31 اگست، آج خدا کی برسی ہے۔ آج سے ٹھیک پچیس سال پہلے میں نے خدا کو مار دیا تھا اور ہر سال خدا کی برسی بڑی دھوم دھام سے مناتا ہوں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ برسی کس کی ہے؟ کوئی نہیں جاتنا، معلوم صرف مجھے ہے کہ خدا کو میں نے مارا تھا۔
چھ سال کی عمر میں ایک دفعہ مجھے گلی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانا تھا، رات کا پہر اور میں اکیلا۔ مجھے اندھیرے میں خوف محسوس ہو ریا تھا، جنوں اور بھوتوں کی ساری کہانیاں مجھ پر یلغار کر رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اسی اندھیرے میں مجھے کھا جائیں گے اور میں گھر کبھی نہیں پہنچ سکوں گا۔ میں نے خدا کو پکارا کہ میرے ساتھ آ جاؤ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میں ڈرتا، کانپتا اپنے گھر پہنچا، مڑ مڑ کر دیکھتا رہا لیکن خدا میرے ساتھ نہیں تھا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر میں چیخ چیخ کر رونے لگا، میری ماں دوڑتی آئی اور مجھے گلے سے لگا لیا۔ خدا نہیں آیا، مجھے لگا کہ وہ نہیں ہے۔ جب ماں کو بتایا تو اس نے میری سرزنش کی کہ خدا کو برا لگے گا، وہ جہنم میں ڈال دےگا۔ میں سہم گیا لیکن خدا کے بارے میں تشکیک کا شکار ضرور ہو گیا کچھ ایسا ضرور ہوا کہ میرا اعتقاد ڈگمگا گیا۔
عمر گزرتی گئی اور میں شعور کی منزلیں طے کرتا میٹرک میں آ گیا، اس دوران مجھے خدا کی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی جیسی چھ سال کی عمر میں آئی تھی۔ بورڈ کے امتحانوں میں میرا ایک پرچہ بہت خراب ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے سوال نہیں آتے تھے یا تیاری نہیں تھی۔ بس ایک رات پہلے بخار چڑھ گیا جس کی وجہ سے پیپر اچھا نہیں ہوا۔ میں نے رزلٹ سے پہلے خدا سے رو، رو کر دعا کی کہ مجھے اچھے نمبروں سے پاس کردے۔ تو نے صرف کن کہنا ہے اور ہو جانا ہے۔ تیرے کن کہنے سے تو کائنات ہو جاتی ہے لیکن۔۔۔ میں اس کن کے انتظار میں ہی رہا اور فیل ہو گیا۔ اس روز میرے اعتقاد کے بت پر بداعتمادی کا ایک اور تیشہ پڑا۔
وقت کبھی تھمتا نہیں۔ اس کی لہریں سب کو بہائے چلی جاتی ہیں اور اسی بہاؤ میں کچھ چیزیں دھندلا جاتی ہیں اور کچھ بالکل فراموش ہو جاتی ہیں۔ میں اپنے ساتھ ہوئی خدائی بھول کر مگن تھا۔ تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور مختلف جگہوں پر نوکری کے لیے درخواستیں دینا جاری تھا کہ ایک جگہ سے ٹسٹ اور انٹرویو کی کال آئی۔
انٹرویو بہت اچھا ہوا۔ اختتام پر افسر نے پوچھا کہ کوئی سفارش وغیرہ ہے۔ میں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا، یس سر، خدا کی سفارش ہے۔
افسر نے ترحم آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے میری فائل واپس کی اور میں باہر آ گیا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ میرا تقرر بس آج کل کی بات ہے کیونکہ میں نے تحریری امتحان میں ٹاپ کیا تھا اور انٹرویو بھی میری توقعات سے زیادہ اچھا ہوا تھا۔ تین مہنیے انتظار کے باوجود کوئی لیٹر نہیں آیا۔ ایک دن خود ہی اس آفس جا پہنچا کہ نوکری کا پتہ کروں، معلوم ہوا کہ کسی منسٹر کے رشتے دار کو سفارش پر رکھ لیا گیا ہے۔ میں سوچتا رہ گیا کہ خدا نے سفارش نہیں کی یا منسٹر کی سفارش زیادہ تگڑی تھی؟
یہ ضرب زیادہ زور سے لگی کہ اعتقاد کا بت ہل گیا۔
وقت یکساں رفتار سے گزر رہا تھا صرف اس فرق کے ساتھ کہ خدا سے اب اعتبار و اعتماد نہیں بلکہ امید و بیم کا رشتہ استوار ہو چکا تھا۔ انہی دنوں محلے کی ایک لڑکی پر دل آ گیا۔ میں نے آج تک کسی لڑکی کو پسند نہیں کیا تھا لیکن وہ۔۔۔۔ وہ کچھ الگ تھی معصومیت، خوبصورتی اور چنچل پن کا ایک حسین امتزاج۔ میرے چہرے پر اسے دیکھ کر سرخی دوڑ جاتی اور دل کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہو جاتیں۔ جب بھی اسے دیکھتا تو اسے بھی اپنی طرف متوجہ پاتا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے۔ ایک دن میں نے اس سے اظہار محبت کا سوچا لیکن اسی شام مسجد میں مولوی صاحب نے بتایا کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ میں پھر فریب میں آ گیا اور خدا سے اس سے ملن کی دعا مانگی۔ دو ہفتوں کے بعد اس کی شادی کا کارڈ ہمارے گھر آیا اور میرے سر پر جیسے کوئی آسمان ٹوٹ پڑا۔ میں رات کو سجدے میں گر کر بہت رویا، بہت گڑگڑایا۔ جانے کیوں اس دفعہ مجھے یقین تھا کہ خدا میری بات رد نہیں کرےگا لیکن ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی اس نے وہی کیا جو ہمیشہ سے کرتا آیا تھا، وہ کسی کی دلہن بن کر چلی گئی۔
جس شام اس کی رخصتی ہوئی، اسی شام لڑکی کی سہیلی نے اس کا خط دیا۔ خط کیا تھا مجبوریوں کی ایک داستان تھی اس اقرار کے ساتھ کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے اور میرے اقرار کا انتظار کرتی رہی۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس خط کا جواب لکھا، اپنا پہلا محبت نامہ۔ ہمارے نامہ و پیام شروع ہو گئے۔ اس دفعہ میں نے خدا سے کچھ نہیں مانگا۔ لڑکی میرے اقرار، دعووں اور وعدوں کے بعد طلاق کا داغ ماتھے پر سجا کر واپس اپنے گھر آ گئی۔ یہ میری زندگی کی پہلی فتح تھی جو بغیر کسی آسمانی سہارے کے مجھے ملی۔
کاتب تقدیر کو لیکن میری یہ فتح ایک آنکھ نہ بھائی۔ ابھی عدت چل رہی تھی کہ لڑکی بیمار پڑ گئی۔ ٹسٹ سے پتہ چلا کہ کینسر ہے، آخری اسٹیج پر۔ میں تڑپ کر رہ گیا۔ پوری، پوری رات سجدوں میں اس کی زندگی مانگتا اور دن کو درگاہوں میں جا کر۔ سب بےسود رہا، پہلی ہی کیمو میں اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ چلی گئی۔ میری زندگی کی واحد محبت مر گئی اور اس کے ساتھ میرا خدا بھی۔ لیکن نہیں۔۔۔ محبت کہاں مری؟ اگر محبت مرتی تو میں محبت کی برسی مناتا، مرا تو صرف خدا تھا، محبت تو میرے دل میں زندہ تھی۔
میں نے تمام مذہبی کتابیں، مذہبی علامتیں کباڑیے کو دان کر دیں۔ اب میرا کوئی خدا نہیں رہا، مجھے جو کچھ بھی حاصل کرنا ہوتا زمانے کے مروجہ اصولوں کو اپناتے ہوئے حاصل کر لیتا۔ گناہ و ثواب کے جھنجھٹ سے نکل آیا اور کامیابیاں۔۔۔ کامیابیاں گویا میری منتظر تھیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک کامیابی نے میرے قدم چومے۔ میں امیر اور مشہور ہوتا گیا۔ محفلوں میں خدا کا مذاق اڑانا میرا معمول بن گیا۔ مولویں کی روایتوں کو دلائل و منطق سے جھوٹا ثابت کرنا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
زندگی اسی بھاگ دوڑ میں گزر رہی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ کڑوڑوں کی جائیداد اور ہم دو بہن، بھائی۔
31 اگست، آج کورٹ میں جائیداد کا فیصلہ ہونا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد میری بہن نے کورٹ میں پوری جائیداد اپنے نام کروانے کے لیے درخواست دی تھی۔ وجہ میرا دھریہ پن تھا۔ بہن کا کہنا تھا کہ میں خدا کو نہیں مانتا اس لیے پابند شرع باپ کی پوری جائیداد اسی کے نام کی جائے کہ اسلام میں منکر کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ کورٹ نے مجھے کٹہرے میں بلواکر استفسار کیا تو چاہتے ہوئے بھی یہ نہ کہہ سکا کہ میں خدا کو نہیں مانتا۔ جج نے کلمہ سنا، ایک دو بنیادی سوال کیے اور میری مسلمانیت کو سرٹیفیکیٹ دے دیا۔
جائیداد کے کاغذات وصول کرتے وقت میں سوچ رہا تھا کہ خدا اتنا بھی غیر سودمند نہیں، کڑوڑوں کی جائیداد ایک اس کو ماننے کا اقرار کرنے پر ملی ہے۔ آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے سال خدا کی برسی نہیں اس کا جنم دن مناؤں گا۔
خدا کا جنم دن!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.