Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھنڈر سے آتی آوازیں

محمد حنیف خان

کھنڈر سے آتی آوازیں

محمد حنیف خان

MORE BYمحمد حنیف خان

    کھنڈرات سے آتی ہوئی دلدوز آواز نے میری نیند بکھیر کر رکھ دی۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں اور بدن درد سے ٹوٹ رہا تھا مگر آواز ایسی تھی کہ کانوں سے چپک کر رہ گئی۔ پہلے تو بستر پر ہی پڑا رہا اور پھر ہاتھ سے چہرہ مل کر نیند دور کر نیکی ناکام کوشش کی، ہاں اس کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ بستر سے اٹھ کر کھڑکی تک جانے کے قابل ہو گیا۔ رات ٹھٹھری ہوئی تھی اس لئے جوں ہی کھڑکی کھولی ایسا لگا کہ یخ بستہ ہواؤں نے میری ہڈیوں کو برما دیا ہے، اس کے باوجود میں نے کھڑکی کھول کر سر باہر نکالا اور آواز کی سمت جاننے کی کوشش کی۔ یہ ایک نسوانی آواز تھی جس میں بین کا درد تھا، کبھی قدرے بلند ہو جاتی اور کبھی آہستہ۔ میں جس طرف کان لگاتا، یہ آواز اسی طرف سے آتی ہوئی محسوس ہوتی، جس کی وجہ سے آواز میرے لئے معمہ بن گئی۔ کافی دیر تک کو شش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا بالآخر میں نے کھٹاک کی آواز کے ساتھ کھڑکی بند کر دی۔ میں کوئی کمزور دل کا انسان نہیں ہوں، مجھ میں جرات ہے اور اسی وجہ سے میں نے اس فلیٹ کو کرائے پر لیا جسے کوئی لینا پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ جس جگہ پر یہ فلیٹ ہے وہ بستی کا آخری کنارہ ہے۔ میرے فلیٹ کے بعد جنگلات کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے۔ یہ فلیٹ بھی جنگل کاٹ کر تعمیر کیا گیا تھا۔ آخری مکان ہونے کی وجہ سے کوئی اسے لے نہیں رہا تھا مگر میں نے لے لیا۔

    آواز کی سوزش اور اس کی دردناکی نے مجھے اندر سے ہلاکر رکھ دیا تھا۔ میں بستر پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ رات کے سہ پہر یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے اور پھر آواز کسی ایک جانب سے کیوں نہیں آ رہی ہے جس طرف کان لگاؤ، محسوس ہوتا ہے ادھر سے ہی آرہی ہے، جس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ مگرمیں نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ شاید یہ میرا وہم ہے اور ہوا کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ ہوا کا بہاؤجس طرف س زیادہ ہوتا ہوگا آواز ادھر سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، اسی ہوا کے دباؤ سے ہی آواز کبھی تیز ہو جاتی ہے اور کبھی مدھم، اس لئے زیادہ سوچنے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ تو طے تھاکہ آواز کھنڈرات سے ہی آ رہی ہے وہ بھی نسوانی آواز۔ جیسے ہی یہ بات ذہن میں آئی ایک بار پھر طرح طرح کی باتیں سوچنے لگا اور نیند کوسوں دور بھاگ گئی۔ میں سونے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا مگر کامیابی نہیں مل رہی تھی پھر ایک دم سے لگا کہ کوئی میرے بہت قریب رو رہا ہے بلکہ میرے دروازے کے پاس، میں تیزی سے اٹھا اور دروازے کی طرف لپکا لیکن وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی میرے شعور نے مجھے روک دیا اور اب میں بستر اور دروازے سے تقریبا برابر کی دوری پر کھڑا تھا اور سوچ رہا تھا کہ دروازہ کھولوں یا نہ کھولوں۔ آواز مسلسل آ رہی تھی، میرے اندر کھلبلی مچی ہوئی تھی، ذہن کام نہیں کر رہا تھا اور دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ پھر ایک دم سے آواز بند ہو گئی۔ میں نے کان لگا کر اسے سننے کی کوشش کی مگر نہیں سن سکا تو یقین ہو گیا کہ اب آواز نہیں آ رہی ہے۔

    میں کمبل ڈالے بستر پر بیٹھا ہوا تھا مگر اب ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ دروازہ کھولوں حالانکہ اندر سے بیچین بھی تھا کہ باہر جھانک کر دیکھوں، بڑی محنت سے ہمت مجتمع کی اور اٹھ کر دروازے تک گیا، چٹخنی پر ہاتھ رکھا اور اسے دبانے ہی والا تھا کہ ہاتھ خود بخود رک گئے۔ اب ایک بار پھر پس وپیش میں پڑ گیا۔ اسی درمیان دور سے آذان کی آواز آتی ہوئی سنائی دی جس سے ہمت بندھی اور میں نے ایک جھٹکے میں دروازہ کھول دیا۔ سر باہر نکال کر ادھر ادھر جھانکا، کہیں کچھ نہیں تھا، اس لئے دوبارہ آکر بستر پر لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا مگر نیند نہیں آ رہی تھی پھر اچانک کب نیند آ گئی اور میں محو خواب ہو گیا کچھ نہیں پتہ۔ میری آنکھ تقریبا 11 بجے کھلی اور گھڑی دیکھ کر گھبرا گیا کیونکہ آج میں آفس نہیں جا سکا تھا اور اب اتنی تاخیر ہو چکی تھی کہ جانا مناسب نہیں تھا۔

    پورا دن یوں ہی گذر گیا، بستی میں کوئی ایسا بھی نہ تھا کہ جس سے میں اس بابت کوئی گفتگو کر سکتا اس لئے سب کچھ میرے اندر ہی چلتا رہا۔ البتہ شام ہوتے ہوتے میں نیاس کو ذہن سے جھٹک دیا۔ ٹہلنے اور رات کا کھانا کھانے باہر نکل گیا کیونکہ میں تنہا رہتا تھا اور میرا اپنا گھر شہرسے کافی دور تھا۔ رات میں ذرا تاخیر سے میں واپس آیا لیکن واپسی میں بہت تھک چکا تھا اس لئے ٹی وی بھی نہیں آن کیا اور نہ ہی لیپ ٹاپ کھولا، کپڑے تبدیل کئے اور سیدھے بستر پر دراز ہو گیا۔

    آنکھ کا کھلنا تھا کہ میرا ذہن آج کے بجائے پہلے کل رات کے واقعے کی طرف چلا گیا۔ اب میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ ایک طرف آج کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی اور دوسری طرف میرا ذہن کل کی گتھیوں میں الجھا ہوا تھا، اس لئے جس طرح نیند کی حالت میں اس مترنم آواز سے محظوظ ہو رہا تھا اب نہیں ہو رہا تھا ہاں یہ محسوس کر رہا تھا کہ اس سے پہلے اس سے میں محظوظ ہو رہا تھا۔ آواز کیا تھی، جادو۔ جو انسان کے پورے وجود کو اپنے طلسم میں لے لے، آواز کی دوشیزگی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ آواز کسی پکی عمر کی عورت کی نہیں ہے۔ اس کی کھنک اور سریلا پن خود میں محویت لئے ہوئے تھی۔ اس لئے کل رات کی باتیں بہت جلد ذہن سے کافور ہو گئیں اور میں اس کے سحر میں کھو گیا۔

    ہاں یہ تو بتایا ہی نہیں کہ آواز کو کن لفظیات کا پیرہن ملا ہواتھا۔ بات در اصل یہ تھی کہ آواز دور سے آرہی تھی اس لئے کیا لفظیات تھیں ان کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا البتہ اس کی لہک ایسی تھی کہ کوئی بھی شخص سب کچھ چھوڑکر اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔

    میں نے بستر سے اٹھ کر کھڑکی کھول دی۔ آج کوئی ڈر بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ میں ہمہ تن گوش آواز کی طرف متوجہ ہو گیا جس کی ہر لہک اور چہک میری رگ رگ میں اترتی جا رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں آج میں نے باہر جھانکنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ شاید لاشعورمیں خوف رہاہو لیکن یہ سچ ہے کہ آج میں بےخوف تھا۔ کافی دیر تک ہوا کے دوش پر اس نادیدہ دوشیزہ کی آواز اپنے سحر میں مجھے لئے رہی اور پھر دھیرے دھیرے آواز مدھم ہوتی چلی گئی۔ جب آواز آنا بند ہو گئی تو میں بستر سے اٹھااور کھڑکی پر جاکر کھڑا ہو گیا اور اس کو سننے کی کو شش کرنے لگا کہ شاید کسی طرف سے آ رہی ہو مگر ایسا نہیں تھا اور میں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

    آواز کا جادو مجھ پر ایسا ہوا کہ میں بستر پر آکر لیٹ گیا اور اس سے محظوظ ہونے لگا، جتنا میں اس آواز کے بارے میں سوچتا اتنا ہی مجھے وہ قریب محسوس ہوتی۔ میں سوچ رہا تھا خدایا یہ کیا مسئلہ ہے، کل ایسی دلدوز آواز تھی کہ جگر پھٹ جائے اور آج ایسی آواز کی دل و جان لٹ جائے۔ میں کل اور آج رات کی دونوں آوازوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ مجھے یہاں شفٹ ہوئے دس دن سے زیادہ نہیں ہوئے تھے، اس سے قبل کبھی کوئی آواز سنی نہیں تھی لیکن آج یہ مسلسل دوسرا دن تھا۔ میرا ذہن ادھر ادھربھٹک رہا تھا مگر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا۔

    ہفتے میں مسلسل دو راتیں یہ آوازیں آتی تھیں ایک رات دلدوز آواز اور دوسری رات بڑی مترنم اور لہک چہک والی۔ پہلے دن لگتا کہ کوئی سینہ فگار ہے جس کو دنیا کا سب سے بڑا درد ملا ہے جسے برداشت کرنے کی اس میں سکت نہیں ہے اور وہ اس غم کو زاروقطار اور دہاڑیں مار مارکر، رو روکر بہا دینا چاہتی ہے۔ لیکن دوسرے دن ایسی آواز ہوتی کہ جیسے موسم بہار ہو اور نو خیز لڑکی، گیت کے ذریعہ اپنے عنفوان شباب کے جذبات کا اظہار کر رہی ہو۔ خیر دھیرے دھیرے یہ معمول بن گیا اور میں ان دونوں آوازوں کا نہ صرف عادی ہو گیا بلکہ انتظار بھی رہتا مگر پہلے دن کا نہیں، لیکن مشکل یہ تھی کہ پہلا دن گذرے بغیر دوسرا دن نہیں آتا اس لئے مجبورا اسی کا انتظار ہوتا۔

    ہفتہ، دس دن میں دو راتیں میری ایسی گذرتی تھیں جب میری نیند نہیں پوری ہو پاتی۔ پہلی رات آواز کی ہولناکی اور خوف کی بنا پر اور دوسری رات اس کی خوبصورتی، کھنک اور شوق سماعت کی وجہ سے۔ ایک دن میں نے سوچا کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ جس طرف سے آواز آ رہی ہے جا کر دیکھا جائے تاکہ اس آواز کی حقیقت معلوم ہو کہ کہاں سے آ رہی ہے اور اگر کوئی انسان ہے تو بھلا کیوں؟ لیکن اس کے لئے میں نے دوسری رات کو منتخب کیا کیونکہ اس کی بات ہی کچھ اور تھی۔ خوف سے بےنیاز ہو کر میں نے عزم مصمم کر لیا کہ اس بار بہر صورت مجھے جاناہے اور اس آواز کا پتہ لگانا ہے۔ اب ایک مسئلہ یہ تھا کہ تنہا جاؤں کیسے؟ مکان کے پیچھے کا جو علاقہ تھا وہ نہ صرف جنگل اور غیر مسطح تھا بلکہ تھوڑا زیادہ آگے جانے پر کھنڈرات تھے۔ میں نے آواز کا کسی سے ذکر نہیں کیا تھا اس لئے مجھے تنہا ہی جانا تھا۔ جس رات رونے کی آواز آئی میں دوسرے دن ٹارچ خرید لایا اس کے ساتھ ہی ایک رین کوٹ بھی خرید لیا تاکہ جھاڑیوں میں سے گذرنے میں زیادہ دشواری پیش نہ آئے۔ اس سے قبل میں دن میں جنگل میں جاکر ایک بار ٹہل آیا تھا اور راستہ بھی دیکھ لیا تاکہ رات میں آسانی رہے۔

    آج جلدی دفتر سے واپس آیا اور کھانا کھاکر تھوڑا آرام کرنے لگا تاکہ تازہ دم رہوں لیکن ڈر اس بات کا تھا کہ کہیں سو نہ جاؤں جو پھر ایک ہفتہ کا انتظار کرنا پڑے اس لئے ٹی وی آن کر دیا تاکہ اس کی آواز سے نیند غالب نہ ہو اور تھوڑی دیر بعد اٹھ جاؤں اور میں نے ایسا ہی کیا۔

    اچھا خاصہ وقت گذر گیا تو ٹی بند کیا اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ دیکھ تو میں لیپ ٹاپ رہا تھا مگر میرے کان آواز کی طرف لگے ہوئے تھے۔ کافی دیر کے بعد ایک آواز گونجی اور میں نے اچھل کر لیپ ٹاپ کو خود سے دور کر دیا۔ جلدی جلدی رین کوٹ پہنا، ہاتھ میں ٹارچ سنبھالی اور گھر سیباہر نکل گیا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں تھی، اس کے باوجود میں جلدبازی میں تھا۔ جب تیزی سے دو تین زینہ اترا اور اس کی آواز گونجی تو میں نے خود پر قابو پایا اور اپنی چال کو متوازن کر لیا تاکہ گھر سے باہر خدانخواستہ اگر کسی کی نظر پڑ جائے تو اس کو کسی طرح کا کوئی شک نہ ہو۔ میں دروازے سے نکلا اور عقبی حصے سے ہوتے ہوئے اس پگڈنڈی پر آ گیا جو جنگل کے اندر جاتی تھی۔ میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا مگر جوں جوں میرے قدم آگے بڑھ رہے تھے اس میں لرزش پیدا ہو رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ میں آگے بڑھ رہا تھا مگر آواز قریب نہیں آرہی تھی بلکہ وہ جتنے پر تھی اسی جگہ رکی ہوئی تھی۔ جب تقریبا ایک کلو میٹر سے کچھ کم فاصلہ جنگل میں طے کر چکا تو آواز پہلے کے مقابلے تھوڑی دور محسوس ہونے لگی۔ اب ایک بار پھر ذہن میں سوال کلبلایا کہ اسے تو قریب ہونا چاہئے لیکن یہ قریب ہونے کے بجائے مزید دور ہو رہی ہے اور قدم رک گئے۔ میں سوچنے لگا کہ اب کیا ہونا چاہئے پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کم از کم ان کھنڈرات تک تو جاناہی چاہئے کیونکہ غالب امکان یہی تھا کہ آواز وہیں سے آرہی ہوگی مگر سمت کا تعین آواز سے نہیں ہو رہا تھا اس لئے میں نے پہلے ہی کھنڈرات کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اس میں تزلزل اس لئے آیا کیونکہ آواز قریب ہونے کے بجائے دور ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ میں افتاں و خیزاں کھنڈرات تک پہنچ گیا لیکن میرے دل کی دھڑکن بہت تیز چل رہی تھی حالانکہ جب یہاں پہنچاتب بھی آواز کی دوری اتنی ہی محسوس ہوئی مگر طرفہ تماشہ یہ کہ میرے یہاں پہنچنے کے چند منٹ بعد آواز بند ہو گئی۔ اب ایک بار پھر میں سوچ میں پڑ گیا۔ اب اگر آگے جانا بھی چاہتا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا اس لئے لاچار و ناچار واپس آنا پڑا۔

    واپسی کے دوران سردی ہونے کے باوجود میں پسینے میں شرابور تھا۔ ایک طرف میرا مقصد نہیں حاصل ہوا تھا تو دوسری طرف آواز بھی بند ہو گئی تھی۔ اس لئے میں سوچ میں غرق تھا اور آئندہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اب کی بار کیا کروں جو اس آواز کا راز پالوں۔

    یہ آواز میرے لئے ایک راز تھی،کسی دوسرے نے کبھی اسے سنا یا نہیں مجھے نہیں معلوم مگر میں اسے سن رہا تھا اور مسلسل سن رہا تھا مگر اس کی حقیقت سے ناآشنا تھا۔ مجھ پر ایک جنون سا سوار تھا کہ بہر صورت اس آواز کے راز کو جاننا ہے لیکن ہر چیز اپنی قدرت اور اپنے بس میں تو ہوتی نہیں ہے۔ کسی طرح اگر پہنچ بھی گیا تو آواز ہی بند ہو گئی۔ اس لئے راستے میں ہی سوچ لیا تھا کہ اگلی بار آواز آنے کا اندازہ لگاکر اس سے پندرہ، بیس منٹ پہلے ہی گھر سے نکل لوں گا تاکہ آواز کے شروع ہونے سے قبل میں ان کھنڈرات تک پہنچ جاؤں اور پھر آگے کا راستہ طے کروں۔ یہی سب سوچتے ہوئے میں گھر پہنچ گیا۔ اجالا اپنے وجود کا احساس کرانے لگا تھا اور پو پھوٹنے ہی والی تھی۔

    ایک ہفتہ تک معمول کے مطابق زندگی گذرتی رہی، پہلی رات بین کی آواز سنائی دی اور دوسری رات کے لئے میں تیار پہلے سے ہی بیٹھا تھا۔ میں نے اتنے دنوں میں اندازہ لگا لیا تھا کہ آواز کب آنی شروع ہوتی ہے اس لئے اس سے تقریبا پندرہ بیس منٹ پہلے ہی نکل لیا۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ میں کھنڈرات تک پہنچا اور کافی دیر تک بیٹھا انتظار کرتا رہا اس درمیان میں نے تین سگریٹ بھی پھونک ڈالے۔ میرے کان ہرنوں کی طرح کھڑے تھے، اگر پتہ بھی کھڑکتا تو کھٹ سے میں اس طرف مڑ جاتا۔ میں سراپا انتظار تھا مگر آواز تھی کہ آ ہی نہیں رہی تھی۔ دھیرے دھیرے میں پریشان ہونے لگا کہ یہ کیا ہوا؟ معمول کے مطابق آواز کی آمد کافی پہلے شروع ہو جانی چاہئے تھی مگر یہاں تو کچھ ہے ہی نہیں۔ انتظار کا وقفہ طویل تر ہوتا گیا اور آخر میں نا امید ہو گیا۔ میں بیٹھا سوچ رہا تھا اب کیا کروں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا بالآخر واپس چلا آیا۔

    دوسرے دن تھکن اور رات میں نہ سونے کی وجہ سے سر بہت بوجھل تھا۔ دفتر میں ہی کسل مندی چھائی ہوئی تھی اس لئے بغیر کھانا کھائے ہی سو گیا۔ میں گہری نیند میں تھاکہ ایک نقرئی آواز نے مجھے پکارا، میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو ایک لڑکی کھڑی تھی جو اپنا چہرہ ڈھانپے ہوئے تھی۔ اگر وہ اپنی آواز کی طرح خوبصورت تھی تو مجھے آج بھی اسے نہ دیکھ پانے کا افسوس ہے۔ وہ مجھ سے تھوڑا دوری پر کھڑی تھی، اس نے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

    یہ دنیا کیا ہے ایک جنگل اور انسان کیاہے ایک کھنڈر، اس جنگل میں بہت سے کھنڈر ہیں جہاں سے بہت سی آواز آتی ہیں، آپ ان کے پیچھے کیوں نہیں دوڑتے، ایک صرف میری آواز کے پیچھے پڑے ہیں۔ کیا ملےگا آپ کو، اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس طرح آواز کے پیچھے پڑنے سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    اس نے تھوڑا میرے قریب آتے ہوئے کہا۔ سنئے اپنا کام دیکھئے، زندگی کو آگے بڑھایئے، اس آواز کے پیچھے مت پڑیئے جس سے نہ کچھ آپ کو ملےگا نہ مجھے۔

    پھر ایک دم سے اس کی آواز تیز ہو گئی، ایسا لگ رہا تھا کوئی آسمان ہے جو برس رہا ہے، وہ کہہ رہی تھی۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میرا وہ درد جو میرے سینے میں ہے، باہر بھی نہ نکلے، اگر ایسا ہوا تو میرا سینہ پھٹ جائےگا۔ خدا کے لئے اب ایسی غلطی دوبارہ مت کریئےگا اور واپس جانے کے لئے مڑ گئی۔ میں جو ابھی تک اس کی بات خاموشی سے سن رہا تھا اور سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ فوراً آگے بڑھا اور اس کو روکنے لگا۔ ہاتھ تو لگا نہیں سکتا تھا اس لئے اس کے آگے جاکر کھڑا ہو گیا اور اس سے سوال کر لیا۔ مسئلہ کیا ہے اور آپ ہیں کون؟ میں نے ایسی کون سی غلطی کر دی؟

    اس نے ایک اچٹتی ہوئی نظر مجھ پر ڈالی اور بولی کل آپ نے ہی میرا گلا بند کرکے سینہ فگار کیا۔ اگر آپ اس آواز کے چکر میں وہاں تک نہ جاتے تو میں یہاں نہ آتی۔

    میں اس کی باتیں سن کر خواب میں اچھل پڑا اور میرے منھ سے نکل گیا۔ ’’کیا‘‘

    میں حیرت زدہ تھا کہ جس کی تلاش میں رات بھر صحرا نوردی کرتا رہا، وہ میرے پاس ہی موجود ہے اور اہم بات یہ کہ پوری مجسم ہے جسے میں دیکھ سکتا ہوں اور چھوکر محسوس کر سکتا ہوں۔ میں حیرت و استعجاب کا مجسمہ بنا کھڑا تھا اور وہ میری طرف دیکھے جا رہی تھی۔ میں نے کہا اگر آپ وہی ہیں تو مجھے مل کر بڑی خوشی ہوئی اور میری تمنا پوری ہوئی لیکن وہ گیت جو آپ نے کل نہیں سنایا تھا، پہلے وہ سنایئے پھر اس کے بعد اور بہت سی باتیں کروں گا۔

    اس نے کہا میں گیت سنانے نہیں آئی ہوں، میں آپ کو سمجھانے آئی تھی کہ اس طرح کی غلطی نہ کریں ورنہ مجھے تو پریشانی ہوگی ہی آپ بھی پریشانیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔

    میں چاہتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بولے کیونکہ اس کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ اس کی آواز ہی تو تھی جس نے مجھے رات میں بیابان کی خاک چھاننے پر مجبور کیا تھا۔ بھلا روتی اور منھ بسورتی آواز کسے پسند ہے اس لئے جب پہلے دن رونے کی آواز آئی تو جانے کے بارے میں سوچا تک نہیں لیکن دوسرے دن اس کی سحر سامری والی آواز نے تو مجھے اپنی لپیٹ میں ایسا لیا کہ میں پورے پورے ہفتہ اس کا انتظار کرتا اور اس رات سوتا نہیں کہ مجھے آواز سننا ہے اور آج وہ میرے سامنے تھی اس لئے میں چاہتا تھا کہ اس سے وہ گیت سنوں جو وہ گایا کرتی تھی مگر دوری کی وجہ سے میں سمجھ نہیں پاتا تھا لیکن اس نے انکار کر دیا تھا، اس لئے میں اب اسی پر قانع ہو گیا تھا کہ وہ بولتی رہے اور میں سنتا رہوں، خواہ وہ کچھ بھی بولے۔

    میں نے پھر اس سے ایک سوال کیا۔ اچھا یہ بتائے کہ ہفتہ میں دو دن ہی کیوں آواز آتی ہے حالانکہ میں ایک دوسرا سوال کرنے جا رہاتھا جو اس سے زیادہ اہم تھا مگر میں نے کسی وجہ سے وہ پوچھنے کے بجایے یہ سوال کر دیا۔

    وہ جو ابھی تک نگاہیں نیچے کئے ہوئے تھی، سر اوپر اٹھایا اور میری طرف دیکھ کر بولی۔

    آپ کو اس میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟

    میں نے کہا کیوں کہ میں سنتا ہوں، اس لئے جاننا چاہتا ہوں، پتہ نہیں کیسے اور کتنے بدذوق ہیں اس بستی کے لوگ، جو اتنی خوبصورت آواز سنتے ہیں مگر خاموش ہیں، کبھی کسی کو اس سے متعلق بات کرتے ہوئے نہیں سنا،مجھے سخت افسو س ہے۔

    اب جانے کے بجائے وہ ایسے کھڑی ہو گئی جیسے خود رکنا چاہتی ہو۔ اس نے اپنا داہنا ہاتھ پیٹ پر اس طرح رکھا کہ اس کی ہتھیلی پیٹ کے بائیں طرف پہنچ گئی اور بایاں ہاتھ اٹھاکر ٹھوڑی سے لگا لیا، و ہ ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھ رہی تھی۔

    اس نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا ’’اچھا‘‘ مگر کوئی جواب نہیں دیا۔

    میں سوچ رہا تھا کہ کوئی جواب دے تاکہ اس کی آواز سن سکوں۔ اس لیے میں نے دوسرا سوال کر لیا۔

    اچھا یہ بتایئے ایک رات رونیاور ایک رات ہنسنے کی آواز کیوں آتی ہے؟

    اس نے اب کی بڑے غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ سوال بہت کرتے ہیں۔ آپ سے جو کہا ہے اس پر عمل کریئے ورنہ نقصان میں رہیں گے۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتی۔

    یہ کہہ کر وہ چل دی۔

    میں نے اس کا راستہ روکتے ہوئی کہا، دیکھئے اگر میرے اس سوال کا جواب نہیں دیں گی تو میں پھر آؤں گا۔ خواہ کتنا بڑا نقصان کیوں نہ ہو جائے۔

    اس نے خشمگیں نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہو ئے کہا۔ ٹھیک ہے، نہ مانئے، ایک بار مری ہوں، دوبارہ پھر مر جاؤں گی مگر اتنا سن لو، اگر ایسا ہوا تو بخشوں گی نہیں۔

    اس کی اس دھمکی سے میں ذرا سہما لیکن خاطر جمع کرتے ہوئے میں نے کہا، اچھا اگر بتا دیں گی تو کیا نقصان ہو جائیگا اور ہاں اگر آپ نے بتا دیا تو میں کبھی اس طرف نہیں آؤں گا، یہاں تک کہ اگر آپ کہہ دیں گی تو یہ جگہ بھی چھوڑ کر چلا جاؤں گا لیکن آپ بتائیں۔ آپ نہیں جانتی ہیں کہ میں رونے کی آواز اور اس کا درد سن کر کانپ جاتا ہوں، زندگی بےمعنی لگنے لگتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ غم نے مجھے بھی اپنی چادر میں لپیٹ لیا ہے اگر یہ بین مجھ پر اتنا اثرانداز ہے تو جو بین کر رہا ہے اس کے اندر کتنا درد ہوگا لیکن دوسرے دن جب شعلہ کی طرح آواز لپکتی ہے تو زندگی رقص کرنے لگتی، وہ ہزار رنگوں میں جلوہ گر ہوتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی اپنی پوری رعنائیوں اور اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ عود کر آئی ہے۔ اس لئے میں اس بین اور رقص کرتی زندگی کا راز جاننا چاہتا ہوں۔

    اس نیمجھی گھورتے ہوئے کہا آپ بہت ڈھیٹ ہیں۔

    میں بھی اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ میں پہلے ذرا دوری پر کھڑا تھا مگر اب اس کے کافی قریب ہو چکا تھا۔

    اس نے کہا یہ آنکھیں تو بہت چھوٹی چھوٹی ہیں مگر ان میں بلا کی ہمت ہے اور بڑی خوبصورت بھی، چلو میں ان آنکھوں کا احترام کرتے ہوئے تھوڑا سا بتائے دیتی ہوں کیونکہ کہانی بہت طویل ہے لیکن اس کے بعد ضد مت کرنا۔

    میں نے کہا یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔

    اس نے جواب دیا۔ یہ آخری موقع ہے۔ اس کے بعد میں چلی جاؤں گی پھر آپ جانیں اور آپ کا کام جانے ،میں جس لئے آئی تھی وہ کہہ چکی۔

    میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ اچھا ٹھیک ہے سنایئے۔

    وہ کہنے لگی، زیادہ دن نہیں ہوئے ہم بھی بہت خوشی خوشی زندگی کرتے تھیمگر کچھ ایسا زندگی میں رونما ہوا کہ ساری خوشیاں کا فور ہو گئیں اس لئے جب خوشی کے دن یاد آتے ہیں تو گیت گاتی ہوں، رقص کرتی ہوں اور جب برے دن یاد آتے ہیں تو روتی ہوں اور بین کرتی ہوں۔

    اتنا کہنے کے بعد وہ خاموش ہو گئی۔

    میں نے کہا مگر خوشی کس بات کی تھی اور غم کس بات کا؟

    اس نے غصے سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    آپ واقعی بہت عجیب انسان ہیں۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اس کے بعد سوال مت کرنا مگر آپ مانیں گے کہاں۔

    میں سوچ رہا تھا کہ ابھی بتایاہی کیا ہے، اتنا تو بغیر بتائے میں ہی کیا ہر کوئی جان سکتا ہے۔

    اس لئے میں نے بھی تھوڑی برہمی سے جواب دیا۔

    عجیب میں نہیں، آپ ہیں۔ بتاتی بھی ہیں اور نہیں بھی۔ یہ کون سی بات ہوئی۔

    میری بات کا اثر ہوا اور اس کے لب ایک بار پھر نور کی بارش کرنے لگے۔

    اس نے کہنا شروع کیا، دراصل آپ لوگ صرف آوازوں کے پیچھے بھاگتے ہیں،ان کی حقیقت کا ادراک نہیں چاہتے، آپ جو رقص کرتی آواز سنتے ہیں، وہ در اصل خوشی نہیں اور جو بین کرتی آواز سنتے ہیں وہ غم نہیں۔ یہ تو زندگی کے دو رنگ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ آوازیں خود آپ کے اندر سے آرہی ہیں، جبکہ میری تجسیم آپ کا ہی وجود ہے اور آپ ان کو باہر تلاش کرکے مجھے یعنی خود کو ہی پریشان کرتے ہیں۔

    وہ بولے جا رہی تھی اور میں ساکت وجامد صرف سن رہا تھا۔

    آ پ آواز کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں،اپنے اندر جھانکئے، اپنے اردگرد دیکھئے، جنگل تک آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے سرچشمے آپ کو اپنے آس پاس ہی مل جائیں گے۔

    اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔ میں اس کی آواز کے سحر میں گرفتار بس اس کی آنکھوں میں دیکھے جا رہا تھا کیونکہ چہرہ چھپا ہوا تھا، ورنہ میری نگاہ بار بار بھٹک اس کے لبوں پر ہوتی۔ میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا تھا اس لئے میں ملتجی نگاہوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کون ہیں؟

    اس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، آپ بالکل گدھے ہیں، ابھی تک آپ نہیں سمجھ سکے۔ اتنی دیر سے میں اور کیا بتا رہی تھی۔

    آپ یہ سب اپنی خوشی کے لئے پوچھ رہے ہیں نا حالانکہ اس سے آپ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میرے وجود سے آگاہی آپ کی زندگی کو کیا موڑ دے سکتی ہے جو اس قدر پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اگر اس سے فائدہ اٹھانا ہے تو میرے وجود کو جاگتی آنکھوں سے تلاش کرنا وہاں ساز بھی ہوگا اور آواز بھی ہوگی لیکن آپ تو رات اور خواب کے عادی ہیں بس زندگی کو اسی میں تلاش کرتے ہیں جہاں زندگی نہیں ہے۔

    میں اس کی اس فلسفیانہ باتوں کو نہیں سمجھ پا رہا تھا اس لئے میرے اندر جھنجھلاہٹ پیدا ہو رہی تھی جسے میں ضبط کر رہا تھا۔ لیکن کہاں تک ضبط کرتا آخر پھر ایک سوال کر دیا لیکن اس بار میرا لہجہ ذرا سخت تھا۔

    تو آپ نہیں بتائیں گی ،بس گول مول باتیں کریں گی؟

    اس نے ہونٹ اور بھنویں اس طرح سکوڑیں کہ آنکھیں چھوٹی ہو گئیں اور اوپر والا ہونٹ سکڑکر ناک تک پہنچ گیا اور مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا

    جس طرح آپ اپنی خوشی کے لئے مجھے پریشان کرتے ہیں اسی طرح میں نے بھی اپنی خوشی کے لئے کسی کی پروا نہیں کی اور خوشی کے اس سر چشمے سے ہمکنار ہوئی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ میں اپنی خوشی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی جو کرکے دکھایا۔ ایسے لوگوں کو بھی میں نیکنارے کر دیا جن کی میری زندگی میں بڑی اہمیت تھی مگر جب وہ میری خوشی سے متصادم ہوئی تو تاش کے پتوں کی طرح انہیں بھی بکھیر کر رکھ دیا اور اپنی خوشی حاصل کر لی۔ اتنا کہہ کرایک لمحہ کے لئے خاموش ہوئی اور پھر بولی۔ بس اتنا سمجھئے کہ خوشی اور غم زندگی کے دو رنگ ہیں۔ جن کے مابین انسان جھولے کی طرح جھولتا رہتا ہے کسی کو دوام حاصل نہیں۔ خوشیاں اور غم انسان کی زندگی میں بہت تھوڑی دیر کے لئے آتے ہیں اور انسان انہیں تا عمر کی خوشیاں سمجھ بیٹھتا ہے اور یہی غلطی میں نے کی تھی۔

    اس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی، اس کے طویل سکوت پر میں نے کہا لیکن آپ نے تو آواز کا راز بتایا ہی نہیں اور نہ ہی اپنی حقیقت کے بارے میں۔

    یہ سنتے ہی وہ چیخ پڑی اور چلا کر بولی۔

    نہ آپ خوش رہنا چاہتے ہیں اور نہ دوسروں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ ارے سب کچھ تو بتا دیا اب بچا ہی کیا ہے لیکن آپ ایسے کہاں مانیں گیا آپ کو تو دلیلیں چاہئے لایئے ادھر ہاتھ اور مجھے چھوکر دیکھ لیجئے۔ اتنا کہہ کر اس نے خود اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاکر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ہاتھ کے مس ہوتے ہی اس کا وجود ایک دم سے پگھل گیا اور میں ارے ارے کرتا رہ گیا پھر ایک ساتھ رونے اور ہنسنے کی آوازوں سے میرا کمرہ گونج اٹھا۔ اس شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں پسینے سے شرابور تھا اور سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ میں نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ یہ سب کیا ہوا ہے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ ہر طرف سے بس آوازیں ہی آوازیں آ رہی ہیں۔ جن سے بچنے کے لئے میں نے دروازہ کھولا اور گھر سے جنگل کی طرف نکل گیا۔ اب بھی میں ان آوازوں کے تعاقب میں ہوں، ایسا لگتا ہے میں جنگل میں ہوں اور وجود کھنڈر ہے، ان ہی دونوں میں سے کسی سے اس کی آوازیں نکل کر میرے کانوں میں آج بھی گونجتی ہیں اور میں اپنے آس پاس اس کو تلاش کر رہا ہوں۔ دیکھو! کب تک تلاش جاری رہتی ہے۔

    سورس: رسالہ - بازدید، شمارہ نمبر ۱۰

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے