نہر کے بہاؤ کے ساتھ میری لاش تیرتی بہت دور نکل آئی۔ یہ لہریں مجھے بہاتی ہوئی جانے کہاں لے جا رھی ہیں۔ اس دریا کے کنارے خوبصورت، خوشبودار، خوش رنگ پھول اگے ہوئے ہیں۔ یہ پھول سبز گھاس مین چمکدار ستاروں کی مانند دکھائی دیتے ہیں میرا یہ سفرِ آخر ایک نئی زندگی کی شروعات ہے جو اس بھیانک زندگی کو ختم کر کے حاصل ہوئی ہے جسے یاد کر کے بھی میرا مردہ جسم کانپ اٹھتا ہے۔
ہم سب ایک ہی جالی دار وین میں سوار تھے بس یہی میرے بچپن کی سب سے پہلی یاد ہے۔ ہماری وین کے ساتھ ایک ایسی ہی اور وین آ کر رکی۔ میں نے دیکھا کہ اس میں بہت سے مرغ بالکل ہماری ہی طرح ٹھونسے ہوئے تھے۔ سانس لینے کو انہوں نے بھی اپنے منہ جالی سے باہر نکالے ہوئے تھے میں خوش تھا کہ وہ بھی میرے ہی ساتھی ہیں مین نے انہیں آواز دینا چاہا لیکن میرے پاس کوئی الفاظ نہین تھے۔ مجھے سارے راستے ایسے ہی گھاس مین خوشنما پھول نظر آتے رھے تھے اس لئے مین بہت خوش تھا مجھے یہ جاننے کا ہوش نہیں تھا کہ یہ وین مجھے کہاں لئے جا رھی ہے جیسے یہ نہر۔
‘‘مجھے نیند آ رھی ہے‘‘ میں رونے لگا اور بھوک بھی لگی ہےـ
‘‘بس ابھی سب بچوں کو کھانا ملےگا‘‘ وین والے کی آواز آئی۔
ایک بڑے گھر کے سامنے وین رکی، ہم سب کو اندر لے جایا گیا۔ گھاس کے سارے ستارے جگنو بن کر یہاں ہال میں آن بسے تھے۔ کئی بار آنکھیں پٹپٹائیں، پھر بھی لڑکھڑاتے گرتے پڑتے چل رھے تھے۔ کھانا کھلایا گیا، ایسا کھانا تو میں نے کبھی اپنی ماں کے گھر نہیں کھایا تھا پھر بھی مجھے ماں کی یاد ستانے لگی۔
‘‘میں کب اپنی ماں سے ملوں گا‘‘
ڈرائیور جو پاس ہی بیٹھا کھانا کھا رھا تھا، مجھے گھورنے لگا۔ پھر پیار سے پچکارنے لگا۔
‘‘تم سب کو پوری دنیا کی سیر کرواؤں گا، اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا پھر گھر چھوڑ دوں گا۔ یہی تمہارے ماں باپ نے کہا تھا۔ کیا تم سب سیر کروگےــ
سب خوش ہو گئے۔
اب ہم اسی گھر میں رھنے لگے بعد میں معلوم ہوا یہ ایک بہت بڑا ہوٹل تھا۔
وہاں کے بستر بہت نرم تھے جلد ہی نیند آ گئی۔
یہ ہماری آزادی کی آخری رات تھی
اس کے بعد ہمیں کسی نہ کسی انکل کے ساتھ سونا پڑتا تھا شاید بستر کم ہوں گے اس وقت مین یہی سوچتا تھا۔ وہ انکل مجھے بہت پیار کرتے تھے، اپنے ساتھ لگاتے تو کبھی جسم پہ ہاتھ پھیرتے رھتے۔ مجھے نیند آ جاتی۔ کبھی کبھی رات کو آنکھ کھل جاتی تو بھی وہ مجھے پیار ہی کر رھے ہوتے۔ یہ دنیا مجھے بہت اچھی لگنے لگی تھی۔ ماں کے پاس تو زمین پر سونا پڑتا تھا اور وہ تو کاموں مین لگی ہوتی تھی تو کمر تک نہیں سہلاتی تھی۔ یہ انکل تو جسم کا ایک ایک حصہ سہلاتے تھے۔ میں اپنے گھر کبھی واپس نہ جانے کا سوچنے لگا لیکن ماں پھر بھی بہت یاد آتی رھی۔
اب ہم کچھ بڑے ہوتے جا رھے تھے اور ہماری ٹرینگ جاری تھی۔ دن کے اوقات میں ہمیں اٹھنے بیٹھنے کے آداب، کھانا کھانے کے آداب، کپڑے پہنے کا سلیقہ اور بات چیت کرنا سکھائی جاتی۔
ہوٹل میں تمام مہمان انکل ڈائنگ ھال میں کھانا کھانے کے لئے آتے تو ہمیں بھی مدعو کیا جاتا۔ ہم صرف کسی پوچھے گئے سوال کا جواب ہی دیتے کیونکہ ابھی ہماری ٹرینگ جاری تھی اور ہم بہت چھوٹے تھے۔ انکل آپس میں باتیں کرتے رھتے اور ہم خاموشی سے کھانا کھاتے رھتے۔ ایپرن، کانٹا، چھری، ہر چیز کا استعمال ہمیں سکھایا گیا تھا ٹی۔ وی۔ لانچ میں جب کوئی انکل ٹی وی دیکھ رھے ہوتے تو وہاں بھی کچھ لڑکوں کو بٹھایا جاتا۔ انکل کا جب جی چاہتا وہ ان کو گود میں بٹھا لیتے، پیار کرتے اور جہاں جی چاہتا ہاتھ پھیرتے۔
ایک رات ایک انکل جو بہت بوڑھے سے تھے مجھے ان کے ساتھ سلایا گیا۔ وہ میرے جسم پہ دھیمی دھیمی چٹکیاں لینے لگے۔ مجھے تکلیف محسوس ہوئی لیکن میں کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ وہ رات انتہائی کرب ناک تھی وہ انکل قریباً ایک ماہ ہوٹل مین رھے، رفتہ رفتہ مجھے عادت سی ہو گئی۔
ہمارا تعلیمی ادارہ یہی ہوٹل اور مدرس یہاں آنے والے مہمان تھے۔ ان سے ہمیں معلوم ہوا کہ دن مہینے سال کیا ہوتے ہیں۔ وہ آپس میں باتیں کرتے تو ہم باہر کی دنیا کے بارے میں جان پاتے۔ باہر جانے پر پابندی اور ہم پر سخت نگرانی تھی۔
شاید ہمیں ادھر آئے پانچ چھ سال ہو گئے ہوں گے میرے ساتھ آئے تمام بچوں کے منہ اور دیگر جگہوں پر بال آ گئے تھے۔ ہم سب کو صفائی کا خاص خیال رکھنے کی ہدایات و احکامات جاری ہو گئے۔ شیو کا بندوبست کیا گیا اور ہماری خاص خاطر تواضع ہونے لگی۔ ہم خود بھی اس نئی صورتحال سے ایک نئی ترنگ محسوس کر رھے تھے۔ دل چاھتا کہ اب کسی انکل کے ساتھ سونے کے بجائے ہماری اپنی ایک مسہری ہو اور ہم اکیلے ہی سو جائیں لیکن پھر پانچ سالہ رات بھر کی اذیت کی عادت زور پکڑ لیتی۔ کئی بار یہاں سے بھاگنے کا بھی خیال آیا لیکن گارڈز کی یونٹ دیکھ کر خاموشی اختیار کر لی۔
وہی بوڑھے انکل اب مستقل ادھر رھنے کے لئے آ گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنے جسم پر چونٹیاں سی محسوس ہونے لگیں۔ انہوں نے میرا ہی انتخاب کیا تھا۔ اب تو میں نوجوانی میں قدم رکھ رھا تھا۔ شکل و صورت بھی نکھر آئی تھی۔ چلنے پھرنے کا ڈھنگ بھی بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق مردوں کا دل پسند تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رھا۔ کبھی اس کمرے تو کبھی اس کمرے، ہوٹل کے بستر کبھی پورے نہیں ہوئے اور ہم انکل کے قدوں کے برابر آن پہنچے۔
ہوٹل دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔
راتوں کو نیند کھل کھل جاتی تھی، کسی نئے مہمان کی آمد کا انتظار رھتا تھا۔ اگر کچھ وقفہ آ جاتا تو عجیب بےچینی سے جسم میں ہونے لگتی۔ کبھی اٹھ کر ٹہلنے لگتے تو کبھی جی میں آتا کہ کسی انکل کو جگا دیں۔ کچھ تو ایسا ہو کہ یہ جسم کی اینٹھن قدرے کم ہو۔ دماغ میں سوئیاں سی چھبھنے لگتیں۔ بالآخر باری آ جاتی اور اطمینان ہوتا۔ دن کے کھانے کے بعد ہم سب کو پچھلے ھال کمرے میں بھیج دیا جاتا جو اس ہوٹل کا پرانا حصہ تھا۔ ہوٹل کی توسیع سے پہلے یہی ھال اور کمرے استعمال ہوتے تھے۔ کمروں کو ازسرِ نو آراستہ کر کے نئی راھداری بنا کر سامنے نئے تعمیر شدہ حصے سے جوڑ دیا گیا تھا۔ ھال میں لڑکوں کے لئے پورے فرش پر گدے ڈال دیئے گئے تھے۔ کھانے کے بعد دو سے پانچ تک یہ آرام کرتے، رات کی نیند پوری کرتے۔ یہ ان سب کا بہترین وقت ہوا کرتا تھا۔ آپس میں چہ میگوئیاں، نئی باتوں کا تبادلہ اور ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ بھی اسی وقفہ میں رھتی تھیں۔ میرے بھی کئی قریبی دوست یہاں ہی بنے تھے۔ ہمیں اپنے بچپن کی کوئی کوئی جھلک ہی یاد تھی۔ پھر بھی ماں شدت سے یاد آتی رہتی۔
سورج ڈھلتا تو ہوٹل میں صبح جاگ جاتی۔ ہم بھی ہر صبح جوان ہوتے اور دھیرے دھیرے مہمانوں سے زیادہ ہمیں اس صبح کا انتظار رھنے لگا۔ ہوٹل کا مالک اس بزنس میں طاق ہی نہ تھا بلکہ تجربہ کار بھی۔ ہماری وہ عمر آن پہنچی تھی کہ ہماری نئی قسم کی ٹرینگ کلاسس شروع کی گئیں۔ علی الصبح ایک دن ہمیں ہوٹل کے ایسے حصے میں لے جایا گیا جو آج تک ہم سے پوشیدہ تھا۔ یہ لڑکوں کے ھال سے بائیں جانب تھا۔ اس کا راستہ دو تین راھداریاں گھوم کر ایک کمرے سے ہوتا ہوا جاتا تھا۔ کمرہ اتنا کشادہ تھا کہ ہوٹل کے عام کمروں سے چھوٹا لیکن مناسب کہ بیس لڑکے وہاں بیٹھ سکیں۔ چار جانب چمڑے کے صوفے رکھے گئے تھے۔ اس انتظار گاہ کا ایک دروازہ ایک لمبے سے برآمدہ نما میں کھلتا تھا۔ جس میں کوئی کھڑکی یا جھروکہ نہیں تھا۔ ہم نے خیال کیا کہ یہ ہوٹل کے پرانے حصے کا پچھلا برآمدہ ہے۔ اور یقیناً اس کے پیچھے کھلا صحن ہوگا۔
اس ھال کمرے میں بہت سے آھنی کڑے لٹکے ہوئے تھے ہر آہنی کڑے کے درمیان ایک ایک کھونٹی تھی جس پر ہنٹر یا چمڑے کی بیلٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا، ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ اس سے پہلے کہ کچھ کہہ پاتے چند کڑیل جوان آگے بڑھے اور ہم میں سے چھ لڑکوں کو لے کر آہنی زنجیر سے باندھ دیا۔ ہماری پشت پر کوڑے برسائے گئے لیکن اتنی آہستہ کہ ہم سہہ سکیں ہمیں تکلیف کم اور راحت زیادہ ہو۔ کولہوں پر ہنٹر کی دھیمی دھیمی ضرب لگائی گئیں۔ وہ تندرست جوان ہمارے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ پریکٹس اتنی کروائی گئی کہ ہم اس اذیت کے عادی بننے لگے۔ ہم اٹھارہ بیس سال کے تن ومند جوان بن چکے تھے۔
ہمیں ہوٹل کے دوسرے حصے میں بھیج دیا گیا۔ وہاں ہمارا کام ایسے ہی مہمانوں کی خاطر کرنا تھا جو ہماری عادت کو ختم نہ ہونے دیتے تھے۔ ہم جسمانی مریض بن چکے تھے جس کا ہمیں بالکل احساس نہیں تھا اور اسے ہی ہم زندگی سمجھتے تھے۔ ہم نے کبھی باہر کی دنیا نہ دیکھی تھی۔ اب چونکہ ہوٹل میں گھومنے کی تھوڑی آزادی ہو گئی تھی۔ فارغ وقت میں ہم ہوٹل کے نئے حصے کو اچھی طرح گھوم گھوم کر دیکھتے۔ جس ھال میں ہمیں پہلے دن لایا گیا تھا اور اس وقت ہم اسے بہت بڑا سمجھتے تھے، دوبارہ دیکھنے پر وہ چھوٹا ہو گیا یا ہم بڑے ہو گئے تھے۔ وہ صرف استقبالیہ تھا، اس سے متصل تین ھال تھے جن کے تینوں سمت دروازے کھلتے تھے۔ ہر ھال سے بے شمار کمرے منسلک تھے جن میں مہمان ٹہرا کرتے تھے۔ ان کے پیچھے ڈائنگ ھال تھا جس کے دائیں دروازے سے باورچی کھانا لاتے تھے۔ اس کے پیچھے ہوٹل کا پرانا حصہ تھا۔ سب ہوٹل ایسے ہی ہوتے ہوں گے یہ ہماری سوچ تھی۔
اپنی سوچ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو ہوٹل کی دیواریں میرے عزم تلے دب گئیں۔ دوڑتے دوڑتے گاؤں سے بھی آگے ایک غار نما میں پناہ لی۔
بہت تھکا دینے والے سفر نے جلد ہی نیند کی چادر اوڑھ لی۔ سپنے میں وہی پرانے منظر اور زندگی کا پہیہہ چل پڑا۔وہی ہلکی ہلکی ٹھیس ،وہی میٹھا میٹھا درد، وہی چبھن اور وہی چٹکیاں۔ سورج کی چھبتی کرنیں نا صرف آنکھوں میں گھسی آتی تھیں بلکہ پورے بدن میں ان کی چھبن محسوس ہونے لگی تھی۔ جونہی آنکھ کھولنے کی کوشش کی، ایک انگڑائی آئی اور سرسراتا ہوا ایک ناگ جھٹ سے ایک سوراخ میں جا چھپا۔
اوہ یہ تو ناگ کے کاٹنے کی چھبن تھی اور میٹھا میٹھا درد۔ ٹانگ پر نیل کا نشان اور خون کا دھبہ اس حقیقت کو ٹال نہ سکا۔ اپنی ہی قمیض کا دامن پھاڑا اور کاٹے کی جگہ کے دونوں اطراف باندھ دیا۔ باہر نکلا تو سوائے بیر بوٹی کے دور دور تک کسی زندگی کے آثار نہیں تھے۔ نہ تو کسی پودے کا علم تھا نہ دوائی کا، عالم بےچینی میں کبھی ایک پودے کے پتے سونگھتا تو کبھی دورسرے کے۔ جس کو سونگھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ خوشگوار مہک ہے، دل چاہتا کہ کھا لوں تو خوب سے پتے توڑ کر کھا لیتا۔ غرض جان بچانے کی کوشش کرتے کرتے نیند حاوی آ گئی۔
آج مجھے اس غار میں آئے ہوئے نامعلوم کتنے سورج نکلے اور کتنے ڈوب چکے تھے۔ اب میں اس ناگ کا عادی تھا ،چھوٹے نشے سے بڑا نشہ۔ اس کے آنے میں دیر ہو جاتی تو میں گاؤں سے لایا ہوا دودھ اس کے لئے رکھتا۔ وہ بھی میرا دوست بن چکا تھا بالکل ہوٹل والے انکل کی طرح۔ میرا جسم، ایک بار پھر نیل و نیل تھا پر مجھے عزیز تھا۔
جب میں یہاں آیا تھا تو چند درخت جو اس وقت بہت چھوٹے چھوٹے تھے، اب میں ان کی گھنی چھاؤں میں اکثر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ بے شمار خود رو درخت مزید اگ آئے تھے لیکن میری جان کا کوئی نیا درخت سانس نہ لے سکتا تھا۔ می اس شجر کی مانند تھا جس کے بچے کچھے پتے بھی چڑیاں کھا رھی تھیں اور پھر وہ دن آیا۔
اس دن وہ ناگ دودھ پینے آیا نہ ہی میرا خون۔ چار دن سے مجھے کوئی سپنا بھی نہ آیا۔ میرا نشہ ٹوٹ رھا تھا۔ اس کے سوراخ میں جھانک کر دیکھنے پر سوائے گھپ اندھیرے کے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ وہ یقیناً وقت کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔ میں دیوانوں کی طرح اپنی موت کا انتظار کرتا رھا۔ گاؤں سے آتے وقت ایک نہر کے پُل نے مجھے پکارا اور میں وہاں سے اپنی نئی زندگی یعنی موت کا ساتھی بن گیا۔ تین سال کی عمر میں مرغیوں کے ڈربے میں بند ہونے والا کب زندگی میں تیر سکتا تھا۔ بچپن کے راستوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اب یہ پانی بھی میرے مردہ جسم کو دھکیلتا اسی کوکھ کی جانب رواں ہے جہاں سے میرا اخراج ہوا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.