خوشبو کا سفر
پھر کچھ ہی دیر میں وہ لمحہ آ گیا جب وقت فنا ہوکر محض ایک کسیلی یاد کی شکل میں تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہونے والا تھا، بس ایک مسلے ہوئے پھول کی خوشبو تھی جو زمین و آسمان کے درمیان پھنسے ہوئے اس بھاری بھرکم لمحے سے جان چھڑا کر بادلوں کے اوٹ آچھپی تھی اور اب ایک انجان سی خواہش لیے آخری بار بغداد کی گلیوں اور بازاروں پر نظر ڈال رہی تھی جہاں ایک فاقہ زدہ صوفی کو سولی پر چڑھایا جانے والا تھا۔
بغداد کی گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کے ہجوم وحشتوں کی عبائیں پہنے جنگلی جانوروں کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہے تھے۔ ان کے ذہن خالی اور سینے نفرتوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں نوکیلے پتھر اور ہونٹوں پر منصور الحلاج کا نام تھا۔ زخم خوردہ منصور الحلاج، جس کا بدن تلوار کے دستوں کی ضربوں سے خو ن آلود تھا، جس کی بےہنگم کٹی ہوئی داڈھی کے پیچھے چھپے ہوئے چہرے پر چانٹوں کے نشان تھے۔ جو کئی دنوں کا فاقہ زدہ تھا اور جس کی پسلیوں پر جلد کی جگہ محض ایک جھلی سی رہ گئی تھی۔ جوں جوں وہ ایک شکنجے میں جکڑکر بیچ بازار میں لایا جانے لگا عشق الہی سے منور فضاء اس کے کلام سے مہکنے لگی۔۔۔
یکسو کر دیا مجھے اس (ذات) واحد نے سچی توحید کے ذریعے
سالک کے لیے اس تک پہنچنے کا اور کوئی راستہ نہیں
میں حق ہوں اور حق، حق کے ساتھ حق ہے
اس کی ذات سے منسلک ہونے کے بعد فراق ممکن نہیں۔۔۔
اور پھر نوکدار پتھروں کی ضربوں سے منصورکا بدن لہولہان کیا جانے لگا مگر وہ دیوانگی عشق میں سرمست صوفی، تختہ دار کو دیکھ کر مسکرا نے لگا مگر اس سے قبل کہ اس کے لہو سے دار کی لکڑ ی سُرخ ہو جاتی، ایک پھول شبلی کی دبی ہوئی مٹھی سے نکلا اور منصور الحلاج کے ذخم خوردہ بدن کو معطر کرتا ہوا ہجوم کے قدموں تلے رندتا چلا گیا۔ پھر جونہی منصور الحلاج کا سر قطع کرکے جسم کو نظر آتش کیا گیا اور اس کی راکھ راس المنارہ سے ہوا میں بکھیری گئی تو وہ بغداد کی گلی کوچوں میں سوگوار سی اڑ تی ہوئی چند لمحوں کے لیے جنید بغدادی کی قبر کی دھول سے آملی اورپھر وہاں موجود بایزید بسطامی اور ابو سعید ابو الخیر کے چڑھائے ہوئے پھولووں کی خوشبووں کواپنے اندر بسا کر زمین و آسمان کے اس مشکل لمحے سے دامن چھڑانے لگی مگر پھر ایک موہوم سی امید کے سہارے بادلوں کے اوٹ چھپی خوشبو سے آکر مل گئی اور پھر وقت کے طویل مگر انجانے سفر میں شامل ہو گئی۔
لاہور کی پررونق گلیوں اور بازاروں میں زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں تھی۔ بلاول گنج مارکیٹ کی گلیوں میں صوفیانہ کلام کی مہک کسی انجانے اندیشے سے اندر ہی اندر کانپ رہی تھی۔ شام کا وقت آنے والی صبح کی سلامتی کے لیے بابا داتا گنج بخش کے مزار پر نذرانوں کے پھول چڑھانے کو بے تاب تھا۔ دیوانگی عشق میں سرمست صوفی فقیر اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرتے ہوئے گلیوں میں ناچ رہے تھے اور فضا ء حضرت محی الدین چشتی کے کلام سے مہک رہی تھی۔۔۔
گنج بخش فیض عالم، مظہر نور خدا۔۔۔نا قصاں را پیر کامل، کاملاں را راہنماپھولوں سے لدے ٹھیلوں و خوانچوں اور مزار پر چڑھانے والی چادروں کی دوکانوں پر زائرین کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ بابا داتا گنج بخش کے مزار کا طویل کشادہ صحن صو فیانہ کلام کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں، مرد، امیر، فقیر سبھی فرش پر زانوں ہوئے عبادت الہی میں مشغول تھے۔ لمحہ بہ لمحہ کلام الہی کا ورد جاری و ساری تھا، دربار میں اجتماعی دعا کے خاطر لوگ اپنی صفیں درست کر رہے تھے کہ اچانک مزار کے سبز گنبد اور صحن میں پھرتے پر سکون کبوتر کسی نادیدہ اندیشے کو پاکر خوفزدہ ہوکر ایک ساتھ پھڑپھڑاکر اڑنے لگے۔
اور پھر بلاول گنج مارکیٹ کی گلیوں میں تین سائے وحشتوں کی عبائیں پہنے جنگلی جانوروں کی طرح انسانی لہو سے اپنی پیاس بجھانے نمودار ہوئے۔ ان کے ذہن خالی اور سینوں میں نفرتیں تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں گرنیڈ اور خودکُش دھماکوں کی جیکٹں اور ہونٹوں پر حضرت داتا گنج بخش علی ہجو یری کا نام تھا۔ کچھ ہی دیر میں اللہ کے ذکر میں مصروف عبادت گزار اجتمائی دُعا کے خاطر قطار در قطار صف بندی کرنے لگے اور دربار میں جمعرات کی جمعرات حاضری لگانے والا محمد منشاء خود کے لیے دُعائیں مانگنے کے بجائے ذکر اذکار میں مشغول زائرین پر عطر اور خوشبو پھینکنے لگا کہ اچانک اس کے ہاتھوں میں دبے عطردان سے نکلی خو شبو زندہ انسانوں کے بجائے مردہ انسانی گوشت کے لوتھڑوں کو معطر کرنے لگی۔ داتا دربار کے پہلو میں دھماکے سے انکے سرہانے درج مرکز تجلیات انسانی لہو سے بھیگ کر رنگین ہونے لگا اور مزار شریف کا سبز گنبد کبوتروں اور انسانی خون کے لوتھڑوں میں رنگ کر سرخ گنبد میں بدلنے لگا۔ مزار کے فرش پر عبادت گزاروں کا خون اور اعضاء ہر طرف بکھر نے لگے اور پھر کلام الہی کا ورد اور صوفیانہ کلام کی مہک دھاڑیں مار مار کر روتی ہوئی آوازوں میں بدلتی چلی گئی۔
محمد منشاء کے ہاتھوں میں دبے عطر دان کی خوشبو انسانی گوشت کے لوتھڑوں اور بکھرے ہوئے اعضاء کو معطر کرکے کچھ دیر تو یونہی لاہور کے گلی کوچوں میں سوگوار اڑتی رہی اور پھر کچھ ہی لمحوں میں مزار شریف پر خواجہ نظام الدین اولیا، حضرت معین الدین چشتی اور بابا فرید الدین شکر گنج کے چڑھائے ہوئے پھولووں کی خوشبو کو اپنے اندر بسا کر زمین و آسمان کے اس مشکل لمحے سے دامن چھڑانے لگی جہاں وقت بارود کے دھماکوں سے فنا ہوکر پھر سے ایک کڑوی کسیلی یاد کی شکل میں تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہو گیا تھا، مگر پھر ایک موہوم سی امید کے سہارے بادلوں کے اوٹ چھپی خوشبو سے آکر مل گئی اور ایک بار پھر وقت کے طویل مگر انجانے سفر میں شامل ہو گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.