کرائے کا مکان
آگ بگولہ ہوکر میں نئے مکان میں داخل ہوا۔
مجھے نہیں اندازہ تھا کہ اتنی جلدی مکان بدلنا پڑےگا۔ تین مہینے کا کرایہ میں نے اگر ایک ساتھ بینک میں جمع کر دیا تو یہ ایسی کون سی بات تھی کہ مجھے گھر سے نکال باہر کریں اور پھر مالک مکان کی مالی حالت بھی اتنی خراب نہیں تھی کہ کرایے سے ہی خرچ چلتا ہو۔ وہ توصرف روپیہ بینک میں جمع کرنا چاہتا تھا اور یہی اس کی پریشانی تھی۔
میں چار مہینے اس کے مکان میں رہا مگر اس نے اتنا بھی لحاظ نہیں کیا۔ ’’سر، پیٹی اور بستر باہر رکھتا ہوں۔ مکان خالی کر دو۔‘‘ لیکن اس کے لہجہ کا مطلب تھا۔۔۔ جا باہر چلا جا۔۔۔ کتے۔۔۔؟
میں سمجھ رہا تھا وہ غصہ میں کہہ رہا ہے مگر اس نے بڑے نرم نرم لہجہ میں کہا تھا۔ وہ گدھا سوچ رہا ہوگا کہ یہاں سے نکل کر اسے کہیں بھی جگہ نہیں ملےگی۔ کہاں جائےگا۔۔۔؟ کیا میرے لیے کسی نے دوسرا گھر بنا رکھا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس تنگ کوٹھری میں کرایہ دےکر آدمی کیوں رہتا؟
میرے جیسے کرایہ دار کو پاکر تو وہ بےانتہا خوش تھا کیونکہ میں نے کبھی کوئی گڑبڑ نہیں کی تھی۔ پڑوسیوں کے لیے بھی میں بہت اچھا آدمی ہوں۔ ایک بےچارا نوجوان! میرے بارے میں ان کی یہی رائے ہے۔ مجھ سے پہلے وہاں ایک درزی رہتا تھا۔ وہ ایک پوری تاریخ لکھنے کے بعد ہی وہاں سے نکلا۔ سب پڑوسیوں نے ایک ساتھ آواز اٹھائی کہ شہر کی ساری بھکارنیں اس کمرے میں سوتی ہیں۔
ان باتوں پر اس گدھے دادا کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اسے تو صرف وقت پر کرایہ ملنا چاہئے۔ غیر سماجی سرگرمیوں پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میرے آنے کے بعد اس کمرے میں کسی عورت کی سانس تک نہیں آئی۔ چند دن پہلے پورب کی طرف والے گھر کی بوڑھی نانی نے پاس والے گھرکی عورت سے کہا تھا، ’’وہ کیا بولےگا! کتنے سکون کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔‘‘
اکثر چپ ہی رہتا ہوں۔ کبھی کبھی کچھ لکھتا ہوں ورنہ زیادہ تر سوتا ہوں۔
ایک بار ایک نظم ذرا زور سے پڑھی۔ آخر انسان ہوں! بس اسی دن ایک ادھیڑ عمر کی پڑوسن مسکراتی ہوئی کھڑکی کے پاس آکر بولی، ’’گا رہے ہو؟‘‘ اس دن سے نظم خوانی کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔ پھر میری آواز باہر نہیں نکلی۔ مگر اس دنیا میں شرافت سے کام نہیں چلےگا۔
اچھا رہا۔ اس نے اپنے کرایے کی ٹھیک قیمت وصول کی۔ ’’توگھر نہیں دےگا تو سو گھر ہیں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے گھر خالی کر دیا۔ اس گدھے دادا کو ڈیڑھ مہینے گھر بند رکھنا پڑا۔
اس گدھے کی بدبو میں نے نکالی۔ پھر اس گدھے کو اس کی کیا فکر۔۔۔!
