Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خاموشیاں

نیلم احمد بشیر

خاموشیاں

نیلم احمد بشیر

MORE BYنیلم احمد بشیر

    چونکہ ہم دونوں اکٹھی اندر لائی گئیں تھیں اس لئے مجھے اس سے خواہ مخواہ ہی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ دونوں ایمبولینس رکیں تو ہسپتال کے وارڈ بوائے جلدی جلدی آگے بڑھے، ہم دونوں کے سٹریچروں کو اٹھایا اور جلدی جلدی ہمیں آئی سی یو کی طرف لے کر بھاگے۔

    مجھے میرے اسی پرانے دمے کے اٹیک نے وہاں لا پٹخا تھا جس نے میری زندگی اجیرن کر رکھی تھی اور میں اکثر تکلیف میں رہا کرتی۔ مہینہ دو مہینہ بعد ایک زبردست قسم کا اٹیک اس شدت کا آ جاتا کہ میرے گھر والوں کو مجھے ہسپتال لے جانا پڑتا۔ وہاں مجھے کچھ روز رکھا جاتا۔ دوائیاں، ٹیکے، گلوکوز، آکسیجن اور پتہ نہیں کیا کچھ کیا جاتا تب کہیں جا کر میری حالت سنبھلتی اور میں دوبارہ نارمل ہو کر گھر روانہ ہو جاتی۔ بس یہی تھی میرے اس مرض کی نوعیت اور صورتِحال جس نے اس روز بھی اپنی پوری طاقت سے مجھ پر حملہ کر کے مجھے تقریباً ڈھیر ہی کر دیا تھا۔

    سانس تھا کہ جیسے سینے میں کسی نے ماچس کی تیلی سلگا کر چھوڑ دی ہو۔ تیز جلن کے ساتھ ساتھ سارے جسم میں کھنچاؤ، چکراتے ہوئے سر اور اعصاب کے تناؤ سے حالت کافی خراب ہو گئی تھی۔ گھر میں میری بیٹی زیبی جو اتفاق سے اس وقت میرے پاس ہی موجود تھی نے مجھے ایک ٹرینکولائزر دے دیا تھا تاکہ میں ذرا پرسکون ہو جاؤں۔ اسی وجہ سے ہسپتال پہنچنے تک میں نیم غنودگی کی سی کیفیت میں مبتلا تھی۔ ادھ کھلی آنکھوں سے ہی میں نے دیکھا کہ مجھے اور اُسے، دونوں کو سٹریچرز پر ڈال کر جلدی جلدی آئی سی یو کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔

    آئی سی یو وارڈ ویسے تو ایک بڑا سا ہال نما کمرہ تھا مگر اس میں باریک پردے ڈال کر مریضوں کے لئے علحٰیدہ علحٰیدہ حصے بنا دیئے گئے تھے۔ اتفاق سے وہ میرے ساتھ والے سیکشن کے بیڈ پر ہی لٹائی گئی تھی یعنی ہم دونوں اب ہمسایہ بھی تھیں۔

    میں سونے جاگنے، پلکیں جھپکنے کے بیچ اتنا اندازہ تو لگا چکی تھی کہ وہ گورے چٹے رنگ کی چالیس بیالس سالہ مضبوط جسم کی عورت تھی مگر اسے تکلیف کیا تھی؟ اتنا جاننے کی ابھی خواہش نہیں جاگی تھی کیونکہ اس وقت میں خود بےحد تکلیف میں مبتلا تھی۔

    وہ بالکل بے جان سی وہاں لیٹی ہوئی تھی اور زندگی کی کوئی رمق اس میں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ رات ہونے کو تھی۔ ڈاکٹروں نے دوائیوں کا ایک انبار میرے لئے تجویز کیا تھا جن میں سے کچھ مجھے اُسی وقت دے دی گئی تھیں، جس سے میرا سانس کچھ قابو میں آنے لگا تھا۔ میں سونے کی کوشش کرنے لگی مگر میری ناک پر لگے ہوئے آکسیجن ماسک کی وجہ سے بےچینی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بالآخر میں کچھ دیر کو اونگھنے میں کامیاب ہو ہی گئی اور رات اسی طرح گذر گئی۔

    صبح آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میری بیٹی زیبی میرے سرہانے موجود تھی۔ وہ اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے کے بعد گھر جانے کی بجائے سیدھا میرے پاس ہی آ گئی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے بات چیت کرنے سے منع کر رکھا تھا اس لئے ہم دونوں ماں بیٹی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کیں بلکہ زیادہ تر زیبی نے ہی باتیں کیں۔

    زیبی حسب معمول خوشگوار موڈ میں تھی۔ اس کی ہمیشہ سے ہی یہ عادت رہی ہے کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ ہنسنا مسکرانا نہیں چھوڑتی بلکہ ایسے ایسے چٹکلے چھوڑتی ہے کہ دوسرا مکمل سنجیدگی کے باوجود ایک بار تو ضرور کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے۔ بڑی پیاری عادت ہے میری بیٹی کی، جیسی وہ خود ہے۔

    ساتھ والی مریضہ کے سیکشن سے ایک پریشان صورت خاتون باہر نکل رہی تھی۔

    ’’کیا ہوا ہے انہیں؟‘‘ زیبی نے اخلاقاً پوچھا

    ’’ہارٹ اٹیک ہوا تھا چارو روز پہلے۔ میری بڑی باجی ہیں یہ۔ کچھ عرصے سے انہیں کچھ اٹیک سے ہونے لگے تھے۔ کبھی کبھی تو بالکل ہوش کھو دیتی ہیں۔ اب تین روز سے کومے میں چلی گئی ہیں۔ پتہ نہیں کیا ہوا ہے؟ ڈاکٹرز بھی ٹیسٹ پر ٹیسٹ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ابھی تک ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں ہوئی۔‘‘

    اس کے چہرے پر دکھ کی پرچھائیاں رینگنے لگیں۔ اس نے زیبی سے میرا حال پوچھا تو وہ اسے میری داستانِ غم سنانے لگی۔ ڈیوٹی نرس نے میری ڈرپ میں سے ٹپکتے قطروں کی رفتار کو تھوڑا اور تیز کر کے خاتون سے اس کی بہن کے بارے میں بات چیت شروع کر دی۔

    ’’ان کے ہزبینڈ بچے وغیرہ؟‘‘ نرس نے سوال کیا

    ’’باجی پروفیسر ہیں، کالج میں پڑھاتی ہیں۔ بس پڑھانے کا اتنا جنون تھا کہ سمجھیں شادی کرنے کا وقت ہی نہیں ملا اور وقت نکل گیا۔ اب یہ میرے ساتھ ہی رہتی ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

    مجھے کمزوری محسوس ہو رہی تھی اس لئے میں نے تھک کر آنکھیں موند لیں اور گزری ہوئی رات کے بارے میں سوچنے لگی۔ کتنی بھیانک رات تھی وہ۔ میرا سانس کیسے اکھڑ اکھڑ جاتا تھا۔ آئی سی یو کے مختلف انکلوژرز میں لیٹے ہوئے مختلف امراض میں گرفتارمریضوں کی آہیں کراہیں اور درد میں لپٹی ہوئی ہسپتال کی بوجھل فضا۔ ہسپتال کا ماحول مجھے کبھی اچھا نہیں لگتا مگر افسو س کہ ایسا روگ جان کو آ لگا ہے کہ ہر مہینہ دو مہینہ بعد مجھے وہاں پہنچا کر ہی چھوڑتا ہے۔

    ’’گڈ مارننگ... کیسی ہیں آپ؟‘‘ مارننگ راؤنڈ پر آئے ہوئے ڈاکٹر کی زندگی سے بھرپور آواز سن کر میں نے ہولے سے آنکھیں کھول دیں۔ ڈاکٹر کے ساتھ ایک نرس اور غالباً ایک لیب ٹیکنیشن تھا کیونکہ اس کے ہاتھ میں بلڈ ٹیسٹ کرنے کا پورا سازوسامان موجود تھا۔ اس کا سفید کوٹ ڈاکٹر کے سفید کوٹ کی نسبت قدرے ملگجا سا تھا۔

    ’’اوہ نو... بلڈ ٹیسٹ؟‘‘ میں نے برا سا منہ بنا کر سوچا اور اپنا بازو چپکے سے آگے کر دیا، اس کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا۔

    میرے بعد وہ لوگ میرے ساتھ والی پروفیسر کے بیڈ کی طرف بڑھ گئے اور غالباًاس کا حال چال معلوم کرنے کے بعد ٹیسٹ کے لئے اس کا بلڈ لینے میں مصروف ہو گئے تھے۔ پتہ نہیں کیوں میں پھرسے غنودگی کے سمندر میں غوطے کھانے لگ گئی تھی۔ چونکہ آئی سی یو میں لواحقین کو زیادہ دیر ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی اس لئے زیبی کچھ دیر ٹھہر کے پھر آنے کا کہہ کر چلی گئی۔دن جیسے تیسے گذر ہی گیا۔ سارا دن آکسیجن ماسک کے سہارے سانس لیتے لیتے میری طبیعت بیزار ہو گئی تھی مگر میں حوصلے کے ساتھ پھر بھی برداشت کرتی رہی۔ دن میں میرے گھر والے ایک دو بار آئے، مجھے دیکھ کر تسلیاں دے کر پھر چلے گئے۔

    ظالم رات پھر آ گئی اور وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ سانس پھر بے قاعدہ ہو گیا۔ سینے میں دھونکنی سی چلنے لگی اور درد کے مارے پسلیاں چٹخنے لگیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ایک سیلاب میرے سینے میں رکا ہو اور اچھل اچھل کر میرے سینے کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے درپے ہے۔ ڈاکٹروں نے پھر ڈھیر ساری دوائیاں مجھے دیں جن کی وجہ سے حالت کچھ کنٹرول ہو گئی مگر نیند پھر بھی نہیں آ رہی تھی۔

    سکون آور گولیاں پھانکنے کے بعد کچھ غنودگی سی طاری ہونا شروع ہو گئی مگرمیرا ذہن پرانا پاپی ہے، مکمل سپردگی اس کا وصف نہیں، اس لئے بیچ بیچ میں سے جاگتا رہا۔ ادھ سوتے ادھ جاگتے کی سی کیفیت کے درمیان بھٹک رہا تھا۔ آنکھیں موند کر میں نے اپنا دھیان زیبی اور اس کے بچوں کی طرف لگا دیا۔

    رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب میری آنکھ خود بخود کھل گئی۔ میری نیم خواب آنکھوں نے دیوار پر لگی گھڑی سے ٹائم دیکھنے کی کوشش کی مگر کمرے میں ادھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ نظر نہ آ یا۔ اچانک میری نظر آئی سی یو وارڈ میں چلتے سفید کوٹ میں ملبوس ایک ہیولے پر جا پڑی، وہ میری ہی طرف آ رہا تھا۔ ذرا سا قریب آیا تو میں نے اسے پہچان لیا۔ یہ وہی صبح والا لیب ٹیکنیشن تھا جس نے میرا بلڈ ٹیسٹ کیا تھا۔ غالباً سب مریض سوئے ہوئے تھے کیونکہ کمرے میں کسی قسم کی کوئی آواز یا آہٹ سنائی نہیں دے رہی تھی۔

    ’’اوہ نو... یہ بلڈ ٹیسٹ کا کون سا وقت ہے؟‘‘ میں نے ناگواری سے سوچا۔ خیالوں میں سرنج کی سوئی کو اپنے بازو میں چبھتا ہوا محسوس کیا اور اس کے انتظار میں آنکھیں موند لیں۔ کچھ دیر کے بعد میں نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ آیا کیوں نہیں؟

    ’’اوہ... تو اس بےچاری کی شامت آنے والی ہے۔‘‘ ہیولے کو کومے میں پڑی بےخبر پروفیسر کے سرہانے کھڑا پا کر پل بھر میں ہی میرے دل کو تسلی سی ہو گئی کہ چلو میں تو بلڈ ٹیسٹ سے بچی گئی مگر اس کا ٹیسٹ اسی وقت؟کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میرا دل پسیج گیا اور مجھے افسوس ہونے لگا۔ وہ اس کے قریب کھڑا ہو گیا۔ پھر کھڑے کھڑے اس کے بے انتہا قریب ہوتا گیا۔ اتنا قریب کہ اب وہ مجھے علحٰیدہ سے نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ میری نیم خواب آنکھوں میں ایک لحظے کو جیسے آگ سی بھر گئی۔’’یا اللہ!یہ کیا؟‘‘میں نے دوبارہ غور سے دیکھنے کے لئے اپنی تھکی تھکی آنکھیں پوری طاقت سے کھول دیں۔ ٹاورآف سائیلنس پر رکھی ہوئی لاش کو ایک بڑاسا بھوکا گدھ ٹھونگے مار مار کرنوچ رہا تھا۔ میرے سارے جسم میں سوئیاں سی چبھنے لگیں اور سانس پھر سے اکھڑ گیا۔

    ’’اوہ خدایا! ایک مجبور بے بس عورت کے ساتھ اتنا ظلم؟ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ کہیں میں کوئی بھیانک خواب تو نہیں دیکھ رہی؟ میں نے چیخنا چاہا مگر شاید میرے خستہ، ٹوٹے ہوئے سینے میں اس وقت ایسی کوئی چیخ موجود نہ تھی جو اس ظلم کے احتجاج کی سکت رکھتی۔

    ’’ہائے اللہ اتنی بیمار ہے یہ تو...!‘‘ میرا دماغ پھٹنے لگا اور بہت ساری چیخیں میری �آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ نکلیں۔

    ’’جی...؟‘‘ اس دوران نرس نے آ کر میرے کان میں پیار سے سرگوشی کی۔ آکسیجن ماسک لگے ہونے کے باوجود میرا سانس بالکل بند ہو چلا تھا۔ مجھ سے کچھ بولا ہی نہ گیا۔ ہاتھ کے اشارے سے کچھ کہنے کی کوشش کی تو اس نے بڑے تحمل سے، مسکرا کر پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھے میری دوائی کی اگلی ڈوز دی اور تھپکا کر جاتے ہوئے بولی۔ ’’اب آپ آرام سے سو جائیے۔‘‘

    خوف اور غصے کے مارے میں تمام رات انگاروں پر لوٹتی رہی۔ رہ رہ کر مجھے اس بے چاری کا خیال آتا رہا جس کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو چکا ہے۔ کہیں وہ اس زبردستی کی وجہ سے مر ہی نہ گئی ہو؟ مجھے ڈراؤنے سے خیال آنے لگے۔ کیا اتنی سیریس کنڈیشن میں تھی وہ؟ مگر میں چپ نہیں رہوں گی۔ اس کی موت کا راز کھول کر رہوں گی۔ غضب خدا کا، دل کی مریض، پھر خطرے کی حالت میں... اتنی اندھیر نگری؟ اتنی حیوانیت؟ میں بےبسی سے کروٹیں بدلتی رہی۔ نیند کے سمندر میں ڈوبتے ابھرتے رات بیت ہی گئی۔

    زیبی کو دیکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ صبح ہو چکی ہے۔ اس کا چہرہ سورج کی اولین تازہ کرنوں میں دھلا اور اجلا سا محسوس ہو رہا تھا۔

    ’’پیاری امی کیسی ہیں آپ؟‘‘ اس نے اپنے چہرے جیسے شگفتہ اور رنگ دار نئے نئے پھولوں کا گلدستہ میرے سرہانے سجاتے ہوئے میرا حال چال پوچھنا شروع کر دیا۔ ساتھ والی کی بہن بھی اسی لمحے اندر داخل ہوئی اور سر کے اشارے سے ہمیں سلام کر کے اپنی باجی کی جانب بڑھنے لگی۔ میرے دل پر ایک گھونسا پڑا ۔ بےچاری عنقریب اپنی بہن کو مردہ پا کر چیخنے چلانے لگے گی۔ مارننگ ڈیوٹی کی نرس بھی تھرما میٹر، چارٹ وغیرہ ہاتھ میں تھامے میرے سرہانے آن کھڑی ہوئی۔ کرب کی ایک لہر میں نے اپنے سینے میں اٹھتی محسوس کی۔میں اسے جلد سے جلد رات والے حادثے کی بابت بتا دینا چاہتی تھی۔ میں اسے ایک بھیڑئیے کی، اس ہسپتال کے ماحول میں موجودگی کی فوراً اطلاع دینا چاہ رہی تھی۔ ابھی نرس نے میرا ٹمپریچر چیک کرنے کے لئے تھرما میٹر جھٹکا ہی تھا کہ پروفیسر کی بہن کی ایک چیخ نما آواز سنائی دی۔

    ’’نرس جلدی آؤ ۔ ڈاکٹر صاحب کو بلاؤ۔‘‘

    نرس فوراً اس کی طرف لپکی۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ ’’یا اللہ خیر! انا للہِ وانا الیہِ راجعون میں نے دل ہی دل میں پڑھا اور پھر اگلے ہی لمحے میرے لبوں سے دھیرے دھیرے گالیاں نکلنے لگیں۔ قاتل... کمینہ...خنزیر...‘‘ میرے منہ میں جو آیا میں بکتی چلی گئی۔ زیبی نے بھی ایک لمحے کو اس ساتھ والی کے سیکشن کی طرف دیکھا اور پھر میرے لئے تھرماس سے گرما گرم چائے انڈیلنے لگی۔ میری زبان لکڑی کی مانند سخت ہو رہی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس جانب نظر دوڑائی۔

    نرس اور پروفیسر کی بہن، اس پر جھکی ہوئی نہ جانے کیا کر رہی تھیں۔ دونوں کی ہلکی ہلکی آوازیں بھی آ رہی تھیں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں نرس ہمارے سیکشن کا پردہ اٹھا کر اندر آ گئی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا اور کچھ کہنے کے لئے لب کھولے۔

    ’’نرس! وہ ساتھ والی...؟‘‘ میری خشک زبان سے بڑی مشکل سے یہ جملہ نکلا۔

    ’’جی! وہ پروفیسر صاحبہ...؟ کوئی معجزہ ہی ہو گیا ہے۔ وہ ہوش میں آ گئی ہیں۔ کتنی خوشی کی بات ہے۔ ان کی بہن تو خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی ہیں۔ بس مسز بٹ اب آپ بھی جلدی سے ٹھیک ہو جائیں تاکہ آپ کی بیٹی بھی اِسی طرح خوش ہو جائیں اور آپ اپنے گھر جا سکیں۔ ٹھیک...؟‘‘

    ’’لیکن...‘‘

    ’’جی...؟؟؟‘‘ اس نے تجسس سے میری جانب دیکھا اور تھرما میٹر میرے منہ کے قریب لا کر میری طرف بڑھی

    ’’کچھ نہیں‘‘میں نے آرام سے منہ کھول دیا اور تھرما میٹر کو مضبوطی سے زبان کے نیچے دبانے کی کوشش کرنے لگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے