خالہ اتو
رشتہ داری تو ہماری ان سے بہت دور کی تھی مگر وہ جو مشل ہے کہ اپنے دور پڑوسی نیٹرے، تو ان کا گھر ہمارے گھر سے ملا ہوا تھا اور وہ سگی خالہ پھوپی سے زیادہ ہمارے ہاں دخیل تھیں اور اسی لیے وہ ہمیں بہت ناپسند تھیں۔ اماں ہمیں اتنا نہ ڈانٹتیں، خالہ اماں، چچی اماں اور پھوپھی اماں بھی اتنا برا بھلا نہ کہتیں مگر یہ ہماری خالہ اتو۔۔۔ افوہ۔۔۔ نہ پوچھیے صاحب! لڑکے لڑکیوں سے جیسے انھیں خدا واسطے کا بیر تھا۔ اٹھتے بیٹھتے، بات بے بات ٹوکنا، لعنت ملامت کرنا ان کا دل پسند شغل تھا۔ ہم بچے کسی اور کی بات پر برا مان جائیں، ناک بھوں چڑھالیں، منہ بسور لیں، کبھی کبھار الٹ کر جواب بھی دے لیں مگر خالہ اتو کی کڑوی باتیں شہد کے گھونٹ کی طرح حلق سے اتارنی پڑتی تھیں، اس لیے کہ اماں کی خفگی اور ناراضگی ہم لوگوں کو کسی طرح گوارا نہ تھی۔
اس وقت ہماری سمجھ میں بالکل نہ آتا تھا کہ آخر یہ ہماری اماں، خالہ اماں، چچا ابا وغیرہ ان چرمر، چرچڑی، بد دماغ بڑھیا کا اتنا پاس لحاظ کیوں کرتے ہیں۔ ہمیں ان میں کوئی بات بھی دل کش نظر نہ آتی، مگر ہمارے بزرگوں کا یہ حال کہ ان کے آتے ہی خاطرداریاں شروع ہو جاتیں۔ اتو ادھر بیٹھو، اتو پان کھاؤ، اتو کھانا کھالو، جی کیسا ہے؟ انوار کا خط آیا یا نہیں اور اتو بی ہیں کہ (سوا ہماری اماں کے جو عمر میں ان سے بڑی تھیں اور ان کا لحاظ بھی کرتی تھیں) کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتیں۔ ہر سوال کا جواب ایسا دیتیں جیسے ٹکڑا توڑ کر ہاتھ میں پکڑا دیا ہو اور تو اور، ہمارے چچا ابا اور بڈھے چچا جان جن سے سبھی ڈرتے اور رعب مانتے تھے، ان کو بھی دس باتیں سناکر رکھ دیتیں اور وہ ہنس ہنس کر جھیل جاتے۔
زمانہ گزرتا گیا۔ وہ گھر، وہ عزیز، وہ شہر چھوٹ گیا۔ اپنے پرائے ہو گئے، غیر اپنے بن گئے۔ بہت سی بچپن کی تلخ و شیریں یادیں ماضی کا بھلایا افسانہ بن گئیں مگر خالہ اتو ان چند ہستیوں میں ہیں، جن کی یاد اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی دل کے کسی کونے میں باقی رہ گئی۔ آج ان کی سیرت کی دل کشی اور شخصیت کا حسن میرے ذہن کے آئینے میں صاف نظر آتا ہے۔ اب میں سمجھ سکتی ہوں کہ میرے حساس درد مند بزرگ ان چڑچڑی، بد دماغ، بد مزاج بڑھیا کی اتنی عزت، اتنا خیال کیوں کرتے تھے۔
ان کا اصلی نام کیا تھا، یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ ہم نے تو ہر آئے گئے، بڑے چھوٹے، مرد عورت کو ان کے اسی لاڈ کے نام سے پکارتے سنا۔ بچے خالہ پھوپی، نانی دادی آگے یا پیچھے لگا لیتے۔ مرد بی کا اضافہ کر دیتے۔
