خاموش شہید
کہانی کی کہانی
’’یہ ایک ایسےکسان کی کہانی ہے، جو فصل خراب ہونے کی وجہ سے لگان ادا نہیں کر پاتا ہے۔ اس کے بدلے میں زمیندار اس کے گھر کی قرقی کروا لیتا ہے۔ کسان اس کارروائی کے خلاف بھوک ہڑتال کرتا ہے اور اپنی جان گنوا دیتا ہے۔‘‘
’’شہیدوں کی چتاؤں پر لگیں گے ہر برس میلے‘‘
ٹھیک! لیکن کتنے ایسے شہید ہیں، جن کی چتاؤں پر میلے تو کیا، کوئی بھولا بھٹکا پنچھی بھی پر نہیں مارتا۔
شمبھو نے دل میں پختہ عہد کر لیا۔ میں لگان نہ دونگا۔
بارش نہ ہونے کی وجہ سے اس کی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ اس کا گھر مفلسی کا اڈا بن گیا تھا۔ اس کے بیوی بچے بھوک کی شدت سے موت کی طرف سرک رہے تھے۔ اس پرلگان کی عدم ادائیگی نے زمیندار کی سختیوں کو بھی دعوت دے دی تھی۔
لوگوں نے اسے بہتیرا سمجھایا۔ پڑوسیوں نے قرض لینے میں اس کی امداد کرنے کا وعدہ کیا۔ یہاں تک کہ گاؤں کے ساہوکار نے لگان کی رقم دو آنہ روپیہ کے معمولی سود پر دینی منظور بھی کر لی۔ لیکن شمبھو نہ مانا۔ اس نے کہا، ’’جس درخت کی جڑ ہی کٹ گئی ہو۔ وہ پھل کہاں سے لائیگا؟‘‘ اور اسی لئے نہ اس نے ساہوکار سے قرض لیا اور نہ لگان دیا۔
زمیندار کے کارندوں نے اس کی زمین چھین لی۔ جھونپڑی نیلام کر دی ۔ برتن بھانڈے بیچ ڈالے اور اسے بالکل بے خانماں برباد بنا ڈالا۔ وہ خاموش رہا۔ صبر کا گھونٹ پی کر برداشت کرتا رہا۔ اس نے ایک لفظ تک منہ سے نہیں نکالا۔ اس ظلم کے خلاف احتجاج کے طور پر اس نے بھوک ہڑتال کر دی۔ اور ہمسائے بھی اسے اس اقدام سے نہ روک سکے۔
شام کا وقت تھا۔ سردی زوروں پر تھی اور تند ہوا کے جھونکے جسم میں پیوست ہوئے جا رہے تھے۔
اس کی بھوک ہڑتال کو پندرھواں روز تھا۔ اور وہ سوکھ کر کانٹا رہ گیا تھا۔ لیکن اس پر بھی زمیندار کا من نہ پسیجا تھا۔ اس تک شائد اس بات کی خبر بھی نہ پہنچی تھی۔
اور اس وقت جب مغرب میں سورج غروب ہو رہا تھا۔ اور رات آہستہ آہستہ کائنات پر چھانے لگی تھی، آسمان کے سائبان تلے، فرش خاک پر ٹھٹھرتے ہوئے بھوکے بچوں کے درمیان، اس کی روح جسم کی قید سے آزاد ہو گئی۔
ہمسایوں نے اس کے جسم کو دریا کی نذر کر دیا۔ اس کی ارتھی کا کوئی جلوس نہیں نکلا۔ اخباروں میں اس کی اس قربانی کی خبر تک نہ چھپی۔ اور ملک تو کیا گاؤں تک میں اس کا ماتم نہ کیا گیا۔
کیا وہ شہید نہ تھا؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.