خیر یہ انتھونی مجھے کیا ستائےگا۔ مجھے ناریل فینی کشید کرنے کا فن آتا ہے۔ اگر یہ بار اس دور میں بند بھی ہو جائے تو میں اپنے پرکھوں کو یاد کر کے فینی تو پی سکتا ہوں۔ میری تیار کی ہوئی نفیس و پر ذائقہ فینی! جس کے چرچے میرے دوست احباب کرتے ہیں اور اس کے قائل ہیں۔ میں جب اسے تین بار کشید کرتا ہوں تو یہ دیوتاؤں کا مشروب بن جاتا ہے اور اس میں صحت بخش فرحت اور شفافیت اتر آتی ہے۔ میری خوابگاہ میں گونزیلس سینئر، داداروڈریگیئس، پردادا تھامس گونزیلس کی پوورٹریٹس مجھے ہنستی، مسکراتی اور خراج عقیدت دیتی محسوس ہوتی ہیں۔
میرا نام گونزیلس ہے۔ میں البرٹ گونزیلس سینٹ پیڑکس اسکول کا ایک ریٹائرڈ گون اسکول ٹیچر ہوں۔ جی۔ گوا سے آیا ہوا کیتولک کرسچین ہوں۔ میں اپنی زندگی کے بقایا دن کچھ تو ’’بلیک لیبل‘‘ کے پیچھے موجود کڑوے شربت کو تھوڑے سے سوڈے میں ملاکر چسکیوں میں اپنے ماضی کے روشن دنوں کو منور کرتا ہوں اور کچھ اپنے نیکر و سوئیٹ شرٹ میں ڈھنپے سراپا کو راکنگ چیئر پر جھول جھول کر۔ پھر کچھ اپنے آپ کو گھر کے ہال میں آویزاں قد آدم آئینے میں ہر روز موجود پا کر گذارتا ہوں۔ ویسے تو اب کوئی بھی دن مجھے نہیں بھاتا لیکن آج کادن مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔صبح ہی صبح میونسپلٹی والوں کا نوٹس ملا کہ وہ اس پتھروں کی عمارت کو جس پر میرا اور میرے پرکھوں کا قانونی حق ہے گرانا چاہتی ہے۔ اگر یہ عمارت مخدوش ہے اور خود بخود گرنے والی ہے تو بلدیہ کو کیا تکلیف ہے؟ میں جانتا ہوں کہ یہ ہمیں صدر کے اس پرائم علاقے سے بے دخل کرنے کی سازش ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ آج بار والے نے بھی مجھ سے لائسنس طلب کیا۔ کہتا ہے سختی ہے آج کل۔ حیرت ہے ہم اتنی صدیوں کے بعد بھی اپنے آپ کو یہاں کے باسی تسلیم نہیں کروا سکے۔ ہمرا ہ یہاں گوا کا نو آباد ہونا۔۔۔میرا چوتھی نسل سے اور اس کا تیسری نسل سے ہے۔ ہمارے پرکھوں میں آپس میں پیار ومحبت اور باہمی افہام و تفہیم کا رشتہ تھا۔ یکایک یہ سب بھلا کر یوں غیریت اور بیگانگی پر اتر آنا، واقعی بدلتے بےوفا زمانے کی عین مثال ہے۔ انتھونی کا یہ کہنا کہ میں عجائب گھر بنانے کے مشن میں ناکام ہو گیا ہوں، میں قطعی درست نہیں سمجھتا۔
’’ویرو نیکا کو گوا گئے کئی سال بیت گئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہو گئی تھی۔ اب تو ایک عرصہ دراز سے میں نے ان سالوں کاحساب کتاب رکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