اپنے نام ہی کی طرح وہ بے حد مختصر تھیں۔ کوئی سوا چار فٹ کا قد، دبلی ایسی کہ پھونک مارو تو اڑ جائیں۔ چھوٹے چھوٹے جھریوں بھرے ہاتھ پیر اور چھوٹا سا گول چہرہ، جس پر یہ بڑی بڑی چمک دار آنکھیں۔ جب وہ ہم لڑکیوں کو گھورتیں تو جان نکل جاتی۔ (آج میں سوچتی ہوں کہ ان کی ساری شخصیت ان ہی آنکھوں میں تھی) لمبی سی نوک دار ناک۔ ہمیشہ سفید موٹے ململ کا کرتا اور دوپٹہ اور چھینٹ کا تنگ مہری کا پاجامہ (جی ہاں وہی جو آج کل جدید ترین فیشن سمجھا جاتا ہے) پہنتی تھیں۔ چوٹی اتنی کسی ہوئی گندھی ہوتی اور سفید بال اتنے جمے ہوئے کہ کیا مجال ایک بال اڑ کر منہ پر آ جائے۔ پاؤں میں بیٹھی ایڑی کی کامدار جوتیاں (وہی جو آج کل الٹراماڈرن لڑکیاں بڑے فخر سے پہنتی ہیں) سر پر اکثر ایک کالا بڑا سا رومال جسے ’’قصابہ‘‘ کہتے تھے، بندھا رہتا۔ انگلیوں کے پوروں اور پاؤں کے ناخونوں پر مہندی اکثر لگاتیں تھیں۔ کہتیں سفید ناخونوں والے اٹھے ہاتھوں کی دعا اللہ میاں قبول نہیں کرتے۔ (مگر سوچتی ہوں ان بچاری ہی کی کون سی دعا قبول ہوئی!)
میں نے انھیں ہمیشہ اسی حلیے میں دیکھا۔ البتہ سنا ہے کہ جوانی میں جب وہ میاں کی لاڈلی اور سسرال والوں کی چہیتی تھیں تو زیوروں میں گوندنی کی طرح لدی رہتیں۔ مشروع اور زری کے فرشی پاجامے اور حیدرآبادی جال کے کرتے پہنا کرتی تھیں۔ طنطنہ وہ تھا کہ بڑی سی بڑی امیر زادی کو خاطر میں نہ لاتیں، نہ کسی سے سیدھے منہ بات کرتیں۔ بزرگوں نے قحط کے زمانے میں جو چھوکری چھوکرے خریدے تھے، ان کی اولاد اب بھی خاندان میں موجود تھی۔
ان کو بعض لوگ نوکر سمجھتے، کچھ خدا ترس اپنے بچوں کی طرح خیال کرتے، مگر خالہ اتو کے نزدیک وہ زر خرید لونڈی غلام تھے۔ ان پر ایسے ظلم ڈھاتیں کہ سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کسی کا ہاتھ دسپنے سے داغ دیا، کسی کو بید سے اتنا مارا کہ بے ہوش ہو گیا۔ مگر مزے کی بات یہ تھی کہ پھر وہی ہاتھ مرہم لگاتے، سینکائی کرتے، دوا پلاتے اور ان بدنصیبوں کو (جن کو نہ اس وقت پنے حق کی خبر تھی نہ خودداری کا احساس، نہ یہ معلوم کہ سب انسان برابر ہیں اور اس دور میں نہ کوئی لونڈی ہے نہ غلام) وہ اتنا دیتیں کہ شکایت کرنے کی جگہ الٹی ان کی تعریف کرتے۔
یہ سب تو سنی سنائی باتیں تھیں مگر اپنے ایک پرانے ملازم کی کم سن بیوی کو بےدردی سے مارتے اور گالیاں دیتے ہم نے خود دیکھا تھا۔۔۔ اس لڑکی کو ان سے سخت نفرت تھی اور وہ ادبدا کر ایسی باتیں کرتی کہ خالہ اتو کو غصہ آئے۔ مار کھانے کے بعد وہ ہم لوگوں میں بیٹھ کر ان کو ایسے ایسے کوسنے دیتی کہ اگر ایک بھی اللہ میاں سن لیتا تو بچاری خالہ اتو کا پتہ بھی نہ چلتا۔ ہم لڑکیاں سب بجائے اپنی خالہ اتو کے اس لڑکی کے ہم رازاور ہم خیال تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ چپکے سے اپنے میکے بھاگ گئی تھی مگر اس کا شوہر آخر دم تک ان کے ساتھ رہا۔
وہ غریب گھرانے کی لڑکی تھیں مگر کم سنی ہی میں ایک کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہ ہو گیا تھا۔ ان کے میاں وہاجو ان سے عمر میں بہت بڑے تھے۔ کسی چھوٹی سی تحصیل میں تحصیل دار تھے اور ’’اوپر کی آمدنی‘‘ اتنی تھی کہ رئیسانہ ٹھاٹ باٹ سے زندگی گزارتے۔ خالہ اتو جب تک ناسمجھ رہیں، زیوروں، ریشمی کپڑوں، مرغن کھانوں سے بہلائی جاتی رہیں اور یہ سمجھتی رہیں کہ میاں ان پر دل و جان سے فدا ہیں۔ مگر چند سال بعد ان پر میاں کا پردہ فاش ہو گیا کہ ان کے پاس باقاعدہ ایک طوائف ملازم رہتی ہے۔ دو چار برس خون کے گھونٹ پی پی کر، میاں اور ناجائز سوکن کو گالیاں دے دے کر، انھوں نے کسی نہ کسی طرح کاٹ دیے، مگر جب یہ سنا کہ میاں نے کسی طوائف کی ایک کم سن لڑکی سے نکاح کر لیا ہے تو ان کی برداشت کی قوت ختم ہو گئی۔
زیور نوچ کر پھینک دیے، چوڑیاں سل کے بٹہ سے چکنا چور کر دیں، ناک سے لونگ اتار ڈالی اور رنگین دوپٹہ پھینک کر سفید دوپٹہ اوڑھ لیا اور اعلان کر دیا کہ ’’وہ بندی رانڈ ہو گئی۔‘‘ (ہمارے ہاں بیویاں جب کسی کی بری بات نقل کرتیں تو سب کی جگہ ’’وہ بندی‘‘ کہا کرتی تھیں) اور اپنے چار سال کے بچے کو لے کر میکے کی ٹوٹی پھوٹی حویلی میں آن بسیں۔۔۔ وہی جو ہمارے گھر سے ملی ہوئی تھی۔
سنا ہے کہ سارے خاندان والوں نے سمجھایا، طرح طرح کے زور ڈالے گئے، خود میاں نے ہاتھ پیر جوڑے کہ انھیں معاف کردیں اور اپنے گھر چل کر رہیں۔ خاندان پر انھیں کی حکومت ہوگی۔ سیاہ و سفید کی مالک وہی رہیں گی۔ دوسری بیوی کبھی گھر میں نہ لائی جائےگی۔ مگر وہاں تو ایک ناں نکل گئی تو بس نکل گئی۔ دوسری بار جب میاں آئے تو انھوں نے دروازہ بند کر لیا، ’’کوئی مُوانا محرم میرے گھر میں نہ آئے۔‘‘
سسرال والے پہلے ہی سے خار کھائے ہوئے تھے۔ بہت سے لوگ محض پیسہ اور اقتدار کی وجہ سے خوشامد میں لگے رہتے تھے۔ اب انھوں نے میاں کو بھڑکانے کا فرض ادا کرنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میاں نے نہ صرف خرچہ بند کردیا بلکہ لڑکے کو بھی زبردستی چھین کر لے گئے اور اب پچھلے تیس سال سے وہ اس اجاڑ گھر میں تن تنہا رہی تھیں۔
چند سال بعد ان کے میاں مر گئے اور ان کی چھوٹی دولت دوسری بیوی اور ان کے نابالغ بچے میں بٹ گئی۔ لڑکا دادھیال میں پلتا رہا اور کبھی کبھار ماں سے ملنے کے لیے آ جاتا۔ ان کے دالان کے ایک کونے میں کالی روشنائی میں چھوٹے سے ایک ہاتھ کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ ان کے گھر پر جب دو چار سال میں قلعی ہوتی تو وہ حصہ خالہ اتو کے حکم سے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ہم اکثر ان کے گھر میں سے ہوکر گزرا کرتے۔ ایک راستہ ہمارے نانا کے گھر نکلتا تھا اور اس طرح چوں کہ رستہ بہت چھوٹا ہو جاتا تھا تو ہم بچے ان کی ڈانٹ ڈپٹ، لعنت ملامت کے باوجود دن میں دو چار بار ان کے صحن میں سے گزرتے تھے۔ صحن کے بیچوں بیچ لوہے کے کٹہرے سے گھری ایک پکی قبر تھی، جس کے سرہانے ایک طاق میں بجھا چراغ رکھا رہتا تھا اور جمعرات کی جمعرات یہ چراغ جلا کرتا تھا۔
(ایسی قبریں ہمارے پانی پت میں بہت سے گھروں میں تھیں، کسی کے ہاں کوئی کوٹھری ’’شہید صاحب‘‘ سے موسوم ہوتی، کہیں دالان کا کوئی کونا، کہیں صحن میں اور کہیں دروازے میں کوئی نہ کوئی شہید صاحب موجود تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ سید زادے کا فروں کے ہاتھ شہید ہوئے تھے۔ کبھی کبھار کسی لڑکی، کسی بڑی بی، کسی ضعیف الاعتقاد بڑے میاں کو یہ شہید صاحب نظر بھی آ جاتے تھے۔)
خالہ اتو کا حکم تھا کہ ہم جب ان کے صحن سے گزریں، شہید صاحب کو سلام کر کے گزریں۔ چنانچہ ہم لوگ جھک جھک کر کھڑکی میں سے صحن میں قدم رکھتے اور گلا پھاڑ کر چلاتے، ’’شہید صاحب سلام، شہید صاحب سلام۔۔۔‘‘ ایسے میں کبھی کبھی میں نے یہ دیکھا کہ وہ دیوار کی طرف منہ کیے اسی ہاتھ کے نشان کو بیٹھی تک رہی ہیں اور ان کی بڑی بڑی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو ڈھلک کر ان کے سفید ملگجے دوپٹہ میں گر رہے ہیں۔ مگر جیسے ہی وہ ہم لوگوں کی آوازیں سنتیں، جانے آنسو اور چہرے کی نرمی کہاں غائب ہو جاتی اور وہ حسب عادت نصحیت فضیحت کے تیر برسانا شروع کر دیتیں۔ میرے ساتھی اس تیزی سے اس میدان جنگ کو پار کر کے دوسری طرف پہنچ جاتے، مگر میں حیران پریشان کسی سوچ میں کھڑی رہ جاتی اور وہ کڑک کر پوچھتیں، اے لڑکی۔۔۔ کیا دیکھ رہی ہے کھڑی۔۔۔ جا۔۔۔ ماں کے پاس۔
ان کا بیٹا باپ کے مرنے کے بعد ماں کے ساتھ رہنے لگا تھا مگر جوان ہوکر جائیداد اور روپے کا مالک بنا تو باپ سے چار ہاتھ آگے نکلا۔ مگر ماں کو دھوکا دینے میں اس کا جواب نہ تھا۔ جنھوں نے دنیا میں کسی سے دھوکا نہ کھایا تھا، کسی سے ہار نہ مانی تھی، وہ مامتا کا فریب کھاتی رہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خاندان میں لڑکے عام طور پر بی۔ اے۔، ایم۔ اے۔ کرنے لگے تھے۔ ان کی بڑی تمنا تھی کہ ان کا اکلوتا بیٹا بھی اعلیٰ تعلیم پائے مگر اس نے خاک بھی پڑھ کر نہ دیا۔ دھڑا دھڑ فیل ہوتا اور ماں سے کہتا سب اسکول کے ماسٹر میرے دشمن ہیں، میری دولت اور ذہانت سے جلتے ہیں اور اسی لیے مجھے فیل کر دیتے ہیں۔ مصاحبوں اور ارباب نشاط پر رویپہ لٹاتا اور ماں کو یقین دلاتا کہ فلاں یتیم خانے، فلاں اسکول، فلاں بیوہ کو اتنا اتنا روپیہ دیا ہے اور وہ بیٹے کی باتوں پر آنکھ بند کر کے یقین کر لیتیں۔
ہمارے چچا ابا ان کے رشتے کے بھائی اور اور ایک طرح سے سرپرست تھے۔ وہ لاکھ انھیں سمجھاتے مگر بیٹے کا کوئی عیب ان کو نظر نہ آتا، سوا اس کے کہ ’’بھولا ہے میرا بچہ۔‘‘ اور پھر ایک دن یہ صاحب زادے ساری جائداد اونے پونے بیچ باچ تیس چالیس ہزار روپیہ لے کر کسی دوسرے شہر چلے گئے اور بدنصیب ماں پھر اکیلی رہ گئی! جس طرح میاں کی بےوفائی کے بعد انھوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا، اسی طرح بیٹے کی اس حرکت کے بعد پھر نہ انھوں نے کبھی اس کا نام لیا نہ منھ دیکھا۔ مامتا سے لاچار ہوکر کبھی کبھار ہاتھ کے اسی نشان کو ضرور پیار کر کے رو پڑتی تھیں۔
یہی زمانہ تھا جب ہم لوگوں نے انھیں دیکھا۔ زندگی کا ہر سہارا ٹوٹ چکا تھا، ہر امید خاک میں مل چکی تھی، غرور پامال ہو گیا تھا۔ نہ باپ بھائی، نہ شوہر نہ بیٹا، نہ پیسہ نہ جائداد۔ باپ کی تھوڑی سی زمین تھی جس سے چند من دانے اناج کے آ جاتے تھے۔ کچھ اناج بیچ کر اوپر کا دال چٹنی کا خرچ چلاتیں، باقی روکھی سوکھی کھانے کا سہارا تھا ہی۔ مگر رسی جل گئی بل باقی تھا۔
آن بان اور طنطنہ وہی تھا۔ کسی عزیز سے مدد لینے پر کبھی تیار نہ ہوئیں۔ دو وقت کا فاقہ گزر جائے مگر کیا مجال کہ محلے پڑوس والوں کی کان میں اس کی بھنک پڑنے پائے۔ جب کچھ نہ ہوتا تو ادھ جلی لکڑیوں پر ہانڈی میں پانی بھر کے چڑھا دیتیں کہ آتے جاتے لوگ سمجھیں کھانا پک رہا ہے۔ یوں وہ دن دن بھر ہمارے ہاں بیٹھی رہتی تھیں، اس لیے کہ ہماری اماں کو وہ بہت چاہتی بھی تھیں اور مانتی بھی تھیں۔ مگر جب ایسی صورت ہوتی تو وہ کئی کئی دن نظر نہ آتیں۔ شاید اسی سے اماں صورت حال سمجھ جاتی ہوں گی۔ کبھی کبھی میں دیکھتی کہ اماں اپنی چادر یا دوپٹہ میں کچھ چھپاکر ان کے گھر جا رہی ہیں تو میں بھی ساتھ ہو لیتی۔ (میں اتنی چھوٹی تھی کہ وہ غالباً یہ سوچتی ہوں گی کہ یہ کیا سمجھےگی۔ ان بچاروں کو کیا خبر تھی کہ برسوں بعد اسی کے ہاتھوں ان کا بھانڈا پھوٹےگا)
میں دیکھتی کہ اماں ہزار ہزار خوشامد کرکے اور کبھی کبھی ڈانٹ کر، اپنی جان کی قسمیں دے کر ان کو اپنے ہاتھ سے نوالے بنا بناکر کھلا رہی ہیں اور خالہ اتو کے ماتھے پر بل ہیں، آنکھوں میں آنسو مچل رہے ہیں اور نوالہ اس طرح چبا رہی ہیں جیسے کڑوی نیم کی پتیاں۔ ان کی خود داری اگر کبھی ہار مانتی تھی تو اپنی اسی بڑی بہن سے۔
ہمارے رشتے کے بڈھے چچا جان ان کے بھی کسی رشتے سے بھائی ہوتے تھے اور دونوں بچپن میں ساتھ کھیل کود کر بڑے ہوئے تھے۔ ان کو اپنی اس بہن پر رحم بھی بہت آتا تھا اور غصہ بھی۔ مولوی آدمی تھے۔ بڑے بارعب ثقہ پرہیزگار۔ وہ آتے تو بڑے بچے سب مؤدب ہو جاتے تھے۔ مگر واہ ہماری خالہ اتو۔ ان کو وہ وہ سناتی تھیں کہ توبہ ہی بھلی۔ گالیاں تو ان کا تکیہ کلام ہی تھیں اور جس فیاضی سے وہ ان مذہبی عالم اور مولوی پر ان کو لٹاتی تھیں وہ ہم بچوں کو دم بخود کرنے کے لیے کافی تھا۔ خالہ اتو بھری جوانی میں میاں سے الگ ہوئیں اور پھر بیوہ ہو گئیں۔ ان کے ان مولوی بھائی کا شروع سے یہ خیال تھا کہ انھیں نکاح ثانی کرنا چاہئے۔ بار بار انھوں نے سمجھایا، اصرار کیا مگر خالہ اتو ان کی کان کو آ گئیں۔ اب تو خیر دونوں ہی کا بڑھاپا تھا اور وہ محض چھیڑنے کے لیے ان سے ایسی باتیں کہہ کر گالیاں کھاتے تھے۔ جانے ان بڑے میاں کو بہن کی گالیاں کھانے کا کیا شوق تھا۔ اچھی خاصی سنجیدہ باتیں ہورہی ہیں کہ انھوں نے شوشہ چھوڑا، تو تو نکاح کرلے نا۔۔۔ بس جیسے بارود میں کسی نے دیا سلائی لگا دی۔ خالہ اتو کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگتے اور منھ سے گالیوں کے انگارے برسنے لگتے۔
مگر مولوی صاحب بجائے برا ماننے کے بیٹھے ہنستے رہتے تو وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر آتیں، ’’بھینا کا نکاح کرا۔۔۔ میا کا کرا۔۔۔‘‘ (واضح رہے کہ یہ بوڑھی کھوسٹ ’’میاں، بھینا‘‘ خود خالہ اتو کی بھی خالہ اور بہن تھیں) مولوی صاحب بھی مولوی ٹھیرے۔ ہنس کر کہتے، ’’ہاں ہاں کیا ہرج ہے۔ شرع میں کیسی شرم؟‘‘ تو وہ اور بھی آپے سے باہر ہو جاتیں، ‘‘ بے شرم۔ بےغیرت۔ ڈوب مرچلو بھر پانی میں۔‘‘ اور پھر آخری ہتھیار یہ ہوتا، ’’بلا۔۔۔ مولوی کو۔۔۔ میں تو تیرے ساتھ نکاح کروں گی۔‘‘ وہ ان کو سچ مچ سگا بھائی سمجھتی تھیں اور اس سے بڑی گالی وہ انھیں نہ دے سکتی تھیں۔ مولوی صاحب کی گردن جھک جاتی اور اماں ان کو تنبیہ کرتیں، ’’کیا ہو گیا ہے تمھیں۔۔۔ کیوں اسے باؤلی بنا رہے ہو دکھیا کو۔‘‘ اور وہ ہنس کر کہتے، ’’اس کا تو دماغ چلا ہوا ہے بھاوج۔‘‘ اور خالہ اتو کے آنکھوں کے شعلے پانی بن جاتے۔۔۔ اور پھر سب دم بہ خود رہ جاتے۔
اور ہماری ان خالہ اتو نے بیوگی اور بےسہارگی کے پچیس تیس سال اس آن بان سے گزار دیے کہ کسی سے مدد نہ لی۔ کسی کا احسان نہ اٹھایا اور اس بے مائگی میں بھی دوسروں کی مدد کرنے اور اس کے علاوہ ہاتھ پاؤں سے خدمت کرنے کے لیے ہر وقت تیار اور آمادہ رہتیں۔
جی ہاں۔۔۔ یہ تھیں ہماری خالہ اتو، جن کی ذرا سی جھلک آپ نے دیکھی۔ آج سننے میں وہ عجیب و غریب قسم کی عورت معلوم ہوتی ہیں۔ وہ ماضی کے اس دور کی پیداوار تھیں جب عورت کو جان سے زیادہ آن پیاری ہوتی تھی۔ حیا اور خود داری اس کا زیور اور بد دماغی اور بد مزاجی اس کے وہ ہتھیار تھے جن سے وہ نہتی، بےسہارا عورت اپنی عزت آبرو کی حفاظت کرتی تھی۔ اگلے وقتوں کی یہ وہ ہستیاں تھیں جن کی کمزوریوں میں خوبیاں، جن کی سختی میں نرمی چھپی ہوتی تھی، جن کو افلاس اور مصیبت میں بھی خودداری اور خود اعتمادی کی دولت میسر تھی۔
ماضی کے یہ سانچے ٹوٹ چکے۔ یہ حقیقتیں کہانیاں بن گئیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.