خواب
میں نے دروازہ کھولا۔ اندرداخل ہوا۔ میں نے اسے پکارامگروہ چپ چاپ لیٹی رہی۔ ایک بار اورپکارا، پھربھی نہیں اٹھی۔ اس لیے میں باہرچلاآیا۔
ٹیکسی ڈرائیور سے کہا، ’’تم جاسکتے ہو۔‘‘ وہ ناامیدہوکرچلاگیا۔
تنکم کوکیاہوا۔ نو بج گئے پھربھی وہ نہیں اٹھی۔ کل رات کہا تھا کہ سویرے ہی ڈاکٹرکے پاس جاناہے۔ میں نے سوچا کہ جتنی دیرمیں ٹیکسی لے کرآؤں گا، تیارملے گی۔ رات سوئی نہ ہوگی۔ پھراسے کسی دوسرے ڈاکٹرکے پاس لے جاؤں۔
کل آدھی رات گذرنے پربھی تنکمنی کونیند نہیں آئی۔ وہ لیٹی لیٹی اپنے آپ کوکوستی رہی۔ کاش میں پیدا نہ ہوئی ہوتی تواچھا تھا۔۔۔ مگراس آرزوسے کیافائدہ؟پیدائش توہوچکی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالاتب ہی سے وہ ایسا سوچتی رہتی، ’’اس رات کوہی مرجائیں تو۔۔۔ نہیں توکل سویرے ڈاکٹر کے پاس جانے پرساراگل کھلے گا۔ پوشیدہ باتیں ظاہرہوجائیں گی۔‘‘
شوہراسے چھوڑدے گا۔
کچھ بھی سوچ نہیں پاتی۔
پڑی پڑی کروٹیں بدلتی رہی۔ یادیں بیدار ہوتی رہیں۔
اسکول میں پڑھنے کے دوران اسے فخرتھا۔ کافی جائدادہے۔ کافی زیورات ہیں۔ اپنی سب سہیلیاں غریب ہیں۔ وہ اسے کالی کلوٹی اورکوتاہ قد کہتی تھیں۔ تب وہ غصہ میں آکر گالیاں دیتی تھی۔ جب سب کچھ سمجھ میں آیا تب اس نے شکست مان لی۔ وہ کالی کلوٹی ہے، کوتاہ قد ہے، بدصورت ہے، اس لیے کوئی بھی لڑکا اسے دیکھتا تک نہیں۔
سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کے وقت سب لڑکے دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ کیا مردکوکالے رنگ سے اتنی نفرت ہے؟کوتاہ قد، بدصورت ہے، پھربھی ایک باردیکھنے میں کیا نقصان ہے؟زندگی میں کسی سے ایک طائرانہ نظربھی نہ ملی اسے!
سبھی سہیلیوں سے حسد ہوتاتھا۔ خاص طور پر رماسے، اس کے پاس نہ نفیس کپڑے ہیں اور نہ زیورات۔ پربھی لڑکے اسے حسینہ مانتے ہیں۔ اس کی طرف دیکھتے ہی لطف اندوزہوتے ہیں۔ ان سب سے اس کونفرت تھی۔ مردوں اورحسین عورتوں سے ایک طرح کی نفرت۔
رنگ گورا نہ ہونے کی وجہ سے اسے بڑا دکھ ہوتاتھا۔ درازی قد اورحسن کی کمی کے باوجود گھروالوں کادیاہوا نام جانتے ہیں؟تنکمنی اورتنکم (زرخالص) کیساحسین نام ہے۔ خیرجن لڑکوں نے ابھی تک نہ دیکھاہے انہیں دھوکا دیناآسان ہے، اتنا ہی۔
اسکول کی تعلیم کے ایام میں آئینہ کے سامنے کتنے ہی گھنٹے گذارا کرتی تھی۔ خوب پاؤڈر لگایاکرتی، لیکٹوکیلامائن تھوپتی۔ ہاربدل بدل کرپہنتی۔ کانوں میں کبھی دائرہ نما آویزے کبھی تارے اورکبھی لٹکے بندے۔
نہایت لمبے بال تھے، یہ اچھا تھا کیونکہ اورکچھ نہ سہی، جوڑابناسکتی تھی۔ اونچی ایڑی کا جوتا پہناکرتی تھی تاکہ قد میں اونچی دکھائی دے۔
اتناسب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ مطمئن نہیں تھی۔ ان سب سے کوئی فائدہ نظرنہیں آتا۔
وہ جتنی ہی آرائش وزیبائش کرتی تھی، اتنی ہی بدصورت لگتی تھی۔ سہیلیاں صرف تماشے کے لیے اس کی ہنسی اڑاتی تھیں۔ ’’کالی کلوٹی، کوتاہ قد‘‘ کہہ کرپکارناکیسے تماشانہیں بن سکتا۔ ان کی بات میں صداقت ہے نا؟وہ کالی کلوٹی ہے، کوتاہ قدہے۔ بدصورت ہے۔ نام تنکمنی ہے یہ سب سچ ہے نا؟
آخردل بیٹھ گیا۔ سب تزئین وآرائش ترک کردی۔ عورتوں کے پاس خواہ جائدادنہ ہو مگر حسن ہوناضروری ہے۔ گھرکی ملازمہ ماگھولی بھی مجھ سے گوری ہے اورحسین بھی۔ اس کی عمر پینتیس سال ہے تب بھی حسن پھیکا نہیں پڑا۔
کوئی بھی اس کی طرف دیکھے گا۔ تب تووہ مادھوی سے بھی۔۔۔
دسویں درجہ میں کامیابی کے بعدوالدصاحب نے فرمایا، ’’بیٹی!تمہیں اب پڑھنا نہیں ہے۔ امتحان میں کامیابی حاصل کرکے نوکری کرناگذارہ کے لیے ضروری بھی تونہیں۔‘‘
اس بات سے اسے اطمینان ہواکہ چلواب تعلیم توختم ہوئی۔ وہ آرام سے گھرپررہے گی۔ سہیلیوں کی شادی کے دعوت نامے ملتے رہے۔ کسی کے یہاں نہیں گئی۔ کسی کو بھی مبارک باد نہیں دی۔ پہلے بھی کسی سے زیادہ باتیں کرنے کی عادت نہیں تھی، خاص کرمردوں سے۔ ہمسایہ کے گھروں میں بھی نہیں جاتی تھی۔ تنہائی پسند تھی۔ بھائی بہن توتھے نہیں۔ گھر کے کاموں میں لگارہنا بھی ضروری نہیں تھا۔
والدمحترم ریاحی مرض میں مبتلاتھے۔ گھرکے کاموں کااہتمام ماں ہی کی نگرانی میں ہوتا۔ ان حالات میں اس کے تنہائی کی زندگی گذارنے میں کوئی خلل پڑتا ہی نہ تھا۔
ایک رات نیند میں وہ خواب سے چونک پڑی۔ ایک مرد نے اس سے شادی کرلی ہے۔ کچھ دنو ں کے بعد اس کوپتہ چلاکہ وہ بانجھ ہے تب اس نے اسے چھوڑبھی دیا۔
خوفناک خواب۔ وہ ایک چیخ کے ساتھ جاگ اٹھی۔ تاریکی میں ٹٹولتی رہی۔ بھاگتے شوہر کوروک رکھنے کے لیے۔
ایسا دردناک خواب دیکھ کرپھراس رات کواسے نیندنہیں آئی۔ وہ فکرمیں پڑگئی۔ ایک مردکا اس سے شادی کرناکتنی خوشی کی بات تھی۔ مگرکچھ دنوں کے بعد چھوڑدینا، یہ جاننے پرہ وہ بانجھ ہے۔ آہ! کیا حقیقت میں وہ بانجھ ہے؟
خواب کبھی کبھی حقیقت بن سکتاہے نہ؟خواب میں کبھی کبھی سچائی ہوتی ہے۔
تب اس کی زندگی کا کیا ہوگا؟
نسل کا تسلسل اس کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔
وہ سلسلہ نسل کی آخری زنجیربنے گی۔
اس نے متفکردل کے ساتھ التجاکی، ’’میرے گرووایورپّامیری حفاظت کرنا۔‘‘ دل میں ہمیشہ ایک ہی فکر رہتی ہے۔ وہ بانجھ ہے۔ وہ اسی خواب کی فکرمیں وقت گذارتی رہی۔ یہ سوچ کراس کوکچھ اطمینان ہوتا تھا کہ اسے کم از کم تنہائی کا آرام توہے۔
مردوں سے نفرت ہونے لگی۔ ان سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ بات بھی کرنے کودل نہیں چاہتا تھا۔ کتنی بارنوکرکے پوچھنے پرہی وہ جواب دیتی تھی۔ ان کی خواہشیں بھی بہت سی تھیں۔ وہ بھی ایک عورت ہے نا؟دنیا اوردنیاوالوں کے بارے میں ناقدری کا جذبہ۔ زندگی کے تئیں سردجذبہ۔
تفکرات کے بحرناپیداکنارپربندباندھنے اور اس کی رفتار کوروکنے کی کوشش کرتی ہے۔ نتیجہ کے طورپر اس کابہاؤ اس میں جذب ہوکرختم ہوجاتاہے۔ آنکھیں بند کرکے جھکالیتی، تب وہ درناک خواب پھر یادآتاہے۔ شوہرکی مطلقہ یتیم ایک بانجھ روایت نسل کوآگے بڑھانے سے عاجز عورت، یادکرنے کے وقت دردکا ایسا احساس ہوتاہے کہ وہ دردمیں پوری طرح سے گھل گھل کرسراپادرد بن جاتی ہے۔
اس وقت ہرجگہ تاریکی ہوجاتی ہے۔ صرف تاریکی اوردرد۔ وہ درد بن رہی ہے۔ تاریکی بن رہی ہے۔ پھرانسان کی شکل میں بدلتی ہے۔ تبھی مشکلات کا احساس کرتی ہے۔ سراپاتاریکی بن جاتی ہے۔ دردبن جاتی تو اسے ان کی ہمدردی نہیں ہوتی۔
تنہائی میں غرق ہوجانے میں آرام ہے۔ ہرجگہ سوناپن ہے نا؟وہاں وہ بھی سونی بن جاتی ہے۔ وہ ایک قسم کی نجات ہے۔ وہ خودکوبھول کرصفر بن جاتی ہے۔ تاریکی بنتی ہے پھرانسان کی شکل میں بدل جاتی ہے۔ اس طرح دردجسم اوردل کوکھارہاہے۔
والدین کوغم کااحساس ہونے لگا۔ لاڈلی بیٹی کیوں اس طرح سوکھتی جارہی ہے۔ آنے جانے والوں نے کہا، ’’شادی نہ ہونے کی وجہ سے سوکھتی جارہی ہے۔‘‘
اُف اس کی وجہ شادی نہ ہونا ہے۔ تب اس کاکیا حال ہوجائے گا۔ اس کے دل پر سوزکاحال کس کومعلوم ہے؟
والدکے باربار کہنے پرایک ڈاکٹرکے پاس گئی۔ وہ ایک ماہرنفسیات تھے۔ اس نے اس ڈاکٹرکودل کھول کرسب کچھ بتایا۔ اس نے خواب کی بات کابھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے اس کے دل کی تہہ کی بات جان لی۔ مفصل طبی معائنہ بھی کیاگیا۔ اس کے بعدانہوں نے کہا، ’’دماغی صدمہ ہی جسمانی کمزوری کاسبب ہے۔ ایسی ویسی باتیں سوچ کردل کو بے کارنہیں کرناچاہئے۔‘‘
ایک ٹانک کا نسخہ لکھ دیااورکہا، ’’ایک ڈاکٹرکی حیثیت سے میں تمہیں ایک واضح مشورہ دیتاہوں۔ برا مت ماننا۔‘‘
’’تم شادی کبھی مت کرنا۔‘‘
انہوں نے اورجوکچھ کہا وہ سب کچھ پورا سن نہیں سکی، اسے چکرآگیا۔
گھرپہنچی اورگھرجاکر سب سے یہی بتایاکہ دماغی صدمہ ہی جسمانی کمزوری کا سبب ہے۔ شادی نہ کرنے کی صلاح کسی کونہیں بتائی۔ اس نے سوچا کہ وہ رازکوئی بھی نہ جانے۔ وہ اسی کے دل میں رہے، جل کردھواں بنے، اس سے مرجاناہی بہترہوگا۔
ٹانک اوردوائیوں سے الماری بھرگئی۔ وہ کوئی دوالیتی ہی نہیں تھی۔ دل کا دردشدید ہوتا گیا۔ وہ تنہائی میں بیٹھ کر جل جل کر راکھ ہوتی رہی۔ خواب حقیقت بن گیا۔ ایسا خواب جس نے زندگی کوروندڈالا۔ ایسا خواب جوروندتا رہتاہے۔ ایسا خواب جس نے دماغی سکون کا گلا گھونٹ ڈالا۔ ایسا خواب جس نے مجھے سمجھادیاکہ نسل کوآگے بڑھانے کی طاقت وصلاحیت مجھ میں نہیں ہے۔ کاش! میں خواب نہ دیکھتی۔
ایک دن والدہ نے دیکھ لیا کہ میں گلاس میں ٹانک لے کرچھپے چھپے صحن میں پھینک رہی ہوں۔
’’بیٹا! توکیوں اس طرح دوائیاں پھینک دیتی ہے۔ ان کے پینے سے ہی تجھے فائدہ ہوگا۔‘‘
پھرماں کے التماس پردوائیاں پینی پڑیں۔ ماں پاس بیٹھ کرپلانے لگی۔
سالوں سے بیمارپڑے والدصاحب کی طبیعت روزبروزخراب ہوتی گئی۔ لیکن اس کا بدن صحت مندہونے لگا۔ ماں کی خدمت اورلگن سے ہی ایسا ہواہوگا۔ ٹانک صحت افزاہوتے ہیں۔
اس کے دل میں تاریکی اورجدوجہدہے۔ وہ روشنی کی خواہش کرتی ہے۔ اس کے لیے ترستی ہے۔ لیکن ان سب کے لیے وہ لائق نہیں۔ آخرتاریکی ہی فتح کی ہوتی ہے۔ زمین پرروشنی پھیلتی ہے، مگروہ روشنی دل کوروشن نہیں کرتی۔ جیسے سیاہ بادل سورج کونگل لیتے ہیں ویسے ہی تاریکی روشنی کو۔
وہ کئی شکلوں میں بدلتی ہے۔ درد، عدم وجود اورتاریکی۔ باپ کی مجبوری ناقابل برداشت ہوگئی۔ اکلوتی بیٹی ہے۔ مرنے سے پہلے شادی دیکھنے کی ان کی خواہش۔ اب بیماری سے نجات پاکر صحت مندہوئی۔ وہ آنسوپی کررہ جاتی ہے کہ وہ صحت مندکیوں ہوئی۔
ماں تیاری کرنے لگی کہ والدکی خواہش کی تکمیل کرنی ہے۔ اس میں بھی امیدوں کی نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ مگروہ دیدہ ودانستہ ایک مردکوکیسے فریب دے گی۔
سچ با ت بتاؤں تو؟والدین فکراورمرض سے مرجائیں گے۔
والدپھر بھی مجبورکررہے ہیں۔ ایک دن قریب بلاکرسہلاتے ہوئے کہا، ’’بیٹامرنے سے پہلے مجھے تیری شادی کرنی ہے۔ میری کوئی اوربیٹی بھی نہیں جس کی شادی دیکھ سکوں۔‘‘
اس نے کچھ نہیں کہا، خاموش رہی۔
پھربھی آخرمیں والدین کی خواہش کے آگے سرجھکاناپڑا۔ دل میں جدوجہدتھی۔
لڑکالڑکی دیکھنے آیا۔ جب اس کے سامنے آئی توسرچکرانے لگا۔ مگروہ وقت کسی نہ کسی طرح ٹھیک سے گزرگیا۔
شادی طے ہوئی۔ شادی کا دن آیا۔ لڑکے نے جب منگل سوترباندھاتب پھرسرچکرانے لگا۔ دل میں اندرونی کشمکش ہوئی۔ اس نے سوچا کہ اگروہ سچ کوچھپائے گی، غلطی کرے گی۔ فریب دے گی۔
ایک باراورسچ کی ہارہوئی۔ بھابی پیچھے سے اسے پکڑے رہی تاکہ منگل سوتر باندھنے کے وقت وہ گرنہ پڑے۔ جومنحوس ونامبارک ہونے والاتھا وہ اس سے بچ گئی۔
پہلی رات کووہ خواب گا ہ میں جاکرچپ چاپ بیٹھ گئی۔ شوہرانتظار میں کرسی پربیٹھارہا۔ دونوں بہت دیرتک خاموش رہے۔ آخر میں انہوں نے پکارا۔
’’تنکم۔۔۔‘‘
وہ کچھ نہ بولی۔
ایک بارپھرپکارا۔ وہ بیٹھی نیچے کی طرف دیکھتی رہی۔ وہ قریب آئے۔ انہوں نے اس کے جسم کو اس طرح لمس کیاگویاکوئی پھول چھورہاہو۔ پھربھی بے حس وحرکت بیٹھی رہی۔ ان کی امیدوں پرپانی پھرگیا۔
دل کا تصادم کم نہ ہوا۔ اس نے دل میں سوچا کہ غلطی کی ہے مگرسچائی کچھ دیر کے لیے ہارگئی اور دل کے جذبات اس پر حاوی ہوگئے۔
ہفتے اورمہینے گزرگئے۔ مامتا سے بھری عورتوں اورحاملہ عورتوں سے اسے نفرت ہونے لگی۔
اس کی سہیلی روزی کی شادی اس کی شادی کے دن ہی ہوئی تھی۔ وہ ہمسایہ تھی۔ اس عرصہ میں اس کے دوبچے پیداہوچکے۔ ماں بننے سے پہلے اس کو جوشبہ تھا وہ اب کم ہوگیا۔ اس کے دلارے بچے کوگھرلانے کے وقت شوہر اورساس اسے دلارکرتے تھے۔ اسے دیکھ کر اسے نفرت ہوتی تھی، بچے اورروزی سے۔ وہ اندر کے کمرے میں جاکربسترپرلیٹ کرسسک سسک کرخاموشی سے آنسوپونچھتی رہی۔
اس نے سنا کہ روزی کے یہاں ایک اوربچے کی دلاوت ہوئی ہے لیکن پھربھی اس کے گھرجاکر اس سے نہ ملی۔
شوہرکی ماں اکثرطعنہ دیاکرتی تھی۔ ہمسایہ کے بچوں کوبڑے پیار سے چمکارا کرتی، بوسہ لیتی اورکبھی کبھی اپنے بیٹے کی گود میں بچے کودے دیاکرتی۔ یہ سب و ہ چھپ کردیکھا کرتی تھی۔
شادی کوپانچ سال گذرگئے۔ آج بھی شوہراسے نئی دلہن کی طرح مانتاہے۔ اسے پیارکرتاہے کیونکہ اس میں پیارہے۔ وہ اسے بھی پیارکرتی ہے کیونکہ پیارکرنے کووہ مجبور کی گئی تھی۔
تنہائی، درد اورتاریکی ہمیشہ اسے گھیرے رہتے۔
کئی رازدل میں چھپارکھے ہیں۔ افشاہوجائیں تو؟ اتنے دنوں تک وہ روروکردن کاٹتی تھی۔ آخرکل رات کو۔۔۔ ماں برآمدے میں بیٹھی والد کی ٹوٹی عینک سے بھگوت پڑھ رہی تھی۔ شوہرخواب گاہ میں چلاگیا، جس کامطلب تھا سونے کا وقت ہوگیا۔ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے گئی۔ روزانہ کی طرح بال کھول کراورسنوارکرذرااوپر کرکے جوڑابنایا۔
تب شوہر نے اسے سینہ سے لگاکرآہستہ سے کہا، ’’تنکم!‘‘
اس نے بھی آہستہ آوازمیں کہا، ’’ہاں!‘‘
’’تو مجھ سے پیا رکرتی ہے نا؟‘‘
’’کیسی بات پوچھتے ہو؟‘‘
’’تومیری بات مانے گی؟‘‘
’’ہاں!‘‘
پھرتھوڑی دیر تک کچھ بھی نہ بولے۔
وہ فکرمیں پڑگئے۔ گہری سوچ میں شایدطلاق دینے کی بات سوچ رہے ہوں گے۔
اگرایسا ہوا تواچھا ہی ہے۔ کم از کم ان کا مستقبل توسنورجائے گا۔ چارسال گزرنے پر بھی انہیں بچہ حاصل ہونے کا خوشگوارموقع نہیں ملا۔ شاید اس کے بارے میں وہ غور کررہے ہیں۔ ورنہ وہ اتنے سنجیدہ اورپرسکون نہ بیٹھے ہوتے۔
اسے آغوش میں لے کرکہا، ’’کل سویرے ہم ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔ شادی کوچارسال گذرگئے۔ ہم پتہ توچلائیں کہ آخربات کیاہے؟‘‘
یہ سن کروہ چونکی۔
اس کے لبوں سے اپنے لبوں کوالگ کرنے کی کوشش کی۔
کچھ نہیں کہاکہ جائیں گے یانہیں۔ کل اس کے بارے میں آخری فیصلہ ہوجائے گا۔ سب کچھ ظاہرہوجائے گا۔
دل دھڑکنے لگا۔ وہ فکرمند ہوگئی، دل میں سوچاکہ کیا اچھاہواگرموت آجائے۔
یادنہیں کتنی دیرتک وہ یوں لیٹی رہی۔ گھنٹے کے دوباربجنے کی آوازاس نے سنی۔ شاید یہ گھنٹی بھی درد سے پریشان ہے۔
پیاس لگی۔ ایک گلاس پانی پینے اٹھی۔ اس نے اپنے جسم پرسے اپنے شوہر کا ہاتھ آہستہ سے ہٹایا۔ وہ خراٹے لے رہے تھے۔
دوگلاس پانی پیا۔ پھرآکرلیٹ گئی۔ بخارسا لگا۔ تھوڑی سی سردی بھی لگی۔ دل میں بہت سے درد تھے۔ تاریکی بڑھ گئی۔
آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی۔ دل کی تاریکی باہر کی طرف اورباہر کی تاریکی دل کی طرف آتی جاتی رہی۔ کشمکش چلتی رہی۔۔۔ ہائے رے سوناپن۔۔۔ تاریکی۔۔۔ کاش کہ میں اب کبھی اٹھائی نہ جاؤں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.