میں نے دادا کا گنجا سر پھوڑ دیا۔ اس کا موٹا بیٹا اور تینوں بیٹیاں مل کر رونے لگیں۔ بیٹا باپ سے بھی زیادہ بےوقوف ہے۔ اس کا چیچک کے داغوں سے بھرا چہرہ ہی بدنصیبی کی علامت ہے۔ اس وجہ سے اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ جب اس کا باپ باتیں کر رہا تھا تو وہ اپنا بھدا چہرہ لیے پیچھے کھڑا تھا۔ بڑے تعجب کی بات ہے ابھی تک صرف ایک ہی عورت نے اسے چھوڑا ہے۔ اس کا منہ تو ایسا ہے کہ ایک سو عورتیں اسے ایک ساتھ چھوڑ سکتی ہیں۔
’’شنکر!‘‘ یہ اس کے باپ کی آواز تھی۔
’’پتاجی!‘‘ اس کی آواز آئی۔
گدھے جیسا سؤر! چند دن بھی جانے کیسے ایک عورت نے اسے سہا ہوگا۔ مجھے تو اسی بات پر تعجب ہے۔ باپ کی کنجوسی اور بیٹے کی بےوقوفی کے ساتھ زندہ رہنے والی کوئی ہمدرد ہی ہوگی۔
میں اسے نہیں دیکھ سکا۔ میرے یہاں آنے سے ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی وہ گھر چھوڑ گئی تھی۔ باپ اور بیٹے کویہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی چلی جائےگی۔ اس کے پاس بھی کرایہ پر دینے کے لیے گھر ہیں اور بینک میں پیسہ ہے۔ پھر وہ ایسے لالچیوں کی کیا عزت کر سکتی تھی۔ وہ اب بھی اسے واپس لانے کے جتن کر رہے ہیں۔ مگریہ سب بےکار ہے۔ وہ اچھے کریکٹر کی ہوگی۔ وہ اس کا گھر چھوڑکر جاتے وقت کہہ گئی ہوگی، ’’سانپ ہی تمہارے ساتھ رہ سکتا ہے۔‘‘
ان کے ہاں سانپ بھی نہیں رہ پاتا۔ یہ بالکل سچ ہے۔ باپ کے کہنے سے پہلے بیٹے نے میرا بستر اٹھاکر باہر رکھ دیا۔ میں کہنا چاہتا تھا کہ ابھی خالی نہیں کروں گا مگر پھر پڑوسیوں کا خیال آیا کہ وہ سمجھیں گے کہ کرایہ دیے بغیر جھگڑا کر رہا ہے۔ اس بڈھے اور اس کے لڑکے کی طرح میں اپنا وقار کیسے کھو دوں! بات جلدی ختم ہو جائے اور شوروغل نہ ہو، اس لیے میں نے ان کا کہنا مان کر تین مہینے کے باقی کرایے کے لیے کاغذ لکھ کر دستخط کر دیے۔ وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کی ہوشیاری سے میں ایسا کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔ ان کا خیال تھا کہ میں نے عبارت پڑھے بغیر دستخط کر دیے ہیں۔ سمجھنے دو۔ اگرپڑوسی نہ ہوتے تو میں انہیں سمجھ لیتا۔ پھر بھی میرا غصہ ختم نہیں ہوا۔ اگر کسی دوست نے اس کمرے کے دلانے میں میری مدد نہ کی ہوتی تو جانے میری کیا حالت ہوتی!
اس برسات کے موسم میں کیا دکان کے ورانڈے میں سو سکتا ہوں۔۔۔؟ اس بارے میں اس گدھے نے کیا سوچا ہے؟
جنگلی بیل جیسے اس کے بیٹے شنکر نے کیا سوچا ہے؟
سماجی حالات پر سوچنے کی ذمہ دار ی ان نیچ جانوروں پر ہے؟
نئے کمرے میں آٓنے کے بعد بھی ان کو کوستا رہا۔ اچانک سامنے ایک عورت آئی۔
’’کیا ساتویں نمبر کے کمرے میں آپ ہی آئے ہیں؟‘‘ اس نے بڑی عاجزی کے ساتھ پوچھا۔
’’جی ہاں۔۔۔ کہیے۔۔۔؟‘‘
’’چابی نہیں چاہیے۔۔۔؟‘‘ (بےتکلف لہجہ)
’’چابی لو۔۔۔ سنبھال کر رکھنا۔ دوسری چابی نہیں۔‘‘ یہ تھا اس کا جواب۔
’’جی اچھا۔‘‘
’’معاف کیجیے۔۔۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘
’’تو میں اوپر چلوں۔۔۔‘‘ میں جلدی وہاں سے جانا چاہتا تھا لیکن وہ عورت اچانک بولی، ’’میں آپ کو کمرہ تو دکھا دوں۔ نہ جانے صاف بھی کیا ہے یا نہیں؟‘‘
’’آپ کے پاس جھاڑو ہے یا نہیں۔۔۔‘‘
ہاں کہنے کوجی چاہتا تھا مگر جھاڑو نہیں تھی۔ میں خاموش کھڑا رہا۔ اس وقت تک بستر اور بکس لے جانے والا نوکر لوٹ آیا۔
اس نے کہا، ’’سر۔۔۔ کمرہ بند ہے۔‘‘
’’میں کھول دوں گی۔۔۔‘‘ اس عورت نے کہا۔ پھر وہ ہم لوگوں سے پہلے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ میں اور قلی اس کے پیچھے تھے۔ اس کے کالے گھنگریالے بال اندھیرے کی لہریں سی پیدا کر رہے تھے۔ جیسے وہ تھوڑی دیر پہلے نہائی ہو۔ ابھی بال اچھی طرح سوکھے نہیں تھے۔ تیل اور صابن کی میٹھی میٹھی خوشبو سے محظوظ ہوتا ہوا میں بڑے اطمینان سے چڑھ رہا تھا۔
ساتویں نمبر کے کمرے کے پاس جاکر اس نے کہا، ’’چابی مجھے دو۔‘‘ میں نے چابی دے دی۔ وہ کمرہ دیکھ رہی تھی اور میں اس کے جسم کو پرکھ رہا تھا۔ وہ تئیس یا چوبیس کی ہوگی۔ چمپا سا رنگ۔ سفید موتیوں کے کرن پھول پہنے جب وہ سر کو ہلاتی تو کانوں کے پاس بجلی سی کوند جاتی۔
’’بکس کو باہر رہنے دیجیے۔ قلی کو جانے دیجیے۔ میں ذرا کمرہ صاف کر دوں گی۔‘‘
وہ نیچے چلی گئی تو قلی کو واپس کرکے میں نے کمرے کو چاروں طرف سے دیکھا۔ دو بڑی کھڑکیاں تھیں۔ کافی روشنی آئےگی۔ صاف ہوا میں سانس لوں گا۔ یہ کمرہ انسانوں کے رہنے کے لیے اچھا ہے۔ اس بڈھے کی کوٹھری کی طرح نہیں ہے۔ مالکن بھی کچھ اچھی لگتی ہے۔ نہیں تو صفائی کی مشکل کیوں اٹھاتی؟ یہ ورانڈہ بھی اچھاہے۔ یہا ں بیٹھ کر سبزے کا نظارہ کر سکتا ہوں۔
’’کھڑے ہی ہو؟‘‘ وہ جھاڑو لے کر آئی۔ ’’ابھی ٹھیک کیے دیتی ہوں۔‘‘
اس نے کمرہ صاف کر کے پانی سے دھودیا۔ بکس اور بستر اندر رکھنے میں بھی میری مدد کی۔ اس وقت میں اس کی صورت اچھی طرح دیکھ سکا۔ اس کی آنکھیں دل کش اور تیز تھیں۔ ان میں تیکھے سوال جھانک رہے تھے لیکن میں نے ان پر دھیان نہیں دیا۔ اس نے پوچھا، ’’اس سے قبل مسٹر شنکر کے ہاں رہتے تھے کیا۔؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’کیسے رہے آپ وہاں۔۔۔؟‘‘
’’کیا کہوں۔۔۔ کسی نہ کسی طرح گزارا ہی کر لیا۔ کمرہ کیا تھا ایک چوہے دانی تھی۔‘‘
’’اور اس چوہے دادا سے نپٹنا بہت مشکل ہے!‘‘
’’آپ انہیں جانتی ہیں۔۔۔؟‘‘
’’اچھی طرح سے۔‘‘ وہ کھلکھلاکر ہنسی۔
’کون شیطان بڑاہے۔ باپ یا بیٹا۔۔۔؟
’’شیطان اور اس کا ہم زاد۔۔۔‘‘ وہ ایک بار پھر ہنس پڑی۔
’’اس کا بیٹا اس کا ہمزاد ہے۔‘‘ میں بھی ہنسنے لگا۔ مجھے اس کی باتیں اچھی لگیں۔ یعنی میری طرح سوچنے والے لوگ اور بھی ہیں۔
’’وہ آپ کو اچانک باہر نکالنے کو تیار ہو گئے تھے۔۔۔ ہے نا۔۔۔؟‘‘
میں نہیں جانتا تھا کہ یہ بات اسے معلوم ہوگی، مجھے کچھ اچھا نہیں لگا۔
’’اپنا گھر نہیں ہے تو وہ شیطان سوچتا ہوگا کہ لوگ سڑک پر رہیں گے۔‘‘ وہ بولی۔
’’ہاں اس کا یہی خیال ہے۔‘‘ میں بھی متفق ہو گیا۔
’’کیا اسے انسان کہا جائے۔؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘
’’مجھے تو اسے دیکھنا بھی اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’نفرت ہو جائےگی۔‘‘ اتنا کہہ کر میں بڑی خوشی کے ساتھ اس کی صورت دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھیں بھی خوشی سے چمک رہی تھیں۔
’’آپ کا نام۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’پنک جم۔۔۔‘‘
’’والد۔۔۔؟‘‘
’’ہیں۔۔۔ باہر گئے ہیں۔ ہم قریب ہی کے مکان میں رہتے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’آپ کو کسی چیز کی ضرورت پڑے تو مجھے بتائیےگا۔‘‘
’’اوہ۔‘‘
پنک جم نیچے چلی گئی۔ میں ورانڈے کی ریلنگ پکڑے اس کے بارے میں سوچتا رہا۔۔۔ ہنس مکھ اور جوشیلی عورت ہے۔ کام میں ہوشیار ہے۔ ذرا جو شرماتی ہو۔ عورت ہو تو ایسی ہو۔
’’ٹماٹر چاہیے۔۔۔؟‘‘ نیچے سے کسی کی آواز سن کرمیں اپنے خیالات سے چونک پڑا۔ جواب دیے بغیر میں کمرے میں آیا۔ اب نہا لینا چاہیے۔ جب میں نہاکر کپڑے پہن کر باہر نکلا، اس وقت بھی پنک جم ورانڈے میں ٹہل رہی تھی۔
’’کھانا کھانے جا رہے ہوگے۔۔۔؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
میں دروازے کی طرف چلا گیا۔ دوسرے دن صبح ہی صبح پنک جم میرے دروازے پر آئی۔ آس پاس کے سبھی کمروں میں جاکر اس نے خیریت خیر عافیت پوچھی۔ قریب والے کمرے میں ایک منیم رہتاہے۔ ہمیشہ گم سم اپنے خیالوں میں مست۔ اگلے کمرے میں بڑ ی بڑی مونچھوں والا ایک موٹا آدمی ہے۔ وہ ایک ہیڈمسٹریس کا شوہر ہے۔ بیوی سے لڑکر یہاں رہتا ہے۔ اس کی صورت دیکھو ت ویوں لگتا ہے جیسے کسی نے اس سے بات کی تو ابھی رو دےگا۔ دوسری جانب کے کمروں میں ایک انوکھا آدمی رہتا ہے۔ وہ کھدر پہنتا ہے۔ سوکھے بکھرے بالوں اور داغ دارچہرے والا۔۔۔ اس کے کمرے کے پاس کی باتیں سن کر میں نے دیکھا کہ وہ قومی راہنماؤں اورعوام کو کوس رہا تھا۔ پنک جم مسکراتی ہوئی چلی آئی اور میرے دروازے پر کھڑی ہو گئی۔
’’کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔۔۔؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ایک ادیب یہاں آ گیا ہے، اس کی مجھے بڑی خوشی ہے۔‘‘
کیا وہ مجھے ادیب سمجھتی ہے؟ ابھی تک میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ میرے بارے میں بڑ ی اچھی رائے رکھتی ہے۔ میں نے ہنسی روک کر کہا۔
’’اس کمرے میں رہنے والا۔۔۔؟‘‘ میں نے کھدر پہننے والے کے بارے میں پوچھا۔ پنک جم نے دھیمے لہجے میں اس کی کہانی سنائی۔
’’کیا پاگل ہے۔۔۔؟‘‘
’’کچھ نہیں کہہ سکتی۔۔۔‘‘
’’جدوجہد آزادی میں حصہ لےکر چار بار جیل جانے والا اور کئی بار مار کھانے والا آدمی ہے۔ ایک بیٹا ہے۔ بمبئی میں رہتا ہے۔ وہی روپے بھیجتا ہے۔ اسی سے گزر بسر ہوتی ہے۔ صبح سے شام تک دنیا کو برا بھلا کہے جاتا ہے۔‘‘
’’ناامید انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔۔۔‘‘
’’بہت کچھ۔‘‘
میں نے پنک جم سے بیٹھنے کو کہا۔ وہ نہ تو بیٹھی اور نہ گئی۔ کھڑے کھڑے ہی باتیں کیے گئی۔ باتوں کا رخ جلد ہی شنکر کی جانب مڑ گیا۔ پنک جم نے اس پاگل کے بارے میں اس کے ہر ظلم کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا، میں نے پوچھا، ’’آپ اس سے اچھی طرح واقف ہیں؟‘‘
’’یہی تومشکل ہے۔‘‘
’’یعنی۔۔۔؟‘‘ حالانکہ مجھے یہ سوال نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن پوچھ بیٹھا۔
’’میں نے نو مہینے اس احمق کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ یہ ہے میری کہانی۔‘‘
’’تو کیا۔۔۔؟‘‘ میں تعجب کے مارے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ہاں۔۔۔ آپ کا اندازہ بالکل ٹھیک ہے۔ میں اس کی بیوی تھی۔‘‘
میں کچھ نہ کہہ سکا۔ میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے وہ کہنے لگی، ’’کوئی انسان اس کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکےگا۔‘‘
واقعی نہیں رہ سکتا۔ لیکن میں یہ بات اس سے نہیں کہہ سکا۔ وہ لگاتار بولتی رہی۔ میں سنتا رہا۔ ’’کتنی بار اس نے میری بےعزتی کی تھی لیکن میں نے خاموشی سے سب کچھ برداشت کیا۔ یہی سوچ کرکہ پاس پڑوسی کیا کہیں گے۔ گھر والے کیا خیال کریں گے۔ مگرصبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’وہ کچھ نہیں سمجھتا۔‘‘
’’مجھے آپ سے ہمدردی ہے پنک جم۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ضرور ہوگی۔ جس کے پاس دل ہے۔ اس کو ضرور دکھ پہنچےگا۔ آپ تو ادیب ہیں۔ آپ انسان کے دکھ درد کے بارے میں زیادہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔‘‘
میں اپنی بےوقوفی کو چھپائے پوری ہمدردی کے ساتھ اس کی باتیں سن رہا تھا۔
’’میری وجہ سے آپ کے کام میں ہرج ہو رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔
وہ اکثر صبح ہی صبح میرے کمرے میں آ جاتی اور دنیا کی ساری باتوں پر تبصرہ کرنے لگتی۔ شنکر کو خوب کوستی تھی۔ رفتہ رفتہ کھدر والے نے بھی میرے پاس آنا شروع کر دیا تھا۔
’’اس زمانے میں یہ اور اس سے زیادہ بھی ممکن ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا انسان میں سچائی باقی رہی ہے؟ آج کے لیڈروں کو بھی اپنے کاموں پر بھروسہ نہیں ہے۔ انہیں بھی یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کی لیڈرشپ ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ باقی لوگوں کو گھر کے کھمبے کی طرح کھڑا ہونا چاہئے۔۔۔ یہ ممکن ہے۔۔۔ سر، ممکن ہے کیا؟‘‘
نہیں یہ ممکن نہیں ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا۔
’’اپنی بیوی پر شوہر کو اعتبار نہیں ہے۔‘‘ پنک جم بیچ میں بول پڑی۔
’’بیویوں کو بھی شوہروں پر نہیں ہے۔‘‘ اچانک یہ آواز آئی۔
پیچھے مڑکے دیکھا تو ہیڈمسٹریس کا شوہر دروازہ پکڑے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دو بوندیں اس کی بڑی بڑی مونچھوں پر گر پڑیں۔ اس منظر سے دکھ بھری خاموشی چھا گئی۔ پھر کسی نے کچھ نہیں کہا۔ آہستہ آہستہ سب چلے گئے۔ پنک جم بھی نیچے چلی گئی۔
’’بلند ہمتی سے جیو۔‘‘ یہ کہہ کر کھدر والا بھی اپنے کمرے میں چلا گیا۔
ہیڈمسٹریس کے شوہر نے کہا، ’’دنیا کتنی دکھی ہے؟‘‘
مجھے ایک خیالی گیت لکھنے کا موضوع مل گیا تھا مگر نیند آ رہی تھی، اس لیے میں بستر میں لیٹ گیا۔
دوسرے دن شام کو میں ورانڈے میں بیٹھا تھا کہ دیکھا سامنے ہیڈمسٹریس کا شوہر کھڑا ہے۔ اسکول ختم ہونے کے وقت وہ پھاٹک کے پاس درخت کے نیچے کھڑے ہوکر اپنی بیوی کو جاتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔ وہ جب آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی تو اپنی مونچھوں پر گرنے والے آنسو پونچھتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلا جاتا تھا۔ ایسی روحانی اذیت سے وہ روز گزرتا ہوگا۔ اس دن بھی وہ سولی پر چڑھنے گیا تھا۔ کھدر والے کی نیند بھی عجیب ہے۔ دن کے چار بجے سے لے کر رات کے آٹھ بجے تک وہ سوتا ہے۔ باقی وقت کوستا رہتا ہے۔ رات بھر خط لکتا ہے۔ یہی اس کا روزانہ کا پروگرام ہے۔
آئے دن ایک بنڈل خط بھیجتا ہے۔ اس گھر میں دل کو سکون ملنے کا یہی وقت ہے۔ میں ورانڈے کی ریلنگ کے بیچ میں سے نیچے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آسمان پر سورج چمک رہا ہے۔ ہرے بھرے مناظر دیکھنے سے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ دنیا اتنی خراب نہیں ہے جتنی ہم لوگ سمجھتے ہیں۔
’’ٹماٹر چاہیے ٹماٹر۔۔۔؟‘‘ نیچے سے آواز آئی۔ عموماً میں اس طرح کی آوازوں پر دھیان نہیں دیتا ہوں لیکن اس دن جواب دیا، ’’نہیں چاہیے بھیا۔‘‘
’’کیا نہیں چاہئے؟‘‘ وہی سوال پیچھے سے ہوا۔ مڑکر دیکھا توپنک جم کھڑی تھی۔ میں کھڑا ہو گیا۔
’’بیٹھیے۔‘‘
’’نہیں آپ بیٹھیے۔ میں یہاں بیٹھتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک کرسی کھینچ لی۔ وہ لال ساری اور پیلا بلاؤز پہنے تھی۔ وہ مجھے بہت اچھی لگی۔ شام کی دھوپ میں اس کی تیز آنکھیں چھری کی دھارکی طرح چمک رہی تھیں۔
’’تم کس سے باتیں کر رہے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ٹماٹر والے سے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔! بس!‘‘ یہ کہہ کر وہ دور بیٹھ گئی۔ اس دن بھی ہماری باتوں کا موضوع شنکر ہی تھا۔
’’اب وہ پاس آنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’اس نے ایک بچھونا بھیجا ہے۔ اپنی چاچی کو۔‘‘
’’پھر۔‘‘
’’اس کے ساتھ رہنا۔۔۔ اس کے ساتھ تو ایک سانپ بھی نہیں رہ سکتا۔‘‘
میں نے کچھ نہیں کہا۔ اسے دیکھتا رہا۔
’’پتاجی تو خاموش رہے لیکن میں نے نہیں چھوڑا۔‘‘ اس نے پھر سے ساری کہانی کہہ سنائی۔
’’تب اتنا جھگڑنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘ میں نے پوچھا اور پھر فوراً ہی کہا، ’’اس طرح دخل درمعقولات پر معافی چاہتا ہوں۔‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اتنے دن تک آپ نے نہیں پوچھا، مجھے تو اسی بات کا دکھ ہے۔ یہ سب باتیں تو چھت پر کھڑے ہوکر لوگوں کو سنانی ہیں تاکہ ساری دنیا کو معلوم ہو جائے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے بات چیت کی باگ ڈور سنبھالی۔
’’وہ غلام ہے۔‘‘
’’کس کا؟‘‘
’’ماں۔۔۔ باپ۔۔۔ ورانڈے کی ریلنگ۔۔۔ سب کا۔ سنیما دیکھنے کے لیے ماتاجی کی اجازت چاہیے۔ ہر کام کے لیے ان کی اجازت درکار ہے۔ میں تو وہاں گڑیا کی طرح تھی۔ اس کے نام پر دس دکانیں ہیں۔ دوسروں کو باہر نکال کر حال ہی میں خریدی تھیں۔ میں نے کہا کہ انہیں میرے نام کرا دو۔ میں نے پیسے کی چاہ سے نہیں کہاتھا۔ میں تو صرف اس کا امتحان لے رہی تھی۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’بس جھگرا ہو گیا۔۔۔ ایک طرف ماں دوسری طرف میں۔ میں نے بھی نہیں چھوڑا۔ بات چیت ہوئی۔ جھگڑا ہوا۔ مارنے آیا تو میں نے کہا دور ہٹ جا۔۔۔ یہ کہہ کر اپنے گھر چلی آئی۔‘‘
’’تب ٹھیک ہے۔‘‘
’’میرے اوپر اعتبار نہیں تھا۔ اسی لیے تو میرے نام نہیں کرنا چاہتا تھا!‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ لگتا تو یہی ہے۔‘‘
’’تو میں وہاں کیوں رہوں؟ پیسے کے لالچ سے نہیں، میں نے تو صرف امتحان لینے کے لیے کہا تھا۔ کل اس نے پڑوسی سے آپ کو مکان دینے پر الٹی سیدھی باتیں کہیں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔؟‘‘
’’مجھے اپنا گھر کسے دینا چاہیے۔ اس کا فیصلہ کرنے والی میں ہی ہوں نا!‘‘
وہ میرے منہ کی طرف دیکھ رہی تھی اور میں باہر کی طرف۔
ساری دنیا گمبھیر سی ہو رہی تھی۔ وہ لگاتار باتیں کرتی رہی۔
میں سنتا رہا۔ بولا کچھ نہیں۔ شاید بولنے کے لیے کچھ تھا بھی نہیں۔
جب وہ سیڑھیاں اترنے لگی تو مڑ کے پوچھا، ’’آج آپ کھانا کھانے نہیں گئے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ میں نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا، ’’پیٹ خراب ہے۔‘‘
’’ایساہے تو میں ایک گولی بھیج دوں۔ ہاضمہ کے لیے اچھی رہےگی۔‘‘
حقیقت میں میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ پیٹ میں آنسوؤں کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ پھر بھی کچھ آس تھی کیونکہ ایڈیٹر نے دس روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ گولی کھانے کے بعد ضرور پیٹ بھرکے کھانا کھاؤں گا۔
باہر سے آیا تو کھدر دھاری کے کمرے سے چارپانچ لو گوں کی باتوں کی آواز آ رہی تھیں۔ زور زور کی باتیں۔ پھر ہنسی ٹھٹے۔ آج تک اس کمرے سے ایسی آوازیں سنائی نہیں دی تھیں۔ میں نے جھانکا۔ پانچ سات آدمی بیٹھے تھے۔ میں آکر اپنے کمرے میں لیٹ گیا۔ وہ سب کب گئے، مجھے معلوم نہیں ہو سکا۔ دن بھر میں تصور میں پنک جم کا چہرہ دیکھتا۔ اسی تصور میں سو گیا تھا۔
دوسرے دن صبح سویرے کھدر والا مسکراتا ہوا میرے کمرے کے پاس آکر کھڑا ہوا۔ آج وہ کوسنے کی بجائے ہنستا ہوا میرے کمرے میں آیا تھا۔
’’وہ ضد کر رہے ہیں تو میں کیسے ٹال دوں!‘‘ اس نے کہا۔
’’وہ سب بڑے مخلص دوست تھے۔‘‘ یہ کہہ کروہ ہنسنے لگا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے سوال بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’مجھے ہی کھڑا ہونا چاہئے۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’امیدوار بن کر کھڑا ہونا چاہیے۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔ ہاہاہا۔‘‘
’’الیکشن کی بات ہے کیا؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ عوام میرے پیچھے پڑ ے ہیں۔ انہیں رہنمائی چاہیے۔ خدمت کے موقع پر میں نے کبھی منہ نہیں موڑا۔۔۔ ہا ہاہا۔۔۔ تم بھی متفق ہوگے۔۔۔؟ نہیں تو کیا کروں! ہا ہا ہا۔۔۔‘‘
اس دن اسے کئی کام تھے۔ خط لکھنا۔۔۔ اپنا سامان ٹھیک کرنا۔ باندھنا۔ نوکر کو بلاتا۔ سیڑھیاں چڑھتا۔۔۔ جاتا۔۔۔ بڑی ہلچل رہی۔۔۔ شام کو مجھ سے کہا، ’’میں آج جگہ بدلنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’نمسکار!‘‘ میں نے کہا۔
’’نمسکار۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔‘‘
ہنستا ہوا وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔ میں بھی پھاٹک تک چھوڑنے گیا۔ لوٹتے وقت ہیڈمسٹریس کے شوہر کی مونچھوں پر آنسو کی دو بوندیں گر پڑیں۔ اس آدمی کا کوسنا بند ہوا توا کیلے پن کا احساس ہوا۔ ماحول بڑا ناخوشگوار ہو گیا۔ اسی شام کو پنک جم نے آکر کہا، ’’اس کا کوسنا ختم ہو گیا۔ سب لوگ ایسے ہی ہیں۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’لیکن اگر میں اس کی جگہ ہوتی تو سب دوستوں کو باہر نکال کر دروازہ بند کر لیتی۔۔۔ اچھا اگر تم ہوتے تو۔۔۔؟‘‘
یہ سوال میرے لیے غیرمتوقع تھا۔ کچھ سوچ کر میں نے کہا، ’’دروازہ بند کرکے تالا لگا لیتا۔ ایک ہفتے تک نہ کھولتا۔‘‘
اس نے مسکرا کے میری طرف دیکھا۔
’’آپ بہت کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ اچھا کھانا کھائیے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’آپ کو مالی حالات پریشان کر رہے ہیں کیا۔۔۔؟‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔‘‘
’’ایک ادیب کی مشکلیں میں جانتی ہوں۔ میں نے سب انتظام کر رکھا ہے۔ آج سے آپ کو یہیں کھانا ہوگا۔‘‘
’’اتنی تکلیف کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’ہم سب انسان ہیں نا۔۔۔ سب اس گھر کے مالک دادا کی طرح ہیں۔ یہ مت سمجھنا۔‘‘
’’میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا۔‘‘
’’ایک بات سنیے۔ آج اس نے ایک آدمی کو بھیجا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کہا ہے کہ دکان اور کمروں کا آدھا حصہ میرے نام لکھ دےگا۔‘‘
’’معاملہ ترقی کر رہا ہے۔‘‘
’’مگر ذرا اس کا لالچ تو دیکھیے۔ دکان کی پیڑھی میرے نام کرنا طے نہیں کیا۔ یہ میری قسمت ہے۔ یہی جواب بھیج دیا ہے۔ کل ملاکر ایک سو پچاس روپے کرائے کے ہو جاتے ہیں۔ اس میں سے آدھا اس کے دادا کو۔۔۔ باقی مجھے۔۔۔ میں ایک سو پچیس روپے کی عورت بن جاؤں گی۔ یہ کہنے والوں کومیں نے چھوڑ دیا۔ میں نے اسے معاف کر دیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
’’معاف کر دیا۔۔۔ اچھا کیا۔‘‘
’’پتہ نہیں ہمار اکھانا آپ کو اچھا بھی لگے گا یا نہیں؟‘‘
’’شاید بہت۔‘‘
ایک مہینہ اور گزر گیا۔ کرایہ ابھی تک نہیں دے سکا۔ دو مہینے کا باقی ہے۔
’’میں نے کرایہ نہیں دیا ہے۔‘‘ میں نے یاد دلایا۔
’’کوئی بات نہیں۔ میں اس دادا کی طرح سلوک نہیں کروں گی۔ امیری اور غریبی آدمی پر ہی آتی ہے۔‘‘
وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی اور میں دیکھ رہا تھا۔۔۔ مہالکشمی ہے۔ تین دن اور گزر گئے۔ میں کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔
صبح کا وقت ہے۔ بازار میں بھیڑ لگی ہے۔ کاریں، سائیکلیں، بھکاری، طالب علم جلدی جلدی ادھرسے ادھر آ جا رہے ہیں۔ اسی وقت مجھے شنکر دکھائی دیا۔ اس احمق کو میں اتنی بھیڑ میں بھی آسانی سے پہچان لیتا ہوں۔ وہ اسی گھر کی طرف آ رہا ہے۔ خاموشی کے ساتھ ایک سادھو کی طرح اس نے سیڑھیاں چڑھنا شروع کی ہیں۔ میں نے کھڑکی سے سر اندر کر لیا۔ کچھ دیر بعد وہ میرے کمرے کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔
’’میں آپ سے ملنے آیا ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’باقی پیسوں کے لیے۔‘‘
’’ابھی میرے پاس نہیں ہیں۔‘‘
’’کب تک دے سکوگے؟‘‘
’’جب ہوں گے تو گھر پر پہنچا دوں گا۔‘‘
’’یہ کہنا تو ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’نصیحت کرنے کے لیے آئے ہو؟‘‘ مجھے بھی غصہ آ رہا تھا۔
’’ہمیں بےوقوف بنانے کی سوچتے ہو؟‘‘ بحث و تکرار بڑھ گئی۔
آواز اونچی ہو گئی۔ میں بھی پیچھے نہیں ہٹا۔
’’دیکھو یہ تمہارا گھر نہیں ہے۔‘‘
پیچھے سے آواز سن کر شنکر نے مڑ کر دیکھا۔ پنک جم منہ لال کیے کھڑی تھی۔ اب شنکر بے سہارا ہو گیا۔
’’یہاں آکر بھی جھگڑا کروگے؟‘‘ پنک جم نے دوبارہ پوچھا۔
’’آؤ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔ تم سے ملنے کے لیے بھی آیا ہوں۔‘‘ شنکر نے پنک جم سے کہا۔
’’مجھ سے ملنے کے لیے تم کیوں آؤگے؟‘‘ پنک جم ایک جگہ کھڑی رہی۔
’’سچ اسی لیے آیا ہوں آؤ۔‘‘ وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔
میں نے بڑے غور سے سنا۔
’’میں یہ لایا ہوں۔ یہ دستاویزیں۔ سب کمرے تمہارے نام پر ہو گئے ہیں۔‘‘
’’تو تمہیں مجھ پر اعتبار آ گیا ہے؟‘‘
’’تمہارے بغیر جینا مشکل ہے۔‘‘ پھر میں نے نہیں سنا۔ وہ سیڑھیاں اتر کے چلے گئے۔
میں سوچتا رہا کہ اب کیا ہوگا۔ پنک جم اسے قبول کرےگی یا نہیں؟ کیا وہ اب بھی کڑوی باتیں سناکر اسے بھگا دےگی۔ ایک سانپ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ اس دن بھی کھانا لایا گیا۔ مجھے بہت آرام ملا۔ مگر نہ جانے پنک جم کو کیا ہو گیا جو وہ اوپر نہیں آئی۔ اس کے بارے میں جاننے کے لیے میں بے چین ہو گیا۔ شام کو وہ ضرور آئےگی۔ اس کے خدوخال میرے دل میں لہریں سی پیدا کرنے لگے۔ سب ملاکر اس کی خوبصورتی دھنک کی طرح اچھوتی سی لگتی ہے۔
شام ہونے سے پہلے میں ورانڈے میں گھومنے لگا۔ و قت گزر رہا تھا۔ ذرا سی آواز سن کر بھی چاروں طرف دیکھنے لگتا تھا۔ مگر وہ نظر نہیں آئی۔ ابھی ورانڈے میں شام کے سورج کی تھوڑی سی روشنی آ رہی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ نہیں آئےگی۔
مگر ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں انتظار کرتا رہا۔ دھوپ کا رنگ خون کے رنگ میں بدل گیا۔۔۔ اندھیرا چھا گیا۔۔۔ وہ نہیں آئی۔ جب وہ نہیں آئی تو میں کیوں اس کا انتظار کرتا ہوں! میں کمرے میں جاکر بیٹھ گیا۔ نظموں کی کتاب کھولی۔ شاعرانہ خیالات میں ڈوبے ہوئے احساسات کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ شاید مجبور کرنے سے پریشانیاں ایک جگہ جمنے کے بدلے گھومنے لگتی ہیں۔ اس نظم کو پڑھنے سے کبھی کبھی دل کو سکون مل جاتا ہے۔
’’ہے جیون پتنگ۔۔۔
تو بڑی خوبصورت ڈور سے بندھی ہوئی ہے۔
اور دکھ سہتی ہے۔
زمانے کی اس ترقی میں۔
زندگی کی پتنگ۔۔۔‘‘
پھر۔۔۔؟ چھی۔۔۔ کچھ مزہ نہیں آ رہا ہے۔ کتاب بند کر دی۔ نیند کی دیوی کی خواہش کرتے ہوئے لیٹ گیا۔ پھر بھی کان میں ایک گونج ہے۔ ہے جیون پتنگ تو۔۔۔ ہے پتنگ تو۔۔۔
جیسے دل میں ایک زلزلہ سا آ گیا ہو۔ دائیں کروٹ لیتا پھربائیں کروٹ لیٹا۔۔۔گنگنایا۔ پھر خاموش پڑا رہا۔ اسی طرح نہ جانے کب سو گیا۔۔۔مجھے کچھ پتہ نہیں۔۔۔جب اٹھا تو سامنے کھانا تھا مگر ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ جی چاہا اسے پھینک دوں مگر اسے یہاں کون رکھ کر کیا ہوگا؟ شاید نوکر۔۔۔میں بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ایک بیڑی جلائی۔ کسی کی آہٹ ہوئی۔ شنکر آکر میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ میں کچھ نہیں بولا۔ اس نے ہی مجھ سے کہا، ’’کرایہ؟‘‘
’’کل میں نے کہا تھا۔۔۔اس سے زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا۔‘‘
’’نہیں اس کمرے کا کرایہ۔‘‘ پیچھے سے ایک میٹھی آواز آئی۔ یہ پنک جم بول رہی تھی۔ میں نے شنکر کو دیکھا اور اس سے لپٹ کر کھڑی ہوئی پنک جم کو بھی دیکھا۔ چاروں طرف دیکھا۔ پھر کچھ کہے بغیر بستر لپیٹ کر ٹھیک کیا۔ بکس میں قفل لگایا۔ دونوں کو ایک جگہ رکھ دیا۔
’’میں آج جا رہا ہوں۔‘‘
’’کرایہ۔۔۔؟‘‘ شنکر نے پوچھا۔
میں نے جواب نہیں دیا۔
’’کرایہ دینے پر ہی یہ سامان لے جا سکتے ہو سمجھے۔‘‘ بہت میٹھی آواز میں پنک جم نے کہا۔
کرتا بدل کر جب میں باہر جا رہا تھا تو پنک جم نے پوچھا، ’’چابی کہاں ہے۔ اس کی ڈپلی کیٹ نہیں ہے۔‘‘
’’وہ رہی۔۔۔‘‘ میں نے اشارہ کیا اور چل دیا۔ سیڑھیوں سے اترتے وقت ہیڈمسٹریس کا شوہر بھی پیچھے سے آیا۔ پھاٹک تک آنے کے بعد اس نے پوچھا، ’’تم بھی جا رہے ہو؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
اس نے ایک بار گہری سانس لی۔ اس کی آنکھیں گیلی ہو گئیں۔ ہم ایک دوسرے کی طرف کھڑے دیکھتے رہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے اپنے آپ ہی کو دیکھ رہا ہوں۔
نہ جانے اسے کیسا لگا ہوگا۔
’’ٹماٹر چاہیے۔۔۔؟‘‘ پاس سے آواز آئی۔
’’چاہیے۔‘‘
میں نے جیب ٹٹولی۔ ساڑے نو آنے تھے۔ دوپکے ہوئے ٹماٹر خریدے، ایک ہیڈمسٹریس کے شوہر کو دے کر کہا، ’’کھا لیجیے، وٹامن ہے۔‘‘ دوسرا ٹماٹر کھاتا ہوا میں سڑک پر آگیا اور ہاتھ ہلاکر چل دیا۔ بستر اور بکس دونوں کی مصیبت نہیں تھی۔ نظم کا وہ آخری مصرعہ کانوں میں گونج رہا تھا۔
ہے جیون پتنگ۔۔۔ یہ ٹماٹر اچھا ہے۔ وہ نظم بھی اچھی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.