Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کمرے سے کمر ے تک

منزہ احتشام گوندل

کمرے سے کمر ے تک

منزہ احتشام گوندل

MORE BYمنزہ احتشام گوندل

    پہلے پہل جب اس نے ہوش سنبھالا تو کمرے کی چھت کو نہایت کہنہ، بوسیدہ اور دریدہ پایا۔ لکڑی کا پکھراور بالے کالے چیونٹے کھا چکے تھے۔ گاہے گاہے بھربھری مٹی چھت سے فرش پر ٹپکا کرتی تھی۔ اسی چھت کے نیچے اس کی ماں کے جہیز میں آئے ہوئے دھات کے دو بڑے صندوق سامنے والی دیوار کے ساتھ لکڑی کی کمزور چوکیوں پر دھرے تھے۔ ایک صندوق جس کا ڈھکن پورا تھا۔ اس کے اندر ماں نے اپنی ماں کے ہاتھوں کی بنی دو لائیاں، رضائیاں، دریاں، کھیس، تکیے اور سرہانے رکھ چھوڑے تھے۔ جن کو وہ کبھی کبھار کسی شادی یا فوتگی پر ہی نکالا کرتی تھی یا پھر بدلتے موسموں میں ان کو نکال کر دھوپ لگوایا کرتی۔ جب وہ صندوق کھلتا تو گویا اس کے لئے جنت کا دروازہ کھل جاتا۔ مخمل، شہنیل، ویلوٹ، دل پیاس کے اوپرے اور فلیٹ اور کنول کے سادے اندرس لگی رضائیوں کے اندر ایک انوکھی خوشبو ہوتی۔ وہ اپنی مرحومہ نانی (جس کو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا )کی خوشبو ان بسترو ں کے انڈر ڈھونڈتی ان رضائیوں کے اوپر لوٹ پوٹ ہو جایا کرتی۔ مگر یہ راحت تھوڑی دیر کے لئے ہوا کرتی تھی۔ ماں اس کو دھکیل کر نیچے پھینکتی اور آنسو بہاتی اپنی ماں کو یاد کرتے ہوئے دوبارہ سارے بستر اس صندوق کے اندر فٹ کر دیتی اور یوں ایک طلسماتی جزیرے کا دروازہ بند ہو جاتا۔ اسی طرح دوسرے صندوق کے اندر جس کا دروازہ آدھا مستقل طور پر بند اور آدھا کھلتا تھا۔ ماں نے روزمرہ کی استعمال کی چیزوں اور کپڑوں کی آماجگاہ بنا رکھا تھا۔ اس کا ڈھکن اٹھاتے ہی عام استعمال کے سرہانے، دریاں، کھیس، چادریں اور جا بجا کپڑوں کی گھٹریاں بندھی نظر آتیں۔ ہر گھٹری کھل جا سم سم کی طرح الا بلا سے بھری ہوتی۔ ماں کو عجیب سی عادت تھی۔ وہ پرانے کپڑے، جوتے کسی کو نہ دینے دیتی اور نہ ہی جلاتی تھی بلکہ ان کو رکھتی جاتی اور یوں اس ایک کمرے کے اندر فضول اور ناقابل استعمال اشیاء کا انبار لگتا چلا جاتا۔

    وہ زیادہ تر گھٹریاں بھی اسی طرح کے فالتو پرانے اور ناکارہ کپڑوں سے بھری ہوتی تھیں۔ مگر چونکہ ان کی موجودگی میں اماں کی نفسیاتی راحت تھی لہٰذا ان کو برداشت کیا جاتا تھا۔ البتہ اماں کو کتابوں اور اخباروں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ جب بھی ’’اکرو پھیری والا ‘‘مرونڈا لو، کپ لو، پیالے لو، لوہے کے ساتھ، پلاسٹک کے عوض،ر دی کے عوض کی بولی لگاتا ہوا اپنی ٹوٹی ہوئی سائیکل پر گزرتا تو اماں اس کو روک لیتی اور اخبارات اور کتابوں کے عوض کپ خرید لیتی۔ ’’اکرو‘‘ بھی بھرپور ہاتھ دکھاتا اور روپے کا مال آنے میں لے جاتا۔ مگر اماں کو اس کی پرواہ کب تھی۔ وہ تو بقول ان کے گند نکال کر قابل استعمال برتن لے آتی تھیں اور سکھ کا سانس لیتی تھی۔ کمرہ ایک ہی تھا اور وہ چھے بہن بھائی تھے۔ اسی کمرے میں دو صندوقوں کے علاوہ دس چارپائیاں بھی ایک دوسرے کے اوپر جڑی رکھی تھیں۔ ایک اماں کے جہیز کا پرانا سنگل پلنگ بھی تھا جب بھی بارش کا موسم آتا۔ کمرے کی چھت چھلنی کی طرح ٹپک پڑتی۔ اماں بادل کو دیکھتے ہی مٹی کو گوت کر چھت پر پہنچ جاتیں اور خوب خوب موٹا بھاری بھرکم لیپ کرتیں مگر ناسود۔ وہی ڈھاک کے تین پات، بارش برستی تو کمرہ بھوکے چہرے پر مکمل نا آسودگی کی طرح ٹپک پڑتا۔ اماں کے ان بھاری بھرکم تہہ در تہہ مٹی کے لیپوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھت پر مٹی کی تہہ اور وزن بڑھتا گیا اور ایک دن عین اماں کی جہیز کی چارپائیوں کے اوپر لکڑی کی پھٹیاں ٹوٹیں اور منوں مٹی چارپائیوں کے اوپر آ رہی اور گرد کا ایک طوفان چکراتا ہوا پورے کمرے کے سامان کے اوپر غازے کی طرح بیٹھ گیا۔

    وہ ہمیشہ ایک اچھے اور الگ کمرے کے خواب دیکھا کرتی تھی۔ جس کی چھت مضبوط اور پکی ہو اور جس کے اندر وہ اکیلی رہے خوب پڑھے، لکھے اور سوئے۔ مگر یہ خواب ہی رہا اور اماں کا جہیز طوفانوں، برساتوں اور جھکڑوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوتا رہا۔ وہ مٹی کی لالٹین کو سرہانے رکھے زرد ٹی بی زدہ روشنی میں اپنی خوبصورت آنکھوں کو کھپاتی اور پڑھنے کی کوشش کرتی۔ اس کی ماں ساتھ والے بستر میں لیٹی اس کی آنکھوں کو دیکھا کرتی۔ وہ بچپن سے ذرا سانولی اور بےڈھنگی تھی۔ مگر نین نقش اس کو اللہ نے اچھے دئیے تھے۔ باپ جیسا کھلا ماتھا، بڑی بڑی آنکھیں اور ستواں ناک، سوکھا ہوا بدن، جس پر کھال منڈھی ہوئی لگتی۔ اس کے استخوانی چہرے پر اس کی روشن اور کھلی آنکھیں اس کی ماں کو بڑی عجیب لگتیں اور وہ اس کا مذاق اڑاتی اور بڑے طنز کے ساتھ اس کو ’’اخبار نویس‘‘ کا نام دیتی۔ اس کی پھوپھی کی بیٹیوں اور اس کی اپنی بہنوں کی رنگت صاف اور بدن بھرے ہوئے تھے۔ لہٰذا اس کا سانولا رنگ اور سوکھا ہوا بدن اس کے لئے طعنہ تھا۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ اس کی ماں نے اس کو پیار سے دیکھا ہو۔ وہ ہمیشہ اس پر تنقید کیا کرتی تھی اور اس کو بدبختی کی علامت قرار دیتی۔ مگر وہ ہمیشہ ماں کے حالات، ٹوٹے ہوئے کمرے اور ماں کے جہیز کی ابتر حالت پر کڑھتی اور ان کی بہتری کے طریقے سوچا کرتی۔ ایک دن ضرور وہ ماں کی حالت کو سنوار دےگی اور جہیز کی بہت حفاظت کیلئے ایک پختہ چھت والے کمرے کا انتظام کردےگی جو چھت سے مٹی اور بارش نہیں گرائےگا بلکہ ماں کے جہیز کے سامان کا محافظ بنےگا۔ مگر ماں اس کے مثبت اور تعمیراتی خیالات سے ناآشنا اس کو طعنوں، معنوں اور گالیوں کی زد پر رکھتی۔ مگر وہ کبھی بھی خود کو ماں کی بہتری کے خیالات سے دور نہ کر سکی۔

    وہ اخبارات جو ماں کے نزدیک گند تھے انہی کی بدولت نفرت اور حقارت کے ماحول میں پل کر جوان ہونے والی وہ لڑکی مقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی افسر بن گئی۔ ورنہ اس کے پاس کیا تھا جو اس کو بصیرت دیتا۔ ٹوٹا ہوا کمرہ، اس سے بڑھ کر ٹوٹی ہوئی زندگی، شہر اور گاؤں سے دورجنگل کا بسیرا، جہاں بجلی دو ہزار چھے میں آئی تھی اور اس کے تعلیمی کیرئیر کا سولہواں سال خوش بخت سال تھا جس میں اس نے بجلی کے بلبوں کی روشنی میں پڑھا تھا۔ اس کی ماں کو اس سے زیادہ اپنی گائے اور مرغیوں کے ساتھ محبت تھی کیونکہ ان کا پھر بھی کوئی Output تھا مگر اس کا Output کیا تھا؟ ماں کے نزدیک محض وقت کا ضیاع، اس کا باپ اور وہ خود اخبار کی قرأت کی بناء پر تضحیک کا نشانہ بنتے تھے۔ وہ ابھی چھوٹی تھی کہ اس کا باپ لالٹین کی روشنی میں ڈائجسٹ پڑھا کرتا تھا۔ ماں کو اس کا کمزور روشنی میں نظر کھپانااور وہ بھی جھوٹی کہانیوں پر پسند نہ تھا۔ ماں کہانیوں کو جھوٹ کا پلندہ کہا کرتی تھی اور پھر اس کی ماں نے ایک دن سارے ڈائجسٹ اٹھا کر ایک گٹو کے اندر ڈال دئیے اور اس کا چاچاان کو سائیکل کے کیرئیر پر رکھ کر رات کے اندھیر ے میں گیا اور ان کو نہر میں ڈال آیا۔ بعد میں ایک بار وہ خود ماں کی نظروں سے چھپ کر سخت گرمی میں بستروں کے اوپر چھپی ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی تو اس کی ماں نے دیکھ لیا اور اس کاڈائجسٹ جھپٹ کر’’اوہلے‘‘ (وہ مخصوص جگہ جہاں گوبر کے اپلوں کے اوپر دودھ ابلنے کیلئے رکھا جاتا ہے) کے اندر دہکتے اپلوں کے اوپر ڈال دیا اور اسے یوں لگا تھا جیسے اس کے کلیجے کے کنارے جل کر سیاہ ہو گئے ہیں اور اس کا خوشبودار دھواں اس کے لہو میں گھل مل رہا ہے۔

    ماں کے سامنے وہ شدید بے بس ہوگئی تھی۔ ماں نے اس کے اندر جھانک کر نہ دیکھا کہ وہ اندر سے کتنی دھواں دھار ہو گئی تھی۔ تب وہ محض تیرہ سال کی تھی آٹھویں کلاس کی طالبہ۔ ننھی منی کمزور سے جسم والی۔ بھلا اس عمر کی نادان بچی اس طرح کی کیفیت سے گزر سکتی ہے؟ ماں کا تجربہ تو یہی بتاتا تھا۔ کون کہتا ہے کہ مائیں دلوں کے اندر چھپے دکھ تک جان جاتی ہیں۔ مائیں بھی مالک کی طرح بےنیاز ہوتی ہیں۔ وہ اپنی مخلوق سے صرف تابعداری مانگتی ہیں۔ بندگی اور عبادت گزاری مانگتی ہیں۔ نافرمانی ہو جائے تو دوزح دہکا دیتی ہیں۔ الٹا لٹکا دیتی ہیں۔

    افسر ہونے کے بعد سب سے پہلا کام جو اس نے کیا وہ کمرے کی چھت بدلنے کا تھا۔ آغاز جو کہ کمرے کی چھت بدلنے سے ہوا تھا اس کا اختتام ایک نئے مکان کی تعمیر پر ہوا۔ نئے مکان کی تعمیر کے بعد گھر کھلا ہو گیا اور کئی کمرے بن گئے اور اس ترقی میں اس کا بڑا بھائی بھی شامل تھا۔ کمرے کی چھت بدلنے کے بعد اس کی دیواروں پر نئی سفیدی کروائی گئی۔ فرش دھویا گیا اور کھڑکی بھی بدل دی گئی۔ جب کھڑکی اور دروازے پر پینٹ ہوا تو کمرہ بالکل نیا نیا لگنے لگا۔ اس کی بوسیدگی کہیں دور بھاگ گئی۔ اماں کا جہیز ساتھ والے کمرے میں منتقل ہو گیا اور ان کا پلنگ اسی کمرے کے اندر رہ گیا۔ نئے نئے کمرے کے اندر پرانا پلنگ بڑا عجیب سا لگتا تھا۔ مگر کیا ہو سکتا تھا مجبوری تھی۔ پلنگ کے اندر کی دنیا تو وہی رہی مگر اس نے تکیے اور پلنگ کی چادریں بدل دیں تو پلنگ کی بوسیدگی بھی چھپ گئی اور وہ بھی نیا نیا لگنے لگا۔ اب اس کمرے میں کل سامان وہ پلنگ اور ایک لوہے کی پرانی الماری تھی۔ لوہے کی الماری بھی بوسیدہ ہو چکی تھی۔ جیسے تیسے وقت اور گزر گیا۔ ایک جستی ٹرنک جس کے اندر کتابیں دھری رہتی تھیں اس پلنگ کے پیچھے پڑا رہتا۔ اس کو آئے روز ان کتابوں کیلئے ایک الماری کا خیال رہنے لگا مگر الماری کیسے آتی کہ نئے گھر کی تعمیر کے بعد ساری پرانی چیزیں بےمعنی اور بے کار لگنے لگی تھیں۔ اب تو ماں کے مطالبے بھی آئے روز بڑھنے لگے۔ فلاں چیز پرانی ہو گئی ہے، نئے گھر میں بری لگتی ہے۔ فلاں چیز بھی اب نئے گھر میں رکھنے کے قابل نہیں۔ اور وہ ان کا مطلب فوراً سمجھتے ہوئے بغیر کسی حیل وحجت کے وہ نئی چیز لاکر گھر میں رکھ دیتی۔ گھر میں نئی چیزیں تو آتی گئیں مگر ماں کی وہی ازلی فطرت کہ اس کو پرانی چیزوں کے ساتھ خدا واسطے کی محبت تھی۔ یوں ایک طرف گھر نئی چیزوں سے بھرتا گیا اور دوسری طرف پرانی چیزوں کے انبار میں اضافہ ہوتا گیا۔

    اب گھر کا، کمروں کے سامنے کا برآمدہ کسی کباڑیے کی دکان کا منظر پیش کرتا۔ پرانی کھڈیاں، الماریاں، دیوار سے اکھڑی گرل، گھڑے، گندم کا بھڑولہ، پرانی سائیکل، کنس کے اوپر رکھی دوائیوں کی خالی اور بھری ہوئی شیشیاں، پرانے اخبار، جوتے، کپڑوں کے گٹو، اکھڑی ہوئی ٹوٹی ہوئی کرسیوں کے ڈھانچے، بجلی کی جلی ہوئی پرانی تاریں، گٹو کے ٹاٹ، شہتوت کے ٹوکرے اور اس طرح کی ہر الا بلا اس کے اندر نظر آتی۔ اس نے بہت دفعہ اس کاٹھ کباڑ کو ختم کرنے اور گھر کو صاف رکھنے کی بات کی۔ مگر بات اس کے منہ میں ہی ہوتی کہ ماں آگ بگولہ بن کے اس کے سر کو آ جاتی۔ اب اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ گھر ماں کا ہے اس کا نہیں اور وہ خواہ مخواہ ہی ماں کے گھر کو بدلتے بدلتے خود کو بوڑھی کرتی جارہی ہے۔ مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ وہ افسر بن گئی تھی۔ ماں کو دوسری بیٹیوں کے دان دہیز اور بیاہ کی فکر رہتی اور وہ اکثر سوچتی کہ آخر اس نے ماں کا کیا بگاڑا ہے۔ روز اول سے وہ ماں کے حالات کو بدلنے اور اس کی بہتری کا سوچتی آرہی ہے۔ مگر ماں کو اس کے ساتھ کوئی ہمدردی نہ تھی۔ ماں کا شاید خیال تھا کہ جو اولاد اچھا کمانے لگے اس کو ماں باپ کے سہارے یا دعاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر ایک دفعہ کسی خیال کے تحت اس نے اپنے کمرے کیلئے کچھ اور سامان خریدا اور اس کو اپنی ضرورت کے مطابق رہنے کے قابل بنا لیا اور کمرے کے اندر ہی رہنے لگی۔ کمرے کے باہر کے ماحول سے اس کی دلچسپی ختم ہوکر رہ گئی۔ کمرہ اس کا ساتھی تھا۔ اس کے اندر اس کا بستر تھا۔ کتابیں تھیں اور کپڑے تھے۔ اس سے زیادہ سرمایہ تو اس کے پاس تھا نہیں۔ جو گنتی کی اشیاء تھیں وہ ساری اس ایک کمرے کے اندر سما جاتی تھیں۔ گزرتا وقت ساری چیزوں میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ کمرے کے باہر اس کی لائی ہوئی چیزوں میں اضافہ ہوتا رہا اور کمرے کے اندر اس کی تنہائی اور بالوں کی سفیدی میں اضافہ ہوتا رہا۔

    اس کا سارا وقت اپنی کتابوں اور تنہائی کے ساتھ گزرتا۔ تب اسے محسوس ہوا کہ خون کے رشتے ناطے تو محض روپے اور خوشامد کے ساتھ بندھے ہیں یہ نہ ہو تو رشتے ختم ہو جاتے ہیں اور خون سوکھ جاتے ہیں۔ ماں کا وہ کمرہ جس کی حالت زار پر ہمیشہ اس کو رحم آتا تھا اور جس کو بدلنے کی اس نے ٹھانی تھی اور واقعی اس کو بدل بھی دیا تھا۔ اب اس کو قید کی طرح لگنے لگا۔ اس کو لگتا کہ جیسے اس نے خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے لئے ایک قید خانہ تیار کر لیا تھا۔ اس کمرے کے اندر لائی ہوئی ترتیب کے ساتھ رکھی اس کی چیزیں اور کتابیں ان کے ساتھ وہ بندھ گئی تھی اور یہ بندھن ایسا تھا کہ اس کو کسی دوسرے بندھن کی طرف جانے کا سوچنے بھی نہ دیتا تھا۔ وہ کمرے کی چار دیواری کے اند رکھی اشیاء اور کمرے کی محبت میں گرفتار ہوکر ان دیواروں کی قیدی بن گئی تھی۔ پھر ایک دن اچانک اس کو خیال آیا کہ اس کو یہ جیل توڑ کر بھاگ نکلنا چاہیے۔ آخر ایک کمرہ ہی تو تھا اور ایک کمرے میں زیادہ سے زیادہ کتنی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن کو چھوڑنا مشکل ہو۔ انسان کی ملکیت میں کم چیزیں اور اسباب ہو تو اس کو گھر ہی نہیں بلکہ دنیا چھوڑنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس نے کمرے کے اسباب کو باندھا، کپڑے، کچھ جوڑے جوتوں کے، کتابوں کے د س بارہ بنڈل، تصویروں کے ایک دو البم ایک چھوٹی سی گاڑی کرائے کی منگوائی اور کمرے کی قید سے ہمیشہ کیلئے آزاد ہوگئی۔

    اور اگلے دن ماں نہ جانے ممتا کے کون سے جذبے کے تحت اس کو جگانے اس کے کمرے میں گئی تو وہ خالی پڑا تھا اور کمرے کی قیدی آزاد ہو چکی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے