Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خوشبو تیری وفا کی

ناز قادری

خوشبو تیری وفا کی

ناز قادری

MORE BYناز قادری

    آج موسم کتنا خوش گوار ہے!

    ابھی ابھی زوردار بارش ہوکر تھم گئی ہے۔ لیکن نیلگوں آسمان کی بے کراں وسعت میں ابھی کالی کالی گھٹائیں چھارہی ہیں۔ سبزہ وگل پر ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہے، فضا کیف وسرور میں ڈوبی ہوئی ہے اور ہواؤں کے نرم نرم خُنک جھونکے فرحت بخش رہے ہیں۔ پائیں باغ کی کھڑکی سے آتی ہوئی بھینی خوشبو سے کمرہ معطر ہو رہا ہے۔

    اور میں اس خوش گوار اور سہانے موسم میں تنہا اپنے پلنگ پر تکیے کا سہارا لیے سینے کے بل دراز ہوں۔ میری ریشمیں زلفیں بےترتیبی سے بکھری ہوئی ہیں اور ساڑی کا آنچل بستر پر رینگ رہا ہے۔ معاً میری نظریں کھڑکی سے ہوکر دور ایک نو شگفتہ گلاب پر مرکوز ہو گئی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے میری نگاہوں کے سامنے ایک سراپا ابھر آیا ہے جاویدؔ کا سراپا جاویدؔ میری آرزوؤں کی کائنات، میرے سنہرے خوابوں کی تعبیر، میری زندگی کا حاصل میرا اپنا جاویدؔ!!

    اور پھر گزرے ہوئے حسین لمحات کے مہکتے سایے سرسرانے لگے ہیں، جب کسی نے پہلی بار مجھے محبت پاش نگاہوں سے دیکھا تھا اور کسی کے پیار نے میرے دل کو گدگدایا تھا ماضی کے سمن زار میں یادوں کی کلیاں مسکرانے لگی ہیں اور حال نے مجھے آج سے چھ سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔

    میں بچپن کی سرحد سے گزر کر جوانی کے گلشن میں محو خرام تھی اور زندگی کی چودہویں بہار دیکھ رہی تھی۔ انہی دنوں جاویدؔ سے پہلی ملاقات ایک مشاعرے کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس سے پہلے میں اس کی ادبی تخلیقات کئی رسائل وجرائد میں پڑھ چکی تھی۔ وہ ایک اچھا شاعر تھا، وہ افسانہ نگار بھی۔ اس کے افسانوں میں حسین خلوت کدوں کے قہقہوں کی دل کشی اور اُس کی نظموں میں بلا کی رفعت و روانی ہوتی۔ یوں تو میرے پسندیدہ شاعر وادیب کئی تھے۔ لیکن میں اکثر اس کی نظمیں اور غزلیں گنگنایا کرتی تھی۔ میں اس کے فن کی پرستار تھی اور اس کے فن پارے بہت شوق سے پڑھتی تھی۔ ایک دن جب ابو جان نے دورانِ گفتگو یہ انکشاف کیا کہ ادب کے افق پر ابھرتا ہوا نوجوان شاعر ادیب جاویدؔ بی. اے. کا طالب علم ہے اور وہ اُسے قریب سے جانتے ہیں تو میرے دل میں ایک ارمان جاگا کاش جاویدؔ سے ملاقات ہوتی! لیکن میں اپنی اِس خواہش کا اظہار نہ کرسکی۔ ابو جان اکثر اس کی تعریف کرتے اور اس کی شان میں قصیدے پڑھتے رہتے۔ ا س طرح اس سے ملنے کا اشتیاق بڑھ گیا۔

    اور ایک دن جب وہ مشاعرے میں شرکت کے لیے ہمارے شہر میں آیا تو ابو جان نے اسے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ اس دن میں اپنے پسندیدہ شاعر وادیب سے مل کر کتنی خوش تھی! جیسے مجھے ساری کائنات کی دولت مل گئی ہو!! ابو جان اس سے تعارف کرارہے تھے اور وہ نیلے رنگ کا سوٹ زیب تن کیے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتا ہوا بہت خلوص سے ملا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک ادب پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بلند خیالات، دل آویز لہجے، پر خلوص جاذب نظر شخصیت، غیر معمولی صلاحیت اور ذہانت نے مجھے کافی متاثر کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے ادب کو نہیں ادب نے اسے بڑھ کر چھو لیا ہے۔

    اس کی ملاقات نے میری رگ وپے میں کیف و سرور بھر دیا اور میں فرط مسرت سے باؤلی سی ہو رہی تھی۔ اس کے آرام وآرائش اور خاطر و مدارات کے لیے میں سارے گھر میں تیرنے لگی تھی۔ اس دوڑ دھوپ اور بےخودی میں جب گلاس پاؤں سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا تو میرا دل دھڑک اٹھا۔

    ’’آج تمہیں کیا ہو گیا ہے بیٹا! دیکھ کر چلا کرو!!‘‘ امی جان کی آواز ابھری۔

    ’’جاویدؔ صاحب سے مل کر ہوش و حواس کھو دیا ہے۔‘‘

    یہ خالہ زاد بھائی کتنے شریر ہوتے ہیں!!

    میں نے شکایت بھری نظروں سے آصف کی طرف دیکھا جس نے میری دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی تھی۔

    مشاعرے کی دوسری صبح جاویدؔ کو بخار آ گیا۔ اس کا بدن دھوپ میں رکھے لحاف کی طرح تپ رہا تھا اور سر درد کی شدت سے پھٹ رہا تھا۔ میں نے اس کی تیمار داری میں شب وروز ایک کر دیا، ساری ساری رات جاگ کر صبح کرتی، وقت پر دوا دیتی اور دل جوئی کے لیے سرہانے بیٹھی خوب خوب باتیں کرتی۔ لطیفے سناتی، قہقہے لگاتی اور اسے خوش رکھتی۔ مجھے کتنا خیال تھا جاویدؔ کا! کتنی ہمدردی تھی اس سے!! مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ میرا کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ ہے!

    ’’تمہاری رفاقت کتنی سکون بخش ہے نازوؔ !‘‘ جاویدؔ کہتا ’’میں تمہاری آواز کے جادو میں کھو جاتا ہوں اور رتمہارے قرب کے نشے میں سرشار ہو جاتا ہوں۔‘‘

    اس وقت اس کی آنکھوں میں خلوص ومحبت کی قوسِ قزح کا رنگ بکھر جاتا۔

    باہر بارش زوردار ہونے لگی ہے، بارش کے قطرے ہلکے ہلکے مدھم سے سروں میں جلترنگ سی بجا رہے ہیں۔ بر آمدے میں میرے دونوں بچے کھیل رہے ہیں۔پانی کے چھینٹے کھڑکی سے اندر آ رہے ہیں۔ میں کھڑکی کا پٹ بند کرکے پھر بستر پر لیٹ گئی ہوں۔ ذہن کے افق پر یادوں کے ستارے جگمگانے لگے ہیں اور میں پھر ماضی کی جنت میں کھو گئی ہوں جہاں جاویدؔ کے پیار کی چاندنی اور اس کے ساتھ گزرے ہوئے مدہوش کن لمحات کی خوشبو بکھری ہوئی ہے۔

    رفتہ رفتہ جاویدؔ بہار بن کر میری زندگی کے سمن زار پر چھانے لگا اور میرے دل کے چمن میں محبت کی کلیاں مسکرانے لگیں، تمناؤں کے غنچے چٹکنے لگے۔ اس کی قربت نے میرے احساسات کو جگا دیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی میرے دل کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ وہ چند ہی دنوں میں میرے دل کی دھڑکن میں سما گیا۔ میری سانسوں میں بس گیا۔ مجھے اپنی خوش نصیبی پر ناز تھا کہ جاویدؔ کی رفاقت میسر آئی اور اس کی خدمت کا موقع ملا۔

    میں بسا اوقات جاویدؔ کے بارے سوچتے سوچتے ایسی کائنات میں پہنچ جاتی جہاں سکون و قرار ہوتا، راحت وآسودگی ہوتی۔ پربہار اور مسرت بکنار زندگی ہوتی۔ مجھے محسوس ہوتا جاویدؔ میرے من مندر کا دیوتا ہے، میری آرزوؤں کے ساز سے نکلا ہوا نغمہ ہے اور میرے ارمانوں کے چمن کا خوش نما پھول ہے جس کے پیار کی خوشبو مجھے مدہوش کرتی رہتی ہے۔ میں سرشار تمناؤں کے ہجوم میں جینے لگی۔ جاویدؔ کو پاکر مجھے جیسے نئی زندگی مل گئی تھی۔ ایسی پربہار زندگی جہاں خزاں کا کبھی گزر نہیں ہو سکتا۔

    وہ بھی ایک خوش گوار شام تھی موسم گل کی طرح! میری زندگی کی طرح!! میں خوبصورت لان میں کھلے ہوئے نرم ونازم گلہائے رنگ رنگ کی رعنائیوں اور بھینی بھینی خوشبوؤں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ میری نظریں ایک نو شگفتہ گلاب پر مرکوز تھیں اور میں تصورات وتخیلات کی حسین وادیوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اچانک جاویدؔ کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔

    ’’کیا تمہیں گلاب پسند ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    میں نے اپنی انگلیوں سے پنکھڑیوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

    ’’مجھے بھی!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ میں بے ساختہ بول اٹھی۔

    ’’کیونکہ یہ تمہیں پسند ہے اور اس میں تمہارے حسن کی رعنائیاں بھی تو گھلی ہوئی ہیں نازوؔ !‘‘

    میری پلکیں بارِ حیا سے جھک گئیں۔

    ’’کتنا خوش نصیب ہے وہ جسے تمہاری رفاقت میسر آئےگی۔‘‘ جاویدؔ کہہ رہا تھا تم سراپا غزل ہونازوؔ ! تمہاری چشم میگوں میں عمر خیام کی ساری رباعیاں سمٹ آئی ہیں، ’’صبیح پیشانی پر کلیوں کی سی دوشیزگی نکھر رہی ہے اور ان سیاہ ریشمیں زلفوں کے آبشار میں نہ جانے کتنی اندھیری راتوں نے بسیرا لیا ہے ‘‘

    ’’بس بس رہنے دیجیے، شاعری نہ کیجیے ورنہ‘‘

    میں بمشکل بول سکی۔

    ’’یہ شاعری نہیں ہے نازوؔ ! حقیقت ہے!!‘‘

    اور اس نے نو شگفتہ گلاب توڑکر میرے جوڑے میں سجا دیا۔ میرے رخسار پر شفق سی پھولنے لگی۔

    اور پھر ہم دونوں چمن کی روش پر ٹہلنے لگے۔ وہ بہت پیاری پیاری باتیں کیے جا رہا تھا۔ ہر سمت پھولوں کی رنگینیاں اور رعنائیاں بکھری ہوئی تھی۔ میرے دل میں تمنائیں مچلنے لگیں۔ کاش! وقت کا کارواں رک جاتا! یہ لمحے جاوداں ہو جاتے!! اور ہم دونوں اِسی طرح قدم سے قدم ملاتے چلتے رہتے، بس چلتے ہی رہتے اور یہ راستہ کبھی طے نہ ہوتا!!

    لیکن ایک دن

    جب جاویدؔ مجھے تنہا چھوڑ کر جانے لگا تو میری پلکوں پر دل کے جذبات لرزنے لگے اور میں اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی۔ میں کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ لیکن ہونٹ تھرتھرا کر رہ گئے ہماری رفاقت کے سرسبز و شاداب گلشن کی ساری کلیاں مُرجھا گئیں، سبھی پھول کمہلا گئے اور میں اپنی زندگی میں خلا سا محسوس کرنے لگی۔ اکثر تنہائی میں میری پلکوں پر احساسِ مفارقت کی شمعیں جلنے لگتیں اور دل میں ہلکی ہلکی کسک کا احساس ہوتا۔

    میں نے کئی بار دامن قرطاس پر اپنے احساسات وجذبات کے موتی بکھیرنا چاہا۔ لیکن گھر کا ماحول اور تعلیم وتربیت مانع رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرے دل میں آب زمزم کی طرح پاکیزہ اور گنگا جل کی مانند پوتر محبت مستحکم ہوتی گئی۔ جاویدؔ کو پانے کی خواہش، اس کی رفاقت کی آرزو اور اسے جیون ساتھی بنانے کی تمنا دل میں مچلتی رہی اور تڑپتی رہی، تڑپتی رہی اور مچلتی رہی۔ اس کے حسین تصور سے مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی اور میرے کانوں میں شہنائیاں سی بجنے لگتیں، فضا سرور وکیف میں ڈوب جاتی، دل کے چمن میں نشاط ومسرت کی کلیاں چٹکنے لگتیں۔

    وقت کا طائر پرواز کرتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے دو سال کا عرصہ بیت گیا اور آخر کار ایک دن

    ’’پاپا آ گئے! پاپا آ گئے!!‘‘

    بچوں کے شور نے میرے خیالوں کا تسلسل توڑ دیا ہے۔

    جاوید میرے سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے اور اس کے کندھے پر دونوں بچے اچھل رہے ہیں۔

    ماحول بےحد رومان انگیز اور کیف پرور ہو رہا ہے۔ باہر ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے