خون کا رشتہ
منگو کو پاگل خانے میں چھوڑ آنے کا مشورہ لوگ جب امرت کا کی کو دیتے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور وہ سب کو ایک ہی جواب دیتیں، ’’میں ماں ہوکر اس کی خدمت نہ کر سکوں تو دواخانے والوں کو کیا پڑی ہے۔؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے بیکار ڈھور کو، پنجراپول (وہ مویشی خانہ جہاں کمزور، بیکار اور بڈھے ڈھوروں کو رکھا جاتا ہے) میں چھوڑ آئے۔’‘
امرت کاکی کا یہ ارادہ معلوم ہو جانے کے بعد اب کوئی انہیں منگو کے متعلق یہ مشورہ نہ دیتا تھا۔ پیدائشی پاگل اور گونگی بیٹی کی پرورش جس طرح امرت کا کی کر رہی تھیں، جس طرح اس کی خدمت کر رہی تھیں اورجس لاڈ پیار سے اسے رکھ رہی تھیں، وہ دیکھ کر لوگ ان کی تعریف بھی کرتے کہ پاگل بیٹی کی ایسی پرورش صرف امرت کا کی ہی کر سکتی ہیں۔ اگر کسی دوسرے کے گھر میں یہ پیدا ہو گئی ہوتی تو کبھی کی بھوکی پیاسی مر جاتی اور اگر زندہ رہتی تو اس کا بدن ایسا تندرست نہ ہوتا۔
منگو کے علاوہ امرت کاکی کی تین اولادیں اور تھیں۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ لڑکے تعلیم حاصل کرکے شہر چلے گئے تھے اور دھندے روزگار سے لگ گئے تھے۔ لڑکی کی شادی ہو چکی تھی اور وہ سسرا ل کی ہو رہی تھی۔ امرت کاکی جیسے اپنی ان تین اولادوں کو بھول گئی تھیں۔ چنانچہ ان کی ساری مادرانہ شفقتیں صرف منگو پر نچھاور ہوتی تھیں۔ چھٹیوں میں جب لڑکے گھر آتے اور پوتے پوتیوں کی شرارتوں اور کھلکھلاہٹ سے گھر پر رونق بن جاتا تب بھی امرت کا کی اپنے پوتے پوتیوں کی طرف متوجہ نہ ہوتیں، وہ نہ تو انہیں اپنے قریب بلاتیں نہ انہیں کھلاتیں اور نہ ہی انہیں پیار کر تیں۔
ماں کا یہ سلوک بیٹوں کو تو برا نہ معلوم ہوتا لیکن بہو ئیں پیچ و تاب کھا جاتیں۔ امرت کاکی کی دونوں بہووں کو ایک ہی شکایت تھی اور وہ اس کا اظہار اپنے شوہروں کے سامنے ہر دم کیا کرتی تھیں۔ بیٹوں کی اولاد تو بڑھیا کو آنکھوں دیکھی نہیں بھاتی البتہ پاگل ہیرے کو چھاتی سے الگ نہیں کیا جاتا۔
مادرانہ جذبات میں بہہ کر بہوئیں امرت کاکی سے یہ زیادتی کر جاتیں کیونکہ لڑکی کے بچوں سے بھی امرت کاکی کا سلوک اس سے مختلف نہ تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بہوئیں تو اپنے شوہروں سے شکایت کرکے خاموش ہورہتیں لیکن لڑکی امرت کاکی کے منہ پر ہی سنادیتی، ’’میں تو کہتی ہوں کہ منگو کو بیکار کے لاڈ کر کرکے تو نے اسے زیادہ ہی پاگل کر دیا ہے۔ عادت ڈالی جائے تو جانور کو بھی خیال رہتا ہے کہ گو موت کہاں کرنا چاہیے اور کہاں نہیں، اب منگو جانور تو ہے نہیں، انسان ہے۔ اگر اسے سمجھایا جائے، عادت ڈالی جائے تو چاہے جتنی پاگل ہو، اتنی سی بات نہ سمجھ سکےگی۔ بے شک وہ گونگی ہے بہری تو نہیں ہے کہ ہماری بات نہ سن سکے؟ ایک دفعہ غلطی کر جائے تو چٹاخ چٹاخ دو چانٹے رسید کر دو، پھر میرا نام بدل دینا اگر دوبارہ وہ اس غلطی کو دہرائے۔’‘
اور اس سے پہلے کہ بیٹی مزید کچھ کہتی، امرت کاکی کی آنکھیں برسنے لگ جاتیں۔ بیٹی کا دل بھی بھر آتا، تا ہم وہ پتھر کا کلیجہ کرکے اور آنسو روک کر کہتی، ’’تو سمجھتی ہے کہ منگو سے ایسا لاڈ پیار کرکے اسے سکھی کر رہی ہے۔ لیکن میری بات یاد رکھیو ماں کہ تو ہی اس کی دشمن ہے، تو ہمیشہ تو بیٹھی رہنے والی نہیں۔ تیری آنکھیں بند ہوتے ہی منگو بھابھیوں کے سر پڑےگی اور تب کوئی اس کا گو موت نہ کرےگا اور پھر منگو کی جو حالت ہوگی اس کے خیال سے تو دشمن کا کلیجہ بھی کانپ اٹھےگا اور پھر نیچی آواز میں کہتی، ’’کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ پار کی (دوسرے کی) ماں ہی کا چھیدتی ہے۔ دواخانے میں رکھنے سے، میں یہ نہیں کہتی کہ اس کا پاگل پن دور ہو جائےگا لیکن اتنا تو ہوگا کہ پیشاب پاخانے اور بدن کے کپڑوں کا اسے ہوش آ جائےگا اور یہ بھی غنیمت ہے کہ بھائیوں کے گھروں میں بھگوان کا دیا سب کچھ ہے اور بھابھیاں بھی ایسی کم ذات نہیں ہیں کہ دو وقت کی روٹی نہ کھلا سکیں۔’‘
لوگوں کے مشوروں کے جواب میں جب امرت کا کی پنجرے کی مثال دیتیں تو وہ تو خاموش ہو رہتے لیکن جو بات وہ نہ کہہ سکتے وہ بیٹی پھٹ سے کہہ ڈالتی، ‘‘ممکن ہے دوا خانہ پنجرے جیسا ہی ہو اور وہاں پہنچ کر منگو اگر مر بھی گئی تو اس کو بھی اور ہمیں بھی نجات مل جائےگی۔’‘
منگو کی موت کو امرت کاکی بھی نجات تو سمجھتی تھیں بشرطیکہ وہ موت طبعی ہو البتہ اس کی طرف سے بےپرواہ بن کر اسے موت کے منہ میں کھلی آنکھوں ڈھکیل دینے کا خیال ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ سکھ میں تو سبھی عزیز وقریب بن جاتے لیکن دکھ میں جو ساتھ دے وہی حقیقی عزیز اور رشتہ دار ہوتا ہے۔ بیٹے کماتے ہوں اور سکھی ہوں، بیٹی سسرال میں جھولے جھولتی ہو، اس وقت میں ماں ہوکر ماں نہ رہوں، ا س کا تو کوئی مطلب نہ رہا۔ منگو کی ماں ہوں اور حقیقت میں اس کی ماں بنی رہوں تبھی تو میرا خون کارشتہ سچا ورنہ سب جھوٹ اور کپٹ۔ یہی وجہ تھی کہ بیٹی کہے یابیٹے کہیں مگر امرت کاکی منگو کو پاگل خانہ کے توسط سے موت کے گڑھے میں ڈھکیلنے کے لیے تیار نہ تھیں۔
بیٹے ماں کے اس جذبے کو سمجھ چکے تھے۔ چنانچہ وہ اس سے ایسی بات نہ کہتے اور پھر اس قسم کا اصرار کرنے کا کوئی مطلب بھی نہ تھا۔ کیونکہ تین ماہر گورے ڈاکٹروں نے منگو کا معائنہ کر نے کے بعد صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اس کا علاج ممکن نہیں۔ البتہ بیٹوں کے دلوں میں صرف ایک ارمان تھا کہ کسی تجربہ کار نرس یا ڈاکٹڑ کی زیرنگرانی اسے رکھا جائے تو شاید اسے اپنے کپڑے لتے اور پیشاب پاخانہ کا خیال تو رہے اور اسے اس کی عادت تو پڑ جائے لیکن یہ انتظام گھر پر ممکن نہ تھا۔ چنانچہ بیٹے خاموش ہو رہے۔
بہر حال امرت کاکی نے اپنے اعتقاد کے مطابق منگو کا علاج جاری رکھا۔ دوا کرنے والے بے بلائے گھر آ جاتے، سلاجیت اور ہینگ بیچنے والے پاگل پن کا علاج جاننے کا دعویٰ کرکے اپنے اپنے نسخے بتا جاتے۔ امرت کاکی کا یہ تھا کہ وہ سمجھتی تھیں کہ ہزار علاج کریں تو ایک کارگر ہوتا ہے۔ بھگوان نے کسی کے ہاتھ میں تو اس کی شفا رکھی ہوگی۔ چنانچہ جو مشورے دوسروں کو الٹے سیدھے معلوم ہوتے، انہیں امرت کا کی غور و سنجیدگی سے سنتیں اور پھر ان پر عمل بھی کرتیں۔ جوتشی اور بھوت پریت نکالنے والے بھی اپنی سی کرتے۔ ایک جوتشی نے پیشین گوئی کی تھی کہ آئندہ اگہن مہینے میں اس کے ستارے بدل رہے ہیں۔ چنانچہ یہ ٹھیک ہو جائےگی۔ چنانچہ اس دن سے اگہن مہینہ امرت کاکی کے لیے فرشتہ نجات بن گیا تھا۔
اگہن کے مہینے میں ہی منگو کو چودہ سال پورے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ اس خیال سے امرت کاکی ایسی ترنگ میں آ جاتیں کہ کسی ہوش و حواس والے کی ایسی حالت ہونا ممکن نہیں۔ چودھواں سال اترتے ہی کموں کا بیاہ کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ اگر منگو پاگل نہ ہوتی تو اس کا نہ صرف مانگا آ گیا ہوتا بلکہ بات بھی طے ہو گئی ہوتی۔ اگر اگہن میں منگو اچھی ہو جائے تو تب۔۔۔ موئی کا حسن بھی ایسا تھا کہ لڑکا اسے دیکھتے ہی پسند کر لے اور ہاں کر دے۔
اور پھر منگوکے بیاہ کے متعلق یوں سنجیدگی سے سوچنے بیٹھ جاتیں جیسے سچ مچ منگو ٹھیک ہو گئی ہے۔ جب کموں کی شادی ہوئی تھی تب گھر کی حالت اتنی اچھی نہ تھی اور آج تو یہ ہے کہ بیٹے شہر میں خوب روپے کمارہے ہیں پھر منگو کی شادی میں کیوں نہ دھوم سے کروں۔
ایک دفعہ منگو ہوش و حواس والے آدمی کی طرح نالی پرپیشاب کرنے بیٹھی تو امرت کاکی کو خوشی کا کوئی پار نہ تھا۔ وہ نہال نہال ہوگئیں اور کئی دنوں تک ہر ایک سے کہتی رہیں، ’’جوتشی کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوگی، کیونکہ منگو آج پہلی دفعہ اپنے آپ ہی نالی پر پیشاب کرنے بیٹھی تھی۔’‘
