کمبل
کنو بابا بینک آف انڈیا کے چھجے کے نیچے دو فٹ اونچے چبوترے پر بائیں کنارے اسی جگہ بیٹھا تھا جوا س نے ایک عرصے سے اپنے لیے مخصوص کر رکھی تھی۔ چھجا عمارت کی چھت کا ایک حصہ تھا جو سامنے کی دیوار سے تقریباً پانچ فٹ آگے کو نکلا ہوا تھا اور بینک میں داخل ہونے والوں کو دھوپ اور بارش سے محفوظ رکھتا تھا۔ برسات کے دنوں میں وہ راہگیر اس چھجے کے نیچے اس وقت پناہ لے لیتے تھے، جب وہ بینک کے سامنے سے گزر رہے ہوتے تھے اور اچانک بارش شروع ہو جاتی تھی۔ پتہ نہیں عمارت کے مالک نے یہ چھجا عمارت کی سامنے کی دیوار اور بڑے سے اونچے داخلی دروازے کو بارش سے محفوظ رکھنے کے لیے ہی بنوایا تھا یا مقصد راہگیروں کو بارش سے وقتی پناہ دینا بھی تھا۔ بہرکیف تقریباً پانچ فٹ چوڑا یہ چھجا سامنے کی دیوار، داخلی دروازے اور راہگیروں کے کام تو آتا ہی تھا کئی مہینے سے کنو بابا کے کام بھی آ رہا تھا۔ چبوترے کی وہ تین فٹ جگہ کنو بابا کی مستقل رہائش گاہ بنی ہوئی تھی، جہاں بیٹھ کر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنی پاٹ دار آواز میں ’’بگڑی بنانے والے بگڑی بنا دے، نیا ہماری پار لگا دے‘‘ گایا کرتا تھا۔ رات کو وہ تین فٹ جگہ چھ فٹ ہو جاتی تھی اور کنو بابا کا گیت صبح تک کے لیے ملتوی ہو جاتا تھا۔
کنو بابا کون تھا، کہاں سے آیا تھا، کسی کو علم نہیں تھا۔ نہ ہی کسی کو یہ علم تھا کہ وہ ’’کنو‘‘ کیوں تھا یا ’’بابا‘‘ کیوں تھا۔ کسی کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ نابینا کیوں تھا یا کب سے تھا، جس دیار میں قدم قدم پر کنو بابا موجود ہوں وہاں کوئی ایک کنو بابا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
کنو بابا کا جسم بھی ویسا ہی تھا جیسا کسی کنو بابا کا ہوتا ہے اور اس کے جسم پر چیتھڑے بھی ویسے ہی تھے جیسے کسی کنو بابا کے جسم پر ہوتے ہیں۔ اس کے سر، داڑھی اور مونچھوں کے گرد زدہ سفید بالوں میں کہیں کہیں تار تار سیاہی اب بھی نظر آتی تھی۔ لوگ اسے پیسے نہیں دیتے تھے۔ وہ لیتا ہی نہیں تھا۔ ’’او بھائی، میں پیسے لے کے ان کا کروں گا کیا؟ نہ میں سیٹھ نہ ساہوکار۔ اٹھاؤ اپنے یہ پیسے اور راستہ پکڑو۔ بھیک دینے کے بجائے کوئی اچھا کام کرو جاکر۔‘‘
شروع شروع میں صبح سات بجے کے آس پاس ضرور ہانک لگاتا تھا۔۔۔ ’’ایک چائے اور ایک پاؤ روٹی کا سوال ہے۔ ہے کوئی جو پورا کر دے؟‘‘ کوئی مزدور، کوئی صفائی کرمچاری یا کوئی رکشے والا پڑوس کے فٹ پاتھ کی چائے کی دوکان سے کلہڑ میں ایک چائے اور ایک پاؤ روٹی خرید کر کنو بابا کو دے دیتا تھا۔ تین چار دن کے بعد وہ پنجابی چائے والا خود ہی کنو بابا کے ہانک لگانے سے پہلے ہی اسے روزانہ چائے اور پاؤ روٹی پہنچانے لگا۔ دوپہر کا کھانا روز بینک کے سامنے ٹھیلے پر روٹی دال فروخت کرنے والا الٰہ آبادی پہنچا دیتا تھا۔
رات کا کھانا رگھو لاتا تھا۔
رگھو پینتیس اور چالیس کے درمیان سر، داڑھی اور مونچھوں کے بےترتیبی سے بڑے ہوئے بالوں اور لمبے چوڑے لیکن میلے سے بدن والا ایک سانولا سا آدمی تھا۔ بڑی بڑی کچھ سرخ آنکھیں شکایت کرتی ہوئی، چوڑے سے چہرے پر بہت سی سختی اور تھوڑی سی ناراضگی کا امتزاج۔ عام طریقے سے رکشہ چلاتا تھا، لیکن روز نہیں۔ ایک دن چلا لیا، رکشے کا کرایہ دے آیا، رکشہ اس کے مالک پتن خاں کی دکان پر کھڑا کر آیا، دو تین دن جھگی میں بیٹھ کر عیش کر لی۔ ہر تیسرے چوتھے دن جب بیوی خوشی خوشی اجازت دے دیتی تو جھگی کا ٹین کا دروازہ بند کرتا، بیوی کو خوب دیر تک نہلاتا، پھر اپنی لنگی سے اس کا جسم خشک کرتا، جسم پر پاؤڈر لگاتا، صاف دھلا ہوا شلوار سوٹ پہناتا، سر کے درمیان بالوں کا جوڑا باندھتا، لپ سٹک لگاتا، خود دھلی ہوئی صاف لنگی باندھتا، صاف دھلا ہوا کرتا پہنتا اور بیوی کو لے کر گھومنے نکل جاتا۔ مونگ پھلیوں کا سیزن ہوتا تو مونگ پھلیاں خریدتا اور چھیل چھیل کر بیوی کو کھلاتا، ورنہ پاپ کارن خریدتا اور چن چن کر پوری طرح سے کھلے ہوئے پاپ کا رن کھلاتا۔ بھٹے کے سیزن میں سلیقے سے بھنا ہوا نرم بھٹا خریدتا اور دانے نکال کر کھلاتا۔ ایک بار بیوی نے کہا تھا ’’تم مجھ سے اتنا پریم کا ہے کو کرتے ہو؟‘‘ تو رگھو نے جواب دیا تھا ’’کوئی بچہ نہیں ہے نا۔۔۔ یا کر کے بچے سے کرنے والا پریم بھی تجھ سے ای کرلیوں ہوں۔‘‘ جی کھول کر پیسہ خرچ کرتا تھا بیوی پر۔ جب پیسے ختم ہو جاتے تو پھر پتن خاں کی دکان پر پہنچ جاتا، رکشہ لیتا، سڑک پر نکل آتا اور شریف آدمیوں کی طرح رکشہ چلانے لگتا۔ جب کوئی بڑی ضرورت آن پڑتی تھی اور کہیں سے قرض نہیں ملتا تھا تو چھوٹی موٹی چوری بھی کر لیتا تھا اور اٹھائی گیری بھی۔ اک دن بیوی نے کہا ’’مرگی کھائے کا بہت جور سے جی کر رہا ہے۔‘‘ رگھو کے داہنے ٹخنے میں موچ آئی ہوئی تھی، رکشہ نہیں چلا رہا تھا، پچاس ساٹھ روپے کی مرغی خریدنا ممکن نہیں تھا۔ لنگڑاتا ہوا پتن خاں کی دکان پر روپے ادھار لینے پہنچا۔ دکان بند تھی۔ معلوم ہوا پتن خاں اپنے گھر بجنور گئے ہیں چار دن بعد واپس آئیں گے۔ ’’چار دن تک من پھول کو بگیر مرگی کھلائے نہیں رکھا جا سکتا۔ کا سوچےگی من میں!‘‘ رگھو نے دل ہی دل میں کہا اور اندھیرا ہوتے ہی آٹھویں گلی میں رہنے والے عطاء اللہ کی ایک مرغی جھگی کے باہر بنے ڈربے سے چرا لایا، گھر آ کر خود ہی مرغی چھیلی، کاٹی، پکائی اور اپنے ہاتھ سے من پھول کو کھلائی۔
عطاء اللہ کو پتہ لگ گیا کہ رگھو نے اس کی مرغی چرائی ہے۔ وہ دبلا پتلا مرگھلا سا آدمی تھا، اس لیے خود ہی لمبے چوڑے رگھو سے دو دو ہاتھ کرنے کے بجائے مقامی پولس چوکی پہنچ گیا۔ چوکی انچارج نے رگھو کو پکڑوا منگوایا، دس بارہ تھپڑ مارے، رات بھر چوکی میں بٹھائے رکھا، صبح مزید دو چار تھپڑ مار کر چوکی انچارج نے اسے اس شرط پر بھگا دیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر ایک مرغی خرید کر عطاء اللہ کو دے دےگا اور ایک چوکی پہنچا دےگا۔
ایک بار من پھول نے ایک نئی قسم کی پائل کی ضد پکڑ لی اور الٹی میٹم دے دیا کہ جب تک پائل لا کر نہیں پہناؤ گے، نہ کپڑے اتارنے دوں گی، نہ نہلانے دوں گی۔ رگھو اسی وقت باہر گیا اور پتن خاں کی دکان پر پہنچا۔ اتفاق سے اس دن پھر پتن خاں کی دکان بند ملی اور پتن خاں کے بارے میں معلوم ہوا کہ کسی شادی میں شرکت کے لیے مراد آباد گئے ہوئے ہیں۔ دو ایک جگہ اور قرض لینے کی کوشش کی، مگر کہیں بات نہیں بنی۔ رگھو پرساد کالونی کی طرف چلا گیا۔ ایک گھر کے باہر ایک سائیکل کھڑی تھی، رگھو نے ادھر ادھر نگاہ ماری اور سائیکل لے بھاگا۔ دس کلو میٹر دور جا کر چور بازار میں سائیکل فروخت کی، پائل خریدی اور لا کر من پھول کے پیروں میں ڈال دی۔ من پھول نے اپنی بانہیں رگھو کے گلے میں ڈال دیں۔
رگھو نے کنو بابا کو جب پہلی بار دیکھا تھا تو قمیض کی جیب سے ایک اٹھنی نکال کر بولا تھا ’’لیو بابا‘‘ کنو بابا نے پوچھا تھا ’’کیا ہے؟‘‘
رگھو بڑی شان سے بولا تھا ’’اٹھنی۔‘‘ کنو بابا نے کہا تھا ’’میں پیسے نہیں لیتا۔‘‘ رگھو کو بڑی حیرت ہوئی تھی ’’کیوں؟‘‘
’’کا کروں پیسے لے کے؟ سبا سا پنجابی چائے والا چائے اور پاؤ روٹی دے جائے ہے، دوپہری میں الٰہ آبادی دال روٹی کھلائے دے رہے، سام کو کبھی کوئی کھانا اگر دے جائے ہے تو ٹھیک، نئیں تو بھوکے پیٹ سوئے رہوں ہوں۔ ایک دو بکھت (وقت) بھوکے پیٹ سو رہنا کوئی جادا مسکل کام نا ہے۔ عادت ہو گئی ہے۔‘‘ کہہ کر کنو بابا گانے لگا تھا:
ادھر بھی ہیں کانٹے، ادھر بھی ہیں کانٹے
تو چاہے تو کانٹوں کو کلیاں بنا دے
نیا ہماری پار لگا دے۔ بگڑی بنانے والے۔۔۔
رگھو چلا گیا تھا اور بلا ناغہ کنو بابا کے لیے شام کا کھانا لانے لگا تھا۔
چوتھے دن کنو بابا نے پوچھا ’’تو کیا کرے ہے؟‘‘ رگھو نے بتایا ’’جادا تر رکسا چلاؤں ہوں۔‘‘
کنو بابا نے پوچھا ’’اور جب رکسا نا چلاوے ہے تب کے کرے ہے؟‘‘ بڑی سادگی سے رگھو نے بتایا ’’چوری شوری کر لیوں ہوں۔‘‘
کنو بابا نوالہ توڑ چکا تھا۔ اس نے نوالہ پلاسٹک پر رکھ دیا ’’سچی سچی بتلا یہ کھانا چوی کے پیسے کا ہے کہ رکسے کی کمائی کا؟‘‘، ’’تو چپ کر کے کھا لے۔ کھانا تو کھانا۔ نوابی کائے کو جھاڑے‘‘ رگھو اسے گھورنے لگا۔ ’’نہیں۔۔۔ مجھے چوری کی روٹی متی کھلا۔ یہ اٹھا لے جا۔ جب رکسے کی کمائی سے روٹی پکائیو تب کھلائیو۔‘‘ کنو بابا کی آواز نرم تھی، لہجہ سخت۔
’’کھا لے کھا لے۔۔۔ ‘‘ رگھو پیار سے بولا ’’چوری کے پیسے کی نا ہے یہ روٹی۔ رکسے کی کمائی کی ہی ہے۔ ماں کسم۔‘‘
کنو بابا نے نوالہ اٹھالیا۔ ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘، ’’ٹھاکر رگھو راج سنگھ تلواری‘‘ رگھو نے بڑے وقار کے ساتھ کہا پھر لہجہ ایک دم ڈھیلا ہو گیا ’’پر لوگ باگ رگھو کہے ہیں۔‘‘، ’’کیوں کہیں ہیں رگھو؟‘‘ کنو بابا نے کچھ غصے سے پوچھا۔
’’ان کے پاس اتنا لمبا نام لے کا ٹیم نہیں ہے۔۔۔‘‘ اگر میں کوئی گاؤں میں جمین دار یا ادھر سہر میں ساہو کار یا ادھر پالی منٹ میں منشٹر ہوتا تو لوگن کے پاس بڑی اجت (عزت) سے اتنا لمبا نام کا ٹیم جرور ہوتا اور جونئیں بھی ہوتا تو بھی لوگ باگ ’’ٹھاکر ساب‘‘ کہتے، رگھو کوئی نا کہتا‘‘ رگھو نے وضاحت کی۔
’’تو تو نے کوسس کیوں نا کی جمین دار یا ساہو کار یا منشٹر بننے کی؟‘‘ کنو بابا نے پوچھا۔ ’’جمین دار تو کھاندانی ہوئے ہیں۔ جے میرا باپ جمین دار ہوتا تو میں بھی جمین دار ہوتا۔‘‘ رگھو نے مزید وضاحت کی ’’اور منشٹر بننے کے لیے تگڑی بدماسی کی جرورت ہوئے ہے، وہ میرے بس کی نا ہے۔ میں سریف آدمی ہوں۔ ہاں سا ہوکار بننے کی کوسس میں کئی بار چوری شوری کی، پر ہر بار پکڑا گیا۔ پولس نے پٹائی کی۔ بات پتا کیا ہے؟ میرا نا بھاگ کھراب ہے۔ یا کر کے میں نہ’’ ٹھاکر ساب ‘‘بن سکا نہ’’ ٹھاکر رگھو راج سنگھ تلواری۔ ‘‘بس رگھو ہوں۔۔۔ کل تجھے مسور کی دال کھلاؤں گا، میری عورت ایسی پکائے ہے کہ رام پور کے نواب کا کھانسا ماں بھی کھائے لے تو وا کے پاؤں پکڑ لے۔ ماں کسم۔‘‘
سردیاں آ گئیں، پھر اور سردیاں آ گئیں۔ رگھو نے ایک رات کنو بابا کے جسم کو سردی سے کانپتے دیکھا۔ اسے کھانا کھلا کے رگھو اپنی جھگی بستی کی طرف چل دیا۔ کنو بابا کا سردی سے کانپتا جسم بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔ ڈاکخانے والے موڑ کے پاس اس نے سترہ اٹھارہ سال کے ایک دبلے پتلے لڑکے کو ایک نیا سا موٹا کمبل اوڑھ کر جاتے دیکھا۔ آگے بڑھ کر اس نے لڑکے کو زناٹے دار دو تھپڑ مارے، کمبل چھین لیا اور بولا ’’اچھے دن ہوئیں تو بھاگ جا چپ چاپ نئیں مار دوں گا جان سے۔‘‘
لڑکا بھاگ گیا۔ رگھو نے جا کر کمبل کانپتے تھر تھراتے کنو بابا پر ڈال دیا۔ کنو بابا چونک پڑا، مگر جلدی سے کمبل اس نے اپنے جسم کے گرد قریب قریب لپیٹ لیا ور بولا ’’جیتا رہ رگھو۔‘‘
’’تجھے کیسے پتہ چلا کہ میں رگھو ہوں۔‘‘ رگھو سڑک کے کنارے لگے بجلی کے کھمبے کے بلب کی دھندلی سی روشنی میں اسے گھورنے لگا۔
’’تیری مہک سے۔‘‘ کنو بابا نے کہا ’’روج تو آوے ہے میرے پاس کھانا لے کے‘‘ رگھو چلا گیا۔ رات میں دو بجے پولس کے دو سپاہی اسے جھگی سے اٹھا کر چوکی لے گئے۔ چوکی میں چوکی انچارج کے کمرے میں چوکی انچارج کے علاوہ وہ لڑکا بھی تھا جس سے اس نے کمبل چھینا تھا اور اس کا باپ بھی۔ چوکی انچارج نے لڑکے کی طرف دیکھا اور لڑکے نے رگھو کی طرف دیکھ کر اثبات میں سرہلا دیا۔
چوکی انچارج نے دس بارہ تگڑے تگڑے ہاتھ مارنے کے بعد رگھو سے پوچھا ’’کہاں ہے کمبل؟‘‘، ’’کمبل تو جی نئیں ہے‘‘ رگھو نے سرہلا دیا۔
چوکی انچارج نے کونے میں کھڑا ڈنڈا اٹھایا اور رگھو بوکھلا کر بولا ’’کنو بابا کو دے دیا۔‘‘ رات میں کئی بار رگھو کی پٹائی ہوئی۔ ڈنڈے تو صرف دو مارے گئے۔۔۔ لیکن دسمبر کے چوتھے ہفتے کی ایک رات کو کمر پر پڑنے والے پولس کے دو ڈنڈے ہی چار چھ دن کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ صبح آٹھ بجے دو چار لاتیں گھونسے اور مار کر اور دھمکا کر رگھو کو چوکی سے بھگا دیا گیا۔ رگھو بینک کے چھجے کے نیچے پہنچا۔ کنو بابا گھٹنوں میں منھ دبائے بیٹھا کانپ رہا تھا۔
’’کمبل کہاں گیا؟‘‘ رگھو نے اونچی مشتعل آواز میں پوچھا۔
’’جس کا تھا وہ رات کو ہی لے گیا‘‘ کنو بابا نے اپنی کپکپی کے درمیان بڑی مشکل سے کہا ’’تو نے بہت برا کیا رگھو۔۔۔ جب تک کمبل نہیں تھا تب تک اتنی ٹھنڈ نالا گے تھی۔ جب سے کمبل گیا ہے تب سے بہت لگ رہی ہے آگے سے لوٹے ہوئے کمبل سے کسی کی ٹھنڈ دور کرنے کی کوسس نا کرنا۔ ٹھنڈا بہت بڑھ جائے ہے۔‘‘
رگھو چپ چاپ پتن خاں کی دکان پر پہنچا۔ دکان بند تھی۔ رگھو برآمدے میں بیٹھ گیا۔ تیز ہوا اتنی ٹھنڈی تھی جیسے برف کے غار سے نکل بھاگی ہو۔ آسمان میں بادل بھی تھے۔ کچھ دیر بعد بارش شروع ہو گئی۔
پتن خاں نے دس بجے دکان کھولی۔
’’کھان صاحِب۔۔۔ پانچ سو روپیہ چہی(چاہیے)۔۔۔ ابھی چہی ۔۔۔ روج تھوڑا تھوڑا کر کے چکائے دیوں گا۔ ماں کسم۔ جو بیاج لگائے کا ہوئے لگائے لینا۔۔۔ پر روپیہ ابھی چہی۔‘‘
کیا کرےگا صبح صبح پانچ سو روپیہ؟‘‘ پتن خاں نے پوچھا۔
’’یاسب تمہارے پوچھے کا نا ہے۔ روپیہ دئے دیو۔ چکائے سے پہلے مروں گا بھی نا۔ ماں کسم‘‘
پتن خاں نے نہ رگھو کی آنکھیں اتنی سرخ دیکھی تھیں، نہ اس کا چہرہ کبھی اتنا سخت دیکھا تھا۔ اس نے چپ چپ پانچ سو روپے رگھو کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیے۔
رگھو مین مارکیٹ کی طرف چل دیا۔ لالہ بنواری لال کی دکان پر جا کر اس نے پانچ سو روپے کا ایک اچھا موٹا کمبل خریدا اور جسم میں ہونے والے درد کے باوجود تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا بینک آف انڈیا کے چھجے کے نیچے پہنچا جہاں چبوترے پر کنو بابا کی سردی سے اکڑی ہوئی لاش پڑی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.