Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواب در خواب سفر

مسرور جہاں

خواب در خواب سفر

مسرور جہاں

MORE BYمسرور جہاں

    آگ اور خون کا بحر بیکراں پار کر کے اس کے قدموں نے نرم نرم دھرتی کو چھوا تو اسے اپنے دل میں ٹھنڈک سی اترتی محسوس ہوئی اور وہ دیر تک منہ اوندھائے وہیں بےحس و حرکت پڑا رہا۔ اپنی مٹی کی سوندھی خوشبو نے اس کی گدلائی ہوئی آنکھوں کو نم کر دیا۔ پھولوں جیسی معطر اور شبنم جیسی ٹھنڈی یہ مہک پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ یہ اس کا اپنا وطن ہے۔ یہاں کی زمین اور آسمان، چاند اور ستارے، ہرے بھرے کھیت اور سبک خرام ندیاں، سربہ فلک پہاڑ اور پھولوں سے بھری وادیاں، سب اپنی ہیں، یہاں کی ہواؤں میں ماں کی لوریوں جیسی شفقت ہے اور جھرنوں کے ترنم میں بہن کی چوڑیوں کی کھنک ہے۔ وہ پیاری پیاری ہستیاں، جنہیں وہ اپنے وطن کی خاطر کھو چکا تھا۔ یہ خسارہ ایسا نہیں تھا جسے بھلا یا جا سکتا اور نہ اس نقصان کی تلافی کی کوئی صورت تھی۔ تاہم وہ زندگی سے نا امید بھی نہیں تھا۔ لیکن وہ اس گھر جیسا ایک گھر بنا سکتا تھا اور اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے خوابوں میں بسنے والے ایک گھر کی تعمیر کرےگا۔ اسے بسائےگا، سجائےگا، سنوارےگا۔

    بسے بسائے گھر اجڑ جائیں تو ان کا دوبارہ بسنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن جذبے ایمان بن جائیں تو کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی اور اس نے بھی ایک گھر بنا لیا۔ اسے سجا سنوار کر ایک مکمل گھر کی شکل دے دی۔ برسوں کی محنت سے پھر کھیتیاں لہلہانے لگیں اور کھلیان اناج سے پٹ گئے۔ گاؤں، چوپال اور چوبارے، کوٹھے اور بروٹھے آباد ہو گئے۔ پنگھٹ پر رنگ برنگے آنچل لہرانے لگے۔ گداز کلائیوں میں چوڑیاں کھنکنے لگیں اور اس کی آنکھوں میں نئے خواب ایک بار پھر سج گئے۔

    وہ کام سے فرصت پاکر اپنے کھیت کی مینڈھ پر بیٹھا رہتا اور جھومتے لہراتے پودوں کو دیکھ کر خوشی سے اس کا روم روم مسکرا اٹھتا۔ جب گاؤں کی مسجد سے اذان اور مندر سے گھنٹیوں کی آواز بلند ہوتی تو وہ مضبوط اور پر اعتماد قدموں سے چل دیتا اور شام اترتے گھر میں داخل ہوتا۔ جس کا کچا آنگن اور پکا کوٹھا اس کے انتظار میں آنکھیں بچھائے ملتا۔ ننھے منے ہاتھوں کا لمس اسے دن بھر کی تھکن بھلا دیتا اور میٹھی میٹھی سر سراہٹ اس کی مضبوط چھاتی میں پیار بھری گدگدی بھر دیتی۔ دھانی کریلیاں اور سنہری بانکیں کھنک کر ساون کی آمد کا پتہ دیتیں اور اس کی آنکھوں میں سلونے مدھر سپنے سج جاتے۔ یہ خواب ہی تو اس کی عمر بھر کی ریاضت کا ثمر تھے۔ منی کی ڈولی اٹھنے کا خواب۔ بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانے کا خواب اور سنہرے رو پہلے خوابوں اور خوش رنگ سپنوں کا سلسلہ، رات ختم ہونے تک چلتا رہتا۔ وہ پہلو بہ پہلو لیٹے آسمان کے جگ مگ کرتے تاروں کو نہارتے رہتے۔ ان کے دکھ سکھ کی طرح ان کے خواب بھی سانجھے تھے۔ ان کی سانسوں کی ڈور کچھ اس طرح بندھی تھی کہ ان کے بیچ کے سارے فاصلے خود بخود ختم ہو گئے تھے۔ ہر فصل پر منی کے لئے زیور گڑھواتے ہوئے وہ بڑے پیارے منی کو دیکھتا۔ جو پور پور کر کے اونچی ہوتی جا رہی تھی اور انہیں شہنائی کی مدھر آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ وہ دن بھی دور نہیں تھا۔ جب ان کی منی شہانہ جوڑا پہنے۔ پھولوں سے سجی۔ خوشبوؤں میں بسی ان کی دہلیز پار کر کے اپنے ساجن کے گھر سدھار جائےگی۔ ‘‘ہم تو بابل تورے آنگن کی چڑیا۔‘‘

    ’’کاہے کو بیاہی بدیس‘‘ اور یہ ’بدیس‘ ایک دن اس کا اپنا گھر بن جائےگا۔ سدا سے یہی ہوتا آیا ہے۔ سو وہ بھی منی کو بیاہ دیں گے۔ ان کا بیٹا بھی پرائمری سے جست لگا کر مڈل اسکول میں پہنچ گیا تھا۔ پھر ہائی اسکول اور وہاں سے شہر کے کالج جاتے، جاتے وہ پورا جوان ہو جائےگا۔ ان کے خوابوں کی تعبیر ملنے میں بس تھوڑا سا وقت باقی تھا۔ جب اچانک ایک رات ان کے گاؤں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہر طرف آگ تھی، خون تھا اور آہ بکا تھی۔ سورج نے آنکھ کھول کر دیکھا تو سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ کھیت میں تیار کھڑی فصلیں خاک ہو گئی تھیں۔ کھلیانوں میں خاک کے ڈھیر لگے تھے۔ چوپال ویران تھی۔ کوٹھے اور بروٹھے ویران پڑے تھے۔

    اس کے کچے آنگن میں دھانی کریلیاں اور سنہری بانکیں کرچی، کرچی ہو کر بکھری پڑی تھیں۔ وہ سانولی گداز کلائیاں ننگی ہو چکی تھیں اور سارے خواب بند پلکوں تلے دم توڑ چکے تھے۔ منی کی تار تار اوڑھنی اس کی گردن میں جھول رہی تھی۔ بس وحشت زدہ آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں۔ بربریت کا ننگا ناچ اس کی آنکھوں سے پیا کے دیس جانے کا سپنا نوچ کر لے گیا تھا اور اس کا بیٹا اپنے ہی خون میں ڈوبا پڑا تھا۔ اس کی چڑھتی جوانی کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ڈوب گیا تھا اور اس کے سارے خواب کچے رنگوں کی مانند دھل کر یہاں وہاں پھیل گئے تھے۔

    وہ اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے یہ سارے منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کے ارمانوں کا نگر اجڑنے میں کتنا کم وقت لگا تھا۔ بستے بستاتے تو اس کی عمر کا بڑا حصہ صرف ہوا تھا۔ لیکن بربادی کا ایک پل، صدیوں پر حاوی ہو گیا تھا۔ وہ اپنے بے جان قدموں کو گھسیٹتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔ چلتے چلتے کئی یگ بیت گئے۔ سورج کتنی بار نکلا اور ڈوبا اسے کچھ یاد نہیں تھا۔ یاد تھی تو بس اماوس کی وہ کالی رات، جب اس کے خواب اس سے چھن گئے تھے اور ایک دن اس کے قدموں نے ایک اجنبی زمین کو چھوا تو وہ چونک پڑا۔ نہ وہ کھیت کھلیان تھے۔ نہ وہ کچا آنگن تھا۔ اس کی زمین اور اس کا آسمان بھی نہیں تھا۔ نہ ہواؤں کی لوریاں تھیں، نہ جھرنوں کا ترنم تھا۔ اوپر اجنبی آسمان تھا اور قدموں تلے نا مانوس زمین تھی۔ ہر چہرہ پرایا تھا۔ ہر بولی پرائی تھی۔ یہ بےحس پتھر چہرے، یہ بے رحم آنکھیں، اس کے اپنوں کی تو نہیں تھیں۔ زندگی کی تہمت بھی ناقابل براداشت تھی۔ پھر بھی وہ زندہ تھا۔ اس کی آتی جاتی سانسیں اسے زندہ رکھے تھیں اور دل دھڑک دھڑک کر جینے کا اعلان کر رہا تھا۔ موت اسے چھوئے بغیر ہی آگے بڑھ گئی تھی۔ شاید وہ بھی اجنبی بن گئی تھی۔ اگر وہی مہربان ہوتی تو وہ صدیوں کی مسافت طے کرنے سے بچ جاتا۔ لیکن جب آبلہ پائی مقدر بن جائے تو راستے زنجیر بن کر پاؤں سے لپٹ جاتے ہیں۔ ایک زنجیر اسے بھی کشاں کشاں یہاں لے آئی تھیں۔

    اس نے جھٹک کر دونوں ہاتھوں میں مٹی اٹھا لی کہ شاید اس کی سوندھی مہک اسے اپنائیت کا احساس دلا سکے۔ کیوں کہ مٹی کا رنگ تو ہر جگہ کا ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن وہ بھی اس کے ہاتھوں سے بھر بھرا کر پھسل گئی۔ وہ خالی ہاتھ رہ گیا اور جب ایک ماں نے بیٹے کو پہچاننے سے انکار کر دیا تو وہ ’مہاجر‘ کہا گیا۔ اس کا دل چاہا کہ چلا چلا کر سب کو بتا دے کہ اس نے کیا کچھ نہیں گنوایا ہے اور اس کے صلے میں اسے اتنی گندی اور گھناؤنی گالی سے نوازا گیا ہے۔ اس گالی کے تیر اس کے زخمی کلیجے کو چھو گئے۔ اس کی روح کو زخمی کر گئے۔ لیکن اس کے پاس اب فرصت کے لمحات کم تھے اور کام زیادہ تھا۔ اسے تو نئے سرے سے زندگی شروع کرنا تھی۔ سانسوں کی ٹوٹی ہوئی ڈور کو جوڑنا تھا اور نئے رشتے استوار کرنا تھے۔ زندگی کی ارزانی اس کی قدر و قیمت گھٹا دیتی ہے۔ لیکن اس نے حوصلہ نہیں ہارا۔ ایک بار پھر اس آنکھوں میں کچھ خواب در آئے تھے اور خواہشیں من میں ڈیرھ ڈال کر بیٹھ گئی تھیں۔ ’وہ‘ بھی اس کی طرح مہاجر تھی اور اپنے پیچھے سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی۔ شوہر اور بچے۔ ایک بھرا پرا گھر۔ ہنستا کھیلتا خاندان تھا، جو خاک و خون میں ہمیشہ کے لئے گم ہو چکا تھا۔ اس نے چاہا کہ اس کا دکھ بانٹ لے۔ لیکن جب انہوں نے اپنے اپنے دکھوں کا حساب کیا تو وہ شرمندہ ہو گیا۔ اس کے مقابلے میں تو وہ ایک کمزور ہستی تھی اور دکھ بےحساب تھے۔ اس کی ننگی کلائی تھام کر وہ اسے بہت پیچھے لے گیا۔ جہاں کچے آنگن میں دھانی کریلیاں اور سنہری بانگیں کرچی کرچی ہو کر بکھری پڑی تھیں۔ منی کی تار تار اوڑھنی، انسانی درندوں کی بربریت کی کہانی سنا رہی تھی اور اس کا بیٹا بھیگتی مسوں پر موت کا پسینہ اوڑھے سو رہا تھا۔ قدم قدم پر انسانی خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور کھیتیاں جھلس کر راکھ ہوگی تھیں۔ ایک قدر مشترک تھی جس نے انہیں ایک ڈور میں باندھ دیا تھا۔ ہر چند سونی کلائیاں چوڑیوں کی کھنک سے بےنیاز تھیں لیکن ان میں ابھی سہارا دینے کا بانکپن زندہ تھا۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر ایک نئے سفر پر نکل پڑا۔ راستے ناہموار تھے۔ جا بجا زبان کی کھائیاں تھیں۔ تہذیب اور اقدار کی اونچی اونچی دیواریں تھیں۔ اعلیٰ اور ادنیٰ کا فرق آڑے آ رہا تھا۔ پھر بھی اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ ایک پڑاؤ کو منزل کا نام دیا اور بھر بھری، ریتیلی زمین پر چار دیواریں کھڑی کر کے ان پر چھت ڈال دی۔ کمزور بنیادوں پر بنا ہوا یہ مکان ان کے وجود سے آباد ہو گیا۔ اجڑ کر بسنا انسانی فطرت ہے۔ وہ ایک تناور درخت و آسمان کے بیچ معلق رہنے سے یہ بہتر تھا کہ وہ ازسر نو پنپنے کی کوشش کرے سو اب یہ تناور درخت آہستہ آہستہ جڑیں پکڑتا جا رہا تھا۔ اس میں آرزوؤں اور خواہشوں کی نئی نئی کونپلیں آ رہی تھیں اور یقین و اعتماد کے پھول کھل رہے تھے۔ سونی کلائیوں میں دھانی کریلیاں سنہری بانکیں کھنکنے لگی تھیں اور دھنک رنگ خوابوں سے شبستان سچ گئے تھے۔ منی اور منا، دوبارہ جنم لے چکے تھے اور ان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوابوں کے رنگ بھی پکے ہوتے جا رہے تھے۔ اب وہ کچے رنگوں سے دھوکہ نہیں کھا سکتے تھے۔ تجربے کی آنچ میں پک کر اور حالات کی بھٹی میں تپ کر ان کا کمزور وجود فولاد کی مانند مضبوط ہو گیا تھا اور سردو گرم جھیلنے کی طاقت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی تھی۔ جس دن منی دلہن بن کر بابل کے آنگن سے رخصت ہو کر ’پی‘ کے گھر سدھاری اس دن انہیں اپنے خوابوں کی پہلی تعبیر مل گئی۔

    منا بھی اب کالج کا طالب علم تھا۔ اس کے مضبوط اور توانا بازو تیز و تند ہواؤں کا رخ موڑنے کی قوت رکھتے تھے اور اسے دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ وہ شکست کھانے کے لئے نہیں شکست دینے کے لئے پیدا ہوا ہے۔ اس کی چوڑی چھاتی میں نہ جانے کتنے آتش فشاں پوشیدہ تھے۔ جو کسی وقت بھی لاوا اگل سکتے تھے۔ وہ اسے نظر بھر کر نہیں دیکھتے تھے۔ کہ کہیں ان کے خوبرو اور جوان بیٹے کو ان کی نظر نہ لگ جائے۔ وہ ان کے برسوں کے خوابوں کی تعبیر تھا اور وہ اسے کسی قیمتی اثاثے کی طرح سنبھال کر رکھنا چاہتے تھے اور ایک دن اچانک انہیں اس کے ہاتھوں میں کلاشنکوف نظر آ گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے اور انہیں اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک کے بجائے موت کے سائے رقصاں نظر آ رہے تھے۔ ان کے جوان اور خوبرو بیٹے کے ہاتھ میں کلا شنکوف کس نے تھما دیا تھا۔ کیا اس کے ذمے دار وہ لوگ تھے جنہوں نے نئی نسل کو للکارا تھا اور انہیں ’مہاجر‘ کہہ کر ذلیل کیا تھا؟۔ یا پھر وہ لوگ جنہوں نے پرانی نسل کو غدار کہہ کر سرحد کے اس پار دھکیل دیا تھا۔ ان کا قصور تو بس اتنا تھا کہ وہ بار بار ہجرت کا عذاب سہنے پر مجبور کئے گئے تھے۔ لیکن یہ کلاشنکوف تو ان کے مسائل کا حل نہیں ہو سکتا؟ وہ اپنے بیٹے کو بھی بار بار یہی بات سمجھاتے تھے۔ لیکن اس کی رگوں میں تو خون کے بجائے گرم گرم لاوا بہہ رہا تھا۔ وہ ان کی کوئی تاویل ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اسے اپنی شناخت پر اصرار تھا۔ وہ اس مٹی کو اپنی پہچان ماننے پر مصر تھا۔ باپ کے کھیتوں اور کھلیانوں سے اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ وہ اس مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے بھی ناواقف تھا۔ ان ہواؤں، پہاڑوں اور جھرنوں سے اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کا خمیر تو اسی مٹی سے اٹھا تھا اور اسی میں مل کر فنا ہونا تھا۔ سو وہ سچ مچ فنا ہو کر اپنی بات کو صحیح ثابت کر گیا۔

    بیٹے کی قبر پر مٹی ڈال کر وہ تھکے تھکے قدموں سے اس چہار دیواری کی طرف چل پڑا۔ جس کو اس نے اپنا گھر سمجھا تھا۔ لیکن آگ کے شعلوں نے اور گاڑھے سیاہ دھوئیں نے اس گھر کو چھپا لیا تھا۔ نفرت اور تعصب کی آندھی نے تنکا تنکا کر کے بنایا ہوا آشیانہ ایک پل میں جلا کر خاک کر دیا تھا۔ کچے آنگن میں دھانی کریلیاں اور سنہری بانکیں کرچی کرچی ہو کر بکھر گئی تھیں۔ وہ سانولا اور گداز ہاتھ جھلس گیا تھا، جس نے اسے سہارا دیا تھا اور نئی زندگی کی اجنبی راہوں پر اس کا ساتھ دیا تھا اور اب وہ لق و دق، بے آب و گیاہ صحرا میں تنہا کھڑا تھا۔

    خواب در خواب ایک سفر تھا۔ مسلسل سفر، لیکن منزل اب بھی دور تھی اور اس کے پاؤں چلتے چلتے شل ہو چکے تھے۔ اس کے سارے خواب ریزہ ریزہ ہو کر اس کی آنکھوں میں چبھ رہے تھے۔ لہو رنگ آنکھوں میں سارے منظر سرخ ہو گئے تھے۔ اس نے تھکن سے بےحال ہوکر آنکھیں موندلیں۔ بند پلکوں تلے کوئی خواب نہیں تھا۔ کوئی رنگ نہیں تھا۔ بس چند آنسو تھے۔ جو اس سے بغاوت کر کے پلکوں سے باہر آ گئے تھے اور وہ انہیں دیکھ کر مسکرا دیا۔ یہ اداس سی مسکراہٹ اس کی ساری زندگی کے خوابوں کی تعبیر ہی تو تھی کیوں کہ اسی مسکراہٹ پر اس کے سفر کا اختتام ہو چکا تھا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے