Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیڑا

MORE BYبلال حسن منٹو

    یہ بات تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ محمود کے پیٹ میں کوئی کیڑا ویڑا تھا یا نہیں مگر خود اسے یہ یقین ہو چلا تھا کہ تھا۔ پہلے۔۔۔ اپنے دفتر کے دوست عمر سے بات کرنے سے پہلے۔۔۔ اسے ایسا کوئی خیال تک بھی کبھی نہیں گزرا تھا لیکن اس موضوع پہ عمر کی گفتگو کے بعد اس پر واضح ہو گیا کہ کیڑا ہے، لمبا اور توانا ہے, ہمہ وقت بھوکارہتا ہے اور اسی وجہ سے محمود کی کھائی پی ہر شے ہضم کر جاتا ہے۔ چونکہ وہ ہمیشہ سے پتلا اور لاغر سا تھا، اس لیے یہ بات بھی واضح ہوگئی تھی کہ کیڑا ہمیشہ سے پیٹ کے اندر موجود ہے اور اس کی کھائی ہوئی غذا پر پل رہا ہے۔ خاص طور پر پالک پر، کیونکہ پالک محمود کو بہت مرغوب تھی اور وہ گھر میں اکثر اس کی فرمائش کرتا تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ بچپن میں جو بچے مٹی کھاتے ہیں ان کے پیٹ میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس روز، عمر سے بات کرنے کے بعد اس نے اپنی امی سے بھی ٹیلی فون پر بات کی۔ جب امی نے تصدیق کی کہ ہاں، وہ بچپن میں اکثر مٹی کھا لیتا تھا تو وہ افسردہ ہوا اور پوچھا کہ کیا وہ اسے مٹی کھانے سے روکا نہیں کرتی تھیں؟ امی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے اس کے کہ بہت سے بچے مٹی کھاتے ہیں، سو میں نے اسے کوئی اتنی خراب بات نہ سمجھا کہ تمہارے پیچھے بھاگ بھاگ کر تمہیں روکوں یا مار مار کے اس عادت کو ختم کرواؤں۔ امی کو محمود کا یہ سوال بچوں کی مناسب پرورش کرنے کی ان کی اہلیت پہ وارک رتا نظر آیا، اس لیے انھوں نے چڑکر یہ بھی کہا کہ میں کوئی ہر وقت تو تمہارے ساتھ نہیں رہتی تھی بچپن میں۔ تم اگر چپکے سے باہر نکل کر مٹی کھا آتے تھے تو میں کیا کر سکتی تھی؟ کیا تمہیں باندھ کے رکھتی؟

    محمود کی کوشش ہمیشہ سے رہی تھی کہ اس کا وزن بڑھے، اس کا چہرہ صحت مند دکھے، وہ پھلے پھولے اور اس کا جسم کچھ ایسا بھر جائے کہ جب وہ بڑے شوق سے بازار جاکے اپنے لیے کپڑے خرید کر لائے تو وہ اس پر سجیں۔ کبھی وہ اس جستجو میں بسیار خوری کرتا، کبھی نت نئی ورزشیں اور کبھی چن چن کر ایسے کھانوں کا کھوج لگاتا جن کا خاص وصف یہ ہو کہ موٹا کرتے ہوں اور جسم پر چربی کی تہیں جماتے ہوں۔ وہ یہ سب کرتا اور پھر بھی کڑھتا رہتا کہ کسی بھی عمل سے، کسی بھی ٹوٹکے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا تھا اور سب کھایا پیا کہیں غائب ہو جاتا تھا۔ اب عمر سے بات کرنے پر اسے یوں لگا کہ اس کا کھایا پیا سب کچھ پیٹ میں پلتے کیڑے کی خوراک بنتا رہا ہے اور وہ شاید صرف اس لیے دنیامیں لایا گیا تھا کہ اس کے وسیلے سے یہ اس کے پیٹ میں پلنے والی مخلوق زندہ، آسودہ اور شاداں رہے۔

    اس کی پیدائش ساہیوال میں ہوئی تھی اور وہیں اس نے بی اے تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے والد سینٹری کی دکان کرتے تھے اور نلکوں کموڈوں وغیرہ کے معاملات میں ایسے مگن رہتے کہ انھوں نے اس سوال پر کبھی رائے زنی نہیں کی کہ محمود کا منہ چوسی ہوئی گولی اور جسم صابن کی گھلی ہوئی ٹکیہ کی طرح کیوں ہے۔ ان کے تین بچے اور بھی تھے، دو لڑکیاں اور ایک لڑکا اور ان چاروں میں محمود سب سے بڑا تھا۔ سب بچے تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے، جو سستی نہیں تھی اور ان کے شادی بیاہ بھی ہونے تھے جن کے لیے روپیہ درکار تھا۔ والد صاحب کبھی کبھی محمود کے فرمائشی پکوانوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کر دیتے تھے کہ اگر وہ موٹا ہو گیا تو پرانے کپڑے ضائع جائیں گے اور نئے کپڑوں پر بہت سے پیسے خرچ ہوں گے۔ انھیں ایسا کہنا نہیں چاہیے تھا کیونکہ وہ غریب نہیں تھے اور ان کا اچھا بھلا کاروبار تھا۔ مگر شاید وہ کنجوس تھے۔ والدہ البتہ اس کی ہم نوا اور غمگسار تھیں۔ وہ اس کی وزن بڑھانے کی کوششوں کو سراہتی تھیں اور جہاں اس کے کہے ہوئے طرح طرح کے پکوان پکا کر ان کوششوں میں مددگار ثابت ہوتی تھیں، وہیں وزن بڑھنے میں ناکامی پر اس کی دلجوئی کی خاطر یہ بھی کہہ دیتیں کہ پتلا ہونے میں بھی کوئی خرابی نہیں، موٹاپا تو خود ایک بیماری ہے اور سو بیماریوں کی جڑ بھی! کون جانے اگر ایک بار وزن بڑھنا شروع ہو گیا تو کبھی رک بھی سکےگا یا نہیں! چونکہ وہ خود بھی ذرا فربہ تھیں، اس لیے موٹاپے پر تنقید کرتے ہوئے کچھ کڑھ بھی لیتی تھیں، جیسے موٹاپے کی وجہ سے تکلیف میں ہوں، تاکہ محمود کو اچھی طرح سے یقین ہو جائے کہ موٹاپا تکلیف کا سبب ثابت ہوتا ہے اور پتلے رہنا معیوب نہیں ہے۔

    مگر ایسے حیلے بہانے اور تسلیاں کب تک چلتیں؟ حقیقت یہی تھی کہ محمود ایک مریل سا لڑکا تھا جس پر نئے نئے پیارے کپڑے بھی یوں لگتے تھے جیسے ہینگر سے لٹکے ہوں۔ اس غیر جاذب نظارے سے اگر کوئی بہتری کی صورت نکلی تھی تو وہ یہ کہ اس نے ارادی اور شعوری طور پر اپنی توجہ ایسے دوسرے معاملات کی طرف راغب کر لی تھی جن میں مشغول رہ کے وہ اپنا یہ غم بھلا سکتا تھا۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ جب وہ ایف اے میں ضلع بھر میں اول اور بی اے میں سوم رہا تو اسے خوشی ہوئی تھی مگر یہ نہیں ہوا کہ اس نے اپنی جسمانی حالت پر کڑھنا چھوڑ دیاہو۔ لاہور آکر اس غم میں اضافہ ہو گیا۔ ساہیوال میں لڑکیوں سے ملنے ملانے کے کوئی خاص مواقع میسر نہیں تھے مگر لاہور کی اس یونیورسٹی میں اور خود لاہور شہر میں لڑکے لڑکیوں کا باہمی میل جول عام تھا جسے دیکھ کر محمود دنگ بھی رہ جاتا اور مزید کڑھنے لگتا۔ ایک دن اسی نیم افسردگی میں اس نے یونیورسٹی کے ایک نئے دوست سے اس بات کا ذکر کر دیا۔ دوست نے اس وقت تو اس سے ہمدردی جتائی اور کہا کہ بھلا شکل و صورت اور ظاہری جسمانی خوبصورتی میں کیا رکھا ہے؟ یہ دیکھو کہ تم کیسے لائق اور قابل ہو، دیکھو کہ کیسے ساہیوال سے یہاں لاہور کی ایسی اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی تک پہنچے ہو اور یہ کہ یہاں بھی پڑھائی میں بہت آگے ہو۔ اس نے بہت نصیحت آموز اور بزرگانہ لہجے میں یہ بھی کہا تھا کہ دیکھو محمود، کوئی لاغر اور مریل ہویا تنومند پہلوان، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ سب کچھ قبر کے کیڑوں کی خوراک بن جائےگا۔ ہمیشہ رہنے والی چیز تو انسانیت ہے۔ تم یہ دیکھو کہ تم انسان کیسے ہو کیونکہ اصل بات یہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم بڑے اچھے انسان ہو۔ دوست کے ان کلمات سے اگر محمود کو کچھ سکون حاصل ہوا بھی تھا تو وہ اس بات سے ملیا میٹ ہو گیا کہ اس نے اگلے ہی دن یہ بات دو چار اور دوستوں کو بتا دی اور پھر اس بات کو پر لگ گئے۔

    بس، یونیورسٹی میں رہنا بھی ایک عذاب بن گیا۔ لڑکے لڑکیاں تو چند دن مذاق اڑا کے بات بھول گئے مگر محمود کے لیے زندگی دوبھر ہوگئی۔ ہمہ وقت اسے یوں لگتا جیسے سب اسے غور سے دیکھ رہے ہیں اور دل ہی دل میں اس کا ٹھٹھہ اڑا رہے ہیں۔ جب کہیں کلاس کے پانچ چھ لڑکے لڑکیاں اکٹھے کھڑے ہوتے تو اسے لگتا جیسے وہ آپس میں بس اسی کے بارے میں باتیں کر رہے ہوں۔ اس نے شرمندگی کے مارے آہستہ آہستہ اپنے ہم جماعتوں سے ملنا جلنا بھی ترک کر دیا۔ اس کا ایک غیرارادی مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ سوائے پڑھائی کے اس کی ہر قسم کی مصروفیات ختم ہو گئیں اور جب یونیورسٹی کا پر عذاب دور خدا خدا کرکے اختتام کو پہنچا تو وہ بہت ہی اعلیٰ درجے میں پاس ہوا۔یوں اگر اس سے کوئی پوچھتا تو وہ صاف کہتا کہ آپ یہ سب اعلیٰ نمبر اور اعلیٰ درجے لے لیجیے اور ان کے عوض میرے جسم پر اور میرے چہرے پر کچھ گوشت چڑھا دیجیے۔