سننے والوں کے گلے میں یہ بات مشکل سے اتر سکتی تھی کیوں کہ جب امرت کاکی یہ بات بتا رہی تھیں، اسی وقت منگو پیشاب کرکے گیلی ناپاک مٹی کو انگلی سے کرید رہی تھی۔ امرت کاکی نے بھی یہ دیکھا تو اسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’بیٹا منگو، چھی۔ یہ بری بات ہے، ہوشیار لڑکیاں ایسا نہیں کرتیں۔’‘
منگو اگر رک جاتی اور وہ ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑی ہوتی تو امرت کاکی کو نیا سہارا مل جاتا، ’’دیکھا، میں نے کہا اور میری منگو فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔’‘
اور یوں امرت کاکی کا امیدوں بھرا اگہن کا مہینہ آگیا۔ منگو کا تو پاگل پن دور نہ ہوا، البتہ شہر کے لڑکیوں کے اسکول میں تعلیم لیتی ہوئی گاؤں کی ایک لڑکی کسم پاگل ہو گئی۔ منگو کی طرح اسے بھی پیشاب پاخانے کا ہوش نہ رہا۔ امرت کاکی کو کسم کے پاگل ہوجانے کا افسوس تو ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس خیال سے ڈھارس بھی بندھی کہ ’ڈھائی ڈومری‘ (عقلمند اور ہوشیار) لڑکی کا دماغ یوں بیٹھے بٹھائے چلا جائے اور اسے گوموت کا ہوش نہ رہے تو پیدائشی منگو ایسا کرتی ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
کسم کو پاگل خانے بھیج دینے کا طے ہوا تو امرت کاکی کو خیال آیا کہ اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو اسے کبھی ’دواخانے‘ نہ بھیجتی۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ماں بغیر سب سونا اور پھر وہ اس خیال سے لرز اٹھیں کہ ادھر ان کی آنکھیں بند ہوئیں نہیں اور ادھر بھائیوں نے منگو کو، دواخانے کے سپرد کیا نہیں۔
پہلے مہینے کے آخر میں خبر آئی کہ کسم کی حالت نسبتاً بہتر ہے۔ اسے زنجیروں میں جکڑ کر رکھنا پڑتا تھا لیکن اب وہ آزاد گھومتی پھرتی ہے۔ پیشاب پاخانہ کہاں کرنا اور کہاں نہیں کرنا، یہ بھی سمجھنے لگی ہے۔ پاگل پن کی اگر کوئی علامت رہ گئی ہے تو یہ صرف یہ کہ سارا سارا دن گیت گایا کرتی ہے لیکن دوسرے مہینے میں یہ پاگل پن بھی جاتا رہےگا۔ ایسا ڈاکٹروں نے یقین سے کہا تھا۔
دوسرے مہینے کسم بھلی چنگی ہو گئی لیکن ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ اسے مزید ایک مہینہ ہسپتال میں رکھا جائے۔ چنانچہ اسے تیسرے مہینے بھی وہیں رہنے دیا گیا۔ چوتھے مہینے وہ پاگل خانے سے گھر آئی تو پورا گاؤں اسے دیکھنے کے لیے امڈ آیا۔ امرت کاکی سب کے آگے تھیں۔
کسم تو ایسی ہوکر آئی تھی کہ اسے دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہی لڑکی چند مہینوں پہلے پاگل ہو گئی ہوگی۔ چنانچہ موقع غنیمت جان کر لوگوں نے امرت کا کی کو مشورہ دیا، ’’کاکی! تم بھی ایک دفعہ منگوکو دواخانے میں رکھ کر تو دیکھو۔ ضرور بھلی چنگی ہو جائےگی۔’‘
اور اس دن امرت کاکی نے زندگی میں پہلی دفعہ دواخانے کی مخالفت نہ کی۔ خاموشی سے لوگوں کے مشورے سنتی رہیں۔ دوسرے دن انھوں نے کسم کو اپنے گھر بلوایا اور اسے اپنے قریب بٹھا کر اس سے دواخانے کے متعلق کرید کرید کر پوچھنے لگیں۔ امرت کاکی جو یہ سمجھتی تھیں، جس طرح جی جان سے ماں تیمار داری کر سکتی ہے، ایسی ڈاکٹر اور نرس کر ہی نہیں سکتے تو کسم کی باتوں نے ان کا یہ خیال غلط ثابت کر دیا اور امرت کاکی کو اس سلسلے میں اپنی رائے تبدیل کرنی پڑی۔ کسم نے جب انہیں بتایا کہ پاگل ڈاکٹروں کو گھونسے اور چانٹے مار دیتے ہیں تب بھی ڈاکٹر نہ تو غصہ کرتے ہیں اور نہ ہی مارتے پیٹتے ہیں تو امرت کاکی کو تعجب بھی ہوا اور دواخانے کا خوف بھی ان کے دل سے دور ہو گیا۔ دل میں امید کی نئی کرن روشن ہوئی کہ کیا پتہ منگو کی شفا دواخانے میں ہی لکھی گئی ہو؟ قسمت کا لکھا یہی ہو۔ اتنے بہت سے علاج کر ڈالے تو ایک اور سہی۔ اگر اس سے بھی ٹھیک نہ ہو تو پھر بھگوان کی جیسی مرضی!
آخرکار منگو کو پاگل خانے میں رکھنے کا فیصلہ امرت کاکی نے کر لیا۔ اسی لیے انھوں نے بڑے بیٹے کو خط لکھوایا کہ فوراً گھر پہنچ جائے۔ تاہم امرت کاکی کی نیند اڑ گئی تھی۔ ضمیر انہیں ملامت کر رہا تھا۔ دل کہہ رہا تھا کہ انھوں نے ہار کر اور عاجز آکر یہ فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے دماغ پر ایک بوجھ سا محسوس کررہی تھیں۔ دواخانے پر انہیں یقین بیٹھ گیا تھا یہ تو حقیقت تھی، لیکن بیٹی کو وہاں رکھنے کا فیصلہ کرنے کی ایک دوسری بھی وجہ تھی۔
منگو جوان ہوتی جارہی تھی اور خود ان کا بڑھاپا بڑھتا جا رہا تھا۔ بہویں خدمت نہ کریں گی، اس کا امرت کاکی کو یقین تھا کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک بہو نے بھی انہیں اپنے گھر مدعو نہ کیا تھا اور نہ ہی ساتھ رہنے کی دعوت دی تھی اور آج کے لڑکے بھی موئے زن مرید بن جاتے ہیں، ا س کی مثالیں تو امرت کاکی گھر گھر دیکھ رہی تھی۔ چنانچہ خود اپنے پیٹ کے بیٹوں سے بھی ان کو کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہ تھیں۔ اس حالت میں اگر بھگوان کرے اور منگو بھلی چنگی ہو جائے اور اگر نہ ہوتب بھی دواخانے میں رہے تو امرت کاکی کو مرتے وقت یہ اطمینان تو ہو کہ ان کی پاگل بیٹی کی خدمت کرنے والا کوئی ہے، چاہے وہ پرائے سہی۔
خیالات کے اس سلسلے کے ساتھ امرت کاکی کی آنکھوں سے اتنے آنسو بہہ جاتے کہ ان کا تکیہ تربتر ہو جاتا اور ان کا دل پکار اٹھتا۔۔۔ بہانے کتنے ہی تلاش کرو لیکن حقیقت صرف یہ ہے کہ تم بیٹی سے تھک گئی ہو۔ امرت کاکی نیند میں چونک کر اٹھ بیٹھتیں اور پکار اٹھتیں، میں تھک گئی ہوں، میں اور دل دگنی شدت سے کہتا۔ ہاں، تم، ایک دفعہ نہیں، ہزار دفعہ۔
امرت کاکی کو احساس ہوا کہ بیٹے کو خط لکھ کر انھوں نے سخت غلطی کی ہے۔ ایسی جلدی بھی کیا تھی کہ ایسی کڑکڑاتی سردی میں منگو کو دواخانے میں دھکیل رہی ہوں۔ رات میں مجھے کتنی ہی دفعہ اٹھ کر اسے اڑھا نا پڑتا ہے، وہاں ایسا کون کرےگا؟ گرمیوں میں اسے دوا خانے بھیجنے کا رکھا ہوتا تو اچھا ہوتا۔
لیکن ہوا یوں کہ خط ملتے ہی بیٹا آ گیا۔ دواخانے میں منگو کو داخل کروانے کا حکم نامہ بھی مجسٹریٹ سے حاصل کر لیا گیا اور ایک ہی ہفتے میں منگو کو دواخانے چھوڑ آنے کا وقت آ گیا۔ امرت کاکی کو یقین ہو گیا کہ منگو کو دواخانے پہنچا کر بیٹا اپنے سر سے ایک بوجھ اتار پھینکنا چاہتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو خط ملتے ہی کیوں آ جاتا؟ سفارشیں لگاکر ڈاکٹروں اور مجسٹریٹ سے اجازت نامہ اور حکم نامہ کیوں حاصل کر لیتا۔ امرت کاکی کا جی چاہتا تھا کہ منگو کو دواخانے میں رکھنے کا فیصلہ فی الحال ملتوی کر دیا جائے۔ گرمیوں میں دیکھا جائےگا لیکن یہ بات بیٹے سے کہنے کی جرأت نہ کر سکیں۔ بچارہ نوکری سے چھٹی لے کر آیا ہے۔ بھاگ دوڑ کر کے ضرور ی کاغذات حاصل کیے ہیں۔ اب اگر میں انکار کر دوں تو یہ دل میں کیا کہےگا۔
جس دن منگو کو دواخانے لے جانا طے ہوا تھا، اس دن کی رات کو امرت کاکی رات بھر جاگتی رہیں۔ صبح ایک خیال یہ بھی آیا کہ خود ساتھ نہ جائیں کیوں کہ دواخانے والے بیٹی کو ان سے الگ کریں گے تو وہ برداشت نہ کر سکیں گی۔ لیکن پھر یہ بھی تھا کہ جب تک وہ دواخانے کے انتظام اور سہولتوں کو خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیتیں، تب تک انہیں اطمینان نہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ وہ منگوکے ساتھ جانے کو تیار تو ہو گئیں لیکن جب منگو کو لے کر گھر سے نکلیں تو ایسا لگا جیسے ساری دنیا کا بوجھ ان پر لاد دیا گیا ہو۔ آنکھیں ساون بھادوں بنی ہوئی تھیں اور منگو پر جمی ہوئی نگاہیں لاکھ کوشش کے باوجود ہٹتی نہ تھیں۔
منگو اپنے پہنے ہوئے نئے کپڑوں کا رنگ غور سے دیکھ رہی تھی اور پھر جیسے وجد میں آکر وہ امرت کاکی طرف دیکھ کر ہنس پڑی اور امرت کاکی کے دل پر آرے چل گئے۔ جانور کو بھی اس کے کھونٹے سے الگ کرکے دوسرے مالک کے گھر لے جاتے ہیں تو وہ احتجاجاً اڑ جاتا ہے اور مشکلوں سے قدم آگے بڑھاتا ہے۔ منگو بچاری کو اتنا بھی ہوش نہ تھا۔ یہ خیال آتے ہی امرت کاکی بےجانی سے دہلیز پر بیٹھ گئیں۔ دل رونے لگا۔۔۔ ہائے، دیوانی بیٹی کا دنیا میں کوئی نہیں، حقیقی ماں بھی اس کی نہ ہو سکی۔
بیٹے کا دل بھی بھر آیا۔ ماں کی طرف نظر کرنے کی ہمت وہ اپنے آپ میں نہ پا رہا تھا۔ جتنی دیر ہو رہی تھی، گاؤں چھوٹ جانے کا وقت اتنا ہی قریب آتا جا رہا تھا۔ گلی کے باہر چھکڑے میں جتے ہوئے بیل قدم بڑھانے کے لیے بےقرار تھے۔ بیٹے نے ماں کی طرف دیکھے بغیر اور اپنی کانپتی ٹانگوں کو قابو میں لانے کی کوشش کرکے لڑکھڑا کر آگے بڑھتے ہوئے کہا، ’’دیر ہو رہی ہے۔ اب چلنا چاہیے’‘ اور گلی سے باہر نکلتے وقت اس نے اپنی دھوتی کے سرے سے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔
پڑوسی عورتوں نے منگو کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر آہستہ آہستہ چلیں۔ دوسری عورتوں نے امرت کاکی کو سہارا دیا۔ ناقابل برداشت تلخ گھونٹ پی کر امرت کاکی اپنے دونوں گھٹنوں پر ہاتھ دے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ دو عورتوں نے ان کی بغل میں ہاتھ دیے، تبھی وہ چھکڑے پر چڑھ سکیں۔
’’منگو پاگل ہے۔’‘یہ معلوم ہوا تو ریل میں سفر کرتے ہوئے مسافروں کو دلچسپی کا سامان مل گیا۔
’’ایسی کھاتی پیتی تندرست لڑکی کو دواخانے میں رکھوگی تو ایک ہی مہینے میں سوکھ کر کانٹا ہو جائےگی۔ وہاں تو ایسا ویسا ہی کھانے کو دیا جاتا ہے اور وہ بھی وقت پر اور ناکافی۔’‘
’’ہمارے گاؤں کی ایک ڈوسی (بڑھیا) کو اس کے بیٹے پانچ سال سے دواخانے میں رکھے ہوئے ہیں لیکن کچھ بھی فرق نہیں پڑا۔ گاؤں کا کوئی ملنے جاتا ہے تو غریب رونے لگتی ہے اس کے سامنے اور پیروں پڑ کر کہتی ہے کہ مجھے یہاں سے لے جاؤ۔ لیکن آج کے بیٹوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ بچاری ڈوسی کو لاتے ہی نہیں۔’‘
’’ایسے بیٹوں سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔’‘
’’نہیں، بیٹے یوں تو اچھے ہیں، لیکن آج کی بہوؤں کو جانتے ہونا۔ اپنے مزے اور ٹھاٹھ کرنے سے فرصت ہی نہیں پاتیں۔ اچھا کھانے اور اچھا پہننے کو چاہیے تو پھر گھر میں ایک زائد انسان کیوں ہو کہ ان کے کھانے پہننے میں کمی آ جائے۔’‘
یہ چرکا امرت کاکی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے، حلق خشک ہو گیا اور شرم سے سر جھک گیا اور ساتھ ہی وہ بے اختیار پکار اٹھیں کہ وہی اس پاگل لڑکی کی ماں ہیں۔
’’باپ رے! تم ماں ہوکر اس بچاری کو ڈھکیل رہی ہو تو پھر دواخانے والوں کا کیا قصور؟ انہیں تو الزام دیا ہی نہیں جا سکتا؟’‘
اگر امرت کاکی اکیلی ہوتیں، یہ خوف نہ ہوتا کہ بیٹا خفا ہو جائےگا تو وہ دوسری ہی گاڑی میں، منگوکو لے کر واپس آ جاتیں لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ وہ بوجھل دل اور اس سے بھی زیادہ بوجھل ٹانگوں سے پاگل خانے میں داخل ہوئیں۔
ملاقات کا وقت تھا، اس لیے بیچ کے بڑے کمرے میں مریض اور ان کے عزیز و اقربا الگ الگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اکثر مریض وہ کھانا کھا رہے تھے جو رشتہ دار ان کے لیے گھر سے پکا کر لائے تھے۔ چند مریض پھل کھا رہے تھے۔ ایک پاگل بیوی اپنے شوہر سے، جو اس سے ملنے آیا تھا، لپٹ گئی تھی اور ایک طرف کھڑی ہوئی وارڈ کی منتظماؤں کی طرف دیکھ دیکھ کر شکایت کر رہی تھی کہ۔۔۔ مجھے پہننے کے لیے اچھے کپڑے نہیں دیتیں یہ بھوتنیاں، اچھا کھانا نہیں دیتیں، سر میں ڈالنے کو تیل بھی نہیں دیتیں۔
اس وقت امرت کا کی منتظماؤں کی طرف ہی دیکھ رہی تھیں۔ اس پگلی کی نرس ہنس کر بولی، ’’اب میں تم کو سب کچھ دوں گی۔ اس وقت تو تمہارے شوہر اچھا اچھا کھانا لے کر آئے ہیں، وہ کھا لو۔’‘
اس پگلی نے نخرے سے کہا، ’’میں نے داتون نہیں کیا، منھ نہیں دھویا۔’‘
امرت کاکی نے دیکھا کہ اس کا منہ دھلا ہوا تھا۔ اس کے باوجود غصے کا ذرا بھی اظہار کیے بغیر نرس لوٹے میں پانی لے آئی اور اس کا منہ دھلایا، تو لیے سے پوچھا اور امرت کاکی کے دل کو اطمینان ہوا کہ یہاں کے لوگ ہیں تو رحم دل۔
ڈاکٹر اور زنانہ وارڈ کی میٹرن آ گئے۔ امرت کاکی کے بیٹے نے مجسٹریٹ کا حکم نامہ دیا۔ ماں کو اطمینان دلانے کی غرض سے منگو کی اچھی دیکھ بھال کرنے کی درخواست کی۔ اس پر میٹرن نے جواب دیا، ’’اس طرف سے تو مطمئن رہو بھائی۔’‘
بیچ میں امرت کاکی بولیں، ’’بون، فکر اس لیے ہے کہ یہ تو نری پاگل ہے۔ کوئی پاس بیٹھ کر کھلائے تبھی کھاتی ہے نہیں تو۔۔۔’‘ اور ان کی آواز گلو گیر ہوگئی۔ وہاں کھڑی ہوئی نرسوں میں سے ایک نے کہا، ’’ماں جی! آپ کسی بات کی فکر نہ کریں۔ ہم اس کے منہ میں نوالے دیں گے۔’‘
بھرائی ہوئی آواز میں امرت کاکی نے کہا، ’’یہی مجھے کہنا تھا بون۔ اسے تو پیشاب پاخانے کا بھی ہوش نہیں۔ اس لیے کپڑے بگاڑے تو ذرا دھیان رکھیو ورنہ اگر گیلے کپڑوں میں اور گیلے بستر میں پڑی رہی تو اسے سردی ہو جائےگی۔’‘
دوسری نرس نے کہا، ’’آپ فکر نہ کریں مائی۔ ہم اس کا خاص خیال رکھیں گے۔ رات میں دو تین دفعہ ہم مریضوں کے پاس جاتے ہیں۔’‘
امرت کاکی، ’’رات کو دیا جل رہا ہو تو اسے نیند نہیں آتی۔’‘
’’اور دوسرے پاگل اسے ماریں پیٹیں نہیں، اس کا خیال رکھیو۔’‘
’’ایسے خطرناک پاگلوں کو الگ رکھا جاتا ہے۔ رات کو سب کو الگ الگ کمروں میں سلایا جاتا ہے۔’‘
ملنے والے رخصت ہوتے تب مریضوں کو اندر لے جانے کے لیے سامنے کا دروازہ تھوڑا کھولا جاتا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر امرت کاکی نے دو تین دفعہ اندر جھانک لیا تھا دو تین عورتیں، جن کے بال اور لباس بےترتیب تھے، اندر ٹہل رہی تھیں۔ ایک نے امرت کاکی کی طرف دیکھ کر اپنا سینہ کوٹ لیا اور ایسی خوفناک نظروں سے دیکھا کہ امرت کاکی لرز گئیں۔ امرت کا کی کو تجسس ہوا کہ اندر رہائش کا کیا انتظام ہے، وہ بھی دیکھ لیں اور اس کی انھوں نے درخواست بھی کی۔
’’منگو کو جس کمرے میں رکھنا چاہتے ہو، وہ ذرا مجھے دکھا دو۔’‘
میٹرن نے جواب دیا، ’’اندر جانے کی اجازت نہیں ہے ماں جی!’‘
چکر مکر کرتی ہوئی آنکھوں سے یہ نئی دنیا دیکھتی ہوئی منگو امرت کا کی کی آغوش میں دبک گئی۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر انھوں نے ہر روز کا پیارا لفظ، بیٹا، کہنا چاہا، مگر اس کے بجائے پھوٹ پڑیں اور یوں ٹوٹ کر روئیں کہ پورا پاگل خانہ لرز گیا۔ بیٹے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایسے منظر دیکھنے کے عادی ڈاکٹروں اور نرسوں کے بھی دل بھر آئے۔ دیواریں تک کانپ گئیں کہ کبھی کسی پاگل کے عزیز کو یوں روتے ہوئے آج تک تو دیکھا نہیں۔ ایک نرس نے اپنا رومال نکال کر منگو کی آنکھوں کے سامنے نچایا اور بولی، ’’پسند ہے؟ چاہیے تمہیں یہ رومال؟’‘
رومال لینے کے لیے منگو ماں کی آغوش سے نکل آئی۔ رومال کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں دے کر نرس نے کہا۔ بہن، تو میرے ساتھ رہے گی نا! اچھا اچھا کھانے کو دوں گی اور عمدہ عمدہ کپرے پہناؤں گی۔ منگو اس کی صورت تک رہی تھی۔ نرس نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ آؤ چلو میرے ساتھ، اس نے کہا اور منگو کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے چلی۔ اسی دروازے نے کھل کر منگو کو نگل لیا۔
’’منگو۔ ہائے میری منگو۔’‘امرت کاکی کے منہ سے فلک شگاف چیخ نکل گئی۔
ڈاکٹر نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’بڑی بی۔۔۔’‘اور پھر قریب کھڑے ہوئے بیٹے کی طرف اشارہ کرکے بولا، ’’اپنے اس بیٹے کی طرح مجھے بھی اپنا بیٹا ہی سمجھیو اور یقین کرو کہ بیٹی کو پاگل خانے میں نہیں بلکہ اپنے بیٹے کے گھر چھوڑ کے جا رہی ہو۔’‘
بچپن میں ہی بیوہ بنی ہوئی ادھیڑ عمر کی میٹرن نے کہا، ’’ماں جی! آج تک آپ اس کی ایک ماں تھیں، آج سے میں اس کی دوسری ماں ہوں۔’‘
امرت کاکی نے ہچکیوں کے درمیان کہا، ’’اسے توبے زبان جانور جتنی بھی عقل نہیں، بے سمجھ ہے بالکل، آج تک میں نے اسے اپنے سے علاحدہ نہیں کیا۔ کسم تمہارے دواخانے سے چنگی ہوکر نکلی۔ اس لیے میں نے چھاتی پر پتھر رکھ لیا۔۔۔’‘
اور پھر رونے لگیں۔
میٹرن، ’’کسم کی طرح یہ بھی چند دنوں میں اچھی ہو جائےگی۔’‘
امرت کاکی کی ہچکیاں تھم گئی تھیں لیکن نظریں اسی دروازے پر ہی جمی ہوئی تھیں جو بند تھا۔ جیسے منگونے ہی انہیں یاد دلایا دیا ہو، یوں دفعتاً چونک کر انھوں نے کہا، ’’وہ اکیلی روٹی نہیں کھاتی۔ شام کو روٹی دودھ میں چور کر دینا اسے۔ دودھ نہ ہوتو دال میں۔’‘امرت کاکی کی غم سے بھری ہوئی آنکھوں کی طرف دیکھنے کی قوت میٹرن میں نہ تھی۔ چنانچہ اس نے جھکی ہوئی نظروں سے جواب دیا، ’’بہت اچھا۔’‘
امرت کاکی، ’’اسے دہی بہت پسند ہے۔ روز تو ممکن نہیں لیکن دوسرے تیسرے دن اسے دہی ضرور دینا۔ اس طرح زیادہ کا جو خرچ ہوگا وہ ہم دے دیں گے۔ جو اس کی خدمت پر مامور ہوگی، اسے بھی خوش کر دیں گے۔’‘
منگو کو پاگل خانے میں چھوڑ کر امرت کاکی اور ان کا بیٹا باہر آئے تو دونوں کے چہروں پر غم کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ باہر کھڑے ہوئے ٹانگے میں دونوں خاموشی سے اور ایک دوسرے سے نظریں ملائے بغیر بیٹھ گئے۔
ریل کے کمپارٹمنٹ میں قدم رکھتے ہی امرت کاکی کو یاد آیا۔ وہاں سونے کے لیے چارپائی دیتے ہوں گے کہ نہیں۔ منگو کبھی فرش پرسوئی نہیں۔ چنانچہ اگر دوا خانے میں اسے سونے کے لیے چار پائی نہ دی گئی تو بڑی مشکل ہو جائےگی۔ سوچا کہ اگر مجھے اندر جانے دیا ہوتا تو یہ گڑبڑ نہ ہوتی۔ کمرے میں چارپائی نہ دیکھ کر فوراً منگو کی عادت یاد آ جاتی اور اس کے متعلق بھی میٹرن کو ہدایت کر دیتی۔
دواخانے میں کام کرنے والے رحم دل اور بھلے ہیں، اس کا تو امرت کا کی کو یقین ہو گیا تھا۔ لیکن چونکہ انہیں اندر نہ جانے دیا گیا تھا اس لیے تجسس باقی رہ گیا تھا کہ ہم کو پسند نہ آئے ایسی ہی کوئی بات ہوگی، جبھی تو اند رنہیں جانے دیتے اور ان کے اس شک کو تقویت پہنچا رہا تھا وہ ادھ کھلا دروازہ، چڑیل کی طرح ٹہلتی ہوئی غلیظ اور مربھکی وہ ڈراؤنی عورتیں۔ اس کے ساتھ ہی امرت کاکی کے کان بجنے لگے اور ایسا لگا جیسے منگو انہیں نہ پاکر رو رہی ہو۔ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ پاس بیٹھی عورتوں نے پوچھ تاچھ شروع کر دی، ’’کیوں ماں رو کیوں رہی ہو۔۔۔ آپ کا کوئی مر گیا ہے؟’‘
رات کے پونے گیارہ بجے گھر پہنچے تو ان کی پڑوسن، جو دور کی رشتہ دار بھی تھی، بیٹھی جاگ رہی تھی۔ ان دونوں کے لیے اس نے کھانا پکا کر تیار رکھا تھا لیکن دونوں نے ہی کھانے سے انکار کر دیا۔ کسی قریبی عزیز کی موت پر اصرار کرنے کے لیے زبان تیار نہ ہو، یوں پڑوسن بھی زیادہ اصرار نہ کر سکی۔
امرت کاکی کے دل میں تو ایک آواز گونج رہی تھی۔ اس وقت منگو کیا کر رہی ہوگی؟ بار بار یہی خیال ان کے دل پر کچوکے لگا رہا تھا۔ کس قدر سردی ہے؟ منگو کو لحاف تو اڑھایا ہوگا کہ نہیں؟ اس نے پیشاب کر دیا ہوگا تو اس کی گھاگھری اور چادر تبدیل کی گئی ہوگی کہ نہیں؟
جیسے منگو ان کی باتیں سن رہی ہو، یوں وہ بڑبڑائیں، بیٹا! پیشاب نہ کرنا اچھا اور یہ جو اڑھایا ہے تجھے اسے اتار کر نہ پھینک دینا۔ سونے سے پہلے وہ رات یہ ہدایتیں منگو کو دیا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود منگو ان پر عمل نہ کرتی تھی۔ نیند میں وہ پیشاب کر دیتی تو امرت کاکی اٹھ کر اس کی گھاگھری اور بستر تبدیل کر دیتیں۔ منگو بڑی ہو گئی تھی۔ تاہم امرت کاکی اسے اپنے ساتھ ہی سلاتی تھیں تاکہ اگر وہ پیشاب کردے تو انہیں فوراً پتہ چل جائے۔ ان کی آنکھ کھل جائے اور منگو کو گیلے کپڑوں اور گیلے بستر پر سونا نہ پڑے۔
منگو کے بغیر امرت کا کی کو بھی بستر سونا لگ رہا تھا۔ دل میں بولیں، میرے ساتھ سونے کی عادت ہے اس، ے چنانچہ پتہ نہیں اسے نیند آئی ہوگی۔۔۔؟ اس خیال کے ساتھ ہی ان کے تصور نے یہ دردناک منظر دکھایا کہ منگو باوری آنکھوں سے انہیں تلاش کر رہی ہے۔ بےقرار ہوکر امرت کاکی نے اپنا سر چارپائی کی پٹی پردے مارا، ہائے ہائے۔ ماں ہوکر میں اسے دواخانے میں چھوڑ آئی۔ امرت کا کی ہچکیاں لینے لگیں۔
باہر کے کمرے میں سوئے ہوئے بیٹے کو بھی نیند نہ آئی تھی۔ ماں کو منگو سے جتنا پیار تھا اتنا پیار اسے منگو سے نہ تھا، سوویں کا حصے کا بھی نہ تھا۔ اس کے باوجود اس کے سینے پر اذیت کا کالا پتھر دھرا ہواتھا۔ ماں کی ہچکیوں کے ساتھ ہی ساتھ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔ اسے اتنا غم ہے تو ماں بچاری کے دل کی کیا حالت ہوگی؟ یہ غم ماں کے دل کو کس بےدردی سے نوچ رہا ہوگا اور اس کے دل نے کہا کہ ماں کا یہ دکھ کسی ترکیب سے دور کرنا چاہیے۔ بیٹا ہوکر میں اتنا بھی نہ کرسکوں تو تھو ہے میری ذات پر اور اس کے دل نے حلف اٹھایا، جب تک میں زندہ ہوں منگو کی پرورش کروں گا۔ اس کا گو موت بیوی دھونے کو تیار نہ ہوگی تو یہ بھی میں کروں گا۔ اس حلف کے بعد فوراً ہی اذیت کا کالا بوجھل پتھر اس کے سینے پر سے کھسک گیا۔
امرت کاکی نے اگر دوسری دفعہ ہچکی لی ہوتی تو بیٹے نے ان کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کر کے ان کا غم غلط کر دیا ہوتا۔ لیکن وہ خاموش تھیں اس لیے یہ سوچ کر کہ صبح ماں سے کہہ دوں گا، بیٹے نے آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ گہری نیند سو رہا تھا۔
علی الصبح جب گایوں اور بیلوں کے گلوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں اور دودھ دوہنے کی دل خوش کن آوازیں گاؤں کی فضا میں گونج رہی تھیں، تب پورے گاؤں کو اتھل پتھل کر دینے والی چیخ امرت کاکی نے بلند کی۔
’’دھار جورے دھاجو۔ او۔ او۔۔۔ ماری منگو نے ماری ناکھی رے (دوڑیو رے دوڑیو۔ میری منگو کو مار ڈالا رے)’‘
بیٹا چارپائی میں اچھل پڑا۔ اڑوسی پڑوسی بدحواس ہوکر دوڑ پڑے۔ گھنٹیوں کی آوازیں دم بخود رہ گئیں، بلوہنے تھم گئے۔ جس نے سنا دوڑا آیا اور جو دوڑا آیا، سناٹے میں آ گیا۔
امرت کاکی منگو کی برادری میں شامل ہو چکی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.