جے گڈھ اور بجے گڈھ دو نہایت سر سبز مہذب، وسیع اور مستحکم سلطنتیں تھیں۔ دونوں ہی میں علم و ہنر کی گرم بازاری تھی۔ دونوں کا مذہب ایک، معاشرت ایک، رسم ورواج ایک، فلسفہ ایک، اصولِ ترقی ایک، معیار ِزندگی ایک اور زبان میں بھی برائے نام فرق تھا۔
جے گڈھی شعراء کے کلام پر بجے گڈھ والے سر دُھنتے اور بجے گڈھی فلسفیوں کے مسائل جے گڈھ کا ایمان تھا، جے گڈھی حسنیوں سے بجے گڈھ کے خانوادے روشن ہوتے اور بجے گڈھ کی دیویاں۔ جے گڈھ میں پجتی تھیں۔ تاہم دونوں سلطنتوں میں ہمیشہ چشمک رہتی تھی۔ چشمک ہی نہیں بلکہ مغائرت، کدورت، سوء ِظن اور حسد، دونوں ہی ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف خنجر بکف رہتی تھیں۔۔۔
جے گڈھ میں اگر کوئی ملکی اصلاح عمل میں آتی تو بجے گڈھ میں واویلا مچ جاتا کہ ہماری زندگی معرضِ خطر میں ہے۔ علیٰ ہذا بجے گڈھ اگر ریلوے کی کوئی نئی شاخ نکالتا توجے گڈھ اِسے اپنے لئے مارِ سیاہ سمجھتا اور بجے گڈھ میں کوئی نیا جہاز تیار ہوتا جو جے گڈھ کو وہ نہنگ ِخوں آشام نظر آتا تھا۔ اگر یہ بدگمانیاں جہلا یا عوام میں پیدا ہوتیں تو ایک بات تھی۔ لطف یہ تھا کہ یہ کدورتیں علم اور بیداری، ثروت اور وقار کی سرزمین ہی میں نشو و نما پاتی تھیں۔
جہالت اور جمود کی او سر زمین ان کے لئے موافق نہ تھی۔ بالخصوص تدبّر اور آئین کے زرخیز علاقے میں تو اس تخم کی بالیدگی خیال کی سبک روی کو بھی مات کردیتی تھی۔ ننھا سا بیج چشم زدن میں تناور درخت ہوجاتا۔ دارالعواموں میں آہ و زاری کی صدائیں گونجنے لگتیں۔ ملکی انجمنوں میں ایک لزلزلہ سا آتا۔ جرائد اور اخبارات کے فغانِ دل سوز قلمرو کو زیر و زبر کردیتے۔
کہیں سے آواز آتی، ’’جے گڈھ، پیارے جے گڈھ، مقدس جے گڈھ، کے لئے یہ سخت آزمائش کا موقعہ ہے۔ رقیب نے جو نصاب تعلیم تیار کیا ہے۔ وہ ہمارے لئے پیامِ مرگ ہے۔ اب ضرورت اور اشد ضرورت ہے کہ ہم کمرِ ہمت چست باندھیں اورثابت کردیں کہ جے گڈھ، لافانی جے گڈھ، ان حملوں سے جانبر ہوسکتا ہے، نہیں انکا دنداں شکن جواب دے سکتا ہے۔ اگر ہم اسوقت بیدار نہ ہوئے تو جے گڈھ، پیارا جے گڈھ پردۂ ہستی سے محو ہوجائیگا اور روایتیں بھی اسے فراموش کردیں گی۔‘‘
دوسری جانب سے صدا آتی، ’’بجے گڈھ کے بے خبر سونے والو، ہمارے مہربان پڑوسیوں نے اپنے اخباروں کی زبان بند کرنے کے لئے جو نئے قواعد نافذ کئے ہیں ان پر ناراضگی کا اظہار کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان کا منشا بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ ہمیں وہاں کے معاملات سے بےخبر رکھا جائے اور اس تاریکی کے پردہ میں ہمارے اوپر دھاوے کئے جائیں، ہمارے گلوں پر پھیرنے کے لئے نئے نئے اسلحے تیار کئے جائیں اور بالآخر ہمارا نام و نشان مٹادیا جائے۔ لیکن ہم اپنے دوستوں کو جتلا دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اگر انھیں آلہ شر کی ایجاد میں یدِ طولیٰ ہے تو ہمیں بھی دفعیہ بلیّات میں کمال ہے۔ اگر شیطان ان کا مددگار ہے تو ہم کو بھی تائیدِ ربّانی حاصل ہے اور اگر اب تک ہمارے دوستوں کو نہیں معلوم ہے تو اب معلوم ہوجانا چاہیۓ کہ تائید ِایزدی ہمیشہ شیطان پر غالب آتی ہے۔‘‘
جے گڈھ با کمال کلاونتوں کا اکھاڑا تھا۔ شیرین بائی اس اکھاڑے کی سبز پڑی تھی۔ اس کے کمال کا دور دور شہرہ تھا۔ قلمرو نغمہ کی ملکہ تھی جس کے آستانے پر بڑے بڑے نامور آکر سر جھکاتے تھے۔ چاروں طرف فتح کا نقارہ بجا کر اس نے بجے گڈھ کا رخ کیا جس سے اب تک اسے خراج ِتحسین نہ حاصل ہوا تھا۔ اس کے آتے ہی بجے گڈھ میں ایک انقلاب سا برپا ہوگیا۔ تعصب اور تکبر اور تفاخرِ بیجا ہوا سے اڑنے والی سوکھی پتیوں کی طرح منتشر ہوگئے۔ بازارِ حسن و نشاط میں خاک اڑنے لگی، تھپیڑوں اور رقص گاہوں میں ایک ویرانی کا عالم نظر آنے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ساری خلقت مسحور ہوگئی ہے۔ شام ہوتے ہی بجے گڈھ کے صغیر و کبیر، بر ناو پیر، شیریں کے مجلس عام کے طرف دوڑتے تھے۔ سارا ملک شیریں کے نشہ عبودیت میں مخمور ہوگیا۔
بجے گڈھ کے با خبر حلقہ میں اہلِ وطن کے اس جنون سے ایک اضطراب کی حالت پیدا ہوئی۔ محض یہی نہیں کہ ان کے ملک کی دولت زائل ہورہی تھی۔ بلکہ ان کا قومی وقار اور غرور خاک میں ملاجاتا تھا۔ جے گڈھ کی ایک رقاصہ ایک معمولی فتنہ گر خواہ وہ کتنی ہی شیریں ادا کیوں نہ ہو، بجے گڈھ کی دلچسپیوں کا مرکز بن جائے یہ ستم تھا، قہر تھا۔ باہم مشورے اور قاضیانِ وطن کی جانب سے وزائر ملک کی خدمت میں اس خاص امر کے متعلق ایک وفد حاضر ہوا۔ بجے گڈھ کے اراکینِ نشاط کی جانب سے بھی محضر نامے پیش ہونے لگے اخباروں نے قومی ذلت اور نکبت کے ترانے چھیڑے، دارالعوام میں سوالات کی یورش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ وزرا مجبور ہوگئے۔ شیریں بائی کے نام شاہی فرمان پہونچا، ’’چونکہ تمہارے قیام سے ملک میں ایک شورش پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے تم فی الفور بجے گڈھ سے رخصت ہوجاؤ۔‘‘ مگر یہ حکم سراسر آئینِ بین الاقوام، باہمی عہد نامے اور اصولِ تمدّن کے خلاف تھا۔ جے گڈھ کے سفیر نے جو بجے گڈھ میں متعین تھا اس حکم سے تعریض کی اور شیریں بائی نے بالآخر اس کی تعمیل سے ان کار کیا کیونکہ اس سے اسکی آزادی اور خودداری اور اس کے وطن کے حقوق اور وقار پر حرف آتا تھا۔
جے گڈھ کے کوچہ و بازار خاموش تھے، سیرگاہیں خالی، تفریح و تماشے در بستہ، قصرِ شاہی کے وسیع صحن اور دارالعوام کے پر فضا سبزہ زار میں آدمیوں کا ہجوم تھا۔ مگر ان کی زبانیں بند تھیں اور آنکھیں سرخ، بشرے تند او رسخت، تیوریاں چڑھی ہوئی، ماتھے پر شکن، امڈی ہوئی کالی گھٹا تھی، ہیبت ناک، خاموش اور سیلاب کو دامن میں چھپائے ہوئے۔
مگر دارالعوام میں ایک ہنگامۂ عظیم برپا تھا۔ کوئی صلح کا حامی تھا۔ کوئی جنگ کا طالب، کوئی مصالحت کا معین، کوئی تحقیقاتی کمیشن کا محرک۔ معاملہ نازک تھا، موقع تنگ۔ تاہم باہمی ردّ و کد، تعریض و تردید، ذاتی حملے اور بدگمانیوں کا بازار گرم تھا۔ آدھی رات گذر گئی۔ مگر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ سرمایہ کی متفق طاقت، اس کا رسوخ اور وقار اور رعب فیصلہ کی زبان بند کئے ہوئے تھا۔
تین پہر رات جاچکی تھی۔ ہوا نیند سے متوالی ہوکر انگڑائیاں لے رہی تھی اور درختوں کی آنکھیں جھپکی جاتی تھیں۔ آسمان کی شمعیں بھی جھلملانے لگی تھیں۔ اراکین ِدرباربھی دیواروں کی طرف تاکتے تھے، کبھی سقف کی طرف لیکن مفر نہ سوجھتا تھا۔
دفعۃً باہر سے آواز آئی، ’’جنگ! جنگ!‘‘ دارالعوام اس صداء بلند سے گونج اٹھا۔ دیواروں نے زبان خاموش سے جواب دیا، ’’جنگ، جنگ!‘‘
یہ نعرۂ غیب تھا جس نے جامد میں حرکت پیدا کردی۔ اب ساکن میں تموج پیدا ہوگیا۔ اراکین گویا خوابِ غفلت سے چونک پڑے، جیسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آتے ہی اچھل پڑے۔ وزیر جنگ سید عسکری نے فرمایا، ’’کیا اب بھی آپ لوگوں کو اعلانِ جنگ میں تامل ہے۔ زبانِ خلق حکمِ خدا ہے اور اس کی صدا ابھی آپ کے کانوں میں آئی۔ اس کی تعمیل ہمارا فرض ہے ہم نے آج اس طولانی نشست میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہم زبان کے دھنی ہیں۔ پرزبان تلوار ہے۔ سپر نہیں۔ ہمیں اس وقت سپر کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم اپنے سینوں کو سپر بنالیں اور ثابت کردیں کہ ہم میں ابھی وہ جوہر باقی ہے جس نے ہمارے بزرگوں کا نام روشن کیا۔ غیرتِ قومی زندگی کی روح ہے۔ وہ نفع و نقصان سے بالاتر ہے، وہ ہنڈی اور روکڑ، وصول اور باقی، تیزی و مندی، کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ سارے کانوں کی چھپی ہوئی دولت، ساری دنیا کی منڈیاں، ساری دنیا کی صنعتیں، اس کے پاسنگ ہیں۔ اسے بچائیے ورنہ آپ کا یہ سارا نظام منتشر ہوجائے گا۔ شیرازہ بکھر جائے گا۔ آپ فنا ہوجائیں گے۔ہمارا اہلِ زر سے سوال ہے۔ کیا اب بھی آپ کو اعلانِ جنگ میں تامّل ہے۔‘‘
باہر سے صدہا آوازیں آئیں، ’’جنگ! جنگ!‘‘
ایک سیٹھ صاحب نے فرمایا، ’’آپ جنگ کے لئے تیار ہیں؟‘‘
عسکری، ’’ہمیشہ سے زیادہ۔‘‘
خواجہ صاحب، ’’آپ کو فتح کا یقین ہے؟‘‘
عسکری، ’’کامل یقین ہے۔‘‘
دور و قریب سے ’’جنگ، جنگ!‘‘ کی گرجتی ہوئی پیہم صدائیں آنے لگیں، گویا ہمالہ کے کسی اتھاہ غار سے ہتھوڑوں کی جھنکار آرہی ہو۔ دارالعوام کانپ اٹھا، زمین تھرّانے لگی۔ رایوں کی تقسیم شروع ہوئی۔ اراکین نے بالاتفاق جنگ کا فیصلہ کیا۔ غیرت جو کچھ نہ کرسکتی تھی۔ وہ نعرۂ خلق نے کر دکھایا۔
آج سے تیس سال پہلے ایک زبردست انقلاب نے جے گڈھ کو ہلا ڈالا تھا۔ برسوں تک خانہ جنگیوں کا دور رہا۔ ہزاروں خاندان مٹ گئے۔ سیکڑوں قصبے ویران ہوگئے۔ باپ بیٹے کے خون کا پیاسا تھا۔ بھائی بھائی کے جان کا گاہک، جب بالآخر حریت کی فتح ہوئی، تو اس نے فدائیانِ تاج کو چن چن کر مارا۔
ملک کے زندان خانے سیاسی فدائیوں سے پر ہوگئے، انہیں جانبازوں میں ایک مرزا منصور بھی تھا اسے قنّوج کے قلعہ میں قید کیا گیا جس کے تین طرف اونچی دیواریں تھیں اور ایک طرف گنگا ندی، منصور کو سارے دن ہتھوڑے چلانا پڑتے۔ صرف شام کو آدھ گھنٹہ کے لئے نماز کی رخصت ملتی تھی۔ اس وقت منصور گنگا کے کنارے آ بیٹھتا اور ابناء وطن کی حالت پر روتا۔ وہ سارا ملکی اور معاشرتی نظام جو اس کے خیال میں قومی نشو و نما کا جزو اعظم تھا اس شورش کے سیلاب میں غارت ہورہا تھا۔ وہ ایک آہ سرد بھر کر کہتا جے گڈھ! اب تیرا خدا ہی حافظ ہے۔ تو نے خاک کو اکسیر بنایا اور اکسیر کو خاک۔ تو نے کسب و جوہر کو، آداب و اخلاق کو، علم و کمال کو مٹا دیا، پامال کردیا۔ اب ہم تیرے۔۔۔ ندار ہیں، چرواہے تیرے پاسبان اور بنئے تیرے اراکینِ دربار۔ مگر دیکھ لینا یہ ہوا ہے اور چرواہے اور ساہو کار ایک دن تجھے خون کے آنسو رلائیں گے۔ ثروت اپنی رفتار نہ چھوڑےگی، حکومت اپنا رنگ نہ بدلے گی۔ اشخاص چاہے بدل جائیں لیکن نظام وہی رہے گا۔ یہ تیرے نئے چارہ گر جو اس وقت مجسم انکسار اور حق و انصاف کے پتلے بنے ہوئے ہیں ایک دن نشہ ثروت میں متوالے ہوں گے، انکی سختیاں تاج کی سختیوں سے کہیں زیادہ سخت ہوں گی اور ان کے مظالم اس سے کہیں زیادہ شدید۔
انہیں خیالوں میں ڈوبے ہوئے منصور کو اپنے وطن کی یاد آجاتی۔ گھر کا نقشہ آنکھوں میں کھنج جاتا، معصوم بچّے عسکری کی پیاری پیاری صورت آنکھوں میں پھر جاتی جسےتقدیر نے ماں کے ناز وپیار سے محروم کردیا تھا۔ تب منصور ایک آہِ سرد کھینچ کر اٹھ کھڑا ہوتا اور وحشتِ اشتیاق میں اس کا جی چاہتا کہ گنگا میں کود کا پار نکل جاؤں۔
رفتہ رفتہ اس خواہش نے ارادہ کی صورت اختیار کی۔ گنگا امڈی ہوئی تھی اور چھور کا کہیں پتہ نہ تھا۔ تند اور گرجتی ہوئی لہریں دوڑتے ہوئے پہاڑوں کے مشابہ تھیں۔ پاٹ دیکھ کر سر میں چکّر سا آجاتا تھا۔ منصور نے سوچا ندی اترنے دوں۔ لیکن ندی اترنے کی جگہ کسی ہولناک مرض کی طرح بڑھتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ منصور کو یارائے صبر نہ رہا۔ ایک دن وہ رات کو اٹھا اور اس پر شورِ متموج تاریکی میں کود پڑا۔
منصور ساری رات لہروں کے ساتھ زیر و زبر ہوتا رہا، جیسے کوئی ننھا سا طائر طوفان میں تھپیڑے کھا رہا ہو۔ کبھی لہروں پر سوار اچھلتا، جھولتا، کبھی ان کی گود میں چھپا ہوا۔ کبھی ایک ریلے میں دس قدم آگے، کبھی ایک دھکے میں دس قدم پیچھے۔ زندگی نقش برآپ کی زندہ مثال! جب وہ ندی کے پار ہوا تو لاشہ بے جان تھا۔ صرف سانس باقی تھی اور سانس کے ساتھ شوقِ دیدار۔
اس کے تیسرے دن منصور بجے گڈھ جا پہونچا۔ ایک گود میں عسکری تھا اور دوسرے ہاتھ میں اپنی بینوائی کا بقچہ۔ وہاں اس نے اپنا نام مرزا جلال بتلایا۔ وضع و قطع بھی تبدیل کرلی تھی۔ تناور اور سجیلا جوان تھا۔ چہرہ پر شرافت اور نجابت کا نور جھلکتا تھا۔ ملازمت کے لئے کسی مزید سفارش کی ضرورت نہ تھی۔ سپاہیوں میں داخل ہوگیا اور پانچ ہی سال میں اپنے حسن ِخدمات اور اعتماد کی بدولت مندور کے سرحدی کوہستانی قلعہ کا قلعہ دار بنا دیا گیا۔
لیکن مرزا جلال کو وطن کی یاد ہمیشہ ستایا کرتی۔ وہ عسکری کو گود میں لے لیتا اور فصیلوں پر چڑھ کر اسے جے گڈھ کے وہ مسکراتے ہوئے سبزہ زار اور متوالے چشمے اور حلیم بستیاں دکھاتا جن کے سواد قلعہ سے نظر آتے تھے۔ اس وقت بے اختیار اس کے جگر سے ایک آہ سرد نکل جاتی اور آنکھیں آبگوں ہوجاتیں وہ عسکری کو گلے لگا لیتا اور کہتا! بیٹا وہ تمہارا دیس ہے۔ وہی تمہارا اور تمہارے بزرگوں کا آشیانہ ہے۔ تم سے ہوسکے تو اس کا نام روشن کرنا۔ اس کی خدمت کرنا اور کچھ نہ ہوسکے تو اس کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے اپنی عمر ختم کردینا۔ مگر کبھی اس کی آن میں بٹّہ نہ لگانا۔ کبھی اس سے دغا مت کرنا، کیونکہ تم اسی کے آب و گل سے پیدا ہوئے ہو اور تمہارے بزرگوں کی پاک روحیں اب بھی وہاں منڈلا رہی ہیں۔ اس طرح بچپنے ہی سے عسکری کے دل پر وطن کی خدمت اور محبت کا نقش ہوگیا تھا۔ وہ جوان ہوا تو جے گڈھ پر جان دیتا تھا۔ اس کے وقار کا دلدادہ، اس کی ہیبت و شان کا چلّہ کش، اس کی سر سبزی کا عامل، اس کے پھریرے کو نئی اچھوتی سر زمینوں میں نصب کرنےکا فدائی۔ بیس سال کا جوان رعنا تھا۔ ارادہ مضبوط، حوصلے بلند، ہمت وسیع، قواء آہنی، آکر جے گڈھ کی فوج میں داخل ہوگیا اور اس وقت جے گڈھی سپاہ کا مہرِ درخشاں بنا ہوا تھا۔
جے گڈھ نے الٹی میٹم دیدیا، ’’اگر ۲۴ گھنٹوں کے اندر شیریں بائی جے گڈھ نہ پہونچ جائیگی تو اس کے استقبال کے لئے جے گڈھ کی فوج روانہ ہوگی۔‘‘ بجے گڈھ نے جواب دیا، ’’جے گڈھ کی فوج آئے ہم اس کی پیشوائی کے لئے حاضر ہیں۔ شیریں بائی جب تک یہاں کی عدالت سے حکم عدولی کی سزا نہ پائے وہ رہا نہیں ہوسکتی اور جے گڈھ کو ہمارے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی مجاز نہیں۔‘‘
عسکری نے منہ مانگی مراد پائی، خفیہ طور پر ایک قاصد مرزا جلال کی خدمت میں روانہ کیا اور خط میں لکھا۔۔ ‘‘آج بجے گڈھ سے ہماری جنگ چھڑ گئی۔ اب خدا نے چاہا تو دنیا جے گڈھ کی تلوار کا لوہا مان جائے گی۔ عسکری ابن مصور بزم فاتحاں، حاشیہ نشین بن سکے گا اور شاید مری وہ دلی تمنا بھی برآئے جو ہمیشہ میری روح کو تڑپایا کرتی ہے۔ شاید میں مرزا منصور کو پھر جے گڈھ کے دارالعوام میں ایک ممتاز درجہ پر بیٹھے ہوئے دیکھ سکوں۔ ہم مندور سے نہ بولیں گے اور آپ بھی ہمیں نہ چھیرئے گا۔ لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی افتاد آہی پڑے تو آپ میری یہ مہر جس سپاہی یا افسر کو دکھا دیں گے وہ آپ کی تعظیم کرے گا اور آپ کو بخیرت تمام میرے کیمپ میں پہونچا دےگا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو اس جے گڈھ کے لئے جوآپ کو اتنا پیارا ہے اور اس عسکری کی خاطر جو آپ کا لخت جگر ہے، آپ تھوڑی سی تکلیف سے ممکن ہے وہ روحانی تکلیف ہو، دریغ نہ فرمائیں گے۔‘‘
اس کے تیسرے دن جے گڈھ کی فوج نے بجے گڈھ پر حملہ کیا اور مندور سے پانچ میل کے فاصلہ پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا۔ بجے گڈھ کو اپنے ہوائی جہازوں، زہریلے خاروں اور دورانداز توپوں کا غرور تھا۔ جے گڈھ کو اپنے سپاہ کی شجاعت اورجفا کشی، فہم اور ادراک کا بھروسہ، بجے گڈھ کی سپاہ حکم و رضا کی غلام تھی۔ جے گڈھ والے ذمہ داری اور تمیز کے قائل۔
ایک مہینہ تک شب روز کشت و خون کے معرکے ہوتے رہے۔ ہمیشہ آگ اور فلزات اور زہریلی ہواؤں کا طوفان سا اٹھا رہتا۔ انسان تھک جاتا تھا، پر کلین اتھک تھیں۔ جے گڑھیوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ متواتر زکیں کھائیں۔ عسکری کو معلوم ہوا کہ ذمہ داری فتح میں چاہے معجزے کردکھائے پر شکست میں میدان حکم ہی کے ہاتھ رہتا ہے۔
جے گڈھ کے اخباروں نے ارباب حل و عقد پر حملے کرنے شروع کئے۔ عسکری ساری قوم کا تودۂ ملامت بن گیا۔ وہی عسکری جس پر جے گڈھ فدا ہوتا تھا سب کی نظروں میں خار ہوگیا۔ یتیموں کے آنسو، بیواؤں کی آہیں، مجروحوں کی جانکاہیاں، تاجروں کی تباہی، قوم کی ذلت، ان سب کا سب وہی ایک فرد واحد، عسکری تھا۔ قوم کی امامت تخت زرنگار چاہے ہو، پر پھولوں کا سیج ہرگز نہیں۔
اب جے گڈھ کی جانبری کی بجز اس کے اور کوئی صورت نہ تھی کہ کسی طرح مخالف سپاہ کا تعلق مندور کے قلعہ سے قطع کردیا جائے۔ جو سامان جنگ و رسد اور وسائل نقل و حرکت کا مرکز تھا۔ مہم دشوار تھی۔ نہایت خطرناک، کامیابی کی امید موہوم، ناکامی کا اندیشہ غالب، کامیابی اگر سوکھے دھان کا پانی تھی! تو ناکامی سوکھی دھان کی آگ۔ مگر نجابت کی اور کوئی دوسری تدبیر نہ تھی۔ عسکری نے مرزا جلال کو لکھا۔۔۔
’’پیارے ابا جان! اپنے سابق کے نیاز نامے میں میں نے جس ضرورت کا اشارہ کیا تھا بدقسمتی سے وہ ضرورت آپڑی۔ آپ کا پیارا جے گڈھ پنجۂ گرگ میں پھنسا ہوا ہے اور آپ کا پیارا عسکری ورطۂ یاس میں۔ دونوں آپ کی طرف نگاہ التجا سے تاک رہے ہیں۔
آج ہماری آخری کوشش ہے۔ ہم مخالف سپاہ کو مندور کے قلعہ سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔ نصف شب کے بعد یہ معرکہ شروع ہوگا۔ آپ سے صرف اتنی درخواست ہے کہ اگر ہم سر بکف ہوکر قلعہ کے مقابل تک پہونچ سکیں تو ہمیں آہنی دروازہ سے سر ٹکرا کر واپس نہ ہونا پڑے۔ ورنہ آپ اپنے قوم کی عزت اور اپنے بیٹے کی لاش کو اسی مقام پر تڑپتے دیکھیں گے اور جے گڈھ آپ کو کبھی معاف نہ کرے گا۔ اس سے آپ کو کتنی ہی ایذا پہونچی ہو مگر آپ اس کے حقوق سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔‘‘
شام ہوچکی تھی۔ میدان جنگ ایسا نظر آتا تھا گویا جنگل آگ سے جل گیا ہو۔ بجے گڈھی سپاہ ایک خونریزی کے بعد خندقوں میں آرہی تھی۔ مجروحین قلعہ مندور کے شفا خانے میں پہونچائے جارہے تھے۔ توپیں تھک کر چپ ہوگئی تھیں اور بندوقیں ذرا دم لے رہی تھیں۔ اسی وقت جے گڈھی سپاہ کا ایک افسر بجے گڈھی وردی پہنے ہوئے عسکری کے خیمہ سے نکلا۔ شکستہ توپیں سرنگوں طیارے، گھوڑوں کی لاشیں، اوندھی پڑی ہوئی ہوا گاڑیاں اور متحرک پر اعضا شکستہ قلعے اس کے لئے پردے کا کام کرنے لگے۔ ان کی آڑ میں چھپتا ہوا وہ بجے گڈھی مجروحوں کی صف میں جا پہنچا اور چپ چاپ زمین پر لیٹ گیا۔
نصب شب گذر چکی تھی۔ مندور کا قلعہ دار مزار جلال قلعہ کی فصیل پر بیٹھا ہوا میدانِ جنگ کا تماشاہ دیکھ رہا تھا اور سوچتا تھا کہ ’’عسکری کو مجھے ایسا خط لکھنے کی جرات کیونکر ہوئی۔ اسے سمجھنا چاہیۓ تھا کہ جس شخص نے اپنے اصول و عقائد پر اپنی زندگی نثار کردی۔ جلا وطن ہوا اور غلامی کا طوق گردن میں ڈالا، وہ اب اپنے حیات کے دور ِآخر میں جادۂ مستقیم سے منحرف نہ ہوگا، اپنے اصولوں کو نہ توڑے گا۔ خدا کے دربار میں وطن اور فرزند اور اہل وطن ایک بھی ساتھ نہ دیں گے۔ اپنے اعمال کی سزا و جزا آپ ہی بھگتنی پڑے گی۔ روز حساب سے کوئی نہ بچا سکے گا۔‘‘
’’توبہ! جے گڑھیوں سے پھر وہی حماقت ہوئی۔ خوا مخواہ گولہ باری کر کے دشمن کو خبردار کردینے کی کیا ضرورت تھی۔ اب ادھر سے بھی جواب دیا جائیگا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوں گی۔ شبخون کے معنی تو یہ ہیں کہ غنیم سر پر آجائے اور کانوں کان خبر نہ ہو، چوطرفہ کھلبلی پڑجائے۔ مانا کہ موجودہ حالات میں اپنے سرکاٹ کر پوشیدہ رکھنا دشوار ہے۔ اس کا علاج غار تاریک سے کرنا چاہیۓ تھا۔ مگر آج شاید ان کی گولہ باری معمول سے زیادہ شدید ہے۔ بجے گڈھ کی صفوں کو اور متعدد و استحکامات کو چیر کر بظاہر ان کا یہاں تک آنا تو محال معلوم ہوتا ہے، لیکن بفرض محال آہی جائیں تو مجھے کیا کرنا چاہیۓ۔ اس مسئلہ کو طے کیوں نہ کرلوں۔ خوب! اس میں طے کرنے کی بات ہی کیا ہے۔ میرا راستہ صاف ہے۔ میں بجے گڈھ کا نمک خوار ہوں، میں جب خانمان برباد، خستہ حال، آوارہ وطن تھا تو بجے گڈھ نے مجھے اپنے دامن میں پناہ دی اور میری خدمات کا مناسب اعتراف کیا۔ اس کی بدولت تیس سال تک میری زندگی نیک نامی اور عزت سے گذری۔ اس سے دغا کرنا حد درجہ کی نمک فراموشی ہے، ایسا گناہ جس کی کوئی سزا نہیں، اوہ اوپر شور ہورہا ہے۔ ہوائی جہاز ہوں گے۔ وہ گولہ گرا مگر خیرت ہوئی۔ کوئی نہیں تھا۔‘‘
’’مگر کیا دغا ہر ایک حالت میں گناہ ہے؟ ایسی حالتیں بھی تو ہیں جب دغا وفا سے بھی زیادہ مستحسن ہوجاتی ہے۔ اپنے دشمن سے دغا کرنا کیا گناہ ہے؟ اپنی قوم کے دشمن سے دغا کرنا کیا گناہ ہے؟ کتنے ہی فعل جو ذاتی حیثیت سے ناقابل ِعفو ہیں، قومی حیثیت سے عین ثواب ہوجاتے ہیں۔ وہی خونِ بےگناہ جو ذاتی حیثیت سے سخت ترین سزا کا مستوجب ہے، مذہبی حیثیت سے شہادت کا درجہ پاتا ہے اور قومی حیثیت سے فدائیت کا۔ کتنی بے رحمیاں اور سفاکیاں، کتنی دغائیں اور روباہ بازیاں قومی اور مذہبی نقطۂ نگاہ سے محض روا نہیں، فرائض میں داخل ہوجاتی ہیں۔ حال کے یوروپی معرکہ عظیم میں اس کی کتنی ہی مثالیں مل سکتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ ایسی دغا کاریوں سے پر ہے۔ اس نئے دور میں ذاتی احساس نیک و بد قومی مصلحت کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ قومیت نے ذات کو مٹا دیا ہے۔ ممکن ہے یہی منشاء ایزادی ہو اور خدا کے دربار میں بھی ہمارے افعال قومی معیار ہی پر کسے جائیں۔ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا میں سمجھا تھا۔‘‘
’’پھر عالم بالا میں شور ہوا، مگر شاید یہ ادھر ہی کے طیارے ہیں۔ آج جے گڈھ والے بڑے دم خم سے لڑ رہیں ہیں۔ ادھر والے دبتے نظر آتے ہیں۔ آج یقیناً میدان انہیں کے ہاتھ رہے گا۔ جان پر کھیلے ہوئے ہیں۔ جے گڑھی دلاوروں کے جوہر مایوسی ہی میں خوب کھلتے ہیں، ان کی شکست فتح سے بھی شاندار ہوتی ہے۔ بلا شک عسکری نقل و حرکت کا استاد ہے۔ کس خوبصورتی سے اپنی فوج کا رخ بابِِ قلعہ کی طرف پھیر دیا مگر سخت غلطی کررہے ہیں، اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہے ہیں۔ سامنے کا میدان دشمن کے لئے خالی کئے دیتے ہیں۔ وہ چاہے تو بلاروک ٹوک آگے بڑھ سکتا ہے اور صبح تک جے گڈھ کی سرزمین میں داخل ہوسکتا ہے۔ جے گڑھیوں کے لئے واپسی یا تو غیر ممکن ہے یا نہایت خطرناک، قلعہ کا دروازہ نہایت مستحکم ہے۔ فصیلوں کی شگافوں سے ان پر بیشمار بندوقوں کے نشانے پڑیں گے۔ ان کا اس آگ میں ایک گھنٹہ بھی ٹھہرنا ممکن نہیں۔ کیا اتنے ہم وطنوں کی جانیں محض ایک اصول پر محض روز حساب کے خوف پر، محض اپنے اخلاقی احساس پر، قربان کردوں؟ اور محض جانیں ہی کیوں؟ اس سپاہ کی تباہی جے گڈھ کی تباہی ہے۔ کل جے گڈھ کی پاک سر زمین غنیم کے نقارہ فتح کی صداؤں سے گونج اٹھے گی۔ میری مائیں اور بہنیں اور بیٹیاں اس کی حیا سوز بدعتوں کا شکار ہوں گی، سارے ملک میں قتل اور غارتگری کے ہنگامے برپا ہوں گے، پرانی عداوت اور کدورت کے شعلے بھڑکیں گے۔ کنج ِمرقد میں سوئی ہوئی روحیں دشمن کے قدموں سے پامال ہوں گی، وہ تعمیرات جو ہماری گذشتہ عظمت کی زندہ روائتیں ہیں، وہ یادگاریں جو ہمارے بزرگوں کی تبرکات ہیں، جو ہمارے کارناموں کا دفتر، ہمارے کمالات کا خزانہ اور ہمارے اکتسابات کی روشن شہادتیں ہیں، جن کی آرائش اور ترتیب اور جامعیت کو دنیا کی قومیں رشک کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں وہ نیم وحشی، کندہ نا تراش لشکریوں کا فرودگاہ بنے گی اور ان کے جوشِ انہدام کا شکار۔ کیا اپنے قوم کو ان ستم شعاریوں کا تختہ مشق بننے دوں محض اس لئے کہ میرا پیمان وفا نہ ٹوٹے۔‘‘
’’اف! یہ قلعے میں زہریلے گیس کہاں سے آگئے۔ کسی جے گڑھی طیّارے کی حرکت ہوگی۔ سر میں چکّر سا آرہا ہے۔ یہاں سے کمک بھیجی جارہی ہے۔ فصیل کی روزنون میں بھی توپیں چڑھائی جارہی ہیں۔ جے گڑھ والے قلعہ کے سامنے آگئے۔ ایک دھاوے میں وہ بابِ ہمایوں تک آ پہونچیں گے۔ بجے گڑھ والے اس سیلاب کو اب نہیں روک سکتے۔ جے گڑھ والوں کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے! یا اللہ کسی طرح دروازہ خود بخود کھل جاتا، کوئی جے گڑھی ہوا باز آکر مجھ سے بزور کنجی چھین لیتا، مجھے ہلاک کر ڈالتا۔ آہ میرے اتنے عزیز ہم وطن، پیارے بھائی، ایک آن میں تودۂ خاک ہوجائیں گے اور میں بے بس ہوں۔ ہاتھوں میں زنجیر ہے، پیروں میں بیڑیاں، ایک ایک رویان رسیوں سے جکڑا ہوا ہے۔ کیوں نہ اس زنجیر کو توڑدوں، ان بیڑیوں کے ریزے ریزے کردوں اور دروازہ کے دونوں بازو اپنے عزیز فاتحوں کے خیر مقدم کے لئے کھول دوں۔ بالفرض یہ گناہ سہی۔ پر یہ موقع گناہ سے ڈرنے کا نہیں۔ جہنم کے مارِآتشیں اور خوں آشام بہائم اور لپکتے ہوئے شعلے میری روح کو جلائیں، تڑپائیں، کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر محض میری روح کی تباہی میرے قوم اور وطن کو قعرِ ہلاکت سے بچا سکے تو وہ مبارک ہے۔ بجے گڈھ نے زیادتی کی ہے۔ اس نے محض جے گڈھ کو ذلیل کرنے کے لئے محض اس کے اشتعال کے لئے، شیریں بائی کو شہر بدر ہونے کا حکم جاری کیا۔ جو سراسر ناروا تھا۔ ہائے افسوس! میں نے اسی وقت استعفا کیوں نہ دے دیا اور اس قفسِ اطاعت سے کیوں نہ نکل گیا۔‘‘
’’ہائے غضب جے گڑھی سپاہ خندقوں تک پہونچ گئیں۔ خدا ان جانبازوں پر رحم کر ان کی مدد کر کلدارتوپوں سے گولے کیسے برس رہے ہیں گویا آسمان کے بیشمار تارے ٹوٹے پڑتے ہیں۔ الہی! بابِ ہمایوں پر گولوں کی کیسی ضربیں پڑ رہی ہیں۔ کان کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔ کاش دروازہ ٹوٹ جاتا۔ ہائے میرا عسکری، میر لختِ جگر، وہ گھوڑے پر سوار دوڑ ا آرہا ہے۔ کیسا شجاع، کیسا جانباز، کیسا قوی ہمت! آہ مجھ روسیاہ کو موت کیوں نہیں آجاتی، میرے سر پر کوئی گولا کیوں نہیں آ گرتا، جس پودے کو اپنے خون جگر سے پالا۔ جو میری خزاں نصیب زندگی کا سدا بہار تھا۔ ہائے جو میرے شب تار کا چراغ، میری زندگی کی امید، میرے وجود کی کائنات، میری آرزو کی انتہا تھا۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے آگ کے بھنور میں پڑا ہوا ہے اور میں حرکت نہیں کرسکتا۔ اس قاتل زنجیر کو کیوں کر توڑوں؟ اس دل سرکش کو کیوں کر سمجھاؤں؟ مجھے رو سیاہ بننا منظور ہے۔ مجھے دوزخ کی عقوبتیں سہنی منظور ہیں، میں ساری دنیا کے گناہوں کا بار سر پر لینے کو تیار ہوں۔ صرف اس وقت مجھے گناہ کرنے کی، پیمان وفا توڑنے کی، نمک حرام بننے کی توفیق عطا کر۔ ایک لمحہ کے لئے مجھے گنہگار بنادے۔ مجھے بدہوش کردے، نیک و بد کا احساس میرے دل سے مٹادے، ایک لمحہ کے لئے مجھے شیطان کے حوالے کردے۔ میں نمک حرام بنوں گا، دغا باز بنوں گا، پر قوم فروش نہیں بن سکتا!‘‘
’’آہ! ظالم سرنگیں اڑانے کی تیاری کررہے ہیں۔ سپہ سالار نے حکم دے دیا۔ وہ تین آدمی تہہ خانے کی طرف چلے۔ جگر کانپ رہا ہے۔ جسم میں رعشہ آرہا ہے، یہ آخری موقعہ ہے۔ ایک لمحہ اور بس! پھر تاریکی ہے اور تباہی، ہائے! ان منحرف اعضا میں اب بھی حرکت نہیں ہوتی، یہ خون اب بھی نہیں گرم ہوتا، آہ! وہ دھماکے کی آواز ہوئی۔ خدا کی پناہ زمین میں لرزہ آگیا۔ ہائے عسکری عسکری! رخصت، میرے پیارے بیٹے رخصت! اس ظالم بے رحم باپ نے تجھے اپنی وفا پر قربان کردیا۔ میں تیرا باپ نہ تھا تیرا دشمن تھا۔ میں نے تیرے گلے پر چھری چلائی۔ اب دھواں صاف ہوگیا۔ آہ! وہ فوج کہاں ہے جو سیلاب کی طرح بڑھتی آئی تھی اور ان دیواروں سے ٹکرا رہی تھی۔ خندقیں لاشوں سے بھری ہوئی ہیں اور وہ جس کا میں دشمن تھا، جس کا قاتل، وہ بیٹا وہ میرا دلارا عسکری کہاں ہے؟ کہیں نظر نہیں آتا۔۔۔ آہ۔ آہ۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.