دن تو وہ بھی عام دنوں کی طرح شروع ہوا تھا۔
معمول کے مطابق پروفیسر کیانی نے فجر کی اذان سنتے ہوئے بستر چھوڑا، نماز پڑھ کر صبح کی سیر پر نکل گئے۔ لوٹ کر آئے تو بیگم نے چائے تیار کی ہوئی تھی، وہ چائے کے ساتھ اخبار لے کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد نہائے دھوئے اور ناشتا کیا۔ چھٹی کا دن تھا سو کوئی کتاب تھام لی۔ بچے اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوچکے تھے۔ بیوی نوکرانی کے ساتھ مصروف تھیں، پہلے جھاڑ پونچھ کرلو، کپڑے بعد میں دھونے بیٹھنا۔ آوازیں ساری پروفیسر صاحب کے کان میں پڑ رہی تھیں لیکن معمول یہ تھا کہ چھٹی کے دن وہ اپنے کمرے ہی میں دوپہر تک کا وقت گزارتے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کرتے اور شام کی چائے کے بعد سے رات تک بیچ کے کمرے میں بیٹھے رہتے۔ ٹی وی دیکھتے، کوئی ملنے آ جاتا یا وہ خود اٹھ کر کسی دوست کے یہاں چلے جاتے۔ غرض کہ چھٹی کا دن یوں ہی گزرتا۔ اس دن کا آغاز بھی حسب معمول ہوا تھا لیکن دوپہر سے پہلے ہی انھوں نے بخوبی اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ دن شروع تو عام دنوں کی طرح ہوا ہے مگر اس کا اختتام عام دنوں کی طرح نہیں ہوگا۔ موت کے سائے کی چاپ پروفیسر صاحب نے کہیں بہت قریب سے سنی تھی۔
خیر، بات اگر صرف موت کا سامنا کرنے کی ہوتی تو بھی وہ حوصلہ کر لیتے۔ اس لیے کہ موت تو اس سے پہلے بھی کئی بار ان کے آس پاس منڈلا کر لوٹ گئی تھی۔ انھیں وہ رات اچھی طرح یاد تھی جب کھانے کے بعد وہ صبح کے ناشتے کے لیے ڈبل روٹی اور انڈے وغیرہ لینے نکلے تھے۔ دروازے پر ہی تھے کہ منجھلی بیٹی دوڑتی ہوئی آئی، ’’پاپا، پاپا! مما کہتی ہیں بھیا کو بھی باہر ٹہلا لائیں۔‘‘ پروفیسر صاحب رک گئے، ’’اچھا جاؤ، لے آؤ بھیّا کو جلدی سے۔‘‘ بیٹا سال بھر کا تھا، تین بہنوں کے بعد ہوا تھا، سارے گھر کی آنکھ کا تارا بنا رہتا۔ ماں باپ بہنیں سبھی جیسے خدمت میں لگے رہتے اس کی۔ پروفیسر صاحب کسی کام سے باہر جاتے تو بیٹا ان سے پہلے جانے کے لیے تیار نظر آتا۔ ’’ارے تمھیں کیسے سمجھ آ جاتی ہے کہ میں باہر جا رہا ہوں؟‘‘ وہ ہنستے، ’’اور باہر جاکر ملتا کیا ہے تمھیں؟ بس ٹکر ٹکر دیکھتے رہتے ہو منڈی گھما کر۔‘‘ اس دن وہ بیٹے کو گود میں لیے نکلے تو بازار میں روز کی طرح رونق تھی۔ یوں بھی یہ وقت بازار میں زیادہ چہل پہل کا تھا۔ وہ چیزیں لے کر لوٹ رہے تھے، ابھی آدھے رستے میں ہوں گے کہ ان کے پاس سے تین چار نوجوان تیزی سے راستہ کاٹتے ہوئے نکلے۔ انھوں نے نوجوانوں پر تو کوئی دھیان نہ دیا البتہ یہ سوچ کہ شاید وہ فٹ پاتھ کے بیچوں بیچ چل رہے ہیں، ایک طرف کو ہوکر چلنے لگے۔ لیکن ابھی چند قدم بھی آگے نہ بڑھے ہوں گے کہ دائیں بائیں پورے بازار کی دکانیں تیزی سے بند ہونے لگیں۔ انھیں گھڑی بھر کو تو کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے، اس لیے رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ پھر جیسے سمجھ آ گیا، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟ تب تو جیسے ان کی دونوں ٹانگوں میں بجلیاں سی بھر گئیں۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے وہ گھر کی طرف رواں تھے لیکن رک کر انھوں نے جو چند لمحے معاملہ سمجھنے میں گزارے تھے، لگتا تھا ان کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔ اس لیے کہ فائرنگ شروع ہوچکی تھی اور گولیوں کی آوازیں جیسے ان کی طرف لپک رہی تھی۔
انھیں اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ یہ آواز عقب سے آ رہی ہے یا سامنے سے یا پھر دائیں جانب سے، لیکن اب سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ ایک ہاتھ میں بیٹا تھا، دوسرے میں ڈبل روٹی، مکھن اور انڈے۔۔۔ اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ تڑتڑ۔۔۔ تڑتڑ۔۔۔ تڑتڑ۔۔۔ تڑتڑ کی آوازیں اب مشرق، مغرب، شمال، جنوب ہر سمت سے یکساں آ رہی تھی۔ دوڑتے ہوئے انھیں بس ایک ہی خیال تھا کہ بیٹا غیرمحفوظ ہے، بیٹا مصیبت میں ہے، بیٹے کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ سال بھر کا بیٹا اس صورتِ حال کو تو یقیناًنہیں سمجھ سکتا تھا لیکن ہنگامے نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا اور وہ چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔ انھوں نے دوڑتے دوڑتے اس ہاتھ کو جس میں بیٹا تھا، آگے کرکے سینے سے لگا لیا اور بچے کے گرد دونوں بازوؤں کا حلقہ کرلیا کہ اگر کوئی گولی ان کی طرف آئے تو بچے تک نہ پہنچے بلکہ ان کے جسم کی ڈھال سے رک جائے۔ بیس قدم آگے انھیں اپنی گلی میں مڑنا تھا لیکن یہ بیس قدم بیس ہزار میل بن گئے تھے، ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔ لگ رہا تھا جیسے چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ آ رہی ہے۔ وہ زندگی میں پہلی بار شدید بے بسی کے احساس سے دوچار تھے۔ جو باپ اپنی اولاد کو تحفظ فراہم نہ کر سکتا ہو، اسے اولاد پیدا کرنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔ نہیں اسے تو جینے کا بھی کوئی حق نہیں۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے۔۔۔ انھی خیالات میں الجھے ہوئے انھیں پتا بھی نہ چلا کہ وہ کب اپنی گلی میں مڑ گئے۔ وہ تو اس وقت چونکے جب کئی مکانوں کے دروازوں سے پکار پڑی، ’’یہاں آجایئے۔۔۔ یہاں آ جایئے۔۔۔‘‘ اور پھر ایک دروازے سے نکلنے والے ہاتھ نے انھیں اندر کھینچ لیا۔ سب کچھ جیسے خواب میں ہو رہا تھا۔ ان کا ذہن خواب اور حقیقت کے بیچ اٹکا تھا اور یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ منظر خواب کا ہے یا سچ مچ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بیٹا گود میں روئے جا رہا تھا۔ کئی آوازیں بیک وقت اسے پچکار پچکار کر چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اوسان بحال ہونے لگے تو انھوں نے غور کیا کہ وہ ایک مکان کے برآمدے میں کھڑے ہیں اور یہاں ان کے آس پاس دس بارہ افراد ہیں۔ جہاں وہ تھے، اس کے عقب میں دو کمروں کے دروازے تھے اور وہاں کچھ خواتین اور بچے کھڑے تھے۔ اس وقت ان کے دماغ میں خیالات کے جھپاکے ہو رہے تھے۔ پل بھر کو دھیان بیوی اور بیٹیوں کی طرف گیا کہ فائرنگ کی آواز سن کر سخت پریشان ہو رہی ہوں گی، بیوی کہیں ڈھونڈنے نہ نکل کھڑی ہوں پھر چھوٹے بھائی کا خیال آ گیا۔ اس کی رہائش جس جگہ تھی وہ شہر کا سب سے زیادہ متاثر رہنے والا علاقہ تھا۔
اس کے بعد وہ اپنے شہر کے سیاسی، گروہی اور لسانی مسائل کے بارے میں سوچنے لگے۔ وحشیوں کا، درندوں کا شہر ہو چکا ہے کراچی، انسان نہیں بستے یہاں۔ انسان ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کر سکتے یہ سب کچھ۔۔۔ یہ بربریت۔۔۔ یہ سفاکی۔۔۔ بالکل غیرانسانی صورت حال۔۔۔ لیکن معاً ان کا دھیان ایک بار پھر آس پاس کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف چلا گیا۔ نہیں، ایسا نہیں سوچنا چاہیے، انھوں نے خود سے کہا۔ اردگرد کھڑے ہوئے لوگوں پر نگاہ ڈالی، سب کے چہروں پر خوف اور اضطراب تھا۔ نہیں، یہ سب تو انسان ہیں۔۔۔ ان میں تو کوئی درندہ نہیں ہے۔۔۔ اور وہ لوگ جنھوں نے دروازے کھول کھول کر موت سے بھاگے ہوئے ان بے اماں لوگوں کو پناہ دی ہے۔۔۔ نہیں، بالکل نہیں، انسانیت اس شہر سے ہرگز ختم نہیں ہوئی۔ انھوں نے فوراً اپنی رائے میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے سوچا، یہاں اکثریت انسانوں ہی کی ہے لیکن یہ اکثریت درندوں کی اقلیت کے آگے بےبس ہے، لوگ نہتے ہیں، مجبور ہیں، لیکن اس بے بسی اور مجبوری کے عالم میں بھی ان کے اندر کی انسانیت زندہ ہے۔ وہ ایک دوسرے کے مسئلوں کو سمجھتے ہیں، کڑے وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور پھر انھیں یاد آیا کہ وہ بھی ایسی ہی ایک شام تھی جب دو دن کے بعد کرفیو میں صرف دو گھنٹے کا وقفہ دیا گیا تھا۔ وہ گھر سے نکلے تھے کہ چھوٹے بھائی کی بیوی اور بچوں کو اپنے یہاں لے آئیں، کیوں کہ بھائی دفتر کی طرف سے ہفتے بھر کے لیے شہر سے باہر گیا ہوا تھا، لیکن چھوٹی بھاوج بولی، ’’بھائی صاحب! میں یہیں ٹھیک ہوں، دو دن بعد بچوں کے ابا بھی پہنچ جائیں گے، فون آیا تھا۔ آپ ذرا سا آٹا اور چینی لادیں تو بس میں آرام سے رہ لوں گی۔‘‘ انھوں نے ایک آدھ بار سمجھانے کی کوشش کی لیکن لگا کہ اس کا ساتھ چلنے کا ارادہ نہیں ہے تو باہر گئے اور کھانے کی جو چیزیں مل سکتی تھیں، لا دیں۔ واپسی کے لیے وہ ابھی گھر سے نکلے ہی تھے کہ وقفہ ختم ہونے کے سائرن بجنے لگے۔ بسیں اور منی بسیں تو خیر اس وقفے میں نکلی ہی بہت کم تھیں لیکن اب تو رکشا ٹیکسی بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ لوگ افراتفری میں گلی کوچوں کی طرف سٹکتے دکھائی دیے۔ وہ خود فٹ پاتھ پر پیدل چل رہے تھے ظاہر ہے گھر دُور تھا اور یقین تھا کہ راستے میں پولیس موبائل یا رینجرز کی گاڑی دھر لے گی اور خدا جانے کیا سلوک کیا جائےگا لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔ گھر تو انھیں ہر صورت پہنچنا تھا، سو چلے جا رہے تھے۔ اتنے میں ایک موٹر سائیکل قریب آئی جس پر تین آدمی سوار تھے، ’’کہاں جائیں گے؟‘‘
