Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کشتی

MORE BYترنم ریاض

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ کشمیر میں تعینات ہندوستانی فوج اور کشمیری عوام کے ساتھ ان کے رشتوں کے رد عمل کو بیان کرتی ہے۔ ٹیلیفون بوتھ پر لمبی قطار ہے۔ قطار میں کھڑے دو شخص ایک زخمی بچے کو لیے ٹیلیفون کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ تبھی وہاں ایک اسلحہ بند فوجی آتا ہے۔ وہ مجمع کو ہٹاتے ہوئے زخمی بچہ لیے شخص کو پہلے فون کرنے کے لیے کہتا ہے۔ بچے کے پیر سے خون نکل رہا ہے۔ اسی درمیان ایک عورت وہاں آ جاتی ہے جو اس فوجی کے برتاؤ کو دیکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے وہ سبھی فوجی یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے کشمیریوں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں۔ انہیں یادوں میں اسے اپنی بیتی زندگی بھی یاد آتی اور ساتھ ہی یاد آتے ہیں، باپ اور بھائی، جو کشمیر کے لیے قربان ہو گئےتھے۔

    ارے ہٹو۔۔۔ ہٹو۔۔۔ ہٹو بھائی۔۔۔ ایک طرف ہو جاؤ۔

    ٹیلیفون بوتھ کے پاس کھڑے کچھ لوگوں میں سے ایک ادھیڑ عمر شخص نے باقی چار چھ لوگوں کو ہاتھوں سے ذرا ذرا سا پرے کرتے ہوئے نو وارد کے چہرے کی طرف بڑے خوش آمدانہ انداز میں دیکھتے ہوئے اس کے لیے راستہ بنایا۔

    نہیں نہیں۔ میں اپنی باری سے فون کر لوں گا۔ آنے والے نوجوان نے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا۔ پلیز، ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ لوگ تو مجھ سے پہلے کے کھڑے ہیں۔

    نوجوان کا رنگ سانولا تھا، جسم صحت مند۔ وردی پہنے وہ خاصہ چاق و چوبند نظر آ رہا تھا۔ اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو اس کی نظر ایک جگہ پر رکی رہ گئی۔ دو آدمیوں نے ایک آٹھ نو سالہ لڑکے کو گود میں لے رکھا تھا۔ ٹانگیں تھام رکھنے والے شخص کے سفید پائجامے پر بچے کے جسم سے رسنے والے خون کے دھبے بڑے ہوتے جا رہے تھے۔ نوجوان گھبرا کر بچےّ کے قریب آ گیا۔

    آپ پلیز جلدی کیجئے۔ کسے فون کرنا ہے، اس نے ایک کندھے سے لٹکی بندوق اتار کر دوسرے کندھے پر رکھی اور ٹیلی فون بوتھ کی طرف لپکا۔

    نمبر بتائیے۔ میں کرتا ہوں ڈائل۔ خون بہہ رہا ہے۔جلدی۔

    مگر صاب جی۔ ادھیڑ عمر کا شخص کچھ کہنے لگا تھا کہ بندوق پر اس کا ہاتھ دیکھ کر باقی لوگوں کی طرح وہ بھی پل بھر کے لیے ٹھٹھک گیا مگر اب اس کے چہرے پر اطمینان کی جھلک سی نظر آ رہی تھی۔ اس نے آگے کچھ نہ کہہ کر نمبر بتایا۔

    نوجوان نمبر ملا چکا تو اس شخص نے آگے بڑھ کر اپنی علاقائی زبان میں کچھ کہا اور بچےّ کے قریب لوٹ آیا۔ بندوق بردار نوجوان نے دوبارہ ان لوگوں کی جانب نگاہ ڈالی کہ شاید کسی اور کو فون کرنا ہو۔ مگر کسی کو متوجہ نہ پاکر وہ فون کی طرف پلٹا۔

    دور سے کوئی عورت تیز تیز قدم اٹھاتی ٹیلیفون بوتھ کی طرف آ رہی تھی۔ فون کے پاس بندوق بردار نوجوان دیکھ کر رک گئی اور باقی لوگوں کو دیکھنے لگی۔

    کک۔۔۔ کیا ہوا؟ خون دیکھ کر اس نے جانے کس سے پوچھا تھا۔ پاؤں پکڑنے والے کی پوری ٹانگ سرخ ہو گئی تھی۔

    تم لوگ کھڑے ہو۔ کچھ زخم پر باندھا بھی نہیں ۔ اسپتال لے جاؤ نا۔ ایسے تو سارا خون۔۔۔

    عورت نے ایک جھٹکے میں رومال نما مربع ساخت کا دوپٹہ کھینچا جو اس کے ماتھے سے ہوتا ہوا سرکے پچھلے حصّے تک چلا گیا تھا اور وہاں اس نے اس میں ڈھیلی سی گرہ ڈال رکھی تھی۔ اس نے دوپٹے کو پھاڑ کر دو حصوں میں تقسیم کیا۔

    ہم لوگ بس گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ آگے کرفیو ہے۔ وہ گھر سے نکل چکے ہیں۔ راستے میں تلاشیاں ہو رہی ہوں گی۔ رکنا پڑ رہا ہوگا انھیں بار بار۔

    ادھیڑ عمر شخص نے بچے کی پتلون نیچے کو سرکائی۔ عورت اس کی ران پر پٹیّ باندھنے لگی تو با وردی بندوق بردار نوجوان آگے بڑھ کران کی مدد کرنے لگا۔ اسے نزدیک آتا دیکھ کر لوگوں کی نظروں میں لمحہ بھر پہلے جو خوف ابھر آیا تھا وہ اسے بچےّ کے قریب دیکھ کر دور ہو گیا تھا۔ عورت کا سرخ و سفید چہرہ بھی پل بھر پہلے پیلا پڑ رہا تھا۔ لیکن اب وہ بھی مطمئن سی تھی۔ سب لوگ بندوق بردار نوجوان کو پٹیّ باندھتا دیکھ کر کچھ ایسے حیرت زدہ تھے جیسے کوئی عجیب و غریب بات وقوع پذیر ہو رہی ہو۔

    اس نے کمالِ مہارت سے بچے کے زخم پر دوپٹہ باندھ دیا تھا کہ پہلے سے بندھے رومال کی طرح دوپٹہ بالکل سرخ نہیں ہوا، بلکہ کچھ ہی دیر بعد کافی وقت سے بے ہوش بچہ دھیمی آواز میں کراہنے لگا تھا۔

    کمال ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں۔؟ کسی نے سرگوشی کی۔ با وردی نوجوان یہ زبان نہیں جانتا تھا۔وہ بچے کو دیکھ رہا تھا۔

    قریب کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ عورت نے رومال نما دوپٹے کے نصف مستطیل ٹکڑے کو سرپر مزید درست کیا۔

    سب لوگ خاموشی سے سڑک کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سے کسی گاڑی کے آنے کی توقع تھی۔

    عورت نے سیدھے ہاتھ سے اپنے پھرن کی جیب میں کچھ ٹٹولا۔ جیب سے کسی چیز کے کھنکنے کی آواز آئی۔

    آپ اس وقت کیوں باہر آئیں ہمشیرہ؟ ایک شخص نے پوچھا۔ حالات اور خراب ہو گئے ہیں ۔اس طرف بھی کرفیو لگنے والا ہوگا۔ جانے کس احمق نے ان جانوروں کی طرف گولہ پھینکا، جو ہمارے قریب پھٹا۔ میرے دوست کا بھانجا ہے یہ۔ زخمی ہو گیا غریب۔

    اس نے بچے کا دھڑ تھامنے والے شخص کی طرف دیکھ کر کہا۔

    ان لوگوں کو تو بہانہ چاہئے۔ آپ فوراً گھر چلی جائیں۔

    مجھے فون کرنا ہے۔ میرا شوہر دریا پار چائے انڈے بیچتا ہے۔ دوپہر میں کھانے کے لیے آیا ہی نہیں ۔ پریشان ہو رہی ہوں۔ بچوں کو باہر سے تالا لگا کر آئی ہوں۔ چابیاں ساتھ ہیں میرے۔

    عورت نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور دوبارہ جیب میں رکھ لیا۔عورت کے ہاتھوں کی اوپری جلد کھردری اور کہیں کہیں سے چاک ہو گئی تھی مگر ہتھیلی پھول کی طرح ملائم تھی۔ اس نے گھٹنوں سے ذرا اوپر تک کی لمبائی کا ہلکے رنگوں کی چھینٹ والے کسی موٹے کپڑے کا پھرن پہن رکھا تھا۔ کرتے کی کاٹ کا نسبتاً چوڑا، چغہ نما پیرہن، اتنا کھلا کہ اگر ہاتھ آستینوں کے اندر سے کھینچ کر جسم سے لگا لیے جائیں، یا سوکھی جھاڑیوں کی آگ سے بھرے مٹی کے پیالے کے گرد بید کی نرم ہری ٹہنیوں سے بُنی گئی کانگڑی اس کے اندر رکھ لی جائے جب بھی اس پیرہن کی تنگی کا احساس نہ ہو۔پھرن کے ساتھ اس نے نیم تنگ پائنچوں والی اسی چھینٹ کی شلوار پہن رکھی تھی۔اس کے پیروں کی جلد بھی گلابی تھی مگر ایڑیوں کے آس پاس کی سخت کھال میں چھوٹی بڑی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔

    گاڑی آ گئی تھی۔ کارواں بچےّ کو لے کر کسی طرف چل پڑا تھا۔ بندوق بردار با وردی نوجوان ٹیلیفون پر کوئی نمبر ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    دور کہیں زور سے بادل گرجے تو عورت نے چونک کر آسمان کی جانب نظر اٹھائی۔ لمبی سڑک کے اس پار کوہِ سلیمان کی پہاڑی کے ٹیلے کے بالکل اوپر، آسمان کے کنارے پر تازہ برف کے تودوں جیسے سفید بادل دھیمی رفتار میں محوِ پرواز اسی طرف آ رہے تھے۔ابر کا ایک بڑا سا گالا پہاڑی کی چوٹی پر ایستادہ، شنکر آچاریہ کے سرمئی چٹانوں سے تراشے گئے پر شکوہ مندر کے کلس سے الجھا جیسے کہ ٹھہر گیا تھا اور ہو بہو ان بڑے بڑے نا تراشیدہ پتھروں کے رنگ جیسا سرمئی نظر آ رہا تھا۔

    بادل کے اس دیو قامت ٹکڑے میں پل بھر کے لیے تیز روشنی کی ایک منحنی سی لکیر آڑھی ترچھی لہرائی اور غائب ہو گئی۔ بادل کچھ اور زور سے گرجے۔

    عورت کے چہرے پر پریشانی سی جھلک اٹھی۔ اس نے پلٹ کر، فون ملانے میں کوشاں با وردی نوجوان کی طرف دیکھا اور پھر جیب میں کچھ ٹٹولا۔ چابیوں اور سِکّوں ملی جلی کھنک کے فضا میں تحلیل ہوتے ہی عورت نے گھبرا کے دائیں بائیں دیکھا پھر ٹیلیفون بوتھ کے شیشے میں لگے لمبے سے کیبن کے اندر بغور دیکھنے لگی۔

    نوجوان کو نمبر نہیں مل رہا تھا۔ ٹیلیفون کے پیچھے دیوار میں لگے بڑے سے آئینے میں نوجوان نے عورت کو بار بار فون کی طرف دیکھتے دیکھا تو وہ کیبن سے باہر آ گیا۔

    آپ فون کر لو جی۔میں بعد میں Tryکر لوں گا۔

    وہ عورت سے مخاطب ہوا۔ عورت بغیر کچھ بولے لپک کر فون کے پاس پہنچی۔جہاں اس کا شوہر چھوٹے سے کھوکھے پر سامان بیچتا تھا، وہیں پاس کی ایک دکان پر فون پر بات کر کے وہ اس کی خیریت معلوم کرنا چاہتی تھی۔ لیکن کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے آج کام زیادہ ہو۔ پاس والی دکان بند ہو۔ یا وہ گھر آ رہا ہو، پھر تو اِسی سڑک سے گزرےگا۔ مگر پھر اب تک گزرا کیوں نہیں، ہو سکتا ہے کہ اس نے اُسے نہ دیکھا ہو۔ مگر وہ تو دیکھ لیتا اسے۔ اگر گزرا ہوتا۔ کہیں کوئی ّبچہ جاگ نہ گیا ہو۔ مگر وہ آیا کیوں نہیں۔

    اس نے آخری مرتبہ فون گھمایا۔ نمبر نہیں ملا۔ اس نے گردن موڑ کر بندوق بردار نوجوان کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔ کچھ وقت بعد پھر کوشش کرے گی۔ جب تک یہ فارغ ہولےگا۔

    نوجوان اسے باہر آتا دیکھ کر دوبارہ کیبن میں داخل ہو گیا۔

    ہلکی ہلکی مگر قدرے خنک ہوا چلنے لگی تھی۔ عورت نے ہاتھ پھرن کے آستینوں میں سے اندر کھینچ لیے اور انھیں مخالف کہنیوں تلے دبا لیا۔ دانت آپس میں ملا کر اور لب وا کر کے اس نے ایک لمبی سی سانس لی تو مارے سردی کے دانت بجنے لگے۔ اس نے دونوں شانے ایسے اوپر اچکائے جیسے گردن کو کندھوں میں چھپا دینا چاہتی ہو۔

    وہ کبھی سر داہنی اور گھما کر سڑک کی طرف نظر ڈالتی کبھی کیبن میں فون پر مصروف باور دی بندوق بردار نوجوان کو دیکھتی۔ فون کے عقب میں دیوار میں نسب آئینے میں اسے نوجوان کے چہرے کے تاثرات صاف نظر آ رہے تھے۔

    وہ سوچ میں پڑ جاتی۔ اسی کی طرح وہ بھی پریشان ہو رہا تھا۔ نمبر نہ ملنے پر جھنجھلا رہا تھا۔ پھر ایک نئی امید کے ساتھ دوبارہ نمبر ڈائل کرنے میں منہمک ہو جاتا۔ سیدھا سا نارمل انسان لگ رہا تھا وہ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ یہ سب تو درندے ہوتے ہیں۔۔۔ جانور ہیں جانور۔۔۔ انسان لگتے ہی نہیں۔

    عورت نے سر جھٹک کر منھ پھیر لیا۔

    صبح جب وہ پاس کے مختصر سے بازار، دودھ لانے گئی تھی، اس وقت اس نے ایک نہایت ضعیف آدمی کو ہاتھ گاڑی پر لہسن بیچتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ شاید پوتا تھا اس کا۔ بارہ تیرہ برس کا ایک لڑکا رک رک کر ہانک لگا رہا تھا۔ تازہ خوشبودار لہسن۔ بڑا بڑا لہسن۔ مٹی کے بھاؤ۔ آؤ بھائیو آؤ۔ آؤ بہنو آؤ۔ ختم نہ ہو جائے۔ ماں جی آئیے۔

    گاڑی کو دونوں ساتھ ساتھ دھکیل رہے تھے۔ وقفے وقفے سے گاہک آتے، ترازو کھڑکتی۔ کچھ سکے، کوئی نوٹ۔ پھر اسی رِدھم سے لڑکے کی صدائیں بلند ہوتیں جنھیں وہ حلق کی گہرائی سے نکالتا۔ اس کے گلے کی جلد میں چھپی نسیں ابھر آتیں۔ چھوٹی چھوٹی سرمئی ندیوں جیسی بل کھاتی ہوئی نسیں۔

    جانے کدھر سے ایک باریش، باور دی پولیس والا نمودار ہوا اور ہاتھ میں پکڑا کین لہسن کی ڈھیری پردے مارا۔ لہسن کی کئی پتھیاں زمین پر گر گئیں۔ بوڑھا جلدی جلدی اٹھانے لگا۔

    باپ کی سڑک ہے کیا۔ریڑھی لگانا منع نہیں ہے ادھر؟

    پولیس والا علاقائی زبان میں دہاڑا اور کین لڑکے کی پیٹھ میں چبھو دیا۔

    جناب۔ جناب۔ ابھی ابھی خریدا ہے۔ گھر ہی جا رہے ہیں حضور۔ بوڑھا دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ کر ان میں لہسن جمع کر کے جلدی جلدی اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ لڑکے کے کین چبھتے دیکھ کر اس نے ہاتھوں میں پکڑا لہسن زمین پر گرا دیا اور سپاہی کے جوتے پکڑ کر گڑگڑانے لگا۔

    او۔تو تو سکھا رہا ہے اسے بےایمانی۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے تجھے لہسن بیچتے ہوئے۔ پیسے بٹورتے ہوئے۔ سمجھا؟

    باریش سپاہی نے لہسن کی ڈھیری کے نیچے بچھے بوریئے کا کونہ الٹ دیا اور دس روپے کا اکلوتا نوٹ اور پانچ کے تمام سکے اٹھا کر جیب میں ڈالے اور جھٹکے سے پاؤں چھڑا لیے۔ بوڑھا لڑھک گیا۔ اگر زمین پر نہ بیٹھا ہوتا تو زور سے گرتا۔ پھر جلدی سے سنبھلا اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔

    جناب۔۔۔ جناب یہ دس کا نوٹ مجھ کو۔ صبح سے بس اتنی ہی کمائی ہوئی تھی۔اب کچھ نہیں ہے میرے پاس۔

    بابا تمباکو پیتا ہے صاب۔ کچھ تھوڑا پیسہ واپس دے دو صاحب جی۔لڑکا سہما ہوا بولا۔

    بکواس بند کرو۔ الٹ دوں گا ریڑھی۔ دونوں کو تھانے میں بھر دوں گا۔ حرام خور۔

    ہاتھ گاڑی کو پاؤں سے ٹھوکر مارکر باریش سپاہی الٹے ہاتھ سے اپنی سیاہ داڑھی سنوارتا ہوا دوسری طرف چل پڑا۔

    عورت جب تک دودھ والے کی دکان پر رہی تھی اس نے یہی دیکھا کہ بوڑھا شخص زمین پر بیٹھا اپنے ہاتھوں پر سے سپاہی کے جوتوں سے لگ جانے والی مٹی جھاڑ رہا ہے۔ جب وہ المونیم کی چھوٹی سی ڈولچی میں ایک پاؤ دودھ لے کر پلٹی تو کوئی مری مری سی آواز میں جیسے کہ رو رہا تھا۔

    لہسن۔ تازہ۔ تازہ۔

    یہ گوری رنگت اور ستواں ناک والا باریش محافظ۔ اس کا ہم مذہب، ہم زبان، اسی کی مٹی کی پیداوار۔

    اور وہ، جو کل زچہ بچہ ہسپتال کے پھاٹک کے پاس۔ وہ کالے سانولے موٹی چوڑی ناکوں والے۔ ہر برقع پوش عورت کا نقاب یہ کہہ کر الٹتے تھے کہ اس کے اندر دہشت گرد ہو سکتا ہے۔

    نازک ڈیل ڈول میں نرم کلائیوں اور چھوٹے پیروں والے برقع پوش دہشت گرد، جو میٹرنٹی ہسپتال میں آتے ہیں ۔جن کے چہروں سے عمداً انگلیوں کو مس کرتے ہوئے انھیں بےنقاب کر کے بھوکی نظروں سے گھورا جاتا ہے۔

    بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے آس پاس، یورپ کے ایک حصے میں ہر فوجی افسر کسی بھی عورت کو حکم دے سکتا تھا کہ وہ مکمل بے لباس ہو کر ثابت کرے کہ اس نے کوئی آتش گیر مادہ یا ہتھیار تو نہیں چھپا رکھا۔ یہ بات عورت نے بہت پہلے کسی کتاب میں پڑھی تھی۔

    انھیں موقع مل جاتا تو۔ جہاں جہاں انھیں موقع ملتا ہے وہاں ۔ خدا کی پناہ۔ وہاں کیا نہیں کرتا یہ بندوق بردار۔ پکی رنگت والا یا صاف رنگ کا۔ باور دی یا بغیر وردی کے۔ سب ایک طرح کے درندے۔ خدا نے عورت کو بنایا ہی کیوں۔

    اس کی نظریں باور دی نوجوان کی بندوق پر ٹھہری ہوئی تھیں۔ ماتھے پر شکن ابھر آئے تھے۔

    باور دی نوجوان کا نمبر مل گیا تھا۔

    وہ کسی سے بات کرنے میں مشغول تھا۔ اس کے چہرے پر اچانک خوشی چھا گئی تھی۔ وہ جلدی جلدی کچھ پوچھ رہا تھا۔ عجب بے صبری سے، اونچی آواز میں ، جو کیبن کے شیشوں کے اس پار بھی سنائی پڑ جاتی تھی۔ مگر کسی غیر مانوس زبان میں۔ جو عورت کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

    بوتھ سے کچھ میٹر کے فاصلے پر تنگ سی سڑک کے اس طرف ایک اور بندوق بردار کھڑا تھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ کیبن والے نوجوان نے اس کی طرف دیکھ کر ہوا میں مکا لہرایا تو اس نے مسکرا کر زور زور سے سوالیہ انداز میں سر نیچے سے اوپر کو ہلایا کیبن کے اندر والے نوجوان نے ابرو اٹھا کر، آنکھیں پوری وا کر کے جوشیلے انداز میں سرکو بار بار اثبات میں جنبش دی۔ دونوں کے چہرے کھل اٹھے تھے۔

    عورت اپنے محتاط مگر پر تجسّس تاثرات کو بخوبی چھپا کر سارا منظر دیکھ رہی تھی۔

    شاید اس کے ہاں بچہ ہوا ہو۔مگر یہ تو خود ہی کم عمر لگتا ہے۔ شادی کہاں ہوئی ہو گی اس کی۔ مگر ہو سکتا ہے۔ ہو بھی سکتی ہے۔ یا شاید ا س کے گھر والوں نے اس کی پسند کی لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی ہو۔۔۔ اور لڑکی بھی۔۔۔ لڑکی بھی اسے پسند کرتی ہو۔۔۔ لڑکی اسے۔۔۔ پسند کرتی ہو۔۔۔

    پسند اس نے بھی کیا تھا کسی کو کبھی۔

    جب وہ ایک نوخیز لڑکی ہوا کرتی تھی۔

    اس کا نام دلّو تھا۔نہیں، اس کا نام دلشاد تھا۔۔۔ یعنی دلشاد بانو تھا۔ وہ ساتویں درجے تک تعلیم حاصل کر سکی تھی۔ اس کا باپ مجید بٹ نالائے مار کا ایک غریب مچھوارہ تھا۔ جو اپنے مختصر سے نیم بوسیدہ آبی گھر میں میلے گدلے پانی کے اس نالے کے ایک کنارے پر رہتا تھا۔ میلے، گدلے پانی والا نالا ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔

    صدیوں پہلے جب نقل و حمل کا واحد وسیلہ پانی ہوا کرتا تھا تو سلطان زین العابدین کی حکومت میں جہلم سے کچھ اضافی نالے نکالے گئے تھے۔ نقل و حمل کے علاوہ سیلاب سے بچاؤ اور شہر کی خوبصورتی کا مقصد بھی ذہن میں رہا ہو گا۔ ان میں کٹ کل اور نالائے مار بھی شامل تھے۔ نالا تنگ و تاریک راستوں سے گزرتا ہوا، بےشمار شاخوں میں بٹتا ہوا، پھر جہلم میں جا ملتا تھا۔ اس میں ہر چھوٹی بڑی بستی کے لیے رسد گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ بڑے بڑے بجروں میں اناج ایندھن وغیرہ ہر گھاٹ پر پہنچایا جاتا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ آبی وسائل کی جگہ موٹر گاڑیوں نے لے لی۔جنگلوں کی مسلسل کٹائی سے پانی کم ہوتا گیا اور نالا رفتہ، رفتہ کوڑے کرکٹ کی آماجگاہ بنتا گیا، ساتھ ساتھ بیشتر مقامات پر سوکھتا چلا گیا تو اس پر تعمیرات ہونے لگیں۔

    بعد میں بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں سرکار نے وہاں سے باقاعدہ سڑکیں نکالیں اور کہیں کہیں گدلے پانی میں کچھ مچھلیاں کچھ کشتیاں اور اکا دکا مختصر بستیاں رہ گئیں۔

    مجید بٹ کا کل کاروباری اثاثہ ایک بوسیدہ سا جال اور ایک چھوٹی سی پرانی کشتی تھا۔ کشتی کا رنگ پانی نے اس قدر چوس لیا تھا کہ وہ بالکل اس گدلے پانی کے رنگ کی نظر آتی تھی۔

    مجید بٹ کا ایک بیٹا بھی تھا۔اس کی خواہش تھی کہ اس کے بچےّ پڑھ لکھ جائیں اور دن بدن اور زیادہ آلودہ ہوتے جا رہے اس نالے میں ایک ایک مچھلی پکڑنے کے انتظار میں پہروں گزارتے ہوئے عمر گنوانے کی بجائے کہیں نوکری کر لیں۔ مگر مشتاکہ یعنی کہ مشتاق احمد بمشکل پانچ جماعتیں پڑھ سکا، اور بار ہا مار کھانے کے باوجود اس نے سکول کا رخ نہ کیا۔ آخرکار باپ اسے اپنے ساتھ کشتی پر ہی لے جانے لگا۔

    دلّو ایک ذہین طالبہ تھی اور سینٹرل اسکول کے ساتویں درجے میں پڑھ رہی تھی۔ اساتذہ کو اس سے خاصی امیدیں تھیں۔ جماعت کے انچارج ٹیچر اس کی بہت حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ان کا نیا نیا تقرّر ہوا تھا۔ دیکھنے میں بھی ماسٹر جی کا چہرہ خاصا جاذب تھا۔ گھنے گھنے بال اور چھوٹی سی داڑھی اُن پر خوب کھلتی تھی۔دِلّو کے باپ کی درخواست پر کبھی کبھی ماسٹر جی دلّو کو کوئی مشکل سبق گھر آ کر بھی پڑھا دیتے اور اس بات سے انھیں خود بھی دلی خوشی ملتی تھی۔

