کلیانی
اب اسے ان کالی، بھوری راہوں پرچلنے سے کوئی ڈرنہ آتاتھا، جہاں بے شمارگڑھے تھے، جن میں کالاپانی، بمبئی کے اس صنعتی شہر کی میل ہمیشہ جمع رہتی تھی اورکبھی تہہ پہ تہہ بیٹھتی۔ بے شکل سے پتھر، ادھر سے ادھرجیسے شوقیہ پڑے تھے۔ بیکار، آخری روڑا ہونے کے لیے۔ اوروہ۔۔۔ شروع کے دن جب ٹانگیں کانپتی تھیں اورتنکے بھی روکنے میں کامیاب ہوجاتے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گلی کے موڑ پہ دیسی صابن کے بڑے بڑے چاک بنانے والا اوراس کے پڑوس میں حجام دیکھ رہے ہیں اور برابرہنس رہے ہیں۔ کم سے کم رو بھی نہیں رہے ہیں۔ پھر’باجو‘ کاکوئیلے والا، جوآپی توشاید اس چکلے میں کبھی نہ گیاتھا، اس پہ بھی اس کامنہ کالا تھا۔
بغل میں پہلے مالے پہ کلب تھی، جہاں چوری کی رم چلتی تھی اورماری کی رمی۔ اس کی کھڑکیاں کسی یوگی کی آنکھوں کی طرح سے باہرکی بجائے اندرامن کے چکلے میں کھلتی تھیں اوران میں سگریٹوں کے دھوئیں کی صورت میں آہیں نکلتی تھیں۔ لوگ یوں توجوئے میں سیکڑوں کے ہاتھ دیتے تھے مگر سگریٹ ہمیشہ گھٹیاپیتے تھے۔ بلکہ بیڑی، صرف بیڑی، جس کا جوئے کے ساتھ وہی تعلق ہوتاہے جوپنسلین کا آتشک سے۔۔۔ یہ کھڑکیاں اندرکی طرف کیوں کھلتی تھیں؟ نہ معلوم کیوں؟ مگرکوئی خاص فرق نہ پڑتا تھا، کیوں کہ اندر کے صحن میں آنے والے مرد کی صرف چھایا ہی نظرآتی، جس سے معاملہ پٹاتی ہوئی لڑکی اسے اندرلے جاتی، بٹھاتی اورایک بارضرورباہرآتی۔ نل پرسے پانی کی بالٹی لینے، جوصحن کے عین بیچوں بیچ لگاہوا تھا اوردونوں طرف کی کھولیوں کی، طرح طرح کی ضرورتوں کے لیے کافی تھا۔
پانی کی بالٹی اٹھانے سے پہلے لڑکی ہمیشہ اپنی دھوتی یاساری کوکمرمیں کستی اور گاہک لگ جانے کی اکڑمیں کوئی نہ کوئی بات اپنی ہم پیشہ بہن سے ضرورکہتی۔ اے گرجا! جراچاول دیکھ لینا، میرے کوگاہک لگاہے۔۔۔ پھر وہ اندر جاکر دروازہ بند کرلیتی۔ تبھی گرجاسندری سے کہتی، کلیانی میں کیاہے ری، آج اسے دوسرا کسٹمر لگاہے؟ لیکن سندری کے بجائے جاڑی ہا، کُھرسیدجواب دیتی۔ اپنی اپنی کسمت ہے نا۔۔۔ تبھی کلیانی والے کمرے سے زنجیر لگنے کی آواز آتی اور بس۔
سندری ایک نظربند دروازے کی طرف دیکھتی اوراپنے سنے ہوئے بالوں کو چھانٹتی۔ تولیے سے پونچھتی ہوئی گنگنانے لگتی۔ رات جاگی رے بلم، رات جاگی۔۔۔ اورپھر ایکا ایکی گرجاسے مخاطب ہواٹھتی، اے گرجاکلیانی کے چاول ابل رہے ہیں۔ دیکھتی نہیں کیسی گڑگڑ کی آواز آرہی ہے اس کے برتن سے؟ اور پھرتینوں چاروں لڑکیاں مل کر ہنستیں اورایک دوسری کے کولھے میں چپے دینے لگتیں۔ تبھی گرجا بلبلا اٹھتی اورکہتی، ائیاجورسے کیوں مارا رنڈی! جانتی ہے، ابھی تک دکھ رہاہے میراپھول؟ کان کوہاتھ لگایا، بابا! میں توکیامیری آل اولاد بھی کبھی کسی پنجابی کے ساتھ نہ بیٹھے گی۔ پھرگرجا بغل کی کھولی میں کسی چھوکری کوآواز دیتی، گنگی، تراپوپت کیابولتا؟ گنگی کی شکل تونہ دکھائی دیتی، صرف آواز آتی ہے۔ میرا پوپت بولتا۔ بھج من رام بھج من رام۔۔۔ مطلب گنگی گویا توسرمیل ہے اوریاپھر کوئی کسٹمرنہیں لگا۔
مہی پت لال اب کے مہینوں بعدادھر آیاتھا۔ بیچ میں منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے وہ یہاں سے کچھ ہی فرلانگ دور ایک نیپالی لڑکی چونی لا کے پاس چلاگیاتھا اور اس کے بعدچھیانوے نمبر کی ایک کرسچین چھوکری میں پھنس گیا، جس کا اصلی نام توکچھ اورتھا لیکن وہاں کی دوسری لڑکیاں اور دلال اسے اولگا کے نام سے پکارتے تھے۔ ادھرکلیانی کوکچھ پتہ بھی نہ تھا، کیوں کہ اس دھندے میں تودوچار مکانوں کافاصلہ بھی سیکڑوں میل کا ہوتاہے۔ لڑکیاں زیادہ سے زیادہ پکچردیکھنے کونکلتی تھیں اورپھرواپس۔۔۔ جس منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے مہی پت دوسری لڑکیوں کے پاس چلا گیاتھا، اسی کے لیے اس اڈے پر لوٹ آیا۔ لیکن یہ بات طے تھی کہ اتنے مہینوں کے بعدوہ کلیانی کوبھول چکا تھا، حالانکہ ملک جانے کے لیے اس نے کلیانی کودوسوروپے بھی دیے تھے۔ تب شاید نشے کاعالم تھا، جیسا کہ اب تھا۔ بیئرکا پوراپیگ پی جانے کے کارن مہی پت لال کے دماغ میں کسی اورہی عورت کی تصویرتھی اوروہ بھی نامکمل، کیوں کہ اسے مکمل تومہی پت ہی کوکرناتھا۔ ایک مصور کی طرح سے جوکہ مردہوتاہے اور تصویر جوکہ عورت ہوتی ہے۔۔۔
اندرآتے ہی مہی پت نے صحن کے پہلے پیراپٹ کوپھلانگا۔ تین چارسیڑھیاں نیچے اترا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ پاتال، نرک کہیں دور دھرتی کے اندر ہیں لیکن نہیں جانتے کہ وہ صرف دوتین سیڑھیاں نیچے ہیں۔ وہاں کوئی آگ جل رہی ہے اور نہ ابلتے کھولتے ہوئے کنڈ ہیں۔ ہوسکتا ہے سیڑھیاں اترنے کے بعدپھر اسے کسی اوپر کے تھڑے پہ جانا پڑے، جہاں سامنے دوزخ ہے، جس میں ایسی ایسی اذیتیں دی جاتی ہیں کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سیڑھیاں اترنے کے بعد صحن میں پاؤں رکھنے کی بجائے مہی پت لال کھولیوں کے سامنے والے تھڑے پہ چلا گیا، کیوں کہ پکاہونے کے باوجود صحن میں ایک گڑھا تھا جس میں ہمیشہ ہمیشہ پانی جمع رہتا تھا۔ برس ڈیڑھ پہلے بھی یہ گڑھا ایسا تھا اوراب بھی ایسا ہی ہے لیکن گڑھے کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ اس کا پتہ ہو۔ اوپر صحن کے کھلے ہونے کی وجہ سے آسمان کا چاندگڑھے کے پانی میں جھلملارہا تھا، جیسے اسے میل، سرمیل کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ نل سے پانی کا چھینٹا اس پرپڑتا توچاند کی چھبی کانپنے لگتی۔ پوری کی پوری۔۔۔
کچھ گاہک لوگ گرجا، سندری اورجاڑی کویوں ٹھونک بجاکے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کچے گھڑے ہوں۔ ان میں سے کچھ اپنی جیبیں ٹٹول رہے تھے۔ مستری جاڑی کے ساتھ جاناچاہتا تھا کیوں کہ وہ گرجاسندری، کھرسید سے زیادہ بدصورت تھی مگر تھی آٹھ اینٹ کی دیوار۔ حیرانی تو یہ تھی کہ لڑکیوں میں سے کسی کوحیرانی نہ ہورہی تھی۔ وہ مرد اوراس کے پاگل پن کواچھی طرح سے جانتی تھیں۔ مہی پت نے سندری کودیکھا جوویسے تو کالی تھی، مگرعام کونکنی عورتوں کی طرح تیکھے نقش نینوں والی۔ پھر کمرسے نیچے اس کا جسم، باپ رے ہوجاتا تھا۔ تبھی مہی پت کے کرتے کوکھینچ پڑی۔ اس نے مڑکردیکھا توسامنے کلیانی کھڑی تھی اور ہنستے ہوئے اپنے داتنوں کے موتی رول رہی تھی مگروہ دبلی ہوگئی تھی۔ کیوں؟ نہ معلوم کیوں؟ چہرہ یوں لگ رہا تھا جیسے دوآنکھوں کے لیے جگہ چھوڑکرکسی نے ڈھولک پہ چمڑہ مڑھ د یاہو۔ چونکہ عورت اورتقدیرایک ہی بات ہے، اس لیے مہی پت کلیانی کے ساتھ تیسری کھولی میں چلاگیا۔
کلب گھر کی کھڑکی میں سے کسی نے جھانکا اور ادبھ کربساط الٹ دی۔ کلیانی نے باہرآکر نل پہ بالٹی بھری، دھوتی کو کمر سے کسا اور آواز دی، اوگرجا تھوڑا ہمار اگٹھری سنبھالنا اورپھر وہ پانی لے کر کھولی میں چلی گئی۔ پاس کی کھولی سے میڈم کی آواز آئی۔۔۔ ایک ٹیم کا، دوٹیم کا؟
اندرکلیانی نے مہی پت کوآنکھ ماری اورمیڈم والی کھولی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی، ایک ٹیم اورپھر اس نے پیسوں کے لیے مہی پت کے سامنے ہاتھ پھیلادیا، جسے پکڑکر مہی پت اسے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ پھر اٹھ کر اس نے پان سے پٹی، لال لال مہرسی کلیانی کے ہونٹوں پہ لگادی جسے دھوتی کے پلوسے پونچھتی ہوئی وہ ہنسی، اتنے بے صبر؟ اورپھرہاتھ پھیلاکرکہنے لگی، تم ہم کو تیس روپیہ دے گا، پرہم میڈم کوایک ہی ٹیم کا بولے گا اورتم بھی اس کونہیں بولنے کا۔ آں؟
مہی پت نے ایسے ہی سرہلادیا، آں۔
بدستور ہاتھ پھیلائے ہوئے کلیانی بولی، جلدی نکال۔
پیسے۔۔۔؟ مہی پت بولا۔
کلیانی نے اب کے رسم نہیں ادا کی، وہ سچ مچ ہنس دی۔ نہیں، وہ شرماگئی۔ ہاں، وہ دھنداکرتی تھی اور شرماتی بھی تھی۔ کون کہتاہے وہاں عورت عورت نہیں رہتی؟ وہاں بھی حیا اس کا زیورہوتاہے اورحربہ، جس سے وہ مرتی بھی ہے اورمارتی بھی۔ مہی پت نے تیس روپے نکال کرکلیانی کے ہتھیلی پررکھ دیے۔ کلیانی نے ٹھیک سے اسے گنابھی نہیں۔ اس نے توبس پیسوں کوچوما، سراورآنکھوں سے لگایا، بھگوان کی تصویر کے سامنے ہاتھ جوڑ ے اور میڈم کوایک ٹائم کے پیسے دیے اوراپنے حصے کے پانچ لے کررکھے، اندر کے دروازے کی طرف سے اوربھی اندرچلی گئی۔ مہی پت کو جلدی تھی۔ وہ بے صبری سے درگا میا کی تصویر کو دیکھ رہاتھا، جوشیرپہ بیٹھی تھی اورجس کے پاؤں میں راکشش مراپڑاتھا۔ درگا کی درجنوں بھجائیں تھیں جن میں سے کسی میں تلوارتھی اور کسی میں برچھی اور کسی میں ڈھال۔ ایک ہاتھ میں کٹا ہوا سرتھا، بالوں سے تھاماہوا اورمہی پت کومعلوم ہورہا تھا جیسے وہ اس کااپنا سرہے لیکن درگا کی چھاتیاں، اس کے کولہے اوررانیں بنانے میں مصور نے بڑے جبر سے کام لیاتھا۔
دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں، وہ کوئی بات نہ تھی لیکن ان پہ لپکتی ہوئی سیل اور اس میں گڈمڈ کائی نے عجیب بھیانک سی شکلیں بنادی تھیں، جن سے طبیعت بیٹھ بیٹھ جاتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ دیواریں نہیں، تبتی اسکول ہیں جن پرنرک اورسورگ کے نقشے بنے ہیں گنہگاروں کواژدہے ڈس رہے ہیں اور شعلوں کی لپلپاتی ہوئی زبانیں انہیں چاٹ رہی ہیں۔ پورا سنسارکال کے بڑے بڑے دانتوں اور اس کے کھوہ ایسے منہ میں پڑاہے۔
وہ ضرورنرک میں جائے گا۔ مہی پت۔۔۔ جانے دو؟
کلیانی لوٹی اور لوٹتے ہی اس نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کردیے۔
یہ کھیل مرداورعورت کا۔۔۔ جس میں عورت کواذیت نہ بھی ہوتو بھی اس کاثبوت دینا پڑتاہے اور اگرہوتو مرد اسے نہیں مانتا۔ مہی پت پہلے توایسے ہی کلیانی کونوچتا کاٹتا رہا۔ پھروہ کود کرپلنگ سے نیچے اترگیا۔ وہ کلیانی کونہیں کائنات کی عور ت کودیکھناچاہتا تھا کیوں کہ کلیانیاں تو آتی ہیں اورچلی جاتی ہیں۔ مہی پت بھی آتے ہیں اورچلے جاتے ہیں لیکن عورت وہیں رہتی ہے اور مردبھی۔ کیوں؟ یہ سب کچھ سمجھ میں نہیں آتا، حالانکہ اس میں سمجھ کی کوئی بات ہی نہیں۔
ایک بات ہے۔ ست جگ، دواپر اورترتیاجگوں میں توپورانیائے تھا۔ پھربھی عورتیں محبت میں کیوں چوری کرجاتی تھیں؟ جب گنگاویشیاکیوں تھیں؟ آج تو ا نیائے ہے۔ پگ پگ پہ انیائے۔ پھرانہیں کیوں روکا جاتا ہے؟ کیوں ان پہ قانون لگائے جاتے ہیں؟ جوروپیہ ٹکسا ل سے آتاہے اس کی قیمت آٹھ آنے رہ جاتی ہے۔ افلاس اور وافرپیسے کے میل جول کی جتنی ضرورت آج ہے، تاریخ میں کبھی ہوئی ہے؟ دبالیں اسے تاکہ گھرکی لکشمی باہر نہ جائے۔ مگردولت، پیسہ تو BITCH GODDESSہے، وہ کتیابوپہ آئے گی توجائے گی ہی۔۔۔
مہی پت کوالجھاوے کی ضرورت تھی، اسی لیے اسے کائنات کی عورت کے پیچ وخم کھاگئے۔ اس نے ایک بیئر کے لیے کہا لیکن اس سے پہلے کہ کلیانی کاکالا مرد اٹھ کرلڑکے کوآواز دے، وہ خودہی بول اٹھا، رہنے دو، اور اس نظارے کو دیکھنے لگا جونشے سے بھی زیادہ تھا۔ پھرجانے کیا ہوا۔ مہی پت نے جھپٹ کراتنے زور سے کلیانی کی ٹانگیں الگ کیں کہ وہ بلبلااٹھی۔ اپنی بربریت سے گھبراکر مہی پت نے خودہی اپنی گرفت ڈھیلی کردی۔ اب کلیانی پلنگ پہ پڑی تھی اور مہی پت گھٹنوں کے بل نیچے فرش پربیٹھا ہواتھا اوراپنے منہ میں زبان کی نوک بنارہا تھا۔ کلیانی لیٹی ہوئی اوپر چھت کودیکھ رہی تھی، جہاں پنکھا، جالے میں لپٹا ہوا، ایک آہستہ رفتار سے چل رہاتھا۔ پھرایکاایکی کلیانی کو کچھ ہونے لگا۔ اس کے پورے بدن میں مہی پت اوراس کی زبان کے کارن ایک جھرجھری سی دوڑگئی اوراس چیونٹے کی طرح سے تلملانے لگی، جس کے سامنے بے رحم بچے جلتی ہوئی ماچس رکھ دیتے ہیں۔۔۔
جبھی اپنے آپ سے گھبراکرمہی پت اوپرچلاآیا۔ اس کے بدن میں بے حدتناؤ تھا اوربجلیاں تھیں، جنہیں وہ کیسے بھی جھٹک دینا چاہتا تھا، اس کے ہاتھوں کی پکڑ اس قدر مضبوط تھی کہ جابر سے جابر آدمی اس سے نہ نکل سکتا تھا۔ اس نے ہانپتی ہوئی کلیانی کی طرف دیکھا۔ اسے یقین ہی نہ آرہا تھا کہ ایک پیشہ ور عورت کی چھاتیوں کاوزن بھی ایکاایکی بڑھ سکتاہے اوران کے حلقے اور دانے پھیل کر اپنے مرکز، ابھرے ہوئے مرکز کوبھی معدوم کرسکتے ہیں۔ ان کے اردگرد اورکولہوں اوررانوں پرستیلاکے داغ سے ابھرسکتے ہیں۔ اپنی وحشت میں وہ اس وقت کائنا ت کی عورت کوبھی بھول گیا اورمردکوبھی۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہ رہا کہ وہ خود کہاں ہے اورکلیانی کہاں؟ وہ کہاں ختم ہوتا ہے اورکلیانی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ وہ اس قاتل کی طرح سے تھا جوچھت پرسے کسی کودھکیل دیتاہے۔ اسے یقین ہوتاہے کہ اتنی بلندی سے گرکردھیان دینے کے لیے بھی زندہ نہ رہے گا اور وہ اس پہ خودکشی کاالزام لگاکرخودبچ نکلے گا۔ ایک جست کے ساتھ اس نے اپنا پورا بدن کلیانی پہ پھینکنا شروع کردیا۔
ایک دلدوز سی چیخ نکلی اور بلبلاہٹ سنائی دی۔ سیل اور کائی سے پٹی دیواروں پہ پنکھوں کے پراپنی بڑی بڑی پرچھائیں ڈال رہے تھے۔ جانے کس نے پنکھے کوتیز کردیاتھا؟ مہی پت پسینے سے شرابور تھااورشرمندہ بھی، کیوں کلیانی رورہی تھی، کراہ رہی تھی، یاوہ ایک عام کسبی کی طرح سے گاہک کولات مارنا نہ جانتی تھی اوریاپھر وہ اتنے اچھے گاہک کوکھودینے کے لیے تیارنہ تھی۔
سرہانے میں منہ چھپائے، کلیانی الٹی لیٹی ہوئی تھی اور اس کے شانے پھڑکتے ہوئے دکھائی دے رہے تے۔ تبھی مہی پت ایک پل کے لیے ٹھٹک گیا پھرآگے بڑھ کر اس نے کلیانی کے چہرے کوہاتھوں میں لینے کی کوشش کی مگرکلیانی نے اسے جھٹک دیا۔ وہ سچ مچ رورہی تھی۔ اس کے چہرے کوتھامنے میں مہی پت کے اپنے ہاتھ بھی گیلے ہوگئے تھے۔ آنسوتواپنے آپ نہیں نکل آتے۔ جب جبراوربے بسی خون کی ہولی کھیلتے ہیں تبھی آنکھیں چھان پٹک کراس لہو کوصاف کرتی ہوئی چہرے پہ لے آتی ہیں۔ اگراسے اپنے ہی رنگ میں لے آئیں تودنیا میں مرددکھائی دے نہ عورت۔
کلیانی نے پھراپناچہرہ چھڑالیا۔
مہی پت پہلے صرف شرمندہ تھا، پھرسچ مچ شرمندہ تھا۔ اس نے کلیانی سے معافی مانگی اور مانگتا ہی چلا گیا۔ کلیانی نے پلنگ کی چادر سے آنکھیں پونچھیں اوربے بسی سے مہی پت کی طرف دیکھا، پھروہ اٹھ کر دونوں بازو پھیلائے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ اس کی چوڑی چکلی چھاتی پراپنے گھنگھریالے بالوں والا کونکنی سررکھ دیا۔ پھراس کی گھگھی بندھ گئی، جس سے نکالنے میں مہی پت کواوربھی تلذذ کا احساس ہوا۔۔۔ اورکلیانی کوبھی۔ اس نے اپنے گھاتک ہی کی پناہ ڈھونڈلی۔ مردتومرد ہوگاہی، باپ بھی تو ہے، بھائی بھی توہے۔۔۔ عورت عورت ہی سہی، مگروہ بیٹی بھی توہے، بہن بھی تو ہے۔۔۔
اور ماں۔۔۔
مہی پت کی آنکھوں میں سچ مچ کے پچھتاوے کودیکھتے ہی تصویرالٹ گئی۔ اب اس کا سرکلیانی کی چھاتی پرتھا اوروہ اسے پیار کررہی تھی۔ مہی پت چاہتاتھا کہ وہ اس عمل کوانجام پہ پہنچائے بغیر ہی وہاں سے چلاجائے لیکن کلیانی اس توہین کوبرداشت نہ کرسکتی تھی۔ کلیانی نے پھر اپنے آپ کو اذیت ہونے دی۔ بیچ میں ایک دوبار وہ درد سے کراہی بھی اورپھربولی۔۔۔ ہائے میرا پھول۔۔۔ بھگوان کے لیے۔۔۔ میرے کوسوئی لگواناپڑتا۔۔۔ پھرآہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ اس نے دکھ سکھ سہتے ہوئے کائنات کے مرد کوختم کردیا اور اسے بچہ بناکر گود میں لے لیا۔ مہی پت کے ہرالٹے سانس کے ساتھ کلیانی بڑی نرمی اوربڑی ہی ممتا سے اس کا منہ چوم لیتی تھی، جس سے سگریٹ اورشراب کا تعفن لپک رہا تھا۔
دھونے دھلانے کے بعدمہی پت نے اپناہاتھ کپڑوں کی طرف بڑھایا مگرکلیانی نے تھام لیا اور بولی، میرے کوبیس روپیہ جیاستی دو۔
بیس روپیہ؟
ہاں۔ کلیانی نے کہا۔ ہم تمہارا گن گائے گا۔ ہم بھولا نہیں اودن جب ہم ملک گیاتھا، توتم ہم کو دوسوروپیہ روکڑا دیا۔ ہم کاردار کابڑا مندرمیں ایک ٹانگ سے کھڑا ہوکے تمہارے واسطے پرارتھناکیا اوربولا، میرامہی پت کارکشاکرنا بھگوان۔ اس کو لمباجندگی دینا، پیسہ دینا۔۔۔ اورکلیانی امیدبھری نظروں سے پہلی اور اب کی پرارتھنا کا اثردیکھنے لگی۔
مہی پت کے نتھنے نفرت سے پھولنے لگے۔ پیشہ ورعورت! پچھلی بار دوسوروپے لینے سے پہلے بھی ایسے ہی ٹسوئے بہائے تھے اس نے۔ یوں روئی چلائی تھی جیسے میں کوئی انسان نہیں جانور ہوں، وحشی ہوں۔۔۔ مگر اور بیس روپے؟ پھررونے کی کیا ضرورت تھی۔ آنسو بہانے کی؟ ایسے ہی مانگ لیتی تو کیا میں انکارکردیتا۔۔۔؟ جانتی بھی ہے، میں پیسے سے انکارنہیں کرتا۔ دراصل انکارمجھے آتاہی نہیں۔ اسی لیے توبھگوان کا سوشکرکرتاہوں کہ میں عورت پیدانہیں ہوا، ورنہ۔۔۔ میں تویہاں منہ مانگے دینے کاقائل ہوں، جس سے پھرگناہ کااحساس نہیں ہوتا۔
ایسے ہی آدمی کا توانتظار کیاکرتی ہیں۔ اورجب وہ آتا ہے تواس سے جھوٹ بولنے، اس کے کپڑے اتارنے سے بھی نہیں چوکتیں۔ کہتی ہیں، میں نے سوچا تھا تم منگل کوجرورآؤگے۔۔۔ منگل کو کیاہے بھائی۔۔۔؟ منگل کو میں نے بھگوان سے پرارتھنا کی تھی۔۔۔ یہ رونا۔۔۔ شاید سچی روئی ہو۔ میں نے بھی توایک اندھے کی طرح سے کہیں بھی چلنے دیا اپنے آپ کو۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ تاؤ کتنا اچھا تھا۔۔۔ مگر میں نے جواذیت دی ہے اسے، اس سے نجات پانے کاایک ہی طریقہ ہے۔ دے دوروپے۔ مگرکیوں؟ پہلے ہی میں نے اسے دوٹیم کے پیسے دیے اورایک ہی ٹائم بیٹھا۔
مہی پت کے حیص بیص کودیکھ کرکلیانی نے کہا۔ کیا سوچنے کولگ گیا؟ دے دونا۔ میرابچہ تم کودعا دے گا۔۔۔
تیرا بچہ؟
ہاں۔۔۔ تم نے نہیں دیکھا؟
نہیں۔۔۔ کہاں، کس سے لیا؟
کلیانی ہنس دی، پھر لجاگئی۔ اس پہ بھی بولی، کیامالم کس کا؟ میرے کوشکل تھوڑا دھیان میں رہتا؟ کیا کھبرتمہارا ہو۔
مہی پت نے گھبراکر کرتے کی جیب سے بیس روپے نکال کرکلیانی کے ہاتھ پررکھ دیے، جوابھی تک برہنہ کھڑی تھی اورجس کی کمر اور کولھوں پہ پڑا ہوا چاندی کاٹیکا چمک رہا تھا۔ ایک ہلکا سا ہاتھ کلیانی کے پیچھے تھپتھپاتے ہوئے مہی پت نے کچھ اورسوچ لیا۔ کلیانی نے ساری پکڑکر لپیٹی ہی تھی کہ وہ بولا، اگرایک ٹائم اوربیٹھ جاؤں تو؟ (پیسے دے دیے ہیں)
بیٹھو۔ کلیانی نے بناکسی جھجھک کے کہا اوراپنی ساری اتارکر پلنگ پرپھینک دی۔ چُلوں چُلوں کرتاہوااس کا گوشت سب ماربھول چکا تھا۔ عقل حیوانی سے بھی تجاوز کرچکا تھا۔۔۔ لیکن مہی پت نے سرہلادیا۔ اب دم نہیں رہا!
ہوں۔ کلیانی نے کہا۔ بہت جن آتا میرے ادھر، پرتم ساکڑک ہم نہیں دیکھاسچی۔ تم جاتا توبہت دن یہ (ناف) ٹھکانے پہ نہیں آتا۔
چاندگڑھے پرسے سرک گیاتھا، کوئی بالکل ہی لیٹ جائے تو اسے دیکھ پائے، تبھی کلیانی مہی پت کا ہاتھ پکڑ کر اس کمرے میں لے آئی، جہاں گرجا، سندری، جاڑی وغیرہ تھیں۔ جاڑی مستری اوراس کے بعد ایک بوہرے کوبھی بھگتاچکی تھی۔ ایک سردار سے جھگڑا کرچکی تھی۔ جب مہی پت آیا تو اس نے کُھرسید کے کہنی ماری اور بولی، آیا، کلیانی کا مرد۔۔۔ اس لیے کہ پہلے جب مہی پت ادھرآیاتھا توہمیشہ کلیانی ہی کے پاس۔
کلیانی کے ساتھ کھولی میں آتے ہوئے، مہی پت نے باتھ روم کے پاس پڑی ہوئی گٹھری کودیکھا جس کے پاس بیٹھی ہوئی گرجااپنے پلوسے اسے ہواکررہی تھی۔ کلیانی نے گٹھری کواٹھالیااور مہی پت کے پاس لاتے ہوئے بولی، دیکھو، دیکھومیرا بچہ۔ مہی پت نے اس لجلجے چارپانچ مہینے کے بچے کی طرف دیکھا، جسے گود میں اٹھائے کلیانی کہہ رہی تھی، اسی ہلکٹ کوپیدا کرنے، دودھ پلانے سے ہم یہ ہوگیاہے۔ کھانے کوکچھ ملتانہیں نا۔ اس پہ تم آتاتو۔۔۔
پھرایکاایکی مہی پت کے کان کے پاس منہ لاتے ہوئے کلیانی بولی، سندری کودیکھتا؟ تم بولے گا تواگلے ٹیم ہم سندری کو لادے گا۔۔۔ نہیں نہیں، پرسوں ہم آپی اچھا ہوجائے گا۔ یہ سب جگہ بھرجائے گانا۔۔۔ اورکلیانی نے اپنی چھاتی اوراپنے کولھوں کوچھوتے ہوئے کہاکہ یہ سب، جن سے تم اپناہاتھ بھرتا، اپناباجو بھرتا، ٹھیک ہے۔ کچھ ہاتھ میں بھی توآنا مانگتا۔ سندری کولیناہوئیں گا، تومیرے کوبولنا، ہم سب ٹھیک کردے گا، پرتم کوآنے کا میرے پاس۔ گرجا کے پاس نہیں آنے کا۔ اوچھناراوں آں بوت کر، بوت نکھرااس کا۔۔ اورپھربچے کواپنے بازوؤں میں جھلاتے ہوئے کلیانی بولی، ہم اس کا نام اچمی رکھا۔
اچمی۔۔۔ اچمی کیا؟
یہ توہم کونہیں مالم۔ کلیانی نے جواب دیا اورپھرتھوڑاہنسی۔ کوئی آیاتھا کسٹمر، بولا، میراتیرے کوٹھہرگیا تواس کا نام اچمی رکھنے کا۔ یہ تو ہم نہیں بولنے سکتا، اسی کا ٹھہراکہ کس کا، پرنام یادرہ گیا میرے کو۔ اوتو پھرایاچ نہیں اورتم بھی کوچھ نہیں بولا۔۔۔ اور پھرہنستے ہوئے بولی، اچھا، اگلے ٹیم دیکھیں گا۔۔۔
مہی پت نے ایک نظراچمی کی طرف دیکھا اورپھراردگرد کے ماحول کی طرف۔ یہاں پلے گا یہ بچہ! بچہ۔۔۔ میں توسمجھتا تھا، ان لڑکیوں کے پاس آتا ہوں تومیں کوئی پاپ نہیں کرتا۔ یہ دس کی آشارکھتی ہوں تومیں بیس دیتاہوں۔ یہ بچہ؟
یہاں تودم گھٹتا ہے۔۔۔ جاتے سمے توگھٹتاہی ہے۔
مہی پت نے جیب سے پانچ کا نوٹ نکالا اوراسے بچے پہ رکھ دیا۔ یہ اس دنیا میں آیاہے، اس لیے یہ اس کی دکشناہے۔
نہیں نہیں۔ یہ ہم نہیں لے گا۔
لیناپڑے گا، تم انکارنہیں کرسکتیں۔
پھرواقعی کلیانی انکار نہیں کرسکی، بچے کی خاطر؟ مہی پت نے کلیانی کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، مجھے معاف کردوکلیانی، میں نے سچ مچ آج تم سے جانوروں کا ساسلوک کیاہے لیکن مہی پت کی بات سے یہ بالکل پتہ نہ چلتا تھا کہ اب وہ ایسا نہ کرے گا۔ ضرور کرے گا وہ۔ اسی بات کا تونشہ تھا اسے۔ بیئرتوفالتوسی بات تھی۔
کلیانی نے جواب دیا، کوئی بات نہیں، پرتم آج کھلاص کردیا، ماردیامیرے کو، اوروہ یہ شکایت کچھ اس ڈھب سے کررہی تھی، جیسے مرناہی توچاہتی تھی وہ۔ کیااس لیے کہ پیسے ملتے ہیں، پیٹ پلتا ہے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔ ہاں جب بھوک سے پیٹ دکھتا ہے تومعلوم ہوتا ہے دنیا میں سارے مردختم ہوگئے۔ عورتیں مرگئیں۔
مہی پت نے پوچھا، یہ اچمی لڑکا ہے یا لڑکی؟
ایک عجیب سی کرن نے کلیانی کے پٹے، مارکھائے ہوئے چہرے کومنور کردیا اوروہ چہرے کی پنکھڑیاں کھولتے ہوئے بولی، چھوکرا! پھرکلیانی نے جلدی اچمی کالنگوٹ کھولا اور دونوں ہاتھوں سے اسے اٹھاکراچمی کے لڑکے پن کومہی پت کے سامنے کرتی، اتراتی ہوئی بولی دیکھو، دیکھو۔۔۔
مہی پت کے منہ موڑتے ہی کلیانی نے پوچھا، اب کبھی آئیں گا؟
جلدی۔۔۔ مہی پت نے گھبراکرجواب دیا اورپھروہ باہرکہیں روشنیوں میں منہ چھپانے کے لئے نکل گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.