Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خرمن

MORE BYخدیجہ مستور

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ ایک ایسی لڑکی کی زندگی پر مبنی ہے جس کی شادی صرف 6 مہینے کے لیے ہوتی ہے۔ اپنی بیمار بیوی کی خدمت اور بچوں کی نگہداشت کے لیے دین محمد کنیز سے صرف 6 مہینے کے لیے شادی کرتا ہے۔ شادی کے بعد سے ہی کنیز سوچنے لگتی ہے کہ سکینہ کی موت کے بعد یہ گھر اور دین محمد ہمیشہ کے لیے اس کے ہو جا ئینگے۔ اس کے لیے وہ دن رات محنت کرتی ہے اور دین محمد کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ سکینہ کے لیے دین محمد کے دل میں اتنی سچی محبت ہے کہ اس کے مرنے کے بعد بھی وہ کنیز کو اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیتا ہے۔

    کنیز کوٹھری کے ایک کونے میں سر نیہوڑائے بیٹھی تھی اور دوپٹے کے آنچل سے آنسو پونچھے جا رہی تھی۔ اس کے پاس اماں کمر پر دونوں ہاتھ رکھے کھڑی تھی اور اسے گھور گھور کر دیکھے جا رہی تھی۔کنیز نے ایک بار سر اٹھا کر بے بسی سے ماں کو دیکھا اور پھر گھٹنوں میں منہ چھپا لیا۔

    ’’سوچ لے ری، ہاں کہنا بڑا آسان ہے۔ چھ مہینے بعد جب واپس آئے گی تو دنیایہی کہے گی کہ تیری ماں نے کھصم کیا، بہت بُرا کیا، کر کے چھوڑ دیا ای سے بھی بُرا کیا، مجھ بڑھیا کی، ’’جندگی‘‘ کیوں کھراب کرنے کی سوچ رہی ہے۔‘‘

    ’’اتنے دن تو گھر بیٹھوں گی اماں ری۔‘‘ کنیز منمنائی۔‘‘ دنیا تو اب بھی جانے کیا کیا کہتی ہے، کوئی پتہ ہے میں مڑکر نہ آئوں۔‘‘

    ’’مڑ کر نہیں آئے گی تو پھر کہاں جائے گی ری؟‘‘ اماں نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

    ’’جباب دے اماں، دیری ہو رہی ہے۔‘‘ دین محمد نے صحن میں کھڑے کھڑے آواز لگائی۔ ستمبر کی دھوپ کھوپڑی چٹکائے دیتی تھی۔ ’’بن باپ کی لڑکی ہے چھ مہینے تو مجے سے کھائے پئے گی۔‘‘ دین محمد کی آواز بہت اونچی تھی۔

    ’’کہیں چلی جائوں گی اماں، تو اسے جباب تو دے دے، کب کا کھڑا ہے۔‘‘ کنیز نے بے چینی سے کہا۔

    ’’تو میری ناک کاٹنے پھر ادھر ہی آئے گی، پھر جائے گی کہاں؟ بائولی، ایسی جگہ بیٹھ جہاں سے مڑکر نہ آئے، اتنوں کو کھصم بنایا پر کسی کے گھر نہ ٹک گئی۔‘‘

    ’’تجھ سے جو کہا ہے، کہہ دے جا کر کہ منجور ہے، بے سک کل آکر سادی کر لے۔‘‘ کنیز جیسے بلبلا کر کھڑی ہوگئی۔ پھر دھم سے بیٹھ کر اور ٹانگ میں پھنسے ہوئے چوڑی دار پا جامے کو کھسکا کر پنڈلی کھجانے لگی۔

    ’’حرا مجادی کس کی سنتی ہے۔‘‘ اماں بڑبڑاتی اور گالیاں بکتی کوٹھری سے نکل گئی۔’’مجھے منجور ہے رے دین محمد!‘‘ اس نے چیخ کر اعلان کیا۔

    کنیز دوڑ کر کوٹھری کے دروازے سے جالگی اور باہر صحن میں جھانکنے لگی جہاں کھڑا ہوا دین محمد اپنا صافہ ٹھیک سے باندھ رہا تھا۔

    ’’اچھا اماں میں چلا، کل کو آئوں گا، تیار رکھیو۔‘‘ وہ پگڑی سر پر جماتا تیزی سے باہر نکل گیا۔

    کنیز کوٹھری سے نکل آئی۔ سامنے صحن کا دروازہ اب تک کھلا تھا۔ وہ گم سم سی ادھر دیکھنے لگی۔’’کل سچی مچی تیری سادی ہو جائے گی ری کنیج‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔

    ’’تِل کُوٹ کر تھوڑے سے لڈو بنا لے۔ کل جو تیرا کھصم آئے گا تو اسے کیا دوں گی؟‘‘ ماں نے کڑوی کڑوی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’تو کس کا رن کھا رکھا رہی ہے اماں۔‘‘ کنیز نے چمک کر جواب دیا اور پھر کوٹھری میں جاکر مٹکی سے تل نکالنے لگی۔

    ماں کچھ کہے بغیر باہر چلی گئی اور کنیز تل کوٹنے بیٹھ گئی۔ ’’اگر ابّا جندہ ہوتا تو ایک دن تیری سادی بھی عجت کے ساتھ ہو جاتی ری، جب عجت نہیں رہی تو تجھ سے سادی کون کرتا۔‘‘ کنیز نے ٹھنڈی سانس بھری۔’’کھیر کوئی بات نہیں، تھوڑے دن تو عجت کے ساتھ گھر بیٹھ کر گجر جائیں گے۔‘‘ کنیز نے جیسے اپنے آپ کو سمجھایا۔ آج اسے بڑی مدت بعد جانے کیوں ابا بار بار یاد آرہا تھا اور اس کی موت کی ذرا ذرا سی تفصیل اس کی نظروں کے سامنے گھوم رہی تھی۔

    اس دن جب ابّا مزدوری کر کے واپس آیا تو بکری کے لیے ہر یالی لانا بھول گیا تھا۔ ایک گلاس پانی پی کر فوراً ہی چلا گیا۔ ماں روکتی بھی رہی کہ، ’’مت جارے، بادل گھرے کھڑے ہیں۔ کپڑے بھیگ جائیں گے، رات ویسے بھی گجر جائے گی۔‘‘ پر ابّا نے اس کی بات نہ سُنی اورچلا گیا۔ پھر کنیز روٹیاں پکا کر انتظار کرتے کرتے تھک گئی مگر ابّا نہ آیا۔ رات آگئی، بڑے زور سے بارش ہونے لگی تھی۔ باہر گھور اندھیرا تھا اور بڑے زور سے بجلی چمک رہی تھی۔ ماں بے چین ہو ہو کر بار بار بارش میں بھیگتی ہوئی باہر کے دروازے تک جاتی اور پھر لوٹ آتی۔ کنیز بار بار ماں کو تسلّی دیتی کہ، ’’بارس میں بھیگنے کے ڈر سے کہیں درکھت تلے بیٹھا ہوگا۔‘‘ اس طرح اور بھی وقت گزر گیا بارش رُک گئی مگر ابّا درخت تلے سے نہ اٹھا تب وہ اماں کے ساتھ ابّا کو دیکھنے نکل کھڑی ہوئی۔ دیا جلا کر اس نے پلّو کی آڑ میں چھپا لیا تھا اور کیچڑ میں سنبھل سنبھل کر پائوں رکھتی قریب کے جنگل کی طرف جا رہی تھی۔ ہوا دیے کی روشنی کے ساتھ دشمنی پر اتری ہوئی تھی مگر کنیز نے اسے بجھنے نہ دیا اور ایک ایک درخت تلے گھور گھور کر دیکھتی چلی گئی۔ پھر ایک درخت تلے اس نے دیکھا کہ ابّا بڑے آرام سے لیٹا ہے۔ اس نے ابّا کو آوازیں دیں مگر وہ نہ اٹھا۔ ہریالی کا گٹھا اس کے قریب پڑا تھا اور درخت کے پتوں سے بوندیں ٹپ ٹپ اس کے کپڑوں پر گر رہی تھیں۔ ماں نے دیے کی روشنی میں غور سے دیکھا تو ابّا کے منہ سے ہرا ہرا جھاگ بہہ رہا تھا اور انگلی پر خون کی دو بوندیں بڑی تازہ لگ رہی تھیں۔‘‘ ماری اسے تو سانپ ڈس گیا ہے۔‘’ ماں کلیجہ پھاڑ کر رونے لگی۔

    کنیز نے موسل زور سے پٹک دیا اور اوکھلی سے تل نکالنے لگی۔ ’’جانے کتنا جہر بھرا ہوگا۔ انہی تلوں کی طرح کا لاہوگاری کنیز کو وہ تل لہراتے ہوئے سانپ معلوم ہو رہے تھے۔‘‘ اری تجھے نہ ڈس گیا۔ تیرا کیا کام تھا اس دنیا میں، ابّا جندہ ہوتا تو کچھ کما کر لاتا، ماں کو عجت سے بٹھاتا۔ تونے کیا کمایا ری، سب کچھ لٹا دیا۔ بھوک جالم نے کچھ بھی نہ چھوڑا۔‘‘

    اور پھر کنیز کو یاد آیا کہ بھوک نے اسے کتنی جلدی بے ایمان بنا دیا تھا۔ ابّا کے مرنے کے دوسرے دن شام کو جب بکری سینگ تانے گھر میں داخل ہوئی تو وہ لٹیا لے کر دوڑ پڑی تھی اور دودھ دوہ کر پی گئی تھی اور آدھے سے کم اماں کو دیا تھاپھر بھی رات تڑپ کر گزری تھی۔ مارے بھوک کے ایک منٹ کو بھی نیند نہیں آئی تھی اور وہ منہ اندھیرے چپکے چپکے اٹھ کربکری کا دودھ دوہ کر پی گئی تھی۔ ساری رات کی روئی ہوئی اماں صبح بے خبر سو رہی تھی۔ دن چڑھے جب وہ اپنی کھاٹ پر سے اٹھی تو بکری کے تھن خالی تھیلیوں کی طرح لٹک رہے تھے۔ کنیز نے گھنٹوں تھنوں کو سہلایا تھا تو کہیں جا کر آدھا پائو دودھ اترا تھا۔ اماں اتنا سا دودھ دیکھ کر بلبلا اٹھی تھی۔ ’’اس ناس ماری کو کسی کصائی کے ہاتھ بیچ دے ری، یہ بھی ساتھ چھوڑ گئی۔‘‘ اور کنیز نے بڑی مکاری سے کہا تھا کہ، ’’اماں ساید یہ گیا بھن ہو گئی ہے، اللہ کرے گا دوسری بکری آجائے گی، اسے بیچ کر کتنے دن روٹی چلے گی۔‘’

    شام کو جب بکری چراگاہ سے واپس آئی تو تھن اتنے بھرے ہوئے تھے کہ بھوری بھوری کھال چٹختی معلوم ہو رہی تھی۔ دو تین دن میں اماں پر راز کھل گیا تھا کہ بکری گیا بھن نہیں اور وہ خوب چیخی تھی کہ، ’’حرام جادی‘‘ گیا بھن تو تُو ہوگئی ہے۔ اری چار دن پیٹ کا بو میں نہ رکھا، اتنے عیش کرائے تیرے ابّا نے اور اب چاہتی ہے کہ تیرا پیٹ بھر نے کے لیے ابھی سے مجوری سروع کردوں، مرنے والے کی عجت کھاک میں ملا دوں۔ برادری بھی کہے گی کہ کچھ نہ چھوڑ مرا۔‘‘

    ’’بڑے عیس کیے تھے۔‘‘ کنیز بڑ بڑا اٹھی تھی۔‘‘ روج روج باجرے کی روٹی اور دھنیے کی چٹنی، بہت ہوا تو گڑ کی بھیلی مل گئی، اب عجت لے کر بیٹھی رہ، مجوری کیے بگیر پیٹ بھرنے سے رہا۔‘’ کنیز نے ماں کو سمجھایا تھا۔

    ماں سر جھکا کر کچھ سوچنے بیٹھ گئی تھی ۔ ’’پر میں تو گٹھیا کی ماری ہوں مجھ سے مجوری کیسے ہوگی ری، اور تو کرے گی تو تیرے ابّا کی روح کیا کہے گی؟‘‘

    ’’لے بھلا روحیں بھی کبھی کچھ کہنے آتی ہیں اماں، تو پھکر نہ کر، میں تیری کھدمت کروں گی۔‘‘ اور پھر دوسرے دن سے کنیز محنت مزدوری کرنے گھر سے نکل کھڑی ہوئی تھی۔

    ’’توبہ توبہ اللہ ماپھی دے۔‘‘ کنیز اوکھلی سے تل نکالتے ہوئے بڑبڑائی اور پھر سوچتی چلی گئی۔ ’’بن باپ کا جان کر جگ نے کتنا ستایا ساروں نے اپنی عورت سمجھ لیا پر ایک نے بھی گھر نہ بٹھایا۔ جالم مار کر پانی بھی نہ دیتے اور توبے سرم پھر بھی تلیا میں نہ ڈوب مری۔ یہ جندگی بھی کیسی چیج ہوتی ہے، اپنے ہاتھوں نہیں لی جاتی ری۔‘‘ کنیز نے ٹھنڈی سانس بھری اور دو آنسو ٹپ سے تلوں پر گر کر جذب ہوگئے۔‘‘ رے دین محمد تو یہ لڈو کھائے گا، اس میں کنیج کے آنسو ملے ہیں، چھوڑیو نہ رے، تجھے ان آنسوئوں کی کسم!۔‘‘

    کنیز نے گھٹنوں میں منہ چھپا لیا اور سسکیاں بھر بھر کر رونے لگی مگر جب اماں جلانے کی لکڑیاں چُن کر اندر آئی تو وہ آنسو پونچھ کر اس طرح جلانے بیٹھ گئی جیسے ذرا دیر پہلے روئی ہی نہ تھی۔

    اب شام ہونے لگی تھی۔ وہ چولھے پر چھوٹی سی کڑھائی چڑھا کر لڈو بنانے لگی۔ اس کی اماں نیم تلے کھاٹ ڈال کر بیٹھی جانے کیا سوچ رہی تھی۔ اس کے ماتھے کی شکنیں بڑی گہری ہو رہی تھیں۔

    ’’اماں اداس نہ ہو۔ میں تیرا کھیال رکھوں گی، سال سے جیادہ کا اناج تو کوٹھری میں بھرا ہے، تیری اکیلی جان ہے۔‘‘ کنیز نے کڑھائی اتارتے ہوئے کہا۔

    ’’تو اپنی پھکر کر ری، میرا کیا ہے۔‘‘ ماں نے دھیرے سے کہا اور پھر المونیم کی لٹیا اٹھا کر باہر چلی گئی۔

    لڈو بنا کر کنیز مسافروں کی طرح صحن میں ٹہلنے لگی۔ برسات میں جمی ہوئی کائی کے اب پیڑےسوکھ سوکھ اکھڑ چلے تھے، کچی دیواروں پر شورا پھول رہا تھا اور نیم کا درخت خوب ہرا بھرا ہو رہا تھا۔ اسے یا دآیا کہ برسات میں ابّا اس درخت میں جھولا ڈال دیتا تھا اور وہ لڑکیوں کو جمع کر کے گھنٹوں جھولا جھولا کرتی تھی۔ شادیوں کی باتیں ہوتی تھیں اور ساس سے جلن کا اظہار کرتے ہوئے سب کی تیوریوں پر بل پڑ جاتے تھے۔

    کنیز ٹھنڈی سانسیں بھرتی ہوئی کھاٹ پر لیٹ گئی۔ ’’اری کنیج ! تیری ہی کسمت کھراب تھی، ساری لڑکیاں اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ ان کی سادیوں میں کھوب ڈھول بجی، تماسے ہوئے، دولھے سہرے باندھ باندھ کر آئے تھے۔ ایک تیری سادی ہوگی، اپنے ہاتھوں لڈو بنا کر بیٹھی ہے۔ تو کیا ہے ری اور تیری سادی کیا ری؟ ڈھول بجانے کون آئے گا۔ اماں تو سب سے چھپاتی پھرتی ہے، کسی کو پتہ نہ چلے کہ چھ مہینے کے لیے سادی ہو رہی ہے۔‘‘ وہ نیم سے جھڑی ہوئی پتیاں دوپٹے پر سے اٹھا کر مسلنے لگی۔

    مغرب کا وقت ہو رہا تھا نہ اماں باہر سے لوٹی اور نہ کنیز کھاٹ سے اٹھی۔ اس وقت اسے اپنی بدنصیبی کے احساس کو جگانے اور رونے میں بڑا سکون مل رہا تھا۔ بکری جب سے آئی تھی صحن میں کھلی پھر رہی تھی اور ہر جگہ مینگنیاں بکھیر رہی تھی مگر کنیز کا جی نہ چاہا کہ اٹھ کر اسے باندھ دے۔

    اماں نے گھر میں داخل ہوتے ہی یہ منظر دیکھا تو منہ ہی منہ میں جانے کیا کچھ کہنے لگی پھر بکری کو باندھ کر دودھ دوہا اور آنگن سے مینگنیاں بٹورنے بیٹھ گئی۔

    رات کچی کچی نیند میں کٹ گئی۔ آج صبح مزدوری کے لیے جانے کے بجائے وہ ماں کے ساتھ جنگل جا کر واپس آگئی۔ جھاڑو اٹھا کر اس نے کوٹھری اور آنگن جھاڑا پھر دو کھاٹیں نیم تلے بچھا دیں۔ اپنے حساب سے وہ براتیوں کے بیٹھنے کا انتظام کر رہی تھی مگر نظریں باہر کے ادھ کھلے دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ ’’بس اب آتا ہی ہوگا وہ، کہیں نہ آیا تو؟‘‘ مارے شبہے کے کنیز کا دل بیٹھنے لگا۔ ’’ارے اس گائوں میں تو کوئی تجھ سے چھ مہینے کے لیے بھی سادی نہ کرے گا۔‘‘

    ماں کوٹھری کی دہلیز پر چپ چاپ بیٹھی تھی۔ کنیز ہاتھ دھو کر اس کے پاس کھڑی ہوگئی۔ ’’میں تیرا کھیال رکھوں گی اماں ری!‘‘

    ’’چپ رہ حرام جادی‘‘ ماں نے جھنجھلا کر کہا اور پھر گھٹنوں میں سر چھپا کر رونے لگی۔’’جو تو ایسی نہ ہوتی تو آج اپنی برادری میں عجت کے ساتھ بیاہ جاتی۔ اپنا گھر اپنا گائوں ہوتا۔ چھ مہینے بعد پھر بے عجت ہو کر آجائے گی۔‘‘ اماں آنسو پونچھ کر اٹھ گئی اور کوٹھری میں جاکر سُرخ پھولوں والے پُرانے بکس میں اُلٹ پلٹ کرنے لگی۔

    کنیز جیسے کلیجہ تھامے وہیں کھڑی رہی۔ اس نے پہلے بھی اپنے لیے دوسروں سے اور خود اپنی ماں سے جانے کیا کچھ نہ سُنا مگر اسے اتنا بُرا نہ لگا تھا۔ پر آج اس کا جی چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر کہے کہ وہ ایسی نہیں۔ وہ تو ہمیشہ سے گھر اور عزت کے لیے تڑپتی رہی تھی۔

    ’’لے یہ تیرے باپ نے تیرا جوڑا بنایا تھا، نہا کر پہن لے۔ وہ کہہ گیا تھا کہ نہ کچھ لانا ہے نہ لینا ہے، پھر کن جوڑوں کے انتجار میں بیٹھی ہے۔‘‘ اماں نے جا پانی کیلے کا سُرخ پھولدار جوڑا اس کی طرف بڑھا دیا اور پھر مٹکی سے چاول اور گڑ کی بھیلی نکال کر سوپ میں رکھنے لگی۔

    ’’اماں کھا مکھا جان نہ جلا۔ تونہ ڈر ری، میں واپس نہیں آنے کی۔‘‘ کنیز نے کپڑے بغل میں دبا لیے۔ ’’آلینے دے، پھر پہن لوں گی، تو پھکر نہ کر۔‘‘ جوڑا کھاٹ پر رکھ کر وہ صحن میں چلی گئی۔ پانی کا گھڑا اٹھا کر نیم کے پاس رکھا اور پھر کھاٹ کھڑی کر کے اس کی آڑ میں نہانے بیٹھ گئی۔

    نہانے کے بعد اس نے کھاٹ بچھادی اور کوٹھری میں جاکر میلے دوپٹے سے بال پونچھنے لگی۔ اماں اب تک دہلیز پر بیٹھی ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں بھر رہی تھی۔ جانے اس وقت وہ کیا کیا سوچ رہی تھی۔ شاید یہی کہ سردیاں آنے والی ہیں۔ اس کے جوڑوں کا درد جاگ اٹھے گا۔ وہ اس گھر میں اکیلی کھاٹ پر پڑی کراہا کرے گی، کوئی اس کے جوڑوں پر سرسوں کا تیل ملنے والا نہ ہوگا۔ کوئی ایک گلاس پانی دینے والا نہ ہوگا۔ آج اگر اس کی کنیز اپنی برادری میں، اپنے گائوں میں بیاہی جاتی تو وہ اسے سردیوں کے سردیوں سسرال سے بلا لیا کرتی اور جانے کیا کیا۔

    ’’اماں یوں چپ چاپ نہ بیٹھ۔‘‘ کنیز نے بال پیچھے جھٹک کر دھیرے سے کہا۔ اس کی نظریں آنگن کے ادھ کھلے دروازے کے پار دین محمد کی راہ تک رہی تھیں۔

    ابھی اچھی طرح دھوپ نہ چڑھی تھی کہ دین محمد چار آدمیوں کے ساتھ آگیا۔ اماں نے آگے بڑھ کر ان کو کھاٹوں پر بٹھایا اور خود ایک طرف ہو کر کھڑی ہوگئی۔ ’’بہت صبح چلے ہوگے، پھر دھوپ کڑی ہو جاتی ہے، راستے میں تکلیپھ تو نہیں ہوئی تھی۔‘‘

    ’’کوئی تکلیپھ نہ ہوئی۔ اب تم جلدی کرو اماں، دھوپ چڑھنے سے پہلے نکل کھڑے ہوں، تین کوس کا راستہ ہے۔‘‘ دین محمد نے آہستہ سے کہا اور پھر اپنے ساتھیوں سے باتیں کرنے لگا۔

    ’’لے اتنی صبح صبح آگیا، چین نہیں پڑا تجھے رات کو۔‘‘ کنیز نے دل میں کہا۔ وہ خوشی سے جیسے بائولی ہوئی جا رہی تھی۔’’گائوں والوں کو جب مالوم پڑے گا کہ کنیج بیاہ کر چلی گئی تو کیسا پانی پڑجائے گا سب پر۔‘‘ اس نے جلدی سے پھولدار کپڑے بدل لیے، تین موتیوں والی پیتل کی نتھ ناک میں ٹھونس لی اور پڑیا سے لال رنگ ہونٹوں پر ملتے ہوئے جب اس نے شیشہ دیکھا تو اس کی آنکھیں خود بخود جھک گئیں۔ ’’ہے رے کنیج، اس وکھت ڈھول بجانے والیاں پاس ہوتیں تو پھر کیسا مجا آتا۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔

    گواہ کوٹھری کے دروازے کے پاس کھڑے ہو گئے اور کنیز نے اتنے زور سے، ’’ہوں‘‘ کی کہ سب نے سُن لی۔ اماں ایک بار کھڑے سے بیٹھ گئی اور پھر لڈوئوں کی تھالی اٹھا کر کوٹھری سے نکل گئی۔

    لڈو کھلانے کے بعد جب اماں اندر آئی تو اس نے سوپ میں رکھے ہوئے چاول اور گڑکی بھیلی کنیز کے پلّو میں باندھ دیے۔ ’’لے اب اٹھ، جانے کا وکھت ہو گیا ہے۔‘‘

    کنیز ذرا دیر تک اسی طرح بیٹھی رہی۔ اس وقت اس کا جی دُکھ رہا تھا۔ یہ کیسی شادی ہے کہ کوئی رخصت کرنے والا بھی نہیں اور پھر چھ مہینے کا کھٹکا جی کو ڈسے جاتا ہے۔ وہ پلّو میں بندھے ہوئے چاول سنبھال کر کھڑی ہوگئی۔ ’’اماں کسی کو پتہ نہ چلے کہ میری سادی چھ مہینے کے لیے ہوئی ہے۔‘‘

    ’’ایسا ہی ڈر پڑا تھا تو پہلے سوچتی ری، جب آئے گی تو سب کو نہ مالوم ہوگا؟‘‘ اماں کی آواز بھرّا رہی تھی۔ ’’لے اب چل۔‘‘

    اماں کنیز کا بازو تھام کر اسے باہر آنگن میں لے آئی تو دین محمد اور اس کے ساتھی کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے اماں کو سلام کیا اور جلدی سے باہر نکل گئے۔ کنیز اماں سے گلے مل کر ان کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔

    کچھ لمبے راستے پر جب وہ تھوڑی دور چل لی تو اس نے مڑکر دیکھا کہ اماں کھلے دروازے کے بیچ میں بیٹھی آنسو پونچھ رہی ہے۔ اماں سے رخصت ہوتے وقت اسے رونا نہ آیا تھا مگر اب اس کا جی بھر آیا۔ وہ رُک کر اماں کو دیکھنے اور آنسو پونچھنے لگی۔ ’’اماں! میں تیرا بڑا کھیال رکھوں گی تو پھکر نہ کرنا۔‘ کنیز کا جی چاہا کہ چلّا کر کہہ دے۔ جانے کیوں اب اس کے قدم نہ اٹھ رہے تھے۔

    دین محمد چلتے چلتے رُک گیا۔ ’’کیوں روتی ہے ری، جلدی جلدی چل نہیں تو دھوپ تیج ہو جائے گی۔‘‘

    ’’اپنا آدمی اپنا ہوتا ہے ری، ابھی سے کھیال کر رہا ہے۔‘‘ کنیز کے پائوں جلدی جلدی اٹھنے لگے۔ اگلی پگڈنڈی پر جب وہ مڑی تو اس کا گھراور گائوں نظروں سے اوجھل ہونے لگے۔

    چلتے چلتے وہ پسینے میں نہا گئی۔ ہونٹوں پر لگا ہوا لال رنگ پسینے میں بہہ گیا اور مارے گرمی کے اس کا سانولا رنگ تپ کر سیاہ لگنے لگا۔ راستے کی دھول نے اس کے پھولدار پاجامے کو گھٹنوں تک ڈھانپ دیا تھا، پھر بھی اسے تھکن کا احساس نہ ہو رہا تھا۔ وہ اپنے آدمی کے ساتھ اپنے گھر جا رہی تھی۔ اس کے خوابوں میں بسنے والا، چھوٹی چھوٹی مونچھوں والا جوان موٹی سی لاٹھی زمین پر مارتا اس کے آگے آگے چل رہا تھا اور کنیز کی آنکھیں اس کی پیٹھ پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کے سوا وہ کچھ نہ دیکھ رہی تھی۔ کھیتوں میں ہل چل رہے تھے۔ بکریوں کے ریوڑ ادھر سے اُدھر چرتے پھر رہے تھے اور چروا ہے لڑکے لاٹھی کے سہارے ٹک کر اسے بڑے غور اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔

    ’’بس وہ اپنا گائوں دکھتا ہے ری۔‘‘ چلتے چلتے دین محمد نے رُک کر کہا اور پھر آگے بڑھ گیا۔کنیز بھی تیزی سے چلنے لگی۔ ’’ہے رے دھیرج بندھاتا ہے، جانتا ہوگا کہ میں تھک گئی، ارے میں تیرے ساتھ چل کر نہیں تھکتی رے۔‘‘ کنیز نے بڑے جوش سے سوچا۔

    اگلی پگڈنڈی کے موڑ پر وہ چاروں آدمی ہاتھ ملا کر دین محمد سے رخصت ہوگئے۔’’وہ اپنا گھر دِکھتا ہے ری‘‘ ۔ دین محمد نے سب کو رخصت کرکے کنیز کی طرف دیکھا اور پھر اس کے برابر چلنے لگا۔ ’’تو گھر سنبھال لے گی؟ میرے دو بچے بھی ہیں، سکینہ بہت بیمار رہتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھکر نہ کر مجھے سب مالوم ہے۔‘‘ کنیز نے آہستہ سے جواب دیا۔

    ’’لڑائی جھگڑا تو نہ کرے گی؟‘‘

    ’’میں تجھے سرمندہ نہ کروں گی، پھکر نہ کر۔‘‘ کنیز نے کہا۔ اس کا جی بیٹھا جا رہا تھا۔ گھر قریب تھا اور وہ تھک گئی تھی۔ اس سے اب ایک قدم بھی نہ اُٹھ رہا تھا۔ ’’ارے دین محمد اس وکھت تو کوئی اچھی سی بات کر لیتا، اپنا ماملہ پکا کرتا ہے۔ لڑنا ہوتا تو تیرے ساتھ آنے کو راجی کیوں ہوتی۔ تو کنیج کو نہیں جانتا۔‘‘ کنیز نے آنسو پونچھ کر دین محمد کی طرف دیکھا جواب اس سے بہت آگے چل رہا تھا۔ وہ سوچتی چلی گئی۔ ’’اپنی تو کسمت ہی کھراب تھی ری، لڑکر کسے کھوسی ملے ہے۔‘‘

    دوپہر پلٹ چکی تھی۔ اب دونوں گائوں کے اندر داخل ہو رہے تھے۔ عورتیں کنویں پر پانی بھر رہی تھیں اور گائوں کی پن چکی بڑے زور سے ہک ہک کر رہی تھی۔ دین محمد ایک گھر کے سامنے رُک گیا اور پھر دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ کنیز بھی اس کے ساتھ ساتھ اندر چلی گئی۔ دین محمد جھپٹ کر آگے بڑھا اور برآمدے میں لیٹی ہوئی سکینہ پر جھک گیا۔ ’’کیسی طبیعت ہے ری؟‘‘

    کنیز اجنبیوں کی طرح آنگن میں کھڑی رہ گئی۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے گوندھی ہوئی مٹی سے کھیلتے کھیلتے اٹھ کر اسے اشتیاق اور حیرت سے دیکھ رہے تھے۔

    ’’لے آیا رے؟‘‘ سکینہ بستر سے اٹھنے کی کوشش میں جیسے گرسی پڑی۔

    ’’لے آیا، پر تونہ اٹھ طبیعت کھراب ہو جائے گی۔‘‘

    سکینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے تکیے کے نیچے رکھا ہوا دوپٹہ نکال کر اپنے منہ پر ڈال لیا جیسے وہ کچھ بھی نہ دیکھنا چاہتی ہو۔

    ’’اری تو ہی نے تو کہا تھا کہ گھر اور بچے تباہ ہو رہے ہیں۔‘‘ دین محمد بڑا بیتاب ہو رہا تھا اور بار بار اس کے چہرے سے دوپٹہ ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ’’تو ہاتھ منہ دھولے رے، میری طبیعت بگڑ رہی ہے، ابھی ٹھیک ہو جائوں گی۔‘‘ سکینہ نے منہ پر سے پلّو ہٹا دیا اور دین محمد کا ہاتھ پکڑ کر بڑے انداز سے دیکھنے لگی۔

    کنیز آنگن میں کھڑی جیسے نہ کچھ دیکھ رہی تھی نہ سُن رہی تھی۔ دیوار پر بیٹھے ہوئے کوّے شور مچا رہے تھے اور آنگن کے ایک کونے میں بندھی ہوئی بھینس جانے کیوں ڈکرا رہی تھی۔

    ’’اندر آجاری کنیج، وہاں کیوں کھڑی ہے۔‘‘ سکینہ نے نقاہت سے کہا اور کنیز دھیرے دھیرے چلتی ہوئی سکینہ کے پائینتی جا بیٹھی، چاول اور گڑکی پوٹلی اس کی گود میں آپڑی۔

    ’’گھونگھٹ اُلٹ دے ری‘‘ سکینہ نے اشتیاق سے کہا۔ ’’میں بھی تو منہ دیکھوں تیرا۔‘‘

    کنیز نے گھونگھٹ سرکا دیا تو سکینہ نے بڑے غور سے اس کی طرف دیکھا اور پھر جیسے بڑے سکون سے لمبی سی سانس لے کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔

    کنیز نے بھی نیچی نیچی نظروں سے سکینہ کی طرف دیکھا اور حیران رہ گئی یہ ہے ری کیسی کھوبصورت بلا ہے پر جان میں تو کچھ رہا نہیں ہڈیاں ہی ہڈیاں جانو کبر کے کنارے لگ گئی ہے اور کتنے دن جئے گی گریب۔‘‘ کنیز نے بھی اطمینان کی سانس لی۔

    سکینہ کی بُری حالت نے اسے جانے کتنا مطمئن کر دیا تھا پھر بھی سکینہ کا حُسن آنکھو ںمیں کھٹک رہا تھا۔

    دین محمد ہاتھ منہ دھو کر لال انگوچھے سے منہ پونچھتا ہوا باہر چلا گیا تو سکینہ پٹی کی ٹیک لے کر اٹھ گئی۔ ’’بڑے دنوں سے بیمار ہوں، کوئی نہ گھر دیکھنے والا ہے نہ بچے۔‘‘

    ’’تو پھکر نہ کر ری، میں جو آگئی ہوں تیری کھدمت کرنے۔‘‘ کنیزنے دھیرے سے کہا۔ اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔’’مجھے سب کام بتا دے۔‘‘ وہ دوپٹے کے پلّو میں بندھے ہوئے چاول کھولنے لگی۔ اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ سکینہ کی آنکھوں میں اس کے لیے کتنی نفرت تھی۔

    چاول اور گڑکی بھیلی تھالی میں رکھ کر کنیز نے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر گھڑے کے پاس بیٹھ کر ان کا ہاتھ منہ دھلانے لگی، ’’راجہ بابو منہ دھلائے گا، گڑکا ملیدہ کھائے گا۔‘’ وہ لڑکوں کو ضد کرنے پر بہلا بھی رہی تھی۔

    دوپٹے کے پلّو سے منہ ہاتھ پونچھنے کے بعد وہ بچوں کو کوٹھری میں لے گئی اور پھر چھوٹے سے ہرے پھولدار بکس سے کپڑے نکال کر بچوں کو پہنا دیے۔ ہاتھ منہ صاف کرا کے دونوں کیسے پیارے لگ رہے تھے۔ بڑے لڑکے کی رنگت تو بالکل سکینہ جیسی تھی چھوٹا باپ پر پڑا تھا۔ کنیز کو چھوٹے پر بڑی مامتا پھٹ رہی تھی۔ اس نے چھوٹے کو لپٹا کر چُومنا شروع کر دیا۔ ’’ہے ری کچھ دن بعد بیچارے بِن ماں کے رہ جائیں گے، پر میں انھیں تکلیپھ نہ ہونے دوں گی۔ یہ تو میرے دین محمد کے بچے ہیں۔‘‘

    بچے خوشی خوشی باہر نکل گئے تو کنیز اپنے گھر کا جائزہ لینے لگی۔ تین بڑے بڑے بکس جن میں تالے پڑے ہوئے تھے۔ پیتل کے بھاری بھاری سُرخ پایوں والا نواڑی پلنگ اور اس کے پائینتی رکھا ہوا نیا لحاف اور گدا، ایک طاق میں رحل پر قرآن شریف رکھا تھا، دوسرے طاق میں گیس کی لالٹین اور تیسرے طاق میں آئینہ اور سُرمے دانی۔

    کنیز کا جی چاہ رہا تھا کہ کسی طرح ان تینوں بکسوں کو بھی کھول کر دیکھ لے۔ جانے کیا کچھ بھرا ہوگا۔ آخر تو اب یہ سب چیزیں اس کی ہیں۔ سکینہ کی بُری حالت دیکھ کر کنیز کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ اس گھر سے مرکر ہی نکلے گی۔

    ہر چیز پر دھول جمی تھی، بچوں نے ہر طرف کوڑا پھیلا رکھا تھا۔ جانے کب سے کوٹھری میں جھاڑو نہ دی تھی۔ کنیز کو افسوس ہونے لگا۔ ’’عورت روج روج کی بیمار ہو تو پھر یہی ہوتا ہے ری۔ اسی کارن تو بیچارے کو دوسری سادی کرنی پڑی۔ ’’ایسی عورت سے بھلا کیا سواد ملے۔‘‘ کنیز نے شرما کر دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھ لیاہے ری کیسا محلوں جیسا گھر ملا ہے۔ کیسی کیسی چیجیں کہ آدمی کی نجر نہ ہٹے۔‘‘

    دالان میں آکر اس نے سکینہ کی طرف دیکھا جو نہ معلوم کیا سوچ رہی تھی۔ سکینہ نے چونک کر کنیز کی طرف دیکھا۔ ’’باہر چھپریا تلے جو بیل بندھے ہیں وہ اپنے ہیں ری؟‘’ کنیز نے پوچھا۔ اس وقت وہ سب کچھ بھول کر گھر کی مالکن بنی ہوئی تھی۔

    ’’کیوں ری! کس لیے پوچھ رہی ہے؟‘‘ سکینہ نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ پھر تجھے کیا، بیل میرے ہیں تیرے باپ کے نہیں۔ ’’اب جاکر ہانڈی چڑھا دے، سام ہو رہی ہے، دینو جلدی روٹی کھاتا ہے۔ بھینس بھی دوہ لے۔‘‘ سکینہ نے منہ پھیر لیا۔

    ’’ہے ری کیسا کمجور ہے، کل کی آس نہیں، جندگی نام کو باکی نہیں۔‘‘ کنیز صحن میں جاکر بالٹی دھونے لگی۔ ’’اری اب تو یہ گھر میرا ہے، تیری بھی کھدمت کردوں گی۔‘‘

    بھینس دوہتے ہوئے کنیز کو عجیب سا فخر محسوس ہو رہا تھا۔ ’’ہے اتنا بڑا جانور، جانو ہاتھی لگتا ہے۔ بھلا بکری بھی کوئی چیج ہوئی ایک لٹیا دودھ دے اور سینگ مارے الگ‘‘ بکری کے ساتھ اسے اپنی بکری بھی یاد آگئی اور اماں کی تنہائی کا خیال بھی ستانے لگا۔ ’’جانے بیچاری اماں کیا کرتی ہوگی، پر بیٹیاں ہمیسہ تو نہیں بیٹھی رہتیں۔‘‘

    شام ہوگئی تھی، آنگن کی کچی دیوار پر بیٹھے ہوئے کوے کائیں کائیں کرتے اڑگئے۔ باہر سڑک سے بھینسوں اور بکریوں کے گلے میں بندھے ہوئے گھنگھروئوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس نے جلدی سے دال صاف کر کے چڑھا دی اور پھر دو گھڑے اٹھا کر کنویں پر پانی بھرنے چلی گئی، بچوں کا ہاتھ منہ دھلانے کے بعد ذرا سا پانی رہ گیا تھا۔

    گھڑے منڈیر پر رکھ کر وہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگی، دوسری عورتیں بڑی تیزی میں تھیں۔ ’’ارے تو دوسرے گائوں سے آئی ہے، دین محمد کی عورت ہے نا؟‘‘ ایک عورت نے اس سے پوچھا۔

    ’’ہاں ری!‘‘ کنیز نے غرور سے گردن اونچی کر کے ذراسی گھونگھٹ نکال لی۔

    ’’آج ہی تو لایا ہے کر کے، اس دنیا کا کیا اتبار، سکینہ کو تو مرلینے دیتا۔‘‘ دوسری عورت نے کہا اور گھڑا کمر پر جما کر چل دی۔

    ’’چڑیل کو جانے کاہے کا دُکھ ہے۔‘‘ کنیز نے ٹیڑھی ٹیڑھی نظروں سے جاتی ہوئی عورت کو دیکھا اور گراری میں رسّی ڈال دی۔

    پانی بھر کر جب گھر لوٹی تو دین محمد چھوٹے کو گود میں لیے سکینہ کے پاس بیٹھا تھا اور سکینہ منہ موڑے لیٹی تھی۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بار بار شانے پر ہاتھ رکھ رہا تھا اور آنچل کھینچ رہا تھا۔ کنیز کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے دل کے بالکل نزدیک کسی نے آگ جلاد ی ہے۔ وہ جلدی جلدی روٹیاں پکانے لگی۔ وہ اپنے آپ کو سمجھاتی بھی جا رہی تھی۔ ’’ارے تجھے تو پہلے ہی مالوم تھا، پھر کیا پھائدہ اس کُڑھنے کا، تجھے تو چھ مہینے کو لے کر آئے ہیں۔ تُو تو مساپھر ہے ری۔ رات کے رات ٹھہرے منہ اندھیرے چل دے۔‘‘ کنیز نے ٹھنڈی آہ بھری اور دونوں لڑکوں کو پیار کر کے روٹی کھلانے لگی۔

    بچوں کو کھانا کھلانے کے بعد اس نے ڈلیا میں روٹی اور دال کا پیالہ رکھ کر سکینہ کی طرف بڑھا دیا جو اب تک منہ پھیرے لیٹی تھی۔ پھر چپ چاپ کھڑے ہوکر نیچی نیچی نظروں سے دین محمد کو دیکھنے لگی۔

    ’’اٹھ کر تھوڑا سا کھالے۔‘‘ دین محمد نے سکینہ کو سہارا دیا تو وہ بڑے تکلف سے اٹھ گئی اور دین محمد اپنے ہاتھ سے نوالے بنابنا کر کھلانے لگا۔ سکینہ ہر نوالے پر بس بس کر رہی تھی اور کنیز بڑی بے بسی سے کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس جھانکڑ جیسی عورت میں اب کیا رہ گیا ہے جو دین محمد اس کے پیچھے پاگل ہو رہا ہے۔

    ’’بس کردینو میرے پیٹ میں چُھریاں چلتی ہیں رے۔‘‘ دو چار نوالوں کے بعد سکینہ نے تڑپ کر پیٹ پکڑ لیا۔ دین محمد نے گھبرا کر اسے لٹا دیا اور طاق سے چُورن کی شیشی اٹھا کر پھنکارنے لگا۔

    کنیز روٹی کی ڈلیا اٹھا کر چولھے کے پاس چلی گئی۔ کیسا جی دُکھ رہا تھا۔ دینو نے کچھ بھی تو نہ کھایا ری، اسی لیے تو کمجور ہو رہا ہے، نہ کُھو دکھائے نہ کھانے دے، ویسے کون پھرتا ہے بیمار عورت کے پیچھے۔‘‘

    کنیز کو کئی نام یاد آگئے جن کی عورتیں ہمیشہ بیمار رہتیں اور وہ انہیں پلٹ کر پوچھتے تک نہ تھے۔ ان میں سے دو ایک تو کنیز کے پیچھے پھرتے تھے۔

    سامان بٹورتے اور بھینس کو سانی لگاتے لگاتے خاصی رات ہوگئی۔ دور سے سیاروں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں اور جانے کہاں، کتنی دور بہت سی مردانی آوازیں مجیرے پرگارہی تھیں۔ پیاسوتن گھر جائے بسے ہو ہو۔

    کنیز کان لگا کر سُننے لگی۔ ’’لے تیری سادی کی کھوسی میں گانے ہو رہے ہیں، تیری تو ایسی سادی ہوئی کہ نہ ڈھول بجی، نہ ڈولی میں بیٹھی، کسی نے بیل گاڑی بھی نہ کی، بس تیری سادی ہوگئی۔‘‘ پھر ایک دم کنیز کو یاد آیا کہ آج اس کی شادی کی پہلی رات ہے۔ابھی تو اسے اپنا بستر لگانا ہے۔

    ’’بھلا تو کہاں سوئے گی ری۔ تو اس سے کون کون سی باتیں کرے گی؟ ہائے کیسا میٹھا میٹھا لگتا ہے۔‘‘

    ’’تو چھوٹے کو اپنے پاس سلا لیجیو ری۔ آنگن میں بستر لگا لے۔ اچھی طرح اُڑھا لیجیو، رات اوس پڑتی ہے، چھوٹے کو ٹھنڈ نہ لگ جائے۔‘‘ سکینہ نے درد سے تڑپتے ہوئے اور دین محمد کی آغوش میں سر ٹیکتے ہوئے کہا۔ اس وقت وہ بُری طرح کراہ رہی تھی۔

    کنیز کو ایسا لگا کہ سکینہ کے پیٹ سے ایک چُھری نکل کر اس کے کلیجے کو چیر گئی ہے۔ وہ ذرا دیر تک خاموش کھڑی رہی۔ رات کے سناٹے میں کنویں کی گراری گھومنے کی آواز بڑی صاف سُنائی دے رہی تھی۔ اماں نہ کہتی تھی کہ سوچ لے۔’’اب کا ہے کا گم کرتی ہے؟‘‘ کنیز نے اپنے آپ سے پوچھا۔

    آنگن کے ایک کونے میں بستر لگا کر اس نے باہر کے دروازے بند کر لیے اور پھر چھوٹے کو اپنے سینے سے لگا کر لیٹ گئی۔

    ’’بھول تو نہ جائے گا رے؟‘‘ سکینہ ہولے ہولے کہہ رہی تھی۔ دینو نے کیا کہا، کنیز سُن نہ سکی۔ اس نے گردن اچکا کر برآمدے کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں منہ سے منہ جوڑے لیٹے تھے۔

    کنیز نے ٹھنڈی آہ بھری، ’’جانے چاند کی کون سی تاریکھ ہوگی۔ ساید رات گجرے چاند نکلے گا، ابھی تو اندھیارا پھیلا ہے۔‘‘ کنیز جیسے اپنے جی کو بہلا رہی تھی۔’’ جانے گائوں والوںنے اپنے جی میں کیا سوچا ہوگا، کہتے ہوں گے کہ لو کنیج کی بھی سادی ہوگئی، اب جرور پچتاتے ہوں گے کہ ہم نے کیوں نہ سادی کرلی۔ سب جرور یاد کرتے ہوں گے، پر اب یاد کرنے سے کیا بنتا ہے ری۔ اس وکھت تو سب کو کہہ تھکی کہ گھر میں بٹھا لو، تب کسی نے نہ مانا۔‘‘

    ایک بار اس نے پھر گردن اُچکائی۔ وہ دونوں اسی طرح لیٹے تھے۔ ’’ساید سوگئے۔ گریب سوئے نہ تو کیا کرے، مردجاگے تو کچھ اور ہی یاد آتا ہے۔ اس نے جادو کرا کے کابو میں کرایا ہے۔ کب تک جئے گی۔‘‘

    تین کوس پیدل چلنے کی تھکن نے اسے جلدی سلا دیا مگر وہ صبح منہ اندھیرے اٹھ گئی۔ بھینس دوہنے کے بعد اس نے آگ جلا کر دودھ پکنے کے لیے رکھ دیا اور پھر جلدی سے رات کے جمے ہوئے دہی کو متھنے بیٹھ گئی۔ اتنے میں دین محمد جنگل سے فارغ ہو کر آگیا۔ اس نے رات کی باسی روٹی سے ناشتہ کیا اور چھاچھ کا گلاس پی کر جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ ’’سکینہ کا کھیال رکھیوری۔‘‘ باہر نکل کر چھپر یا تلے سے بیل کھول کر وہ جلدی سے انھیں ہانکنے لگا۔

    کنیز اسے ناشتہ کرتے اور جاتے ہوئے ٹکر ٹکر دیکھتی رہی تھی۔ اسے کتنا انتظار تھا کہ شاید وہ کچھ کہے گا۔ سکینہ سو رہی تھی اب تو وہ کچھ کہہ سکتا تھا۔

    دین محمد کے جانے کے بعد کنیز نے بھینس کے نیچے سے گوبر سمیٹ کر اس میں پیلی مٹی ملائی اور سکینہ اور بچوں کے سوکر اٹھنے سے پہلے پہلے کوٹھری اور برآمدہ لیپ ڈالا۔ جس وقت سے وہ یہاں آئی تھی جگہ جگہ سے کُھدی ہوئی زمین کھل رہی تھی۔

    کوٹھری کو لیپتے ہوئے اس نے بڑا سکون محسوس کیا تھا۔ اسے بڑے سہانے سہانے خواب نظر آرہے تھے اور وہ اپنے کو سمجھا رہی تھی۔ ’’اری کچھ دن کی دیر ہے، ماہ پوہ کی سردی میں تو یہیں اس نواڑی پلنگ پر دینو کی چھاتی سے لگ کر سویا کرے گی۔ سکینہ نہیں جینے کی۔‘‘

    ہاتھ دھوکر جب وہ بچوں کو لپٹائے پیار کر رہی تھی تو سکینہ اٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں میں ذرا دیر کے لیے التفات کی جھلک آکر غائب ہوگئی۔ اس نے کراہتے ہوئے کنیز کو آوازدی تو وہ اس کے لیے دودھ کا گلاس لے کر بھاگی۔ ’’ہائے ری سکینہ، رات کی تکلیپھ میں کیسا پیلا منہ ہو رہا ہے، ذرا سادودھ پی لے تو کمجوری جائے۔‘‘

    سکینہ نے بڑی مشکل سے دو گھونٹ لیے اور پیٹ سہلانے لگی۔ ’’نصیبوں سے کھانا پانی اٹھ گیا ہے ری، تو جلدی جلدی روٹی پکالے، کھیت پر لے جانی ہوگی، چھوٹے کو ساتھ لے جائیو، رستہ بتا دے گا۔ ’’سکینہ نے کراہتے ہوئے کہا اور پھر لیٹ گئی۔ کتنے خطرات، کتنی نفرت اس کی آنکھوں میں امنڈ رہی تھی۔ کتنی ناکامیاں زہر گھول رہی تھیں۔

    موٹی موٹی گھی چپڑی دو روٹیاں اور چھاچھ سے بھری ہوئی لٹیا لے کر جب کنیز نے کھیت پر جانے کے لیے چھوٹے کی انگلی پکڑی تو سکینہ جیسے ناگن کی طرح لوٹنے لگی۔ ’’روٹی دے کر پھوراً مٹرآئیو، دھوپ اس دیوار تک نہ چڑھنے پائے ری۔‘‘ سکینہ نے سامنے دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ کنیزنے مڑکر دیکھا، دھوپ دیوار کے نزدیک پہنچ چکی تھی۔

    کنیز جب کھیت پر پہنچی تو دین محمد تھک کر ایک پیڑ تلے لیٹا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر دھول کا غبار سا چھایا ہوا تھا۔ کنیز اس کے قریب بیٹھ گئی اور انگوچھا کھول کر روٹی سامنے رکھ دی۔ دین محمد نے اس کی طرف دیکھا اور نظریں جھکا کر کھانے لگا۔ ’’سکینہ کیسی ہے ری؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’اچھی ہے رے، ’’کنیز نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’اتنی دور سے آئی ہوں، مجھے بھی پوچھ لے رے!‘‘ کنیز نے ٹھنڈی سانس بھری۔

    دین محمد نے کوئی جواب نہ دیا اور روٹی کھا کر برتن انگوچھے میں باندھ دیے۔ ’’تجھے میرا گھر اچھا لگا ری؟‘‘ دین محمد نے دھیرے سے پوچھا جیسے کسی کے سُننے کا خوف طاری ہو۔

    ’’تیرا گھر نہیں، میرا گھر ہے دین محمد۔‘‘ کنیز نے کچھ اس طرح سراٹھا کر کہا کہ دین محمد ایک لمحے کو جیسے ان آنکھوں میں کھو کر رہ گیا۔ ’’اچھا رے میں چلی۔ سکینہ نے کہا تھا کہ دھوپ دیوار پر نہ چڑھے تو لوٹ آئیو۔‘‘ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔

    ’’تو اس کی کھوب کھدمت کرے گی نا؟‘‘ سکینہ کا نام سنتے ہی دین محمد کا چہرہ اتر گیا۔

    ’’میرے اوپر بھروسہ کر رے۔‘‘ وہ چھوٹے کی انگلی پکڑ کر چل دی۔

    گھر پہنچی تو سکینہ کی نظریں دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ ’’تونے اتنی دیر کیوں لگائی ری؟‘‘ سکینہ جیسے چیخ پڑی۔

    ’’لمبا رستہ ہے! سکینہ اس نے روٹی کھائی تو میں اُٹھ پڑی۔

    ’’تونے اس سے کون سی باتیں کی تھیں؟‘‘ سکینہ نے اسے گھورا۔

    ’’اری! مجھے کیا کہنا ہے، میں تو تیری کھدمت کو آئی ہوں۔‘‘ کنیز کمر پر گھڑا جما کر پانی بھرنے چلی گئی۔

    شام کو جب دین محمد کھیت پر سے واپس آیا تو سکینہ بیتابی سے اٹھ پڑی اور اس کی آنکھوں میں اس طرح جھانکنے لگی جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ دین محمد نے اس کا سر سینے سے لگا لیا تو سکینہ سرگوشیوں میں اس سے جانے کیا کہتی رہی۔ یہاں تک کہ ذرا ہی دیر میں دینو صافے سے آنسو پونچھنے لگا۔

    ’’ارے تو کیوں روئے، تیرے دسمن روئیں۔‘‘ کنیز نے پھڑک کر ادھر دیکھا مگر کچھ نہ کہا۔ توے پر پڑی ہوئی روٹی جلتی رہی۔ اس کا کیسا جی چاہ رہا تھا کہ دین محمد کے آنسو پونچھ ڈالے اور سکینہ کا گلا گھونٹ کر یہ چاردن کی زندگی بھی چھین لے۔

    رات مارے درد کے سکینہ نے کچھ نہ کھایا۔ دین محمد نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ کنیز بچوں کو کھلا کر خود بھی بھوکی پڑ رہی، پھر اس سے کون کہتا کہ تو بھوکی نہ رہ۔ ہاں سکینہ ساری رات ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتی رہی اور دین محمد اس کی ہر آہ پر سوتے میں بھی چونکتا رہا۔

    دوسرے دن جب کنیز کھانا لے کر اس کے پاس کھیت پر گئی تو اس نے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، بیلوں کی طرح سر جھکا کر کھانا شروع کر دیا۔

    ’’بہت تھک گیا ہے رے، تو کھانا کھالے تو میں تیرے پائوں داب دوں۔‘‘ کنیز نے اس کے قریب سرک کر کہا۔ چھوٹا ادھ گڑے کھیت میں ادھر سے اُدھر بھاگا پھر رہا تھا۔ ’’تجھ سے سکینہ نے کہا ہے کہ بات نہ کیجیو۔ نہ بول، پر میں تو بولوں گی، اس نے مجھے کون سی کسم دی ہے، تجھ سے نہ بولوں گی تو پھر کس کے سنگ بات کروں گی رے، کیوں میں جھوٹ کہتی ہوں؟‘‘

    دین محمد پھر بھی کچھ نہ بولا۔ بس ایک بار نظر اٹھا کر کنیز کی طرف دیکھا اور پھر چھوٹے کو آواز دینے لگا۔

    کنیز ذرا اور قریب سرک گئی۔ دین محمد چھوٹے کو گود میں بٹھا کر پیار کرنے لگا۔

    ’’یہ کس کے نام کی چُمیاں لے رہا ہے رے؟‘‘ کنیز نے اسے چھیڑا اور کھلکھلا کر ہنس دی۔ دین محمد نے بوکھلا کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’گھر جاری۔‘‘ اس نے چھوٹے کو گود سے اتار دیا اور بیلوں کی طرف بڑھ گیا۔

    ’’ہائے تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ مجھ سے کیوں بھاگتا ہے؟ کیا میری تیری سادی نہیں ہوئی؟ تین کوس دور تیرے پیچھے آئی ہوں رے۔‘‘ کنیز اکیلی بیٹھی سوچتی رہ گئی اور پھر برتن اٹھا کر چھوٹے کی انگلی پکڑ لی۔ دینو کی شرافت پر تو وہ اس وقت قربان ہو کر رہ گئی تھی۔ ’’اگر کوئی اور آدمی ہوتا تو جانے کیا کرتا ری پر وہ آدمی تھوڑے ہوتے ہیں، ڈنگر ہوتے ہیں۔‘‘

    گائوں والے حیران تھے کہ کنیز نے گھر اور بچوں کو سنبھال لیا۔ سکینہ کی خوب خدمت کی، کبھی کسی نے لڑنے بھڑنے کی آواز نہ سُنی۔ جب کنویں پر جاتی تو عورتیں سکینہ کا حال پوچھتیں اور وہ ایسی رقّت سے اس کی خراب حالت کا ذکر کرتی کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ جوں جوں سردی بڑھتی جا رہی تھی سکینہ کی حالت بھی گرتی جارہی تھی۔ کنیز اطمینان کی لمبی لمبی سانسیں لیتی مگر اس کی یہ کیفیت کون جانتا تھا۔ دین محمد خوش نظر آتا تھا کہ اس کی سکینہ کی خوب خدمت ہو رہی ہے مگر جب کنیز کھیت پر روٹی لے کر جاتی اور اسے رجھانے کے لیے باتیں کرتی تو وہ ٹس سے مس نہ ہوتا۔

    جب سے سردیاں پڑی تھیں سب لوگ ایک ہی کوٹھری میں سوتے، ایک سرے پر سکینہ اور دین محمد کا پلنگ ہوتا، دوسرے سرے پر کنیز چھوٹے کو لے کر لیٹتی۔ سرِ شام پکا کھا کر وہ کوٹھری کو اُپلے جلا جلا کر گرم کر دیتی اور پھر دور پڑے پڑے دیکھتی رہتی کہ کراہتی ہوئی سکینہ پر دین محمد جھکا ہوا ہے، اسے سہلا رہا ہے، دبا رہا ہے، چُوم رہا ہے، اس کی تکلیف پر آنسو بہا رہا ہے۔ کنیز تڑپتی رہتی، جلتی رہتی، اس کے شوہر کو ایک بیمار عورت چھینے ہوئے تھی مگر کنیز منہ سے اُف بھی نہ کر سکتی تھی۔ وہ سکینہ کی موت کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کو بہت سے لوگوں نے بتایا تھا کہ بعض جادو ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر اسی وقت ختم ہوتا ہے جبکہ جادو کرانے والا مرجائے۔

    شام پڑتے ہی کنیز جلدی جلدی سارا کام ختم کرلیتی تو بھینس کو دالان میں باندھ کر اپنے بستر میں آجاتی۔ دین محمد جیسے ہی گھر میں آتا اور سکینہ کے پاس بیٹھتا تو کنیز کے ہاتھوں میں جیسے بجلی کی تڑپ آجاتی۔ ’’ہائے ری جانے وہ دونوں کیا کر رہے ہوں گے، کون سی باتیں کرتی ہوگی سکینہ؟‘‘ گھنٹوں کے کام منٹوں میں کر کے وہ اپنی کھاٹ پر آجاتی اور سکینہ کو بار بار کام یاد آنے لگتے مگر آج جب وہ اپنی کھاٹ پر لیٹی تو سکینہ کو کوئی کام نہ یاد آیا۔ دین محمد کے کندھے پر سر رکھے جانے کیوں وہ چپ چاپ بیٹھی دیے کو تکے جا رہی تھی۔

    دین محمد بار بار اس سے پوچھ رہا تھا کہ وہ کیا دیکھ رہی ہے۔ کنیز کا جی چاہ رہا تھا کہ چیخ کر کہہ دے، ’’مرنے والے اسی طرح روشنی کو تکتے ہیں رے، تو کیوں پھکر کرتا ہے۔‘‘

    ’’تیل کھتم ہو جائے تو بتی آپی آپ بُجھ جاتی ہے رے، میری جندگی کا تیل بھی کھتم ہو رہا ہے۔‘‘ دین محمد کے اصرار پر آخر سکینہ بول ہی پڑی۔

    ’’اس طرح کہے گی تو میں کنویں میں کود پڑوں گا، تُونے تو ساری باتیں بھلا دیں سکینہ۔‘‘ دین محمد بیتاب ہو رہا تھا۔

    کنیز تن من سے سُن رہی تھی۔ ’’کون سی باتیں رے دین محمد، تجھ سے کیا کہا تھا سکینہ نے، ہائے رے مجھے نہ بتائے گا؟کیا تو میرا آدمی نہیں؟ مجھے بتا، میں جو تیری عورت ہوں۔ ارے دین محمد میں نے تیرے ہی تو کھواب دیکھے تھے۔‘‘ کنیز بار بار کروٹیں بدل رہی تھی اور سکینہ دیے کی لو تکے جا رہی تھی۔

    ’’بول ری؟‘‘ دین محمد اس سے جواب مانگ رہا تھا۔

    ’’پھر باعدہ کر کہ اگلے مہینے پھصل کاٹ کر مجھے سہر آگرہ علاج کے لیے لے جائے گا، وہاں بڑے اسپتال میں رکھے گا، تو چاہے گا تو تیل کبھی نہ کھتم ہوگا۔‘‘

    ’’سہر میں علاج کے لیے تو بہت سے روپیوں کی جرورت ہوگی، پر تونے پہلے کیوں نہ کہا۔ میں تیری کھاطر ہل، بیل، بھینس سب بیچ دوں گا۔ پھصل کا دانہ دانہ اٹھا دوں گا، میں بھوکا رہ لوں گا پر تجھے جرور لے جائوں گا۔‘‘

    ’’بھوکے مریں تیرے دشمن۔‘‘ کنیز تڑپ کر بیٹھ گئ۔ ’’ کون بیچے گا میرے بیل، میری بھینس، پھریہ سب کہاں سے ملے گا رے؟‘‘

    گائوں والے بے عجت سمجھیں گے، سہر میں تو بابولوگ جاتے ہیں علاج کرنے۔‘‘ جانے کیسے کنیز نے یہ سب کچھ کہہ دیا۔ اس کا تن لُٹ رہا تھا اب گھر لُٹتے کیسے دیکھتی۔

    ’’ارے تو کون بولنے والی۔ کہاں سے آگیا تیرا گھر حرام جادی! تجھے تو چھ مہینے کے لیے کھدمت کرنے کو لائی ہوں۔‘‘ سکینہ ڈائنوں کی طرح چیخی۔

    ’’کھبردار جواب تو نے بات کی، جبان کھینچ لوں گا۔ ’’دین محمد چنگھاڑا۔

    ’’لے میں کیوں نہ بولوں؟ سب بیچ دے گا تو بھوکا مرے گا، میں تجھے بھوکا کیسے دیکھوں گی، یہ تجھے اُلٹی باتیں سکھاتی ہے، اس نے تجھ پر جادو کیا ہے رے۔ یہ مرجائے گی پر تجھے بھوکا چھوڑ کر جائے گی۔‘‘

    ’’یہ مر جائے گی؟‘‘ دین محمد دیوانوں کی طرح کنیز کی طرف جھپٹا اور چوٹی پکڑ کر بے دردی سے پیٹنے لگا۔ ’’نکل جا، ابھی نکل جا۔‘‘ وہ زور زور سے چیخ رہا تھا۔ کنیز نے ایک لمحے کو اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا اور پھر دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا لیا۔ اس نے اپنے جسم پر پڑتے ہوئے گھونسوں سے بچنے کی ذرا بھی کوشش نہ کی۔ چھوٹے سوتے سے اٹھ کر کنیز کے ساتھ لپٹ گیا تھا اور بُری طرح رو رہا تھا۔

    ’’بس کر رے دینو، چھوٹے کو کیوں رُلاتا ہے، ابھی تو میں جندہ ہوں، میں اس کے کہنے سے نہ مروں گی۔‘‘ سکینہ کی آواز میں بلا کا سکون تھا۔ دین محمد نے کنیز کو چھوڑ دیا اور اپنے بستر پر آکر لحاف میں منہ چھپالیا۔

    ’’بس رے جُلمی تھک گیا؟‘‘ کنیز نے زخمی نظروں سے دین محمد کی طرف دیکھا اور پھر چھوٹے کو سینے سے لگا کر لیٹ گئی۔

    دوسرے دن جب کنیز دین محمد کا کھانا لے کر گئی تو دین محمد نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں، بس سر جھکائے روٹی کھاتا رہا اور کنیز اس کے قریب بیٹھی تکتی رہی مگر جب دین محمد نے برتن اس کی طرف بڑھائے تو ایک لمحے کو نظریں مل گئیں۔ اس کے ہونٹ کانپے اور وہ جلدی سے پیٹھ موڑ کر آگے بڑھ گیا۔

    ’’جالم مارتا ہے تو پھر چھاتی سے بھی لگالے۔‘‘ کنیز سوچتی ہوئی تھکے تھکے قدموں سے گھر کی راہ ہولی۔ ’’سر مندہ ہے نجریں نہیں ملاتا۔ ارے بائولے میںکوئی پرائی عورت ہوں، تیری ہی تو ہوں۔ تیرا کیا کصور، تجھ پر تو سکینہ نے جادو کیا ہے۔‘‘

    کنیز کو مارنے کے بعد جانے کیوں دین محمد پھر اس سے بات نہ کر سکا۔ وہ روز روٹی لے کر جاتی، جانے کتنی بہت سی باتیں کرتی۔ ’’دینورے، گیہوں کی کیسی موٹی موٹی بالیاں پڑی ہیں۔ دینورے! چھوٹے کے کپڑے بنوادے۔ چھوٹے کی صورت بالکل تیرے جیسی ہے رے! دینورے! مجھ سے ناراج ہے کیا؟ مجھے چھوڑ یو نہیں۔ دیکھ رے میں نے تیرے گھر کو چندن بنا دیا ہے۔ دینورے! ایک بار تو مجھے بھی چھاتی سے لگا لے۔ دینورے۔‘‘

    دین محمد جانے سب کچھ سُنتا بھی تھا کہ نہیں۔ کھانے کے بعد برتن اس کی طرف بڑھا دیتا اور فوراً ہی کھیت کے اندر چل دیتا۔ فصل کٹتے کٹتے سکینہ بڑی کمزور ہوگئی۔ دین محمد نے ساری فصل بیچ دی تھی اور کل صبح سکینہ کو شہر لے جا رہا تھا۔ اسٹیشن تک جانے کے لیے بیل گاڑی کا انتظام بھی کر لیا تھا۔ کنیز خوش تھی کہ اب سکینہ جا رہی ہے، وہیں اسپتال میں مر جائے گی، کنیز کو اچھی طرح یاد تھا کہ اس کے گائوں سے کئی آدمی آگرہ اسپتال گئے تھے جب وہ لے جائے گئے تھے تو ان کی سخت بُری حالت تھی۔ اسپتال جا کر وہ زندہ واپس نہ آئے تھے۔ کنیز کو یقین تھا کہ سکینہ بھی واپس نہ آئے گی اور پھر وہ اس خیال سے بھی کتنی خوش تھی کہ دین محمد نے اسے مارنے کے باوجود بیل یا بھینس نہ بیچی تھی۔ ساری فصل بیچ دی تو کیا ہوا۔ وہ خرید کر کھالے گی۔ گھی بیچ کر روپے کھرے کر لے گی۔

    صبح منہ اندھیرے جب سکینہ جا رہی تھی تو بڑے دنوں کے بعد اس نے کنیز سے بات کی۔ ’’بچوں کو تیرے سہارے چھوڑ رہی ہوں کنیج، ان سے بُرائی نہ کیجیو۔ جندگی کا کیا بھروسہ۔‘‘ اور پھر بچوں کو لپٹا کر رونے لگی۔

    ’’کنیج مر جائے گی پر انہیں تکلیپھ نہ ہونے دے گی۔‘‘ کنیز نے جواب دیا اور روتے ہوئے بچوں کو لپٹا کر کوٹھری میں چلی گئی۔

    دین محمد سکینہ کو بیل گاڑی میں بٹھا کر سامان اٹھانے آیا تو کنیز کو یوں دیکھنے لگا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو۔

    تو تو نہ کہیورے کہ انہیں اچھی طرح رکھنا، یہ تو میرے اپنے ہیں، تُو جا۔‘‘

    آٹھ دس دن گزر گئے، نہ دین محمد آیا نہ کوئی خبر لگی۔ کنیز پل پل انتظار میں گزارتی۔ خواب میں کتنی ہی بار اس نے سکینہ کو مرتے دیکھا تھا، اس نے آخری ہچکی کی آواز تک سُنی تھی۔ اس نے اطمینان کی ٹھنڈی لمبی سانسیں بھری تھیں مگر جب خواب سے چونکتی تو پھر عجیب سا عالم ہو جاتا۔ اس کی حالت پاگلوں جیسی ہو رہی تھی۔ بچوں کو جیسے تیسے روٹی کھلا دیتی مگر خود کھانا بھول جاتی۔ ہاں دوپہر میں جانے اسے کیا ہوتا کہ انگوچھے میں دو روٹیاں باندھ لیتی، لٹیا میں چھاچھ بھرتی اور پھر ذرا دیر بعد انگوچھا کھول کر رونے لگتی۔’’ارے دین محمد! تو اس کے پیچھے پھرتا ہے!‘‘ جانے وہ کس سے فریاد کرتی۔

    ان دنوں اسے اماں بھی یاد آنے لگی تھی۔ ’’جانے کیسی ہوگی، سردیاں کیسے کاٹی ہوں گی۔ اس کے گھٹنوں پر سوجن چڑھی ہوگی تو کس نے سینکا ہوگا۔ ایک بار تو آکر مل جاتی ری۔ ساید ڈرتی ہوگی کہ کنیج ساتھ ہی نہ مڑ آئے۔‘‘

    اماں کی یاد سے وہ بہت جلدی پیچھا چھڑالیتی۔ اسے اپنے گائوں سے ڈر لگنے لگا تھا۔ جانے کیوں گائوں کا خیال بھوت کا سایہ بن جاتا۔

    دسویں دن صبح صبح دین محمد آگیا۔ کنیز اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ گھٹ کر آدھا رہ گیا تھا۔ رنگ ایسا پیلا کہ لگتا برسوں کا بیمار ہے۔ اس نے آتے ہی بچوں کو لپٹا لیا۔ کنیز دور کھڑی دیکھتی رہ گئی۔

    ’’سکینہ کی حالت بڑی کھراب ہے ری۔ اس کا آپریسن ہوا ہے۔‘‘ دین محمد نے کنیز کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈے ہوئے تھے۔

    کنیز کچھ نہ بولی، دین محمد کے پیروں کے پاس بیٹھ کر راستے کی دھول پونچھنے لگی۔ ’’ یہ حال بنا لیا رے، سکینہ اب نہ اچھی ہوگی، تو کیوں پاگل ہوا جاتا ہے۔‘‘ کنیز بڑے اطمینان سے سوچ رہی تھی۔ آپریشن کی خبر نے اسے پکّی طرح یقین دلا دیا تھا کہ اب سکینہ لوٹ کر نہ آئے گی۔

    ’’تو مجھے جلدی سے روٹی دے دے، کام سے جانا ہے ری۔‘‘ دین محمد نے اپنے پائوں کھینچ لیے، ’’کل سے کچھ نہیں کھایا۔‘‘

    کنیز نے جلدی سے روٹی، پیاز کی گٹھی اور تھوڑا سا مکھن اس کے سامنے لا کر رکھ دیا اور خو دبھی پاس ہی بیٹھ گئی۔ اتنے دن بعد دین محمد کو دیکھ کر اسے چپ لگ گئی تھی۔ اس سے ایک بات بھی نہ کی جا رہی تھی۔

    جلدی جلدی روٹی کھا کر دین محمد اٹھ کھڑا ہوا اور بھینس کے کھونٹے سے زنجیر کھول کر اسے باہر ہانکنے لگا۔ کنیز بھاگ کر سامنے آگئی۔ ’’ابھی سے کہاں چلا رے، ابھی توپیروں کی دھول بھی نہیں جھڑی۔‘‘

    ’’بھینس کا سودا کر آیا ہوں، اسے بیچنا ہے ری، بہت سی دوائیں کھریدنا ہیں، آرام کا بکھت نہیں۔‘‘

    ’’بچے بِن دودھ کے کیا کریں گے رے؟ یہ تیرے آنگن کی سان ہے، میں اسے نہ بیچنے دوں گی۔‘‘ کنیز نے زنجیر پکڑلی۔

    دین محمد ایک لمحے کو جیسے بے بس سا ہو کر کنیز کو تکنے لگا اور پھر اسے اتنے زور سے دھکیلا کہ وہ دیوار سے جا لگی۔ دروازے سے باہر نکلتے ہوئے دین محمد نے مڑ کر کنیز کی طرف دیکھا جو ابھی تک دیوار سے لگی بیٹھی تھی۔ ’’میرا انتجار نہ کیجیو۔ میں اسٹیشن چلا جائوں گا۔‘‘

    ’’بھینس نہ بیچ دینو، تجھے میری قسم نہ بیچیو۔‘‘ کنیز دروازے تک دوڑی اور پھر جیسے تھک کروہیں دہلیز پر بیٹھ گئی۔ ’’ارے سکینہ! تو مرنے سے پہلے میرا گھر لٹا کر جائے گی۔ تجھے کبر میں بھی چین نہ پڑے، تیرے کیڑے پڑیں۔‘‘

    دین محمد بھینس کو ہنکاتا چلا جا رہا تھا اور اس کے پیچھے دھول کا بادل امنڈ رہا تھا۔ کنیز بڑی حسرت سے ادھر دیکھ رہی تھی۔ جب دین محمد نظروں سے اوجھل ہوگیا تو وہ دروازے کا سہارا لے کر اس طرح اٹھی جیسے اچانک بوڑھی ہوگئی ہو۔ اس کی ساری طاقت جو اب دے گئی ہو۔ وہ دھیرے دھیرے بڑ بڑا رہی تھی۔ ’’بیچ دے رے، کنیج پھر سے بھینس کھریدلے گی، تیرے آنگن کی سان نہ جانے دے گی۔‘‘

    بھینس جانے سے آنگن کیسا سُونا سُونا سا لگتا۔ کنیز نے باہر چھپریا کے نیچے بندھے ہوئے بیل کھول کر آنگن میں باندھ لیے پھر بھی بھینس والی بات نہ بنی۔

    دین محمد کو گئے چھ دن ہوگئے۔ ان دنوں میں کنیز نے ایک بار آنگن اور برآمدہ لیپ لیا تھا۔ بیلوں کے لیے کھیت سے بھوسا اٹھا اٹھا کر گھر لائی تھی۔ گھر کی دیواریں جھاڑی تھیں، جالے چھڑائے تھے، پھر بھی کام کر کر کے اس کاجی نہ بھرتا۔ رات ہوتے ہوتے وہ اس قدر تھک جاتی کہ کسی کروٹ چین نہ پڑتا۔ نیند نہ آنے سے ساری فکریں دھاوا بول دیتیں۔ دین محمد کی یاد بُری طرح ستاتی۔ اسے بار بار خیال آتا کہ سکینہ کی موت پر اس کا کیا حال ہوگا۔ ایسے وقت میں اس کا پاس ہونا کتنا ضروری تھا۔ وہ اسے تسلّی تو دے لیتی، اس کے آنسو تو پونچھ دیتی۔ اب وہ اکیلا کیا کرے گا؟

    دس دن گزرے تو کنیز کا سارے کاموں سے جی اچاٹ ہوگیا۔وہ بولائی بولائی پھرتی۔بچے سارا دن باہر گلّی ڈنڈا کھیلتے اور تنہا کنیز کو ڈھیروں خدشات ڈسنے آجاتے ۔اگر سکینہ اچھی ہوگئی تو؟آپریشن کے بعد وہ اتنے دن تک نہیں آیا۔وہ اتنے دن کیسے زندہ رہی۔ کیا اس کی اتنی پتھر زندگی ہے؟ کیا وہ نہیں مرے گی؟

    انجام کے انتظار میں کنیز کی آنکھیں دروازے پر لگی رہتیں۔ چھوٹے اگر کسی وقت کھیلتے کھیلتے آکر دروازہ بند کر دیتا تو کنیز دوڑ کر کھول دیتی۔ ’’نہ میرے لال درواجے نہ بند کر تیرا ابّا آئے گا۔‘‘

    گیارھویں دن دوپہر کو دین محمد آگیا۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا جیسے بچوں کو تلاش کر رہا ہو اور پھر کھاٹ پر بیٹھ گیا۔ کنیز جلدی سے اس کی طرف لپکی۔ ’’سکینہ کیسی ہے رے؟ تجھے کیا ہوگیا؟ تُو تو پہچانا بھی نہیں جاتا۔‘‘

    کنیز جواب کے لیے اس کا منہ تک رہی تھی اور وہ کھاٹ سے پائوں لٹکائے خاموش بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد گہرے گہرے حلقے پڑگئے تھے۔ گال پچک گئے تھے اور ہونٹوں پر سیاہ پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔

    ’’بول رے سکینہ کیسی ہے؟‘‘ کنیز بہت بیتاب ہو رہی تھی۔

    ’’بے بپھا نکلی، ساتھ چھوڑگئی جالم۔‘‘ دین محمد جیسے خواب میں بولا۔

    ’’ہائے ری سکینہ‘‘ کنیز نے اپنا سینہ کوٹ لیا، بال نوچ ڈالے مگر اس کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہ تھا۔ اتنے زور زور سے سینہ پیٹتے ہوئے اسے ذرا بھی تکلیف کا احساس نہ ہو رہا تھا۔

    وہ سینہ پیٹتے ہوئے دین محمد کے قدموں کے پاس بیٹھ گئی مگر نہ تو دین محمد رویا نہ اس نے کنیز کو سمجھایا۔ اس کا چہرہ کس قدر سپاٹ ہو رہا تھا۔ شاید وہ بہت رولیا تھا۔ شاید اسے صبر آگیا تھا۔

    کنیز اس کے یوں خاموش بیٹھنے پر کس قدر مسرت محسوس کر رہی تھی۔ ’’ساری باتیں جندگی کے ساتھ ہوتی ہیں، مرے کو دو چار دن سے جیادہ کون روتا ہے ری! سب بھول جاتے ہیں۔‘‘ اس نے بڑے فخر سے سوچا اور دین محمد کے پیروں کی دھول اپنے آنچل سے جھاڑنے لگی۔ ’’جندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، پل کے پل کیا سے کیا ہو جاتا ہے، اب تُم گم نہ کریو۔‘‘ کنیز نے اسے سمجھانے کے لیے کہا۔

    ’’سکینہ کی کھاطر میں نے جانے کیا کیا سہا۔ ایک رات گائوں والوں نے گھیر کر لاٹھیوں سے مارا بھی تھا۔ جکھم اب تک نجر آتے ہیں۔‘‘ دین محمد نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ’’اس کے کھلیرے بھائی نے کتنا جور مارا، کتنے جتن کئے پر سکینہ میرے پاس آکے رہی۔ اس کا عاسک جہر کھا کر مرگیا سکینہ اس کی موت پر بھی نہ گئی۔ کہتی تھی میں تو ایک پل کو بھی تیرا ساتھ نہ چھوڑوں۔ جا، جالم! آکھر کو سدا کے لیے ساتھ چھوڑ گئی ناں۔‘‘ دین محمد نے احمقوں کی طرح ہر طرف دیکھا۔ پھر سر جھکا لیا۔

    پھر وہ ایک دم چونک پڑا اور کنیز سے بولا۔ ’’لے کنیج! ایک جروری بات تو میں بھول ہی گیا۔‘‘

    اسی ضروری بات کے لیے تو کنیز نے چھ مہینے دین محمد کی پُوجا میں گزار دیے تھے۔ اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ’’ہائے جلدی سے بول دے ناجروری بات۔‘‘

    دین محمد نے کُرتے کی جیب سے ایک مڑا تڑا کاغذ نکال کر کنیز کی طرف بڑھا دیا۔ ’’تیرا کام کھتم ہوگیا کنیج! چھ مہینے پورے ہوگئے۔ یہ لے، میں نے کاگج لکھوا لیا ہے۔ اب جا۔‘‘

    ’’دینو رے!‘‘ کنیز آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ اسے جیسے کچھ کہنا ہی نہیں تھا۔

    پلٹ کر ایک پل کے لیے اس نے چھوٹے کو ڈھونڈا پھراٹھی، کاغذ کو پاجامے کے نیفے میں اُڑسا اور بولی۔ ’’ہاں رے، اب چلوں، نہیں تو سام پڑ جائے گی۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے