Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خمیازہ

حسن امام

خمیازہ

حسن امام

MORE BYحسن امام

    صبح کی خوشگوار ہوا کا ابھی پہلا ہی جھونکا آیا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی، ایسا لگا جیسے کسی نے پیار سے ہلا کر جگا دیا ہو۔ دوبارہ سونے کی کوشش ناکام ثابت ہوئی، شاید نیند پوری ہو چکی تھی۔ میں نے اٹھ کر کھڑکی پوری کھول دی۔ جاتی ہوئی رات کا اندھیرا ابھی باقی تھا۔ واپس بستر پر لیٹ کر بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے اکا دکا تاروں کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد بڑی دور سے ریل کی سیٹی کی آواز سنائی دی اور پھر اس کی گھڑگھڑاہٹ کا مدھم شور۔ یہ شور رفتہ رفتہ قریب آتا جا رہا تھا اور پھر جیسے یہ میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ ریل کی پٹری حویلی سے ذرا ہی فاصلے سے گزرتی تھی اور ریل ہر روز اسی وقت آیا کرتی تھی۔ جب آسمان پر روشنی کا ہلکا سا غبار اڑتا دکھائی دیا تو میں حسب معمول حویلی سے نکل کر کھیتوں کی طرف چل پڑا۔ شہر سے گاؤں آئے ہوئے ایک ہفتہ ہوا تھا اور میرا روزانہ کا یہی معمول تھا۔ تعجب ہے کہ ہوسٹل میں دن چڑھے تک سونے کی عادت کے با وجود یہاں صبح صبح ہی آنکھ کھل جایا کرتی تھی۔

    آج بھی منڈیروں پر ٹہلتا ہوا بہت دور نکل آیا تھا۔ حد نگاہ تک کپاس کے کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے کومل پتوں پر شبنم کے شفاف قطرے ہلکی ہلکی ہوا میں کانپ رہے تھے۔ چاروں طرف سبزے کا ایک سمندر تھا جو ہولے ہولے سانسیں لیتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ دور کہیں کہیں جھونپڑیاں اور مختلف درختوں کا جنگل، سمندر میں گزرتے ہوئے جہاز اور ان کے مستولوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ اس منظر اور ماحول سے دل و دماغ ایسے مسحور ہوئے کہ وقت اور فاصلے سے بےنیاز چلتا ہی چلا گیا۔ نہ جانے اور کتنی دور نکل جاتا کہ اچانک ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو گئی۔ میں جلدی جلدی واپس ہو لیا۔

    میرے ذہن پر نوری سوار تھی۔ میری اب تک اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، بس دور دور سے ہی اسے دیکھتا رہا تھا۔ نوری اور رفیق بچپن سے ہی میرے گھر میں ملازم تھے اور اب وہ جوان ہو چکے تھے۔ بابا ان دونوں کو بہت مانتے تھے۔ اس بار جب میں گاؤں آیا تو حویلی کے کارندوں سے پتہ چلا کہ بابا اب دونوں کی شادی کر دینا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ مجھے نہ جانے کیوں یہ بات پسند نہیں آئی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بار جب میں نے نوری کو دیکھا تو وہ ایک سال پہلے والی نوری سے بہت مختلف تھی۔ پہلے والی دبلی پتلی اور مریل نوری کی جگہ بھرے بھرے جسم اور دلکش خد و خال والی دوشیزہ نظر آ رہی تھی۔ آنکھوں کو اعتبار نہ آتا تھا، ایک میں یہ کیا سے کیا ہو گئی تھی۔ یہ تبدیلی ہی سکوں و صبر کی تباہی کے لیئے کیا کم تھی کہ معلوم ہوا بابا اس کی شادی طئے کر چکے ہیں۔ اب کئی دنوں سے اسے شیشے میں اتارنے کی ترکیب سوچ رہا تھا، ویسے تو جب بھی چاہتا طاقت اور مرتبے کی بنا پر اسے بستر کی زینت بنا سکتا تھا، زمینداری ختم ہو گئی تھی تو کیا ہوا، ٹھاٹ باٹ تو اب بھی وہی تھے۔

    لوگ ہمارے قدموں پر سر رکھنا فخر سمجھتے تھے۔ لیکن میں اس طرح پیش آنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ رعیتوں میں اب خودداری کا جذبہ بیدار ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ میں نوری اور رفیق کا دل توڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ میرے گاؤں آنے کی سب سے زیادہ خوشی ان دونوں کو ہوتی تھی اور وہ دونوں بھاگ بھاگ کر میرے سارے کام کرتے تھے۔ میں چاہتا تھا شہر کی ماڈرن اور بے باک لڑکیوں کی طرح نوری بھی مجھ سے کھل جائے اور صلح و آشتی کے ساتھ اپنا آپ میرے حوالے کر دے۔ میری حسرت بھی پوری ہو جائے اور رفیق کے ارمان بھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ رفیق کو بےانتہا چاہتی ہے ۔ رفیق تھا بھی گاؤں کا خوبصورت جوان۔ میری رگوں میں بھی زمیندار کا لہو دوڑ رہا تھا، میں اس سے شکست کیسے مان لیتا۔ میں نے بھی اپنے اجداد کا پرانا حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ابھی میں حویلی سے کچھ فاصلے پر ہی تھا کہ مجھے نوری نظر آ گئی۔ وہ کھیتوں سے کچھ سبزی توڑ رہی تھی۔ میں اس کے قریب پہنچ گیا، مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی کے آثا نمودار ہوئے’‘سلام چھوٹے سرکار، اس بار بہت دنوں بعد آنا ہوا۔ سب خیریت تو ہے۔ اتنے دنوں بعد آئے ہیں تو زیادہ دن رہیں’‘ وہ بڑی معصومیت سے باتیں کر رہی تھی ۔میں نے تمام باتیں بڑی بےتوجہی سے سنیں۔ میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میری توجہ نہ پا کر وہ جانے لگی۔ میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ اس کے ہاتھوں میں سبزی کی ٹوکریاں تھیں، اس نے بڑے سے دوپٹے کو اپنی پتلی اور مضبوط کمر کے گرد لپیٹ کر اس کا پلو سینے پر پھیلاتے ہوئے بائیں شانے سے گزارتے ہوئے کمر میں اڑس لیا تھا۔ ہاتھوں میں بھاری بوجھ ہونے کی وجہ سے اس کے بھرے بھرے شانے قدرے جھک گئے تھے۔ سیاہ بالوں کے ڈھیلے جوڑے سے تقریباً چھپی ہوئی گردن تن کر اکڑی ہوئی پیٹھ کے برابر ہو گئی تھی۔ چلتے ہوئے ہر ہر قدم پر اس کے سارے جسم کو ہلکے ہلکے جھٹکے لگ رہے تھے اور ہر ہر قدم پر میرے دل میں ایک خواہش ٹیس سی بن کر ابھر رہی تھی، کہ میں اسے جلد سے جلد حاصل کر لوں۔

    مجھے معلوم تھا آج بابا رفیق کو کسی کام سے دوسرے گاؤں بھیج رہے ہیں۔ وہ دوسرے دن واپس آنے والا تھا۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ملےگا۔ رفیق کی موجودگی میں اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل تھا، اس کی کوٹھری میرے کمرے کے بالکل قریب تھی اور ممکن تھا کہ وہ کچھ سن گن پا کر مداخلت کر بیٹھتا، لیکن آج اس کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ جہاں تک نوری کا سوال تھا، مجھے یقین تھا کہ وہ کسی کو کچھ نہیں بتائےگی کیونکہ اس صورت میں اسے رفیق سے ہاتھ دھونا پڑتا جو وہ کبھی نہیں چاہےگی۔ شام میں مجھے نوری نظر آئی، میں نے اسے آواز دی جب وہ قریب آئی تو میں نے کہا ’‘میں ابھی سونے جا رہا ہوں، رفیق سے کہنا کہ رات دس بجے مجھے اٹھا دے، امتحان کی تیاری کرنی ہے’‘

    ‘’مگر وہ تو آج نہیں ہے، دوسرے گاؤں گیا ہوا ہے’‘

    ‘’اوہ، یہ تو بڑی مشکل ہو گئی’‘ میں نے مصنوعی پریشانی کا اظہار کیا۔ ’‘آج رات مجھے جاگ کر پڑھنا بہت ضروری ہے’‘

    ‘’اگر بہت ضروری ہے تو میں آکر جگا دوں گی’‘

    مجھے یقین تھا وہ یہی جواب دےگی۔ میرے اندر کے شیطان نے قہقہہ لگایا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دل ہی دل میں اپنی کامیابی پر مسکراتا رہا۔ اپنے کمرے میں آ کر میں اطمینان سے لیٹ گیا۔ گاؤں میں لوگ عموماً جلدی سو جاتے ہیں اس لیئے میں نے دس بجے کا وقت دیا تھا۔ ٹھیک دس بجے دروازے پر آہٹ ہوئی اور میں کتاب سینے پر رکھ کر سوتا بن گیا۔ وہ میرے بستر کے پاس آ کر رکی اور مجھے جگانے کو ابھی ہاتھ لگایا ہی تھا کہ میں نے ایکدم اسے اپنے اوپر کھینچ لیا۔ پھر اُٹھ کر جلدی سے دروا زہ بند کر لیا۔ تب تک وہ میرا ارادہ بھانپ چکی تھی۔ تھر تھر کانپنے لگی اور ہاتھ جوڑ کر گڑ گرانے اور رونے لگی، جھک جھک کر میرے پاؤں پکڑنے لگی لیکن بے سود۔ میری رگوں میں میرے اجداد کا جو شیلا خون شدت سے ابال کھا رہا تھا۔

    جب صبح کی ٹھنڈی ہوا کا پہلا جھونکا چلا تو میں نے اسے کمرے سے باہر نکال کر دروازہ بند کر لیا۔ اب مجھے نیند کے علاوہ کسی بھی چیز سے دلچسپی نہیں تھی۔ بستر پر لیٹتے ہی اتنی گہری نیند آئی کہ صبح گزرنے والی پہلی ٹرین کی گھڑ گھڑاہٹ کا بھی کچھ پتہ نہ چلا۔ میں تقریباً گیارہ بجے سو کر اٹھا۔ تیار ہو کر جب باہر نکلا تو حویلی کے اندرونی حصے میں عورتوں کے زور زور سے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن بیرونی حصے میں سناٹا تھا۔ میں کسی کو آواز دینے کی سوچ ہی رہا تھا کہ بیرونی دروازے سے بہت سارے لوگ داخل ہوتے نظر آئے ان میں بابا بھی شامل تھے۔ کچھ لوگوں نے ایک بیہوش نوجوان کو اٹھا رکھا تھا۔ قریب آنے پر دیکھا تو وہ رفیق تھا۔ ایک آدمی جلدی جلدی کنویں سے پانی نکالنے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا،

    ‘’کیا بات ہے؟ کیا ہوا اسے’‘

    ‘’سرکار وہ لائن پر نوری کی لاش دیکھ کر۔۔۔’’

    ‘’نوری کی لاش ،’‘مجھے شدید دھچکا لگا

    ‘’جی۔ وہ ریلوے لائن پر کٹی پڑی ہے’‘

    مجھے لگا جیسے کسی نے میرے سینے پر زور سے گھونسہ مار دیا ہو، میں نے دیوار تھام لی، میری آنکھوں میں نوری کی گڑگڑاتی ہوئی صورت ابھرنے لگی، دل کی دھڑکن کے دھماکے سر میں محسوس ہونے لگے، کچھ دیر کے لیئے میں بالکل سن ہو گیا۔ جب دل تھما تو میں چپکے سے ریلوے لائن کی طرف چل پڑا۔ وہاں پر کافی لوگ جمع تھے۔ جرم کا احساس شدت سے جانگزیں تھا ،جی چاہا یہیں سے لوٹ جاؤں لیکن پھر ہمت کر کے آگے بڑھنے لگا۔ میں ایک آخری نظر نوری کو ضرور دیکھنا چاہتا تھا۔ نوری، جس نے رفیق کے ساتھ بےایمانی کرنا گوارہ نہیں کیا، جس نے میری جھوٹی نیک نامی کے لیئے اپنی جان قربان کر دی۔ میں اس بلندی پر نصب کیئے ہوئے انسانیت کے مجسمے کو اپنے جرم کے اعتراف کے طور پر اپنی تمام تر شرمندگی اور تاسف ایک نظر میں سمو کر پیش کرنا چاہتا تھا۔

    جب میں قریب پہنچا تو لوگ اس کی جواں سال موت پر افسوس کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی قیاس آرائیاں بھی کر رہے تھے۔ اس کے کردار کی پاکیزگی کا ذکر ہو رہا تھا، اس کی شرافت اور نیک فطرت کی تعریف ہو رہی تھی اور یہ سب باتیں میرے سینے میں خنجر کی طرح اترتی جا رہی تھیں۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ کاش مجھ میں اتنی اخلاقی جرات ہوتی کہ میں حقیقت کا اعتراف کر سکتا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی لوگوں نے میرے لیئے راستہ چھوڑ دیا، ایک بوڑھے نے لاش پر سے کپڑا ہٹا دیا۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں کیا ہوا۔

    جب آنکھ کھلی تو میں اپنے کمرے میں بستر پر پڑا تھا۔ کافی لوگ مجھے گھیرے کھڑے تھے ان میں رفیق بھی تھا۔ بابا مجھے شفقت اور تشویش سے دیکھ رہے تھے۔ رفیق کا دکھ اس کے چہرے سے عیاں تھا۔’‘دل مضبوط کیجیئے چھوٹے سرکار’‘ اس نے دکھوں کے اتھاہ سمندر سے ابھر کر کہا۔ اس وقت میرے دل پہ کیا گزر گئی، یہ کوئی نہیں جان سکا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں، لیکن بند پپوٹوں سے گرم گرم قطرے نکل کر کنپٹیوں پر بہتے چلے گئے۔ رفیق مجھے دیکھ کر بےچین ہو گیا۔ ’‘بابا میں تنہائی چاہتا ہوں، بس رفیق کو رہنے دیں’‘ سب چلے گئے، صرف رفیق رہ گیا۔ ہم دونوں بڑی دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور روتے رہے۔ ہمارے رونے کا تعلق ایک ہی حادثے سے تھا مگر وجہیں مختلف تھیں۔’‘آج کے دور میں ایسے مالک کہاں ہوتے ہیں چھوٹے سرکار جو ملازمین کے مرنے پر روئیں’‘ اس نے مجھے عقیدت سے دیکھتے ہوئے کہا اور میں سوچنے لگا کہ کاش یہ زمین شق ہو جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ شاید مجھے ساری زندگی اپنی اس نیچ حرکت کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ میں نے رفیق کو بھی اشارے سے جانے کا کہا اور نڈھال ہو کر کروٹ بدل لی۔ میں رات بھر اپنے تکیئے سے لپٹ کر روتا رہا جس پر ایک رات ایک لافانی ہستی اپنی یادوں کی لازوال خوشبو چھوڑ گئی تھی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ندامت کا احساس ہے یا میرے دل کے کسی کونے میں اس کی محبت سرنیہواڑے بیٹھی ہوئی تھی جس کا مجھے کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔ میری سوچنے کی تمام صلاحیت مفلوج ہو گئی تھی، ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے تھے۔ گناہ اور ندامت کے احساس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ رفیق کا بھی یہی حال تھا، بس ایک جگہ پڑا رہتا۔ بابا ہم دونوں کو دیکھ کر پریشان رہتے ۔ آخر ایک دن انہوں نے حجام کو بلا کر ہمارا حلیہ ٹھیک کرایا۔ مجھے کھانے پینے کی تاکید کی اور رفیق کو سمجھاتے ہوئے کہا،

    ‘’میں تمہیں مجبور نہیں کرتا رفیق مگر آخر کب تک اس طرح رہوگے۔ مرنا، ہر جینے والے کا نصیب ہے، مگر اس سے دنیا کے کام تو نہیں رکتے ۔ تمہارے لیئے بھی بہت کام پڑے ہیں، ان میں وقت گزارو تو شاید کچھ دل بہل جائے’’

    سرکار کام کرنے کو تو میں ہر وقت تیار رہتا ہوں’‘رفیق نے جواب دیا’‘آپ حکم کریں

    ‘’تم سے کام کروانے کا دل تو نہیں چاہتا’‘ بابا ہمدردی سے بولے ’‘مگر تمہارا دل بہلنے کے خیال سے کہہ رہا ہوں’‘ آپ فکر نہ کیجیئے سرکار، حکم کیجئے۔

    ‘’دیکھو، اگلے گاؤں کے چودھری نے کچھ لکڑیاں منگوائی ہیں، تم کچھ درختوں کو کاٹ دو، بھیجنے کا انتظام میں کر دونگا’‘ رفیق سر ہلاتا ہوا چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا۔ آتے ہوئے میں نے دیکھا، وہ اپنی کوٹھری کے دروازے پر پتھر کی سل پر بیٹھا اپنی زنگ آلود کلہاڑی کا پھل تیز کر رہا تھا۔ اسے کلہاڑی تیز کرتے دیکھ کر ایک خیال میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوند گیا اور دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ جس طرح ایک مقروض کو کہیں سے اتنی رقم مل جائے کہ وہ اپنا قرض ادا کر دے تو اس کی جو کیفیت ہوگی، وہی میری کیفیت ہو رہی تھی۔ مجھ پر مرنے کا جنون سوار ہوا، رفیق کے ہاتھ سے مرنے کا خیال کتنا سکون بخش تھا۔ میں نوری کی موت کا سبب بنا، رفیق میری جان لےگا، گویا میرا قرض اتر جاتا۔ میں اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا، یکایک مجھے محسوس ہوا کلہاڑی تیز کرنے کی آواز ختم ہو چکی تھی۔ میں نے دیکھا وہ کافی فاصلے پر جنگل کی طرف جا رہا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑنا شروع ہو گئی تھی۔ میں اس کے پیچھے لپکا، اسے آواز دی لیکن وہ اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا۔ میں تیز تیز چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور دوبارہ آواز دی۔ اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور رک گیا۔ اس کی آنکھوں میں استعجاب تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ بات کیسے شروع کروں،

    ‘’کیا بات ہے چھوٹے سرکار’‘

    ‘’میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں’‘میری آواز کانپ رہی تھی۔

    ‘’ضرور پوچھیں’‘

    ‘’رفیق، اگر کوئی نوری کو قتل کر دیتا اور وہ تمہیں مل جاتا تو تم کیا کرتے’‘

    ‘’تو سرکار’‘ اس کے دانت بھنچ گئے اور جبڑے سخت ہو گئے۔ کلہاڑی پر اس کی گرفت مضبوط ہو گئی، ہاتھ ذرا سا اٹھا کر بڑے سفاک لہجے میں بولا ’‘میں اس کلہاڑی سے اس کا سر ایک ہی وار میں اڑا دیتا۔’‘

    اس کا جواب سن کر ایک لمحے کو میرے سر سے پاؤں تک ایک گرم سی رو دوڑ گئی۔ اور اسی ایک لمحے میں میں نے فیصلہ کر لیا ’‘سنو رفیق، تمہاری نوری کو قتل کیا گیا ہے’‘ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ۔

    اس کا چہرہ یکبارگی سیاہ پڑ گیا، آنکھیں خون کی طرح سرخ ہو گئیں۔ میں اس وقت حیرت انگیز طور پر پر سکون تھا اور دل جیسے ہمیشہ کے لیئے رک گیا تھا، لیکن جب میں اقرار کرنے لگا تو یوں لگا جیسے کوئی دوسرا شخص بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں میرے جرم کی گواہی دے رہا ہو۔

    ‘’تمہاری نوری کا قاتل میں ہوں رفیق۔۔۔اس رات وہ میرے کمرے میں تھی، میں نے اسے دھوکے سے بلایا تھا’‘ یہ کہتے کہتے میرا سر خود بخود جھک گا اور آنکھیں بند ہو گئیں۔ میرا قرض اتر رہا تھا، مجھے مرنے کا ذرا بھی خوف نہ تھا۔۔۔

    بڑی دیر ہو گئی لیکن کچھ نہ ہوا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔وہاں صرف رفیق کھڑا تھا، حویلی کا وفادار ملازم، نوری کے محبوب یا منگیتر کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اس کا ہاتھ، چھاتی اور جبڑے ڈھیلے پڑ گئے تھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مجھے سر اٹھاتے دیکھ کر اس کے لب جیسے اپنے آپ ہلے ’‘چھوٹے سرکار آپ گھر چلے جائیں۔۔۔نہیں تو۔۔۔بھیگ کر بیمار پڑ جائینگے۔’‘

    وہ ایک دم مڑ کر جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسی وقت اچانک موسلادھار دھار بارش شروع ہو گئی۔ میں چپ چاپ کھڑا بھیگتا رہا اور سوچتا رہا کہ رفیق کی کلہاڑی میں زیادہ کاٹ تھی یا اس کی محبت میں جو اس کے دل میں میرے لیئے تھی۔ کلہاڑی میرا سر اڑا دیتی اور میری روح کو سکون مل جاتا، لیکن اس کی محبت نے میری روح کے پرخچے اُڑا دیئے تھے اور مجھے پل پل مرنے کے لیئے زندہ چھوڑ دیا تھا۔

    آنسوؤں نے میری آنکھوں کے سامنے دھند پھیلا دی تھی اور دھند کےاس پار، رفیق بڑی وحشت سے درختوں پر کلہاڑی سے وار کر رہا تھا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے