Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیچلیاں اور بال جبریل

اختر اورینوی

کیچلیاں اور بال جبریل

اختر اورینوی

MORE BYاختر اورینوی

    کہانی کی کہانی

    کائنات و آدم کی تخلیق اور اس کے عروج زوال کو بیان کرتا ہوا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ حکایت ہستی بیان کرنے میں مصنف نے اشاروں سے کام لیا ہے اور بڑی مہارت سے انسان کی دنیوی زندگی کے تمام حقائق، تخلیق سے ارتقا تک کے سفر کی سرگزشت اور زوال و فنا کی پیشن گوئی کر دی ہے۔


    یہ افسانہ تاثراتی اور ایمائی ہے۔ اس کی تکنیک بھی اسی آہنگ کی استعمال کی گئی ہے۔ افسانہ چار حصوں میں منقسم ہے۔ نمبر کی جو اشکال مقرر کی ہیں وہ بھی ایمائی ہیں مثلاً (۱)، (۲)، (۳) اور آخری (۴) (کتاب دیکھ لی جائے کیونکہ یہاں سمبل بن نہیں پائے ہیں) پہلی شکل عام و حدت کی سمبل ہے۔ دوسری خالق و مخلوق کی سمبل، جس کی انتہا قاب قوسین ہو جاتی ہے۔ تیسری وہ مثلث ہے جس میں آدم کی اولاد گرفتار ہے اور چوتھی شکل شکست و ریخت کی سمبل ہے۔ جب چار دیوریاں ٹوٹ چکی ہیں۔ 
     
    (۱)
    نہ تھا کچھ تو خدا تھا۔۔۔ 

    اوم! اوم! اوم! 
    ہر طرف تو ہی تو تھا جبکہ اطراف بھی نہ تھے اور آنکھیں بھی نہ تھیں۔ میں اس وقت کی کہانی سنا رہا ہوں جب گوش ہوش بھی نہ تھا۔ وہم و خیال بھی نہ تھے۔ راز راز نہ تھا۔ وہ اپنے آپ پر آشکارا تھا۔ کوئی رازداں بھی نہ تھا۔ نہ صبح ازل میں کسی کو ہنوز انکا رکی جرأت ہوئی تھی، نہ روح، نہ مادہ، نہ فرشتے، نہ شیطان اور میں بھی نہ تھا۔ نہ پانی، نہ مٹی۔ عناصر لامعلوم، مظاہر نا مشہود، نہ سمت، نہ جہت، نہ رنگ، نہ صورت، نہ لفظ، نہ معنی، کچھ نہ تھا مگر وہ تھا۔ عدم کی رات میں سوتا سنسار، جاگتا پاک پروردگار۔ عالم ہو تھا۔ شب لا میں حسن کی جلوہ فشانی دیدنی تھی مگر نہ دید نہ شنید۔ صرف خود بینی تھی۔ ضمیر حسن میں جمال و جلال کی موجیں اٹھ رہی تھیں۔ روح کن فکاں میں خودبینی کی ایک تیز ہوک اٹھی۔ مصدر قوت ساکن تھا اس میں شکنیں پڑ پڑ گئیں۔ اچانک حرکت کی لہریں اٹھیں، پر تو جمال بےقرار ہوا، جوہر آئینہ پیدا ہوا اور پھر آئینہ سامانی ہوئی۔ پہلے عالم انفس کو جنم دیا گیا بعد ازاں عالم آفاق پیدا کیا گیا۔ ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں! 
     
    ضمیر یزداں میں لطیف مگر قوی لہریں اٹھیں اور ایک حیرت فزا اور امکانات سے لبریز لفظ۔۔۔ کن۔۔۔ ادا ہوا، مگر ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہ حرف و صوت نہ ہوا، تاہم یہ جان کائنات و روح حیات تھا۔ تخم زندگی! اور دیکھو بیچ میں باغ اور پھر۔۔۔ فیکون۔۔۔ عالم ہو سے خلاؤں کی وسعتیں پیدا ہوئیں۔ ہر سو برق وش آتشیں پرکالے لہرانے لگے، رنگین سیماب منڈلانے لگے۔ ’’خیال‘‘ نے صورتیں اختیار کرنی شروع کیں، ’’قوت‘‘ نے مادہ کی نیرنگی کے روپ دھارن کئے۔ اظہار فیکون میں قرنہا قرن لگ گئے مگر یہ زمان و مکان سب کچھ اضافی ہیں۔ تخلیق کی بو العجبیوں کو ظاہر کرنے کے لئے اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ کن فیکون کا قرن بھی ایک آن ہے اور آن بھی ایک قرن۔ ایک کن کے بیج سے ستاروں اور سیاروں کے غنچے کھلے، چاند کی کلی چٹکی اور پھول بنی۔ آفتاب کا پھل لگا۔ صحرا صحرا، دریا دریا و جود میں آئے۔ دشت و بیاباں، جنگل اور کوہستان بر و بحر۔۔۔ 
     
    (۲)
    کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔ 
    دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں۔ حسن کی بزمِ ناز بھلا عشق کی انجمن آرزو کے بغیر کیسے سجتی! اور کچھ نہ ہوتا کیسے! کسی کو نشاط کا رکسِ ڈھب سے نصیب ہوتا۔ وہ غیر مبدل لذتِ ارتقا اور کیفِ انقلاب کس سبیل سے حاصل کرتا۔ خالق نے مخلوق کا استعارہ پیدا کر لیا۔ پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں اور نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا، پر عمل ہو رہا ہے۔ غیر فانی نے فانی کو رچا۔ جینے کا مزہ پانے کو ہر یوم نئی شان، نئی آن! گلستاں کا دروازہ کھلا۔ جنت! مالی نے عطرِ مجموعہ تیار کیا۔ مٹی میں روح ڈالی۔ یہ طرفہ تماشہ تھا اور اسے اور تماشہ بنایا گیا۔ فرشتوں کی سبھا سجائی گئی۔ نظر انتخاب کی فتنہ سامانی نے نیا گل کھلایا۔ قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند۔ کسی نے الست کہا اور کسی نے ہاں کہہ کر بھی انکار عظیم کا پہلو نکال لیا۔ کوئی دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا۔ مگر یہ کانٹا در اصل میرے دل و جگر کے لئے تھا۔ سو وہ بھی ہو گیا۔ 
     
    ابھی تو آدم کی زندگی انگڑائی ہی لے رہی تھی کہ کش مکش، اقرارو انکار میں مبتلا کر دی گئی۔ کون کہے کہ برہما نے لیلا رچی۔ یہودا نے بنا وٹی غصہ دکھلایا۔ حیات کو پیمانہ امروز فردا سے ناپ ہی نہیں سکتے۔ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔ خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری۔ لیکن میری کہانی میری زبانی سننے کو نہ جانے کون بے چین ہے کہ آپ بیتی سنانے میں مجھے بھی مزہ ملتا ہے۔ کون جانے کس چیز کا بار امانت میرے سپرد کیا گیا۔ پہلا واسطہ فرشتوں سے پڑا پھر شیطان سے، بعد ازاں جبریل امین کسی کا فرمان سنا گئے اور ایک عطیۂ ربانی بھی پیش کر گئے عورت! لذت، کیف و سرمستی اور تکمیل کا ذریعہ لطیف۔ ہر ابھر شاداب باغ تھا جنت عدن۔ 
     
    ایک روز نہایت ہی خوب صورت سانپ رینگتا ہوا آیا اور پھر آتا رہا۔ میں کیا عرض کروں۔ کہتے ہیں میں آزاد ہوں، مختار ہوں۔ میں تو جبریل، عورت اور شیطان کے مثلث میں مارا گیا اور نہ معلوم عورت خود میرا متمثل درد پہلو ہے۔ میری بائیں پسلی سے پیدا شدہ حسین مورت یا میری دعائے مقبول۔ عورت بھی تو یہی کہتی ہے کہ میں بھی خدا، شیطان اور مرد کے مثلث میں گرفتار ہوں۔ ہم دو گھڑی بھی تو آزادی کا سانس نہ لے سکے۔ دم بھر کے لئے دوسروں کے اثرات سے بری نہ ہو پائے۔ ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی!
     
    میری زندگی کیا! تلون مزاج یار کی طرح آنی جانی فانی۔ شجر ممنوعہ کا واقعہ تو گذر گیا۔ اس کے بعد قید لا معلوم شروع ہوئی، جئے جانے کی تہمت بھی بالائے غم ہائے دگر برداشت کرنی پڑی۔ موت نے بڑا کرم کیا لیکن اس سے قبل بہت ہی عجیب، بہت حیرت ناک واقعات رونما ہوئے۔ عورت نے ایک نئے آدم کو جنم دیا۔ حیات کے اندر سے حیات پیدا ہوئی۔ مٹی سے آدم کا پیدا ہونا اتنا حیرت ناک نہ تھا اور حیرت بھی کیسے ہوتی۔۔۔ سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی! لیکن عورت کے بطن سے سلسلۂ آدمی کی ابتدا خیرہ کن حقیقت تھی۔ میری روح نئے آدم اور ہر آدم میں بولتی رہی۔ ہر آدمی میں، میں ہی میں تھا۔ 
     
    موت آئی میں مر گیا، مگر میں زندہ رہا۔ کاش میں مرجاتا۔ میں مرتا جیتا رہا۔ کتنا عجیب ہے یہ سانحہ۔ میں ہوں بھی اور ہر وقت نہ ہونے کا احساس بھی لئے ہوئے ہوں۔ بے ثباتی کا غم اور گاہ پائندگی اور تسلسل کا بار گراں، میں خودی کو پا لتا رہا۔ خدا سے روٹھا رہا لیکن کبھی کبھی مجھ پر بےخودی بھی طاری ہوتی رہی۔ خدا کو منانے کا جذبہ بھی جاگتا رہا میری حیات کا سب سے اندوہ گیں باب دل مبتلا ہے یا فکر رسا؟ نہیں معلوم جذبات کے نشتر کے بعد سب سے گہرا نشانہ فکر و خیال نے لگایا اور اب تو دل و دماغ دونوں میرے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں الامان! 
     
    (۳)
    ڈبویا مجھ کو ہونے نے۔۔۔ 
    میں نے بہت سے اسم سیکھے ہیں اور اسم اعظم بھی سیکھا۔ میں انھیں سیکھ سیکھ کر بھولتا اور بھول بھول کر سیکھتا رہا۔ میں اپنے بیتے دنوں کو جھوٹ سچ کہانیاں بناتا رہتا ہوں۔ محروم وصال تو کر دیا گیا ہوں مگر محروم تمنا نہیں ہوں۔ میری آرزوئیں کہانیاں گڑھتی ہیں اور میری حسرتیں شاعری پیدا کرتی ہیں۔ عمر خیام نے ایک کہانی کہی تھی کوزہ نامہ۔ مٹی کی مخلوق کی کہانی۔ آپ بیتی! یہ میناو جام کو کون بنا کر توڑتا ہے؟ انھیں شراب سے کون بھرتا اور خالی کرتا ہے؟ مگر کہانیوں اور گیتوں کے میناو جام تو میں خود بناتا ہوں۔ خود کوزہ و خود کوزہ گرد و خود گل کوزہ۔ 
     
    افسانہ از فسانہ خیزد،
    پرما تما نے آتما کو مادہ میں داخل کر دیا۔ میری روح جس وقت مادہ میں ڈالی گئی، مجھے عجیب احساس ہوا۔ مادہ کو کیا احساس ہوا ہوگا، نہیں معلوم۔ روح نے مادے کے ذرے ذرے میں سرایت کرنا شروع کر دیا۔ اس عمل سے روح کے پر خچے اڑ گئے۔ اس درد ناک تجربہ سے میرے وجود میں ایسی کپکپی اٹھی کہ مادہ لرز اٹھا۔ روح ومادہ کے امتزاج و ترکیب سے میں کا احساس پیدا ہوا۔ میں تو موجود تھا لیکن میں کا احساس نہ تھا۔ کیا کہوں احساس کی اذیت بخشیوں کو۔ احساسِ اولین کی پہلی گھڑی سے لے کر آج تک میں نے ان گنت زبانوں میں لا تعداد استعارے اور تشبیہیں پیدا کیں مگر احساس کی اذیت رسانیوں کی صحیح اور مکمل ترجمانی نہ ہو سکی۔ میری محرومی اور نارسائی کا یہ پہلا باب ہے۔ 
     
    مادے کے بےشمار روپ تھے، ان میں روح گم ہو گئی۔ آسمانوں کے تارے گنے جا سکتے ہیں، مادہ کے روپ نہیں گنے جا سکتے۔ روح بالکل کھو گئی جیسے گھنیرے جنگل میں تنہا بچہ۔ روح کے ملتے ہی مادہ نے اور تیزی سے بہروپ بدلنا شروع کیا۔ ’’میں‘‘ کا اولین احساس کب اور کس منزل پر جاگا یہ بتایا نہیں جا سکتا، یہ احساس مکمل کب ہوگا یہ بھی نہیں معلوم اور ہاں صرف میرا جسم ہی روپ نہیں بدلتا، میرے اندر کی دنیا بھی بدلتی رہتی ہے۔ کبھی آگے بڑھتی، کبھی پیچھے ہٹتی ہے۔
     
    میرے اندر احساسات کے بعد جذبات کی آنچ اٹھی۔ پھر تخیلات پیدا ہوئے، بعد ازاں ادراک جاگا۔ میں نے یہ نام رکھ چھوڑے ہیں۔ یہ نت نئی اٹھنے والی اندرونی موجوں کے یونہی سے نام ہیں۔ بالکل ادھورے۔ غرض یہ کہ میرے اندر کی دنیا باہر کی نسبت زیادہ تیزی سے بدلتی رہی ہے۔ میں اپنے روپ، رنگ اور اپنے اندرونی ڈھنگ کو پہچاننا چاہتا ہوں مگر پہچان نہیں پاتا۔ کسی کو قرار نہیں، میں بھی بے قرار ہو جاتا ہوں اور رونے لگتا ہوں۔ ہر آن ایک نئی موت، ایک نئی حیات۔ کیسی الم ناک زندگی ہے۔ جب میں اپنے آپ کو بھی نہ جان سکوں، نہ پہچان سکوں، نہ سمجھ سکوں! اور غضب تو یہ کہ زندگی۔۔۔ جاوداں پیہم دواں! 
     
    میں اپنی صورت و ہئیت کیا بتاؤں؟ میں اپنی کیفیت و حالت کس طرح بیان کروں؟ خود کشی و خود شکنی کو بھی جی چاہتا ہے اور میں کر بھی گذر تا ہوں لیکن میری موت کی خاکستر سے حیات کی چنگاری بھی پھوٹتی ہے۔ نئے سرے سے نئے قالب کے دکھ درد جھیلنے پڑتے ہیں اور پھر سے میں اپنی تہیں خود اکھیڑنے لگتا ہوں۔ کبھی اپنے قالب کو کھرچتا ہوں، کبھی روح کو کریدتا ہوں، گاہ باہر جھانکتا ہوں، گاہ اندر دیکھتا ہوں۔ کچھ سمجھتا ہوں، بہت کچھ نہیں سمجھ پاتا۔ غور و فکر میں مبتلا ہی رہتا ہوں کہ کبھی باہری دنیا اندر کی دنیا کو بدل دیتی ہے اور کبھی اندر کی باہر کی دنیا کو تہہ و بالا کر کے بدل ڈالتی ہے۔ میں سوچتا ہی رہ جاتا ہوں اور سوچنے کا موضوع بدل چکا ہوتا ہے۔ 
     
    گھبرا کر میں ماضی کے دامن میں پناہ لینے کی سعی ناکام کرتا ہوں۔ ماضی غیرمبدل ہے، مستقل ہے، اٹل ہے، لیکن خود میری نگاہ بدلتی رہتی ہے، جیسے و وربین میں نت نئے شیشے لگائے جائیں۔ نظر کا مرکز محور اور فوکس بدلتا ہے، زاویہ نگاہ بدلتا ہے، جانا پہچانا ماضی بھی دھندلاکر رہ جاتا ہے۔ مجھے پناہ نہیں ملتی۔ بوکھلا کر حال کا جائزہ لینے لگتا ہوں۔ اسے سمجھنا چاہتا ہوں لیکن حال سے زیادہ غیر یقینی اور کوئی شئے نہیں۔ ارتقا اور انقلاب کا نقطۂ مرکزی گرم جولاں، تپاں و لرزاں، شعلہ فشاں، شور کناں، شدید حدت، روشنی اور رفتار کا بھڑکتا ہوا سیمابی ہیولا۔ میں حال کی بھٹی میں جلنے لگتا ہوں، پگھلنے لگتا ہوں، بکھرنے لگتا ہوں اور کوہ آتش فشاں کے لاوا کی طرح پریشان ہو کر مستقبل کی جانب پرواز کرنے لگتا ہوں۔ ایک انجان دنیا کی طرف۔ 
     
    مستقبل کے تصور سے دو گھڑی کے لئے پناہ مل جاتی ہے یا شاید صرف ایک آن کے لئے۔ جو بھی ہو، بعد میں دل ہی کیوں نہ ٹوٹے، میں آرزو پروردہ مستقبل کو اپنے فکر و خیال کی مدد سے جس طرح چاہتا ہوں پروان چڑھاتا ہوں۔ مستقبل حال بن جاتا ہے، دل ٹوٹتا ہے، پاش پاش ہو جاتا ہے پرشاید مستقبل کبھی بھی حال نہیں بنتا۔ حسرتیں اور تمنائیں مستقبل کے نئے ہیولے بناتی رہتی ہیں۔ لیکن اس پر پرواز سے مجھے قرار نہیں ملتا۔ ہر لمحہ اضطراب پیہم سے سیماب دار و برق وش بنا رہتا ہوں۔ پھر میں گردشِ مکان اور درد زمان کو روکنے کے لئے بڑے جلال کے ساتھ اٹھتا ہوں۔ جیسے میں خود خالقِ زمان و مکان ہوں۔ ایک عظیم الشان تصادم ہوتا ہے اور جریدۂ عالم پر میرا ثبت دوام ہو یا نہ ہو۔ ایک کامیاب المیہ ضرور مرتسم ہو جاتا ہے۔ 
     
    میں ایسے ان گنت المیے پیدا کرتا رہتا ہوں، ایسے المیوں کا ہیرو میری خودی ہے۔ میری خودی مادی اور روحانی کیچلیاں بدلتی رہتی ہے۔ پھنکارتی ہوئی، کف درد ہن، غضب ناک و زہر ناک۔ کیچلی کا بدلا جانا ایک ماجرائے قیامت ہے۔ تبدیلی کا لفظ بڑا سادہ سا لفظ ہے مگر اس لفظ کا عمل میرے اوپر ہر بار جہنم کے درد و کرب کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں اپنی خود ی کو پوری طرح جاننا چاہتا ہوں تاکہ اسے بھی ساکن اور منجمد کر دوں اور تصادم سے روکوں مگر میری متحرک خودی تو چھلا وہ ہے، برق خاطف ہے۔ میں نے زہر خودی کے لئے بےخودی کا ایک تریاق ایجاد کیا ہے۔ میں نے اس تریاق کا استعمال یہ سمجھ کر کیا، مجھے سکون حاصل ہوگا۔ میں خوش تھا کہ نجات ملی، آرام ملا، اب کیچلیاں نہیں بدلیں گی۔ ارتقاء اور انقلاب کی رورک جائےگی، آوا گون کا چکر تھم جائےگا، لیکن ابھی مجھے ایک گونہ بےخودی ہی حاصل ہوئی تھی کہ میرے بازو میں ایک نئی چیز نمودار ہونے لگی۔ کچھ دنوں کے اندر اندر ہی یہ صاف ظاہر ہو گیا کہ مجھے نئے قسم کے پر لگنے لگے ہیں۔ 
     
    یہ پر بڑھے اور پرواز کے قابل ہو گئے۔ مجھے پہلے پہل تو سخت کو فت محسوس ہوئی لیکن پروں کی نمود کے ساتھ ہی ساتھ میرے نفس کے اندر بھی آہستہ آہستہ تبدیلی ردنما ہونے لگی۔ دھیرے دھیرے من میں ایک نئی ہوک اٹھنے لگی۔ یہ نئے انداز کی بیتابی تھی۔ دل میں اضطراب، روح کو پھر رقص و وجد کی تمنا، سکون پھر رخصت۔ سطح بدل گئی، رخ بدل گیا، منزل بدلی، مقصود بدلا۔ اب خودی کے بدلے خدا کے عرفان کی آرزوئیں مجھے بیتاب رکھنے لگیں۔ میں نے اپنے پروں کا جائزہ لیا۔ یہ بالِ جبریل سے مشابہ تھے۔ یہ پر مجھے اچھے نہیں لگے لیکن رفتہ رفتہ عادت سی ہو گئی۔ ان پروں سے میری پریشانیوں اور الجھنوں میں اضافے پر اضافے ہوتے گئے۔ میں تو انھیں سمیٹ کر بیٹھ جاتا لیکن اندر کی دنیا میں تقاضائے پرواز اتنی شدت سے بازو کشا ہوا کہ میرا جود ریزہ ریزہ ہو کر رہ گیا۔
     
    عین اسی وقت شیطان میرا دل بہلانے آیا۔ وہ میرے درد کا درماں بن کر آیا۔ کاش میرا ارادہ آزاد ہوتا۔ کاش میں شیطان کے فریب رنگ و بو کے دامنِ رنگین میں پناہ گزیں ہو سکتا! داغ دل و زخم جگر کے لئے اس سے زیادہ خوشگوار اور کوئی مرہم شفا نہیں۔ خودی اور خدا تو زخم کو اور پر درد بنا دیتے ہیں۔ مجھے حیات کے اس رستے ہوئے ناسور سے کوئی کسی طرح تو نجات دلاتا! اس کشا کش زندگی سے رستگاری دیتا۔ میں تو شیطان کو بھی اپنا نہ سکا۔ فرشتے اور شیطان مجھے اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ اس رزم خیر و شر کا نشانہ تو میں ہوں۔ آہ دل داغ داغ ہو گیا۔ جبریل اور شیطان مل کر مجھے ٹکڑ ے ٹکڑے کرتے رہتے ہیں، قاش قاش، پاش پاش، ریزہ ریزہ۔ دونوں مل کر میری گردن ریتتے ہیں، سر قلم کرتے ہیں، سولی پر چڑھاتے، دار پر کھینچتے، آرے سے چیرتے ہیں۔ مجھے مٹاتے ہیں اور برباد کر تے ہیں، اور ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ پریشان ہو کے میری خاک پھر دل بن جاتی ہے اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ 
     
    شیطان اور فرشتہ کا تو ایک بیچ ہے، ایک حجاب ہے۔ میں جانتا ہوں مجھے خراد کر، تراش کر، کاٹ چھانٹ کر، کوٹ پیس کر، گوندھ گوندھ کر، تپاکر، پگھلا کر، کون اپنے لئے کھلونے بناتا رہتا ہے۔ ایک زندہ جود کو تخلیق کی بھٹی میں ڈالنا ستم ہے کہ کرم؟ 
     
    ایک سفید روشنی محدب شیشے سے گذاری گئی۔ قوسِ قزح کے سات رنگ پیدا ہو گئے۔ میری روح کے بھی کھنڈ کھنڈ کر دیے گئے اور پھر ’’آواگون‘‘ کا چکر۔ ان گنت ٹکڑوں میں بٹ جانا اور ہر ٹکڑے کا صد ہزار قالب سے گذر نا۔ تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آغاز داستان کی بات ہے کہ میں نے اگنی، اوت، انگڑا ‘دایوا ور نار دمنی کے اندر سے جھانکا۔ ان دنوں مجھ پر گیان کی برکھا برستی تھی۔ سنسار میں بھی سکھ چین تھا پھر یوں ہوا کہ میری روح کا ایک ٹکڑا، کہتے ہیں کہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ چند اور ٹکڑوں سے بھی لغزش ہوئی۔ ایک ٹکڑے کو لنگڑے آدمی کے قالب میں ڈال دیا گیا۔ ایک کو گونگا بننا پڑا۔ ایک فاحشہ عورت بنا۔ ایک سود خور سرمایہ دار اور ایک شاہی دربار کا کیا و سیاست داں۔ کرم کا پھل ملا کئے کی سزاپائی۔ 
     
    میں نے دکھ سب تو جھیل لئے لیکن پاپ کی سزا پاپ، یہ روح کو کچلنے والا انوکھا دکھ سہا نہیں جاتا تھا۔ بیسوا پن، سود خوری اور سیاسی دلالی کے جونی میں میری روح کڑھتی، جلتی، سسکتی اور کراہتی رہی۔ سب سے بڑا غم تو یہ تھا کہ نیکیوں کی راہ بند تھی اور یزدان کا دروازہ تقدیر کی اٹل چٹان سے ڈھک دیا گیا تھا۔ میں آئندجون میں سانپ، بندر، سور، ریچھ اور غدار وطن بنا دیا گیا۔ جب میری انسانی روح کے ٹکڑوں نے پہلے پہل بہائم کے قالبوں میں آنکھیں کھولیں تو جاں سوز گھٹن کا احساس برسوں طاری رہا۔ میں بولنا چاہتا تھا مگر زبان کی حرکت ایک پھنکار، ایک قلقاری، ایک چیخ، ایک ہنکار بن کر رہ جاتی تھی۔ خیالات اور جذبات مردہ روحوں کی طرح منڈلاتے تھے مگر وہ واضح ہوسکتے تھے اور نہ اظہار، ادھورا اظہار ہی ہو پاتا تھا۔ 
     
    میں رونا چاہتا تھا مگر رو نہیں سکتا تھا۔ ہنسنا چاہتا تھا تو نقلی ہنسی بھی نہیں نکلتی تھی۔ میری روح کے ٹکڑوں کے اندر سخت جلن تھی۔ میری ابتدائی فطرت جانورانہ ہئیت و سیرت سے ٹکراتی تھی۔ اندرونی کش مکش سے روح تلملاتی رہی۔ رفتہ رفتہ بہیمانہ، حشراتی اور وحشیانہ فطرت غالب آ گئی۔ غدار ملک و ملت کے قالب میں ایک سکون ضرور تھا، یعنی داخلی کش مکش سے نجات۔ ہاں کبھی کبھی اپنی خباثت و ذلالت کا احساس ہو جاتا تھا لیکن جس طرح پائخانہ کا کپڑا کلبلا کر بھی اسی غلاظت میں پڑا رینگتا رہتا ہے، اسی طرح غداری میرا اوڑھنا بچھونا بن کر رہ گئی اور آنے والے جون میں میری روح کے اس ٹکڑے کو واقعی پائخانہ کے پلو کا قالب ہی ملا اور دوسرے ٹکڑے چمگادڑ، چیرا، جونک اور تھوہڑ کی جھاڑی بنا دیے گئے۔ 
     
     افتاد آدم! زوال آدمی! میری روح نے ایک دفعہ جونک کے اندر سے خون چوستے ہوئے سوچا کیا میں پھر نار دمنی کے اندر سے جھانک کر شانتی کی برکھا برستی ہوئی دیکھ سکتی ہوں، کیا ایک جونک نار دمنی بن سکتی ہے؟ کیا آواگون کا رخ پلٹ سکتا ہے؟ کیا یہ سلسلۂ تناسخ سارے جانداروں کو، چمگادڑوں، جونکوں اور تھوہڑ کی جھاڑیوں میں تبدیل کر کے رکھ دےگا؟ 
     
    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ روح نے ویدانت کا شیشہ لگا کر دیکھا۔ ساری دنیا مایا نظر آئی۔ کچھ نہ تھا۔ صرف پر ماتما تھا۔ آتما نہ تھی۔ یہ سب پر ماتما کے ٹکڑے تھے۔ ہمہ اوست جو چیز تھی وہ پر میشور کا حصہ تھی اور جو پرمیشور نہ تھی، وہ کچھ نہ تھی۔ فلاطون کے قالب کے اندر بیٹھ کر روح نے سوچا کہ حقیقت ماورائی ہے اور یہ سنسار چھایا ہے، مایا ہے۔ صوفی کے اندر سے روح بولی انا الحق! منصور اور سر مد کے قالب میں میرے اجزاء یہی جذب و مستی لئے پھڑکتے رہے۔ میں کبھی یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میں خدا کا جزو ہوں اور ہر شئے میں خدا کے اجزاء پاتا ہوں۔ انا الحق! ہمہ اوست! میں حافظ، جامی، صائب، ورڈ سورتھ اور شاکے قالبوں میں بھی رہا ہوں۔ میرے تجربوں کی انتہا نہیں۔ 
     
    اور ڈارون کے دماغ کے اندر بیٹھ کر میں نے سوچا کچھ نہ تھا۔ صرف پانی تھا۔ ستاروں کی گرد کارواں سطح آب پر پڑی۔ آدم کا خمیر گوندھا گیا۔ پروٹو پلازم پیدا ہوا۔ شعاعوں اور لہروں نے اسے گودوں کھلایا۔ ننھے سے قالب میں روح پڑ گئی۔ میں اب سوئی کے ناکہ سے بھی ہزار گنا چھوٹے ’’امیبا‘‘ کے اندر سانس لے رہا تھا۔ مجھ پر صدیاں گذر گئیں۔ میں جیلی فش بن گیا۔ پھر صدیاں گذریں اور میں رہو مچھلی تھا۔ اور صدیاں گزرتی گئیں میں باری باری مینڈک، گھڑیال، مگر مچھ بنتا رہا۔ صدیاں گذرتی رہیں۔ میں اژ دہا بنا، پھر اڑنے والا اژدر، پھر رخ، پھر گدھ، عقاب، افریقی چمگادڑ اور ایک بار گینڈا بن گیا۔ کبھی ہاتھی بنا، کبھی بھینس، کبھی گھوڑا، گاہ اونٹ، گاہ زرافہ اور پھر میں چوہا اور گلہری بن گیا۔ 
     
    قرنہا قرن بعد بند ر بنا۔ پھر اس سلسلے میں قالب بدلتا رہا۔ چمپنزی ‘گوریلا اور بن مانس بن کرا چکتا، پھد کتا، لٹکتا پھرا اور صدیاں گذرتی رہیں، گذرتی رہیں، یہاں تک کہ میں آدمی بن گیا اور آدمی بن کر بھی نہ بیٹھا۔ غار سے سفر کرتا ہوا ’’ہوائی قلعوں‘‘ میں اڑا۔ یہ ہیں میرے قالب، میرے سنگ میل۔ پا تنجلی، پانینی، سقراط، ارسطو، ابن سینا، فارابی، ابن رشد، کانٹ ہیگل، مارکس، آئنسٹائن، فرائڈ، برگسوں اور رسل وغیرہ وغیرہ۔ 
     
    میں بہت تھک گیا ہوں۔ ان گنت قرنوں کا بوجھ، بے شمار قالبوں کا وزن اور لا تعداد تجربوں کے بار کے نیچے دبا ہوا میں سسک رہا ہوں۔ دل زخمی ہے، دماغ مفلوج ہوا جاتا ہے، روح پھڑ پھڑا رہی ہے، آہ کر رہی ہے، کراہ رہی ہے اور میں کچھ سوچ نہیں سکتا۔ نہ جانے ارتقاء نے مجھے حشرات و حوش سے آدمی بنایا ہے یا تناسخ مجھے آدمی سے حوش و حشرات میں بدلتا جاتا ہے۔ یہ کائنات نیچے سے اوپر اٹھ رہی ہے یا اوپر سے نیچے گر رہی ہے؟ یا یہ سب ایک سطحی معاملہ ہے؟ یا تو سب پر ماتما ہیں یا سب مایا؟ یا خدا! یا خدا! تو مجھے سزادے رہا ہے یا خود جز جز ہو کر، اوتار لے کر سزا کے تجربے حاصل کر رہا ہے؟ 
     
    ادر میں نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ میں نے اپنے بھائی کو، اپنے آپ کو قتل کر دیا۔ سانپ کا زہر اب تک میرے بدن میں تھا اور یہ روح میں نفوذ کر رہا تھا۔ میرے اندر ہی سانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا اور رہے رہے پھنکار اٹھتا تھا۔ میرا جسم صرف سانپ کی کیچلی ہو کر رہ گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں ہابیل تھا کہ قابیل؟ 
     
    اور پھر ایک طوفان آیا۔ آسمان کا سینہ شق ہوگیا اور زمین کا چکر چاک چاک۔ ہر طرف سے پانی کی دھار تلوار سے زیادہ تندی کے ساتھ مجھ پر حملہ آور ہوئی۔ پانی سے حیات ابھری تھی اور پانی کے گرداب میں موت کے باز و حیات کو جکڑ رہے تھے۔ میں پانی کے بھنور میں ڈوبا، یا اپنی خودی کے گرداب میں، کیا پتہ؟ مگر میری بسیط، عالم گیر روح کا ایک حصہ بچ گیا۔ وہ کشتی نوح کے سہارے بچ نکلا اور پھر اسی سے ماجرائے حیات کی تعمیر ہونے لگی۔ 
     
    دو ایک دور گذر جانے کے بعد یوں ہوا کہ آگ کا الاؤ جلایا گیا۔ بلند شعلوں کی زبانیں بر چھی کی انی کی طرح مجھ پر لپکنے لگیں اور میں نے ہی یہ آگ لگائی تھی، یہ شعلے بھڑکائے تھے، اپنے آپ کو جلانے کے لئے لیکن میں خود شکنی کے لئے بھی تو آزاد نہیں۔ خود آزاری تو میں نے کرلی مگر میں خود کشی میں بری طرح ناکام ہوا۔ شعلے پھول بن گئے، چنگاریاں کلیوں میں بدل گئیں اور پھرایک عظیم الشان زلزلہ آیا۔ دنیا زیر و زبر ہو گئی، شہروں پر پتھر پڑے، میرا جسم اور میری روح سفوف کی طرح پس گئی، خاک برباد بن گئی، پھر ایک لطیف و خفیف ذرہ و جود نے سانس لی اور حیات تازہ سے صحرا اور وادیاں معمور ہو گئیں مگر قبل اس کے کہ ایسا ہو، میری روح کے ایک جگر گوشے کو بہت ہی بڑی قربانی پیش کرنی پڑی۔ ذبح عظیم! 
     
    اور میں نے پھر خدائی کا دعویٰ کر دیا اور اب کے مجھے سانپ نے نگل لیا اور یوں ہوا کہ پہاڑ روشنی سے بھر گئے۔ میری روح کے بے شمار اجزاء نے میرے خلاف سر اٹھایا اور وہ مجھ سے روگرداں ہو گئے۔ میں نے ان کا تعاقب کیا اور میں نے دیکھا کہ سمندر دو حصوں میں بٹ گیا۔ یا میں دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک حصہ ڈوبا اور ایک سلامت نکل گیا۔ میں ’’غرقِ دریا‘‘ ہو کر بھی ’’رسوا‘‘ ہوا۔ ہزاروں سال بعد میرا جنازہ شاہانہ طور پر تو نہ اٹھا لیکن ایک عجائب خانہ میں مجھے مزار کی جگہ مل گئی اور ان اجزائے پریشاں کو جو سلامت نکل گئے تھے، سکینت ملی اور چالیس سال کی صحرا نوردی کے بعد ارض موعود بخشا گیا، لیکن سبک ساری ساحل اور دشت پیمائی کی داستان اتنی سادہ نہ تھی۔ وہ تو افسانہ درا فسانہ ہے۔ 
     
    اور ہاں خوب یاد آیا۔ میں جمنا کے تیر میں پریم ناچ بھی ناچا، پریت بانسری بھی بجائی۔ میں حلقہ رقص کا مرکز بھی تھا اور دائرہ بھی اور پھر ایک مہایدھ ہوا۔ فوجیں صف آرا ہوئیں، خون کی ندیاں بہہ گئیں اور آتما کے اندر سے ایک آواز اٹھی روح غیر فانی ہے۔ زندگی نام ہے جہدو مقابلہ کا۔ بےعملی موت ہے۔ موت کی اور کوئی حقیقت نہیں۔ صداقت کے لئے جنگ، تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے۔ آتما اپنی پاکی کے حصول کے لئے معرکۂ کار زار کی بھٹی سلگاتی ہے اور اس کی آنچ سے تپ کر، پگھل کر کھرے سونے کی طرح نکلتی ہے۔ کوئی کسی کو نہیں مارتا، کوئی کسی کو نہیں جلاتا۔ تلوار چلانے والی وہی ایک آتما ہے اور کٹنے والی چیز بدن ہے جو میل کی طرح چھٹ جاتی ہے۔ نہ کوئی حریف ہے، نہ کوئی حلیف۔ یہ سب ظاہری اعتبارات ہیں۔ 
     
    میں ہی مارتا اور میں ہی جلاتا ہوں۔ میں واحد و یگانہ ہوں۔ میں ازلی، ابدی، انادی اور سرشکتی مان ہوں۔ میں ست کا پالن کرتا ہوں اور جب جب مایا کا، روپ اور بدن کا، مادہ کا، جھوٹ کا زور ہوتا ہے، انیائے اور پاپ کی اندھیاری چھا جاتی ہے، تب تب میں اوتار لیتا ہوں، تاکہ ست کی چمکار دکھاؤں، نیکیوں اور فروتنی دکھانے والوں کی رکشا کروں اور ظالموں کو ہلاک کر ڈالوں۔ 
     
    اور پھر نٹ راج نے نئے نئے ناچ ناچے۔ بہت سی لیلائیں رچی گئیں۔ حسن کی کرشمہ سازیاں ہوئیں۔ عشق نے داؤ چلائے۔ روح کی زلیخائی نے کسی کو قید و بند میں مبتلا کیا۔ آسمانوں پر فرشتے ہنستے رہے۔ ایک زندانی کے لئے ستاروں، چاند اور سورج نے سجدہ کیا۔ فرشتوں کے سجدۂ روز اول کی رسم دہرائی گئی۔ زلیخا کو اپنا محبوب ملا اور محبوب کو تخت، لیکن سلومی کو اپنا محبوب نہ مل سکا۔ محبت کی روح کے بطن سے نفرت کی جوالا مکھی پھوٹی اور سلومی نے یوحنا کو پاکبازی کا صلہ دیا۔ سلومی نے یوحنا کے بریدہ سر کو طشت پر رکھ کر محبت و نفرت کا ایک رقصِ آتشیں برپا کیا۔ کسی کو تخت کسی کو تختہ! 
     
    تب یہ رونما ہوا کہ میں نے دنیا کو تیاگ دیا۔ آتما کے نروان کی تلاش میں مجھے گیان کی روشنی ملی۔ اس نے مجھے یکسر بدل ڈالا۔ میں نے اپنے جذبات، خیالات اور ادراکات کے شعلوں کو ٹھنڈا کیا۔ روح نے جونوں کے چکر سے، کرموں کے گت سے، بدن کے بوجھ سے مکتی حاصل کرنے کا راز دریافت کر لیا لیکن پھر آتما اپنی پوترتا کے دھیان میں اتنی محو ہوئی کہ پرما تما کو بھولنے لگی۔ جونوں کا چکر پھر شروع ہو گیا۔ لوبھ کا دھندا، مایا کی چھایا۔ 
     
    اور ایسا ہوا کہ اب کے میں نے اپنی صلیب آپ اٹھا لی۔ کانٹوں کا تاج آپ ہی سر پر رکھ لیا اور یہ طے کر لیا کہ سولی پر چڑھ جاؤں گا، پر نفس امارہ کے سر پھرے اونٹ کو سوئی کے ناکے سے گذار کر چھوڑوں گا۔ کیونکہ خد اکی بادشاہت میں داخل ہونے کا یہی ایک دروازہ ہے اور جو فراخ دروازے میں داخل ہونا چاہتا ہے اس کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ میں مصلوب ہوا اور پھر جی اٹھا۔ میں نے بال جبریل کی پھڑ پھڑاہٹ سنی اور روح القدس کو کبوتر کی شکل میں دیکھا۔ میں نے سولی پر چڑھنے سے پہلے گریہ و زاری کی اور میں نے آہ و بکا کے ساتھ پکارا، اے روح اعظم! کیا تونے مجھے چھوڑ دیا ہے؟ پر اس نے مجھے تسلی دی اور میں تسلی پا گیا۔ پھر بھی ایک کانٹا دل میں کھٹکتا رہا۔ سارے ابنائے آدم کو، میری روح کے سارے عناصر کو نجات نہ مل سکی۔ میں نے ان عناصر کو بچانا چاہا پر انھوں نے مجھ پر لعنت کی۔ 
     
    ایک باغ تھا۔ اس کے مالک نے باغ کا نظم چند باغبانوں کے سپرد کیا۔ باغبانوں نے کچھ عرصہ تک وقت پر مالک کو پھل دیا، لیکن پھر پھل دینا بند کر دیا۔ مالک ناراض ہوا اور اس نے اپنے ملازموں کو بھیجا تاکہ باغبانوں سے پھل حاصل کرے۔ مگر ایسا ہوا کہ باغبانوں نے مالک کے مرسل ملازموں کو مارا پیٹا اور پھل دینے سے انکار کر دیا۔ تب مالک نے اپنے پلونٹھے بیٹے کو بھیجا تاکہ باغبانوں سے وقت پر پھل وصولے لیکن بدذات باغبانوں نے مالک کے بیٹے کو قتل کر دیا۔ مالک نہایت غضب ناک ہوا اور اس نے ارادہ کیا کہ وہ خود باغبانوں کو سزا دینے جائےگا۔ وہ آیا اور اس نے باغبانوں کو سزا دی اور لعنت کی اور ان سے باغ چھین کر دوسرے مالیوں کو دے دیا جو وقت پر مالک کو پھل دیں گے۔ 
     
    وہ شعیر سے آیا اور فاران سے طلوع ہوا اور دس ہزار قدوسی اس کے ہم رکاب تھے۔ اس کے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت تھی، ایک چمکتا ہوا قانون، ایک شاندار نظام۔ روح آدم نے اپنا بلند ترین مقام حاصل کر لیا۔ خدا اور خودی اتنے قریب ہو گئے جیسے قاب قوسین۔ خودی کا ناز و پندار بالکل مٹ گیا تھا۔ وہ سرا سر محبت و رحمت ہو گئی تھی اور خدا نے اپنا ناز کبریائی فراموش کر دیا تھا۔ شیطان نے تاریخ عالم میں پہلی دفعہ موت کا مزہ چکھا لیکن قبل اس کے کہ داستان اپنے اس انجام کو پہنچے، چراغ روح سے شرار روح ستیزہ کا رر ہا۔ سراج منیر پر مدتوں ظلمتوں نے ٹوٹ ٹوٹ کر حملے کئے۔ میری داخلی دنیا میں جو گذری وہ خارجی سا نحات سے کہیں زیادہ خوں ریز تھی۔ کیا بو لہبی میرے وجود کو نہیں جلاتی؟ 
     
    یہ صحیح ہے کہ اب کے دفعہ ابنِ آدم کو صرف ایک بار نہیں ساری عمر صلیب پر چڑھا گیا لیکن بنی آدم کے ان اعضاء کا انجام تو اچھا ہوا جور بخور ہو کر بھی شفایاب ہو گئے۔ رونا تو ان اعضاء پر ہے جو کاٹے گئے۔ بنی آدم اعضائے یک دیگراند۔ میری روح کو سب سے بڑی جراحت بھی اسی دور میں نصیب ہوئی جس میں اسے سب سے بڑی رحمت نصیب ہوئی اور اب وہ دور تا قیامت جاری رہےگا۔ دنیا کا عظیم ترین الوہی رزمیہ، اس جلوۂ روح سے وابستہ تھا جس تجلی کے لئے نغمۂ داؤد بیتاب اور شیام کی مرلی بے چین رہی۔ جس مقام محمود کی سر شار محبت میں ’’غزل الغزلات‘‘ کی لے اٹھی اور اورنگ سلیماں کا نپا اور آہ! روح کا سب سے عبرتناک ’’المیہ‘‘ اس گھڑی وجود میں آیا جب ’’یوم فرقان‘‘ میں ایک مجروح صاحب پندار کی آخری متکبرانہ تمنا مرتے وقت بھی پوری نہ ہوئی۔ 
     
    اس نے کہا، میں اعلیٰ واجل ہوں۔ میں سردار عرب ہوں۔ میں فخر قوم ہوں۔ میں ابو الحکم ہوں۔ میں زندگی میں بھی مفتخروسر بر آوردہ تھا اور موت میں بھی مکرم و سربلند رہنا چاہتا ہوں۔ میری گردن شانے سے کاٹو، لیکن آتشِ حسرت اسے جلاتی ہی رہ گئی۔ اس کی گردن تھوڑی سی کاٹی گئی۔ آگ! آگ! آگ! 
     
    اور یوں رو نما ہوا کہ آفتاب کے گرد نصف روشن اور نصف تاریک کرۂ ارض گھومتا رہا۔ ہلال و قمر بھی رونما ہوتے رہے اور بدر کامل بھی طلوع ہوا لیکن آج بھی مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک، پرانی دنیا سے لے کر نئی دنیا تک، میں اپنی صلیب آپ اٹھائے پھرتا ہوں۔ 
     
    آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
    کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
     
    ہند و چین کی سبھتائیں رونما ہوئیں اور مٹ گئیں۔ ایران و عراق میں تمدن ابھرے اور فنا ہوگئے۔ حبش اور جزائر میں تہذیبیں بار آور ہوئیں اور مرجھا کر رہ گئیں لیکن میں اپنے فکرِ نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں دکھلاتا رہا۔ تخیل کی نئی دنیا بساتا رہا۔ تلخی دوراں کے نقشے کھینچتا رہا۔ شعر کے بت خانے بناتا رہا۔ کتاب دل کی تفسیریں لکھتا رہا۔ خوابِ جوانی کی تعبیریں سوچتا رہا۔ عشق کی تصویر یں کھینچتا رہا۔ دلوں پر تیر مارتا رہا۔ میری نوائے شوق سے حریم ذات میں شور پیدا ہوتا رہا۔ میرے تخیلات میں حورو فرشتہ اسیر ہوتے رہے۔ کعبہ دسومنات میں رستخیز ہوا کیا اور۔۔۔ 
     
    گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
    گاہ الجھ کے رہ گئی میرے تو ہمات میں
     
    میں نے ویاس اور والمیکی کا قلم پکڑ کر مہا بھارت اور رامائن لکھوا دی۔ ہو مر کے قالب کوالیاڈ اور آڈیسی لکھنے پر مجبور کیا۔ ابن عربی کے بھیس میں فتوحات مکیہ کو انجام تک پہنچایا۔ روح کا ابدی سفر اور اس کی معراج دیکھی۔ میں دانتے کی رگوں میں دوڑا اور اس کی آنکھوں ٹپکا۔ اس کے آنسو کے ایک قطرہ سے جنت بنی اور دوسرے سے دوزخ اور میں نے ان دونوں ہی مقا مات میں ایک بڑا آئینہ خانہ دیکھا۔ ہر جگہ میں ہی جلوہ گر تھا۔ عذاب و انعام میں ہی پا رہا تھا۔ میں نے اپنے کو ہر جگہ پہچانا۔ عرفان اور شکست فریب کی سرحدیں اور اقلیم دونوں ملے ہوئے ہیں۔ مجھے ہر قالب میں نئے تجربات حاصل ہوتے رہے۔ گوئٹے کے مادی وجود میں سما کر میں نے فاؤسٹ کی ذات سے اپنے روحانی المیہ کی ایک تعبیر گڑھی۔ شیطان سے میں نے بیوپار کیا۔ علم، ایمان بیچنا ہی پڑتا ہے، روح کی پاکیز گی فروخت کرنی ہی پڑتی ہے مگر سودو سودا آتش و پیکار کے مترادف ہیں۔ آہ میری روح! میری روح! 
     
    میں نے اوتھیلو بن کر اپنی محبت کا گلا گھونٹا۔ میکبتھ کے روپ میں اپنی وفاؤں کو قتل کیا۔ میں نے لیٹر کے ہاتھوں اپنی شفقت کو زہر دیا اور ہیملٹ کے قالب میں آکر ان سب کا خمیازہ بھگتا۔ میں ظالم تقدیر کے وار سہتا اور تیر کھاتا رہا مگر جرأت مقابلہ نہ کر سکا۔ تکمیلِ ارادہ کی کشاکش، الاماں، میرے وجود کو حقائق کے آرے نے دوحصوں میں چیر دیا اور یہ حصے ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے۔ میری زخمی شخصیت اور گھائل ہوتی رہی۔ میں خامۂ مژگاں کو خون دل سے بھرتا رہا اور ایک عالم نے کہا، تمثیل کی گل طرازی ہو رہی ہے اور تجربہ کی پختگی کے بعد میرا یہ احساس کتنا تلخ تھا کہ میں اسفل کینی بل بھی ہوں اور احسن پروسپیر و بھی۔ نیم بہیمیت اور نیم وحشت سے میں قالب بدلتا ہوا اعلیٰ انسانیت تک پہنچا ہوں مگر میرا سفر ختم نہیں ہوا، اور ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ رجعت قہقری نہ کرنی پڑے۔ میری روح لرزتی رہتی ہے۔
     
    میرے اندرد و دو ہستیاں ہیں۔ ڈاکٹر جیکیل اور مسٹر ہائیڈ۔ یہ ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔ جب میں زرتشت تھا تو میں نے یوں کہا تھا، میرے اندریزداں واہر من ہیں۔ میں ابدیت کی تلاش میں شعلۂ عشق سے نہایا ہوں۔ حسن و عشق کی تکمیل کے لیے عورت کا وجود سب سے بہتر تمثیل ہے۔ عورت میری مثنیٰ ہے۔ اہرمن اور یزداں کی آنکھ مچولی سے نجات پانے کی دل کش ترین صورت محبت میں ایک عورت کا ابدی انتظار ہے اور میں مر مر کر اس لئے زندہ ہوتا رہتا ہوں کہ اپنے مثنیٰ کے آتشِ عشق کا ایندھن بنوں۔ محبت ابدی ہے اور عورت ابدی ہے، ورنہ عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے۔ 
     
    اور میں نے اپنے محبوب کو ہر روپ میں، ہر رنگ میں، ہر آن میں، ہر ڈھنگ میں پہچانا ہے۔ اپنی جان جہاں کو، اپنی شمعِ آرزو کو، اپنی تمنا کو۔ یہ شمع آرزو مختلف فانوسوں میں جلتی اور بجھتی رہتی ہے۔ اچانک کوئی قالب حسن و محبوبی کے انوار کے لئے بھک سے جل اٹھتا ہے۔ حسن و محبت کی ضیاء اس قالب کو محبوب ترین وجود بنا دیتی ہے۔ ہزاروں ارمان اس کے گرد طواف کر نے لگتے ہیں۔ اس گنت حسرتیں پروانہ وار اس پر صدقے ہو جاتی ہیں۔ دل کے ٹکڑے اس پر قربان ہونے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ پھر اچانک وہ شمع بجھ جاتی ہے، فانوس سے روشنی سفر کر جاتی ہے۔ ’’محبوب ترین وجود‘‘ اپنے آشیانہ کے لئے کسی اور نشیمن کی تلاش کرتا ہے۔ نگاہ محبت منزل حسن کا سراغ لگا لیتی ہے اور پھر ایک قالب انوار سمادی سے دمک اٹھتا ہے، مگر آہ! وہ قالب بے نور جس سے محبوبی سفر کر گئی۔ آہ! وہ خاکستر جس میں ایک چنگاری بھی نہیں، جیسے ہیرا جل کر کوئلہ ہو جائے اور کوئلہ راکھ بن جائے۔ 
     
    میں نے کیفکا کی چشم باطن سے اک ’’تغیر عظیم‘‘ کا مشاہدہ کیا۔ مادیت پرست، ظاہر بیں، سطح پسند دنیا کی بے دردیوں کو دیکھا۔ میں نے رومی اور سعدی کی آنکھوں سے بھی یہی کچھ دیکھا تھا۔ میری انسانیت کے ایک جزنے دوسرے جز کو نہ پہچانا۔ دوسرے جز میں انسانیت تھی ہی نہیں، شیطنت تھی۔ ایک متنفس کی روح وہی ہو، دل و دماغ، جذبات و احساسات وہی ہوں، مگر جسم اور مادی و سائل بدل جائیں تو پھر کم بیں، کور چشم دنیا اسے بالکل غیر، قطعی بے احساس اور بے جان سمجھ کر اس سے آنکھیں چرانے لگتی ہے۔ میں نے پایا کہ کیفکا کا ہیرو ’اسراؤل‘ نہیں بنا بلکہ دنیا والے پہلے چمگادڑ بنے اور پھر ان کے دل و دماغ پتھر بن گئے، بالکل پتھر اور ان کی روح مرجھا کر نکہت گریزاں کی مانندا نھیں چھوڑ گئی۔ وہ سب کے سب مشینی روبٹ تھے۔ نفیس، وضع دار، مرصع، مگر ان کے اندر کی کھو کھلی اور تیرہ و تار تنگ نائے میں سیاہ چمگادڑ پھڑ پھڑا رہی تھی۔ بیسویں صدی کے نام نہاد انسان، مہذب و متمدن ہونے کے باوجود قطعی بے درد، بے حس، کٹھور، ظالم نکلے۔ آہ میں کہ میری روح کا ایک جز چمگادڑ بن جاتا ہے اور دوسرا جبریل! 
     
    اسرار ازل کے ایک واقف نے مجھ سے کہا کہ یہ تغیر عظیم، یہ انقلابات، یہ دوبدھے سب غدود کی وجہ سے ہیں۔ شہ رگ کے قریب بیٹھ کر وہ میرے خون میں غدود سے ’’ہور مونز‘‘ نچوڑتا رہتا ہے۔ یہی ’’ہور مونز‘‘ کبھی زہر بن جاتے ہیں، کبھی تر یاق۔ ہورمونز نے مارکس، فرائڈ اور آئنسٹائن کو پیدا کیا۔ یہ تینوں بھی میرے نطفہ سے پیدا ہوئے اور میں موسیٰ وہا روں نژاد بھی ہوں اور سامری الاصل بھی اور خدا وند خدا نے کہا کہ میں تجھے برکت دوں گا اور تجھ پر لعنت بھی کروں گا۔ میں تجھے فرعون سے نجات دوں گا اور ارض مقدس میں بساؤں گا۔ پھر تو ذلیل بندر کی طرح ساری دنیا میں مارا مارا پھرےگا اور آخری زمانہ میں تو چارد انگ عالم سے سمیٹ کر ارض پاک میں لایا جائےگا مگر اس وقت تو ملعون ہوگا تو اپنے بھائیوں پر، اسمٰعیل کی نسل پر ظلم ڈھائےگا۔ 
     
    یہ اس لئے ہوگا کہ دنیا کو اپنی طاقت پر ناز ہے۔ اسرائیل کی سرزمین سے آگ بھڑ کے گی۔ یاجوج و ماجوج جو دیوزاد ہیں، ٹکرائیں گے اور آدم کی اولاد پر گندھک اور بڑے بڑے اولے پڑیں گے اور سارا عالم میرے جلال کو دیکھ کر لرز اٹھے گا۔ سب تباہ برباد کر دیے جائیں گے، روندے جائیں گے، زرد بھس کی طرح، مگر وہ جو نیک ہیں اور میں نے خداوند سے کہا کہ میں بنو اسمٰعیل ہوں اور میں بنی اسرائیل۔ کیا تو میرے ایک حصہ کو مرحوم بنائےگا اور ایک کو ملعون؟ 
     
    مارکس یہودی کی روح میں سامری بھی تھا اور ہارون بھی۔ مارکس بھی میرے تغیر عظیم کی عجیب مثال ہے۔ یہ مزوکیت جدید زیادہ پیچیدہ، زیادہ مرکب، زیادہ تہ دار اور شاید زیادہ مخلص بھی ہے۔ مارکس نے فرعون کا مقابلہ کیا اور موسیٰ سے بھی منحرف ہوگیا۔ یہودیوں کی فطرت میں بغاوت ہے۔ اپنے پرائے سب سے۔ خدا اور شیطان دونوں سے اور میں سامی النسل مارکس آریائی یاجوج و ماجوج کا پیغمبر بن گیا۔ لیکن یہ میرا پرانا تجربہ ہے کہ آریائی قالب میں اناو استکبار ہے۔ خود پرستی اور آمریت ہے۔ مادہ بے خاصیت و کمیت نہیں ہوتا۔ مادہ میں بھی صفات ہوتی ہیں تاثیر و تأثر دونوں۔ 
     
    میں مادہ سے ڈرتا ہوں، لرزتا ہوں۔ میرے تغیر عظیم کی ذمہ داری بہت حد تک مادہ کے خواص پر منحصر ہے۔ بخدا مادہ معصوم نہیں۔ میں یوم میزان میں خدا کی ترا زو پکڑ کر فریاد کروں گا۔ میری روح کی گنہ گاری کا بڑا حصہ دار مادہ ہے۔ مادہ کی صفت مادیت ہے اور آریائی قالب کے اندر جن چھپا ہوا تھا۔ آریائی قالب میں مادیت، مادہ پرستی یعنی خود پرستی تھی۔ مظاہر پرستی، شرک اور دہریت تھی۔ آریائی یاجوج و ماجوج نے میری اشتمالیت، مساوات و جمہوریت کو بھی آمریت اور ریاستی سرمایہ داری میں بدل دیا۔ خصوصاً جوج کے فرماں روانے، جو ماجوج میں سے ہے۔ روس، دمنک اور تو بلسک کی سرداری حاصل کر کے، میری پیغمبری کے خلاف نبوت کی۔ میری روح اس کے آہنی شکنجے میں پس رہی ہے۔ سعدی از دستِ خویشتن فریاد! 
     
    میں خارجیت، سطحیت اور مادیت سے گھبرا کر سیدھا لاشعور کی دنیا میں پناہ کے لئے جا پہنچا۔ یہ بھی اسرائیلیت کا انتہا پسند انہ دورہ تھا۔ عبرانی قالب زیادہ انتہا پسند ہوتے ہیں اور یونانی متوازن، لیکن یہ اپنے توازن کو ہی پوجنے لگتے ہیں۔ عبرانی مزاج بت شکن ہوتا ہے اور گاہ خدا شکن بھی۔ یونانی مزاج اپنی وسعت و رواداری میں بہت سے خدا بنا لیتا ہے۔ سلامتی نہ یہاں ہے، نہ وہاں اور لاشعور کی دنیا تو نہایت تاریک، وحشی، عفریتی تھی۔ لاشعور کی سیادت تسلیم کر لینا اپنی ہفت ہزار سالہ زندگی کے ارتقاء کا انکار تھا۔ ادراک کی نفی تھی۔ لطافتوں اور فعتوں کا انکار تھا۔ یہ لاشعور بھی داخلی مادہ پرستی تھی۔ مادہ نے انیسویں صدی عیسوی میں مجھ پر سخت غلبہ کیا اور آج تک میں مادیت کا شکار بنا ہوا ہوں۔ 
     
    یہ تو بسا غنیمت ہوا کہ ایک تیسرے اسرائیلی قالب کی بت شکنی نے میری مدد کی۔ میں نے آئنسٹائن کے دماغ میں گھس کر پناہ لی۔ میں نے مکان وزمان کو ازل و ابد کے سامنے ہیچ کر دکھایا۔ میں نے کائنات کی بے کرانی کو عبور کیا اور لا محدود کو محدود پایا اور ان گنت کائناتوں کا پتہ ڈھونڈ نکالا۔ کوئی شئے مطلق نہ تھی ہر شئے اضافی تھی۔ یہ دریافت مارکس کی ’لا‘ سے زیادہ اہم ’لا‘ تھی مگر سوئے ’اِلّا‘ سفر کرنے والی جدید طبیعات کے مشاہدہ و تجربہ سے مجھ پر قوت روحانیت کے دروازے کھلنے لگے۔ بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے میں نے یہ راز پا لیا کہ مادہ غیرفانی نہیں۔ یہ فنا ہو سکتا ہے۔ ہر چند کہ ہنوز مادہ میری روح پر غالب ہے، تاہم میں نے اپنی فتح کا راز ڈھونڈ لیا ہے لیکن میں مادہ کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا۔ اس کی سیادت مٹانی چاہتا ہوں اور مادہ مجھے فنا کرنے کے درپے ہے۔ خواہ خود غارت شکنی کے ذریعہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ 
     
    میں چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ میں اپنے سب ’جونوں‘ کے دماغ سے اکٹھا کام لوں۔ اپنے سارے قالبوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھوں اور فلاح کی راہ کی جستجو کروں۔ آریا ئی دماغ اور سامی دماغ، عبرانی مزاج اور یونانی مزاج، مونگول اور حبشی طبیعتوں کا ایک شاندار مرکب بناؤں اور اپنے نطفے اور بطن سے ایک نئے آدم کو جنم دوں۔ میں اپنے ابنا، اپنے جگر گوشوں میں مفاہمت کرانی چاہتا ہوں، عملی مفاہمت۔ کپل، گوتم، منو، میکیاویلی، مل، مارکس، فرائیڈ، ہیگل، کانٹ، برگسوں، آئنسٹائن، برٹرنڈرسل، گاندھی، ابن رشد، سینا، فارابی، رومی، ابن عربی، غزالی اور ولی اللہ دہلوی کے درمیان۔ میں ایک دار السلام کی تعمیر کے لئے بے چین ہوں۔ جنچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں۔ 
     
    میری زندگی مضحکہ خیز بھی ہے۔ اس کے انمل بے جوڑپن پر ہنسی آتی ہے۔ بڑی بڑی باتوں کے بارے میں سوچتے میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ جاتا ہوں اور یہ معمولی باتیں مضحکانہ طور پر آفاقی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں میں بھی کیسا نا دان ہوں! ایک گداز، سانولا، بڑی بڑی آنکھوں والا قالب تھا۔ بھر ے بھرے سینے، گٹھیلے بازو لیکن ایک آنکھ دوسری آنکھ سے قدرے چھوٹی تھی اور بایاں سینہ بھر پور ہونے کے باوجود نیچے کی طرف ڈھلک گیا تھا۔ اس قالب کو دوسرے قالب نرس فیبی کہتے تھے۔ ایک دوسرا قالب تھا نرس مارتھا کا۔ لانبا، بے گوشت، ہڈیوں کی مالا، بےڈھنگا۔ اس کی پسلیوں پر سینے نہیں ابھرے تھے، ادھورے خاکے سے ابھرے ہوئے تھے اور بس۔ عورتوں کے ماہوار سوز و گداز سے بھی مار تھا آزاد تھی۔ اس کی حرکتیں، عادتیں، تمنائیں اور خیالات بھی مردوں جیسے تھے۔ وہ فیبی کے عاشقوں میں سے تھی اور اس میں اتنا شدید جذبۂ رقابت تھا کہ وہ اکثر اپنے محبوب کے مرد عاشقوں سے کامیابی کے ساتھ لڑ لیتی تھی۔ فیبی پراس کو بہت حد تک اجارہ داری کے حقوق حاصل ہوگئے تھے اور فیبی بھی اس کے ساتھ ناز وانداز محبوبی ارزاں فرماتی رہتی تھی اور اکثر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سپردگی کا عالم طاری ہے۔ 
     
    دوسال تک پذیرائی اور سپردگی کے یہ کھیل مارتھا اور فیبی کے درمیان کھیلے جاتے رہے اور پھر اچانک مار تھا عورت کی خوننا بہ نشانیوں میں غرق ہو گئی۔ اسے اس حادثہ سے سخت غصہ آیا۔ اس نے اس کی روک تھام کرانی چاہی مگر ڈاکٹر نے اس کے خلاف مشورہ دیا۔ وہ کہتے ایامِ گل شروع ہوئے ہیں۔ مارتھا رو دھو کر چپ ہو رہی۔ کسی نہ کسی رنگ میں جوئے خون ابنِ آدم کے سر سے گذرتا ہی ہے۔ پھر یہ ہوا کہ اس کی پسلیوں پر کے خاکے ابھرنے لگے اور ابھرتے ابھرتے اچھے خاصے گول گول سے ہوگئے۔ اس کے کولھوں سے گوشت کی تہیں لپٹنے لگیں۔ اضافی طور پر اس کی کمر پتلی اور نازک نظر آنے لگی۔ مارتھا ایک تغیر عظیم سے گذر گئی۔ 
     
    تیس سال کی عمر میں تبدیلی جنس ہو رہی تھی۔ اس کے خیالات، تمنائیں، عادتیں اور حرکتیں بھی بدل گئیں۔ وہ فیبی سے چھپے عشق کرنے والے مردوں سے عشق لڑانے لگی۔ محبوب رقیب بن چکا تھا۔ فیبی کا دل عجیب پیچیدہ طور پر ٹوٹا۔ مارتھا اس سے بھو کی شیرنی کی طرح لڑ پڑنے لگی۔ فیبی روتے روتے دبلی ہوتی گئی اور اس کا دوسرا سینہ بھی ڈھلک گیا۔ اب یہ ہور مونز کا کرشمہ تھا یا لاشعور کا؟ طیبعات کا یا نفسیات کا؟ تاریخی مادیت کا یا ما بعد الطبیعات کا، ارتقا کا، انقلاب کا، یا مٹا مور فوسس کا؟ یہ چھوٹی سی معمولی بات بھی عقدۂ لا ینحل بن کر رہ گئی۔ 
    مجھے ایک روز کایا کلپ یایوں کہئے کہ کایا پلٹ کا تجربہ ہوا۔ وہ عنفوان شباب میں صوفیانہ ماورائیت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا، لیکن جب ایک لڑکی نے اس سے محبت کرنی شروع کی تو اس کی فلاطونی رفتہ رفتہ کیچلی کی طرح اتر گئی لیکن وہ ابیقوریت میں مبتلا نہ ہوا۔ ارسطوئی اسے بھائی۔ حور سے اترکر ایک لڑکی پر آ رہا اور پھر اس لڑکی کو اپنی مثالیت کے ذریعہ الوہی بلندیوں پر لے گیا۔ لڑکی نے اسے آسمان سےزمین پر اتا را اور وہ اسے ساتھ لے کر آسمان کی طرف لوٹا لیکن جلد ہی زمین کی کشش نے پھر دونوں کو اپنی سطح پر کھینچ لیا اور کچھ دنوں بعد اس کرہ ارض سے ایک اور سیارہ ٹکرایا۔ اس سے ایک دوسری حور شمائل لڑکی اتری۔ 
     
    اس نے بڑے سوز و ساز سے نو جوان سے اظہار محبت کیا۔ نوجوان کے دل کی کایا پلٹ گئی، محبتِ اولین کے پھول مرجھانے لگے، گل تازہ کی نکہت نے مدہوشی طاری کر دی مگر مر جھائے پھول عطر بن کر نوجوان کی روح میں جذب ہو گئے۔ ایک عجیب کشاکش شروع ہوئی اور اس وقت تک ختم نہ ہوئی جب تک کرہ ارض کا وہ خطہ جہاں پرسیارہ ٹکرایا تھا، ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو گیا۔ وہ اب تک محبوب بنتا رہا، حبیب بننے کی جبلت تشنہ تھی۔ دل میں ایک بار پھر تغیر عظیم برپا تھا۔ محبت کا آوا گون اس احساس کے باوجود کہ۔۔۔ وہ شب درد زوماہ و سال کہاں۔۔۔۔ ! افق آرزو پر ایک نیا ستارہ طلوع ہو رہا تھا۔ 
     
    (۴)
    نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا! 
    خودی کا تعلق صرف بقائے ذات سے ہے اور خدا کا بقائے کائنات سے، مگر جنس کا تعلق بقائے نسل سے ہے۔ میرے اندر خودی بھی ہے، جنس بھی اور خدا بھی۔ نیز ایک چوتھی جبلت میرے اندر کار فرما ہے، فنا کی جبلت، تمنائے مرگ۔ اگر ہماری ساری خواہشات، اعمال اور خواب و خیال کا تجزیۂ نفس کیا جائے تو اربع عناصرِ نفسی میں انھیں بانٹا جا سکتا ہے۔ ان کے ماورا کچھ بھی نہیں۔ میں اکثر اپنے نہ ہونے کی تمنا کرتا رہتا ہوں۔ میں گاہے گاہے نہایت خلوص کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی طور پر اقدام خود کشی و خود شکنی کرتا ہوں۔ موت کے تجربات میں مجھے اسی طرح لذت ملتی ہے جیسے خودی، جنس اور خدا کے تجربوں میں اور سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ میری یہ چاروں جبلتیں ایک دوسرے سے گتھی ہوئی ہیں اور اسی چارد یواری میں میری روح پھڑ پھڑاتی رہتی ہے۔ یہ جبلتیں ایک دوسرے کا ردعمل بنتی رہتی ہیں۔ تہذیب حاضر خودکشی کر رہی ہے، میں ہونے سے تنگ آگیا ہوں۔ لیکن کیا یہ تمنا اتنی سادہ اور سچی ہے؟ 
     
    ۱۹۱۴-۱۸ء تک میں نے ڈھائی کر وڑ نفوس کو موت کے گھاٹ اتارا، ۱۹۳۹-۴۵ تک میں نے ساڑھے چار کروڑ آدمیوں کو۔ اپنے اجزاء کو، اپنے جگر گوشوں کو ذبح کر دیا، گو لی ماروی، جلا دیا اور اس کے بعد بھی یہ جوئے خون جاری ہے۔ میں آہستہ آہستہ اپنی رگیں کاٹ رہا ہوں۔ خون بہتا جاتا ہے۔ میں دھیرے دھیرے خودکشی کر رہا ہوں۔ اپنے دل و جگر میں خنجر مار رہا ہوں۔ اگر شیطان، جبرئیل سے نہیں۔۔۔۔ مجھ سے پوچھتا تو میں بتاتا کہ۔۔۔ 
     
    قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟ 
     
    فرشتہ اور شیطان تو تماشہ دیکھتے رہے۔ صرف آدم کا قصہ ہی نہیں بلکہ کائنات کا مقصد بھی آدم کے خون سے ہی رنگین ہوا۔ 
     
    اب کے شیطان نے مجھ پر عظیم الشان حملہ کیا۔ اسے مجھ سے ناحق کی دشمنی ہے۔ اس نے اب کے پیغمبروں کا بھیس بدلا۔ شیطان مجھے دھوکا دے رہا تھا۔ جنت میں وہ سانپ کے روپ میں حملہ آور ہوا تھا اور اب کے انسانِ مقدس کے روپ میں۔ اب کے حسد نے اسے یہ سکھایا کہ وہ بھی انسانِ کا مل بن سکتا ہے۔ وہ کیچلیاں بدلتا رہا لیکن اس نے شہ پر جبریل کی پھڑپھڑاہٹ کبھی نہ سنی۔ جب اسے یہ درد ناک تجربہ ہوا کہ وہ ’’انسانِ کامل‘‘ کا بھیس بھی نہیں بدل سکتا، تو پھر شیطان سپیرا بن گیا اور اپنی ذریات کو بین کے نغمے سنانے لگا۔ اس کا زہر بڑھ رہا تھا اور اس کی ذریات کا بس بھی۔ یہ مجھ پر حملہ کی تیاریاں تھیں، مہلک ترین حملہ۔ آخر سانپ اور سنپولوں نے حملہ کر دیا اور ایک سانپ نے سپیرے کو بھی ڈس لیا۔
     
    میں نے خواب میں دیکھا کہ دواژ دہا پیکر بچھو آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے کو خوف ناک نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ بڑے بچھو کے منہ سے آگ کی جوالا پھوٹی اور چھوٹے کو جلانے لگی پھر چھوٹے بچھو کے منہ سے بھی آگ کا فوارہ پھوٹا اور بڑے کو جلانے لگا۔ بڑا بچھو جوشِ غضب میں چھوٹے پر چڑھ دوڑ اور اسے کچلنے لگا لیکن چھوٹے نے بڑے کودے مارا اور ایک نئے پیکار آتشیں کی ابتدا ہوئی۔ بڑے بڑے شہر اور دیہات شعلوں میں بھسم ہو رہے تھے۔ 
     
    پھر میں نے دیکھا کہ میں اس جنگ و پیکار سے بچ کر جنت میں آ گیا ہوں۔ لیکن جب آنکھ کھلی تو پایا کہ میرے اور جنت کے درمیان ایک بہت بڑا تاریک و ذخار سمندر سانپ کی طرح لہریں مار رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک عظیم الجثہ پھنکارتا ہوا اژدہا نازل ہوا۔ اس نے نیلے گنبد پر اپنا پھن مارا اور اسے ڈس لیا۔ اژ دہے نے امرت نگر کو بس نگر بنا دیا اور نیلا گنبد زہر کے اثر سے نیلا ہوگیا۔ اژدہا بپھرا ہوا دوسری طرف بل کھا کر مڑا اور ایک گونجتے گرجتے ہوئے شہر کے رہنے والوں کو تیزی سے نگلنے لگا۔ اس کی پھنکار سے آبادیوں اور مسکنوں میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ پھر اس نے شہ رگوں پر اپنے زہریلے دانت تیز کئے اور خون پینے لگا۔ اس نے شیر ورسینوں سے دودھ پیا اور پستانوں کو کاٹ لیا۔ پھر وہ ہرے بھرے کوکھ چاٹنے لگا۔ جسموں کو عریاں کر کے ان میں زہر بھر دیا۔ پھر وہ عورتوں کے ننگے جلوسوں اور بچوں کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں پر، اپنے بس کے نشہ میں لہراتا ہوا ایک بلند مینا ر پر چڑھ گیا اور اسے اپنی لپیٹ میں لے کر کڑا کڑانے لگا۔ 
     
    اور میں نے دیکھا کہ اس کرہ ارض کے گرد ایک شیطان کی آنت کی طرح کا اژ دہا لپٹا ہوا ہے اور دنیا اس کے شکنجے میں تڑخ رہی ہے۔ زلز لے کے جھٹکے پے بہ پے آ رہے ہیں۔ میں نے ایک طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ یک چشم دیوزاد دجال صلیب اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں دوزخ ہے اور دوسرے میں جنت۔ وہ کسی کو جنت میں رکھتا ہے اور کسی کو دوزخ میں ڈا ل دیتا ہے۔ وہ طاقت و جبروت کے نشہ میں چور ہے۔ دو شہروں کو اپنی دوزخی مٹھی کھولتے ہی بھک سے اڑا کر آیا تھا۔ وہ اپنی خدائی کا اعلان عام کر رہا تھا۔ دوسری جانب سے عفریت اعظم آزاد پرومیتھیوس ایک بپھرے ہوئے خنز یر پر سوار موجود ولا موجود سب کا انکار کرتا ہوا، دجال سے ٹکرانے کے لئے بڑھا۔ ایک ہولنا ک تصادم ہوا اور دنیا میں حشر برپا ہوگیا۔ ذرات کی طاقت سے ستارے پاش پاش ہو رہے تھے۔ کرہ ارض روئی کی طرح دھنک دیا گیا۔ پھر میں نے شہپر جبریل کی پھڑپھڑا ہٹ سنی اور ایک ید بیضا کو بڑھتے ہوئے دیکھا۔ اس کی ضیاء سے دجال اور خنز پر سوار عفریت دونوں پگھل کرفنا ہونے لگے۔ خوشی کی شدت نے اس لرزہ خیز خواب سے مجھے جگا دیا۔ الامان الحمد! 
     
    میں اپنے خوابوں کا نفسی تجزیہ وتحلیل کرنے لگا۔ کیا یہ دجال اور آزاد پر و متھیوس، یہ اژد ہے، سانپ اور آتشیں بچھو خود میرے نفس سے نہیں نکلے؟ کیا ارتقا صرف کیچلیاں بدلنے کا نام ہے؟ اور میں سانپ کا سانپ ہی رہا؟ کیا ید بیضا بھی میرے اندر ہے؟ کیا میں نے اپنی روح کے ایک گوشے کو شیطان کے تصرف سے بچا لیا ہے؟ کیا مجھے جبریل کے پر پرواز بھی عطا ہوں گے؟ یا میں اس سے محرومی کے غم میں خودکشی کر لوں گا؟ اگر مجھے جو ہر روح نہ ملا تو میں مادہ کی جوہر شکنی کر کے خدا کی کائنات کو فنا کر دوں گا اور خود بھی فنا ہو جاؤں گا۔ 
     
    زوالِ آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟ 

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے