خدا کا بت
اور جب آگ کے شعلے ہوا میں اٹھنے لگے اور سیاہ دھوئیں کے مرغولے آزر کے جلتے ہوئے بدن کے گرد ناچنے لگے تو نہ جانے کیوں آسمان بلک بلک کر رونے لگا اورپھر وہ منہہ برسا کہ جلتے ہوئے آزر کی لاش پانی سے بھیگ گئی۔ آگ تو بجھ گئی مگرپھر دھواں ا ٹھنے لگا۔۔۔ دھواں تو اٹھنا ہی تھا۔۔۔ دھواں۔۔۔ جو جلے ہوئے دل کی راکھ سے ا ٹھے تو پھر مٹی کی جگہ راکھ ہی سے بت بنتے ہیں اور پھر۔۔۔ آزر جیسے بت تراش زندہ جلا کرتے ہیں۔
ہاں۔۔۔ آزر بت تراش تھا۔ ایک ایسا بت تراش جو زندگی کے بت بناتا تھا۔ اس کے خیالات کی گیلی مٹی جب بت کا روپ ڈھالتی تو زندگی اپنی بدنما شکل دیکھ کر رونے لگتی۔ آزر کی گوندھی ہوئی مٹی جب خشک ہوتی تو اس کے بنائے ہوئے ’ماں‘ کے بت کی جگہ اس کوکھ کا بت بنتا جس میں ایک بلبلاتا بچہ دنیا کے جہنم میں آنے سے پہلے خوفزدہ ہوتا۔۔۔ اور جب آزر ’باپ‘ کا بُت بناتا تو ایسے ہاتھ بن جاتے جو خود سہارا بننے کے بجائے محض کشکول ہاتھ میں تھامے ہوئے ہوتے اور یونہی ہوتا رہتا اور اس کے بنائے ہوئے بتوں کی شکلیں زندگی کی کرب ناک علامتوں میں ڈھلتی رہتیں۔ پھر ا س نے ’انسان‘ کا بت بنانے کے لیے مٹی گوندھی۔۔۔ مگر یہ ہوا کہ جب مٹی خشک ہوئی تو جنگلی بھیڑیے کا بت بن گیا اور پھر۔۔۔ اچانک ایک دن اسے یہ عجیب خیال آیا کہ کیوں نہ خدا کا بت بنایا جائے۔
اور پھر کتنے مہینے، کتنے سال گزر گئے اور آزر مٹی گوندھتا رہا۔ ایک عالم وجدان تھا جو اس پہ طاری تھا۔ وہ اپنے تحت ا لشعور کی ساری ہی منزلوں کو جانچنے نکلا تھا، وہ خلیوں میں چھپی توانائیوں کو ناپنے نکلا تھا۔ وہ کائنات کے زرے زرے کو حیرانگی سے سوچتا تھا۔ کبھی تو افق کے پار طلوع آفتاب کے منظر کو دیکھتا، تو کبھی سمندروں میں چھپے موتیوں کی سچائی کو سوچتا۔ کبھی رنگوں کی کہکشاؤں میں الجھتا تو کبھی تاریکیوں میں روشنیوں کے خواب دیکھتا۔ مگر تحت الشعور کے تما م تر دروازے وا ہوکر بھی اسے لاعلمی کے گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ دے سکے۔۔۔ تو وہ تھک ہار کر پھر سے زندگی کے سائے ہی میں سمٹ گیا۔ کچھ دیر کے لیے تو اسے لگا کہ خدا کہیں نہیں بس یہ زندگی ہی سب کچھ ہے اور پھر ایک دن اس نے زندگی کے ارتقاء کو خدا کے تصور سے جوڑ دیا۔۔۔ تو اسے یہ انہوں نے مگر تلخ خیال آیا اور پھر اس خیال کے آتے ہی وہ بلک بلک کر رونے لگا اور اس نے اپنے آنسووں سے اپنے دل کی مٹی گوندھی اور خدا کا بت تراش دیا۔
اور پھر جب سب لوگوں کو پتہ چلا کہ اس بار آزر نے خدا کا بت تراشا ہے تو وہ بہت چیخے چلائے، بہت غصہ ہوئے۔
ان میں سے کچھ عبادت گاہوں میں جا کر گھنٹیاں بجانے لگے۔۔۔ مارو، مارو۔۔۔ اس بت تراش کو مارو۔۔۔ کہ ا س نے ہمارے خدا کی بےادبی کی ہے۔۔۔ اسے زندہ جلادو کہ اس نے آج ہمارے خدا کا بت بنایا ہے۔ تو پھر یہ ہوا کہ آزر کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور پھر اسے بھی زندہ جلا دیا گیا۔ وہ جلتا رہا اور لوگ تماشا دیکھتے رہے۔ مگر کسی نے نہ دیکھا کہ اس کے راکھ ہوئے گھر میں ایک کچی مٹی کا بت بھی پک کر کندن ہو چکا تھا۔۔۔ آزر کا بنایا ہو ا خد ا کا بت۔۔۔ ایک چھوٹے سے معصوم بچے کا بت۔۔۔ جو لاغر، کمزور اور ننگا تھا، جس کے ہاتھوں، پیروں کی ہڈیاں اور سینے کی پسلیاں سوکھی ہوئی تھیں، جس کی بھوکی آنکھوں میں آنسو تھے اور جس کے ہاتھ میں خالی پیالا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.