھینچی کالی پٹی پر کھڑا کر دیا۔ امیگریشن آفیسر نے حقارت بھری کڑوی مسکراہٹ سے میرے پاسپورٹ اور کاغزات کو چیک کیا۔ شرطیٰ کے مزید ایک دھکے سے۔ میں خودکار روبوٹ کی طرح جہاز تک لے جانے والی ٹنل کی طرف چل پڑا۔ مجھے دیکھ کر۔کاؤچ پر بیٹھے اور سستاتے مسافروں نے گردنیں اٹھا کر اور کچھ نے گردن کو موڑ کر مجھے دیکھا۔ حیرت، تذلیل اور تجسس۔ انکی نگاہوں میں کیا کچھ تھا۔
ہم وطنوں نے ہمدردی اور شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔۔۔میں اب ٹنل کے منھ پر آہستگی سے بڑھتی لائن سے ذرا سا ہٹ کر کھڑا تھا۔ خوبصورت ایئرپورٹ کی عمارت سر سبز ترو تازہ صحت مند پتوں والے اونچے نوعمر درختوں اور شگفتہ پھولوں کے تختوں سے سجی ہے۔ بلوریں چھت سے جھا نکتے سورج کی کرنیں اندر کی چکا چوندھ میں پھیکی پڑ گئی ہیں۔چھت اور فرش کا ڈیزائن ایک انداز کا ہے چھت میں شیشے ہشٹ پہلو کٹے ہیں اور فرش پر ہشٹ پہلو سفید پتھر پر کالے پتھر سے بارڈر بنایا گیا ہے۔۔۔چکنے شفاف فرش پر مجھے اپنا عکس صاف نظر آ رہا ہے۔
مترنم فوارے روانی سے بلندی پر آویزاں شاہ وقت کے بڑے سنہری فریم کو بوسہ دے رہے ہیں۔ قومی ترانے کی دھن پر فوارے کی ہر اٹھان پر مختلف رنگ تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک لمحہ کے لئے فوارے خاموش ہو گئے۔
کیفیٹیریا کے سامنے شیشے کی دیوار سے ٹیک لگائے۔
وہ کھڑی تھیں!!
سیاہ ابائے میں لپٹی۔ کالی کالی موٹی آنکھیں۔۔۔موٹا موٹا کاجل۔۔۔اور ان میں موٹے موٹے قطرے۔ ان قطروں میں ابھرتی ڈوبتی نا تمام آرزوئیں۔ نا مکمل تمنائیں۔جو بےدھڑک بہہ بہہ کر ہشٹ پہلو خاموش ماربل کے سرد سینے پر ٹپ ٹپ گر رہی تھیں۔ میرے اندر گھنگھور سناٹہ گھر آیا۔
میں پیشہ ور ڈرائیور نہ تھا۔ ایک ہندوستانی متوسط طبقہ کا لڑکا۔۔۔ایم کام پاس کرنے کے بعد پاپاکی قلیل تنخواہ اور یکے بعد دیگرے چار بھائیوں کی پڑھائی کا بار ہلکا کرنے کے لئے میں نے یہ فیصلہ کیا تھا۔۔۔چپ چاپ ایجنٹ کو بھاری رقم چکا کر میں نے سعودی عرب جانے کی خوش خبری گھر والوں کو سنائی۔۔۔ممی کے چشمے کے موٹے شیشے دندھلا گئے۔۔۔پاپا کا زکام روز سے زیادہ ہو گیا۔۔۔ہاں چھوٹے بھائی کافی ایکسائیٹڈ تھے پاپاکو صحن میں چہل قدمی کرتے اور ممی کو کچن کی الماری میں بنے مندر میں پرساد چڑھاتے چھوڑ ہم پانچوں بھائی ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔
سپنوں کا سفر جلدی ہی کٹ گیا۔
جدہ ایئرپورٹ پر ایک سیاہ فام سعودی میرے نام کی تختی لئے موجود تھا۔
ائیرپورٹ کی عمارت سے نکلتے ہوئے وہ مجھ سے متعدد سوالات کرتا رہا۔ زبان سے نا بلد ہونے کی وجہ سے میں صرف ہاں میں گردن ہلاکر جواب دینے کی کوشش کرتا رہا۔ پارکنگ میں کھڑی نیوی بلیو جیگوار میں بیٹھ کر اس نے میرے سامنے کانٹریکٹ کی کاپی رکھ دی۔۔۔زیادہ تر کاغزات عربی میں ٹائپڈ تھے۔ میں اتنا تھک چکا تھا کہ کئی پیپر غور سے دیکھے بغیر دستخط کرتا گیا۔
کار ایک عالیشان گنبد نما سبز عمارت کے سامنے رک گئی۔ دربان نے گاڑی دیکھتے ہی سرعت کا مظاہرہ کیا اور سیلوٹ مارتے ہوئے گہرہ سبز آہنی گیٹ ریموٹ کنٹرول کا بٹن دباکر کھول دیا۔
گیٹ کے اندر ایک طویل میدان میں دونوں طرف عمارتیں تھیں۔ داہنی طرف تین محل نما عمارتیں بالکل ایک جیسی تھیں۔ ہر عمارت کے درمیان ۲۰۰ گز کی خالی جگہ تھی۔۔۔یہاں فرش پر سرخ رنگ کے پتھر سے ٹریک ابھرے ہوئے تھے۔۔۔ہر ٹریک میں جدید طرز کے ماڈل کی ۲۰ کاریں اور ایک قدیم رولس رائیس اپنے شاہانا انداز میں سبز شیڈ کے نیچے تشریف فرما تھیں۔ ہر محل نما عمارت کے مکینوں کے ا ستعمال کے لئے ۲۱ کاریں۔۔۔کل ملا کر ۶۳ کاریں!!! یہ گاڑیاں میں نے صرف رسالوں یا ٹی وی پر دیکھیں تھیں۔۔۔بائیں طرف ہر عمارت کے عین مقابل ایک چھوٹا حجرہ تھا۔ گاڑی سست رفتار سے آگے بڑھ ر ہی تھی۔۔۔تیسرے اور آخری حجرے کے سامنے ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ میں اترا تو اس نے میرے ہاتھ میں ایک چابی تھما دی اور سامنے والے کمرے کی جانب اشارہ کر دیا۔
میں نے کمرہ کا تالہ کھولا۔
اپنے سامان کے نام پر ایک ہینڈبیگ کو میز پر رکھ کر واش روم کی طرف دیکھا۔۔۔کہ انٹر کام کی گھنٹی بجی۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ایک نسوانی سوفٹ آواز نے کہا ’’گیت ریدی‘‘ میں تو ریڈی تھا ہی۔۔۔ ’’اور بغیر منہ ہاتھ دھوئے میں نے ہاتھوں سے بال سنوارے۔۔۔‘‘
اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
وہ ہی سیاہ فام ڈرائیور میرے سامنے تھا۔۔۔اسی نیوی بلیو جیگوار سے اتر کر اسنے اسٹارٹ کار میرے حوالے کر دی۔۔۔اس نے سرگوشی میں مجھ سے کچھ کہا۔ سمجھ میں ایک لفظ ’’مدام‘‘ آیا۔۔۔ چہرے پر سیاہ محراب نما نقاب میں سے جھانکتی متحرک پتلیاں۔۔۔شفاف نیلگوں ڈھیلے۔۔۔خمدار دراز پلکیں۔۔۔وہ پچھلی سیٹ پر دراز تھیں۔۔۔میں ڈرائیونگ سیٹ پر سحر ذدہ۔۔۔زندگی میں پہلی بار اتنی قیمتی گاڑی میرے ہاتھ میں تھی۔
گاڑی کے ایکسیلیرریٹر پر پاؤں رکھتے ہی آٹومیٹک دروازے لاک ہوئے میں گیئر ڈھونڈھتا رہا۔۔۔گاڑی پھسل رہی تھی۔۔۔ایک حرارت اور خوشبو کا امتزاج۔۔۔وہ ڈایریکشن دیتی رہیں۔ پارکنگ میں گاڑی لگانے کے بعد۔۔۔وہ برقی زینے پر روانی سے پیر رکھ کر اوپر چلی گئیں۔۔۔میں نے آنکھیں کس کے بھینچ لیں۔
ممی، پاپا اور بھایؤں کے نمناک چہروں پر درج ضروریات کی طویل فہرست آنکھوں میں گھوم گئی۔۔۔ایجنٹ کے دئے گئے دلاسوں اور بہلاوں کا نتیجہ۔۔۔
میں کسی عرب شیخ کی بیوی کا پرسنل ڈرائیور بن چکا تھا۔ مگر۔۔۔گھر کو بنک کے نام ر ہن رکھ کر جو ہوم لون لیا تھا۔۔۔وہ تو اتارنا ہی تھا۔
رات کے پچھلے پہر واپسی ہوئی۔۔۔بستر پر گر کر رونے کو دل چاہا۔۔۔مگر بھوک۔۔۔رونے بھی نہیں دے رہی تھی۔۔۔دروازہ کھلا ہی تھا۔۔۔ہمارے دیس میں گھر میں رہتے ہوئے دروازے لاک کب کئے جاتے ہیں؟؟
ایک انڈونشیین لڑکی گول بڑی تھالی کو پیپر ٹاول سے ڈھکے دروازے میں کھڑی تھی۔
میرے اشارے سے بلانے پروہ اند آئی۔ بھار ی پپوٹوں سے ڈھکی بالکل گول آنکھوں کو میرے اندر گھساتے ہوئے بولی۔۔۔’’انڈین؟؟‘‘ میں نے جواباً پوچھا۔’’انڈونیشین؟؟‘‘ ہاں میں گردن ہلاتے ہوئے اس نے تھالی کو میز پر جما دیا۔۔۔پھر انٹر کام کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولی۔ ’’ڈائیل زیرو۔۔۔نید اینی تھینگ۔۔۔‘‘ وہ میری آنکھوں میں اور گہرائی سے گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے دروازے سے باہر ہو گئی۔
میں تھالی پر جھپٹ پڑا۔۔۔نایاب تازے پھل۔۔۔فریش جوس۔۔۔اور کڑوے کسیلے ہرے، جامنی زیتون۔۔۔خبز (تندوری ملائم روٹی )۔۔۔ ابلے موٹے چاول۔۔۔نرم گہری عنابی تازہ کھجوریں۔۔۔بھری تھالی منٹوں میں صاف ہو گئی۔
میں نرم بستر پر بمع جوتوں کے گر پڑا۔
رہنا۔ کھانا تو بہترین ہے۔۔۔اب جو تنخواہ ملیگی۔۔۔تو بنک کا قرض۔۔۔اور گھر کا خرچ ۔۔۔ہو ہی جائیگا۔
مدام۔۔۔شاید۔۔۔بہت با اصول ہیں۔۔۔شاید سخت گیر بھی۔۔۔مگر انکی آنکھیں۔۔۔
’ ٹرن ٹرن‘ انٹرکام کی لال لائیٹ جل بجھ رہی تھی۔۔۔دیوار پر لگی گھڑی میں صبح کے ۱۰ بج رہے ہیں۔۔۔میں نے ریسور کان سے لگایا۔ ’’بی ریدی ان فائیو منتس۔۔۔‘‘
ایک انگلش مزاحیہ شو ’’مسٹر بین‘‘ کے انداز میں ۔۔۔ چار منٹ میں ریڈی تھا میں۔
گاڑی مدام کے محل کے سامنے کھڑی کرکے میں دروازہ کھولے پیشہ ور ڈرائیور کی طرح سر کو خم کرے ان کے حظور میں کھڑا ہو گیا۔
وہ ابایا سنبھالتی احتیاط سے بیٹھ گئیں۔
’’واہتس یور نیم‘‘ وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں۔
’’ستیہ۔۔۔ستیہ پرکاش‘‘ میں نے بیک میرر میں دیکھا۔
وہ باہر دیکھ رہی تھیں۔
’’آئی وانت گد ہندی سانگس‘‘ میں نے ان کے ساتھ ساتھ۔۔۔شاپنگ مال کی رکارڈنگ شاپ سے’’ گولڈن ہٹس ‘’لتا رفیع ڈوئیٹس‘‘ آشا اور آرڈی برمن ’‘کشورکمار ہٹس‘‘ مہیندر کپور کی سی ڈیزسلیکٹ کیں۔ انہوں نے کریڈٹ کارڈ سوائپ کیا ۔
کار کا بہترین ساؤنڈ سیسٹم بج اٹھا۔۔۔ ’’جوگن بن جاؤنگی سیاں تورے کارن ۔۔۔‘‘
’’میننینگ؟؟‘‘ وہ گانے کے بول سمجھنا چاہتی تھیں۔
ان وہیچ لینگویج؟؟؟ میں نے سوچا۔ میری خاموشی پر۔
شاید وہ مسکرائیں۔۔۔جھنکار سی ہولے سے بجی۔
ہر روز نئی سی ڈی۔۔۔میں نئے الفاظ نئے احساسات کے معنی سمجھاتا رہا۔۔۔سمجھتا رہا۔
بہت حساس۔۔۔بہت نازک مزاج ہیں وہ! بہت کریٹیو بھی۔ الجزیرہ اسٹیشنری اسٹور میں بےمقصد گھومتے ہوئے وہ سوکھے پھولوں کے پیک خرید لیتی ہیں۔۔۔اور سوکھے پھولوں کی پتیوں سے مجھے کارڈ بنا کر دیتی ہیں۔۔۔اکثر کار میں بیٹھے بیٹھے خاموش ریگستان میں دیر رات تک وہ چاند کو دیکھتی رہتیں۔۔۔۔میں بیک میرر میں اب انکی ہنسی میں شامل ان کے دانتوں کی لڑی کو۔۔۔سیاہ ریشمی نقاب سے جھلکتے با آسانی دیکھ لیتا ہوں۔۔۔وہ میرے گھر والوں کے احوال معلوم کرتی ہیں۔۔۔میرے دکھوں میں شریک ہو جاتی ہیں۔۔۔ان کو ہندی سمجھ میں آنے لگی ہے۔۔۔اور مجھے عربی!! ’’ستیہ۔۔۔‘‘ اس دن انہوں نے پہلی بار۔۔۔۔میرا نام لیا۔
’’ انڈین اسپائسی فوڈ ‘‘
میں نے گاڑی ’’لا سانی‘‘ پاکستانی ریستوران کی طرف گھما لی۔۔۔
وہ لکڑی کے کٹ ورک والے پارٹیشن کے پار جاکر بیٹھ گئیں۔۔۔سیاہ ابائے سے انکی گلابی ملائم ہتھیلیاں میری طرف اٹھ گئیں۔ مجھے اپنے کیبن میں بیٹھنے کا اشارہ کریا۔
میں سر جھکائے۔۔۔ان کے سامنے بیٹھنے کی جسارت نہیں کر پاتا۔۔۔لیکن ۔۔۔ان کی ہتھیلیاں۔۔۔انہوں نے اپنے دیسی مکھن سفید ہاتھ سے مجھے سامنے بیٹھنے کو کہا۔۔۔میں کرسی دور کرکے نظریں نیچی کئے بیٹھ گیا۔
ہر انڈین ڈش انکے سامنے حاضر ہو گئی۔
وہ صرف چکھتی رہیں۔۔۔اور ایک کین پیپسی کے چند گھونٹ لے کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔میرے دل میں کھٹ سے کچھ ٹوٹا۔۔۔اتنے سارے کھانے میں تو میر ے سب گھر والے اور میری بلی مانو بھی پیٹ بھر کے کھا لیتے۔
وہ کاسمیٹک کی بہت شوقین ہیں۔ سب سے مہنگے اور بڑے کاسمیٹک اسٹور ’البگشان‘ کی تیرویں منزل پر ۔۔۔وہ لپ اسٹک کے کلر ٹیسٹ کرنے لگیں۔
آئینہ میں صرف انکے ہونٹ تھے۔۔۔ہونٹ کافی بھرے بھرے تھے ان کے۔ بچپن میں پکے آم کی قاشیں ایسی ہی بھری بھری اور رسیلی ہوتی تھیں۔۔۔انہوں نے نقاب ذرا اور اٹھایا۔۔۔ناک بہت پتلی نہ تھی۔۔۔اگر انکی ناک میں امی کی ناک کی طرح سفید نگینے کی لونگ ہوتی تو۔۔۔انہوں نے نقاب پورے چہرے پر ڈھانک لیا۔
اب وہ سونے کے زیورات کی بڑی دکان میں کھڑی تھیں۔۔۔چھت سے لٹکے ہوئے کئی کیلو سونے کے بڑے ہار انکے سر کے آس پاس جھول رہے تھے۔ انہوں اپنی گردن سے نقاب کو سرکایا اور۔۔۔چین کو گلے میں ڈال لیا۔۔۔گول آئینہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے ذرا سائڈ میں کھڑے ہوکر نقاب الٹ دیا۔۔۔!! میں ان سے مناسب دوری پر تھا۔۔۔وہ اپنے حسن کی بےخودی میں کھوئی رہیں۔۔۔چین انکے گلے میں پڑی رہی۔۔۔دکاندار نے بل بنانے کو پوچھا۔۔۔جھٹ سے نقاب گرا لیا اور کارڈ آگے بڑھا دیا۔
گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے میرا ڈرایؤنگ لایسنس مانگا۔۔۔اور چند منٹوں بعد کھوئے ہوئے لہجے میں بولیں۔۔۔’’ستہ۔۔۔ سیون ایرس ینگر!!‘‘
وہ مجھ سے کافی چھوٹی لگتی تھیں۔ ان کی گردن۔۔۔ان کی آنکھیں۔۔۔اور پکے آم کی قاشوں سے رسیلے ہونٹ۔۔۔وہ کالی پتلیاں۔۔۔سفید شفاف نیلگوں ڈیلے۔۔۔میری چھت پر اترا پورا چاند۔رات بھر۔۔۔میرے ساتھ ساتھ!!
ایک نامانوس سی آہٹ نے میرے نیم خوابیدہ ذہن کو جھنجھوڑ دیا۔۔۔آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے پر بھی کچھ نظر نہ آیا۔۔۔دستک اسی دھیمے سر میں پھر ہوئی۔۔۔میں ٹٹولتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔ہینڈ ل گھمایا۔۔۔ایک سایا ہاتھ میں نیلی مومی روشن شمع تھامے۔
مومی شمع میرے سامنے کرکے وہ مدھم سر میں گنگنائیں۔
’’سموک‘‘ انکی کھلی مٹھی میں’مارل بورو‘ کا سنہرہ اور سرخ پیکٹ تھا۔
میرے الفاظ میرے گلے میں اٹکے ر ہے۔۔۔موم بتی کی سہمی ہوئی تھراتی لو میں انکی آنکھیں۔۔۔اور گہری اور سیاہ ہو گئیں۔
بائیں ہاتھ سے موم بتی تھام کر انہوں نے سرخ و سنہرے پیکٹ سے ایک سگریٹ نکالی اور۔۔۔اپنے دیسی مکھن ملائم ہاتھ سے انہوں نے وہ سگریٹ میرے اکڑے ہوئے سرد ہونٹوں میں پھنسا دی۔۔۔میرا سانس میرے ہونٹوں میں اٹک گیا۔
وہ ایک قدم اور میری طرف بڑھیں۔۔۔انکے سانسوں کیساتھ موم بتی کی نارنجی لو لرز تی رہی۔
انہوں نے اس نارنجی لپکتی لو کو سگریٹ کے سامنے کر دیا۔ آنچ کی تمازت میرے اکڑے ہوئے ہونٹوں کو اچھی لگی۔
سگریٹ سلگ اٹھی۔۔۔انکی آنکھوں کے گوشے مسکرائے۔۔۔انہوں نے طویل سانس بھرا۔
موم بتی ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی۔۔۔کمرے میں پھر اندھیرا ہو گیا۔۔۔گھپ اندھیرا۔۔۔وہ دروازے سے باہر نکل گئیں۔
اگلے روز کھانے کی تھالی لانے والی انڈونیشین ملازمہ نے بتایا کہ رات محل میں شارٹ سرکٹ ہو ا تھا۔۔۔اور ایک گھنٹے کے لئے لائیٹ گل ہو گئی تھی۔۔۔
عید کی شاپنگ کرتے ہوئے وہ اکثر مجھ سے پوچھ کر میری پسند کے رنگوں کے لباس خریدے۔۔۔کیا کرتی ہونگی یہ اتنے سارے کپڑوں کا؟؟ بےپناہ زیورات کا؟؟ اور بےاندازہ کاسمیٹک کا؟؟ اور بےانتہا کھانے کا؟؟
میرے گھر میں اگر اس کا ۲۵ فی صد بھی ہوتا تو۔۔۔
’’ستیہ۔۔۔میری حنا۔۔۔‘‘ ان کی اس خبر سے مجھے متلی آنے لگی۔۔۔۔ممی کے ہاتھ کئی بار صابن سے دھلوا نے پر بھی جب تک مہندی اتر نہیں جاتی تھی میں انکے ہاتھ کا بنا کھانا نہیں کھاتا تھا۔۔۔انہوں نے پچھلی سیٹ سے تھوڑا آگے سرک کرپنی ہتھیلیاں میرے سامنے کر دیں۔۔۔سفید مکھن ہتھیلیوں پر گیلی مہندی کے پھول پتے۔۔۔ان کے سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر گرم کرنے کودل بےقرار ہونے لگا۔۔۔ان کے چہرے کو دیکھے بغیر میں نے انکی پھیلی ہتھیلیوں کو سونگھنے کی کوشش کی۔۔۔انہوں نے اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لئے۔۔۔ان کی کالی پتلیاں شرارت سے مسکرائیں۔
عید کی نماز کے لئے مسجد گئی تھیں وہ میرے ساتھ۔ نماز کے بعد جیسے وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی چہکیں۔۔۔’’عیدی‘‘ دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر کشکول بناکر میرے آگے کر چکی تھیں وہ۔۔۔رات والی ہری مہندی سرخ ہوکر خوب خوب مہک رہی تھی۔۔۔میں نے کار کے ڈیش بورڈ سے نکال ہندی گانوں کی سی ڈی ان کے مہکتے کشکول میں رکھ دی۔
وہ کھلکھلا کر ہنس دیں۔۔۔آج عید کی خوشی میں انکا نقاب اکہرا تھا۔۔۔ان کے آگے کے دانتوں میں گیپ تھا۔۔۔بالکل اس موتیوں کی لڑی کی طرح جس میں ہر سفید موتی کے بعد ایک ایک سونے کا موتی پرویا جاتا ہے۔
دن بھر وہ شہر کے باہر لونگ ڈرائیو پر میرے ساتھ تھیں۔۔۔شام ڈھلے۔
’’ستیہ۔۔۔سی سائڈ‘‘ کار سمندر کے کنارے سے کافی دور پارک کرکے میں ان کے پیچھے چل پڑا۔
آج بہت بھیڑہے یہاں۔ اپنوں سے دور۔۔۔یہاں عید ایسے ہی منائی جاتی ہے۔۔۔شہر سے دور ریگستان میں۔۔۔ساحل سمندر پر۔۔۔یا پھر۔۔۔سڑک کے کنارے۔۔۔اس ملک میں رشتوں کی اہمیت کیا ہے؟
دور تک چلتی گئیں وہ۔۔۔جہاں تنہا خاموش سمندر دھیمے سے بہہ رہا تھا۔ سورج کا سنہرا مکھڑا سمندر کے کھارے پانی میں چھپنے لگا۔ وہ شانت سمندر کے دل کی دھڑکن سننے لگیں۔۔۔
سنہری ریت کو انہوں نے اپنی مٹھیوں میں بھر لی۔۔۔وہ پھسل گئی۔
’’ستیہ۔۔۔استمک ایک۔۔۔‘‘ وہ اپنے آپ سے مخاطب تھیں۔۔۔وہ بےچین ہوکر۔
بار بار۔۔۔ریت کو اپنی مٹھیوں میں بھر تی رہیں۔۔۔ہر بار ریت انکی انگلیوں کی خلاؤں سے سرکی اور ریت کے اتھاہ سمندر میں مل گئی۔
ہوا شریر ہو چلی۔۔۔ان کے سر پر بندھا سیاہ نقاب۔۔۔ہوا کی اٹھکھیلیوں میں شامل ہو گیا۔۔۔اور انکے ریشمی سنہری بال انکے ہونٹوں پر مچلنے لگے۔۔۔پکے رسیلے آم کی دو نارنجی قاشیں۔
وہ ننگے پیر کھڑی تھیں۔۔۔سنہرے ذروں میں انکے سفید پیر دھنس رہے تھے۔۔۔ہوا کی چال اور مستانی ہونے لگی۔۔۔انکے سنہرے بال اب انکے بیضوی سیندوری چہرے کو۔۔۔ان کی سیاہ آنکھوں کو۔۔۔ان کے پکے آم نارنجی ہونٹوں کو۔۔۔ان کی سفید بےداغ گردن کو۔۔۔چھونے لگے۔۔۔ہوا آج پوری طرح بےباک ہو گئی۔۔۔ ان کے شانوں پر جھولتے سیاہ ابائے کو لے اڑی۔
زرد پھولوں کے پرنٹ والی پیروں تک لمبی میکسی میں۔
سچ مچ کی سون پری۔۔۔ریت کے سنہرے سمندر میں سورج کے سنہرے روپ کو مات دینے لگی۔۔۔آج میرے پیٹ میں پہلی بار گولا سا گھومنے لگا۔۔۔دور سمندر کی سطح پر زمین آسمان گلے ملنے کو پاس آنے لگے۔
اگر۔۔۔زمین اور آسمان مل جائیں تو۔۔۔پرلے آ جائیگی۔۔۔ماں نے بچپن میں کہانی سنائی تھی۔
آج۔۔۔ضرور پرلے آنے والا ہے۔۔۔آسمان نے اپنی بڑی بڑی کالی آنکھیں زمین کی سہمی ہوئی جھکی جھکی آنکھوں میں ڈال دیں۔ آسمان زمین کے پھیلے ہوئے دامن میں سر چھپانے کو بےتاب ہو گیا۔ زمین تھرا گئی۔۔۔سمندر میں طوفان برپا ہوا۔۔۔آسمان اور زمین ایک زبردست دھماکے ساتھ ایک دوجے سے جا ملے۔۔۔زمین کے سینے میں دفن سینکڑوں جوالا مکھی پھٹ پڑے۔
ماں کی سنائی کہانی سچ ثابت ہوئی۔۔۔پرلے آ گیا۔
لال رنگ کی روشنی اگلتا سائرن ہو۔۔۔ہو۔۔۔ہو۔۔۔ کرتا ہوا۔میرے پاس آکر رک گیا۔ گشتی پولس کی وین سے اسلحہ بردار پولیس والے ریوالور تانے میرے سینے کا نشانہ لے کر اتر پڑے۔۔۔مدام رو رو کر سلیس عربی میں شرطے کو بتاتی رہیں۔۔۔ستیہ نے انکی آبرو ریزی کی کوشش کی۔۔۔ان کی کالی پتلیاں۔۔۔سفید ڈیلے اور سرخ چہرہ ایک کربناک کہانی بیان کر نے لگے۔۔۔سارے زندہ ثبوت میرے خلاف تھے۔۔۔مدام اپنا سیاہ ابایا اوڑھ کر سبک سبک کر اپنا نقاب اپنے سرخ چہرے پر ڈھانک رہی تھیں۔
میرے ہاتھوں میں اسٹیل کی ہتھکڑی ڈالی گئی اور قفل لگا دیا گیا۔
سنہری ریت پر آسمان اور زمین کے ملاپ کی عبارت مٹ گئی۔
مدام نے اپنے ڈرائیورکو اس کی ایمانداری کا صلہ دیتے ہوئے اسکا یہ قصور معاف کر دیا۔
اسے مقدمے کے بغیر رہائی تو ملی۔
مگر۔۔۔اسے راتوں رات اس کے دیس ڈیپورٹ کر دیا گیا۔۔۔
شرطے نے زنجیر کو ایک زوردار جھٹکا دیا۔۔۔وہ جہاز میں لے جانے والی ٹنل کے منھ پر پہنچ گیا۔۔۔
آخری بارستیہ نے مڑ کر دیکھا۔۔۔عربی قہوے کی تازہ خوشبو کے مرغولے سے اوپر شیشے کی دیوار کے پار۔۔۔مترنم فوارے کی اٹھتی گرتی پھواروں کے رنگوں کی برسات میں۔۔۔سیاہ ابائے کی آستین کی سنہری کناری سے۔۔۔ایک مکھن ملائم سفید ہاتھ ہوا میں لہرا رہا تھا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.