    ۔۔۔۔۔

    اس صورت حال نے اسے چڑچڑا بنا دیا تھا۔ اسے لاہور میں نوکری ملی تو معاہدے میں لکھا تھا کہ اسے دفتر کی طرف سے 1000سی سی کی نئی گاڑ ی دی جائیگی۔ مگر جب اس نے نوکری کی جائننگ رپورٹ دی تو دفتر والوں نے کہا کہ چونکہ نئی گاڑی آنے میں تھوڑا وقت لگے گا لہٰذاتب تک آپ یہ پرانی، نسبتاً چھوٹی، سوزوکی گاڑی استعمال کر لیں۔ بس، اسی بات پروہ غصے میں آکر وہیں کھڑے کھڑے نوکری چھوڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ خود اس کے باس کو، جو اس رو یے پر بیحد حیران ہوا تھا، اسے سمجھانا پڑا کہ اگر تمہیں کچھ دن چھوٹی گاڑی میں بیٹھنا پڑ گیا ہے تو کوئی بہت بڑی مصیبت نہیں آ گئی۔ اس نے یہاں تک کہا کہ چلو تم میری گاڑی لے لو اور میں کچھ دن چھوٹی گاڑی استعمال کر لوں گا۔ باس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ چند دن چھوٹی گاڑی میں بیٹھ کر دفتر آئے مگر محمود اس بات سے ضرور کچھ شرمندہ سا ہو گیا اور خاموشی سے چھوٹی گاڑی کی چابیاں لے لیں۔

    نوکری لگنے پر اس کی ماں نے پریشانی سی کا اظہار کیا اور کہا کہ بھلا لاہور شہر میں اکیلا کیسے رہا جائےگا؟ گھر کیسے چلےگا، کھانے پینے کا کیا بندوبست ہوگا؟ ٹھہرو میں فوراً اپنے بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کرتی ہوں۔ ’’ایک دو پیاری پیاری لڑکیوں کا پتہ ملے تو اپنے بیٹے کو لے جاکے پسند کرواؤں۔‘‘ انھوں نے کہا تھا۔

    ’’صرف اس لیے شادی کرلوں کہ لاہور میں کوئی کھانا پکانے، صفائی کرنے والا نہیں ہوگا؟ ہزار کام کرنے والیاں مل جائیں گی۔ تھوڑے سے پیسوں میں صفائی بھی کریں گی، کھانا بھی پکائیں گی۔‘‘محمود نے بیزاری سے کہا۔

    ماں نے بالکل صاف صاف کہہ دیا کہ وہ کوئی کام کرنے والی عورت نہیں رکھنے دےگی۔ اگر ادھر ساہیوال میں محمود نزدیک ہی کہیں علیحدہ گھر لے کے رہ رہا ہوتا تو شاید وہ اس کے گھر کسی کام کرنے والی عورت کانوکری کرنا برداشت کر لیتیں مگر سو میل دور، لاہور میں ان کے لیے اس امر کی اجازت دینا ممکن نہ تھا۔ ان کے نزدیک یہ بہت ہی قابل اعتراض اور یکسر خراب بات تھی کہ کسی اکیلے رہنے والے لڑکے کے گھر کوئی عورت کام کرنے آئے۔ مگر اس موضوع پر کچھ زیادہ تکرار نہ ہوئی۔ نوید نے ابھی گاڑی چلانا نہ سیکھا تھا، سو اسے ایک ڈرائیور بھی بہر حال رکھنا تھا۔ اس نے کہا کہ میں کوئی ایسا لڑکا رکھ لوں گا جو گاڑی بھی چلائے، چھوٹی موٹی صفائی بھی کردے اور کھانا پکانا بھی جانتا ہو۔ اس نے ماڈل ٹاؤن میں ایک عمر رسیدہ عورت کے مکان کی بالائی منز ل کرائے پر لینے کی بات کرلی تھی۔ ایک کمرہ تھا، ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ۔ ملازم کے لیے بھی ایک کوٹھڑی اور سوراخ نما غسل خانہ موجود تھا۔ ایسے چھوٹے سے گھر میں صفائی کا کوئی خاص کام نہیں تھا اور ایک اکیلے مریل محمود نے ایسا کیا طوفان بپا کرنا تھاکہ روزانہ صفائی کروانی پڑتی؟ ملازم لڑکا باری باری ایک دن اگلے دو دونوں کا کھانا پکا سکتا تھا اور دوسرے دن اگلے دو دنوں کے لیے صفائی کرسکتا تھا۔ بالکل مناسب بندوبست ہو جانا تھا۔

    نیچے والی مالک مکان آنٹی نوکروں کے بارے میں بڑی اثرورسوخ والی نکلیں۔ ہفتے کے روز محمود اور اس کی امی سامان سمیت نئے گھر میں آ گئے۔ ہفتے ہی کو امی نے اس کا مختصر سا سامان سیٹ کر دیا کیونکہ انھیں اتوار کو واپس ساہیوال جانا تھا۔ اتوار کی صبح مالک مکان آنٹی نے ایک بائیس تیئس سال کا لڑکا اوپر بھیجا۔

    ’’ٹھہرو میں اس سے بات کرتی ہوں‘‘ امی نے کہا۔

    ’’کیوں بھئی تم نے پہلے کہاں کام کیا ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    وہ ایک توانا اور دراز قد مگر بدھو اور خاموش سا لڑکا تھا جو مستقل فرش کی طرف دیکھ رہا تھا۔

    ’’ادھر ہی کیا ہے جی۔ ڈی بلاک میں شیخوں کے گھر‘‘ اس نے کہا۔

    ’’تو وہاں سے کیوں چھوڑا؟ نام کیا ہے تمہارا؟‘‘

    ’’مقبول۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’بتاؤ نہ، شیخوں کے گھر سے کیوں چھوڑا تھا کام؟‘‘ امی نے پوچھا۔

    ’’وہ میں چھٹی پر گیا تھا، انھوں نے پیچھے سے دوسرا ڈرائیور رکھ لیا۔‘‘

    ’’کیوں؟ ایسے ہی تو انھوں نے نہیں نکالا ہوگا۔ تم دیر سے آئے ہوگے واپس۔‘‘ امی نے کہا۔

    ’’جی۔‘‘اس نے سرگوشی سی میں کہا۔ جیسے شرمندہ ہو۔

    ’’دیر سے آئے تھے نہ؟‘‘ امی نے پھر کریدا۔ ’’اونچا بولو‘‘

    ’’جی‘‘ وہ قدرے اونچا بولا۔

    ’’دیکھا؟‘‘ امی نے فخر سے محمود کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’میں خوب سمجھتی ہوں ان لوگوں کو‘‘۔

    ’’کیوں آئے تھے دیر سے؟‘‘ وہ پھر لڑکے سے مخاطب ہوئیں۔

    لڑکے نے بتایا کہ وہ دبئی جانے کی کوشش میں تھا جو ناکام رہی تھی۔ تب اس نے شیخوں سے دوبارہ نوکری کرنے کے لیے رجوع کیا تھا مگر اس وقت تک وہ دوسرا ڈرائیور رکھ چکے تھے۔

    ’’ یہی وجہ تھی یا اور بھی کوئی بات تھی؟ چوری تو نہیں کی تھی وہاں؟‘‘ امی نے پوچھا۔ محمودکو یہ سوال عجیب سا لگا۔ اس نے امی کی طرف دیکھا کہ یہ آپ کیسا سوال پوچھ رہی ہیں۔

    ’’ بتاؤ۔ چوری ووری تو نہیں کرتے تم؟‘‘ امی نے محمود کے اشارے کو رد کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔

    ’’جی کبھی نہیں کی۔‘‘ لڑکے نے فرش کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ چور تو یہ ہوگا۔ یہ سب ہوتے ہیں۔‘‘ امی نے کہا۔ ’’کبھی نہیں کی تو اب یہاں نہ شروع کر دینا۔‘‘

    امی نے مقبول سے اور بہت سے سوالات کئے اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ وہ روٹی اور ہانڈی بھی پکا سکتا تھا اور ایک دن چھوڑکر گھر کی صفائی کرنے کو بھی تیار تھا۔

    ’’لگتا تو بالکل بیوقوف ہے۔ اب میسنا ہو اور اندر سے حرامی نکلے تو پتہ نہیں۔‘‘

    ’’ ابھی تم بھنڈی گوشت پکا کے دکھاؤ۔‘‘ امی نے کہا۔

    شام کو امی نے بھنڈی گوشت کھا کے اطمینان کا اظہار کیا اور ساہیوال جانے سے پہلے مقبول کی نوکری پکی کی۔

    ’’ ٹھیک ہے۔ رکھ لیتے ہیں تمہیں۔ مگر یاد رکھو، تمہیں رکھ تو لیا ہے مگر تم نے کوئی حرام زدگی کی تو پولیس میں دے دیں گے۔ اتنے جوتے پڑیں گے، اتنے جوتے پڑیں گے کہ تم یاد کرو گے۔‘‘

    ۔۔۔۔۔۔

    محمود کو یونیورسٹی میں اپنے دوست سے دل کی بات کہنے کا تلخ تجربہ یاد تھا مگر جب دفتر میں عمر نے ہنس ہنس کے بتایا کہ اس کے بیٹے کو تین دن پہلے اس کی ڈاکٹرنی بیگم نے پیٹ کے کیڑے مارنے والی دوا دی تھی اور آج صبح صبح ایک لمبے، صحت مند مگر مردہ کیڑے کا اخراج دیکھنے میں آیا تھا تو یکایک محمود سناٹے میں آ گیا۔ ایک لحظے کے اندر اندر اسے یقین ہو گیا کہ اس کے ساتھ بھی بس یہی ماجرا ہے۔ اسے اس انکشاف پہ فوراً مکمل سکون تو آ گیا کہ اصل مسئلے کی جڑ آخر گرفت میں آہی گئی مگر اس خیال سے جھرجھری بھی آئی کہ اس کے اندر ایک جانور موجود ہے جو دن بدن اس کی خوراک کھا کر زیاد ہ سے زیادہ توانا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر چھوٹے سے بیٹے میں سے لمبا اور صحت مند کیڑا نکلا تھا تو پھر میرے اندر تو کوئی اژدھا پل رہا ہوگا۔

    ’’کیا وہ ایک دن میرے ہی کھائے ہوئے کھانے کھا کھا کے اتنا توانا بھی ہو سکتا ہے کہ میرا پیٹ پھاڑ کر باہر نکل آئے؟‘‘ محمود کو اس خیال سے بھی جھرجھری آئی اور یہ کوئی ایسی دور کی کوڑی بھی نہیں تھی۔ یہ بات ممکنات میں سے تھی اور ایک انگریزی فلم میں دکھایا بھی جا چکا تھا کہ ایک غیرزمینی جانور ایک انسان کے منہ پر چپک کر اس کے اندر اپنا انڈہ داخل کر دیتا ہے جس کی وجہ سے کچھ ہی دنوں بعد اس انسان کے پیٹ میں پلتا ہوا اس مخلوق کا خوفناک بچہ پیٹ کو نہایت بے دردی سے پھاڑ کے باہر نکل آتا ہے۔ جھرجھری کے فوراً بعد محمود نے تمام ماجرا عمر سے کہہ دیا اور عمر نے تصدیق کی کہ ایسا بالکل ممکن ہے کہ اس کے لاغر پن کی وجہ پیٹ کا کیڑا ہی ہو۔ اس نے کہا کہ وہ دوا جو اس کے بیٹے نے لی تھی، محمود کو بھی لے لینی چاہیے اور وعدہ کیا کہ وہ اس دوا کا نام اور یہ کہ محمود کی عمر اور قد کاٹھ کے آدمی کو اسے کس مقدار میں لینا چاہیے، ایک کاغذ پر ڈاکٹرنی بیوی سے لکھوا کر لا دےگا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    محمود اور عمر کی یہ گفتگو جمعہ کے روز ہوئی تھی۔ پیر کو عمر نے وعدے کے مطابق کاغذ کا پرزہ دیا جس پر کیڑے مار گولیوں کی تفصیل لکھی تھی۔ ہفتہ اور اتوار کے دو دن محمود نے سخت بےچینی میں گزارے تھے۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ فوراً وہ دوا کھا لے۔ پیر کی شام دفتر سے گھر پہنچتے ہی اس نے بازار سے گولیاں منگواکر کھا لیں۔

    صبح وہ روز کے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے سوکے اٹھا۔ خوش خوش اٹھا اور خود کو بہت ہلکا ہلکا محسوس کرتے ہوئے اٹھا جیسا کہ دوا کھانے کے بعد رات ہی رات میں کیڑے کا اخراج ہو چکا ہو۔ اسے غسل خانے میں کموڈ پر گھنٹوں بیٹھ کر کتب بینی یا اخبار بینی کرنے کی عادت بہت بری لگتی تھی۔ اس کے والد صاحب میں یہ عادت موجود تھی اور وہ اکثر اپنی امی سے اس پر ناگواری کا اظہار کرتا تھا۔ کیونکہ باپ کا ادب ملحوظ رہتا تھا اس لیے یہ تو نہیں کہتا تھا کہ ابا یہ کیسی غلیظ عادت میں مبتلا ہیں مگر ایسا کچھ کہہ دیتا تھا کہ ’’سارا اخبار غسل خانے میں پڑھنا کیوں ضروری ہے؟‘‘ امی اسے بتاتی تھیں کہ پہلے انھیں بھی یہ بات بہت ناگوار گزرتی تھی مگر پھر انھوں نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر سمجھا لیا کہ چونکہ سینٹری کا کاروبار کرتے ہیں، اس لیے سینٹری کی چیزوں کے درمیان خوش رہتے ہیں۔

    مگر آج وہ خود اخبار پکڑ کے کموڈ پر جا بیٹھا۔ کچھ اپنے آپ سے شرمندہ سا، کہ ہمیشہ باپ پر جس بات کی وجہ سے ناگواری کا اظہار کرتا رہا تھا آج وہی خود کر رہا تھا۔ مگر پھر یہ سوچ کے مطمئن ہو گیا کہ میں تو کسی خاص وجہ سے ایسا کررہا ہوں۔ ابا روز کیڑے مار دوائی کھاکر تو غسل خانے نہیں جاتے نا۔

    عمر نے اسے بتایا تھا کہ ممکن ہے کیڑا کچھ دن بعد برآمد ہو مگر محمود پھر بھی پہلے دن سے ہی چاہتا تھا کہ اپنی طر ف سے کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ وہ پورا آدھ گھنٹہ، جتنا وقت اس نے رات کو ہی اپنے ذہن میں اس کام کے لیے مختص کر لیا تھا، پورا آدھ گھنٹہ، کموڈ پر بیٹھا رہا، حالانکہ دس منٹ سے زیادہ کی کوئی ضرورت اسے نہ زندگی میں پہلے کبھی پڑی تھی اور نہ آج تھی۔ مگر وہ اپنی طرف سے کوئی، ذرا سی بھی کوتاہی نہ ہونے دینا چاہتا تھا۔ کچھ دیر اس نے اخبارمیں جی لگانا چاہا لیکن پھر اسے محسوس ہوا کہ شاید اس سے اس کی توجہ بٹ رہی ہے اور اگر آدھ گھنٹہ بیٹھنے کا اصولی فیصلہ کیا ہی ہے تو پوری توجہ کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ ایمانداری کے ساتھ۔

    ’’خیر، پہلے دن تو کچھ زیادہ امید بھی نہیں تھی‘‘ اس نے ٹھیک تیس منٹ بعد کموڈ کے اندر بغور دیکھنے کے بعد سوچا اور پانی بہا دیا۔

    دفتر میں بھی وہ خوش خوش رہا۔ جیسے صبح اٹھا تھا۔ خوش خوش اور ہلکا ہلکا۔ مسکراتے ہوئے اس نے عمر کو سلام کیا اور مسکراتے ہوئے اپنا کام شروع کر دیا۔ ’’یہ بوسیدہ، ڈھانچا نمازندگی ختم ہونے والی ہے’’ اس نے سوچا۔ ’’کیڑے کی ایسی تیسی۔ کیڑا مردہ باد۔‘‘

    اگلے دن بھی وہ پورے تیس منٹ بغیر اخبار کے کموڈ پر بیٹھا رہا۔ ‘‘اچھا؟ ابھی بھی نہیں نکلا؟ اس نے پانی بہانے سے پہلے بغور معائنہ کرتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔‘‘ہاں بچو، اتنے سال سے میرا کھانا کھا کھا کے موٹا ہوتا رہا ہے۔ دوسرے دن تھوڑا ہی مر جائے گا۔ ابھی اندر میرے پیٹ میں تڑپ رہا ہو گا۔ کل دیکھوں گا تجھے۔ کل نہیں تو پرسوں سہی۔‘‘

    لیکن کل بھی آیا۔ پرسوں بھی۔ پھر پرسوں کے بعد والا دن۔ شاید ترسوں یا نرسوں۔ مگر کیڑے کا اخراج مشاہدے میں نہ آیا۔

    ’’مر تو وہ چکا ہوگا’’ محمود نے ترسوں سے اگلے دن سوچا۔ ‘‘لیکن باہر پتہ نہیں کیوں نہیں نکل رہا۔ کیا کرنا چاہیے؟‘‘ یہ سوال اسے عمر سے پوچھنے میں ہچکچاہٹ تھی سو اس نے خود ہی فیصلہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے۔‘‘ یہ کہیں اندر اٹکا ہوا ہے۔ انتڑیوں میں شاید۔ زور لگانا چاہیے اور صبر سے انتظار کرنا چاہیے۔ ارے کیڑا ہی تو ہے۔ مرا ہوا گندا کیڑا۔ دیکھتا ہوں کیسے نہیں نکلتا۔‘‘

    اگلے دن سے اس نے صبح مزید آدھا گھنٹہ جلدی اٹھنا شروع کیا تاکہ تیس منٹ کی جگہ ایک گھنٹہ اس کام میں صرف کر سکے۔ ’’تھوڑا اور زور۔ تھوڑا اور زور‘‘۔ وہ پورے ساٹھ منٹ بیٹھا اپنے آپ سے کہتا رہا۔

    چھٹے، یا شاید ساتویں دن اسے لگا کہ معاملات میں کچھ بہتری آئی ہے، یا آ رہی ہے۔ اسے لگا کہ وہ موذی، یعنی اس موذی کی لاش، بس سرے پر آ کے ٹک گئی ہے۔ سرے پر تو آ گئی ہے، مگر لگتا ہے کہ جیسے لاش بھی اس بات کی مزاحمت کررہی ہے کہ اسے نکال باہر کیا جائے۔ یا شاید وہ پوری طرح مرا نہیں تھا۔ شاید صرف نیم مردہ تھا، کیونکہ لاشیں تو مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ خیر جو بھی تھا، کچھ تھا جو آکے عین سرے پر ٹک گیا تھا۔ سرا کچھ پھول گیا تھا اور وہاں کچھ تکلیف سی محسوس ہورہی تھی۔ تکلیف تھی یا خارش، کچھ پکا نہیں کہا جا سکتا تھا مگر بے آرامی ضرور تھی۔ ’’اور زور اور زور‘‘ اس نے بیٹھے بیٹھے سوچا۔ ’’ہمت نہیں ہارنی‘‘ اس نے مزید سوچاا ور اپنی ڈھارس بندھائی۔

    اگلے دن بےآرامی میں بھی اضافہ ہوا اور سوجن بھی ایسی بڑھی کہ اسے یقین ہو چلا کہ اس موذی نے خارج ہونے سے عین پہلے اپنے دانت گاڑ لیے ہیں اور اب نکلنے سے انکاری ہے۔ سوجن کی تین توجیہات اس کے دماغ میں آ رہی تھیں۔ وہ یا تو اس کی اور موذی کی کئی دنوں سے جاری باہمی کشمکش اور زور آزمائی سے پیدا ہو گئی تھی، یا وہ موذی کے دانت گاڑنے سے پیدا ہوئی تھی اور اگر یہ دونوں باتیں نہیں تھیں تو بس پھر سوجن ووجن نہ تھی اور اصل میں عین اس جگہ درپردہ وہی موذی موجود تھا جو باہر باہر سے سوجن کی صورت محسوس ہو رہا تھا۔

    ’’شاید میں نے اس قدر کہنہ سال اور بڑے کیڑے کے اخراج کے لیے جتنی زور آزمائی ضرروری تھی وہ نہیں کی۔ شاید وہ بالکل سرے پر آن بیٹھا ہے اور اگر میں صحیح وقت ذرا زیادہ دل جمعی سے کوشش کرتا تو وہ ضرور خارج ہو جاتا۔ یعنی عین اسوقت جب وہ اتنا نڈھال تھا کہ لڑھکتا لڑھکتا یہاں تک آن پہنچا تھا۔ اب تو شاید اس نے پچھلے کچھ دنوں میں ہمت اور توانائی جمع کر لی ہے۔ اب تو وہ اور مزاحمت کرےگا۔‘‘ محمود نے تاسف سے ان باتوں کو سوچا مگر پھر فوراً اپنے آپ کو ہمت دلائی: ’’یہاں تک پہنچایا ہے تو اسے باہر بھی دفع کرکے رہوں گا۔‘‘ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ شام کو بھی تیس منٹ اس جدوجہد میں صرف کرےگا اور جب تک نصب العین حاصل نہیں ہوگا، ہار نہیں مانےگا۔

    ’’لیکن اس تکلیف کا کیا کروں؟ اف۔‘‘

    نہ اس سے جم کر بیٹھا جاتا تھا نہ چلا جاتا تھا۔ لیٹ جانے میں تھوڑا آرام ملتا تھا مگر اتنا بھی نہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ٹریفک کے ایک اشارے، زبان سے نکلے ہوئے ایک فقرے اور ایک تصوراتی کیڑے میں کیسے کیسے امکانات موجود ہو سکتے ہیں۔

    شام کو دفتر سے محمود کو گھر لاتے ہوئے مقبول نے جیل روڈ کا شادمان چوک والا اشارہ کاٹا تو ٹریفک پولیس کے سپاہی نے گاڑی روک لی۔

    ’’الو کے پٹھے۔ یہ کیا کیا ہے؟‘‘ سوجن اور تکلیف ویسے ہی بیٹھنے نہیں دے رہے تھے۔ سارا دن دفتر میں ایسی اداکاری کرنی پڑی تھی کہ جیسے اسے نہ سوجن ہو نہ تکلیف۔ دو میٹنگوں میں سخت سی کرسی پر یوں بیٹھنا پڑا تھا کہ جیسے اسے تشریف رکھے رہنے میں ذرا بھی مسئلہ درپیش نہ ہو اور اب جب اس کا دل چاہ رہا تھا کہ جلدی سے گھر پہنچے اور شام کی جدوجہد سے فارغ ہو کے بستر پر لیٹ جائے، تو مقبول نے چالان کا یہ تحفہ پیش کر دیا تھا۔

    ’’یاد رکھنا، یہ جرمانے کے پیسے میں تمہاری تنخواہ میں سے کاٹوں گا۔‘‘محمود نے غصے سے کہا۔ مقبول خاموشی سے گاڑی سے اترا اور سپاہی کے پاس گیا۔ محمود نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے تکلیف سے بار بار پہلو بدلتے بدلتے دیکھا کہ سپاہی نے تھوڑی دیر مقبول سے کچھ ایسی بحث کی کہ اس کے بعد مقبول نے جیب سے کچھ روپے نکال کر اسے دئیے اور چالان کروائے بغیر واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔

    ’’ہو گیا چالان؟‘‘ محمود نے جان بوجھ کے پوچھا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ چالان نہیں ہوا تھا۔

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’کیوں نہیں ہوا؟ کیا کہا اس نے؟‘‘

    ’’اس نے معاف کر دیا جی۔‘‘ مقبول بولا۔

    ’’معاف؟ کیوں؟ تمہارا جاننے والا تھا؟‘‘ محمود نے پوچھا۔

    ’’اس نے کہا مجھے کچھ دے دو تو میں باقی معاف کر دوں گا۔ آئندہ غلطی نہ کرنا۔‘‘ مقبول نے بتایا۔

    ’’یعنی تم نے رشوت دی اسے!‘‘ محمو دنے سخت لہجے میں کہا۔

    ’’اس نے وارننگ دی ہے کہ آئندہ ایسا کام نہ ہو۔‘‘مقبول نے محمود کے سخت لہجے کے جواب میں گھبرا کے یہ بےتکا جواب دیا۔ شاید اس بیچارے کو خود بھی تب ہی احساس ہوا تھا کہ اس نے رشوت دی تھی۔

    ’’شرم نہیں آتی رشوت دیتے ہوئے؟‘‘ محمود نے غصے سے پوچھا۔ حالانکہ اسے اصولی طور پر اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا کہ بیچارے نے کچھ روپے رشوت دے کے جان چھڑا لی، مگر تکلیف اور پہلو پہ پہلو بدلنے کی بیماری نے اس میں ایک چھوٹا سا شیطان بھر دیا تھا۔ مقبول سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس نے خفیف سا پہلو بدلا، جتنا کوئی گاڑی چلاتے چلاتے بدل سکتا ہے اور خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔

    ’’رشوت دی ہے نہ تم نے؟ بولو۔ مانو کہ تم نے رشوت دی ہے۔‘‘ محمود نے پھر کہا۔

    ’’جی سر۔‘‘مقبول نے کہا۔

    ’’ کیا جی؟‘‘ منہ سے کہو کہ تم نے رشوت دی ہے۔

    ’’رشوت دی ہے۔‘‘ مقبول نے کچھ توقف کے بعد آہستہ سے کہا۔

    ’’ ہاں۔ مجھے پتہ ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ تم نے رشوت دی ہے۔‘‘

    ’’پتا ہے نہ کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘ محمود نے دو لمحے خاموشی کے بعد کہا۔ ’’پتا ہے رشوت دینے والے کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’سوری سر۔‘‘ مقبول نے کہا۔

    ’’اب سوری کا کوئی فائدہ نہیں اور میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم سوری ہو یا نہیں۔ تمہیں پتا ہے رشوت دینے والے کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ بولو۔ پتا ہے تمہیں؟‘‘

    مقبول خاموش رہا۔

    ’’الّرَاشی وَ المُرتَشِی کِلَا ھُماَ فِی الّناَر‘‘ اس نے بچپن سے یاد ایک حدیث زور سے پڑھی۔

    ’’پتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘

    ’’سوری سر‘‘بیچارے ڈرائیور کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کہے تو پھر سے سوری بول اٹھا۔

    ’’سوری اب اللہ تعالیٰ کو کرنا۔ تم جہنم میں جاؤگے۔‘‘ اس نے یہ الفاظ یوں ادا کئے جیسے اس کو انہیں بولنے میں بڑی راحت محسوس ہوئی ہو۔ جیسے وہ اصل میں یہ الفاظ بول کر نہ صرف موذی کیڑے کو خارج کر رہا ہو بلکہ اسے جہنم میں بھی پہنچا رہا ہو۔

    ’’یہ حدیث ہے۔ تم اور وہ سپاہی دونوں اب سیدھے جہنم میں جاؤگے۔‘‘اس نے کہا۔

    ’’سوری سر۔‘‘مقبول پھر بولا۔

    ’’چپ کرو۔ تم نے اشارہ توڑا کیوں؟ ہیں؟ کیوں توڑا اشارہ؟‘‘

    مقبول بیچارے کے پاس اس کا کچھ جواب نہیں تھا۔ گاڑیاں گزر رہی تھیں، ٹریفک لائٹ ابھی ابھی لال ہوئی تھی سو اس نے سوچا کہ میں بھی جلدی سے گزر جاؤں۔ اس کی بدقسمتی تھی کہ داؤ نہیں لگا۔ اس کے سوا نہ کوئی معاملہ تھا اور نہ اس کے پاس کوئی جواب تھا۔ سو وہ بیچارہ خاموش ہی رہا۔

    ’’ تمہیں لال بتی نظر آئی تھی یا نہیں؟‘‘ محمود پھر بولا۔ اس گفتگو سے اس کی توجہ بٹ رہی تھی۔ اسے تکلیف کم محسوس ہو رہی تھی اور اب وہ پہلو ذرا کم کم بدل رہا تھا۔

    مقبول نے اعتراف کیا کہ اسے لال بتی نظر آ گئی تھی۔

    ’’پھر؟ تم رکے کیوں نہیں؟ تمہیں میرے سے زیادہ جلدی تھی گھر پہنچنے کی؟ بولو۔‘‘

    ’’سوری سر۔‘‘اس نے پھر کہا۔

    ’’کیا بکواس کر رہے ہو بار بار۔ سوری سر، سوری سر۔ تم نے دیکھ کر بھی، جان بوجھ کر اشارہ توڑا۔ تم انسان ہو یا گدھے؟‘‘

    کچھ دیر گاڑی میں خاموشی رہی۔ مقبول شاید سمجھا کہ اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ان دیکھا کیڑا انسان سے کیا کیا کروا سکتا ہے۔

    ’’بولتے کیوں نہیں۔ انسان ہو یا گدھے؟‘‘ محمودسوال کا جواب حاصل کرنے پہ مصر تھا۔

    ’’سر، انسان۔‘‘وہ گھبرا کر بولا۔

    ’’اچھا؟ انسان ہو؟ کیسے پتا ہے تمہیں؟‘‘

    وہ پھر خاموش رہا۔ کیا کہتا؟

    ’’بولو۔ اپنے کو انسان کہہ رہے ہو۔ حرکتیں دیکھو اپنی۔ بولو، کیسے پتا ہے تمہیں کہ تم گدھے نہیں ہو؟‘‘

    ’’سر، وہ۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

    ’’وہ کیا، بولو۔۔۔ کیسے پتا ہے؟ تمہیں بتانا پڑےگا۔ بولو۔‘‘

    ’’سر وہ، گدھے کی پونچھل ہوتی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    اس جواب کے لیے تو محمود بھی تیار نہیں تھا۔ کچھ دیر کے لیے گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔

    تقریباً ایک منٹ محمود نے مقبول کے جواب کو ہضم کیا اور اس کے بعد آہستہ سے پوچھا۔

    ’’تمہاری پونچھل نہیں ہے؟‘‘

    ’’نہیں سر‘‘۔

    ’’اچھا؟ نہیں ہے تمہاری پونچھل؟ کیوں نہیں ہے؟‘‘

    مقبول چپ رہا مگرمحمود نے نرمی سے، دھیمی آواز میں دوبارہ پوچھا۔

    ’’ بتاؤ تو سہی ۔۔۔ کیوں نہیں ہے تمہاری پونچھل؟‘‘

    ’’سرجب پیدا ہوا تھا تو تب تھی ہی نہیں۔‘‘مقبول نے آہستہ سے کہا۔

    کئی دنوں میں پہلی بار مقبول کو بےساختہ ہنسی آئی۔ لیکن بجائے جی بھر کے ہنسنے کے، بجائے کھل کے قہقہہ لگانے کے، اس نے ہنسی پر قابو پایا حالانکہ یہ قابو پانے کے لیے جو ضبط اسے کرنا پڑا اس نے سوجن پر تکلیف دہ دباؤ ڈالا۔

    ’’مگر جب پیدائش کے وقت تمہاری پونچھل غائب تھی تو تمہارے گھر والوں نے ہسپتال والوں سے شکایت کی تھی کہ پونچھل کیوں غائب ہے؟‘‘ محمود نے کریدا۔

    مقبول کو زیادہ تر سوالوں کی طرح اس سوال کا جواب بھی معلوم نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ ہسپتال میں پیدا نہیں ہوا تھا۔

    گاڑی ماڈل ٹاؤن میں داخل ہو گئی۔ محمود ارد گرد کے سبزے کو دیکھ دیکھ کر اپنے اعصاب کو سکون پہنچانے لگا اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھوں مقبول کیا جواب دیتا ہے۔ مقبول نے سوال کا کچھ جواب نہ دیا اور گھر آنے پر خاموشی سے گاڑی کھڑی کردی۔محمود نے بھی جواب کا انتظار نہ کیا۔ وہ گاڑی سے اترا اور گھر میں داخل ہوتے ہی سیدھا غسل خانے میں چلا گیا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آپ ہی آپ مقبول کے جوابات پر ہنستا رہا اور کیڑے سے زور آزمائی کرتا رہا۔ تیس منٹ بعد جب اس نے پانی بہانے سے پہلے کموڈ میں جھانکا تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔

    تازہ تازہ خون۔ جس نے کموڈ کے پانی کو گلابی کردیا تھا۔

    ’’وہ مارا۔‘‘ محمود نے دل ہی دل میں نعرہ لگایا۔ ’’مرگیا۔ مرا نہیں تو زخمی تو ہو گیا۔‘‘ اسے یقین ہو گیا کہ بس اب کل نہیں تو پرسوں اس موذی کی لاش برآمد ہوگی۔ بہت سخت جان، ڈھیٹ کیڑا تھا۔ مگر انسان کے بلند ارادے کے آگے تو پہاڑ بھی ٹوٹ سکتے ہیں اور اس میں شک کی گنجائش ہی کیا تھی؟ تاریخ خود قدم بہ قدم اس بات کی گواہی دیتی تھی۔ تاریخی کتب کے صفحات ایسی ہی داستانوں سے اٹے پڑے تھے۔ لیکن ابھی کام ختم نہیں ہوا تھا۔ جب تک اس موذی کی لاش برآمد نہ ہو جاتی، تب تک یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ جیت حتمی ہو گئی اور کام ختم ہو گیا۔ ابھی آنے والے دنوں میں ہمت مجتمع رکھنے کی ضرورت تھی۔ بڑے موذی دشمن سے معرکہ پڑا تھا۔

    شام کو اس نے اپنی امی کو ٹیلیفون کیا اور بتایا کہ وہ بہت بہتر محسوس کر رہا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کا وزن بڑھنے لگا ہے۔ امی خوش ہوئیں اور انھوں نے کہا کہ اب جب وہ گھر آئےگا تو وہ اسے ایک لڑکی دکھانے لے چلیں گی۔ محمود نے حامی بھر لی، بلکہ یہ بھی کہا کہ ہاں، اگر کوئی رشتہ وشتہ ہو جائے تو چھ سات مہینے میں شادی کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔

    صبح اس نے مزید خو ن دیکھا۔ ’’مر رہا ہے، مر رہا ہے۔‘‘ وہ تیار ہوتے ہوئے مستقل سوچتا رہا۔ کہیں سے اسے ایک نعرہ یاد آ گیا:

    ’’گرتی ہوئی دیواروں کو، ایک دھکا اور دو‘‘

    ابھی دیواریں کھڑی تھیں۔ تکلیف اور سوجن، دونوں موجود تھیں۔ ’’ایک دھکا اور۔ ایک دھکا اور۔‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچتا آکے گاڑی میں بیٹھ گیا۔

    ’’تمہاری دم نہ لگوا دیں؟‘‘ اس نے کچھ دیر بعد بے آرامی سے پہلو بدلتے ہوئے مقبول سے پوچھا۔

    ’’سر؟‘‘ مقبول نے حیرت سے اسے آئینے میں دیکھا۔

    ’’دم لگوانی ہے؟‘‘ اس نے پھر پوچھا۔ مقبول خاموش رہا۔ محمود نے اسے سوچنے کا کچھ موقع دیا اور پھر بولا، ’’بولو۔ لگوانی ہے؟ پیدائش کے وقت تو نہیں تھی۔ اب لگوا لو۔‘‘

    ’’سر انسانو ں کو نہیں لگ سکتی‘‘۔ مقبول نے دھیمے سے کہا۔

    ’’نہیں لگ سکتی؟ کیوں؟طرح طرح کی چیزیں نئی لگ جاتی ہیں تو بھلا دم کیوں نہیں لگ سکتی؟ بالکل لگ سکتی ہے۔‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد اس نے کہا:

    ’’میرا خیال ہے تم دم لگوا لو۔‘‘

    مقبول نے کوئی جواب نہ دیا اور گاڑی چلاتا رہا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ آئینے میں کن اکھیوں سے محمود کو دیکھ لیتا تھا، مگر منہ سے وہ کچھ نہ بولا۔

    ’’لگوالو۔ بہت فائدہ ہوگا۔‘‘محمود نے کچھ دیر بعد کہا۔

    ’’سر فائدہ ہوگا؟‘‘ مقبول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’بالکل، بہت فائدہ۔‘‘ وہ بولا۔ پھر اس نے کمینے پن سے یہ بات بتانے کی بجائے کہ کیا فائدہ ہوگا، کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔

    ’’سر، کون سا فائدہ؟‘‘ مقبول نے کچھ لمحے توقف کے بعد پوچھا۔ محمود کو معلوم تھا کہ وہ یہ سوال پوچھےگا۔

    ’’تم نے کبھی ایسا انسان دیکھا ہے جس کی دم ہو؟ بولو۔‘‘

    مقبول نے آئینے میں دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔

    ’’تمہارے خیال میں دبئی والوں نے کبھی ایسا انسان دیکھا ہے جس کی دم ہو؟‘‘

    ’’نہیں سر۔ ایسا انسان تو ہوتا ہی نہیں ہے۔‘‘ مقبول نے کہا۔

    ’’ہاں۔ ٹھیک کہہ رہے ہو۔ ایسا انسان تو ہوتا ہی نہیں ہے۔ دبئی کیا، امریکہ والوں نے بھی کبھی ایسا انسان نہیں دیکھا۔ ایسے لباس تو ہوتے ہیں جن کے پیچھے دم لگی ہو، مگر ایسا اصل انسان نہیں ہوتا جس کے پیچھے دم لگی ہو۔‘‘

    ’’جی سر۔‘‘ مقبول نے کہا۔

    محمود نے پھر ایک کمینی خاموشی اختیار کر لی اور بے آرامی سے پہلو بدلا۔

    ’’سر، وہ۔۔۔ فائدہ کون سا ہوگا؟‘‘ مقبول نے ڈرتے ڈرتے دوبارہ پوچھا۔

    ’’فائدہ تو ایسا ہوگا کہ تم نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔ تم دبئی جانا چاہتے ہونا؟ دبئی کیا، تم دنیا کے کسی بھی ملک میں جا سکوگے۔ دبئی، فرانس، امریکہ، کہیں بھی۔‘‘

    مقبول نے تھوک نگلی اور آئینے میں محمود کو دیکھا کہ کہیں وہ مذاق تو نہیں کررہا۔ مگر محمود کے چہرے پر ایسا کچھ نہ تھا جس سے اسے یہ خیال ہوتا کہ وہ سنجیدہ نہیں ہے۔ مقبول کو دبئی کے بارے میں پتہ تھا یا امریکہ کے بارے میں۔ فرانس کیا ہوتا ہے وہ نہیں جانتا تھا۔ دبئی جانا اس کا خواب تھا اور ایسا خواب جو اس کے خیال میں شاید کبھی پورا بھی ہو سکتا تھا کیونکہ وہ دو تین ایسے لوگوں کو جانتا تھا جو پہلے یہاں ڈرائیوری کرتے تھے اور اب دبئی جاکے ڈرائیوری کر رہے تھے۔ مگر امریکہ؟ خوابوں کی وہ دور دراز دنیا؟ وہاں کیوں کر کوئی آسانی سے جا سکتا تھا؟

    ’’امریکہ؟؟‘‘ اس نے تقریباً لرزتے ہوئے پوچھا۔

    ’’بالکل۔ اگر کسی کی دم لگی ہو تو وہ فوراً امریکہ جا سکتا ہے۔ امریکن لوگ ایسی باتوں کی بہت قدر کرتے ہیں جو انھوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہوں۔ اگر تم دم لگوا لو اور ویزہ لینے امریکہ والوں کی ایمبیسی میں جاؤ تو وہ ایک منٹ کے اندر اندر تمہیں ویزہ دے دیں گے۔ انھوں نے کبھی ایسا آدمی دیکھا ہی نہیں ہوگا۔ وہ تو بہت خوش ہوں گے کہ ایسا خاص آدمی ان کے ملک جانا چاہتا ہے۔‘‘ وہ چند لمحے رکا اور اس دوران اس نے صاف محسوس کیا کہ اس کی کہی ہوئی بات لمحہ بہ لمحہ مقبول کے دل میں اتر رہی تھی۔

    ’’لیکن، ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ آہستہ سے دوبارہ بولا۔

    مقبول نے آئینے میں اسے دیکھا۔ ’’سر، مسئلہ؟‘‘

    ’’ہاں۔ تھوڑا سا۔ بس یہ ہو سکتا ہے کہ جب تم امریکہ میں گھس جاؤ تو وہ پھر تمہیں وہاں سے واپس نہ آنے دیں۔ ہو سکتا ہے وہ کہیں کہ ایسا بندہ تو بس ہمارے ہی پاس رہےگا۔ اس کو ہم واپس نہیں جانے دیں گے۔ یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘‘

    دفتر پہنچتے ہی تکلیف عود کرآئی تھی۔ کرسی پر بیٹھنا محا ل تھا۔ پہلو بدل بدل کے وہ تھک جاتا تو بلا وجہ اپنے کمرے سے نکل کر ادھر ادھر پھرنے لگتا۔ چلنا پھرنا بھی کچھ نہ کچھ تکلیف دیتا تھا، مگر بیٹھنے سے کم۔

    ’’ایک دھکا اور۔ ایک دھکا اور’’ وہ اپنے آپ کو تسلی دیتا رہا اور اپنا حوصلہ بندھاتا رہا۔

    ’’سر۔‘‘دفتر سے واپسی پر مقبول نے گاڑی میں اس کے بیٹھنے کے کچھ ہی لمحوں بعد کہا۔

    ’’کیا ہے؟‘‘ اس نے تنک کر پوچھا۔ وہ ہل جل کر سیٹ پر بیٹھنے کا کوئی ایسا زاویہ ڈھونڈھ رہا تھا جس سے بے آرامی میں تھوڑی کمی ہو سکے۔

    ’’سر، انسانوں کو کیسے دم لگ سکتی ہے؟‘‘ مقبول نے پوچھا۔

    یہ سوال سنتے ہی بےآرامی فوراً تھوڑی سی دور ہوئی اور پیٹھ ٹکانے کا زاویہ بھی فوراً ہی مل گیا۔

    ’’بالکل لگ سکتی ہے۔ دم لگانا کون سی بڑی بات ہے۔‘‘

    ’’اس کا بھی آپریشن ہوتا ہے سر؟‘‘ مقبول نے پوچھا۔

    ’’آپریشن تو نہیں ہوتا۔ یہ کام تو کوئی گاڑیوں کا مستری بھی کر سکتا ہے۔‘‘اس نے تھوڑا سوچا اور پھر دوبارہ کہنا شروع کیا۔

    ’’دیکھو، نیچے جہاں تمہاری ریڑھ کی ہڈی ختم ہوتی ہے، وہاں ہاتھ لگاکے دیکھو۔ اچھا ابھی نہیں۔ جب گھر پہنچیں گے تب آرام سے دیکھنا۔ ہاتھ لگاکے دیکھنا وہاں سرے پر ہڈیاں سی ہیں۔ بس صرف یہ کرنا ہوگا کہ لوہے کی تین چار انچ کی پتری کے ساتھ دم جڑواکر، ان ہڈیوں میں دو سوراخ کرکے اس پتری کو پیچوں یا کیلوں سے ان ہڈیوں سے جوڑ دیں۔ بس۔‘‘

    ’’سوراخ؟‘‘ مقبول نے گھبرا کر آئنے میں محمود کو دیکھا۔

    محمود نے کہا کہ ہاں سوراخ کیونکہ سوراخ کے بغیر یہ ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس کے بغیر تو یہی ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی مصنوعی دم لے کر رسی سے باندھ لے مگر وہ بےسود کام ہے کیونکہ ایسی مصنوعی، رسی سے باندھی ہوئی دم پر امریکہ والے ویزہ نہیں دے سکیں گے۔ دم تو وہ ہونی چاہیے جو جسم کا حصہ ہو۔ جیسے سر کے بال۔ یا کان۔ پھر اس نے پہلو بدلتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہاں، تکلیف تو ہو گی اس عمل میں مگر تکلیف اٹھائے بغیر بھلا کب کوئی انسان کامیاب ہوا ہے۔

    گھر پہنچ کر محمود نے مقبول کو چائے بنانے کا کہا اور اپنی تیس منٹ کی تکلیف دہ مشق کرنے غسل خانے میں گھس گیا۔‘‘ایک دھکا اور۔ ایک دھکا اور’’وہ دل میں ورد کرتا جاتا تھا۔ ادھر مقبول باورچی خانے میں چائے کا پانی ابلنے کا انتظار کرتے ہوئے اپنی پتلون میں ہاتھ ڈال کر ٹٹول ٹٹول کے وہ ہڈیاں ڈھونڈھنے لگا جن میں لاہور کے موٹر مکینک لوہے کی دم جڑی پتری فٹ کر سکتے تھے۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ تھوڑی سی تکلیف برداشت کر لے، تو چاہے امریکہ والے اسے ایک بار امریکہ میں گھسا کر واپس نہ بھی آنے دیں، وہ وہاں رہتے ہوئے روپیہ کما کما کے اپنے گھر تو بھیج ہی سکےگا۔ گاؤں میں اس کا کچا گھر پکا ہو سکےگا، اس کے باپ کو کالے یرقان کے علاج کے لیے ٹیکے لگ سکیں گے، اس کی دو بڑی بہنوں کی شادیاں بہتر گھروں میں ہو سکیں گی اور اس کا نکما بڑا بھائی بھی کوئی دوکان وغیرہ کھول سکےگا۔ اس نے چائے لا کے محمود کے کمرے میں رکھی اور دوبارہ باورچی خانے میں جاکے وہ ہڈیاں ٹٹولنے لگا۔

    غسل خانے کا نتیجہ کل سے کچھ مختلف نہیں رہا تھا۔ وہی، بغیر لاش کے لال لال تازہ خون اور بس۔ کتنے دھکے اور دوں گا میں؟ محمود نے سوچا۔ چائے پیتے ہوئے اس نے فیصلہ کیا کہ اگر اگلے دو تین دن بے نتیجہ رہے تو وہ جی کڑا کرکے اس بارے میں عمر سے بات کرےگا۔ اس رات محمود نے خوابوں میں بڑے بڑے کیڑے دیکھے۔ ان میں سے کچھ کی بڑی بڑی ٹانگیں تھیں اور کچھ رینگنے والے تھے۔ کچھ خون میں لت پت تھے اور کچھ بار بار اس پر حملہ آور ہوتے تھے۔ نیچے، اپنی کوٹھڑی میں مقبول نے بھی خواب دیکھے۔ ایک میں کوئی لمبی مونچھوں والا طاقتور لمبا آدمی پیچ اور پیچ کس تھامے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور ایک میں وہ کوشش کر رہا تھا کہ اس کے ساتھ لگی سینکڑوں فٹ لمبی دم کسی طرح اس کی پتلون میں گھس کر چھپ جائے اور لوگوں کو نظر نہ آئے۔

    صبح دفتر کے راستے میں مقبول نے محمود سے گاؤں جانے کے لیے ہفتے اور اتوار کی چھٹی مانگی۔ محمود نے کہا کہ ہاں چلے جاؤ، میں خود بھی ساہیوال ہو آتا ہوں۔

    ’’دم کا کیا سوچا ہے؟‘‘ محمود نے پوچھا۔ ’’کب چلنا ہے مکینک کے پاس؟‘‘

    ’’سر، بری نہیں لگےگی دم؟ سب کو نظر آئےگی۔‘‘ مقبول نے کہا۔

    ’’بری؟کیوں؟بری لگنے کی کیا بات ہے؟ دیکھو، امریکنوں سے زیادہ اس دنیا میں کون عقل مند ہو سکتا ہے؟ اگردم کو ئی بری چیز ہو یا دیکھنے میں بری لگتی ہو تو وہ تمہیں ساری زندگی کا ویزہ کیوں دیں؟ انھیں اپنے ملک میں بری چیزیں اکٹھی کرنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟ اور تم یہ بھی کر سکتے ہو کہ ایسی دم لگواؤ جو آسانی سے تمہاری پتلون میں ٹھنس سکے۔ پتلون کے پیچھے ایسے بٹن لگ سکتے ہیں کہ جب چاہا انھیں کھول کر دم باہر نکال لی اور جب چاہا واپس ٹھونس کر بٹن بند کر دئیے۔‘‘

    پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے کہا: ’’لیکن پہلے یہ طے کرو کہ تمہیں کیسی دم چاہیے۔ جیسے گھوڑے کی ہوتی ہے، بالوں والی، یا گدھے جیسی؟‘‘

    ’’ جی سر‘‘مقبول نے کہا۔ مگر محمود نے بھانپ لیا کہ اس ’’جی سر‘‘ میں ابھی کچھ شکوک وشبہات پنہاں تھے۔

    ’’تم کچھ پریکٹس کیوں نہیں کر لیتے؟ میرا خیال ہے بالوں والی دم کی جگہ گدھے یا کتے کی طرح کی دم زیادہ اچھی لگےگی۔ بالوں والی کا سنبھالنا اور صاف ستھرا رکھنا مشکل ہوگا۔ تم ایسا کرو، بازار سے کوئی سٹف کیا ہوا کھلونا خریدو۔کوئی بندر یا کتا یا ایسا ہی کچھ۔ عام ملتے ہیں ایسے کھلونے۔ پہلے ایسے کسی کھلونے کی دم کاٹ کر رسی سے باندھ کے اسے سنبھالنے کی پریکٹس کرو۔ پھر جب تم ویزہ لینے جاؤگے، اس سے پہلے تمہیں اصلی دم لگوا دیں گے۔‘‘ یہ آخری فقرہ بولتے ہوئے محمود کو ہنسی آ گئی مگر اس نے ایسی ایکٹنگ کی کہ جیسے اچانک کھانسی آ گئی ہو۔ اسے اس کھیل میں ایسا مزہ آنے لگا تھا اور یہ کھیل گرتی ہوئی دیواروں سے اس کی توجہ ایسے ہٹا دیتا تھا کہ اس نے بٹوے سے دو سو روپے نکال کر مقبول کی طرف بڑھائے اور اس سے کہا کہ شام کو جا کر وہ اپنی پسند کی دم والا ایک کھلونا لے آئے۔ اس نے خود سے یہ بھی تجویز کر دیا کہ فی الحال لمبی سی دم والا بندر ہو تو بہتر رہےگا۔

    ’’شکریہ سر۔‘‘ مقبول نے دلی تشکر سے کہا۔’’ آپ کی بڑی مہربانی ہے۔‘‘

    ۔۔۔۔۔۔

    ساہیوال میں امی نے اس سے بہت کہا کہ لڑکی دیکھنے چلے تاکہ چھ سات مہینے میں اس کی شادی ہو جائے مگر وہ نہ مانا۔ خون بہا چلا جارہا تھا اور دیواریں گر ہی نہیں رہی تھیں۔ ایسے میں اس کا دل لڑکیاں دیکھنے اور شادی کے پروگرام بنانے کی طرف مائل نہیں ہو رہا تھا۔ اوپر سے اس کے جثے میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آ رہی تھی، بلکہ پہلے وہ ڈھانچہ نما ہونے کے باجود کمزوری محسوس نہیں کرتا تھا مگر اب، جب سے خون بہنا شروع ہوا تھا، اسے کچھ کچھ تھکن اور کمزوری کا احساس بھی ہوتا تھا۔ اس نے پیر کی صبح دفتر میں عمر سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔

    اتوار کی شام جب وہ واپس اپنے گھر پہنچا تو مقبول پہلے سے وہاں موجود تھا اور کھانا پکاتے ہوئے ریڈیو پر گانے سن رہا تھا۔ محمود جب گھر کے اندر گھسا تو مقبول کو خبرنہ ہوئی۔ وہ کچن کے دروزے تک آیا تو اندر کا منظر دیکھ کر ٹھٹھک گیا اورحیرت اور بےیقینی سے وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔ مقبول کی کمر کے گرد ایک رسی بندھی تھی اور اس رسی سے ایک دم لٹک رہی تھی۔

    کچھ لمحے بعدجب اسے یقین ہو گیا کہ وہی ماجرا تھا جو وہ دیکھ رہا تھا تو وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگا اور اندر گھس کے زور زور سے قہقہے لگاکر ہنسنے لگا۔ چند منٹ بعد اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور واپس جا کے کچن کے دروازے میں کھڑا ہو گیا۔ مقبول دروازے کی طرف پشت کئے چولہے کے آگے کھڑا اب روٹی پکا رہا تھا۔ محمود نے ہزار مشکل سے ہنسی پر قابو پایا اور زور سے بولا :

    ’’شاباش۔شاباش۔‘‘

    مقبول توے سے روٹی اٹھاتے ہوئے یکلخت سٹپٹا گیا۔ گھبراہٹ میں اس کا ہاتھ گرم گرم توے سے ٹکرایا اور اس نے ہاتھ منہ سے لگاکر اسے چاٹنا شروع کر دیا۔ اس کی سٹپٹاہٹ پر اور دم لگائے ہوئے ہاتھ چاٹنے کے اس منظر پہ محمود کو اور بھی ہنسی آئی مگر اس نے وہ بھی ضبط کی۔

    ’’یہ تو تمھیں بہت ہی اچھی لگ رہی ہے۔ کمال ہے۔ ذرا دیکھو، ابھی تو تم نے رسی سے باندھی ہوئی ہے، جب اصل میں فٹ ہوگی تو کتنی اچھی لگے گی۔ ایسے کہ جیسے تم پیدا ہی اس کے ساتھ ہوئے تھے اور ابھی یہ دم ہے بھی نقلی، جب اصلی لگےگی اور پیچوں سے فٹ ہوگی، پھر تو بات ہی اور ہوگی۔‘‘

    تب، محمود کی یہ بات سن کر، یکلخت مقبول کو کمر سے بندھی رسی اور اس سے لٹکتی دم کا خیال آیا۔ اس نے گھبراہٹ میں رسی کھولنے کی کوشش کی۔محمود اطمینان سے تماشہ دیکھتا رہا۔ رسی کی گرہ فوراً نہ کھلی تو اس نے دم کو پیچھے پتلون کے اندر گھسانے کی کوشش کی۔

    ’’نہیں نہیں ایسے ہی رہنے دو یار۔ پریکٹس کرو نا۔ تم گھر میں یہ باندھ کے کام کیا کرو تاکہ پریکٹس ہو جائے۔ ویسے یہ ہے کس جانور کی؟‘‘

    ’’سر بندر خریدا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’آپ نے کہا تھا بندر خریدنا۔‘‘

    ’’ہاں۔ بالکل ٹھیک کیا تم نے۔ گاؤں میں بھی پریکٹس کی تھی؟‘‘

    ’’نہیں سر۔‘‘ وہ یوں بولا کہ جیسے اس سے یہ خطا سر زد ہوئی ہو کہ اس نے گاؤں میں دم باندھ کر چلنے پھرنے کی پریکٹس نہیں کی اور بہت سا قیمتی وقت گنوا دیا۔’’سر گھر میں میری باجیاں ہوتی ہیں۔ میں نے وہاں نہیں باندھی۔‘‘

    ’’بھئی باندھ کر پتلون کے اندر کر لینی تھی نا۔ چلو خیر، اب تم یہاں آرام سے اس کی پریکٹس کرو۔ جب پریکٹس ہو جائےگی تو پہلے تمہارے لیے گدھے کی اصلی دم لائیں گے اور پھر مستری کے پاس چلیں گے۔‘‘

    ’’سر میری امی آپ کو بہت دعائیں دے رہی تھیں۔‘‘ مقبول نے کہا۔

    ’’مجھے؟ کیوں؟‘‘

    ’’وہ میں نے انھیں امریکہ کا بتایا ہے نہ سر۔ سر میں نے یہ نہیں بتایا کہ جب میں جاؤں گا تو پھر شاید وہ مجھے وہاں پکا پکا ہی رکھ لیں گے، پر میں نے بتایا ہے کہ وہاں دبئی سے اچھی نوکری ملےگی۔‘‘

    ’’اچھا۔ اچھا۔ تم نے انھیں بتایا ہے کہ تم امریکہ کیسے جا رہے ہو؟ دم کا بتایا ہے؟‘‘ محمود نے پوچھا۔

    ’’نہیں سر۔ سر بتانا بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ گھبرا کے بولا۔

    ’’کیوں؟ دم کوئی بری چیز ہے؟ دیکھو کتنی اچھی لگ رہی ہے تمہیں۔ میرا تو دل کر رہا ہے میں بھی لگوا لوں۔‘‘ اس نے بمشکل بات ختم کی اور تیزی سے کمرے میں واپس آیا کیونکہ اسے ہنسی روکنا محال ہو رہا تھا۔ ہنستے ہنستے وہ اپنی شام کی جدوجہد پر بیٹھا۔ مگر نتیجہ وہی تھا۔ اب اس کا کل دفتر میں عمر سے بات کرنا ضروری تھا۔

    صبح گاڑی میں بیٹھتے ہوئے محمود نے مقبول کی چال سے بھانپ لیا کہ وہ قمیض کے نیچے کمر سے رسی باندھے ہوئے ہے اور دم کو پتلون کی بائیں ٹانگ میں گھسائے ہوئے ہے۔

    ’’ویری گڈ۔‘‘ اس نے کمینگی سے کہا ’’ بالکل پتا نہیں چل رہا۔‘‘

    دفتر کے راستے میں مقبول نے پوچھا کہ اسے کتنے دن پریکٹس کرنے کے بعد اصلی دم لگوانی چاہیے۔ محمود نے کہا کہ بس ایک دو ہفتے کافی ہوں گے۔ پھر وہ اسے مستری کے پاس لے چلے گا۔

    ’’اور سر ویزہ کتنے دن میں لگتا ہے؟‘‘ مقبول نے پوچھا۔

    ’’تمہارا تو فوراً لگ جائےگا۔‘‘ محمود نے کہا۔ ’’دم لگ جائے تو تمہارا پاسپورٹ بنوائیں گے، پھر جا کے فوراً ویزہ لے لیں گے۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے پوچھا۔

    ’’تمھیں جلدی پڑ گئی ہے امریکہ جانے کی؟‘‘

    ’’سر اتنی تو جلدی نہیں ہے۔ چاہے ایک مہینے میں بھی چلا جاؤں۔‘‘

    ’’ہاں، ایک مہینہ تو لگ ہی جائےگا۔‘‘ محمود نے مسکراکر کہا۔

    مقبول یہ سن کر مطمئن ہو گیا۔ اس نے اپنی ماں سے کہا تھا کہ وہ جلد ہی چلا جائےگا اس لیے وہ بے شک چھ سات مہینے میں باجیوں کی شادی رکھ لے۔ ابا کے کالے یرقان کے ٹیکے بھی دو تین مہینے میں شروع ہو سکیں گے۔ پہلے یہ کام ہو جائیں، پھر نکمے بھائی کا سوچا جائےگا۔

    دفتر میں محمو دنے عمر کو کیڑے مار دوا کھانے سے لے کر آج تک کا احوال سنایا۔ عمر بہت حیران ہوا۔ اس نے کہا کہ وہ تو سمجھا تھا کہ دو تین دن میں کیڑا نکل گیا ہوگا اور سب ٹھیک ہو گیا ہوگا اور یہ کہ وہ تو یہ بھی بھول چکا تھا کہ محمود نے وہ دوا کھائی تھی۔ عمر نے اسے فوراً ڈاکٹر کو دکھانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ یہ خون وون والی بات سے لگتا ہے کہ روز روز دیر دیر تک کموڈ پر بیٹھ کر زور آزمائی کرنے سے اسے بواسیر ہو گئی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ کئی لوگ خدا کے بنائے ہوئے ہی ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں کھانا پینا نہیں لگتا۔ دوا کھانے سے اگر کچھ نہیں نکلا تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی کیڑا ویڑا نہیں تھا بلکہ محمود کو خدا نے بنایا ہی ایسا دبلا پتلا تھا۔ پھر اس نے دوبارہ کہا کہ وہ فوراً ڈاکٹر کو دکھا لے اور تاسف سے یہ خبر بھی دی کہ اگر بواسیر ہی ہے تو اس کے علاج کے لیے ایک تکلیف دہ آپریشن بھی کروانا پڑ سکتا ہے۔

    محمود بواسیر کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا مگر ساہیوال اور لاہور کے درمیان سفر کرتے ہوئے اس نے کہیں کہیں دیواروں پر خونی بواسیر کے علاج کے بارے میں اشتہار پڑھے تھے۔ ’’خونی بواسیر’’ اس نے سوچا۔ مجھے خونی بواسیر ہے؟؟ مجھے ڈاکٹر کے جانا پڑےگا؟ ڈاکٹر کو جاکر کیا کہوں گا کہ مجھے کیا محسوس ہوتا ہے؟ اور اگر ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کا کہا؟ یکایک اسے لگا کہ جیسے اس کی زندگی اجیرن ہو گئی ہو اور وہ بلا وجہ بہت ہی الجھے ہوئے کسی جال میں پھنس گیا ہو۔ وہ اپنے لاغر جسم پر گوشت چڑھانے چلا تھا اور یہاں اس خونی مرض نے اسے آ لیا تھا۔ اسے عمر سے، بلکہ اس کے پورے خاندان سے سخت نفرت ہونے لگی۔ نہ اس کی ذلیل بیوی ڈاکٹرنی ہوتی، نہ اس کے بیٹے کے پیٹ میں سے کیڑا نکلتا اور نہ وہ محمود کو یہ مشورہ دیتا۔ ’’حرامزادہ’’ اس نے دل ہی دل میں اسے گالی دی ’’مجھے بواسیر کرواکے کہتا ہے کہ تم بنے ہی ایسے کمزور رہنے کے لیے ہو۔‘‘ لیکن اسے یہ یقین ہو چلا تھا کہ عمر نے صحیح کہا تھا کہ اسے بواسیر ہو چکی تھی۔ شاید اسے خود بھی کبھی رہی ہو اور اس کی ڈاکٹرنی بیو ی نے اس کا علاج بھی کر دیا ہو۔ ’’میں کس ڈاکٹر کے پاس جاکر اپنا معائنہ کرواؤں؟ کیوں نہ اس کتے کی ڈاکٹرنی بیوی کو ہی جا کے دکھاؤں اپنی بواسیر؟‘‘ اس نے غصے سے سوچا۔

    محمود سے دفتر میں بیٹھا نہ گیا۔ اس نے لنچ کے بعد سے باقی آدھے دن کی چھٹی لے لی۔ باہر گاڑی کے پاس مقبول موجود نہیں تھا۔ محمود نے ادھر ادھر اسے ڈھونڈا مگر وہ نظر نہ آیا۔ پھر بس صرف کوئی ایک ہی منٹ کی تاخیر سے مقبول ٹیڑھا ٹیڑھا چلتا ہوا دفتر کی طرف آتا نظر آیا۔

    ’’کدھر مرے تھے تم ذلیل آدمی‘‘ وہ غصے سے دھاڑا۔ مقبول سٹپٹا گیا اور اس نے ہکلا کر بتایا کہ وہ کھانا کھانے تندور پر گیا تھا۔

    ’’گاڑی لاؤ کتے۔ جلدی مرو‘‘۔

    مقبول فوراً گاڑی لانے بھاگا۔ کچھ گھنٹے پہلے تک اگر محمود اسے ایسے دم پتلون میں دبائے ٹیڑھا میڑھا بھاگتے دیکھتا تو اسے ہنسی آجاتی۔مگر اس وقت تو وہ عجیب غصے اور ہیجان میں مبتلا تھا۔

    گھر تک کا راستہ مکمل خاموشی میں کٹا۔ محمود کی ایسی حالت مقبول نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ خوش مزاج تو کبھی نہیں رہا تھا مگر ایسا بھی اس نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مقبول اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس کی اپنی ماں سے گاؤں میں بات ہوئی ہے اور ماں نے بتایا ہے کہ اس نے دونوں بہنوں کی شادی کی بات چلا دی ہے اور پوچھا ہے کہ امریکہ جانے کے بعد وہ مہینے کے تقریباً کتنے پیسے بھجوا سکےگا تاکہ اس حساب سے بہنوں کی شادیوں کے بندوبست کئے جائیں۔ مگر محمود کی اس حالت میں اسے کوئی بات کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ بلکہ اس نے تو خوف کے مارے کن اکھیوں سے بھی اسے آئنے میں دیکھنے سے گریز کیا کہ کہیں وہ اور طیش میں نہ آ جائے۔

    مقبول نے سوچا کہ شاید صاحب کی طبیعت خراب ہے۔ گھر پہنچ کہ اس نے ماں کو پھر فون کیا اور کہا کہ وہ اس کے سوال کا جواب رات کو یا کل دےگا۔ اس کی ماں نے پوچھا کہ ویسے کیا اتنے پیسے چھ مہینے میں بن جائیں گے کہ کم از کم ایک ایک موٹر سائیکل کا بندوبست جہیز کے لیے ہو جائے؟ اس نے کہا کہ ہاں اتنا تو ضرور ہی ہو جائےگا۔ وہ دل ہی دل میں ماں کی معصومیت پر ہنسا کیونکہ اسے یقین تھا کہ موٹر سائیکل کیا، امریکہ جانے کے بعد تو وہ گاڑیوں کا بندوبست بھی آسانی سے کر سکےگا۔ موٹر سائیکل تو اس کے ایک واقف نے محض دبئی جانے کے کچھ دیر بعد اپنے چھوٹے بھائی کو لے کر دیا تھا۔

    وہ اپنی کوٹھڑی میں آکر چارپائی پر لیٹ گیا اور دعا کرنے لگا کہ شام تک صاحب کی طبیعت ٹھیک ہو جائے تاکہ وہ اپنی ماں کے سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دے سکے۔

    شام کو وہ چائے لے کر محمود کے کمرے میں گیا تو وہ بدستور بستر میں لیٹا تھا۔ مقبول نے چائے کی پیالی اس کے سرہانے کی میز پر رکھی اور خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔

    ’’سر‘‘ اس نے کہا۔

    محمود نے کچھ جواب نہ دیا۔ مقبول کو محسوس ہوا کہ صاحب نے غصہ نہیں کیا سو شاید اب ان کا موڈ ٹھیک ہے اور طبیعت بہتر ہے۔

    ’’سر وہ امی پوچھ رہی تھیں کہ تقریباً مہینے کے کتنے پیسے بن جائیں گے امریکہ میں۔‘‘

    دو لمحوں کے لیے خاموشی رہی۔ پھر محمود آہستہ سے اٹھا اور پلنگ کے کنارے بیٹھ گیا۔

    ’’امریکہ؟‘‘ اس نے آہستہ سے پوچھا۔

    ’’جی سر‘‘۔

    ’’امریکہ؟‘‘ اس نے تقریباً پھنکارتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔

    مقبول اپنے صاحب کے اس لہجے سے گھبرا گیا اور خاموش رہا۔

    ’’الو کے پٹھے۔ تو واقعی انسان نہیں ہے۔تو تو گدھے سے بھی بدتر ہے۔ تیرا خیال ہے تو امریکہ جائےگا؟ گدھے۔میں تیری دم لگواکے تجھے امریکہ بھیجوں گا؟ یہ سمجھتا ہے تو؟‘‘

    مقبول دم بخود اپنی جگہ پر ساکت کھڑا رہا۔

    ’’کسی پاگل کی اولاد۔ تو جب پیدا ہوا تھا تو کیا تیرے سر پر چوٹ لگی تھی جوتُو ایسے الو کے پٹھوں والی باتیں کرتا ہے؟ ایڈیٹ۔ تیرے جیسے تو لاہور آ جائیں تو بڑی بات ہے، تو امریکہ جانے کے پروگرام بنا رہا ہے؟ چل باہرنکل۔ دفع ہو یہاں سے۔‘‘

    مقبول اسی طرح، دم بخود، ششدر، وہیں کھڑا رہا۔

    ’’سنا نہیں ہے؟‘‘ وہ دھاڑا۔ ’’دفع ہو یہاں سے اور آئندہ میرے سامنے یہ بکواس کی تو اسی بندر کی دم سے تجھے پنکھے سے لٹکا دوں گا۔ چل دوڑ۔دفعہ ہو جاہل آدمی۔‘‘

    مقبول اسی طرح گنگ کا گنگ، آہستہ سے واپس مڑا اور کچن میں آ گیا۔ اس کے دماغ میں ایک پل میں سو باتیں آتی تھیں اور اگلے پل میں محسوس ہوتا تھا کہ دماغ بالکل خالی اور سن ہے۔ وہ کافی دیر کچن میں ایسے ہی کھڑا رہا۔ آہستہ آہستہ، بالکل آہستہ آہستہ اسے سمجھ آنی شروع ہوئی کہ صاحب اتنے دن سے اس کا مذاق اڑاتا رہا ہے۔ اس کا، اس کی ماں کا، اس کے باپ کے کالے یرقان کا، اس کی بہنوں کا۔ اس نے پانی پینے کے لیے گلاس اٹھایا تو اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ اپنی کوٹھڑی کی طرف جاتے ہوئے اسے لگا کہ اس کی ٹانگیں جواب دے جائیں گی۔ وہ کچھ دیر کے لیے وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور پھر اٹھ کر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنی کوٹھڑی میں آیا اور چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو خودبخود رواں ہو گئے اور اسی حالت میں روتے روتے، سوچتے سوچتے، اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ اور اس کا سارا خاندان کسی ہسپتال میں ایک بیڈ کے گرد جمع تھے۔ بیڈ پر اس کا باپ مردہ پڑا تھا اور ایک ڈاکٹر ہاتھ میں ایک کالی سی شے پکڑے انھیں دکھا رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ یہ تمہارے والد کا جگر ہے۔ دیکھو کیسا کالا سیاہ ہے۔ ابھی وہ بول رہا تھا کہ کالا جگر ڈاکٹر کے ہاتھ سے چھوٹ کے زمین پر گر پڑا اور اس نے حجم میں بڑھنا شروع کر دیا۔ پہلے اس کا ایک سر اور چہرہ بنا، پھر اس میں سے دھڑ نکلا اور پھر ہاتھ پاؤں۔ وہ کالا جگر دیکھتے ہی دیکھتے ایک انسان بن گیا اور اچک کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ کالے جگر کی شکل ہو بہو محمود جیسی تھی اور وہ مقبول کی طرف ہاتھ سے اشارے کر کر کے قہقہے مار رہا تھا۔ فوراً کہیں سے ایک اور ڈاکٹر ہاتھ میں کھلونے والے بند ر کی دم لے کر نمودار ہوا اور کالے جگر کو قابو میں کرکے اس کی پیٹھ میں کیل ٹھوکنے لگا۔ تب یکا یک مقبول کی آنکھ کھل گئی۔

    محمود رات کا کھانا نو بجے کھاتا تھا۔ سوانوبجے تک مقبول اسے بلانے نہ آیا تو وہ پلنگ سے اٹھا اور غصے میں بھرا کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور مقبول نمودار ہوا۔ محمود نے اسے ماں کی گالی دی اور کہا کہ تجھے تو میں کل ہی نوکری سے فارغ کرتا ہوں۔ مقبول نے کمرے کادروازہ بند کیا اور محمود کو گھورنے لگا۔ محمود نے چیخ کر اسے ایک اور گالی دی اور دو منٹ کے اندر اندر کھانا لانے کا حکم دیا۔ مقبول نے آگے بڑھ کر اسے دونوں ہاتھوں سے پوری قوت سے دھکا دیا۔ محمود بستر پہ گر پڑا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا ہوا مگر آخری لمحوں میں یہ معلوم ہو گیا کہ اس کے گلے کے گرد کسی جانے والی چیز بندرکی وہی نقلی دم تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے