خشک پتوں کی موسیقی
روئی کے پھائے کی طرح نرم مگر گداز مس حجاب درّانی کا ہاتھ گرم مضبوط مردانہ انگلیوں کی گرفت میں تھا۔ وہ گرم جوشی سے لگاتار اپنے ہاتھوں کو شیک کر رہا تھا اور مس درّانی اس کے ہاتھوں کی جنبش کو اپنے جسم پر محسوس کر رہی تھیں۔ وہ لگاتار مسکرارہا تھا اور مس درانی کی آنکھیں بھی خوشی سے چمک رہی تھیں۔ دونوں کے چہرے کھلے ہوئے تھے۔ دونوں کے درمیان جیسے گزری ہوئی طویل ملاقاتوں کا سلسلہ تھم سا گیا ہو۔
رچرڈ تھامس کا شیک کرتا ہوا ہاتھ لمحے بھر کے لیے رکا۔ دونوں کی انگلیاں آزاد ہوئیں۔ پھر ایک جھٹکے سے وہ دوقدم پیچھے ہٹ کر حجاب درّانی کو اس طرح د یکھنے لگے جیسے کوئی فوٹو گرافر تصویر کھینچنے سے پہلے بھرپور معائنہ کرتاہے۔
’’تم ابھی بھی ٹھیک ٹھاک ہو۔‘‘
’’تم بھی تو نہیں بدلے۔‘‘ مس درّانی کی آواز میں نغمگی جاگ اٹھی تھی۔
’’غلط بالکل غلط۔ دیکھو میری پینٹ کمر سے دو انچ ڈھیلی ہوگئی ہے۔ مجھے اب بیلٹ باندھنی پڑتی ہے۔‘‘
’’تو پھر تم بھی تو غلط ہوئے نا۔ میری کمر پہلے سے بہت چوڑی ہوگئی ہے۔ میں نے جینس پینٹ پہننا اب چھوڑ دیا۔‘‘
’’ارے سچ مچ! میرا ذہن تو ادھر گیا ہی نہیں۔‘‘
’’ہاں میں نے بھی تو توجہ نہیں دی۔ تم نے بوٹ پہننا چھوڑ دیا ہے۔ کب سے شوز پہننے لگے؟‘‘
’’تمہیں تو کہا کرتی تھی کہ بوٹ پہننے سے فرنگی بوآتی ہے۔‘‘
’’ہاں کہتی تھی مگر یہ باتیں تو پرانی ہیں۔‘‘
ایک ہلکی ہنسی کے ساتھ وہ خاموش ہوگئے۔ خاموشی ان کی فطرت تھی اور وہ اپنی عادت سے مجبور تھے۔ حجاب درّانی اکثر سوچا کرتیں کہ انسان کی فطرت میں اگر عادت نہ ہوتی تو زندگی کی رفتار کتنی تیز ہوتی۔ انہوں نے آنکھوں کی کگاروں سے اپنے دوست رچرڈتھامس پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ وہ کتنا بدل گئے تھے۔ ان کا لانبا قد تھوڑا جھک گیا تھا۔ صاف ستھرے چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی ان کی شخصیت کو معتبر بنارہی تھی۔ گہری بھوری آنکھوں پر چشمہ چڑھ چکا تھا۔ ہاں گھنگھرالے بالوں کے لچھے کل بھی ان کے شانے پر جھولتے تھے اور آج بھی۔ فرق اتنا آیا تھا کہ کل گہرے بھورے تھے مگر آج ہلکے پڑ کر سفیدی کے قریب آگئے تھے۔
’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘
’’بس تمہیں دیکھ رہی ہوں۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’اور تم؟‘‘
’’میں تمہیں سمجھ رہا ہوں۔‘‘
’’اب بھی؟‘‘
’’اب تو اور بھی اس کی ضرورت ہے۔ ضرورت نہ ہوتی تو میں آتا ہی نہیں۔‘‘
رچرڈ نے اپنے دونوں ہاتھ حجاب درّانی کے شانے پر رکھے اور پھر آہستہ سے ان کا سر اپنے سینے پر ٹکالیا۔ یہ عمل کوئی نیا نہیں تھا۔ بے شمار بار ایسا ہوا تھا جب حجاب درّانی دفتر میں کام کے دباؤ سے پریشان ہوجایا کرتی تھیں تو رچرڈ کی یہ چھوٹی سی تسلی انہیں کافی راحت پہنچاجایا کرتی تھی۔ رچرڈ ان کا دوست بھی تھا، کلیگ بھی تھا۔ واحد ایسا بندہ تھا جس پر وہ بھروسہ کرتی تھیں۔
حجاب درّانی جدیدیت پسند والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ صحافت ان کا شوق تھا۔ جنون تھا۔ مزاج باغیانہ۔ ان کے ہر فیصلے میں ان کے والدین کی رضا شامل رہتی۔ شانے تک تراشے بال، گوری رنگت، گہری بھوری آنکھیں، چوڑی پیشانی، بھرے بھرے رخسار والی حجاب درّانی کی لمبائی پانچ فٹ چار انچ تھی۔ لباس ہو یا طرزِ زندگی وہ اپنی جدید سوچ سے الگ شناخت رکھتی تھیں۔
سرخ جوڑے میں بیٹی کو دیکھنے کا خواب اس وقت پاش پاش ہوگیا جب حجاب درّانی نے اپنے والدین کو یہ فیصلہ سنایا کہ وہ شادی نہیں کریں گی۔ زندگی تنہا گزاریں گی۔ لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر ٹکی رہیں اور ہمیشہ کی طرح ان کے فیصلے کے آگے ان کے والدین کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے۔ اب حالات مختلف تھے۔ ضدی اور مغرور حجاب درّانی آج بالکل اکیلی پڑچکی تھیں۔ اگر کوئی تھا تو ان کا اکلوتا دوست رچرڈ تھامس جو ایک فون پر ان سے ملنے کینڈا سے انڈیا آگیا تھا۔
ایک دور تھا جب دونوں نے کئی پروجیکٹ پر ساتھ ساتھ کام کیا تھا۔ کتنی ایسی ڈاکومنٹری فلمیں تھیں جو اب بھی یادگار فلم کہی جاتی تھیں۔ جان جوکھم میں ڈال کر رپورٹ تیار کرنا ہو یا خطرناک جگہوں پر جاکر آؤٹ ڈور (out door) شوٹنگ کرنا ہو، قدم پیچھے ہٹانا حجاب درّانی نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ ایک ٹی وی چینل میں اعلی عہدے پر مقیم تھیں اور رچرڈ تھامس ان کے مددگار تھے جو مقرر وقت کے لیے انڈیا آئے تے۔ موجودہ ہندوستانی مسلم تہذیب کے مسائل میں ان کی خاصی دلچسپی تھی، جس پر وہ کام کر رہے تھے۔ یہ دلچسپی بھی بے وجہ نہیں تھی۔ ان کی ماں ہندوستانی تھیں جب کہ باپ کینیڈین۔ نہ مذہب ایک، نہ سرحد ایک پھر بھی دونوں نے کامیاب ازدواجی زندگی گزاری تھی۔ رچرڈ ان کی اکلوتی نشانی تھے۔ ماں نرگس نے بیٹے کی پرورش پر خاصی توجہ دی تھی۔ جسم قد کاٹھی سے فرنگی ہوتے ہوئے بھی وہ مکمل ہندوستانی سوچ کے مالک تھے۔ پہلی نظر میں ہی حجاب درّانی انہیں بھاگئیں۔ حجاب کو بھی انسان برا نہیں لگا۔
ایک دن باتوں ہی باتوں میں جب رچرڈ نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تو حجاب نے بے حد شائستگی سے انکار کردیا۔ چررڈ خاموش ہوگئے۔ دونوں اچھے دوست بن کر کا م کرتے رہے۔ قریب آتے رہے اور مقررہ وقت پر اپنا پروجیکٹ مکمل کرکے رچرڈ واپس بھی چلے گئے۔ مگر سرحدوں کی دوری نے دونوں کے دلوں میں ملال نہیں آنے دیا۔ باتیں ہوتیں، چیٹنگ کا سلسلہ بھی چلتا، ضرورت ہوئی تو ایک دوسرے کو دیکھنے کی کمی ویب کیمرے نے پوری کردی۔
وقت گزرتا رہا، عمر کے دائرے پھیلتے رہے اور زندگی سمٹتی رہی۔ کام کی رفتار میں کمی آنے لگی تو حجاب درّانی نے خود بہ خود چینل چھوڑ دیا او رفری لانسنگ میں اتر آئیں۔ ہندوستانی زمین کی کشش کہیں یا حجاب درّانی کی قربت کی چاہ، رچرڈ انڈیا آتے جاتے رہے۔ ایک دوبار حجاب درّانی بھی گھومنے کے مقصد سے کینیڈا گئیں مگر اب سفر اور کام انہیں تھکانے لگا تھا۔ والدین کے گزرجانے کے بعد وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگیں تھیں۔
نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھیں تو جانے کیوں آہستہ آہستہ ہر چیز سے دل بے زار ہونے لگا۔ فون پر بات چیت ہو یا چیٹنگ، اچھی نہیں لگتی تھی۔ سب بے معنی لگتے۔ انہوں نے لوگوں سے ملنا جلنا کم کردیا۔ کسی کی بات انہیں اب بھاتی نہیں تھی۔ وہ اپنے گھر میں سمٹنے لگیں۔ 500ورگ گز میں پھیلا ہوا ان کا پشتینی بنگلہ جس کے سرونٹ کوارٹر میں ان کا پرانا ملازم اور ڈرائیور مجاہد اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ لمبی چوڑی لائبریری میں رکھی ہزاروں کتابیں اب جیسے ان کے لیے بے مصرف ہوگئیں تھیں۔ کیا سفید صفحوں پر پھیلی روشنائی کو پڑھنا ہی زندگی کا مقصد ہے۔ وہ اپنے آپ سے سوال کرتیں اور خود ہی اپنے آپ سے کڑھنے لگتیں۔
ایک دن انہوں نے لائبریری کے دروازے پر بڑا سا قفل لٹکادیا۔ دل تھا کہ کسی طرح بہلنے کو تیار نہیں تھا اور دماغ بہانے تلاشتے تلاشتے تھک چکا تھا۔ ان کا پورا وجود ایک لمبی تھکان کی دبیز چادر میں لپٹ چکا تھا۔ ماضی کی یادیں انہیں پریشان کرنے لگیں تھیں۔ کبھی والدین یاد آتے، کبھی اس لڑکی کی یاد ستانے لگتی جو مغرور تھی، خود پرست تھی، جو زندگی کو اپنے طریقے سے جینے کی قائل تھی۔ مگر اب؟ انہوں نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔ بجھی ہوئی آنکیں، بے رونق چہرہ، بے ترتیب لباس، جسم کا کساؤ تو کب کا ڈھیلا پڑچکاتھا۔ تراشے ہوے ناخن اب کھردرے ہوکر اپنی چمک کھوتے جارہے تھے۔ گلابی رنگت ہونٹوں سے بھی نچڑ چکی تھی۔ انہوں نے آہستہ ہاتھوں سے انگلیاں بالوں پر پھیریں۔ یہ تو ان کی جدید طرز کی کٹنگ تھی جس نے بالوں کے کھوکھلے پن کو پف دے رکھاتھا۔
’’باجی آج دن میں کھانے میں کیا بناؤں؟‘‘ یہ مجاہد کی بیوی تھی جو ان کا باورچی خانہ سنبھالتی تھی۔
’’نہیں! آج میں کچھ نہیں کھاؤں گی، بس تم میرے لیے چکن سوپ بنادینا۔‘‘
’’جی بہتر۔‘‘ وہ واپس جانے لگی۔
’’ٹھہرو!‘‘ حجاب درّانی کی سخت آواز نے اس کے جاتے ہوئے قدم روک دیے۔ وہ پلٹ کر ان کے قریب آئی۔
’’سنو! کیا رات میں تم کو کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔‘‘
’’باجی میں تو بستر پر پڑتے ہی سوجاتی ہوں۔ مجاہد سے پوچھ کر بتاؤں گی۔‘‘
’’نہیں! پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے ساتھ اوپر چلو۔ ساری رات کوئی چھت پر چلتا رہتا ہے۔‘‘
’’باجی بندر ہوں گے، کودتے پھاندتے ہوں گے۔‘‘
حجاب درّانی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اپنا واکنگ رول اٹھایا اور ملازمہ کے ہمراہ چھت پر پہنچ گئیں۔ بہت دنوں کے بعد وہ چھت پر آئی تھیں۔ چاروں طرف کپاس کے ٹوٹے ہوئے کھول اور بکھری ہوئی روئیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے بنگلہ کے پچھلے حصہ میں سینبھل کا ایک قدیم درخت تھا، جس کے پھول پک کر ٹوٹ رہے تھے۔
’’دیکھیے باجی یہ کپاس کے کھول ہیں نا، انہیں کے ٹوٹنے کی آوازیں آتی ہوں گی۔ آپ تو جانتی ہیں کہ روئی تیار ہوجاتی ہے تو ان کے کھول خودبہ خود چٹخ کر ٹوٹ جاتے ہیں۔‘‘
’’تم اپنی زبان بند رکھو اور مجاہد سے کہو، آج ہی ایک مزدور لگواکر پوری چھت کی صفائی کروادے۔‘‘ حجاب درّانی حکم دے کر نیچے اترآئیں اور ملازمہ باورچی خانے میں چلی گئی۔
صبح سے مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ پانی کی لڑیاں ٹوٹ نہیں رہیں تھی اور لیٹے لیٹے حجاب درّانی اُوب چکی تھیں۔ خود کو مصروف رکھنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ وہ اٹھیں اور اپنے کمرے میں الماری کھول کر فائلیں نکالنے لگیں۔ ایک دو تین چار۔۔۔ پچاسوں چھوٹی بڑی فائلیں تھیں اور ہر فائل کے اوپر بنے پاکٹ میں اس پروجیکٹ کی سی ڈی رکھی تھی۔ یہ سارے کام ان کے خود کے کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے سی ڈی نکالی اور کمپیوٹر پر لگاکر دیکھنے لگیں۔ اُف! کتنے ایسے پروجیکٹ تھے جس نے ان کے رونگٹے کھڑے کردیے۔ حالانکہ یہ ساری رپورٹ ان کی خود کی تیار کی ہوئی تھی مگر حیرت ہے، تب وہ کتنی بے خوف ہوکر کیمرے میں سب کچھ شوٹ کرتی چلی گئیں۔
الماری میں فائلیں اور سی ڈی واپس ڈالنے کے بعد جب وہ فارغ ہوئیں تو ایک نئی کیفیت ان پر طاری ہوگئی۔ بہت سوچنے کے بعد دوسرے دن انہوں نے گیٹ پر لگائے نجی سیکورٹی گارڈ کی چھٹی کردی۔ اس کے شانے پر ٹنگی بندوق جو دوسروں کو ڈرانے کے لیے ہوتی ہے، کبھی ان کی طرف بھی اٹھ سکتی ہے، یہی تو انہوں نے اپنی رپورٹ کے اختتام پر کہا تھا کہ اکیلا پڑتا ہوا انسان صرف اکیلے پن کا ہی شکار نہیں ہوتا بلکہ مختلف جرائم کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اتنا بڑا بنگلہ، اتنی زمین جائداد اور تنہا وہ۔۔۔ کوئی بھی کبھی بھی گھر میں داخل ہوسکتا ہے۔ حیوان بننے کے لیے جنون کا ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔
انہوں نے اپنے بنگلے کے بیشتر کمروں کو لاک کردیا۔ ایک ڈرائنگ روم اور ایک بیڈ روم ایک تنہا عورت کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہاں! اگر رچرڈ کبھی آتے ہیں تو گیسٹ روم کھلوادیا جائے گا۔ انہوں نے گیسٹ روم میں بھی تالے پڑوادیے۔ کچھ سکون، کچھ راحت ملی۔ وہ ایک کمرے میں سمٹ گئیں۔ ڈرائنگ روم تو باہری لوگوں کے لیے ہوتا ہے اور کوئی باہری شخص اب آتا نہیں۔ انہوں نے اطمینان کی گہری سانس لی۔
وقفے وقفے پر مجاہد کئی بار ان کے پاس آیا، ’’چلیے باجی، تھوڑا باہر گھوم پھر لیجیے۔ کمرے میں بند رہیں گی تو بیمار پڑجائیں گی۔‘‘ انہوں نے مجاہد پر ایک تیز نگاہ ڈالی اور وہ خاموشی سے باہر نکل گیا۔ انہیں اچھی طرح یہ معلوم تھا کہ یہ ملازم کتنے خطرناک ہوتے ہیں۔ بھولی بھولی باتیں کرکے یہ بڑے بڑے جرائم انجام دے دیتے ہیں۔ بنگلے کی اونچی چہاردیواری جو کبھی انہیں تحفظ دیتی تھی، اب خوف زدہ کرنے لگی۔ اگر کبھی وہ کسی ناگہانی میں پھنس گئیں اور چیخ کر لوگوں کو مدد کے لیے آوازیں لگائیں گی تو کون اس چہاردیواری کو پھلانگ کر اندر آسکے گا۔۔۔ صدردروازے پر تو وہ ڈبل لاک لگاکر بند رکھتی ہیں۔
دل پریشان رہنے لگا۔ یہ پرانے لوگ بھی عجیب ہوتے تھے۔ رہنا ایک کمرے میں اور گھر میں بنوائیں گے دس کمرے۔ کیا ضرورت ہے اتنے بڑے گھر کی۔ ایسے ہی گھروں پر لوگوں کی غلط نگاہیں ٹکی رہتی ہیں۔ ڈکیتی ایسے ہی بنگلے پر پڑتی ہے۔
حجاب درّانی کو اپنا ہی گھر اجنبی لگنے لگا۔ کھڑکی سے باہر جھانکنے میں بھی ان کو خوف آتا۔ کتے کے بھونکنے کی آواز ان کے دل میں لرزہ پیدا کردیتی کہ کہیں یہ آواز کسی طوفان کی آمد کا اعلان تو نہیں۔ کتے تو سب سے پہلے خطرے کو سونگھ لیتے ہیں۔ رات کی نیند ندارد ہونے لگی۔ ایک دن انہوں نے اپنے پیارے جیکی کو دور، بہت دور پھنکوادیا تاکہ وہ لوٹ کر دوبارہ بنگلے میں نہ آسکے۔ باہری دیوار سے سٹے ہوئے اونچے درخت انہیں چاندنی رات میں بھی کسی شیطان کے سائے سے کم نہیں لگتے تھے۔ یہ ہوائیں پتوں میں کیسا شور پیدا کردیتی ہیں۔ پیڑ پودے بھی کمبخت عذاب ہوتے ہیں۔ اتنا بڑا لان اور اتنے درخت، مہندی کی باڑ اور ان پھولوں کی لتر کے پیچھے اگر بری نیت سے کوئی آکر چھپ جائے تو۔۔۔ تو پھر اگلے دن کی بریکنگ نیوز ہوگی۔۔۔ انہوں نے زور سے آنکھیں بھینچ لی۔ بس بہت ہوا، اس عفریتی کھنڈر کو اب بیچنا ہی ہوگا۔
رچرڈ کے منع کرنے کے باوجود حجاب درّانی اپنی ضد پر ٹکی رہیں۔ انہوں نے بنگلہ بیچ دیا۔ سامان نیلام کردیا اور ایک اپارٹمنٹ کے دسویں فلور پر فلیٹ خریدلیا۔ ہاں!اتنا انہوں نے ضرور کیا کہ اپارٹمنٹ کا ایک سروینٹ روم انہوں نے مجاہد اور اس کی بیوی کو دلوادیا۔ دیکھ بھال اور کام کے لیے ملازم تو ہونے ہی چاہیئں۔
نئے گھر میں آکر مس حجاب درّانی کے شب و روز تبدیل ہوگئے۔ نئے لوگ، نیا ماحول، نئی فضا، سب کچھ بدلابدلا سا۔ یہ تبدیلی انہیں راس آگئی۔ خوف مٹ رہے تھے۔ زندگی سنبھل رہی تھی۔ ان کا رکا ہوا قلم ایک بار پھر سے حرکت میں آگیا۔ باہری دنیا سے پھر ان کا ربط ضبط ہو گیا۔ ۵۷۔ ۵۸ برس کی عمر کوئی ایسی نہیں ہوتی کہ بیٹھ کر موت کا انتظار کیا جائے۔ انہوں نے محفلوں میں جانا شروع کردیا۔ خود پرستی کے جذبے نے انہیں پھر سے سنورنے کا موقع دیا۔ اس درمیان انہوں نے کئی بار رچرڈ کو نئے گھر میں آنے کی دعوت دی مگر ہر بار رچرڈ کا ایک ہی جواب ہوتا، ’’یہ پروجیکٹ مکمل ہوجائے تو ضرور آؤں گا۔‘‘
’’آخر ایسا کون سا پروجیکٹ ہے جو مجھ سے زیادہ اہم ہوگیا۔ رچرڈ تم بدلتے جارہے ہو!‘‘
حجاب درّانی نے شکوہ کیا اور رچرڈ نے ہنس کر ڈال دیا مگر اس ہنسی نے حجاب درّانی کو اداسیوں میں ڈھکیل دیا۔ ایسی بھی کیا مصروفیت کہ نہ چیٹنگ، نہ فون پر کوئی بات چیت، میسج چھوڑو تو کوئی جواب نہیں آتا۔ ویب کیمرہ بھی ہمیشہ بند رہتا ہے۔ اگررچرڈ بدل سکتے ہیں تو دنیا کا کوئی بھی شخص کبھی بھی کسی سے فرار حاصل کرسکتا ہے۔
حجاب کی زندگی میں ایک بار پھر سے سناٹے بھرنے لگے۔ وہ چپ رہنے لگیں۔ خامو شی ان کا لبادہ بننے لگی۔ نہ مجاہد سے بات کرتیں، نہ اس کی بیوی کو کام کے لیے ڈانٹتی پھٹکارتیں۔ بالکنی پر بیٹھ کر چپ چاپ آسمان تاکا کرتیں۔ یہ کیفیت ان کی اس دن سے بنی تھی جب وہ رات کے گیارہ بجے ڈنرپارٹی سے لوٹتے ہوئے لفٹ میں اکیلی دسویں مالے کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ تھکا جسم، سویا ذہن۔ اچانک روشنی گل ہوگئی۔ گھپ اندھیرا چھا گیا۔ لفٹ اپنی جگہ تھم گئی۔ گھبراکر انہوں نے چاروں طرف ہاتھ پیر مارے۔ لگا، لفٹ کی ہر دیوار جیسے سمٹ رہی ہو۔ ان کا دم گھٹنے لگا۔ اندھیرا، تنگ ہوتی دیواریں اور گھٹتی ہوئی سانسیں۔ چکر آنے لگے، آنکھیں جھپکنے لگیں۔ ان پر بیہوشی طاری ہو رہی تھی۔ آخر وہی ہوا جس کے اندیشے انہیں ستایا کرتے تھے۔ اپنا ہوش حواس کھوکر وہ لفٹ میں ایک جانب ڈھلک گئیں۔ پولس آئی، شناخت شروع ہوئی مگر مکمل طریقے سے انہیں جاننے والا کوئی نہیں تھا۔
اگر انہوں نے اپنا پشتینی بنگلہ نہ بیچا ہوتا تو کم سے کم ان کی شناخت کو لے کراتنے سوالات تو نہ ہو رہے ہوتے۔ ان کا جسم پسینے سے بھیگ گیا۔ خوف کا لرزہ طاری ہوگیا۔ یہ انہوں نے کیا کیا، اتنا بھیانک خواب کھلی آنکھوں سے د یکھ لیا۔ ایسا برا انجام تو وہ اپنے لیے تصور میں بھی نہیں سوچ سکتی تھیں۔ ناگہانی کی دستک انہیں بار بار کیوں سنائی دے رہی ہے۔ کیا ہونے والا ہے جو انہیں خوف زدہ کر رہا ہے۔۔۔ اور پھر اسی دن سے انہوں نے لفٹ میں اترنا چڑھنا بند کردیا۔ خود کو اپنے فلیٹ میں قید کرلیا۔ ایک بار پھر سے زندگی سمٹ گئی۔
اب اکثر انہیں اپنے پشتینی بنگلے کی یادستانے لگی۔ کاش!انہوں نے اپنا گھر نہ بیچا ہوتا۔ ان کے دل میں رچرڈ کے تئیں بھی ملال تھا۔ اگررچرڈ چاہتے تو ان سے ان کا فیصلہ بدلواسکتے تھے۔ مگر انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا۔ اس بنگلے میں ان کا بچپن گزرا تھا۔ والدین کی یادیں ذرّے ذرّے میں پنہاں تھیں۔ فراک پہنے ننھی سی حجاب لان کی مخملی گھاس پر کھیلا کرتی تھی۔ اونچے اونچے درختوں کے تنے پکڑ کر گول گول ناچا کرتی تھی۔ تتلیاں پکڑنے میں کتنی بار پیروں میں کنکر چبھے تھے۔ مگر کیا کنکڑ چبھنے کے ڈر سے اس نے کھیلنا بند کردیا تھا۔ پھر ایسا کون سا خوف تھا جس نے ان سے ان کا گھر فروخت کرادیا۔ بے چارا جیکی! کیا بگاڑا تھا اس نے! ان کی حفاظت کے لیے وہ رات میں بھونکتا ہی تو تھا۔ نہ جانے زندہ ہے یا مرچکا! انہیں اپنے آپ سے نفرت ہوئی۔ ’کتنی بے رحم عورت ہوں۔ ‘
انہوں نے خود پر لعنت بھیج کر چند قطرے آنسو کے بہادیے۔
’’باجی! آپ کی چند کتابیں ڈاک سے آئی ہیں، لاکردے دوں؟‘‘
’’دے دو، اور سنو! میں نے مجاہد سے کہا تھا کہ پھل ختم ہوگئے ہیں، بازار سے لیتے آنا۔ کیا وہ لے آیا؟‘‘
’’جی! یہ بات تو کل کی ہے۔ انہوں نے سبزی پھل سب لاکر فریج میں رکھ دیے ہیں۔ آپ کے لیے پھلوں کی چاٹ بنادوں۔‘‘
’’آج کون سا دن ہے؟‘‘ حجاب درانی نے جیسے ملازمہ کی بات کو سنا ہی نہیں۔
’’جی آج دوشنبہ ہے۔‘‘
’’اب میں مہینہ پوچھوں گی تب بتاؤگی۔‘‘
’’جی فروری کی بیس تاریخ۔‘‘
ملازمہ آہستہ سے جواب دے کر پیچھے ہٹ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ مہینے دومہینے میں ان پر اسی طرح کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ نہ دن یاد رہتا ہے نہ تاریخ۔ ایک دن انہوں نے کہا بھی تھا کہ دن تاریخ یاد کرنے کے لیے کام ہونا چاہیے۔ بغیر کام کے کیلنڈر کون دیکھتا ہے۔ آہستہ قدموں سے ملازمہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ وہ کیسے بتاتی کہ آپ نے تو کمپیوٹر، ٹی وی، موبائل بند کرکے خود کو سب سے کاٹ رکھا ہے۔
ایک دن خوشگوار موڈ میں انہوں نے ملازمہ کو آواز دی، ’’بشیرن! میرا لیپ ٹاپ لاؤ۔ دیکھوں کسی کا میل تو نہیں آیا۔‘‘
ملازمہ نے میز پر رکھا لیپ ٹاپ ان کے بیڈ پر رکھ د یا۔ حجاب درّانی کی انگلیاں حرکت میں آگئیں۔ اسکرین پر اِنباکس میں تین دن پرانا رچرڈ کا بھیجا میل چمک رہا تھا۔ رچرڈ کی آئی ڈی میں ابھری ان کی تصویر دیکھنے کے بعد انہوں نے اِنباکس کھولا۔ کچھ دیر کے لیے جیسے ان کے قلب نے حرکت کرنی بند کردی ہو۔ کیفیت خوشی کی تھی مگر آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
’’رچرڈ سچ مچ تم بہت اچھے ہو۔ آخر تم نے میرے لیے وقت نکال ہی لیا۔‘‘
وہ سرشار تھیں، بشاش تھیں۔ مجاہد اور ملازمہ برق رفتاری سے کام میں لگ چکے تھے۔ گھر کی سیٹنگ تبدیل ہو رہی تھی۔ پردے بدلے جارہے تھے۔ فرنیچر اور فرش کی رگڑ رگڑ کر صفائی کی جارہی تھی۔ فریج کھانے کے سامانوں سے بھر چکا تھا۔ ایک ہفتے کی مسلسل تیاری کے بعد آخر وہ لمحہ بھی آیا جب حجاب درّانی مجاہد کے ساتھ رچرڈ تھامس کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ پہنچ گئیں۔ چہرہ تروتازہ، آنکھیں کھلی کھلی تھیں۔ دوستی اور محبت سے زیادہ ایک اپنے پن کے احساس نے حجاب درّانی کو ان کی موجودہ عمر کے دائرے سے کئی قدم پیچھے کھینچ لیا تھا۔ وہ رچرڈ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں ایئرپورٹ سے باہر نکل رہیں تھیں جیسے پیچھے کچھ گزرا ہی نہیں۔ نہ کوئی کڑواہٹ بچی تھی، نہ زندگی کا کسیلا پن تھا۔ غیرملکی صحیح مگر تھا تو اپنا ہی۔ ایسا اپنا جس کے ساتھ وقت گزارنا انہیں اچھا لگتاتھا۔ آج بھی اور گزرے ہوئے کل میں بھی وہ انہیں پسند کرتی تھیں۔ پسندیدگی کے لیے الفاظ میں اظہار ضروری نہیں ہوتا۔
رچرڈ کو نیا گھر پسند آیا۔ یہ حجاب درّانی کے لیے بے حد خوشی کی بات تھی۔ برسوں بعد انہوں نے اپنے دوست کی خاطر باورچی خانہ خود سنبھالا۔ نمک مرچ زیر زبر ہونے کے باوجود رچرڈ ان کے پکائے کھانوں کی خوب خوب تعریف کرتے۔ ان خوشی کے لمحوں میں سب سے اہم پل وہ تھے جب رچرڈ نے اپنا بیگ کھول کر وہ دعوت نامہ نکالا جس میں حجاب درّانی کا نام سنہرے حروف میں چمک رہا تھا۔ رچرڈ اِن دنوں جس پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے، دراصل وہ ان کی خود کی لکھی کتاب تھی، یہ کتاب ان کی زندگی کے سفرنامے کا ایک طویل منظرنامہ تھا جسے انہوں نے الفاظ کا جامہ پہنایا تھا۔ یوں تو کئی جگہ حجاب درّانی کا ذکر تھا مگر اس وقت حجاب کی آنکھیں حیرت میں ڈو ب گئیں جب انہوں نے کتاب کا مکمل ایک باب اپنے نام د یکھا۔ رچرڈ نے حجاب کے تئیں اس باب میں کھل کر اپنے صادق جذبے کااظہار کیا تھا۔ یہ وہ جذبے تھے جو کبھی زبان پر کھل کر نہیں آئے مگر تحریری شکل میں وہ بے نقاب تھے۔ حجاب درّانی جیسی پختہ عمر عورت بھی کتاب پڑھتے پڑھتے موم کی طرح خود کو پگھلتا محسوس کر رہیں تھیں۔ مگر ہمیشہ کی طرح خاموشی آج بھی تھی۔ رچرڈ کی آنکھوں میں سوال تھے اور حجاب ہربار نگاہیں جھکاکر جواب ٹال جاتی تھیں۔
رچرڈ کی روانگی کا دن آگیا۔ دعوت نامہ دراصل ان کی کتاب کے رسم اجرا کا تھا اور مہمان خصوصی میں حجاب درّانی کا نام تھا۔ رخصت ہونے سے پہلے رچرڈ نے ان سے کینیڈا آنے کا وعدہ لیا اور ہوائی سفر پر نکل گئے۔ مگر نکلنے سے پہلے جیسے رچرڈ نے حجاب درّانی کے خاموش سمندر میں چند کنکر پھینک دیے ہوں۔ پانی کی سطح پر ہلچل ہوئی، بلبلے اٹھے، چھوٹے چھوٹے دایرے پھیلے اور پھیلتے پھیلتے وہ سمندر کی سطح پرایک ہوگئے۔ حجاب نے سوچنا شروع کیا۔ بہت سوچا اور اپنی ہر سوچ کو رد کرتی چلی گئیں مگر سلسلہ تھما نہیں۔ ایسے کتنے سوال ان کے اندر اٹھے جن کے جواب ان کے پاس نہیں تھے پھر بھی وہ سوچتی رہیں۔۔۔ سوچتی رہیں۔۔۔ اور کینیڈا جانے کی تیاری بھی کرتی رہیں۔
ہوائی سفر ان کے لیے نیا نہیں تھا مگر جانے کیوں جیسے جیسے دن قریب آرہے تھے دل کی کیفیت ماشہ تولہ ہوئی جارہی تھی۔ والدین کے بعد وہ کوئی فیصلہ لینے سے پہلے رچرڈ سے رائے مشورہ لیا کرتیں تھیں مگر آج جب زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ لینا ہوا تو وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہیں تھیں مگر آج کا اکیلا پن گزرے وقتوں سے مختلف تھا۔
’’باجی! سارے سامان ایک جگہ رکھ دیے ہیں۔ آپ اپنی لسٹ سے سامان ملوالیجیے تو پیکنگ کردیں۔‘‘
مجاہد اور اس کی بیوی دونوں ان کے سامنے ملازم کی حیثیت سے کھڑے تھے اور وہ اپنی نگرانی میں سارے کام انجام دلوارہیں تھیں۔
’’یہ کیا باجی! اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’رکھ لو۔ مجھے واپس آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ تمہیں کوئی ضرورت پڑی تو کس کے پاس جاؤگی۔‘‘
حجاب درّانی نے 5000 روپیہ مجاہد کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
’’دیکھو، میری غیرموجودگی میں گھر کا خیال رکھنا۔‘‘
’’جی باجی آپ بے فکر رہیے۔‘‘ مجاہد کا جواب تھا۔
’’اب تم لوگ اپنے کمرے میں جاؤ، آرام کرو۔ صبح وقت پر آجانا تاکہ ایئرپورٹ پہنچنے میں دیر نہ ہو۔‘‘
سلام کرکے وہ دنوں باہر نکل گئے اور حجاب درّانی نے دروازہ بند کرکے ایک گہری سانس لی۔ اب ایک آخری کام اور بچا تھا، جسے پورا کرنے سے پہلے وہ اپنے جسم کی تھکان مٹانا چاہتی تھیں۔ نہانے کی خواہش جاگی اور وہ اپنا ٹاول گاؤن لے کر شاور کے نیچے پہنچ گئیں۔ پانی کی پھواروں نے کافی حدتک ان کو تروتازہ کردیا۔ دل شاد تھا، بار بار رچرڈ کا خیال آرہا تھا۔ نہانے کے بعد وہ خود کو کافی ہلکا محسوس کر رہیں تھیں۔ باہر نکل کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھیں۔ آئینے میں ان کا عکس تھا۔ بال گیلے تھے، چہرہ شاداب تھا، آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ انہوں نے ٹیبل پر اپنی دونوں ہتھیلیاں ٹکادیں اور جھک کر اپنا سراپا دیکھنے لگیں۔ مانا کہ ایک لمبی زندگی وہ گزار کر آئی تھیں مگر وقت اب بھی ان کی مٹھی میں تھا۔ ان کا یہی اعتماد کینیڈا کے سفر کے لیے ان کو گامزن کر رہا تھا۔
کافی کا مگ میز پر رکھنے کے بعد انہوں نے اپنی الماری سے ہینڈ بیگ نکالا اور اطمینان سے بیڈ پر بیٹھ کر بیگ سے ایک ایک اشیا نکالنے لگیں، وہ گنگنا رہیں تھیں، رات گزر رہی تھی اور زانو پر پھیلا ہوا سرخ تاش کا نکاحی دوپٹہ گوٹوں لچکوں سے وزنی ہوتا رہا۔ انہیں اپنے والدین بھی شدت سے یاد آرہے تھے جو ان کے سر پر سرخ اوڑھنی ڈالنے کا خواب لے کر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.