’’نارتھ کراچی۔‘‘ انھوں نے امید بھری نظروں سے دیکھا۔
’’آجائیے، ہم لوگ بھی وہیں جا رہے ہیں؟‘‘ موٹر سائیکل رک گئی۔
’’لیکن آپ تو۔۔۔ مطلب ہے پہلے ہی تین آدمی۔۔۔‘‘
’’آجاؤ بھائی آجاؤ، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دل میں جگہ ہو تو موٹر سائیکل پر بھی جگہ بن جاتی ہے۔ آجاؤ، اللّٰہ ہم سب کو خیریت سے گھر پہنچا دےگا۔‘‘ موٹر سائیکل چلانے والے نے جواب دیا اور آگے ہوکر موٹر سائیکل کی ٹنکی پر بیٹھ گیا، پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں آدمی بھی آگے سرک گئے، ان کے لیے جگہ بن گئی اور وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ پورا واقعہ جیسے لمحے بھر میں ان کی آنکھوں میں پھر گیا۔ کیا رشتہ تھا ان لوگوں سے میرا اور کیا رشتہ ہے ان لوگوں سے جنھوں نے آج پناہ دے رکھی ہے؟ انسانیت کا، محبت کا، مشترک دُکھ کا رشتہ ہے ہم سب کے بیچ۔ انھوں نے خود سے کہا، واقعی اکثریت تو انسانوں ہی کی ہے اس شہر میں۔
’’مقتل بنایا ہوا ہے کراچی کو ظالموں نے۔‘‘ کونے میں کھڑے ایک صاحب بولے۔
سب نے ان کی طرف دیکھا، لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا جیسے کوئی بھی اس سفاک حقیقت کی تصدیق کرنا نہ چاہتا ہو۔
’’خدا کی مار ہو ظالموں پر۔‘‘ وہ صاحب پھر بولے۔
کئی ایک نے آمین کہا۔
’’آپ لوگ اندر آجائیں یہاں ڈرائنگ روم میں۔‘‘ پختہ عمر کی خاتون کی آواز آئی۔
’’نہیں بہن جی، رہنے دیجیے۔آپ کی بڑی مہربانی، آپ نے ہمیں پناہ دی۔‘‘ ایک صاحب بولے۔
’’نہیں بھائی صاحب، مہربانی کی کیا بات ہے؟ ایسے وقت میں انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ آپ لوگ یہاں اندر آکر آرام سے بیٹھ جائیں۔ جب باہر ٹھیک ہوجائے تب چلے جایئےگا۔‘‘
’’نہیں بہن، بہت شکریہ آپ کا۔ لگتا ہے، چلے گئے ہیں، فائرنگ کی آواز نہیں آ رہی اب۔‘‘
’’ہاں، نہیں آ رہی آواز۔ نکل گئے اس کا مطلب ہے۔‘‘ ایک اور صاحب بولے۔
مین گیٹ سے لگ کر کھڑا ہوا لڑکا گردن نکال کر جھانکا، ’’ہاں، سناٹا ہے بالکل۔‘‘
’’اچھا بہن جی! ہم لوگ بھی چلتے ہیں، گھر والے بڑی پریشانی میں ہوں گے۔‘‘
’’بھائی صاحب! پہلے اچھی طرح دیکھ لے ایک آدمی نکل کر۔ یوں جلد بازی میں نہ نکلیں سب لوگ۔‘‘
وہی گیٹ والا لڑکا بولا، ’’میں دیکھتا ہوں۔‘‘ اور باہر نکل گیا۔ کئی لوگوں نے گیٹ سے باہر گردن نکالی۔ لڑکے نے واپس آکر اطلاع دی، ’’چلے گئے، خالی ہے سڑک، آجائیں۔‘‘
لوگ خاتون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے گھر سے نکلے۔ خاتون نے ایک ایک کو خدا حافظ کہا۔ پروفیسر صاحب بھی نکلے اور دیوار کے ساتھ لگ لگ کر چلتے ہوئے گھر پہنچے۔ بیوی دروازے سے باہر کھڑی انتظار کر رہی تھیں، آنکھیں بھری ہوئی تھیں، بیٹے کو لپک کر لیا اور سینے سے چمٹا لیا۔ رونے لگیں۔ پروفیسر صاحب نے کاندھا تھپتھپایا، ’’ارے، چچ چچ یہ کیا۔۔۔ بھئی خدا کا شکر ہے، سب خیریت ہے۔۔۔ چلو، اچھا اندر چلو۔‘‘
پروفیسر صاحب کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ اکیلے تو کئی بار موت کے منھ سے بال بال بچے تھے۔ ایک بار وہ چند منٹ پہلے واٹر بورڈ کے دفتر سے نکلے تھے اور چند منٹ بعد وہاں فائرنگ ہو گئی تھی۔ چھہ آدمی موقعے پر ہی مارے گئے تھے۔ ایک بار وہ شام کو دفتر سے گھر آ رہے تھے جب حسن اسکوائر سے لیاقت آباد دس نمبر کی طرف آتے ہوئے ان کی بس کراس فائرنگ میں پھنس گئی تھی۔ ایک طرف پولیس تھی اور دوسری طرف فلیٹوں میں چھپے ہوئے لوگ۔ سڑک کے بیچ رکاوٹیں ڈالی گئی تھیں۔ ڈرائیور کہیں ان سے بچتا کہیں ان کو روندتا بس کو آگے بڑھا رہا تھا۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر بس دو ہی آدمی گاڑی میں سیدھے بیٹھے تھے، باقی سارے مسافر سیٹوں کے نیچے دبکے ہوئے تھے۔ کیا ان دونوں کو موت کا خوف نہیں تھا؟ تھا، یقیناًتھا لیکن انھوں نے اپنی زندگی سے زیادہ قیمتی ان لوگوں کی جانوں کو سمجھا جو اس وقت ان کی گاڑی میں سوار تھے۔ کہتے ہیں، ابتلا کی گھڑی میں انسان کو صرف اپنی جان کا دھیان رہتا ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اس شہر کے باسیوں نے ثابت کیا ہے کہ انسان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کی حفاظت کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ جن لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے خود کو داؤ پر لگا رہا ہے، وہ اس کے ہم زبان یا ہم قبیلہ ہیں کہ نہیں۔ نہیں، وہ ایسا کچھ نہیں دیکھتا۔ کوئی گروہی، لسانی یا سیاسی سماجی امتیاز اس کے لیے اہم نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف اور صرف انسانی جان کی حفاظت کو پیشِ نظر رکھتا ہے، صرف انسانیت کے لیے سوچتا ہے۔ ایک ایک واقعہ پروفیسر کیانی کے ذہن میں محفوظ تھا، اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ۔ موت اتنی بار ان کے قریب سے گزری تھی، کبھی کاندھے چھوتے ہوئے، کبھی دامن مس کرتے ہوئے، کبھی پہلو میں آکر، کبھی سامنے آکر، کبھی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر۔ اتنی بار ایسا ہوا تھا کہ ان کے دل سے موت کا خوف بالکل نکل گیا تھا۔ لیکن آج کا قصہ پہلے کے سب واقعات سے مختلف تھا، بالکل مختلف۔ اس لیے کہ اب سے پہلے انھوں نے ہر بار موت کو اچانک اپنے قرب میں پایا تھا، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اور ایسا ہمیشہ ایک ہڑبونگ کی کیفیت میں ہوا تھا۔ لیکن اس دفعہ وہ بتاکر، اعلان کرکے آرہی تھی اور افراتفری میں نہیں۔۔۔ اطمینان کے ساتھ نشانہ لے کر ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔ اور صرف انھی کی طرف نہیں بلکہ ان کے پورے گھر کی طرف۔۔۔ ایک بگولے کی طرح رقص کرتی ہوئی۔۔۔ اور وہ صرف موت کے قدموں کی چاپ ہی نہیں سن رہے تھے بلکہ اس طوفان کی گونج بھی ان کے کانوں تک پہنچ رہی تھی جو ذلتوں کا سامان لیے ان کی طرف امڈ رہا تھا۔
دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔ ابھی گھڑی دیکھ کر انھوں نے سوچا تھا کہ بیگم کھانا لگوا رہی ہوں گی، کتاب رکھ دینی چاہیے۔ اتنے میں چھوٹی بیٹی کمرے کے دروازے پر نمودار ہوئی، ’’پاپا! کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔‘‘
’’کون ہے بیٹا؟‘‘
’’معلوم نہیں، کئی آدمی ہیں، بلا رہے ہیں آپ کو۔‘‘
’’اچھا، انھیں بٹھایا آپ نے ڈرائنگ روم میں۔‘‘
’’نہیں پاپا، وہ کہہ رہے ہیں، ہم جلدی میں ہیں، بیٹھیں گے نہیں۔‘‘
پروفیسر کیانی گھر سے باہر آئے۔ چار پانچ نوجوان اور دو ادھیڑ عمر آدمی ان کے منتظر تھے۔
’’سلام لیکم سر!‘‘ کئی آوازیں ایک ساتھ آئیں۔
’’وعلیکم السلام۔۔۔ جی فرمایئے؟‘‘
’’سر بس یہ کہنا تھا کہ آپ کی فیملی کا ابھی ووٹ نہیں ہوا۔ بس جا رہی ہے، آپ بھی اس میں بیٹھ کر ووٹ ڈال آیئے۔ یہیں گھر پر اتار دے گی گاڑی واپس۔ وہاں بھی دیر نہیں لگے گی۔ اپنے لڑکے موجود ہیں، خود پرچی بنوا دیں گے، آپ کو تو بس مہر لگانی ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں، ہمیں جانا ہے لیکن بس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنی گاڑی میں چلے جائیں گے۔‘‘ پروفیسر کیانی نے رکھائی سے جواب دیا۔
’’سر! کیوں گاڑی میں جاتے ہیں، بس جا تو رہی ہے؟‘‘ ادھیڑ عمر آدمی تحمل سے بولا۔
’’نہیں بھئی، ہم اپنی گاڑی میں ہی جائیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر! جیسے آپ کی مرضی، لیکن بس اب چلے جائیں فوراً۔ بعد میں پھر رش ہو جاتا ہے اخیر وقت میں۔‘‘ دوسرے لڑکے نے کہا۔
’’ہاں میاں۔۔۔ بس دیکھیے۔۔۔‘‘
’’دیکھیے ویکھیے نہیں سر! بس اب چلے جایئے۔ ہم چار بار یاد دہانی کرانے آ چکے ہیں آپ کو صبح سے اب تک۔‘‘ دائیں ہاتھ پر کھڑا نوجوان ذرا چمک کر بولا۔
’’مطلب ہے سر کہ اب ٹائم کم بچا ہے نا۔ پھر رش پڑ جائےگا تو آپ کو زحمت ہوگی۔‘‘ ادھیڑ عمر آدمی نے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔
’’پانچ ووٹ ہیں سر آپ کے گھر کے۔ آپ کا، آپ کی بیگم صاحبہ کا اور تین آپ کی بیٹیوں کے، پانچوں ڈلوایئےگا۔‘‘ ایک اور نوجوان بولا۔
’’ایک ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے سر!‘‘ اسی ادھیڑ عمر آدمی نے مسکراکر کہا۔
’’آپ بس فوراً چلے جایئے۔‘‘ وہی دائیں ہاتھ کھڑا نوجوان دوبارہ چمکا، ’’پانچویں بار تو یاد دہانی نہ کروانے آئیں نا ہم۔‘‘ اس نے ذرا ٹیڑھی نظروں سے پروفیسر صاحب کو دیکھا جیسے کہنا چاہتا ہو کہ اگر پانچویں بار بتانا پڑا تو کسی اور انداز میں بتایا جائےگا۔ ’’ٹھیک ہے، چلو بابو بھائی چلتے ہیں۔‘‘ نوجوان نے آگے کھڑے ہوئے ادھیڑ عمر آدمی کے کاندھے پر ہاتھ مارا۔ سب لوگ چلے گئے۔ پروفیسر صاحب مڑے، اندر آکر مین گیٹ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ عجیب سی شکست خوردگی اور بے بسی والی جھنجھلاہٹ اور کوفت کا سا احساس تھا جو طبیعت کو بےمزہ کر رہا تھا۔ عجیب لوگ ہیں، خواہ مخواہ پھیرے لگا رہے ہیں اور پریشان کر رہے ہیں۔ بھئی ہماری مرضی ہم اپنا ووٹ کاسٹ کریں یا نہ کریں، تم کون ہوتے ہو ہم سے بار بار پوچھنے والے۔ پروفیسر صاحب نے غصّے سے سر جھٹکا اور اندر چل دیے۔
’’ہاتھ دھو لیجیے، کھانا لگا دیا ہے۔‘‘ انھیں اندر آتے دیکھ کر بیگم نے کہا۔
پروفیسر صاحب ہاتھ دھو کر کھانے کی میز پر آ گئے۔
’’کیوں آئے تھے، یہ لڑکے؟‘‘ کھانے کے دوران بیگم نے پوچھا۔
’’ارے بھئی خدائی فوج دار ہیں، ووٹ ڈالنے کا کہنے آئے تھے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے جھنجھلا کرکہا۔
’’کئی بار آ چکے ہیں صبح سے۔ دروازے سے یاد دہانی کرا کے چلے جاتے تھے لیکن اب کے آپ کو بلواکر کہا ہے۔ بس کھانا کھا کر ڈالنے چلیے ووٹ۔‘‘ بیگم نے ذرا پریشانی سے کہا۔
’’ہاں دیکھیں گے، جی چاہےگا تو چلے جائیں گے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے جیسے بے نیازی سے کہا۔
’’نہیں نہیں ضرور چلیے۔ نہیں جائیں گے تو سب کی نظروں میں آجائیں گے۔ بیٹھے بٹھائے جھگڑا مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’بھئی جھگڑے کی کیا بات ہے؟ ہمارا ووٹ ہے، ہم ڈالیں نہ ڈالیں۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ یاد نہیں ہیں، پچھلی بار کے واقعات۔۔۔ کیا ہوا تھا چاند بھائی کے ساتھ۔۔۔ اور وہ خطی میاں والا قصہ بھول گئے کیا، کیوں ٹنٹا پالتے ہیں؟ بس کھانا کھا کر چلیے فوراً۔‘‘
لقمہ منھ میں ڈالتے ڈالتے جیسے پروفیسر صاحب کا ہاتھ بچل گیا اور پل کی پل میں ان کی آنکھوں میں پچھلے انتخابات کے جھگڑوں کی تصویریں پھر گئیں۔ ’’دیکھیے ویکھیے نہیں سر!۔۔۔ ہم چار بار یاد دہانی کرانے آ چکے ہیں صبح سے۔۔۔ پانچویں بار تو نہ آئیں نا ہم۔۔۔‘‘ پروفیسر صاحب کے ذہن میں اس منھ زور نوجوان کے فقرے گونجے۔ کالج میں نوجوانوں کے لچھن دیکھ کر وہ ایسے اکھڑے اکھڑے لہجوں کا اب زیادہ اثر نہیں لیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ زمانے لد گئے جب نوجوان نسل اساتذہ کے آگے مؤدب رہتی اور آنکھیں بچھاتی تھی۔ اب تو لڑکے بدتہذیبی اور بد لحاظی کے عادی ہو گئے تھے اور اس کو آزادی کا نام دیا جاتا تھا۔ کھانا جاری تھا لیکن پروفیسر صاحب کا دماغ کہیں اور جا اٹکا تھا۔ ’’چار بار آ چکے ہیں۔۔۔ پانچویں بار تو۔۔۔ چار بار آ چکے ہیں۔۔۔ پانچویں بار تو۔۔۔‘‘ ان فقروں کے معانی اب پوری طرح پروفیسر صاحب پر کھل چکے تھے۔ ان کے دائیں طرف تینوں بیٹیاں بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں اور بائیں طرف بیوی اور اکلوتا بیٹا تھے۔ بیٹیوں پر نگاہ پڑتے ہی پروفیسر صاحب کے حلق میں جیسے لقمہ اٹک گیا۔ ہاں واقعی تین جوان بیٹیاں ہیں ان کی اور بیٹا اکلوتا اور چھوٹا ہے۔ وہ کوئی جھگڑا کیسے مول لے سکتے ہیں۔ ’’پانچ ووٹ ہیں سر آپ کے گھر کے۔۔۔ آپ کا، آپ کی بیگم کا اور تین آپ کی بیٹیوں کے۔‘‘ اوہ، یعنی پوری تفصیل سے واقف ہیں وہ۔ سب کچھ ان کی نظر میں ہے۔ پروفیسر صاحب کو جھرجھری سی آ گئی۔
کھانے کے بعد پروفیسر صاحب اپنے کمرے میں آکر کتاب کھولے بیٹھے تھے لیکن ان کا ذہن ووٹ کی یاددہانی کرانے والے لڑکوں میں الجھا ہوا تھا۔ یہاں تو کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس شہر کے باسی تو یرغمال بنالیے گئے ہیں۔ مختلف سیاسی گروہوں نے شہر کے مختلف حصوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ سب۔۔۔ ہم سب قیدی ہیں یہاں۔ کوئی اپنی مرضی سے نہیں جی سکتا۔ جنگل کا قانون ہے یہاں۔ ان کا دماغ کھول رہا تھا، لیکن وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ اپنے غصے کا اظہار وہ صرف اپنے اندر ہی کر سکتے ہیں، جو شور شرابا ان کے اندر ہو رہا ہے اسے وہ باہر نہیں لا سکتے۔ اس لیے کہ باہر لانے کی انھیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ وہ کچھ لوگوں کو یہ قیمت ادا کرتے دیکھ چکے تھے۔ توبہ توبہ۔۔۔ خدا کی پناہ۔ یہ تصور ہی لرزہ دینے والا تھا۔ ایک یخ بستہ لہر ان کے پورے سراپے پر گزر گئی۔
’’چلیے اٹھیے۔۔۔ ووٹ ڈال کر آتے ہیں۔‘‘ بیگم آنچل سے ہاتھ پونچھتی ہوئی کمرے میں آئیں۔
’’بھئی ہم کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے ذرا بن کر کہا، ’’ہمیں کوئی امیدوار نہیں جچ رہا۔ اس لیے ہم ووٹ ڈالیں گے ہی نہیں۔‘‘
’’خواہ مخواہ کی بات نہ کریں۔ جو صبح سے چار چکر لگا چکے ہیں، وہ اگر پھر آئیں گے تو آپ کو پتا ہے کہ کیا ہوگا؟‘‘ بیگم کے چہرے پر تشویش تھی۔
’’ارے کیا ہوگا؟‘‘ انھوں نے یوں جواب دیا جیسے انھیں کوئی پریشانی یا خوف نہیں ہے۔ ’’تم بے وجہ پریشان ہو رہی ہو بیگم۔ ہم بھی اسی شہر میں رہتے ہیں۔ استاد ہیں ہم، ہمارے شاگرد بھی کہاں کہاں بیٹھے ہیں، کچھ معلوم بھی ہے تمھیں؟ ایسے کوئی گئے گزرے نہیں ہیں ہم۔ کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ہمارا۔‘‘ پروفیسرصاحب نے آواز کو بھاری کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ کیوں جھگڑا مول لینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ خیال کیجیے خدارا، تین جوان بچیاں ہیں ہماری۔ ہم دشمنی کے چکر میں نہیں پڑ سکتے۔‘‘ بیگم سخت پریشان تھیں۔
حال تو اندر سے پروفیسر صاحب کا بھی ایسا ہی تھا۔ ٹھنڈک اور خوف کا احساس ان کے بھی رویں رویں میں اتر رہا تھا لیکن ان کی مردانگی اس کے اظہار یا اعتراف کے لیے آمادہ نہیں تھی۔
’’ارے بھئی ایسا بھی کیا ہے، تم نے تو فضول میں خوف کو خود پر سوار کر لیا ہے۔ آدمی اگر بلی کا بچہ بن کر رہنا شروع کر دے تو ہر شخص چھی چھی کرکے اسے ڈراتا رہتا ہے، کوئی ضرورتاً، کوئی تفریحاً۔۔۔ لیکن اس کے لیے زندگی بس چھی چھی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہم بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی اس گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر تو دیکھے۔‘‘ انھوں نے کھنکار کر بھاری بھرکم آواز میں کہا۔ لیکن انھیں لگا جیسے وہ بیگم سے جھوٹ بول رہے ہیں، کورا جھوٹ۔
’’ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں بلی کا بچہ بننے میں۔ بیٹیاں ہیں ہماری۔ کسی بڑی پوسٹ پر کوئی آدمی نہیں ہے ہمارا۔ توبہ، میرے منھ میں خاک۔۔۔ کوئی مصیبت آئی تو کس کے منھ کی طرف دیکھیں گے، کون پُرسانِ حال ہوگا ہمارا؟‘‘ بیگم کی آواز یک لخت بھیگ گئی۔ ’’اللّٰہ برے وقت سے بچائے، کیا کیا تماشے نہیں ہوئے آپ کے اس کراچی میں؟ کتنوں کا حشر خراب ہوتے دیکھا ہے دنیا نے۔‘‘
’’او ہو۔۔۔ بھئی بیگم تم تو۔۔۔ یعنی خدا کی قسم۔۔۔ ارے بھئی۔۔۔ یعنی لیجیے۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ ہا ہاہا۔۔۔ ہاہا ہا۔‘‘ پروفیسر صاحب کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہیں تو انھوں نے قہقہہ لگا دیا۔۔۔ لیکن یہ بات وہ اچھی طرح جانتے تھے، یہ قہقہہ ان کے اندر کسی خوشی یا بےفکری کے احساس سے نہیں پھوٹا ہے بلکہ صرف اور صرف اپنی بزدلی اور بےبسی کو چھپانے کے لیے ان کے نرخرے سے نکلا ہے۔
’’نہیں بس آپ اٹھیے۔۔۔ چلیے ووٹ ڈال کر آتے ہیں۔‘‘ بیگم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا۔
’’چلیے جناب، ضرور چلیے۔ ہمیں اور کسی سالے کا تو کوئی لحاظ نہیں لیکن آپ کا حکم تو ہم نہیں ٹال سکتے۔‘‘ وہ دل ہی دل میں بیگم کے شکر گزار تھے کہ انھوں نے ان کی مردانگی کا بھرم رکھ لیا۔
گیرج میں کھڑی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے پروفیسر صاحب بیٹیوں سے بولے، ’’بیٹے! ہم تو ووٹ وغیرہ ڈالنے کے موڈ میں بالکل نہیں تھے۔ اس لیے کہ ہماری پسند کا کوئی کینڈیڈیٹ تھا ہی نہیں۔۔۔ اور پھر یہاں کسی کے ووٹ ڈالنے نہ ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ رک کر گلا صاف کیا اور پھر بولے، ’’خیر، تو آپ کی مما نے ڈرا دھمکا کر ہمیں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کر ہی لیا۔ چلتے ہوئے ہم نے سوچا کہ چلو تینوں بیٹیوں کو بھی لے چلتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگ واقعی کسی امیدوار کو کامیاب کروانا چاہیں، لیکن ہماری طرف سے کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں۔ آپ لوگ اپنی پسند سے اپنا اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔‘‘ وہ ہنسے، بیٹیوں کی طرف دیکھا اور بولے، ’’بھئی ہم تو آزادی اور جمہوریت کے قائل ہیں۔‘‘
لڑکے جیسا کہہ کر گئے تھے ویسا ہی ہوا۔ پروفیسر صاحب اور ان کے اہل خانہ کو ذرا سی دقت نہیں ہوئی۔ وہاں موجود نوجوانوں نے خود ہی پرچی بنوا دی، فہرست میں نام چیک کرا دیا اور قطار میں لگانے کی بجائے سیدھا بیلٹ بوکس کی طرف لے گئے جہاں ایک آدمی بیٹھا انگوٹھے کی پشت پر سیاہی کا نشان لگا کر ووٹ کا پرچہ تھما رہا تھا۔ بیگم اور بیٹیاں خواتین والے کمرے میں چلی گئی تھیں۔ پروفیسر صاحب ووٹ کا پرچہ لے کر بیلٹ بوکس کے پاس گئے جو وہیں ایک طرف سب کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ ووٹ ڈالنے والا سب کے سامنے مہر لگا کر پرچہ بیلٹ بوکس میں ڈال دیتا تھا۔ پروفیسر صاحب گھر سے تہیہ کرکے آئے تھے کہ وہ ان کو ووٹ نہیں دیں گے جنھوں نے بار بار آکر یاد دہانی کرائی تھی۔ وہ ان سے خفا تھے۔ اس لیے جب مہر اٹھائی تو ان کا ہاتھ خودبخود دوسرے خانے کی طرف بڑھ گیا۔ انھوں نے ایک غیراہم امیدوار کے خانے پر مہر لگا دی۔ یہ صوبائی الیکشن کا پرچہ تھا، اب انھوں نے دوسرا پرچہ اٹھاکر سامنے رکھا۔ لیکن اس اثنا میں انھوں نے دیکھا کہ ایک اور آدمی ووٹ کے پرچے تھامے ان کے قریب پہنچ چکا ہے اور منتظر ہے کہ پروفیسر صاحب نمٹیں تو وہ اپنا ووٹ ڈالے۔ پروفیسرصاحب نے محسوس کیا کہ دو تین سائے سے اور بھی ان کے قریب منڈلا رہے ہیں۔ انھوں نے ذرا سی گردن گھما کر دیکھا تو واقعی تین آدمی دائیں بائیں ذرا فاصلے پر یوں کھڑے تھے جیسے ووٹ ڈالنے والے کی نگرانی کر رہے ہوں کہ وہ کس خانے میں مہر لگا رہا ہے۔ خوف کا ایک شدید ریلا ان کے وجود سے آکر ٹکرایا۔ وہ اندر ہی اندر بری طرح لرز گئے۔ اب قومی اسمبلی کے امیدواروں کا پرچہ سامنے تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ دائیں بائیں موجود لوگوں نے انھیں غلط خانے میں مہر لگاتے دیکھ لیا ہے، انھوں نے دل ہی دل میں سوچا۔ ان کی ٹانگیں کپکپا گئیں۔ انھوں نے مہر سامنے دھرے قومی اسمبلی کے پرچے پر رکھی، اس کے نیچے سے صوبائی اسمبلی والا پرچہ نکال کر جلدی جلدی تہہ کیا اور بیلٹ بوکس میں ڈال دیا۔ انھوں نے محسوس کیا جیسے ان کے ہاتھوں میں رعشہ آ گیا ہے۔ اگر واقعی انھوں نے دیکھ لیا ہے تو پروفیسر کیانی پھر تمھاری خیر نہیں، وہ خود سے مخاطب تھے۔ انھوں نے جلدی سے مہر اٹھائی اور اسی خانے میں لگا دی جس میں نہ لگانے کا وہ تہیہ کرکے آئے تھے۔ اس کے بعد بڑے اطمینان کے ساتھ وہ پرچہ تہہ کرنے کے لیے یوں لہراتے ہوئے اٹھایا جیسے سب کو دکھانا چاہتے ہوں کہ انھوں نے کس خانے میں مہر لگائی ہے۔ پھر اسے سہج سہج تہہ کیا اور بیلٹ بوکس میں ڈال کر واپس مڑ گئے۔
شام ہو گئی تھی۔ پروفیسر صاحب یوں تو دوپہر سے اب تک معمول کے مطابق اپنے کاموں میں مسلسل مشغول رہے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا دھیان کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ ذہن وہیں بیلٹ بوکس میں اٹکا ہوا تھا اور آنکھوں کے سامنے بار بار صبح گھر آنے والے لڑکے گھوم رہے تھے۔ ان کے اندر ایک خوف رہ رہ کر سر اٹھا رہا تھا، اگر کسی نے ان کے پہلے پرچے پر لگنے والی مہر دیکھ لی ہے تو اس کا انھیں خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔ دل کبھی کہتا تھا کہ پہلا پرچہ کسی نے نہیں دیکھا، دوسرا دیکھا ہے۔ ہاں وہ تو خود انھوں نے دکھایا تھا۔ اس لیے کہ وہ دکھانا چاہتے تھے کہ جس امیدوار کے خانے پر وہ لوگ مہر لگوانا چاہتے تھے، اسی پر لگائی گئی ہے۔ لیکن اگر پہلے والا پرچہ۔۔۔ بس اسی خیال نے ان کی جان کو ہلکان کیا ہوا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس ایک مہر کی قیمت انھیں کس کس شکل میں چکانی پڑ سکتی تھی۔ ایک ایک پل میں سو سو اندیشے پھن پھیلائے سانپوں کی طرح ان کے اندر سرسرا رہے تھے۔
اس وقت کتاب گود میں دھری تھی اور وہ ٹیک لگائے صوفے پر نیم دراز تھے لیکن انھیں اندر سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کہیں خلا میں معلق ہوں۔ زمین پاؤں تلے سے غائب ہو چکی تھی بس سر پہ ایک آسمان تنا ہوا تھا۔۔۔ خوف کا آسمان۔۔۔ جس کے نیچے ان کا دم گھٹ رہا تھا۔ انھوں نے کئی بار خود کو سنبھالنے، دلاسا دینے کی کوشش کی تھی لیکن ہر بار اس کوشش کے بعد ان کے خوف اور ہیجان میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
انھوں نے گردن گھما کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ شام کا سرمئی جھٹپٹا رات کی تاریکی میں تبدیل ہو گیا تھا۔ انھیں اپنے چاروں طرف تاریکی کے مہیب سائے مجسم محسوس ہونے لگے۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آئے۔ بیٹیاں اپنے کمرے میں تھیں، بیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا اور بیگم کچن میں تھیں۔ انھیں لگا جیسے ان میں کھڑا ہونے کی ہمت نہیں ہے، سوچا واپس کمرے میں چلے جائیں۔ پھر جیسے معاً کسی خیال پر وہ چونکے۔ چند لمحے تأمّل کیا جیسے گومگو کی کیفیت میں ہوں اور کوئی فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں۔ لیکن پھر ان کا سر خودبخود اثبات میں ہلنے لگا۔ گویا وہ نتیجے پر پہنچ گئے۔ تب انھوں نے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی اور سر کو ایک بار پھر اثبات میں جنبش دی۔
’’ارے بھئی بیگم!‘‘ انھوں نے آواز لگائی۔
’’جی! کیا بات؟‘‘ بیگم کچن سے بولیں۔
’’ذرا ہم آتے ہیں ابھی باہر سے ہوکر۔‘‘
’’کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’بھئی کہیں نہیں۔۔۔ بس یوں ہی باہر نکل رہے ہیں، آ جائیں گے ابھی تھوڑی دیر میں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘
وہ جن لوگوں سے دور بھاگتے تھے، بدکتے تھے، سیدھے انھی کے الیکشن آفس پہنچے۔ خاصی گہما گہمی تھی۔ لڑکے ٹکڑیوں میں بٹے چائے سگریٹ پی رہے تھے۔ گھڑی بھر کو وہ ہچکچائے پھر آگے بڑھے۔ دو تین لڑکوں نے جو انھی کی گلی محلے کے تھے، انھیں سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام! ہاں میاں کیسے ہو؟ کیا خبریں ہیں؟‘‘
’’زبردست سر! زبردست۔ خبریں او کے ہیں۔‘‘ ایک لڑکے نے چہک کر جواب دیا۔
’’آپ اندر چلیں نا سر! بابو بھائی اندر بیٹھے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں، کیوں نہیں میاں! آؤ بتاؤ کہاں ہیں بابو بھائی؟‘‘ حالانکہ وہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ بابو بھائی کون ذاتِ شریف ہیں، بس اتنا دھیان تھا کہ صبح اس کھڑتل نوجوان نے ایک ادھیڑ عمر آدمی کے کاندھے پر ہاتھ مار کر بابو بھائی کہا تھا۔ لڑکا انھیں لے کر اندر بڑے سے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرہ سگریٹ کے دُھویں سے بھرا ہوا تھا۔ شور شرابا بھی بہت تھا۔
’’بابو بھائی! سر آئے ہیں۔‘‘ لڑکا ایک میز کے سامنے جاکر رک گیا۔
’’آیئے سر آیئے۔ زہے نصیب، آپ تشریف لائے۔ حکم کیجیے کیا خدمت کروں؟‘‘ پکی عمر کا ایک آدمی کرسی سے اٹھ کر ان کی طرف بڑھا۔
’’ارے نہیں میاں، حکم وکم کیا۔ ہم تو بس یہ معلوم کرنے آئے تھے کہ کیا خبریں ہیں؟‘‘
’’سر! آپ کی دعا سے سب اچھی خبریں ہیں۔ ہم تو بس یہ دیکھنے کے لیے بیٹھے ہیں کہ کہاں کتنے کی لیڈ مل رہی ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں، بھئی ہم بھی تو یہی پوچھ رہے ہیں، ورنہ یہ تو ہمیں بھی یقین ہے کہ پالا اپنے ہی ہاتھ رہےگا۔‘‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بالکل سر! آپ جیسے لوگ جب ساتھ ہیں تو پھر ہمیں کون روک سکتا ہے؟‘‘
’’اچھا تو پھر ابھی کوئی خبر نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں سر ابھی نہیں ہے۔ آپ بے فکر ہوکر گھر جائیں، سب خبریں پہنچا دیں گے ہم آپ کو۔‘‘
’’اچھا میاں! ٹھیک ہے، پھر ہم انتظار کریں گے۔ اب چلتے ہیں۔‘‘
’’بیٹھیں سر! چائے تو پی لیں۔‘‘
’’نہیں میاں! چائے پی لی تو بھوک ختم ہو جائےگی اور کھانا نہ کھایا تو تمھاری بھابی خفا ہوں گی۔‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا پھر بولے، ’’اور چائے کا کیا تکلف۔۔۔ یہ تو مٹھائی کھلانے کا موقع ہے۔‘‘
’’ہاں سر کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ کل مٹھائی بھی کھلائیں گے۔‘‘
’’ہاں میاں! تم بھی کھلانا۔۔۔ لیکن پہلے ہم کھلائیں گے۔ سارا اسکور اکٹھا کرکے لاؤ اور آکر مٹھائی کھالو، ٹھیک ہے۔ لو اب ہم چلتے ہیں۔‘‘
مصافحہ کرکے پروفیسر صاحب چل دیے۔ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے الیکشن آفس سے باہر نکلے۔ راستے میں کئی اور لوگوں نے سلام کیا، پروفیسر صاحب نے سب کو مسکرا مسکراکر جواب دیا۔ اب وہ اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ بلا ٹل گئی۔ اب ان کے پاؤں تلے اطمینان کی ٹھوس زمین تھی لیکن انھیں لگ رہا تھا جیسے ہر ہر قدم پر وہ نیچے اور نیچے۔۔۔ پاتال میں لڑھکتے چلے جا رہے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.