Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھڑکیاں کھول دو

ماہ جبین آصف

کھڑکیاں کھول دو

ماہ جبین آصف

MORE BYماہ جبین آصف

    میرے گرد آوازوں کا جال ہے جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہا ہے میں ہر سمت نظر دوڑاتی ہوں۔ کچھ مدہم مدہم آوازیں مجھے پیچھے کی طرف سے آتی ہیں میں سیڑھی سیڑھی اتر کر نیچے پہنچ جاتی ہوں۔ میرے مقابل ڈھیروں بچوں کے جھرمٹ اک معصوم سی بچی اپنا چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپے اپنا آپ چھپائے کھڑی ہے۔

    آوازیں واضح ھو گئی ہیں۔

    ھری تھی من بھری تھی۔ نو لاکھ موتی جڑی تھی۔

    راجہ جی کے باغ میں دو شالہ اوڑھے کھڑی تھی۔

    میں ہنستی مسرور سہج سہج قدم اٹھاتی پھر اوپر چڑھ جاتی ہوں. میں نے دیکھا وہ معصوم سی بچی اتنی سیڑھیوں بعد بھی ویسے ہی میرے اندر کھڑی ہے۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ وہ اب بھی دوشالہ اوڑھے راجہ کے باغ میں منتظر کھڑی ہے۔ لیکن اب یی دوشالہ کچھ زیادہ دبیز ھو گیا ہے اس کے سارے تار رسم و رواج کی پے درپے گرہوں سے مضبوط ہوتے چلے گئے ہیں یہاں تک کہ شکنجے کس گئیے۔ بندھن بندھ گئے۔

    ھائے ھم معصو م لڑکیاں۔

    سدا ہی خواب دیکھنے کے جنون میں اسیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اسیری ھم بچپن سے ہی جھیلتے آتے ہیں۔

    پر خوابوں پر تو کوئی قدغن نہیں۔ سو یہی خوابوں کی آزادی. یہ عیاشی تعبیروں کی صورت اسیری دیتی جاتی ہے اور ھم بے پرواہ انجان خوابوں کی آزادی، کے سہارے ھی بےبال و پر اڑتے جاتے ہیں۔ مگر کوئی راجہ ان کی گرہیں کھولنے کی جرات نہیں کرتا کہ راجاؤں کو بھی تو دوشالہ لپٹی من بھریوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یوں ان راجہ باغ کھڑیوں کے نو لاکھ بھی بےآپ ھو جاتے ہیں۔ کہ پہلے ہی ان کی خیرہ سری بےاثر تھی۔

    ’’مگر اس میں ان راجاؤں کا بھی تو کوئی دوش نہیں کہ وہ بھی تو اس سمے اس راکھشس سے نجات دلا سکتے ہیں جب من بھریوں کے نو لاکھ انہیں دو شالوں کے رنگوں سے نظر آ جائیں‘‘ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اور شاید ایسا کبھی بھی نہ ہو۔

    کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہہ ایسا کیو ں نہیں ہو تا. میں تم سے یعنی اس، بے ضرر لڑکے سے پوچھتی ہوں جس کے بارے مجھے یقین ہے.

    مجھے یقین ہے

    مگر تم ضخیم سی کتاب پر جھک کر کوئی مفید سا نکتہ ڈھونڈنے لگتے ہو۔

    ان سیاہ حرفوں میں کوئی اور رنگ جھلکتا دیکھ کر تم.صفحوں سے کھیلنے لگتے ہو۔ ورق الٹتے گئے بس۔ بےمقصد ہی۔

    پھر جانے کیا ہوا میں نے دیکھا تم نے عالمی سیاست پر گفتگو چھیڑ دی اور تم بولتے چلے گئے۔ میرے اندر اٹھتے حرف مدھم ہوتے گئے۔ صفحے جلتے گئے۔ میرا پور پور، شعاعوں کی زد میں آتا تھا اور تم۔۔۔ ویتنام میں چھڑنے والی آگ و خوں کا ذکر کرتے تھے۔ میرے اندر دھول اڑتی رہی۔ میرا اندر ویران ہستا جاتا تھا اور تم نسلی فسادات پر بات کر رہے تھے۔ میرا اندر وہ ساری بندیں سب ضبط توڑنا چاہتا تھا اور تم ‘‘کرفیو کے دنوں میں فلسطین کے باشندوں کی بے بسی کا حال سنا رہے تھے۔‘‘

    پھر اچانک تمہیں احساس ہوا کہ خطرہ بڑھ رہا ہے اور کچھ ’’ہونے‘‘ کے خطرے کے احساس نے تمہاری چھٹی حس کو بیدار کیا تو تم نے اٹھ کر کھڑکیاں کھول دیں۔

    میں تمہیں حیرت سے تک رہی تھی کیونکہ تم مئی کے تپتے سلگتے موسم میں ہوا کی ٹھنڈک اور سایوں کی مہربانی کا ذکر کر رہے تھے۔

    ہاں مگر۔ درختوں کا سایہ ایسے موسم میں بہت سکون دیتا ہے۔ میں نے تمہاری بات کی توثیق کی کیونکہ مجھے لگا کہ حبس شدید ہے گھٹن بڑھتی جا رہی ہے اور، تمہارا سایہ دور ہوتا جا رہا ہے۔ جانے کیوں۔۔۔؟؟ کوئی گھڑی اس سائے کو دور ھونے سے نہ روک سکی۔

    پھر اچانک اک روز تم پھر نظر آ گئے۔

    ہیلو! ہیلو۔۔۔!! تبادلہ ہوا ۔اور لمحے پھر گذرنے لگے۔ گھڑی کی لمحہ لمحہ ٹک ٹک سے خوف کھا کے میں نے جھنجھلا کر سوئیاں بند کر دیں۔ گھڑی بند ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ تمہارے چہرے پر بہت ذیادہ تھکن تھی۔ مسافت کی دھول سے تمہارا چہرہ اٹا ہوا تھا تم تھک سے رہے تھے لیکن اتنے نہیں۔ ابھی یہ درخت اتنا کمزور نہیں ہوا تھا کہ جھک جائے اور زمین پر آلگے۔ تم نے پیپل کا جھکتا تنا چھو کر ہنستے ہوئے کہا۔ تم جوتوں سے زمین پر شگاف کرتے گٰئے اور دھول اڑتی رہی ۔یہ مٹی کتنی نرم ہوتی ہے ذرا سا کریدنے پر ظاہر ہسنے لگتی۔ جوتوں سے آلگتی ہے۔ ہے نا۔۔۔! تم نے میری تائید بھی چاہنی چاہی میں نے بےسوچے سمجھے سر ہلا دیا پر جانے کیوں میرے ذہن میں سارے جھکڑ گویا، آج ہی چلنے تھے۔ ہم اس دن بےمقصد گھومتے رہے۔ جانےکہاں سے تم نے اتنی ڈھیروں باتیں جمع کر لی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی بے مقصد باتیں جنہیں تم اتنی دلچسپی سے سنارہے تھے کہ میں خواہ مخواہ تمہاری ذہانت کی قائل ہوتی گئی۔

    پھر میں نے سنا کہ تم یہ ملک ہی چھوڑ کے چلے گئے ہو۔ غالبا کسی تبلیغی جماعت سے منسلک ھو گئے تھے اور میں نے اس دوران ڈھیروں مذہبی کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    اب میں سوچ رہی ہوں کہ دانہ گندم کھانے کے جرم میں جلا وطنی کس کے حصے میں آئی تھی، آدم کے یا حوا کے ’’غالبا دونوں کے۔۔۔دونوں ہی جلا وطن ہوتے ہیں لیکن عہد بدلتے ہیں۔ آج کے دیس نکالے الگ الگ وطن بسا دیتے ہیں۔‘‘

    ’’پھر میں کالج میں سیاسیات پڑھانے لگی مجھے اخبارات سے پتہ چلا کہ تم اہم سیاسی کارکن بن گئے ہو اور آج کل دیس دیس ملک ملک خاک چھانتے ہو‘‘

    شاید اب کمیونی کیشن کے یہ ذرائع ہی دوری کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ کبھی نہ کبھی سیاہ حرفوں میں، ڈھل کے ہمیں ہمارے اپنوں کی خبر دیتے رہتے ہیں۔ بہت کچھ یاد دلاتے رہتے ہیں۔

    ’’کئی سالوں بعد آج ‘‘

    تم مجھ سے آخری دفعہ ملنے آئے تھے .بہت شکست خوردہ تھے۔۔۔ کچھ کہنا چاہتے تھے۔

    عرب کے ریگستانوں کی ان گھنٹیوں کا ذکر کر رہے تھے جو بہت دور تک سنائی دیتی ہیں صدا بہ صحرا ہو جاتی ہیں۔۔۔گونجتی رہتی ہیں تم نے بھی تو کبھی مجھ سے اک سوال کیا تھا۔

    جواب نہیں پوچھوگی۔۔۔؟؟

    درخت جھک رہا تھا۔ زمین کے اندر زلزلہ آ رہا تھا۔ درخت کی کوئی شاخ زمین سے نہ لگ پاتی تھی۔۔۔ ہٹ جاتی تھی۔

    دیکھو!! راجہ کو وہ موتی۔۔۔!!

    تم نے کہنا چاہا۔

    لیکن میں آج دنیا بھر کی سیاست نبٹانے کے چکر میں تھی ۔میں کہہ رہی تھی کہ جنگیں ھمیشہ اس وقت ہوتی ہیں جب دونوں فریقین میں سے کوئی بھی جھکنا نہیں چاہتا پھر بعض جنگیں تا عمر ہوتی جاتی ہیں۔ لوگ مر تے جاتے ہیں اور اک وقت آنے پر لڑتے لڑتے ان کے لئیے جیت میں کوئی کشش باقی نہیں رہتی.

    وہ بھوک سے سراسیمہ بےحال ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔ پھر انہیں اندازہ نہیں ہوتا، کہ بھوک کے عالم میں وہ فریقین کی لاشوں کو ہی، اٹھا کے لے جارہے ہیں۔

    اس شدت میں کمی کرنے۔

    تمہارا وہ سوال۔۔۔؟؟

    تم نے پھر بات شروع کرنی چاہی۔

    دیکھو!! دو شالوں میں لپٹی من بھریاں بھی تو، اپنی اہمیت کا احساس نہیں دلاتیں اسی لئے راجہ بھی۔

    ہاں لسانی فسادات میں اس مرتبہ یہاں بہت لوگ ختم ہو چکے ہیں۔ اب تو لوگ بہت پست ہو چکے ہیں وہ اپنے مسائل کا حل بھی نہیں چاہتے ’’میں نے تمہیں باخبر کیا۔۔۔پھر کچھ‘‘ ہونےکے خطرے کے احساس نے میری چھٹی حس کو بیدار کیا تو میں نے اٹھ کر کھڑکیاں کھول دیں۔

    دیکھو ساری عمر میں بھٹکتا!

    ھاں عراق کی خانہ جنگیاں بہت زور پکڑ گئیں ہیں۔

    میں نے کہا تم بہت ٹینس ہو رہے تھے لیکن پلیز۔۔۔! تم نے کچھ کہنا چاہا۔

    پیاسے بڑھ رہے تھے اور فرات ہٹ رہا تھا وہ ہاتھ بڑھاتے تھے اور دریا اترتا جاتا تھا۔ کھڑکی کھلنے سے گرم ہوا کا جھونکا اندر آیا۔

    یہی موسم تھے نا! جب تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھیں۔

    ہاں، میں نے پڑھا ہے کہ کچھ شہروں میں کرفیو لگ گیا ہے۔ بندشیں بڑھ چکی ہیں۔ کمرے کا درجہ حرارت بڑھتا گیا لیکن میری روانی میں کوئی کمی نہ آئی۔

    میں بتا رہی تھی کہ میں بہت عرصہ سے پولیٹکس پڑھا رہی ہوں اور اب تو بغیر لیکچر تیار کیئے بھی بول لیتی ہوں۔ تم بہت aggressive ہو رہے تھے اور میں آگ کے ان شعلوں کا زکر کر رہی تھی جس نے ویتنام، فلسطین، شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا میرے سارے ھنر میرے ھاتھوں سے چھوٹتے جاتے تھے لیکن میں مضبوطی سے اپنے حوصلوں کے ریشمی سرے تھامے رہی۔

    تم چلے گئے۔ میں نے کتاب اٹھا لی اور کوئی مفید سا نکتہ ڈھونڈنے جھک گئی لیکن صفحے پلٹ رہے تھے۔ حرف جل تھے تھے۔ دھندلا رہے تھے۔

    گرم ہوا کا جھونکا اندر آیا۔ میری آنکھیں جلنے لگیں۔ میں نے اٹھ کر کھڑکی بند کر دی۔

    پھر اک دن خبر ملی میں نے سنا کہ تم مر گئے ہو۔

    اور آج کل میں پڑھاتے ہوئے اس نکتے کو وضاحت سے ضرور پڑھاتی ہوں کہ، قوموں کو اپنے مفادات کے لئے اک دوسرے کے سامنے جھک جانا چاہیے ورنہ پھر جنگیں ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں شہر جل جاتے ہیں۔

    لوگ جلا وطن ہو جاتے ہیں۔ لوگ لڑتے لڑتے تھک جاتے ہیں اور ان میں سے کچھ ہارے ہوئے لوگ اپنے ہی ہم زاد بھائیوں کی لاشیں خود کھا لیتے ہیں۔

    بھوک سے تنگ آ کر۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے