خالی ڈبہ
کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جسکی ریل کے فرسٹ کلاس ڈبے میں سیٹ مخصوص ہوتی ہے۔ لیکن اس ڈبے میں بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ تبھی انہیں پتہ چلتا ہے کہ فرسٹ کلاس کا ایک کوچ خالی جا رہا ہے۔ وہ جیسے تیسے کرکے اس کوچ کو کھلواتے ہیں اور اس میں سوار اکیلی سواری کو اتار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر جب انہیں اس کوچ کی حقیقت پتہ چلتی ہے تو وہ پھر سے پہلے والے کوچ میں ہی سوار ہو جاتے ہیں۔
گاڑی ابھی پوری طرح رکی بھی نہ تھی کہ سبھاش میرا ہاتھ چھوڑکر بھاگا۔ اس نے فرسٹ کلاس کے ڈبوں کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھ لیا۔ ایک بھی سیٹ خالی نہ تھی۔ پھر وہ بھاگا بھاگا انکوائری کلرک کھنہ کے پاس گیا۔ معلوم ہوا کہ ایک مسافر کو یہیں اترنا تھا۔ اوپر کی ایک سیٹ خالی ہوگی لیکن گھبراہٹ کے عالم میں دوبارہ دیکھنے پر بھی سبھاش کو کوئی سیٹ خالی نظر نہ آئی۔ اب بابو نے خود ڈبے دیکھے۔ ایک افسر باتھ روم سے نکل کر آئینے کے سامنے اپنے بال سنوار رہا تھا۔ اس کا چپراسی بستر باندھ رہا تھا۔ اسے غالباً یہیں اترنا تھا۔ کھنہ نے سبھاش کو بلاکر اوپر کی سیٹ دکھائی اور کہا کہ آپ اس پر لالہ جی کا بستر لگا دیجیے۔ قلی سبھاش کے ساتھ ساتھ بستر لیے گھوم رہا تھا۔ اس نے خود بستر اتروا کر سبھاش سے سیٹ پر لگوایا، نیچے جگہ بناکر ٹرنک رکھوا دیے۔ صراحی ایک طرف رکھ دی اور اطمینان کی سانس لے کر ماتھے کا پسینہ پونچھتا ہوا وہ نیچے اترا۔
’’چاچا جی بہت گھبرا رہے تھے۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا، ’’لیکن بابو اپنے دوست ہیں‘‘ اور وہ ہنسا۔ سیٹ یہاں ہمیشہ مل جاتی ہے۔ پھر قلی کو پیسے دینے کے لیے اس نے بٹوا کھولا۔ اس وقت سبھاش کے چچا لالہ بھگوان داس ہانپتے ہوئے پل سے اترتے نظر آئے۔ میں نے آگے بڑھ کر ان سے ہاتھ ملایا، ’’تین چار بار تمہیں فون کیا۔ لیکن ہر بار انگیزڈ ملا۔ پھر جب کنکٹ ہوا تو پتہ چلا کہ چند دوستوں کو ساتھ لے کر کافی ہاؤس گئے ہو۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا پانچ منٹ پہلے نکل گئے ہو۔ سبھاش نے بتایا کہ دلی ایکسپریس سے جاؤگے، چنانچہ یہاں چلا آیا۔ کہو، کیسے حال چال ہیں؟‘‘
لیکن لالہ جی کو کسی کا حال چال پوچھنے یا بتانے کا ہوش نہ تھا۔ ان کی فراخ پیشانی پر پسینے کے قطرے جھلک آئے تھے، ہنستا گورا چہرہ ہلکی سی فکر سے دھندلایا ہوا تھا۔ لمحہ بھر کو رکے بغیر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسلسل چلتے ہوئے وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بڑبڑائے کہ ان کا تین دن کا پروگرام تھا، مگر دلی سے ٹرنک کال آ گیا۔ سیٹ بک نہیں کرائی۔ سبھاش کو بھیجا تھا۔ پتہ نہیں سیٹ ملی یا نہیں۔ باتیں وہ مجھ سے کر رہے تھے مگر ان کی آنکھیں نہ جانے کہاں تھیں۔ ان کا دھیان یقیناً سیٹ ہی میں لگا تھا۔ میں نے انہیں اطمینان دلایا کہ سیٹ مل گئی ہے، سبھاش نے سامان رکھ دیا ہے اور وہ فکر نہ کریں۔ اتنے میں قلی کو پیسے دے کر سبھاش آ گیا۔
’’سیٹ تو چاچا جی اوپر کی ہے۔‘‘ اس نے قدرے مایوسی سے کہا۔
’’نیچے کی کیوں نہیں ملی؟‘‘
’’سبھی رژروڈ تھیں۔‘‘
’’یہاں کے لیے بھی کچھ سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔ بابو کو کچھ دے دلادیتے۔‘‘ لالہ جی نے فرمایا۔
’’ایک گھنٹہ پہلے آ گیا تھا۔ ان سے پوچھیے۔‘‘ اس نے میری طرف اشارہ کیا، ’’کھنہ میرا دوست ہے۔ اسے چائے پلائی۔ انڈے توس کھلائے۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ گاڑی آنے دو، سیٹ مل جائے گی۔ لیکن سیٹیں بک ہو گئی تھیں۔ نیچے کی ایک سیٹ بھی خالی نہیں تھی۔ میں خود سارے ڈبے کو دیکھ آیا ہوں۔‘‘ لیکن لالہ جی کو اطمینان نہیں ہوا۔ ایک بار ڈبے میں جاکر انہوں نے اپنی سیٹ کو دیکھا، پھر نیچے اتر آئے اور انہوں نے سبھاش کو ساتھ لے کر کھنہ کو جا پکڑا۔ کھنہ کئی پسنجروں میں گھرا تھا۔ ان میں سے راستہ بنا کر لالہ جی اس تک پہنچے۔
’’کیوں کھنہ صاحب۔ چار سیٹیں تو یہاں کے لیے بھی خالی ہوتی ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ہاں!‘‘ لالہ جی کی طرف دیکھے بغیر کھنہ نے کہا۔
’’کیا سبھی بکڈ تھیں؟‘‘ لالہ جی نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔!‘‘ کھنہ نے اسی طرح ان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ پھر معاً وہ پلٹا۔ اس نے لالہ جی کو دیکھا۔ سلام کیا، مسکرایا اور بولا، ’’کیوں آپ کو تو سیٹ دلوا دی ہے؟‘‘
’’کوئی نیچے کی سیٹ مل جاتی۔۔۔‘‘ لالہ جی نے تقریباً فریاد کے انداز میں کہا۔
’’آپ کو شاید اپنے آپ نیچے والی سیٹ مل جائے۔‘‘ کھنہ بولا، ’’میں نے کنڈکٹر سے پوچھا ہے۔ ایک فورسیٹر پیچھے سے خالی آیا تھا، لیکن شاید اس میں کچھ گڑبڑ ہے۔ پیچھے سے ہی بند آ رہا ہے۔ یہاں شاید اسے کھولاجائے۔ آپ کے نیچے والی سیٹ ایڈوکیٹ جنرل مسٹر ورما کی ہے۔ ڈبہ کھل جائے تو وہ ادھر چلے جائیں گے۔ آپ نیچے آجائیے گا۔‘‘ لالہ جی کو کچھ اطمینان سا ہوا اور وہ اپنے ڈبے میں واپس آئے۔ مسٹر ورما آ گئے تھے۔ ان کے ساتھ بستر کھلوا رہے تھے۔ لالہ جی نے انھیں سنا کر کہا کہ ایک ڈبہ پیچھے سے بند آ رہا ہے۔ شاید یہاں کھولا جائے۔ انکوائری کلرک کہہ رہے تھے کہ آپ کو وہاں شفٹ کر دیں گے۔
’’کیا یہ سیٹ آپ کی ہے؟‘‘ یکایک ایڈ کیٹ جنرل نے لالہ جی سے پوچھا۔
’’نہیں، مگر شاید آپ کو وہاں زیادہ آرام ملے اور تو کوئی بکنگ ہے نہیں یہاں سے۔ آپ ادھر چلے جائیں گے تو میں نیچے آ جاؤں گا۔‘‘
’’آپ کھلوائیے بستر۔‘‘ ایڈوکیٹ جنرل نے اپنے ساتھیوں سے جوذرا رک گئے تھے، قدرے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ جو ڈبہ پیچھے سے بند آ رہا ہے، وہ یہاں کھل ہی جائےگا، ’’اس کا کیا بھروسہ ہے۔‘‘
میں ڈبے میں چلا آیا تھا کہ لالہ جی سے کچھ کاروبار کا حال پوچھوں لیکن ایڈوکیٹ جنرل کی بات سنتے ہی اپنے جسم سے تقریباً مجھے ایک طرف ڈھکیلتے ہوئے لالہ جی جھپٹ کر باہر نکلے، انہوں نے خود گاڑی کا معائنہ کیا۔ ساتھ والی بوگی میں ایک ہی ڈبہ بند تھا، کھڑکیوں کے شیشے چڑھے تھے۔ لالہ جی نے دروازہ سے ہینڈل گھمایا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ ایک دو دھکے دیے مگر ذرا بھی نہیں ہلا۔ پھر وہ بھاگے بھاگے کھنہ کے پاس آئے، ’’میرے پیٹ میں درد ہے، مجھے رات کو دوچار بار اٹھنا پڑےگا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’وہ ڈبہ کھلوائیے۔ ورما تو وہیں آرام سے بستر بچھوا رہے ہیں۔‘‘
’’میں نے توا سٹیشن ماسٹر کو اطلاع دے دی تھی۔‘‘ کھنہ بولا، ’’یہاں سے جو سیٹیں بکڈ تھیں انہیں پیچھے سے خالی آنے والی سیٹوں پر جگہ مل گئی اور کوئی پسنجر تھانہیں، اس لیے شاید کسی نے توجہ نہیں کی۔‘‘ اور وہ لالہ جی کے ساتھ آیا۔ بند ڈبے کی کھڑکیوں کو اس نے کھٹکھٹایا، دروازے کا ہینڈل گھمایا۔ لالہ جی نے خود بڑھ کر زور سے ایک لات کواڑ پر جمائی، لیکن پھر بھی دروازہ نہ کھلا۔
’’اس کا شاید تالا بند ہے۔‘‘ کھنہ بولا، ’’آپ کو تو سیٹ مل گئی ہے۔ آپ جاکر آرام سے لیٹیے۔ کیوں پریشان ہیں؟‘‘
’’میرے پیٹ میں درد ہے۔‘‘ لالہ جی بولے، ’’میں بار بار اتر چڑھ نہیں سکتا۔ یہ ڈبہ یہاں کھلنا چاہیے۔‘‘ اور وہ سبھاش کی طرف پلٹے اور اسے حکم دیا، ’’سبھاش جاؤ، بھاگ کر گارڈ کو بلا لاؤ اور ڈبہ کھلواؤ۔‘‘ سبھاش بھاگا۔ لالہ جی نے قلی بلایا اور مجھ سے کہا کہ ذرا سامان اتروا لو اور خود ڈبے میں جا کر صراحی اتار لائے۔ گارڈ نے آکر دروازے میں چابی گھمائی، ’’تالا تو کھلا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ اب لالہ جی نے بڑھ کر پھر ہینڈل گھمایا اور پھر زور کی ایک لات دروازے پر جمائی۔ مگر دروازہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’یہ اندر سے بند ہے۔‘‘ کھنہ نے کہا۔ لالہ جی کھڑکی کی طرف آئے۔ سبھاش سے بولے کہ پچھلی طرف سے جاکر دروازہ کھولے ڈبے میں بالکل تاریکی تھی۔ کچھ بھی نظر نہ آ رہا تھا۔ انہوں نے کھڑکی کے شیشے سے منہ لگایا تو انہیں اسٹیشن کا عکس نظر آیا۔ ذرا پیچھے ہٹ کر انہوں نے پھر دیکھنے کی کوشش کی تو اپنا ہی دھندلا سا عکس انہیں شیشے میں دکھائی دیا۔ لیکن لالہ جی یوں شکست ماننے والوں میں نہ تھے۔ انہوں نے جیب سے چابی نکال کر میری طرف پھینکی اور بولے کہ ذرا سوٹ کیس سے ٹارچ نکالو اور خود کھڑکیوں پر دونوں ہاتھوں سے مکے مارنے لگے۔ اندر کسی قسم کی سن گن نہ ملی۔ اسی وقت سبھاش نے آکر بتایا کہ ادھر بھی دروازہ بند ہے اور کھڑکیوں کے شیشے چڑھے ہوئے ہیں۔
قلی سوٹ کیس باہر رکھ گیا تھا۔ میں نے سوٹ کیس کھول کر ٹارچ باہر نکالی اور لالہ جی کے ہاتھ میں دے دی۔ ٹارچ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ نیچے کی سب سیٹیں خالی ہیں، درمیانی پنکھا چل رہا ہے اور سامنے اوپر کی سیٹ پر کوئی شخص ایک دم برہنہ سو رہا ہے اور پھر دھڑادھڑ دروازہ اور کھڑکیاں پیٹی جانے لگیں۔ آگ کی طرح یہ خبر چاروں طرف پھیل گئی کہ فرسٹ کلاس کے ڈبے میں کوئی شخص ننگ دھڑنگ سویا ہے اور ڈبے کے آگے خاصی بھیڑ جمع ہو گئی۔ ایڈوکیٹ جنرل بھی اپنے ڈبے سے اتر آئے اور بھیڑ سے ذرا ہٹ کر بظاہر اپنے ساتھیوں سے باتیں کرنے لگے، مگر ایک آنکھ ان کی اس تماشے پر بھی تھی۔ کوئی اور تدبیر کارگر نہ ہوتی دیکھ کر لالہ جی نے ٹارچ کی روشنی اس شخص کے چہرے پر ٹکا دی۔ جب شور بڑھتا ہی گیا تو وہ شخص نہایت اطمینان سے اٹھا اور اس نے ایک کھڑکی کا شیشہ نیچے گرا دیا۔۔۔ بڑھی ہوئی داڑھی، الجھے ہوئے بال اور جسم پر تہ در تہ میل۔
’’کیوں پاگلوں کی طرح شور مچا رہے ہو؟‘‘ اس نے پر رعب لہجہ میں کہا، ’’ڈبہ ریزروڈ ہے۔‘‘
’’دروازہ کھولو!‘‘
’’دروازہ کھولو!‘‘
’’دروازہ کھولو!‘‘
ایک ساتھ لالہ جی، گارڈ اور کھنہ چلائے۔ پاگل نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اطمینان سے نچلی سیٹ پر بیٹھ کر اس نے ایک زور کی جماہی لی۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹ گیا۔ اسی وقت بھیڑ میں سے کسی نے چائے کا خالی کلہڑ کہیں سے اٹھاکر پاگل پر دے مارا اور پھر نہ جانے لوگ کہاں کہاں سے چائے کے خالی آبخورے لا لاکر اسے مارنے لگے۔ پاگل کو تو ایک آدھ ہی لگا، جس کا اس نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ لیکن زور سے سے کھینچ کر مارے جانے والے آبخورے کا ایک ٹکڑا کھڑکی کی سلاخ سے ٹوٹ کر ایڈوکیٹ جنرل صاحب کے منہ پر لگا۔ چنانچہ انہوں نے بھیڑ کی طرف خاص توجہ دی اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیجیے۔ پولیس کو بلوائیے ورنہ کسی آفت میں پڑ جائیےگا۔ آپ کو کیا معلوم کہ یہ شخص پاگل ہے۔ اگر محض کوئی شرابی ہوا تو؟ اور انہوں نے قانون کی کئی دفعات کا حوالہ دیا اور سمجھایا کہ یوں اینٹ پتھر مارنا جرم ہے۔
مجمع کا جوش ایک لمحہ کو کم ہوا تو گارڈ کو اپنا فرض یاد آیا۔ اس نے لالہ جی سے کہا کہ آپ کسی دوسرے ڈبے میں سامان رکھیے، گاڑی لیٹ ہو رہی ہے۔ اس کے جواب میں لالہ جی نے اسے خالص انگریزی میں ایک مختصر سا لکچر پلا دیا کہ وہ فرسٹ کلاس پسنجر ہیں۔ دوسرے ڈبے میں صرف اوپر کی سیٹ خالی ہے، ان کے معدے میں تکلیف ہے، اوپر کی سیٹ پر سونے میں انہیں نیز دوسرے مسافروں کو بڑی زحمت ہوگی۔ ریلوے کا فرض ہے کہ ڈبہ کھلوایا جائے اور انہیں نیچے کی سیٹ دلائی جائے۔
لوگ پاگل کے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ کچھ لوگ ایڈوکیٹ جنرل سے متفق تھے کہ وہ پاگل نہیں شرابی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کوئی نمبری بدمعاش ہے اور اس نے بے ٹکٹ سفر کرنے کا یہ طریقہ ایجاد کیا ہے۔۔۔ ہر شخص دروازہ کھلوانے کی تدبیریں کر رہا تھا۔ شور مچا رہا تھا، دھمکیاں دے رہا تھا۔ لیکن پاگل نہایت اطمینان سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے لیٹا ہوا تھا۔ پھر سبھاش کو جانے کیا سوجھی کہ اس نے یکایک کھڑکی کی سلاخوں سے منھ لگا کر کہا، ’’اوپر کی سیٹ اٹھا دو، ورنہ دروازہ کھل جائےگا۔‘‘ پاگل اٹھا اور اس نے اوپر کی سیٹ اٹھانے کی کوشش کی۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ سبھاش بولا، ’’سیٹ مت اٹھاؤ۔ وہ کونے کا بٹن دبا دو۔ پھر کوئی دروازہ نہیں کھول سکتا۔‘‘ اور پاگل نے بٹن دبا دیا۔ ڈبے میں روشنی ہو گئی۔ اب لوگوں کا جوش قابل دید تھا۔ سب اسی کوشش میں تھے کہ پاگل کسی طرح دروازے کی چٹخنی کھول دے۔ اس طرح گھما پھرا کر کہا گیا، لیکن پاگل نے اور سب باتوں پر عمل کیا۔۔۔ یکے بعد دیگرے ڈبے کی تمام بتیاں روشن کر دیں۔ پنکھا بند کر دیا۔ اوپر کی سیٹیں اٹھادیں۔۔۔ مگر چٹخنی نہ کھولی۔ اب لالہ جی نے اس کی خوشامد کی۔ اس سے کہا کہ ان کے پیٹ میں سخت درد ہے، اس کی بہت عنایت ہوگی، اگر وہ دروازہ کھول دے۔ پاگل نے ان کی اس خوشامد پر بھی کان نہ دیا تو انہوں نے یکایک جیب سے ایک روپے کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا اور بولے کہ دروازہ کھول دو، روپیہ ملےگا۔
پاگل نے کنکھیوں سے نوٹ کی طرف دیکھا پھر ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ لالہ جی نے بڑی خوشی سے نوٹ آگے بڑھایا۔ پاگل نے نوٹ لے لیا۔ دونوں ہاتھوں سے گول کرکے اس کا سگریٹ بنایا، ہونٹوں میں رکھ لیا اور آرام سے لیٹے لیٹے کش لینے لگا۔ مجمع نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ لالہ جی کھسیانے سے ہوکر اسے گالیاں دینے لگے۔ گاڑی لیٹ ہو رہی تھی۔ گارڈ نے سیٹی دی اور لالہ جی سے کہا کہ اپنا سامان رکھیں۔ وہ اور نہیں رک سکتا اور وہ اپنے ڈبے کی طرف بڑھا۔ بکتے، جھکتے لالہ جی نے قلی کو سامان پہلے والے ڈبے میں رکھنے کی ہدایت کی۔ ابھی سامان پوری طرح رکھا بھی نہ گیا تھا کہ گارڈ نے دوسری سیٹی دی۔ لالہ جی اچک کر ڈبے میں چڑھے۔ سبھاش نے انہیں صراحی دی ہی تھی کہ گاڑی چل دی۔
لالہ جی بہت کھسیائے ہوئے تھے۔ وہ کوئی بات چاہیں اور وہ نہ ہو، یہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ آزادی سے پہلے جب انگریز کا راج تھا اس وقت بھی لالہ جی کے جائز اور ناجائز سارے کام ہو جاتے تھے اور اب جب ملک کی حکومت گاندھی جی کے خاص بھکتوں کے ہاتھ میں تھی، انہیں کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہوتی تھی۔ تیل طمع جس کو ملے، ترت نرم ہو جائے۔۔۔ یہ مقولہ اسم اعظم کی طرح پشتہا پشت سے ان کے ہاں مستعمل تھا۔ لالہ جی کو اس پر بھگوان سے بھی زیادہ اعتقاد تھا۔ لیکن پاگل پر نہ خوشامد کا اثر ہوا تھا نہ لالچ کا۔ یکایک رینگتی ہوئی گاڑی میں سے انہوں نے سبھاش کو بلاکر اس کے کان میں آہستہ سے کہا، ’’جس طرح ڈبے کی بتیاں جلوائی ہیں اسی طرح زنجیر کھنچوا دو۔‘‘
سبھاش بھاگ کر پاگل والے ڈبے کے پاس گیا اور گاڑی ابھی پلیٹ فارم سے باہر بھی نہ ہوئی تھی کہ کھڑی ہو گئی۔ گاڑی رکتے ہی اس ڈبے کے سامنے پھر بھیڑ لگ گئی۔ سب سے پہلے لالہ جی وہاں پہنچے۔ ان کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑتی تھی۔ اتنے میں لپکتے ہوئے گارڈ اور اسٹیشن کے دوسرے بابو بھی وہاں پہنچ گئے۔ لالہ جی نے گارڈ کو سناکر کہا، ’’یہ تو اچھا ہوا کہ اس نے اسٹیشن پر ہی زنجیر کھینچ دی۔ اگر کہیں جنگل میں گاڑی روک دیتا تو؟‘‘
اب کے لالہ جی کی بات نشانے پر بیٹھ گئی۔ گارڈ نے گاڑی آگے لے جانے سے انکار کر دیا۔ پولیس بلوائی گئی۔ کھڑکی کی سلاخیں توڑی گئیں اور پاگل کو باہر نکالا گیا اور جب پولیس پاگل کو پیٹتے اور لوگ ترس کھاکر اس غریب کو چھڑانے اور گاڈر نیز اسٹیشن ماسٹر لیٹ ہونے کا سبب لکھنے لکھانے میں مصروف تھے، لالہ جی پھر کہیں سے اپنا سامان اتروا لائے۔ سبھاش قلی کی مدد سے نئے ڈبے میں سامان رکھوا رہا تھا کہ پاگل نے چلاکر کہا، ’’میں نے کوئی جرم نہیں کیا، فرسٹ کلاس کے خالی ڈبے میں اکیلا سفر کر رہا تھا، اندر سے دروازہ بند نہ رکھتا تو کوئی ڈاکو گھس نہ آتا!‘‘
بھیڑ نے زور سے قہقہہ لگایا، لیکن لالہ جی کا رنگ یکایک فق ہو گیا۔۔۔ ڈاکو۔۔۔ اکیلا۔۔۔ خالی ڈبہ۔۔۔
’’سبھاش! اس ڈبے میں سفر نہیں کریں گے!‘‘ یکایک وہ چلائے۔
’’سامان اسی ڈبے میں لے چلو۔‘‘ اور وہ خود ڈبے میں داخل ہوکر سامان باہر نکالنے لگے۔ ابھی سامان پوری طرح پہلے ڈبے میں واپس نہ رکھا گیا تھا کہ گاڑی چل دی۔ لالہ جی سامان رکھواتے، گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے۔ پولیس والے پاگل کو گھسیٹتے ہوئے اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کی طرف لے جا رہے تھے اورا سٹیشن ماسٹر ہوا میں ہاتھ ہلا ہلاکر چلا رہا تھا کہ وہ اس وقت تک اسے نہیں چھوڑ سکتا، جب تک ڈاکٹر یہ سرٹیفکیٹ نہ دےگا کہ یہ آدمی پاگل ہے۔ گاڑی کے اتنی لیٹ ہونے کی ذمہ داری تو آخر اسی کی ہے کہ لالہ جی کو گاڑی کے ساتھ گھسٹتے دیکھ کر پاگل نے کہا، ’’کیسا پاگل ہے؟ اس کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ فرسٹ کلاس کے ڈبے میں تنہا سفر نہ کرنا چاہیے۔ میں نہ بتاتا تو یہ میری طرح لٹ جاتا۔۔۔ دیکھیے۔‘‘ اس نے سپاہیوں اور اسٹیشن ماسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہجوم سے فریاد کی، ’’ان ڈاکوؤں نے ایک کپڑا بھی تو میرے تن پر نہیں رہنے دیا۔‘‘
ادھر گاڑی نے اسپیڈ پکڑی۔ خالی ڈبے کا دروازہ کھٹ سے بند ہو گیا۔ لالہ جی بڑے مضحکہ خیز انداز سے اچک کر اپنے ڈبے میں سوار ہو گئے اور پاگل نے پھر زور کا قہقہہ لگایا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.