کمین گاہ
گھر پہنچ کر دن بھر کی مشقت اور ڈپریشن کا بوجھ اتارا ہی تھا کہ سامنے کامنظر دیکھ کر بوکھلا گیا۔ سانحات زندگی کا حصہ ہوتے ہیں مگر فی الوقت میں اس کے لیے تیار نہیں تھا۔
میرے گھر کے نیم کشادہ ڈرائینگ روم کا ماحول اور ترتیب، جس کو میری بیوی نے اپنی صحت مندی کے دوران بڑے سلیقے سے سجا رکھا تھا، بےترتیب اور ابتر نظر آیا۔ میری بیوی کے جسم کا بالائی حصہ وہیل چیئر پر اٹکا ہوا تھا، جب کہ اس کا زیر ناف مفلوج حصہ فرش پر ڈھیر تھا۔ ٹیلی فون سیٹ نیچے گرا پڑا تھا اور ریسیور چیئر کی ہتھی پر تار کے ساتھ کٹے ہوئے بازو کی طرح جھول رہا تھا۔ بیوی کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ انجانے خوف سے اس کا بیضوی چہرہ فق اور آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ اس کی مدھم ہوتی ہوئی سانسوں میں آنے والی ساعتوں کی آہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔
میں نے اس کو گود میں اٹھا کر بستر پر گاؤ تکیہ کے سہارے ٹیک لگا کر بٹھانے کی کوشش کی تو اس کا جسم ایک جانب ڈھلک گیا۔ اپنی بیوی کو اس عالم میں دیکھ کر میرے دل میں اس کے لیے ہمدردی کی ایک لہر اٹھی ضرور تھی، مگر کیا کیا جائے اس صورت حال پر قابو پانا میرے امکان سے باہر تھا جس کا وہ شکار بنی۔ میں نے کولر سے ٹھنڈے پانی کا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگا دیا، مگر پانی اس کے ہونٹوں کے کناروں سے نکل گیا۔ ذرا دیر کے بعد جب اس کے ٹھنڈے پڑتے جسم میں ہلکی سی جنبش محسوس کی تو اپنا منہ ا س کے کان کے قریب لے جاکر پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا صرف ڈوبتی نگاہوں سے ٹیلی فون کی جانب دیکھا اور پھر اس کی آنکھوں میں موت کی پھریری پھیل گئی۔ میں نے ملازمہ کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے کہا۔
’’ہاں، کچھ دیر پہلے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو تھی، مگر میں اس وقت باورچی خانے میں تھی، جب یہاں پہنچی تو بی بی صاحبہ کو اس حال میں دیکھا‘‘۔
گذشتہ ایک ماہ سے ہمارے گھر کے ٹیلی فون پر گمنام کالوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ ابتدا میں ہمیں تجسس تو رہا مگر یہ سوچ کر ہر واہمہ کو ذہن سے جھٹک دیا کہ کسی کی فرصت کے مشاغل ہیں۔ بیوی کو سمجھایا بھی تھا کہ ’’جو کوئی بھی ہو تھک ہار کر خاموش ہو جائےگا، پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں‘‘۔
لیکن چند دنوں کے بعد بھی گمنام کالوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر ہمارا، کم از کم میری مفلوج بیوی کاتجسس تشویش اور پھر ایک ڈر میں تبدیل ہوگیا جس میں اگلے لمحے کچھ نہ کچھ ہونے کا احساس گہرا ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر میری بیوی زیادہ پریشان اور ہلکان رہنے لگی تھی۔ اس کے جسم کا بالائی حصہ جس میں اس کا دل بھی شامل تھا، اس مرحلہ پربھی زندہ رہنے کی خواہش میں دھڑکتا رہتا تھا مگر جب سے ٹیلی فون پر گمنام کالوں کی آمد شروع ہوئی تھی اس کی یہی دل اس کے حلق میں اٹک جاتا اور اسے ہائپر ٹینشن کا دورہ پڑنے لگتا۔
ہماری شادی کو چار ساڑھے چارسال ہی ہوئے تھے کہ اچانک اس کے جسم کے نچلے حصے پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ بستر پر گر گئی۔ میری ملازمت ایک غیر ملکی آئل کمپنی میں تھی۔ اس لیے روپے پیسوں کی کمی نہ تھی۔ میں نے شہر کے بہترین معالجوں سے اس کا علاج کرایا، مگر بہتری کے کوئی آثار پیدا نہ ہوئے۔ ہماری مایوسی کے بادل گہرے ہوتے گئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری بیوی کے ساتھ کمیونیکیشن اور ڈائیلاگ کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ بالاخر ہم نے یہی مناسب سمجھا کہ اپنے بیڈ بھی الگ کر لیں تاکہ ہم دونوں ذہنی اور جذباتی کوفت سے بچ سکیں۔ اس فیصلہ کے بعد مجھے ایک گونہ اطمینان ضرور ہوا مگر یہ احساس بھی گہرا ہو گیا کہ جب رات گہری ہونے لگتی ہے،باہر کا موسم خوشگوار ہو جائے تو اندر کا موسم بھی انگڑائی لینے لگتا ہے۔ ایسے میں کسی گداز جسم سے ہم آغوشی کی خواہش منہ زور اور بےقابو ہو جاتی ہے۔
ملازمہ نے بتایا تھا کہ میرے جانے کے بعد وہ اکثر میرے چھوٹے سے کتب خانے سے کوئی کتاب اٹھا لیتی، کچھ دیر مطالعہ کرتی یا پھر ڈرائینگ روم میں رکھے ٹیلی فون پر اپنی واقف کاروں سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی تھی۔
شام کے وقت دفتر آنے کے بعد میں کچھ دیر اس کے پاس ضرور بیٹھ جاتا۔ کبھی کبھی ہم دونوں داخلی کیفیات کے بھنور سے باہر نکل آتے تو اکٹھے چائے بھی پی لیتے، مگر ایسا موقع کبھی کبھار ہی آتا۔ بیشتر اوقات ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے گونگے بہرے ہوتے۔ یہ معمولات کچھ ہی دن چل پائے تھے کہ اچانک ہماری خاموش، سپاٹ زندگی میں کسی نے ہمارے ٹیلی فون پر گمنام کالوں کا پتھر مار کر طلاطم پیدا کر دیا۔ یہ واقعہ میری بیوی کی زندگی کا دوسرا ہولناک تجربہ تھا۔ مجھے یاد ہے ٹیلی فون کی پہلی کال پر وہ بید مجنوں کی طرح کانپنے لگی تھی۔ دفتر سے واپسی پر جب میں نے یہ واقعہ سنا اور بیوی کی حالت کا بغور جائزہ لیا تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس میں قوت مزاحمت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ میں نے اس رات بڑی دیر تک سمجھایا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں جس کا اتنی سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے۔ اس قسم کی گمنام ٹیلی فون کالیں آتی رہتی ہیں مگر وہ اسے عام واقعہ قرار دینے پر تیار نہیں ہوئی کہ ’’ٹیلی فون پر دی جانے والی دھمکی اس کی آدھی زندگی کے درپے ہے‘‘۔
میں نے ایسے کئی موقعوں پر اسے تسلی دینے کی کوشش کی کہ وہ ان نامعلوم کالوں کو سیریس نہ لے۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ اب وہ میری ایسی تسلیوں کے جواب میں بھڑک اٹھتی۔
’’کیوں سیریس نہ لوں، تمہیں اس کی آواز کی زہرناکی اور دھمکی کا اندازہ ہی نہیں۔ اس کی آواز میں سانپ کی پھنکار ہے، سانپ کی۔۔۔‘‘
میں نے ٹیلی فون کے محکمے میں کام کرنے والے ایک دوست سے مشورہ کیا تو اس نے گمنام کالوں کو ڈیٹکٹ کرے کی جو تجاویز دیں ان پر عمل کرنے کے باوجود کالوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
میری بیوی فالج کے حملہ کے بعد زیادہ زود حس او رچڑچڑی ہو گئی تھی۔ معالجوں کی متفقہ رائے تھی کہ ’’کوئی بھی ذہنی یا جذباتی صدمہ مریضہ کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ہائیرٹینشن سے ہارٹ اٹیک یا برین ہیمبرج کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر نے بتایا کہ ’’آپ کی بیوی Sensitivity کے انتہائی درجہ پر ہے۔ ایسی حساسیت تو صحت مند اور توانا شخص کے اعصاب کو بھی توڑ پھوڑ سکتی ہے۔ آپ کی بیوی کے جسم کے نچلے حصے کی توانائی تو پہلے ہی ختم ہو چکی ہے جبکہ بالائی حصے میں مایوسی اور ڈپریشن کے سبب مزاحمت کا عنصر تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انہیں مایوسی سے بچائیں، اپ سیٹ نہ ہونے دیں ورنہ۔۔۔‘‘
میں نے معاملہ کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری سمجھا کہ ملازمہ کو تمام تر احوال سے باخبر رکھوں۔
اس روز کسی نے میرے شانے کو زور زور سے ہلایا جس سے میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے الکساہٹ سے کروٹ بدل کر پوچھا۔
’’کہو کیا بات ہے؟‘‘
ملازمہ نے بڑی آہستگی سے یہ خبر سنائی ’’شاید بی بی۔۔۔‘‘
میں کچھ دیر اسی کیفیت میں اپنے پاؤں کو نرم بستر پر رگڑتا رہا۔ اتنی دیر میں ملازمہ چائے کی پیالی لے آئی۔ چائے پی کر تازہ دم ہو گیا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد بیوی کے کمرے میں گیا۔ وہ اپنے پلنگ پر بے ترتیب چت لیٹی ہوئی تھی۔ بے حس وحرکت۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جس میں ڈر کا سایہ جم کر رہ گیا تھا۔
آخری کال کا صدمہ شاید وہ برداشت نہ کر سکی۔ ماہرین کی رائے صحیح ثابت ہوئی۔ کمرے سے باہر نکلا تو دروازے پر ملازمہ کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے دروازے سے نکلتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو تم موت کی تصدیق کے لیے ڈاکٹر کو فی الفور فون کردو۔ میں ضرور ی انتظامات کے لیے باہر جا رہا ہوں‘‘۔
’’جی بہت بہتر‘‘۔ اس کی آواز مترنم اور لہجہ میں اعتماد کی جھلک نمایاں تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.