Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کٹھ پتلی

سلمی صنم

کٹھ پتلی

سلمی صنم

MORE BYسلمی صنم

    ’’میں جب بھی ان کا کوئی حکم بجالاتی ہے مجھے اس کٹھ پتلی کی یاد ضرور آتی جو کسی دن موئے اس Puppet Show میں دیکھی تھی۔ کیسے تھرک تھرک ناچتی تھی وہ۔۔۔ اور میری جو ڈور پیاسنگ بندھی تھی۔ میں توکہیں نہیں تھی۔ جو بھی تھے وہ ہی وہ تھے۔ لیکن کبھی کبھی من بہک اٹھتا۔ پندار کوٹھیس سی لگتی ہے۔ انا کا ناگ پھن پھیلا ئے کھڑا ہو جاتا تو کون ومکان میں ایک ہلچل سی مچ جاتی نہیں۔ آسیہ نہیں‘‘

    اورتب کہیں اندر۔۔۔ دادی جان کی آواز ایک پھوار سی برساتی آسیہ۔۔۔ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے۔۔۔ اس کی رضا میں تمہاری رضا ہے۔ اس کی خدمت کرو۔۔۔ اوراس کا دل جیت کر اپنے لئے جنت کماؤ ‘‘اورمیں یہ جنت کما ہی رہی تھی کہ کسی دن وہ یہ حکم لے آئے آسیہ۔۔۔ تمہیں گرام پنچایت چناؤ لڑنا ہے‘‘

    میں ششدر سی ان کا منہ تکنے لگی۔ کہاں مجھ جیسی نیم خواندہ گھریلو عورت اورکہاں سیاست۔!

    سیٹ گروپ اے کی عورت کے لئے مخصوص ہے ‘‘وہ کہہ رہے تھے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ میں سب سنبھال لوں گا‘‘ اور وہی کٹھ پتلی تھرک تھرک ناچتی وہ کٹھ پتلی میری آنکھوں میں آبیٹھی انتخاب کے دوران کیا کیا ہوا مجھے کیا معلوم۔۔۔ میں تو بس داخلہ فارم جمع کروانے گئی تھی۔۔۔ یہی لے گئے تھے مجھے۔ سرتا پا برقعے میں ملبوس منڈل آفس میں اپنے دستخط کیلئے اور لوٹ آئی۔ پھر میں گرہستی تھی اور میرے گھریلو امور۔ جو ان دنو ں کچھ زیادہ ہی ہو گئے تھے کیونکہ ہر دن پارٹی ورکرس کی تواضع ہی کرتے تھے اور اس کا سارا انتظام مجھ ہی کو کرنا پڑتا تھا۔ میں کہنے کو ایک امیدوار تھی مگر مجھے کوئی آسیہ کے نام سے نہیں ساہوکار شجاع کی بیوی کے نام سے ہی جانتا تھا۔ یہی میری شناخت تھی اور یہی میری پہچان مخالف پارٹی کی امیدوار بی بی کا بھی یہی حال تھا۔ دراصل یہ انتخاب آسیہ۔۔۔ اور شمیم کے درمیان نہیں ان دونوں کے شوہر وں کے درمیان تھا۔ عورتوں کا سارا وجود تو بس کاغذی تھا۔ یہ بھی تو استحصا ل ہے۔ شاید ہو۔۔۔ میری پا س اتنی فرصت کہاں کہ بیٹھوں اور سوچوں اور وہی کٹھ پتلی تھرک تھر ک ناچتی۔ وہ کٹھ پتلی میری آنکھوں میں آ بیٹھی۔ تقریبا ایک ماہ تک انتخابی سرگرمیاں چلتی رہیں اور میں ایک لمحہ بھی گھر سے باہر نہیں نکلی۔۔۔ کام۔۔۔ چوبیسیوں گھنٹے کام اور شوہر سے یہ سننے کو ملتا۔ خود کے لئے ہی تو کر رہی ہو۔ گرام پنچایت ممبرجو بن رہی ہو اور مجھے دیکھونا۔ تمہارے لئے کتنا بھاگ دوڑ کر رہاہوں۔

    دن رات بھاگ دوڑ۔ ہیر پھیر۔ جوڑ توڑ۔ نتیجہ ظاہر تھا میری کامیابی۔۔۔ لیکن یہ کیسی کامیابی تھی۔ نتیجے والے دن عربین کو تیز بخار تھا اور میں بچی کی تیمارداری میں لگی ہوئی تھی۔ ان سے سناکہ میری جیت پر سب نے انہیں کاندھوں پر اٹھا لیا۔ ہاروں سے لاد دیا۔ اب میں گرام پنچایت ممبر تھی۔ پھر جب بھی میٹنگیں بھی ہوتیں یہ مجھے منڈل آفس لے جاتے۔ میں برقع میں ملبوس تین اور عورتوں کے ساتھ جو میری ہی طرح ممبر ہوکر آئی تھیں ایک کرسی پر بیٹھی سارا وقت ا س ادھیڑبن میں ہوتی تھی کہ مجھے گھر جاکر کیا بنا نا ہے۔ کہیں گڈو اسکول سے لیٹ نہ ہو جائے۔ عربین ٹھیک سے ٹفن کھاتی بھی ہے یا نہیں۔ اپنی مادری زبان میں واجبی سی تعلیم حاصل کی تھی۔ کسی اور زبان کی شدبد نہ تھی۔ سارے مرد جانے کونسی جناتی زبان بولتے تھے۔ ان کے حرکات و سکنا ت سے اس بات کا گمان ہوتا تھا کہ وہ گاؤ ں کو جنت کے نمونہ بنا دیں گے۔ مگر آتے جاتے دیکھتی ہی تھی کہ گاؤں اب بھی ترقی سے بہت دور کھڑا ایک ایسے دھرتی پتر کے انتطار میں ہے جو انقلاب لادے۔

    کبھی کبھار گفتگو کا موقع جو مل جاتا تو اپنی ساتھی ممبر عورتوں کے ساتھ خالص نسوانی باتیں ہوا کرتی جو گھر ،شوہر سسرال اور بچوں کے ارد گرد گھومتی تھیں۔ وہ جانے کو ن کون سے کاغذات لے کر آتے کہ میں دستخط کر دیتی پڑھی لکھی تو تھی نہیں کہ انہیں دیکھتی۔ اگر اس بات کا مجھے علم بھی ہو جائے۔ کہ ان کاغذات میں کیا ہے تب بھی میں اپنے شوہر کی حکم عدولی تو نہیں کر سکتی تھی۔ میں تو اپنے لئے جنت کما رہی تھی۔ اب مجھے کیا پتہ میرے شوہر کے قدم کس راستے پر ہیں۔ اڑتے اڑتے مجھے یہ خبر ملنے لگی کہ یہ بہت سارا پیسہ بنا رہے ہیں۔ منڈل کے پیسوں میں ہیرا پھیرا ہو رہی ہے۔ جورقم گاؤں کی ترقی کے لئے آتی ہے اس میں خرد برد ہونے لگی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایسانہیں ہونا چاہیے۔ لیکن میں یہ سب کیوں سوچ رہی ہوں۔ مجھے تو بس شوہر کی خدمت کرنی ہے۔ اپنے لئے جنت کمانی ہے۔ لیکن جب سے گرام پنچایت ممبر ہوئی ہوں۔

    شایدہ کچھ زیادہ ہی غورو فکر کرنے لگی ہوں۔ جو میرے گھر اور میری صحت کے لئے ٹھیک نہیں مگر کیا کروں؟ میں لاکھ نیم خواندہ سہی مگر کند ذہن نہیں ہوں میرا نام لے کر میرے شوہر جانے کیا کیا دھاندلیاں کر رہے ہو۔ میں سب سمجھ رہی تھی ۔ لیکن اتنی وفادار بیوی تھی کہ اپنی آواز نہیں پیدا کر سکتی تھی۔ اپنی چپ کو نہیں توڑ سکتی تھی۔ ان کے کسی معاملے میں نہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی من بہک اٹھتا۔۔۔ پندار کو ٹھیس سی لگتی۔ انا کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہوجاتا تو کون مکان میں ایک ہلچل سی مچ جاتی۔ نہیں۔۔۔ آسیہ۔ نہیں ‘‘اور تب کہیں اندر۔۔۔دادی جان کی آواز ایک پھوار سی برساتی شوہر مجازی خدا ہوتا ہے اس کی رضا میں تمہاری رضا ہے۔ اس کی خدمت کرو اور اس دل جیت کر اپنے لئے جنت کماؤ‘‘ میں اپنے لئے جنت کمارہی تھی کہ کسی دن سنا کہ یہ تو پورے دوذخ میں جاگرے ہیں۔ یہ کیا منہ لے کر کہتے۔ دوسروں سے سنا۔ گرام پر دھان کسی لڑکی سے بلات کارک کہ جرم میں ملوث ہے اور یہ اس کے ساتھ ہیں۔

    اف!! کس بےوفا سے میں نے عمر بھر وفا کی تھی۔ میرا من بہک اٹھا۔ پندار کو زبردست ٹھیس لگی۔ انا کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہو گیا۔ میرے کون و مکان میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ نہیں آسیہ ۔ نہیں۔۔۔ تم اس Puppet Show کی کٹھ پتلی نہیں ‘‘اور میں نے اپنے اندر ایک عورت کو جاگتے محسوس کیا جس کا اپنا ایک ذہن تھا۔ آواز بھی تھی۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے