ایک رات دھیرے سے میں اپنے کپل وستو سے نکل پڑا۔
میں نے اپنی نو سالہ بچی صبا کی پیشانی چومی، نزہت کی طرف حسرت بھری نگاہ ڈال کرہی رہ گیا۔ کیوں کہ وہ ہمیشہ کچی نیند سوتی تھی، میرے جسم کی خوشبو پاتے ہی جاگ پڑتی اور میرے پاؤں میں پڑی ہوئی بیڑیوں کو جکڑ دیتی۔
میں نے اپنی بچی اور بیوی دونوں کے لئے اپنی بہترین دعائیں چھوڑیں ان پر الوداعی نگاہ ڈالی اور گھر سے باہر آ گیا۔۔۔ اپنی گلی سے نکل کر غیر پختہ اور ناہموار سڑک پر آیا تو میری راہ میں عمران کا مکان حائل ہوا۔ ایسا لگا، عمران اپنی باہوں کے مضبوط حلقے میں مجھے جکڑ لینا چاہتا ہے۔ ایک لمحہ کے لئے میں نرم پڑ گیا، مجھے میرے ارادے متزلزل سے ہوتے دکھائی پڑے، لیکن دوسرے ہی لمحہ میں نے خود کو سنبھالا اور اپنی کمزوری دور کرنے کے لئے سوچنے لگا۔ میرا یہ دوست اب تک حیات کی ہر منزل پر محض اپنی برتری، خودنمائی اور خوش نامی کی خاطر، مجھے فریب دیتا رہا ہے، مجھے تڑپاتا رہا ہے۔ آج میں اسے جل دے کر نکل جاؤں کہ یہ اپنی بقیہ ساری زندگی رو رو کر اپنی اور میری محبت کا حساب برابر کرتا رہے۔
نیم تاریک سڑک کو پیچھے چھوڑکر، اسٹیشن جانے والی سیمنٹیڈ لمبی چوڑی روشن سڑک پرجب میں آیا تو میں نے خود کو بےحد ہلکا محسوس کیا۔ میرے اندر کا سارا گردوغبار، ساری غلاظت، کچرا اور آخوریک لخت معدوم ہو چکے تھے، میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ سالہا سال گھونٹ گھونٹ جس زہر کر پیتارہا ہوں۔ وہ یوں بس ایک لمحہ میں میرے وجود سے دور ہو سکتاہے۔ صبا کو پیار کرتے کرتے مجھے اکثر خیال آ جاتا، میرے مسموم ہونٹوں کا زہر بھولی بھالی معصوم بچی کے جسم میں نہ سرایت کر جائے! ایسی ساعتیں مجھ پر قیامت بن کر ٹوٹتیں اورمیں کانپ کانپ جاتا۔ پھر میرا سارا وجود غصہ اور نفرت کی لہروں کی آماج گاہ بن جاتا۔ سانپ کی طرح لمبی لمبی زبان نکالتی لہکتی دہکتی ان لہروں سے میں نے بارہا سوچا ‘سلطان کو جلاکر راکھ کر ڈالوں کہ زہر کا پہلا گھونٹ اسی کے توسط سے میری شریانوں میں شامل ہوا تھا۔ غصہ اور نفرت کی ان لہروں میں، میں خود تو جلتا جھلستا رہتا، لیکن ان کی گرفت سے سلطان ہمیشہ محفوظ رہا کہ وہ لہریں اس تک جاتے جاتے منتشر ہو جاتیں۔
سلطان ہمارے دفتر کا ہیڈ کلرک تھا۔ وہ باتیں کرتا تو لگتا جیسے کانوں میں شہد ٹپکا رہا ہو۔ پیالہ کا پیالہ زہر پی کربھی جانے اس شخص میں اتنا میٹھا پن کہاں سے آجا تا ہے؟ اپنی ان ہی میٹھی اور شیریں آواز کو کمند بناکر اس نے مجھے اسیر کیا تھا۔
’’زندگی ناکردہ گناہوں کی سزا ہے میرے دوست! ‘‘چبا چبا کر باتیں کرنے کا وہ عادی تھا۔ تم نے زندگی کا زہر پی لیا۔ پھر ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے کب تک دامن بچاتے رہوگے۔ زندگی کو جھیلنے کے لئے تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ اپنے پروموشن کے لئے تم نے کیا کیا؟ نگیندر بابو کو تھوڑی سی رشوت دے دو، ارے ہاں میرے یار، ادھر لیا ادھر دیا، یہی زندگی جھیلنے کا فن ہے۔ تم اسے زہر سمجھتے ہو، چھوڑو بھی اپنے اس اصول کو، یہ توکسی کام میں تمہاری خاص ایکٹیویٹی کاصلہ ہے۔‘‘
میں نے سلطان کی طرف دیکھا پھر اس دبلے پتلے اجنبی کی طرف جس کے ہاتھ میں زہر کا پیالہ تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ایک لمبا گھونٹ لیا۔ پھر یہ گھونٹ میرے لئے غیر مانوس نہ رہ گیا، لیکن میں اپنے آپ سے غیرمانوس ہوتا گیا۔ اپنی بیوی اور بچی سے غیرمانوس ہوتا چلا گیا۔ غیر محسوس طور پر ایک انجانا اور ان دیکھا خوف میرے وجود کو جکڑ نے لگا۔ پھر میں اپنے آپ کو سراسیمگی سے کسی طرح نہ بچا سکا، اپنے متوحش چہرے کو دھونے کی فکر میں اور بھی متوحش ہوتا چلا گیا۔
ایک شام میں اپنے مسموم جسم کو آرام کرسی پر سمیٹے،اپنی اگلی پچھلی زندگی کاحساب کر رہاتھا کہ صبا کی آواز میرے کانوں کی راہ سے دل میں اترتی چلی گئی۔ وہ کلاس نوٹس زور زور سے پڑھ رہی تھی۔
’’سدھارتھ نے دنیا تیاگ دی تھی۔ کئی برسوں تک وہ سنیاسی کی طرح گھومتے رہے۔ اس کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ علم حقیقی حاصل ہو گیا ہے۔ ان کا قول تھا، اس دنیا میں دکھ ہی دکھ ہے اور اس کی وجہ دنیاوی چیزوں کی ترشنا ہے ۔ترشنا سے انسان کی نجات اشٹانگک مارگ پر عمل پیرا ہونے سے ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘
صبا پڑھتی رہی لیکن اس کے پڑھے ہوئے بعض جملے نے مجھے جکڑ لیا اور میرے دل ودماغ میں جھکڑسے چلنے لگے۔ میں نے سوچا ہوس نے مجھے قیدی بنا لیا ہے، اس قید سے مجھے نجات چاہئے۔ مجھے نجات چاہئے۔ کئی دنوں تک میں اس احساس کی آگ میں جلتا رہا۔ آخر ایک رات میں نے سوچا شہزادہ سدھارتھ نے کپل وستو تیاگ دیا تھا۔ انہیں علم حقیقی حاصل ہوا اور سکون بھی میسر آیا۔ مجھے بھی سکون چاہئے۔ ترشنا سے نجات چاہئے !
اپنے کپل وستو سے نکلنے کے بعد گلیوں گلیوں، سڑکوں سڑکوں بھٹکتا رہا۔ ایسے میں میرے وجود نے میری ہمت بند ھائی اور اس سفر کو جاری رکھنے کو آمادہ کیا کہ اس سفر کے ابتدا ہی میں میرا مسموم جسم پاک ہو گیا تھا، اس لئے اس رحمت کے دامن کو مجھے نہیں چھوڑنا چاہئے اور راست بازی اور صالح عمل کی طرف اپنے قدم کو بڑھاتے جانا چاہئے تاکہ پروجنم کے برے اعمال کے اثرات زائل ہوں اور موجودہ زندگی میں پھر کبھی زہر کا گھونٹ نہ لینا پڑے، روح پاک ہو جائے اور نجات کامل حاصل ہو کہ پھر دوبارہ جنم لینے کی صعوبت سے چھٹکارا ملے۔
میں بھٹکتا رہا اور میری بیوی نزہت، میری بچی صبا، میرا پیارا دوست عمران برابر میرا تعاقب کرتے رہے۔ آخر ان سب نے ہار مان لی اور میرا پیچھا چھوڑ کر لوٹ گئے۔ تب میں نے ایک سرسبز و شاداب جنگل کو اپنا مسکن بنا لیا اور پیپل کی چھاؤں میں بیٹھ کر میں نے سوچا، اب خدا سے لو لگانا چاہئے۔ میں آنکھیں بند کرکے اپنے اندر اترنے لگا۔ میں نے سوچا تھا، ساری راہ اپنے اندر کے ہجوم کو نکال نکال کر پھینکتا آیا ہوں۔ اب میرادل بالکل خالی ہوگا۔ خلا کی طرح۔۔۔ اور اس میں ڈبکی لگاکر میں اپنے خدا کو آسانی سے پالوں گا۔ لیکن میری پہلی ہی ڈبکی نے مجھے مبہوت کر دیا۔
میرے سامنے عمران اپنی مخصوص مسکراہٹ کا جال لئے کھڑا تھا۔ میں نے سوچا کیا کروں، آخر سلطان کی طرح لہجہ میں میٹھاپن اور شیرینی پیدا کرکے دردانگیز الفاط کو ترتیب دینے لگا۔
’’مجھے معاف کر دو میرے دوست! میں نے اپنی زندگی کے بہاؤ کا رخ موڑ دیا ہے۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، مجھے تنہا چھوڑ دو۔‘‘
عمران چلا گیا۔ میں نے دور تک اس کے اداس قدموں کی چاپ سنی اور میری نظروں نے سینکڑوں میل دور اسے مغموم اپنے کمرے میں تنہا پایا۔ اس کے چاروں طرف میری یادوں کی مدھم مدھم روشنی بکھری تھی اور وہ میری تحریروں سے اپنی آنکھیں دھو رہا تھا۔
میں نے ایک گہری سانس لی اوراس کا نام لیا جو نہایت مہربان ہے، رحم کرنے والا ہے۔
دوسری دفعہ جب میں اپنے اندر اترنے کی کوشش کر رہا تھا تو میری نظریں نزہت سے ٹکرائیں۔ وہ صبا کا ہاتھ تھامے یاس وحسرت کی تصویر بنی کھڑی تھی۔ اس نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ لیکن اس کی آنکھیں؟ اف میرے مولا، ان آنکھوں میں بےبضاعتی و حرماں نصیبی کی کتنی داستانیں کروٹیں لے رہی تھیں۔ میرے پورے بدن میں ایک عجیب سی لہر دوڑ گئی۔ میرے قدم اسی پل ڈگمگانے لگے اور میں سوچنے لگا لوٹ جاؤں لیکن پیپل کی پر سکون ٹھنڈی چھاؤں نے اس زہر کی وادی میں واپس جانے سے مجھے روک دیا۔ میں نے نزہت کی تصویر اپنے دل کے نہاں خانے سے نکال پھینکی۔ لیکن نزہت کی تصویر تو ہر لمحہ بن رہی تھی۔ میں کہاں تک پھینکتا؟ اس کی بے پناہ اداسی کا جال لمحہ بہ لمحہ میرے وجود کو جکڑ نے لگا۔
وہ سارا دن بڑی بےکلی میں گزرا۔ ایک ایک کرکے نزہت کی سینکڑوں تصویریں مختلف پس منظر میں ذہن میں بنتی بگڑتی رہیں اور اپنے آپ میں اترنے کی میری ساری کدوکاوش رائیگاں گئی۔
دوسرے دن مجھے ایسا لگا جیسے کئی سال بیت گئے اور میں سب کچھ بھلا نے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ میرے آگے پیچھے کوئی نہیں، میں ہوں اور میرے دل کا اتھاہ سناٹا۔
میں نے اس کا نام لیا جونہایت مہربان ہے، رحم کرنے والا ہے اور اپنے آپ میں اترنے لگا۔ میں نے محسوس کیا میں بےحد کمزور ہو گیا ہوں اور میرے اندر اترنے کے عمل میں وہ تند ہی نہیں رہی۔ دراصل میں ڈر رہا تھا کہ پھر کوئی کسی گوشے میں چھپا بیٹھا نہ ہو۔ میں نے سوچا، نزہت نے اب تک خود کو ایڈ جسٹ کر لیا ہوگا اور صباؔ۔۔۔؟
معاً میرے ذہن کے کسی گوشے سے نزہت کا پیکر ابھرا اور میں خوف سے لرز گیا۔ نزہت کے چہرے پر اتنی ساری لکیریں کہاں سے آئیں۔۔۔؟ ان لکیروں میں نزہت کا اپنا چہرہ یوں ڈوب گیا تھا جیسے کبھی گھونٹ گھونٹ زہر میں میرا سارا وجود۔۔۔! میں نے محسوس کیا ان لکیروں کو میں پڑھ سکتا ہوں۔ ان میں ایک قید تنہائی کی لکیر ہے، ایک بےبضاعتی کی علامت، ایک لکیر صبا کی تعلیم اور اس کے مستقبل کی فکر بن کر ابھری ہے، ایک صبا کی شادی کی فکر کی نشانی ہے، ایک گہری لکیر۔۔۔؟ صبا ؟؟ نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ گہری لکیر؟ یہ صبا کے گھر سے بھاگ جانے کی لکیر ہے!
میں نے آنکھیں کھول دیں۔
سورج کی ٹکیہ آدھی سے زیادہ افق کی کوکھ میں سما چکی تھی اور شام کی تاریکی اپنے پر پھیلائے کائنات کواپنی آغوش میں سمیٹ رہی تھی۔
میں نے سوچا، میں انجانے میں اپنے جسم کا سارا زہر نزہت کے جسم میں محلول کر آیا ہوں اور نزہت اس زہر کو۔۔۔ نہیں نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔۔۔ہرگز نہیں۔
اپنے کپل وستو کی طرف لوٹتے ہوئے میں سوچ رہا تھا۔ نزہت، صبا، جسم کازہر اور نروان۔۔۔۔! پھر پیپل کا درخت ابھرا اور اس کے گرد نزہت، صبا اور میں دائرہ بن کر گردش کرنے لگے۔ ہم گردش کرتے ہوئے دائرہ کی شکل میں دور ہوتے گئے اور پیپل کا درخت چھوٹا۔۔۔ بہت چھوٹا۔ یہاں تک کہ جب میں کپل وستو پہنچا تو پیپل کادرخت ایک نقطہ بن چکا تھا۔۔۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.