شاید وہ بھی میری طرح وہاں ’’کاجو فینی‘‘پیتی ہوگی۔ میں جب بھی سال دو سال میں گوا جاتا ہوں تو ’’کاجو فینی‘‘ ہی پیتا ہوں۔ اصلی کاجو فینی نہ تو یہاں طریقے سے کشید کی جا سکتی ہے اور نہ اس میں وہ بات ہو سکتی ہے جو گوا میں ہوتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور دشوار طریقہ ہے اور اب تو گون لوگ فینی کا عالمی دن بھی منا رہے ہیں۔ خوب ہنگامہ رہےگا۔ اس کا نشہ انتہائی سرعت سے چڑھتا ہے اور دنیا مافیہا سے بیگانہ کر کے سکون و طمانیت سے جینے کا خاص گون انداز دیتا ہے۔ یہ گون ثقافت بھی خوب چیز ہے۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ اس کے ڈانڈے ایک طرف پرتگال و اسپین و دوسری طرف گوا اور پھر یہاں سے پاکستان اور دنیا کا کونسا ملک نہیں ہے جہاں ہماری ثفافت کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیں آپ خانہ بدوش تو کسی معنوں میں کہہ سکتے ہیں لیکن ہم جس جگہ ٹھہرتے ہیں۔۔ عرصہ دراز۔۔۔ برسوں، صدیوں، قرنوں قیام کرتے ہیں اور وہاں کا کلچر بھی ہمارا ایک اور حصہ بن جاتا ہے۔ہاں البتہ ہم اپنی بنیادی روایات، رسوم و رواج سے بھی بری طرح چمٹے رہتے ہیں۔ گوا میں کبھی پرتگالی ثقافت نے ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ مادری زبان البتہ کنکنی کہلاتی جسے ہم لوگوں نے سنبھال کر اس میٹرو پولٹین کی لغاتی یلغار میں رکھا ہوا ہے اور یہ ہماری خفیہ زبان کے طور پر بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہے اور ہماری ثقافت کا ایک حصہ بھی ہے۔
میرے والد بھی اس کا بہت خیال کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے والد اور ان کے والد بھی ایسا ہی کرتے تھے اس لیے ہم سب بھی یہی کرتے ہیں۔
’’دھڑ، دھڑ، دھڑ۔۔۔!‘‘
’’میں ہال میں ہوں۔۔۔کھولتا ہوں۔۔۔اندر آ جاؤ۔۔۔سانچو میرے دوست‘‘۔
’’میں یہ ایک اور 1933 کی ٹرام کا ماڈل بنا لایا ہوں۔۔۔!‘‘
’’شاندار سانچو۔۔۔ اب تم ہی میرے ساتھی رہ گئے ہو۔ یہاں رکھ دو احتیاط سے‘‘۔
پیچھے میرے شیشے کی الماری ماڈلوں اور ٹرام کی تاریخی کتابوں سے بھری ہے۔ جن میں کراچی کی پہلی دخانی ٹرام، گھوڑا ٹرام اور پٹرول ٹرام کے سانچو کے بنائے جیتے جاگتے ماڈل ہیں۔ سانچو میرے خوابوں کو حقیقت بنانے والا اہم کر دار!۔
میں انہیں دیکھ کر اپنے بچپن میں چلا جاتا ہوں۔۔۔وہ بچپن جس کے بارے میں گوا کی کہاوت ہے کہ سچ بولنے کی عمر بارہ سال ہے۔۔۔! میں گونزیلس سنیئر کا ہاتھ پکڑے۔۔۔صدر سے بولٹن مارکیٹ، سولجر بازار ،کبھی بندرروڈ سے کیماڑی اور کبھی صدر سے کنٹونمنٹ اسٹیشن۔۔۔ٹرام کا ڈرائیور ٹرام کے ایک سرے پر آگے کھڑا ہو کر کار کے ہینڈ گئیر کی شکل کا ہینڈل گول گول گھماتا۔۔۔اور اس کے عین سر پر لگی گھنٹی لوگ ڈوری کھینچ کر رکنے کے لیے بجاتے اس کی رفتار اتنی ہوتی تھی کہ لوگ باآسانی چلتے میں چڑھتے اترتے رہتے۔ ٹرام پٹہ سڑک کے بیچوں بیچ بچھایا گیا تھا۔ اس کے دونوں طرف ٹریفک چلتا رہتا۔ اونٹ گاڑیاں، گدھا گاڑیاں، بیل گاڑیاں، یکے، تانگے اور بگھی جسے وکٹوریہ کہتے تھے۔پھر بسیں آئیں سائیکل رکشہ آئے۔ آٹو رکشہ آئے۔ کان پڑیں آوازیں سنائی نہ دیتیں۔ میں خاموشی سے بچپنے سے لڑکپن اور پھر جوانی میں آتا گیا۔ ٹرام چلانے والا اپنے پٹے پر گھنٹیاں بجاتا رہتا۔
جب یہ بے ہنگم ٹریفک ضرورت سے زیادہ بڑھا تو نا خوشگوار حادثات رونما ہونے لگے۔ یہاں تک کہ 4 اپریل 1975 آ گیا۔ جب آخری ٹرام بھی اپنا آخری زور لگا کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ اس وقت تک ٹرامیں بھی اچھی خاصی بوڑھی ہو چکی تھیں۔ مضمحل، غیر معمولی طور پر ڈیلتی ڈولتی، ہانپتی کانپتی، دم توڑتی۔۔۔اور کبھی اچانک بہت سا دھواں اگلنے لگ جاتیں۔ لیکن یہ ڈیزل گاڑیوں کے دھویں سے قدرے مختلف ہوتا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب مجھے پہلی بار ٹرام میوزیم بنانے کا خیال آیا۔ مجھے پاپائے اعظم کے وہ الفاظ کہ ’’دنیا میں کچھ کر کے جاؤ۔ کوئی بڑا کام‘‘ یاد آتے تو جوش و جذبہ اپنے اس مشن کا اور بڑھ جاتا۔ میرا جنون ویرونیکا کے صبر وتحمل کی حدود عبور کرنے لگا تو اس نے آخرکار ناامید ہو کر گوا جانے کا فیصلہ کر لیا۔ کیونکہ میں ہر طرف سے ناامید ہو کر اپنے گھر کے خرچے کا یہ پیشہ بھی اپنے مشن کی نظر کرنے لگا تھا اور ساتھ ہی اس کے دل میں نفرت کا بیج بھی بودیتا۔ لیکن اس پر میرا اختیار بھی نہ تھا۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ اس میں شاید ہماری بےاولادی اور محرومی کا نتیجہ بھی نہ ہو۔ یا پھر میری گھر کی طرف سے بےفکری کیونکہ ویرونیکا بھی سینٹ جوزف گرلز سکول میں پڑھاتی تھی۔ شوقیتاً۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اس وقت تک وہ بھی جا چکی تھی۔
’’ویرونیکا کی کوئی خبر؟‘‘
میں نے سانچو کی بات کاٹی۔
’’میں تمہارے لیے پیگ بناتا ہوں‘‘۔
میں ویرونیکا کو پھر سے یاد کرنا نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ پھر اسے بھولنا مشکل ہو جاتا۔
گوا میں ابھی تک سطح زمین پر چلنے والی ٹرام نہیں آئی تھی۔ یا شاید اس کی ضرورت نہیں رہی۔ وہاں ستونوں پر پھسلنے والی ٹرام آ گئی ہے۔ ٹرام کی ترقی یافتہ شکل ’مونوریل‘ جو ہوا میں معلق ستونوں پر سرعت سے پھسلتی چلی جاتی ہے۔
ہنہ تو کیا ہوا۔ میں نے خیال جھٹکا۔
’’میں برف کے ٹکڑے کٹوا کر لانا نہیں بھولا۔ تم مجھے پیئے پلائے بغیرتو جانے نہیں دوگے۔ کچھ دیر تو ہم بیٹھیں گے۔ میں تمہارا ساتھ دوں گا‘‘۔
سانچو نے مجھے خیالات میں گم ہونے سے بچانے کے لیے کہا اور میں نے پھر سے گفتگو کا سلسلہ جوڑا۔ ’’اچھا یہ دیکھو۔ مختلف دور کی ٹرام کے مستعمل ٹکٹوں کی یہ گڈی میں نے جمع کرکے اس ایلبم میں لگا دی‘‘۔۔۔ میں نے فخریہ سانچو کو دکھائی۔
’’کہو اچھی لگ رہی ہے نا؟‘‘
’’ہاں شاندار!۔ سانچو نے چسکی لیتے ہوئے کہا۔
اور پھر ہم ماڈلوں، ٹکٹوں، بندرروڈ، کیماڑی، سولجر بازار، بولٹن مارکیٹ کے قصوں میں لگ گئے اور سانچو ویرونیکا کا موضوع بھول گیا اور پھر سانچو کے گھر جانے کا وقت بھی اتنی جلدی آ گیا۔ اسے بھی اپنی بیوی کا سامنا کرنا تھا اور اس وقت کا حساب دینا تھا۔ میں اسے رخصت کرکے اپنی خوابگاہ میں آ گیا اور پھر شادی کے دن کی دلہن والی دھندلی پڑتی قدیم تصویر کے ٹیبل فریم میں وقت اتر گیا۔ ہماری شادی عین اس دن ہوئی تھی جب کراچی کے مئیر نے قائد اعظم کے اعزاز میں شہری استقبالیہ دیا تھا۔ تقریب کے یہ دونوں کیک کراچی کے مشہور گون بیکر P. R. Preira کی بیکری میں تیار ہوئے تھے۔
ہال میں شادی کے رقص میں ہم دنیا مافیہا سے بے خبر چابی والے دلہا دلہن کی طرح کانچ کے گنبد میں لو اسٹوری کی دھن پرابدی رقص کرتے رہے۔ جھومتے گھومتے رہے۔ شہر کی کئی معزز شخصیات نے اس میں شرکت کی تھی۔ مجھے گنبد کے شیشے میں ایسٹ انڈیا ٹرام کی رسمی افتتاحی تقریب کی جھلکیاں نظر آنے لگیں۔
کمشنر سندھ ہنری نیپیئر، سندھ کا کمانڈنگ آفیسر جنرل جی لک اور اس کی بیٹی اسٹیلا، اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹرجی یولن، سابق والی قندھار ہز ہائی نس پرنس شیر علی خان۔ اسٹیلا نے اپنے منگیتر کیپٹن تھامس کے ساتھ والہانہ رقص کرکے ان سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر لی تھی۔
اور پھر جیسے ٹرام کی گھنٹی سی بجی۔
’’ڈنر از سروڈ‘‘ کا اعلان ہوا۔ ویرونیکا مجھے اپنا سفید ملکوتی عروسی لباس میں حیران پریشان سی نظر آئی۔
’’کہاں کھو گئے تھے۔۔۔؟ کیا ہوا تمہیں۔۔۔؟‘‘
اور میں واپس لوٹ آیا۔ میں نے مدہوشی سے چونکتے ہوئے کہا۔
’’کچھ نہیں‘‘۔
رقص ختم ہو چکا تھا۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ اشارتاً زم کہا اور واپس شادی میں لوٹ آئے اور پھر ہم علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی پارٹیوں کی طرف، کنکنی میں جسے سرحدی لکیر شمی کی رسم کہتے ہیں، آمنے سامنے تقسیم ہو کر فریقین بن گئے۔ اب کسی بھی فرد نے اس فرضی لکیر کو اس وقت تک پار نہیں کیا جب تک کہ ویرونیکا کے گھرسے آئی ہوئی شراب انڈیلی جاتی رہی اور احباب نے پی نہ لی۔ میرے گھر والوں نے زم عبور کی۔ پھر دلہا دلہن کی خوشحال زندگی کے لیے دعائیہ ہوا اور پھر ویرونیکا کے دورشتہ دار زم عبور کرکے آئے اور اگلے روز دلہن کے گھر مدعو کرنے کا سندیسہ Apovnnem دیا۔ تب کہیں جاکر زم کی پابندی ختم ہوئی۔ آج جب میں اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو یہ زم ابدی لکیر بن کر سامنے آ جاتی ہے۔ جو ہمیں مرتے دم یا اس کے بعد ہی ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے دے گی۔ ورنہ پریسٹ ہمارا تابوت روک کر رکھیں گے۔ آج میں ماضی کی حسین یادوں میں کھویا تو مجھے گوا کی یہ سچی کہاوت قدرتی طور پر یاد آ گئی کہ دور سے نظر آنے والی پہاڑی کتنی حسین لگتی ہے اور نزدیک والی انتہائی بدصورت۔ نرگسیت کسی بھی شکل ہو بری ہوتی ہے۔ اپنے آپ میں گم شخص دوسرے کے درد کا کیا احساس کر سکتا ہے۔ اس کی تمام توجہ صرف اپنی عقلمندی کے بارے میں دوسروں کے سامنے گفتگو اور خصوصاً مجھے تمسخر کا نشانہ بنانا ہے۔ مجھے ٹرام کے شور شرابے اور قہقہوں کی آواز گھنٹیوں کی آواز لگتی ہے۔ ہماری شادی پورن ماشی کی رات طے ہوئی تھی۔ اس کی شادی کے خوابیدہ گاؤن پر میری نظر بار بار جا رہی تھی۔ اسکا کپڑا ڈیزائن اور رنگ ایسی شام کے وقت چٹکتی چاندنی کی مناسبت سے رکھا گیا تھا اور یہ واقعی ہر ایک کی توجہ کا مرکز تھا۔ یہ کھلی جگہ میں پہننے کے لیے نہیں تھا۔ اس ایمپائر سٹائل کے گاؤن کی ویسٹ لائن، کمرکی پٹی ذرا اوپر تھی اور نیچے نیلی سکرٹ۔ جس کا دور کی دلہنوں میں چلن تھا۔ جو اپنی زندگی کے سب سے اہم دن دبلی نظر آنا چاہتی تھیں۔ یہ اے ٹائپ کا گاؤن اچھی طرح فٹ نظر آتا تھا۔ اس کاجسم اتنا خمیدہ نہ تھا شاید اس لیے اس نے بھی یہ پسند کیا تھا۔ نئی نویلی دلہن کو ٹرام کی افتتاحی تقریب کی طرح سجایا گیا تھا۔ اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ مجھے منزل مقصود تک پہنچا دےگی۔ لیکن سست روٹرام پر کچھ دیر سفر کرنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سست روی جلد ہی پہلے کوفت اور پھر بیزاری کی شکل اختیار کی لیتی ہے۔ جو بعض انتہائی حالات میں ٹرام کی خوبصورت گھنٹی کھینچ کر روکنے کا سبب بن سکتی ہے۔
آپ میرا اشارہ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ بالکل ایسے جیسے ٹرام میں کسی کے پہلی بار بیٹھنے پر شروع میں کانوں کویہ شور بھی بھلا لگتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ سماعت پر ہتھوڑے برسانے لگ جاتا ہے۔ یہ آواز گھنٹوں سنائی دیتی ہے۔ مگر مجال ہے کہ ذہن اس کا عادی ہو جائے۔ کبھی نیند میں اونگھ سے، کبھی سفر کے جھٹکے سے اور کبھی ساتھ کے مسافر کے دھکے سے یک دم تازہ دم ہوکر پھر بھرسنا شروع کر دیتی ہے اور نئی شدت سے ذہن پر حاوی ہو جاتی ہے۔
ٹرام اور عورت دونوں کی مماثلت و خصوصیات باوجود اپنا گلا گھونٹنے کے پیچھا چھوڑنے کانام نہیں لیتی ہیں۔ جیسے میری شادی کی یہ یاداشتیں!۔
جب میرا بیسٹ مین میرا دوست سانچو بنا تھا اور اس کی برائیڈ، فلاور گرلز اور میڈ آف آنر نے تتلیوں جیسے لباس پہنے تھے۔ بابرکت دلہن کا کٹا ہوا ان سلا کپڑا صدو رکھا اور دعائیہ لاطینی کلمات سب نے گائے تھے جو آج بھی میرے دل میں گونج رہے ہیں۔
Tabeo, Laudate Domino, omnes gentes
میں نے اگر ٹرام میوزیم کراچی کا خواب دیکھا تھا تویہ گونزیلس گوا خاندان کی عظیم روایات اور ثقافت سے محبت کے عین مطابق ہی تو تھا۔ لیکن ہرعورت تو میرے مدعا تک نہیں پہنچ سکتی۔ خاص کرو یرونیکا جیسی اور نہ ہی مجھے اپنے ذہن میں اس کا کوئی فرق کبھی محسوس ہوا۔ میں زندگی کیسے گزارتا ہوں۔ کیا کچھ اچھا سمجھتا ہوں یہ تو میرا فطری حق ہے نا آخر۔ چاہے سماج میں کسی کو پسند آئے یانہ آئے۔ ویرونیکا نے میرے ٹرام کی کتابوں کے شوق کو بھی سوکن ہی کی نظر سے اگر دیکھا ہے ہمیشہ تو میں اپنے آپ کو کیوں اس کا ذمہ دار ٹھہراؤں۔ خیر یہ بھی تو میرے ماضی کا ایک حصہ ہے۔ جسے میں بدل نہیں سکتا۔ میں ویرونیکا کو نہ بدل سکا۔ اب زمانہ بھی کتنا بدل گیا ہے۔ ٹرام بھی چھتیس سال پہلے ختم ہو گئی تھی اور اسے گئے ہوئے بھی اتنا ہی عرصہ ہوا ہے۔ شادی کے بعد کرسمس کی نومبر میں خریداری اس نے اپنی پسندیدہ ایمپریس مارکیٹ سے کی تھی۔ جہاں ایک ہی چھت تلے سب چیزیں مل جاتی تھیں۔ سنگترے کے باریک کٹے ہوئے خشک چھلکے، ناریل کے گودے والا دودھ ،مہک، ناریل، جاگری، بیریاں، اسٹرابری، بلیو بیری، پستہ، کشمش وغیرہ۔ ایسا لگتا تھاکہ اس نے تمام گون روایتی میٹھے، نمکین کھان پان بنائے ہیں۔ پانچ مختلف قسم کی ٹافیاں (اخروٹ، پستہ، ناریل، بادام، کاجو وغیرہ) کلکل، مارزی پان، تتلی نما پنیر والے خستہ تہہ دار بسکٹ، تین طرح کے فروٹ، مرمریں اور ہاٹ کیک، کیرامل براؤنی، ناریل گھونگھے، کیرابولہ، دہرا مٹھائی اور گوا کی مشہور زمانہ مٹھائی، بےبینا۔
یہ اس نے ناریل کے پین کیک کی تہہ بچھا کر بنائی تھی۔ اس کے لوازمات میں اس نے جوتری، جاگری، مغز، ناریل اور ناریل کا دودھ شامل کیا تھا۔ ان اجزاء کا چناؤ اس کی گوا کی Rodrigues گھرانے سے مخصوص تھا۔ میں نے بھی ناریل فینی بڑی محنت سے کشید کی تھی اور یہ بڑی بڑھیا بنی تھی۔ کرسمس کی اولین شب کی عبادت ہم نے جمعہ کی رات ہی سینٹرل بروکس میمورئیل چرچ میں کر لی تھی۔ جہاں صرف پندرہ سو لوگوں کی گنجائش تھی۔ گوکہ ہم 24 دسمبر یا کرسمس کی شام بھی یہ کر سکتے تھے۔ ہم رش کی وجہ سے شہر کے سب سے بڑے سینٹ پیڑکس چرچ میں نہیں گئے تھے۔ جہاں پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کا اژدہام ہوتا ہے اور ہماری اتنی ہمت ہرگز نہیں تھی کہ اس انسانی ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں ذرا دیر ہی ٹھہر سکتے۔ ہم سروس کے بعد ان چھٹیوں میں زیادہ سے زیادہ وقت ایک ساتھ ایک دوسرے کی معیت میں گھر میں گزارنا چاہتے تھے۔ کوئی مہمان اگر کرسمس پہ آئے تو آئے۔ ہمارا کہیں جانے کا پروگرام نہ تھا۔ہم گھر پر مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا چاہتے تھے۔
آج میں سمجھتا ہوں کہ شاید ہمارے یہاں کی یہ کہاوت ویرونیکا کے لیے ہی کہی گئی تھی کہ عورت ذات ناقابل بھروسہ ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے وہ مرد سے مطالبات ہی مطالبات، شادی کے بعد شک ہی شک اور موت کے بعد ہی اسے تعظیم دیتی ہے۔ اس کی ضدی طبیعت دیکھ کر شاید وہ خود سے یہ بھی نہ کرے۔ لیکن اگر میں اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا تو لوگ اسے اپنے روئیے سے اس پر مجبور کر دیں گے۔ میں چشم تصور سے اپنے جنازے پر اس کا ماتمی لباس اور ہیٹ اور چہرے پر کالی جالی دیکھ رہا ہوں اور جس پہ اسے چارونا چار آنا پڑےگا۔ میں نے ابھی تک اپنی زندگی میں اس کی موت کا کوئی منظر سوتے جاگتے، کھلی آنکھوں نہیں دیکھا۔ اس کی غیرفطری نفرت کو دیکھتے ہوئے!
سچ ہے کھولتا ابلتا دودھ نہ پیا جا سکتا ہے نہ اگلا جا سکتا ہے۔ گون یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کوئی پھل اتنا بھاری ہرگز نہیں ہوتا کہ بیل اس کا وزن سہار نہ سکے۔ میں نے اسے کھپریل کی چھت تلے پناہ تودی ہوئی تھی آخر۔ خیر اب ان باتوں کا کیا فائدہ سوائے دل جلانے کے۔ یہ قصہ پرانا ہے بہت ہی پرانا۔ ایسا جیسے کراچی ٹراموے کی تاریخ 90 سال پر پھیلی ہوئی ہے۔
ہم کیتھولکس کے ہاں Veronica سے میری طلاق نہیں ہو سکتی اور ٹرام سے میرا ناسٹلجیہ اور اس کی تاریخ سے کوئی بھی میرا پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔
ٹرام تو اب بند ہو چکی ہے۔ میری اور اس کی زندگی کے فیصلے آہستہ خرام ٹرام کی پٹری کی طرح چلتے چلتے بڑھ گئے ہیں اور ہمارے بیچ یوں لگتا ہے کہ ابدی زم کھینچ گئی ہے۔ ٹرام بند ہونے کے بعد لوہے کی بھوکی دنیا میں اس Rolling Stock اور انفرا اسٹریکچر کا کیا بنا۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔ سوچ سکتا ہے کہ پٹریاں اکھڑ کر کہاں گئیں۔۔۔؟ اسی کی دہائی میں اس کی باقی ماندہ ٹرام پٹے کو زنگ آلود ہونے صدرکی سڑکوں پر۔ دلخراش مناظر میری یادداشت پرآج تازیانے لگاتے ہیں۔ ایک اور کرسمس خاموشی سے گزر جانے کے لیے آنے والی ہے۔
میری اب کوئی کرسمس نہیں رہی۔ نہ ویرونیکا کی جلی کٹی باتیں ہیں اور نہ ہی دل کو ٹھنڈک دینے والی ٹرامیں۔ جن پر سفر میرے کرسمس کا لازمی جزو ہوتا۔ مجھے تحفہ دینے والے بھی بھلا چکے ہیں۔ کیونکہ میں نے انہیں ٹرام میوزیم میں مدد دینے کے لیے خطوط اور بروشر نہ بھیجے تھے اور ٹرسٹ بنانے کے لیے اپنے مشن میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔
یہ دروازے پرکون آیا!
’’آؤ سانچو میں تمہیں ہی یاد کر رہا تھا۔ یہ تمہارے ہاتھ میں کتنا خوبصورت گفٹ ریپر میں لپٹا ہواگفٹ ہے۔ یہ تحفہ کیسا ہے۔۔۔؟ مجھ پہ ویسے ہی تمہارے بہت احسانات ہیں‘‘۔
’’یہ تمہارے لیے گوا سے آیا ہے!‘‘
’’گوا سے؟‘‘
اب گوامیں میرا کون رہ گیا ہے۔۔۔ ویرونیکا تو مجھے کچھ بھیجنے سے رہی!‘‘
’’یہ پارسل اسی نے تمہیں بھیجا ہے۔۔۔ اچھا میں چلتا ہوں۔۔۔ ذرا اپنے بھانجے کو رخصت کر دوں۔۔۔ وہ ہی یہ لے کر آیا ہے گوا سے‘‘۔
’’اچھا گاڈ بی ود یو۔ گڈ نائٹ‘‘۔
’’گڈ نائٹ۔۔۔ میں کل تم سے ضرور پوچھوں گاکہ اس ریڈ باکس میں کیا ہے؟
’’اوکے۔۔۔ ضرور۔۔۔ بائی۔۔۔!‘‘
’’بائی!‘‘
اور اگلے دن جب گونزیلس نے سانچو کے دروازے پیٹنے پر بھی اسے نہ کھولا تو اس نے دروازہ زور لگا کر کھول لیا۔ اسے گونزیلس نیم اندھیرے ہال کی راکنگ چیئر پر بیٹھا نظر آیا۔ اس کی گود میں اس کا بنایا ہوا ٹرام کا آخری ماڈل تھا اور ہاتھ میں ویرونیکا کی بھیجی ہوئی ’’کاجو فینی‘‘ کی خالی بوتل اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا تھا!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.