    دلّو کی آنکھیں نافے کی ٹکیاں ایسی تھیں۔ اس کے بال دیودار کی اس سلگتی ہوئی روغنی لکڑی ایسے سیاہ تھے جو روشنی کرنے کے لیے جلائی جاتی ہے۔ اور اس کی جلد سمانوار کے با رہا منجھے پیتل کے دستے کی رنگت لیے ہوئی تھی۔ ساتویں درجے میں آتے ہی وہ ایک دم بڑی بڑی سی لگنے لگی تھی۔ اس کے پاس سیاہ رنگ کا ایک پھرن تھا جس کے گریبان پر اس کی نانی کی یادگار، پانچ چاندی کے روپیوں کے ساتھ ٹانکا لگی گھنگھریوں والا ایک ہار رہتا تھا جو وہ بچپن سے پہنے ہوئے تھی۔ ورنہ ا س کی ماں کے سرپر پھیلے سوتی رومال کے نیچے لگی ٹوپی، ’کسابہ‘ کے اندر سے ماتھے پر جھانکنے والے تین تین جھومروں اور کان کی بڑی بڑی بالیوں والا چاندی کا زیور کب کا گھر کی ضروریات کی نذر ہو گیا تھا، جبکہ ایسے زیورات پانی پر رہائش پذیر خاندانوں کے مخصوص زیورات میں شمار ہوتے ہیں۔

    آٹھویں دہائی کے غالباً آخری سال کا کوئی دن تھا جب دوسرے کنارے پر رہنے والے رشید ڈار کا منجھلا لڑکا جو دو ماہ پہلے اچانک غائب ہو جانے کے بعد کوئی ہفتہ بھر پہلے نمودار ہوا تھا، دلّو کے بھائی مشتاکے کو صبح صبح آ کر کہیں لے گیا۔ مشتاکہ اس دن دیر گئے گھر لوٹا اور ماں کے بار بار پوچھنے پر بھی کوئی جواب نہ دے کر سو گیا تھا۔ ماں کے سوالات کا جواب نہ سن کر مایوس باپ نے کوئی سوال نہ کیا تھا۔ مگر اس کا چین لٹ گیا تھا۔

    دوسری صبح رشید ڈار کا منجھلا لڑکا پھر گھر آیا اور اندر کے چھوٹے کمرے میں کافی دیر تک مشتاکے کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ وہ اونچی آواز میں بول رہا تھا جبکہ مشتاکہ وقفے وقفے سے دھیمی آواز میں کچھ کہتا۔ مگر کمرے کے باہر صرف شور کا سا احساس ہو رہا تھا اور بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ تیسری بار جب رشید ڈار کا منجھلا لڑکا پھر آیا تو اندر کے کمرے سے دنوں کی بحث کرنے کی آوازیں بھی آئیں تھیں۔

    دو ایک روز بعد جب کافی دن نکل آیا تھا، رشید ڈار کا منجھلا لڑکا آیا۔ مشتاکہ باپ کے ساتھ کشتی پر دور نکل گیا تھا۔

    شام کو جب مشتاکہ اور مجید بٹ کام سے لوٹے تو دلّو بےہوش پڑ ی تھی۔اس کی گردن پر خراشیں تھیں اور چہرے پر نیلے دھبے ابھر آئے تھے اور ماں نے اپنے بہت سارے بال نوچ ڈالے تھے۔ اس دن ماں کچھ نہیں بولی تھی۔

    دوسرے دن سینٹر اسکول کے ماسٹر جی کو گولیاں لگنے کی بات سن کر ماں نے بتایا تھا کہ باپ اور بھائی کو بار بار پکارنے کے بعد دلّو نے کئی دفعہ ماسٹر جی ماسٹر جی کہا تھا اور پھر بے ہوش ہو گئی تھی۔

    اسی دن سے مشتاکہ گھر سے غائب ہو گیا تھا اور کئی دن بعد جب رشید ڈار کے منجھلے لڑکے کی لاش نالے کے پانی میں تیرتی نظر آئی تو مشتاکہ گھر آ کر ماں سے لپٹ کر خوب رویا تھا۔ اس کے بھورے رنگ کے لمبے سے پھرن کے اندر بغل کے پاس ٹخنوں تک پہننے والے جوتے کی ساخت سے ملتی جلتی لوہے کی کوئی بالشت بھر لمبی چیز لٹک رہی تھی۔

    ا س دن کے بعد مشتاکہ زیادہ تر گھر سے باہر رہنے لگا تھا۔

    رشید ڈار کوئی دو ہفتے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ نہ ہی اس نے مسجد کا رخ کیا تھا۔ جس دن رشید ڈار مسجد میں آیا، اسی دن اس نے مصیبت کے وقت انسان کے اور خاص کر پڑوسی کے کام آنے کا ذکر کیا تھا۔ اور کچھ دن بعد اس نے اپنے بڑے لڑکے کے لیے جس کی ایک ٹانگ پر پولیو کا اثر تھا اور جس کی شادی کی عمر نکلا چاہتی تھی۔ مصیبت زدہ دلّو کا رشتہ ماں گا تھا۔دلّو کے باپ نے یہ سوچے بغیر کہ کس کی مصیبت میں کون، کس کے کام آیا، اپنی حسین و جمیل نوخیز بیٹی کے لیے، یہ رشتہ قبول کر لیا تھا۔

    مرے اشک بن میرے بابل بہے

    ترے دل کے اندر جو تھے آبلے

    دلّو کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر ہونٹ پر ٹِک گیا تھا۔ اس نے الٹے ہاتھ سے اسے پونچھ لیا۔ دروازہ کھلنے کی آواز اُسے چونکا کر ماضی سے حال میں لے آئی تھی۔

    بندوق بردار باور دی نوجوان ہنستا مسکراتا ٹیلیفون بوتھ کے شیشے لگے کیبن سے باہر آیا اور بوتھ کے مالک کو بل ادا کرنے لگا۔ دلّو نے کیبن میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا کہ نوجوان کے بٹوے میں کسی لڑکی کی مسکراتی ہوئی رنگین تصویر تھی۔

    نوجوان کودتا پھاندتا سڑک پارکر کے اپنے دوسرے باور دی ساتھی کے پاس پہنچا اور دفعتاً اسے کمر سے اٹھا کر واپس زمین پر رکھتے ہوئے اس کا منھ چوم لیا۔ اس کے ساتھی نے ہنستے ہوئے اپنا آپ چھڑایا اور اٹینشن میں کھڑا ہو گیا کہ سامنے سے سرکاری جھنڈے لگی تین موٹر گاڑیاں گزر رہی تھیں جن کے آگے پیچھے حفاظتی عملے کی دو بڑی بڑی گاڑیاں اور آخر میں اچانک حادثے کی صورت میں کام آنے کے لیے لمبی سی ایمبولینس تھی۔ اس کا ساتھی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کھِلے کھِلے چہرے کے ساتھ دوسری سمت کو جا رہا تھا۔

    ٹھہرے ہوئے بندوق بردار کے سامنے سے پہلی گاڑی کے گزرتے ہی ایک زوردار دھماکا ہوا اور اس میں آگ لگ گئی۔ پیچھے کی گاڑیاں توازن کھو کر ادھر ادھر بکھرنے لگیں ۔ ان کے حفاظتی عملے نے چند لمحوں کے اندر اندر چاروں طرف اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیں۔

    ٹیلیفون بوتھ والے نے اندر سے دکان کا شٹر گرا دیا تھا۔ دلّو کے علاوہ دو اور لوگ بھی دکان کے اندر رہ گئے تھے۔

    اب شاید کرفیو لگ چکا ہوگا۔

    دکان کے اندر گھٹن سی ہو رہی تھی۔

    وہ گھر میں تالا لگا کر آئی تھی۔

    کچھ دیر بعد باہر سناٹا چھا گیا تھا۔ پھر گاڑیوں کی آمدورفت بحال ہو گئی کہ ہارن اور انجن کی آوازیں دکان کے اندر صاف سنائی دے رہی تھیں۔ دکاندار نے شٹر ذرا سا سرکا کر باہر جھانکا اور پورا شٹر کھول دیا۔

    دِلّو تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف مڑی تو اس نے دیکھا کہ جائے حادثہ کا پتھروں سے احاطہ کر دیا گیا تھا۔ ادھر ادھر زمین پر سیاہی مائل سرخی چھا گئی تھی۔

    گھر کے موڑ پر مڑتے وقت دلّو نے یہ بھی دیکھا کہ ایک سیاہ رنگ کے ادھ جلے فوجی جوتے کے پاس ایک والٹ کھلا پڑا تھا اور اس میں ایک مسکراتی ہوئی لڑکی کی تصویر پتلے سے بے رنگ پلاسٹک کے پیچھے سے چپ چاپ جھانک رہی تھی۔

    دلّو کے سینے میں ایک چیخ گھٹ کر رہ گئی۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔ پھر کچھ لمحوں بعد کھول دیں۔

    اب وہ نہایت دھیمی رفتار سے گھر کے راستے پر چل رہی تھی۔ ساری سڑک سنسان تھی۔ دور ایک شخص داہنا بازو جھلاتا اور بایاں ہاتھ ہر دوسرے قدم کے ساتھ گھٹنے پر دھرتا لنگڑاتا ہوا آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا، مگر دِلّو کی رفتار پھر بھی تیز نہیں ہوئی، حالانکہ وہ جانتی تھی کہ چابیاں اس آدمی کی نہیں خود اسی کی جیب میں ہیں اور وہ گھر میں تالا لگا کر آئی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے