خوش قسمت لڑکا
کہانی کی کہانی
غربت انسان کو کس قدر مجبور و بے بس کر دیتی ہے اور زندگی کا نقطہ نظر کس درجہ محدود ہو جاتا ہے، یہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ رحیمن ایک ضعیفہ ہے جس کا نو سال کا پوتا حمید ہے جو یتیم ہے۔رحیمن حمید کو لے کر گاؤں سے شہر کی طرف چلتی ہے اور راستہ میں ملنے والے ہر شخص سے بتاتی ہے کہ اس کو نوکری مل گئی ہے۔ رحیمن راستے بھر حمید کو آقا و ملازم کے حقوق بتانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ تو بڑا خوش قسمت ہے کہ نو سال کی عمر میں تجھے نوکری مل رہی ہے۔ شہر پہنچ کر وہ حمید کو ایک اندھے فقیر کے حوالے کر دیتی ہے جسے بھیک مانگنے کے لئے ایک بچے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہتی ہے: تیرا شکر ہے مرے مالک! تو نے مرے بچے کو اتنا خوش قسمت بنایا کہ وہ نویں ہی برس کام پر لگ گیا۔
بوڑھی رحیمن ننھے حمید کا ہاتھ پکڑے گھر سے نکلی، دادی کے سوکھے ہاتھوں میں پوتے کی نرم نرم انگلیاں اس طرح تھیں جیسے خزاں دیدہ پتوں میں نودمیدہ کونپل! رحیمن کی کمر جھکی ہوئی تھی، چہرے پر جھریاں پڑی تھیں، آنکھوں کے گرد باریک باریک نشانات تھے، گال دانتوں کے نہ ہونے سے پچکے ہوئے تھے، ٹھوڑی قریب قریب ندارد تھی، پاؤں کانپتے ہوئے پڑتے تھے، عصا کا سہارا لینا ضروری محسوس ہوتا تھا، پھٹا سا برقعہ جسم پر تھا، اس کا نچلا حصہ کیچڑ میں اٹا ہوا تھا، پاؤں میں پرانی وضع کی پیونددار جوتی تھی۔
ننھا حمید سر جھکائے ساتھ تھا، آواز بھرائی ہوئی، آنکھیں ڈبڈبائی اور چہرے اور پھٹے کپڑوں سے بلاکی حسرت برستی ہوئی! ضعیفہ نے کہا، ’’بیٹے آٹھ نو برس کے سن میں نوکری بڑی قسمتوں سے ملتی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھ بڑھیا کی فریاد سن لی، دیکھو خدا کا شکر ضرور ادا کرنا۔‘‘ حمید نے گردن جھکائے ہوئے کہا، ’’جی ہاں دادی اماں!‘‘ ضعیفہ بولی، ’’اور بیٹا اب کے میلے میں تم اپنے لئے چار پیسے والی ٹوپی خرید لینا۔ تم ماشاء اللہ اب نوکر ہو گئے!‘‘ حمید نے پچھلے ہی انداز سے کہا، ’’بہت اچھا دادی اماں!‘‘
بڑھیا بولی، ’’اور دیکھو بیٹے! یہ جوتم کھٹ پٹی اس وقت پہنے ہو، اسے اتار کے رکھ لینا۔ اسے عید بقرعید میں پہننا، اب تم سمجھدار ہو، ’’آگم‘‘ کا خیال رکھنا چاہئے۔ ایسے ویسے دنوں میں ننگے پاؤں چلنے میں کوئی ہرج نہیں، کھٹ پٹی رہے گی تو تیج تہوار کے دنوں سب کے ساتھ تم بھی کھٹ پٹ کھٹ پٹ کرتے چلوگے۔‘‘ حمید کی جھکی گردن اور جھک گئی۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا، ’’بہت خوب دادی اماں۔‘‘
صبح کا وقت تھا، پو پھٹ چکی تھی، مرغ بانگ دینا بند کر چکے تھے۔ مسجدوں سے تہلیل و تسبیح اور مندروں سے ناقوس کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دیہاتی عورتیں، دو دو چار چار کی ٹولیوں میں ہاتھوں میں لوٹا لئے، گھونگھٹ نکالے گھروں کی طرف پلٹتی، راہ میں ملتی جاتی تھیں۔ ہر ایک رحیمن اور اس کے پوتے کو جاتا دیکھتی، مگر راستہ کھوٹا ہونے کے وہم سے منہ سے کچھ نہ بولتی۔ ہاں ان دونوں پر بار بار پلٹ کے حسرت کی نظر ضرور ڈالتی تھی۔
یہ دونوں کھیتوں کے کنارے آہستہ آہستہ چلے جا رہے تھے۔ بوڑھی رحیمن چھوٹے حمید کو ملازمت کے فرائض، آقا و ملازم کے تعلقات، خدا کے اپنے بندوں پر احسانات، چھوٹے چھوٹے جملوں میں سمجھا کے خاموش ہو چکی تھی، حمید نے سب کچھ سن لیا تھا اور دادی کے ہر سوال پر یہی جواب دیا تھا، ’’جی ہاں دادی اماں، بہت خوب دادی‘‘ لیکن جب وہ ساری باتوں کو سننے کے بعد گردن اٹھا کر دیکھتا تو راستہ سامنے ویسا ہی چمکتا ہوا دکھائی دیتا اور منزل کا کوسوں پتہ نشان نہ ملتا!
آفتاب نے اپنے سنہری سہرے کے اندر سے جھانکنا شروع کیا۔ دیہاتی، بیلوں کو ہنکاتے، ہل کندھوں پر رکھے کھیتوں میں دکھائی دینے لگے۔ کوئی گاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ کوئی بیلوں کو ہنکاتا ہوا اور کوئی جنگل سے پلٹتی ہوئی دیویوں سے ہنسی ٹھٹھول کرتا ہوا۔ اہیر کے لڑکے گاؤں بھر کے مویشی میدانوں میں چرائی کے لئے اکٹھا کر رہے تھے‘‘ گڈریے بھیڑوں کا گلا ہنکاتے ’’ہرے! ہرے! اُر! اُر!‘‘ کرتے چلے جا رہے تھے۔ ضعیفہ اور حمید بھی چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے سامنے راستہ دور تک زرد زرد چمک رہا تھا۔ لیکن منزل کا دھندلا خاکہ بھی نہ دکھائی دیتا!
سامنے سے منگلو چمار آتا ہوا دکھائی دیا۔ کاندھے پر لاٹھی تھی۔ اس میں نیا جوتا لٹکا ہوا تھا، سر پر چھوٹی سی پگڑی تھی۔ جسم میں ایک مارکین کا کرتا اور ٹانگوں میں زرد رنگی ہوئی دھوتی پہنے تھا۔ وہ گنگناتا، مسکراتا چلا آ رہا تھا۔ بڑی بی کو دیکھ کر ٹھٹکا۔ بولا، ’’کہاں جات ہو کھالا؟‘‘ (کہاں جاتی ہو خالہ؟) ضعیفہ بولی، ’’گشائیں پوربھیا۔ وہاں حمید کا کام لگ گیا ہے۔‘‘ وہ سادگی سے بولا، ’’ارے کھالا اِہ سن ماں اور کام! ای کھیلنے کا سن دِن ہے ناکہ کام کا!‘‘ (ارے خالہ اس سن میں اور کام۔ یہ کھیلنے کا سن دن ہے نہ کہ کام کا) ضعیفہ نے اس کے سوال کے جواب میں صرف اتنا کہا، ’’ہاں بھیا، پر میرے گھر سوائے اس کے اور کوئی مرد نہیں۔‘‘ پھر پوچھا، ’’تم کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘ وہ کچھ شرماتا ہوا مسکرایا، ’’سسرال سے!‘‘
حمید نے دادی کی انگلیاں کھینچیں، اس نے سر اٹھاکر دیکھا، راستہ سامنے تھا۔ گشائیں پور کوسوں دور۔ بس چلنے لگے۔۔۔۔ چلے جا رہے تھے اور منزل کا پتہ نہیں۔ آگے بڑھ کے مولوی صاحب ملے۔ فینس نیم کے درخت کے نیچے رکھی تھی، آٹھ کہار قریب ہی ذرا سستا رہے تھے۔ خاں صاحب کے بیٹے کا مکتب تھا، مولوی صاحب بسم اللہ کرانے جا رہے تھے۔ بڑی بی کو دیکھ کے بولے، ’’ایں رحیمن، یہ تم کہاں اتنے سویرے جا رہی ہو؟‘‘ ضعیفہ نے سلام کر کے کہا، ’’جی اس بچے کو کام پر لگانے جا رہی ہوں!‘‘ مولوی صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’ہوں! ماشا ءاللہ! اتنے سے سن میں کمانے جا رہا ہے۔ خوب! بہت خوب! مگر تم نے اسے نماز سکھا دی ہے؟‘‘
ضعیفہ کے زرد چہرے پر سرخی آگئی، بولی، ’’جی ہاں! مولوی صاحب میں نے اسے نماز خود سکھائی ہے۔ ہم غریب بھی خدا کا نام لینا جانتے ہیں۔‘‘ مولوی صاحب نے سٹ پٹا کے ’’نہیں! نہیں! ہاں! ہاں! ماشاء اللہ‘‘ کہا اور دونوں مسافر آگے بڑھ گئے۔ ایک بوڑھا ایک بالا۔ ایک عمر کی حدیں ختم کئے ہوئے دوسرا زندگی میں قدم رکھتا ہوا۔ دونوں کے پاؤں میں رعشہ، دونوں کے گھٹنے کمزور، ایک کا کثرت کار سے، دوسرے کا ناکردہ کاری سے لیکن معذور و مجبور چلے جا رہے تھے، آفتاب کی حدت بڑھتی جاتی تھی، منزل کوسوں دور تھی، لاپتہ تھی، مگر قدم نہ رکتے تھے!
گوشائیں پور کی مفصلات شروع ہوئیں۔ پختہ مکانات، سر بفلک عمارتیں دکھائی دینے لگیں۔ شہر کے پھاٹک سے ملا ہوا آموں کے درخت کے قریب ایک اندھا فقیر بیٹھا تھا، ’’ایک پیسہ پاؤ بھر آٹا، ایک پیسہ پاؤ بھر آٹا، اندھے فقیر کا سوال، اندھے فقیر کا سوال‘‘ کی رٹ لگی تھی۔ اس کے زرد زرد دانت دکھائی دیتے تھے۔ اس کی میلی داڑھی کے بال الجھے ہوئے تھے۔ اور اس کی آنکھوں میں دیدوں کی جگہ کیچڑ بھری ہوئی تھی، اس نے ان تھکے مسافروں کے پاؤں کی چاپ سنتے ہی، ان کی طرف رخ کیا۔ اپنا سوکھا ہوا زرد ہاتھ پھیلا دیا، ’’بابا بھلا ہوگا! اندھے سور کا سوال! ایک پیسہ پاؤ بھر آٹا!‘‘
ضعیفہ نے پوتے کا ہاتھ مضبوط تھام لیا۔ فقیر کے قریب جا کر بولی، ’’بابا ہم نے سنا تھا تمہیں ایک لڑکا نوکر چاہئے!‘‘ فقیر کے لب و لہجہ میں فرق آ گیا۔ پہلے عاجزی تھی اب حکومت! وہ بولا، ’’تم لائی ہو؟‘‘ اور اس نے اپنے ہاتھوں سے ٹٹولنا شروع کیا۔ بڑھیا نے حمید کو اس کے قریب کر کے کہا، ’’ہاں دیکھو، ماشاء اللہ نواں سال ہے!‘‘ اندھے بھکاری نے حمید کو سر سے پاؤں تک اس طرح ٹٹولا جس طرح قصاب بکری کو دام چکاتے وقت ٹٹولتا ہے۔ پھر بولا، ’’ہاں مضبوط معلوم ہوتا ہے، کیا نام ہے؟‘‘ بچے نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا، ’’حمید!‘‘ اندھے نے پوچھا، ’’تم مجھے سہارا دے کر گاؤں گاؤں لے چلو گے۔‘‘ ننھے حمید نے گرفتہ آواز میں کہا، ’’جی ہاں!‘‘ اندھے نے پھر پوچھا، ’’تم مرے ساتھ گا سکوگے؟‘‘ لڑکے نے چھوٹی سی زبان سوکھے ہونٹوں پر پھرا کے کہا، ’’جی، آپ اگر سکھا دیں گے۔‘‘
اندھے نے جھولی سمیٹی اور لکڑی اٹھا لی۔ وہ بچے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کرکھڑا ہو گیا پھر بولا، ’’آؤ چلیں۔ یہاں بیٹھے بیٹھے کچھ نہیں ملتا۔ چلو پھیری لگائیں!‘‘ حمید نے دادی کو حسرت سے دیکھا، پھرسڑک پر نظر کی، بہت دور تک سپید سپید چمکتی ہوئی چلی جا رہی تھی، نہ رکنے کا موقع نہ ٹھہرنے کی جگہ اور نہ پناہ کا مقام! منزل کوسوں دور تھی! بالکل لا پتہ تھی!
وہ اندھے کے آگے چلنے لگا۔ اس کا ایک سوکھا ہاتھ بچے کے کاندھے پر تھا اور وہ اس کے ساتھ صدا لگا رہا تھا، ’’دے دے بابا دے دے! ایک ہے اندھا ایک ہے بچہ! ایک ہی پیسہ! پاؤ بھر آٹا، دے دے بابا! دے دے بابا!‘‘ ایک کی آواز میں خشونت تھی، دوسرے کی آواز میں رقت! ایک اپنا حق مانگ رہا تھا دوسرا اپنی حق تلفی کا ماتم کر رہا تھا!
رحیمن دیر تک اپنی کمزور آنکھوں سے پوتے کی غائب ہوتی ہوئی صورت دیکھتی رہی، پھر اپنے دامن سے آنسو پونچھتی ہوئی آسمان کی طرف دیکھ کر بولی، ’’تیرا شکر ہے مرے مالک! تونے مرے بچے کو اتنا خوش قسمت بنایا کہ وہ نویں ہی برس کام پر لگ گیا!‘‘
(ماخوذ)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.