Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کسک

MORE BYعشرت ناہید

    ثنا کی زندگی خانہ بدوشوں کی طرح تھی کیونکہ اس کے شوہر عامر کی ملازمت ہی ایسی کمپنی میں تھی کہ تبادلہ مستقل ہوتا رہتا تھا وہ کسی شہر میں تین سال سے زائد نہیں رہی تھی۔ یونہی شہر شہر گھومتے ہوئے وہ اس خوبصورت نگر میں آگئی تھی جو اپنی تہذیب کے لیے پہچانا جاتا تھا، جہاں قدم قدم پر تاریخ کے زرد اوراق کی طرح اپنے اندر داستانوں کا ذخیرہ لیے ہوئے عمارتیں بکھری پڑی تھیں۔ وہ شہر جس کی گومتی میں کبھی ایک لاکھ ناؤ گھوما کرتی تھیں جنہوں نے اس شہر کو نام ’لکھ ناؤ دیا تھا مگر اب وہ ناؤں کہاں؟ گومتی کا دامن آج کے انسان کے دل کی طرح سکڑ کر اتنا چھوٹا ہو چکا تھا کہ ایک لاکھ تو کیا ایک سو ناؤ بھی نہ سما سکیں۔ مگر پھر بھی گومتی کی ہر ایک لہر ایک کہانی بیان کرتی ہوئی سی محسوس ہوتی۔

    اس کے فلیٹ کے سامنے گومتی کا دلفریب نظارہ تھا جس کے کنارے پر آباد مندروں کی نقرئی گھنٹیاں صبح سویرے اور شام ڈھلے جب بجتیں تو کانوں کو بڑی بھلی معلوم ہوتیں ایک پاکیزگی کا احسا س دلوں میں پیدا کرتیں۔ صبح سویرے پنڈت گومتی میں اشنان کرکے گھنٹی کو مسلسل بجاتے ہوئے دودھ اور پھر گنگا جل سے کرشن جی کی مورتی کو اسنان کراتے پھر بڑی عقیدت سے اس پر پھولوں کی مالا پہناتے ہوئے شلوک پڑھتے تو ان کے پوتر بول خاموش فضا میں گونجنے لگتے۔

    اسی وقت مسجد وں میں اذانیں ہو نے لگتیں تو ایک نئی سحر انگیز ی ماحول پر طاری ہوجاتی پیڑ پودے جھوم جھوم کر حمد و ثنا کرتے تو پرندے بھی اپنی چہچہاہٹ کے سر ان میں ملا دیتے۔

    اس روح پرور منظر کو وہ روز اپنے گھر کی بالکونی سے دیکھا کرتی، ایک سکون سا اپنی روح میں اترتا محسوس کرتی اور اسی نورانیت کی چادر تلے نماز ادا کرتی۔

    بہت جلدی ہی اس کا دل اس شہر میں لگ گیا تھا وہ حیران تھی کہ اسے یہاں اجنبیت کیوں محسوس نہیں ہوتی، یہاں کی فضائیں اتنی اپنی اپنی سی کیوں ہیں ایسا پہلے تو کبھی کسی جگہ پر نہیں ہوا ہر جگہ اسے سیٹ ہونے میں الجھن اور وقت دونوں ہی لگا کرتے تھے، ہر نئے شہر کی فضائیں اجنبی ہی لگا کرتی تھیں ان سے مانوس ہوتے ہوتے ایک لمبا عرصہ بیت جا یا کرتا تھا اور کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ کسی شہر میں دل لگا ہی نہیں اور عامر کا تبادلہ ہو گیا۔ اس لیے وہ حیران تھی کہ اس شہر میں ایسا کیا ہے جو اسے اتنی اپنائیت محسوس ہوتی ہے ابھی تو یہاں کسی سے شناسائی بھی نہیں ہے پھر کیوں ایسا لگتا ہے کہ یہ ہوائیں، یہ ندی کا کنارہ، یہ فضائیں، یہ مندروں کی نقرئی گھنٹیاں، یہ اذانیں ان سب سے اس کا کوئی ناطہ ہے یہ سب اس کے ساتھی ہیں،یہ سب اس کے رازدار ہیں مگر اس کے پاس تو کوئی ایسا راز نہیں، یہ ہوا جب اس کے پاس سے سرگوشی کرتی ہوئی گزرتی ہے تو اسے ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ اس سے کچھ کہہ رہی ہے جسے وہ سمجھ نہیں پارہی ہے۔ اکثر شام ڈھلے وہ بالکونی میں چائے کا کپ لیے بیٹھی ہوتی اور سوچتی رہتی۔ یہ داستانوں سے بھرا شہر ہے کہیں کوئی فوق فطری شے اس کے آس پاس بسیراتو نہیں کر گئی؟ تب ہی اس کی نظر سامنے دیوار پر پڑی ایک بڑی سی چھپکلی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی اور ایک جھٹکے سے اس نے چھوٹی سی معصوم سی تتلی کو نشانہ بنایا۔ تتلی پوری قوت سے چھٹپتائی اور اس کی گرفت سے نکل کر نیچے گر پڑی لیکن زخمی ہو چکی تھی دوبارہ اڑ نہ پائی اور دم توڑ گئی یہ منظر اس کے ذہن پر ثبت ہوگیا دل درد سے بھر آیا۔ وہ اٹھ کر اندر چلی آئی۔

    ویک اینڈ پر ثنا اور عامرنے شہر کی تاریخی مقامات دیکھنے کا پروگرام بنایا تو سب سے پہلے بڑے امام باڑے جانے کا سوچا کیونکہ یہاں دیکھنے لائق جو کچھ بھی تھا ان میں امام باڑے ہی سب سے اہم تھے، راستے پتہ نہیں تھے انٹرنیٹ سے مدد لی اس کے باوجود وہ بھٹک گئے اور بجائے امام باڑے کے مرکزی دروازے والی سڑک کے پیچھے والے راستے پر پہنچ گئے گنجان سا علاقہ تھا جہاں کچھ پرانی طرز کے شکستہ سے مکانات تھے گاڑی روک کو ایک بزرگ شخص سے آگے کا راستہ پوچھا۔

    ‘’بھائی صاحب، امام باڑے جانا تھا ہمیں راستہ کدھر سے ہے؟’‘

    وہ ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو اس کے اس طرح دیکھنے اور کوئی جواب نہ دینے پرعامر نے زور سے سوال دہرایا۔

    ’’جناب راستہ بتا دیجیئے‘‘

    ’جی جناب‘ وہ سنبھلا اور بولا ’’آپ حسین آباد امام باڑہ کے پیچھے آ گئے ہیں اب آپ یہاں سے سیدھے جائیے گا ایک تراہا آئےگا اس کے دائیں جانب مڑ جا ئیےگا پہلے رومی دروازہ آئےگا اس کے بعد پھر امام باڑہ۔’‘

    شکریہ کہتے ہوئے عامرنے گاڑی آگے بڑھا دی مگر وہ وہیں رہ گئی کون تھا وہ شخص، کیوں جانا پہچانا سا لگا وہ بھی تو مجھے جیسے پہچاننے ہی کی کوشش کر رہا تھا اس نے جلدی سے سر کو جھٹکا اور عامر سے باتوں میں مشغول ہو گئی۔

    امام باڑہ کے بڑے گیٹ میں داخل ہوتے ہی ایک الگ سماں نظر آیا وہاں چھماہی کی مجلس ہونے والی تھی جس میں حضرت امام علی موسیٰ رضا تشریف لا رہے تھے،مراثی کی ریکارڈنگ گونج رہی تھی جس سے ثنا پر رقت سی طاری ہونے لگی۔ دریائے فرات، وہ معصوم علی اصغر کے پیاسے لب،وہ عبا س علمدار کے شانے پر جھولتا سکینہ کا مشکیزہ، ہائے وہ سکینہ بابا کی لاڈلی، چچا کی گودوں کھیلی، وہ معصوم علی اصغر وہ کربلا کے غریب الوطن جنہیں لوٹنا نصیب نہ ہوا،سا را درد تازہ ہو چلا تھا۔ بڑے سے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی اس پر عجیب سی کیفیت طاری ہونے لگی تھی سب کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا تھا، اس نے تو کبھی تصویریں بھی نہیں دیکھی تھیں یہاں کی پھر کیوں محسوس ہو رہا کہ وہ پہلے بھی یہاں آ چکی ہے۔ بڑے اما م باڑے کے دو دروازے تھے دوسرے دروازے کے لیے انیس سیڑھیاں تھیں ہر سیڑھی ثنا کو ایک نئی دنیا کی طرف لے جا رہی تھی اندر جانے کا ٹکٹ اسی گیٹ پر مل رہاتھا اندر سیدھا راستہ مرکزی عمارت کی طرف جاتا تھا راستہ ختم ہونے پر پھر سترہ سیڑھیاں تھیں اسی کے دائیں جانب آصفی مسجد اور بائیں جانب باؤلی تھی سامنے چوڑی سیڑھیاں جو امام باڑے کی مرکزی عمارت کی طرف جاتی تھیں جیسے جیسے وہ سیڑھی پر قدم رکھتی جا رہی تھی اور اس کی بے کلی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، دل کا سکون ختم ہوتا جا رہا تھا۔ اوپر چڑھ کر بڑا سا چبوترا اس کے بائیں طرف بھول بھلیاں تھیں۔ وہ پہلے اندر گئے زیارت کی۔ تعزیے اور اندر کے مناظر نے پھر اسے ایک اجنبی مگر مانوس سی فضا میں لا کھڑا کیا تھا چائینا ہال جس میں خواتین بیٹھ کر وعظ سنا کرتی تھیں اس کے کونے میں اسے کالے ماتمی لباس سے سرسراتے محسوس ہو رہے تھے واقعہ کربلا کی یاد تازہ ہوئی جا رہی تھی درد و غم کی فضا چہار سو طاری تھی زیارت کے بعد باہر نکلے تو گائیڈ منتظر کھڑا تھا بھول بھلیاں کی طرف لے جانے کو مگر وہ گائیڈ کی پرواہ کیے بغیر اپنے آپ میں گم سی آگے بڑھ گئی تھی۔ عامرگائیڈ اور دوسرے سیاح کے ساتھ باتیں کرتا ہوا آ رہا تھا وہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ یہاں پہنچنے کے بعد سے وہ کچھ کھوئی کھوئی سی ہے مگر اس نے اس بات پرکوئی خاص توجہ نہیں دی کہ شاید مراثی اور ماحول کا اس پر گہرا اثر ہو رہا ہے اور وہ رنجیدہ اور مغموم ہے مگر ثنا پر تو کوئی اور وہی کیفیت طاری تھی کہ سب کچھ اپنا اپنا سا کچھ بھی نیا نہیں یہ ہوائیں یہ فضائیں یہ مناظر سب کچھ دیکھے دیکھے سے۔

    وقت تھما تھما سا وقت

    یہ وقت بھی کیا چیز ہے

    کبھی ٹھہرتا ہے تو صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے

    کبھی چلتا ہے تو لمحوں میں صدیوں کی مسافت طے کر لیتا ہے

    کبھی زندگی کو روک دیتا ہے تو

    کبھی زندگی کو اپنے پروں پر اڑا لے جاتا ہے

    وہ اپنے خیالوں میں گم تھی کہ عامر نے آواز دی

    ’’ثنا ٹھہرو بھی تم تو ایسے آگے جاتی جا رہی ہو جیسے سب چیزوں سے واقف ہو ’’

    اس نے مڑ کر عامر کو دیکھا اور کہنے لگی

    آئیے آپ میرے ساتھ گائیڈ سب کو جمع کرنے میں دیر لگا رہا ہے ہم تب تک اوپر چلتے ہیں’‘

    بھول بھلیاں کی اونچی اونچی سکڑی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے وہ دونوں ۴۸۹ راستوں پر بھٹکا دینے والی بھول بھلیاں پر پہنچ چکے تھے۔

    ’’اب رک کر زرا گائیڈ کا انتظار کر لیتے ہیں ورنہ ہم بھٹک جائینگے’‘ اس نے آگے بڑھتی ثنا کو روکتے ہوئے کہا

    ’’نہیں بھٹکیں گے میں تو ہوں آپ کے سا تھ’‘

    اس کی آواز بدلی بدلی سی تھی

    عامر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھی

    وہ آگے ایک راستے کی طرف بڑھنے کو تھی کہ اس کے عامر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا

    تب تک گائیڈ دیگر لوگوں کو لے کر اوپر آچکا تھا وہ بھول بھلیاں کی تاریخ بتا رہا تھا کہ ایران کے انجینئیر کفایت اللہ نے یہاں کی دیواریں کچھ اس طرح سے بنائی ہیں کہ یہ سرگوشیاں سن ہی نہیں لیتیں بلکہ ان سر گوشیوں کو دوسرے کو سنا بھی دیتی ہیں۔

    ’’آپ یہاں دیوار کے قریب آکر کچھ کہیے بالکل ہونٹوں ہی ہونٹوں سے اور میڈم آپ وہاں دور جاکر دیوار سے کان لگائیے۔’‘

    عامر نے دیوار میں ہونٹ لگا کہا

    ’’ثنا تم میری زندگی ہو’‘

    وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی

    ‘’آپ تو عاشقوں سی باتیں کرنے لگے’‘ وہ بھی ہنس پڑا ‘’چلو شوہر والی بات سنو

    ارے سنتی ہو آج شام کو کیا پکا رہی ہو؟ اور ہاں تم نے میرے آفس کے کپڑے استری کر دئیے’‘

    اس کی باتوں پر ہنستے ہنستے ثنا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے پھر سے دیوار پر کان لگا دئیے۔

    ‘’تم آ گئیں تمہیں آنا ہی تھا نا ایک دن’‘

    اس نے چونک کر عامرکو دیکھا وہ تو گائیڈ سے فن تعمیر کے بارے میں بات کرر ہا تھا پھر کس کی سرگوشی تھی میرا وہم ہوگا اس نے سر کو جھٹکا اور عامرکے قریب ہو گئی لیکن پورے وقت باوجود کوشش کہ وہ اس آواز کے حصار سے باہر نہیں آ پائی کہ کوئی اس کے آس پاس ہے کوئی ہر قدم یہاں اس کی رہنمائی کر رہا ہے نہ تو اسے کوئی ہیولہ نظر آیا نہ ہی کوئی ایسی چیز لیکن بس ایک بازگشت تھی جو صرف اسے سنائی دے رہی تھی اور مسلسل اس پر اپنی گرفت مضبوط کرتی جارہی تھی، کبھی اسے لگ رہا تھا کہ یہاں کے در و دیوار اس سے باتیں کرنا چاہ رہے ہیں، کوئی ان سنی کوئی ان کہی سی داستاں ہے جس کے لیے اس کا انتظار تھا اور اب یہ در و دیوار اسے سنانے کے لیے بےقرار ہیں، وہ کبھی بھوت چڑیل یا آسیب پر یقین نہیں کرتی تھی مگر کچھ تو تھا جو اسے الجھا رہا تھا وہ سوچوں میں گرفتار تھی اس کی چال خود بخود دھیمی ہوتی جا رہی تھی وہ بار بار پیچھے رہ جاتی تھی اور عامر آواز دیتا تھا اب کے عامر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے لیا تھا۔ اب وہ باؤڑی ( باؤلی ) کی طرف بڑھ رہے تھے جیسے ہی اس کے اندر جھانکا بہت گہرائی تھی اس میں اسے کچھ نظر نہ آیا مگر پھر بھی وہ بری طرح ڈر گئی سہم کر پیچھے ہٹ گئی اسی باؤلی کی گہرائی میں اودھ کے خزانے کا نقشہ اور چابی بھی ڈال دی گئی تھی اور بھی نجانے کیسے کیسے راز دفن تھے وہ سوچ رہی تھی یہ تاریخ بھی نا کتنی بے رحم ہوتی ہے کتنی ہولناک کہانیاں اس کے دامن میں بکھری پڑی ہوتی ہیں مگر پھر بھی کبھی اس کا دامن بھرتا نہیں صدیاں سمیٹے چلی جاتی ہے، نہیں یہ تو ڈائن ہے جو کروڑوں سالوں سے آدم کی اولادوں کو کھائے جا رہی ہے مگر اس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں جانے کب یہ شکم سیر ہوگی۔ عجیب عجیب سوچیں اسے اپنی لپیٹ میں لیے تھیں وہ جب گھر پہنچے تب تک شام گہری ہو چلی تھی تھکن بھی ذیادہ تھی اس وجہ سے نیند کی دیوی نے اسے جلدی ہی آغوش میں لے لیا تھا رات کے کسی پہر دروازے پر دستک ہوئی وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی کہ شاید صبح ہو گئی اور کام والی نے دروازہ بجا دیا وہ حیران ہو رہی تھی اپنی گہری نیند پر کہ اتنی دیر تک وہ سوتی رہی اذان کی آواز پر بھی اس کی نیند نہیں کھلی تب ہی اس کی نظر سامنے لگی گھڑی پر پڑی رات کے دو بج رہے تھے وہ اور پریشان ہوگئی اس وقت کون آ سکتا ہے؟

    اس نے عامر کو جگایا ‘’اٹھیے کسی نے دروازہ بجا یا ہے؟

    اس وقت کون ہوگا؟ سو جاؤ صبح دیکھیں گے۔’‘

    ‘’دروازہ کوئی ابھی بجا رہا اور آپ کہتے ہیں صبح دیکھیں گے جلدی اٹھیے دیکھیے کون ہے؟’‘

    ’’کون ہوگا اس وقت’‘ بڑبڑاتے ہوئے وہ باہر گیا کوئی نہیں تھا۔

    ’’دیکھو میں نے کہا تھا نا کوئی نہیں ہے بلاوجہ نیند خراب کر دی’‘

    ’’لیکن میں نے باقاعدہ دستک کی آواز سنی تھی’‘

    ’’دستک!!!! وہ حیرانی سے بولا

    ’’حد ہے ڈور بیل چھوڑ کر کوئی دستک کیوں دےگا۔ چلو چپ چاپ سو جاؤ کچھ خواب دیکھا ہوگا’‘

    وہ کچھ نہ بولی اور لیٹ گئی اور پھر دعائیں پڑھتے پڑھتے نجانے کب سو گئی۔

    پھر تو یہ ہر دوسرے دن کا معمول سا ہوگیا کہ ثنا جب گہری نیند میں ہوتی اسے دستک کی آواز آتی اور وہ نیند سے چونک کر اٹھ بیٹھتی وہ عامر کو جگاتی دوچار بار وہ اس کے کہنے پر دروازے تک جاکر کبھی باہر تک جا کر دیکھ بھی آیا مگر کوئی نا ملا تب اس نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا۔

    ’’دیکھو ثنا تم دن بھرگھر میں اکیلی رہتی ہو یہ ہارر سیریل اور ہارر فلمیں نہ دیکھا کرو یہ تمہارے دماغ میں خلل پیدا کر رہی ہیں۔’‘

    ’’میں تو ایسی کوئی چیز دیکھتی ہی نہیں‘‘

    ’’تو پھر کیا دعائیں پڑھ کر اور حصار باندھ کر سونا چھوڑ دیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں ایسا بھی نہیں ہے میں پابندی سے حصار باندھ کر اور چاروں طرف دم کرکے ہی سوتی ہوں۔’‘

    ’’پھر کیا بات ہے تمہیں یہ دستک کیوں سنائی دیتی ہے جو مجھے تو کبھی سنائی نہیں دیتی’‘

    ’’پتہ نہیں لیکن میر ایقین کیجیے دستک اتنی واضح ہوتی ہے کہ مجھے صاف سنائی دیتی ہے اور میری نیند اسی آواز سے ٹوٹتی ہے’‘

    دن بھر اسے گھر میں بھی کسی کی موجودگی کا احساس رہتا وہ الجھی الجھی سی رہتی اس کی صحت پر بھی اثر پڑنے لگا تھا جس کی وجہ سے عامربھی فکر مند ہونے لگا تھا۔

    اس رات بھی وہ گہری نیند سے جاگی تھی اسی ٹھک ٹھک کی آواز پر پھر اسے بہت دیر تک نیند نہ آئی وہ دعائیں پڑھتی رہی پھر نجانے کس پل اس پر غنودگی سی طاری ہونے لگی ہی تھی کہ ایک آواز نے اس کے ہوش اڑا دئیے۔

    ‘’ارے ثنا بٹیا تم تو پھر سونے لگیں کیا میرے دیس میں آکر بھی کہانی نہ سنوگی؟‘‘

    آواز سنتے ہی اس کی چیخ نکل گئی

    ’’دادی‘‘

    بمبئی والی دادی’‘

    عامر ہڑبڑا کر نیند سے بیدار ہوا وہ بےتحاشا رو رہی تھی

    ’’ثنا ثنا کیا ہوا؟’‘

    ’’کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا۔ پھر دروازے پر دستک ہوئی کیا؟‘‘

    ’’نہیں نہیں عامر اب تو صاف آواز ہی لگائی ہے دادی نے’‘

    ’’دادی نے؟‘‘عامر حیران ہو رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی

    ‘’دادی کون دادی’‘

    ’’عامر یہ ایک بہت درد بھری داستان ہے’‘

    ’’لو پہلے پانی پیو اور پھر بتاؤ کیا ہوا؟‘‘پانی پی کر اس کی طبیعت بحال ہوئی۔

    عامر، وہ میرے ابا کی ممانی تھیں ان کی رضاعی ماں بھی تھیں اس رشتے سے وہ میری دادی ہی تھیں۔ سب کہتے تھے کہ مجھ میں انہی کی شباہت ہے۔ دادی بہت نفیس خاتون تھیں گول چہرہ سفید دودھ سی رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، ستواں سی ناک،پتلے پتلے گلابی ہونٹ، بوٹا سا قد، جسم قدرے فربہی مائل، سفید براق سا کرتا اور چوڑی دار پاجامہ اس پر سفید ہی ململ کا بڑا سا دوپٹہ۔ نفاست تو جیسے رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی ہر کام میں ایسا سلیقہ، اٹھنے بیٹھنے کا انداز، نزاکت اور نفاست کسی بھی بات میں پورے خاندان بھر میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ کسی کام میں کجی ان سے برداشت نہ ہوتی تھی۔ دیوان پر پڑی چادر کا زرا سا بھی کونا ترچھا ہوتا جب تک سیدھا نہ کر لیتیں یا کروا لیتیں انہیں چین نہ آتا، جازم پر پڑی بھی سلوٹ ان کے سر درد کا باعث بن جایا کرتی تھی۔ جب بات کرتیں تو منہ سے پھول جھڑنے والی کہاوت صادق آتی۔ لیکن دادی کا ناطہ گومتی سے ٹوٹ کر شپرا سے کیسے جڑ گیا تھا اس راز سے وہ خود بھی ناواقف تھیں۔ زندگی نے اور ان کی قسمت نے ان کے ساتھ کچھ ایسی ذیادتی کی تھی کہ وہ تو درد سے افف بھی نہ کر پاتی تھیں۔

    ’’کیا ہوا تھا ان کے ساتھ؟ وہ شپرا کے تٹ تک کیسے پہنچی تھیں کچھ تو علم ہوگا؟’‘

    عامر، وہ بہت مظلوم تھیں بس وہ اتنا ہی بتاتی تھیں کہ ان کا تعلق ایک اچھے خاندان سے تھا ان کے والد کی ایک کپڑے کی دکان تھی وہ اور ان سے چھوٹا ایک بھائی صمد اور پھر ایک ننھی سی بہن تھی جب چھوٹی بہن پید ا ہوئی اس وقت ان کی اماں کا انتقال ہو گیا تب ان کی عمر دس سال تھی بھائی سات سال کا اور نومولود بہن فقط دو ماہ کی۔ اس چھوٹی سی بہن کو سنبھالنے والا کوئی نہ تھا نانی اور دادی پہلے ہی اس دنیا سے جا چکی تھیں صرف ایک چھوٹی خالا تھیں جنہیں ہم خالا باجی کہا کرتے تھے نانا نے ہم بچوں کا خیال کرتے ہوئے خالا باجی کا نکاح اپنے سے دوگنی سے بھی ذیادہ عمر کے میرے ابا سے کر دیا اور ایک رات خاموشی سے خود بھی ہماری امی اور نانی کے پاس چلے گئے۔ ہم بہت خوش تھے کہ خالا باجی اب ہمارے گھر ہی رہنے لگی تھیں مگر وہ اب ہم سے ویسی محبت نہیں کرتی تھیں جیسی امی کی زندگی میں کرتی تھیں اب تو وہ ذرا سی غلطی پر ہمیں دھنک کر رکھ دیتی تھیں۔ اگر ہم ابا سے کچھ کہہ دیتے تو ان کے جانے کے بعد ہماری اور ذیادہ پٹائی ہوتی اس لیے ہم دونوں بھائی بہن ابا سے بھی کچھ نہ کہتے۔ امی نے اپنی زندگی میں ہی میرا رشتہ گلی کے کونے پر رہنے والی خالدہ پھوپھی کے بیٹے ساجد سے کر دیا تھا جب ہماری منگنی ہوئی اس وقت ساجد کی عمر بمشکل چودہ سال اور میری نو سال تھی ہم بہت خوش تھے۔ ساجد اکثر گھر آیا کرتا تھا اور ہم خوب کھیلتے تھے مگر امی کے جانے کے بعد سے مجھے کھیلنے کا وقت ہی نہیں مل پاتا تھا گھر کے کام اور پھر چھوٹی کو سنبھالنا میری ذمہ داری سابن گیا تھا۔ اب ساجد جب بھی آتا صمد کے ساتھ کھیلتا رہتا اس کی موجودگی مجھے اچھی لگتی کیونکہ جب میں صحن میں کا م کر رہی ہوتی اور خالا باجی اندر کمرے میں ہوتیں تو وہ کچھ کچھ کاموں میں میرا ہاتھ بھی بٹا دیتا تھا اس دن بھی میں مصالحہ پیس رہی تھی نجانے کیسے وہ بڑا سا بٹا سل پر پس رہے مصالحے کے بجائے میری انگلیوں کو زخمی کر گیا اسی وقت ساجد آ گیا میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ا س نے میری زخمی انگلیوں کو دیکھا جلدی سے پانی سے انہیں دھویا اور کس کے دبایا کہ خون بہنا رک جائے اسی اثنا میں خالا باجی نکل آئیں اور یہ منظر دیکھ کر بھڑک اٹھیں وہ ساجد کو ڈانٹنے لگیں کہ

    ’’یہ کیا کر رہے ہو؟’‘

    ان کے انداز پر ساجد کو بھی غصہ آ گیا

    ’’آپ اس سے اتنا محنت کا کام لیتی ہیں دیکھیے کیسی چوٹ لگی ہے اسے’‘

    ’’کوئی چوٹ ووٹ نہیں ہے ذرا ذرا سے کام میں نخرے دکھاتی ہے۔ چل جلدی کر ادھر چھوٹی نے بھی گندگی کر رکھی ہے چھوڑ گئی ماں میرے سر سب کو’‘

    ’’یہ ذرا سا کام ہے خالا باجی؟ آپ خود کیوں نہیں کرتیں یہ کام؟‘‘

    بس خالا باجی کا پارہ انتہا کو پہنچ گیا وہ چوٹ کھائی ناگن کی طرح پھنکاریں

    ’’ہوتا کون ہے تو جو حمایتی بنے چلا جا رہا اور تیری اتنی مجال کہ مجھ سے اتنی زبان لڑائے’‘

    ‘’میں اس کا منگیتر ہوں اور یہ میری دلہن ہے’‘

    ’’منگیتر ہی ہے نا نکاح تو نہیں ہوا نا دیکھتی ہوں اب یہ کیسے تیری دلہن بنتی ہے‘‘

    ‘’نکل جا یہاں سے اور اب دوبارہ قدم مت رکھنا یہاں’‘

    ’’میں ابھی جاکر اپنی امی کو سب بتاتا ہوں کہ آپ اس پر کیسا ظلم کرتی ہیں’‘

    ’’ہاں ہاں جا بتا دے’‘

    اس کے بعد کیا ہو امجھے نہیں معلوم ساجد دوبارہ گھر نہیں آیا تھا ہاں اتنا ضرور تھا کہ ابا جب دکان سے آئے خالا باجی کو انہوں نے نجانے کیا کہا تھا وہ چپ چپ رہنے لگی تھیں اور ابا ہمارا دھیان ذیادہ رکھنے لگے تھے ہمیں ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دیتے۔ کچھ دن سے خالا باجی ابا کے دکان جانے کے بعد رکشہ میں بیٹھ کر کہیں چلی جاتی تھیں اس دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ چلو میری سہیلی کے گھر تم بھی ساتھ چلو میں نے کہا چھوٹی؟؟‘ کہنے لگیں اسے بھی ساتھ لے چلیں گے صمد اسکول جا چکا تھا۔ وہ رکشہ سے ہمیں کہیں لے گئیں ان کی سہیلی بہت بڑی سی عورت تھیں مجھ سے بہت پیار سے باتیں کر رہی تھی چھوٹی کو بھی انہوں نے خوب پیار کیا پھر ہمیں چائے دی چائے پینے کے بعد مجھے نیند آ گئی پھر میرے ساتھ کیا ہو ا مجھے کچھ خبر نہیں جب میری نیند کھلی میں ٹرین میں تھی ایک ابا کے جیسا آدمی پاس بیٹھا ہوا تھا میں ڈر کر رونے لگی تو اس نے مجھے جھڑک کر چپ کر دیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا میری خالا باجی میری چھوٹی‘ وہ بولا سب گھر پر ہیں اس کے بعد مجھے پھر نیند آ گئی۔ جب میں دوبارہ جاگی تو اپنے آپ کو ایک اجنبی گھر میں پایا ایک خاتون اداس سی میرے پاس بیٹھی تھیں میں ان سے رو رو کر پوچھتی رہی کہ مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے مجھے میرے گھر پہنچادو، مجھے میری چھوٹی اور بھائی کو دیکھنا ہے۔ مگر وہ بھی خاموشی سے میرا منہ دیکھتی رہیں پھر مجھے گلے لگا کر رو پڑیں کہ بس اب یہی تمہارا گھر ہے پھر انہوں نے مجھے اچھے سے کپڑے پہنائے اور ایک مولوی صاحب نے آکر میرا نکاح اسی آدمی سے پڑھوا دیا جو مجھے لے کر آیا تھا۔ پتہ نہیں خالاباجی نے گھر جاکر میرے بارے میں کیا کہا ہوگا؟ صمد اور چھوٹی کا کیا ہو ا ہوگا؟ کیسے ہونگے وہ؟ اکثر دادی انہیں یاد کرکے رویا کرتی تھیں۔

    ’’اوہ افف اتنا ظلم’‘ عامر کی آ واز میں درد ابھر آیا تھا

    ’’لیکن یہ دستک سے ان کا کیا تعلق ہے’‘

    میں نے بتایا نا عامر دادی کبھی اپنا گھر ابا، بھائی بہن کسی کو نہیں بھول پائی تھیں وہ تو اس شہر کی تہذیب کو بھی نہیں بھولی تھیں جہاں سے ان کا خمیر اٹھا تھا جو داستانوں کا شہر تھا پتہ ہے عامر وہ بہت اچھی داستان گو بھی تھیں رات کو بڑے چھوٹے، بچے، بیٹے، بہویں سب ان کے ارد گرد جمع ہو جایا کرتے تھے اور دادی سے داستان سنا کرتے تھے ایک کہانی تو مجھے ابھی تک یاد ہے چاندنی کی داستان چاندنی جو ایک شہزادی تھی جسے ایک دیونی نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور ایک جادوئی قلعے میں ایک اونچے مینار میں چھپا رکھا تھا جہاں تک کوئی پہنچ نہ پاتا تھا دیونی دن بھر سوتی اور رات کو کہیں چلی جاتی تھی صبح جب آتی تو آواز دیتی۔

    ‘’چاندنی او چاندنی بال کھول نیچے لٹکا تو میں اوپر آؤں‘‘

    تب چاندنی جھروکے میں آتی اپنے بال نیچے لٹکاتی اور دیونی انہیں پکڑ کر اوپر چڑھ جاتی۔ ایک مرتبہ ایک شہزادہ شکار کے پیچھے بھٹکتا اس طرف نکل آیا رات ہو چلی تھی ایک پیڑ کے نیچے تھک کر سو گیا صبح دیونی کی آواز پر اس کی نیند کھلی اس نے یہ منظر دیکھا اور چاندنی کو جو دیکھا تو اس کے حسن پر دل و جان سے فدا ہو گیا اور وہیں جنگل میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گیا اگلی رات جیسے ہی دیونی قلعے سے باہر گئی اس نے آواز دی ’’چاندنی او چاندنی بال کھول نیچے لٹکا تو میں اوپر آؤں’‘

    چاندنی نے شہزادے کو دیکھا جلدی سے بال کھولے اور اسے اوپر بلا لیا تب چاندنی نے اسے بتایا کہ دیونی کی جان کالی پہاڑی پر رہنے والی مینا میں ہے شہزادے نے اس سے وعدہ کیا آزاد کرانے کا اور واپس لوٹ کر مینا کو ختم کر شہزادی کو رہا کرا لیا۔

    جب بھی وہ یہ داستان سناتی تھیں بہت اداس ہو جایا کرتی تھیں کیونکہ ان کا شہزادہ تو رہائی کروا نہیں پایا تھا بلکہ دیونی کے انجان قلعہ میں وہ پھنس کر رہ گئی تھیں

    ’’لیکن ثنا یہ تو بتاؤ کہ دادی نے تم سے ابھی ایسا کیا کہا جو تم ایسے رو رہی تھیں‘‘ عامر نے اس کی بات کاٹے ہوئے بیتابی سے پوچھا عامر دادی کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ان کے ظالم شوہر کا انتقال جب ہوا تب سب بچے چھوٹے چھوٹے تھے بڑی مشقتوں سے دادی نے انہیں پالا مگر وہ سب اپنے باپ کا ہی خون نکلے وہ کہتے ہیں نا کہ سانپ کی اولاد سانپ ہی ہوتی ہے بس یہی سمجھو کسی نے کبھی دادی کے درد کو نہیں سمجھا، ان کی تڑپ پر دھیان نہیں دیا سب اپنی اپنی دنیا میں ایسے مگن ہوئے کہ دادی کو تو جیسے بھول ہی گئے کہ اس ماں کی ایک ہی تو خواہش رہی زندگی بھر کہ کوئی انہیں ان کے وطن ایک بار لے جائے۔ کئی بار وہ بیٹوں اور بیٹیوں سے خوشامد بھرے لہجے میں کہا کرتی تھیں مگر پتھر دل اولاد وں کا دل کبھی نہیں پگھلتا تھا دادی ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتیں۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ ان کے بیٹے غریب تھے تین بیٹے جو بمبئی میں تھے خاصے پیسے والے تھے مگر بس بےحس تھے وہ غریب الوطن اپنے وطن کے لیے تڑپتی رہ گئیں۔ حد تو اس وقت ہوئی جب ان کی ایک پوتی کا رشتہ دادی کے وطن میں ہوا۔ تب وہ بہت پر امید ہو گئیں تھیں کہ اب تو وہ اپنے گھر جا سکیں گی۔ کیسا ہوتا ہے نا بیٹی کا اپنے گھر سے نا طہ وہ چاہے بوڑھی ہو جائے مگر اپنے مائکے کی چاہ نہیں چھوٹتی اور دادی تو غریب الدیار تھیں لیکن قسمت کی ستم ظریفی ہی کہیے کہ لڑکے والوں نے شادی بمبئی آکر کر دی۔ اور سفاک بیٹے نے دادی سے کہہ دیا کہ اب ہمیں وہاں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے وہ خاموش نم آنکھوں سے اپنے کمرے میں لوٹ آئی تھیں۔ دادی بہت مایوس ہوگئیں ان کی اس وقت جو امید ختم ہوئی آس جو ٹوٹی اس نے انہیں اندر سے بکھیر کر رکھ دیا اس کے بعد دادی کبھی سمٹ نہیں پائیں پھر ان کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا اور ایک رات وہ خاموشی سے اپنے گھر جانے کا ارمان لئے اس دنیا سے ہی رخصت ہو گئیں یہ ہے ان کی کہانی۔

    تمہارے ابا بھی تو تھے ان کے بیٹے ہی کی طرح وہ کیوں نہیں لے گئے انہیں ان کے وطن’‘

    ’’ہاں عامر میرے ابا پر بھی ان کا پورا حق تھا مگر قسمت کی ستم ظریفی نے تو دادی کے دامن کو کچھ ایسامضبوطی سے پکڑ لیا تھا نا کوئی کیا کرتا۔ پہلے تو ہمارے گھر کی غربت، دوسری ابا کے ایکسیڈنٹ نے انہیں مفلوج ہی کر دیا تھا وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے اور پھر اسی حالت میں ان کا انتقال ہی ہو گیا عامر دادی کی بیقرار روح کو آج تک قرار نہیں ملا ہے عامر وہ آج بھی تڑپ رہی ہیں اپنے گھر اور بھائی بہن کے لئے چلو ہم انہیں ڈھونڈتے ہیں’‘

    ’’مگر کیسے اتنا بڑا شہر کیسے تلاش کرینگے کوئی اتہ نہ پتہ؟’‘

    عامر، وہ بتاتی تھیں کہ ان کا گھر امام باڑے کے عقب میں ہی کہیں تھا اور ہم اس دن حسین آباد پیچھے ہی تو گئے تھے۔

    عامر اس دن وہ شخص جو مجھے غور سے دیکھ رہا تھا اس کی شکل دادی جیسی ہی تو تھی۔ ۔ ثنا، یاد کرکے ایکدم چیخ پڑی اس کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے جیسے کوئی کنارہ مل گیا ہو ’’اور تم نے بھی تو بتایا کہ تم میں بھی دادی کی شباہت ہے’‘

    رات بیت چکی تھی، صبح نمودار ہو چلی تھی اور پھروہ دونوں چل پڑے ایک ادھوری کہانی کو مکمل کرنے کے لیے یہ جانتے ہوئے کہ اس جہان میں کوئی بھی کہانی مکمل نہیں ہوتی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے