Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کردار کا ماتم

ظہیر عباس

کردار کا ماتم

ظہیر عباس

MORE BYظہیر عباس

    بیشتر لکھنے والے اس بات سے بے خبر کہ کبھی وہ بھی لکھنے والوں میں شامل ہو جائیں گے، پہلے پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ وہ بھی اس وقت سے پڑھ رہا تھا جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا۔ اس کے خاندان کاعلم وادب کے میدان میں کئی نسلوں سے ڈنکا بجتا تھا۔ قرب و جوار میں کون ایسا تھا جو ان کے مقام و رتبے سے بےخبر ہو۔ ہر آنکھ کھولنے والے کی نظر سب سے پہلے کتاب پر ہی پڑتی۔ پھر وہ تمام عمر پڑھتا، پڑھاتا اور لکھتا، لکھاتا ہی چلا جاتا۔ وہ ایک حوالے سے منفرد تھا۔ پڑھنے کے لئے اسے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑا، پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھ سال کی عمر میں اس کا پہلی بار خاندان کے ذاتی کتب خانے سے گزر ہوا۔ کتب خانے میں کتابیں ہزاروں کی تعدا د میں تھیں۔ بس پھر وہ اورکتاب ایک ہو گئے۔ اس کے اجداد علم کو عالم کی میراث سمجھتے تھے لیکن وہ اور ہی دنیا کا مسافر نکلا۔ وہ گھنٹوں بیٹھا پڑھتا رہتا، نہ کچھ کھانے کی طلب اور نہ پہننے کی فکر۔شروع میں تو بڑے پھولے نہیں سماتے تھے کہ ان کا جگر گوشہ اتنی چھوٹی عمر میں ہی اتنے انہماک اور شوق سے بغیر کسی کی رہنمائی کے ٹھیک ٹھیک پڑھتا ہے۔ اس کی پڑھنے کی عادت حیران کن حد تک بڑھتی چلی گئی تو پورا خاندان فکرمند ہونا شروع ہو گیا۔ لیکن وہ سب کی فکروں سے آزاد پڑھتا ہی چلا گیا۔ باقی خاندان والے تو تمام علوم میں مہارت حاصل کرتے لیکن اس کی دلچسپی کا میدان صرف کہانیاں تھیں۔ دس بارہ سال کی عمر میں چھوٹے موٹے قصوں کے علاوہ وہ طویل داستانیں، سب کی سب چاٹ چکا تھا۔ اتنے سالوں میں کتنے تیوہار، کتنی خوشیاں، کتنے غم آئے، گئے؛کون جیا، کون مراوہ تمام معاملات سے بے خبر ہی رہا۔ حد تو اس وقت ہوئی جب اس کے باپ کا انتقال ہوا۔ اس کا بھائی چیختا ہوا کتب خانے میں داخل ہوا اور اسے جھنجھوڑ کر باپ کی المناک موت کی خبر اس امید کے ساتھ دی کہ سنتے ہی وہ کتاب پٹخ کر دور پھینکے گا اور بھاگ کر باپ کی میت پر جا پہنچےگا۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ وہ دیر تک غم سے نڈھال بھائی کی آنکھوں میں دیکھتا رہا اور پھر اسی لفظ سے پڑھنا شروع کیا جہاں سے اس کی اچانک آمد کی وجہ سے ربط ٹوٹا تھا۔

    اس واقعے کا چرچا دور تک ہوا۔لوگ مرنے والے پر افسوس کم اور بیٹے کی بےحسی پر تاسف کرنے زیادہ آتے ۔جو بھی آتا اس عجوبے کو ضرور دیکھتا جو کتاب پر نظریں پھیلائے کچھ ڈھونڈنے میں غرق رہتا۔ بیس سال کی عمر میں جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو اسے خبر بھی نہ ہوئی ۔تب تک وہ بہت دور نکل چکا تھا۔ یہ خبر اسے اس ملازم نے پہنچائی جو اس کی خدمت پر معمور تھا۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتا یہ ملازم اسے ضروریات زندگی کی اشیا ڈھونڈکر پہنچاتا تھا۔ کتب خانوں کی خاک چھانتے چھانتے اسے اک عرصہ ہو چلا تھا۔ اب گوشت پوست کے انسانوں کی اہمیت اس کے نزدیک کم ہوتے ہوتے تقریبا معدوم ہو گئی تھی۔ کہانیوں کے کردار اس کا سب کچھ تھے۔ ہر روز نئے نئے کرداروں سے اس کا سامنا ہوتا۔ ان کے ساتھ وہ انوکھی دنیاؤں کی سیاحت پر نکل جاتا۔ وہ کردار وں کی خوشی پہ خوش اور غم پہ غمزدہ ہو جاتا۔ وہ اس سے مکالمہ کرتے، اس سے ہنسی مذاق کرتے، اس کے ساتھ ہر وہ بات کرتے جو وہ کرنا چاہتے۔ انہیں اس بات کا پورا احساس تھاکہ ان سے تعلق کے بدلے اس کتنی بڑی قیمت چکانی پڑ رہی تھی۔ہر کردار نے اپنی ذمہ داریاں بانٹ لی تھی۔ کوئی اسے تھپتھپاکر سلا رہا ہوتا، تو کوئی اس کے کان میں میٹھی سرگوشیاں کر کے جگا رہا ہوتا۔ اب وہ بھی کرداروں کے ساتھ جینا سیکھ گیا تھا۔ جب وہ کہیں بیٹھ کر پڑھ رہا ہوتا تو اس کے قہقہوں کی آواز دور تک جاتی اور جو بھی سنتا زیر لب مسکرا کے رہ جاتا۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ اس کے رونے اور دردناک آہوں کی آوازیں بھی لوگوں کا پیچھا کرتیں۔ اس کا ذکر دور و نزدیک ہر جگہ ہوتا۔ لوگ احترامااس کے لئے راستہ چھوڑ دیتے لیکن وہ بے خبر چپ چاپ گزر جاتا۔ لوگوں کے نزدیک اس کی حیثیت بھی افسانوی ہوتی جا رہی تھی۔

    شاید ہی کوئی ایسی داستان، افسانہ یا ناول ہو گا جو اس نے نہ پڑھا ہو۔ اب تو صورت حال یہ ہوتی جا رہی تھی کہ پڑھی ہوئی کتابیں اسے بار بار پڑھنی پڑ رہی تھیں۔ اس معاملے نے اسے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ایک دو بار جب مانوس کرداروں سے اس کا سامنا ہوا تو انہوں نے اسے پہچاننے سے صریحا انکار کر دیا۔ وہ جس کا جینا مرنا نئے نئے کرداروں کے ساتھ تھا، اب اندر ہی اندر گھلنے لگا۔ ایک روز جب وہ کتب خانے میں کتابوں کا ڈھیر سامنے رکھے جھنجھلاہٹ کے عالم میں ورق گردانی کر رہا تھا، اچانک اس نے کتابیں اٹھا اٹھا کر دیواروں اور الماریوں پر مارنا شروع کر دیں۔ کچھ کتابیں وہاں بیٹھے ہوؤں کو بھی جا لگیں۔ انہوں نے ادھر ادھر بھاگ کر اپنابچاؤ کیا۔ وہ سب جنہوں نے اسے ہمیشہ جنون کے عالم میں کتابوں میں کھویا ہو دیکھا تھا جن میں کچھ تو ایسے بھی ہوتے جو خود تو پڑھنے کم ہی آتے لیکن اسے پڑھتے دیکھنا اپنے لئے اعزاز سے کم نہیں سمجھتے تھے، کتابوں کے ساتھ اس کا یہ سلوک ان کے لئے حیران کن اور سمجھ میں نہ آنے والی بات تھی۔

    پھر یوں ہوا کہ کتاب کے نام سے بھی اسے نفرت ہو گئی۔ وہ صرف اپنے کمرے تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔نہ کسی سے بول چال ،نہ بات چیت اور نہ بیرونی دنیا میں دلچسپی باقی رہی۔ خاندان والے خوش تھے کہ کتابوں سے جان چھوٹی اور اب آہستہ آہستہ یہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئےگا لیکن ان کی یہ خوش فہمی، خوش فہمی ہی رہی۔ پہلے تو وہ اس کی شکل دیکھ لیتے تھے مگر اب وہ دن رات بند کمرے میں پڑا رہتا۔ ماں باپ تو پہلے ہی مر کھپ چکے تھے۔ بہن بھائی سب اپنے اپنے گھروں کے ہو چکے تھے۔ اس لئے اب وہ بھی اس کے اتنی پرواہ نہیں کرتے تھے۔دن میں کم ازکم ایک بار تو کھانا اس کے کمرے میں پہنچ ہی جاتا۔ اس کے کمرے کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا۔ جو کوئی بھی اس کے کمرے میں جاتا دبے پاؤں ہو کر واپس آ جاتا۔ ملازم ایک دو روز کے بعد اس کے کمرے کی صفائی ضرور کرتا۔ وہ سب سے بےنیاز کھڑکی میں بیٹھا باہر کچھ ڈھونڈتا رہتا۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ وہ کمرے میں آنے والوں پر اک نگاہ غلط ڈال لیتا وگرنہ وہ اکثر یہ زحمت بھی گوارا نہ کرتا۔ اپنی مرضی سے وہ کبھی باہر کا چکر بھی لگا آتا اور کئی کئی روز غائب رہتا لیکن بےنیازی کا عالم وہی رہا۔ ہر وقت وہ سارے کردار اس کے ذہن پر حملہ آور ہوتے رہتے جن سے کبھی اس کا سابقہ رہا تھا۔ کرداروں سے وابستہ تلخ اور خوشگوار یادیں اس کا سرمایہ تھیں۔ کھڑکی میں بیٹھا وہ سامنے دور فضا میں اپنے مانوس کرداروں کے تماشے دیکھتا رہتا۔ اس کے دل میں یہ ٹیس ضرور اٹھتی کہ کاش کوئی ایسا کردار بھی ہوتا جس کے ساتھ وہ اپنے دل کی بات کر سکتا۔ کہانیوں میں جتنے بھی کرداروں سے اس کا تعلق بنا تھا، وہ اس سے محبت کرنے کے باوجود اس سے ایک مناسب فاصلہ ضرور رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا کسی ایک کردار سے بھی وہ تعلق نہیں بن سکا جو اس کے لیے تسکین کا سبب بنتا۔ ہر نیا کردار اسے اپنی طرف کھینچتا ضرور تھا لیکن تعلق شدید اور لمحاتی ہوتا، اسی وجہ سے وہ کسی دوسرے کردار کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا۔ اب جبکہ وہ سب کتابیں پڑھ چکا تھا، ایک بات اس کی جان نہیں چھوڑتی تھی کہ ایسا کردا رکہاں ہے جس کے ساتھ اس کا دائمی تعلق استوار ہو سکتا ہے؟ ایک بات تو طے تھی کہ وہ کردار کتابوں میں نہیں تھا، تو وہ کہاں تھا؟ یہی بیٹھا وہ پہروں سوچتا رہتا۔ وقت بھی مدھم چال چلتا رہا جیسے منزل پر پہنچنے کی کوئی جلدی نہ ہو۔

    اک روز جب وہ اسی سوچ میں گم آبادی سے دور قدیمی جنگل میں پھر رہا تھا، اچانک اس کے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ وہ کردار جس کے فراق میں ہردم وہ مبتلا ہے، وہ تو کہیں اسی کی ذات میں چھپا بیٹھاہے۔ اس ادراک نے اسے چکرا کے رکھ دیا۔ کافی دیر وہ جنگل میں باؤلا سا پھرتا رہا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہولے ہولے اسے بخار ہو رہا ہو۔ ایک جگہ رک کر اس نے کچھ سوچا، پھر ایک دم گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ کسی نے بھی ا سے یوں بھاگتے دیکھ کر زیادہ حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ تمام لوگ اس کے مزاج سے آشنا ہو چکے تھے۔ہانپتے کانپتے۔

    وہ اپنے کمرے میں پہنچا اور کاغذقلم لے کر کھڑکی کے سامنے جا بیٹھا۔ اس نے قلم کاغذ پر رکھا لیکن اس نے اڑیل گھوڑے کی طرح چلنے سے انکار کر دیا۔ وہ پہروں ہاتھ میں قلم لیے سوچتا رہا کہ یہ کیا ہوا میرے ساتھ؟ پھر اس کے ساتھ عجیب معاملہ ہونے لگا۔ وہ جب بھی جنگل میں جاتا کردار کے خدوخال اس کے دماغ میں واضح ہو جاتے اور وہ اسے گھر کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیتا لیکن جونہی وہ قلم لے کر بیٹھتا، بیٹھا ہی رہ جاتا۔ اس کی اس بھاگ دوڑ سے لوگ بہت محظوظ ہوتے۔ وہ سب کے سامنے باہر جاتا اور دوسرے ہی لمحے ہانپتا کانپتا گھر کی طرف بھاگا جا رہا ہوتا۔

    ایک روز وہ ایسے ہی کھڑکی کے سامنے کاغذ قلم لیے بیٹھا تھا۔ اس نے پہلی بار اس بات پہ غور کیا کہ میں باہر جاتا ہوں تو کردار کہیں سے میرے ذہن میںآ گھستا ہے اور گھر پہنچتے ہی غائب ہو جاتا ہے، تو کیوں نہ میں کاغذ قلم ساتھ ہی لے جاؤں۔ جونہی وہ ذہن میں آئے وہیں اس کا نقشہ کھینچ دوں۔ یہ خیال آتے ہی وہ انجانی لذت سے سرشار گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ آج وہ پرسکون تھا کیونکہ وہ جانتا کہ آج اس نے کردار کوکاغذ پہ منتقل کرنے کی رمز پا لی ہے۔ اس کا یہ اطمینان زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا جونہی وہ جنگل میں پہنچا اس کے دماغ میں ادھر ادھر کے خیالات تو بہت آئے لیکن کردار کا کہیں پتہ نہ تھا۔ شام تک وہ ایک ہاتھ میں کاغذ اور دوسرے میں قلم لیے پھرتا رہا۔ اسے لگا جیسے کرداراس کی کھڑکی کے پاس بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ کاغذ قلم ویسے ہی ہاتھوں میں لیے بوجھل قدموں کے ساتھ آبادی میں داخل ہوا۔ آج اسے تحمل سے چلتا دیکھ کر لوگوں کو مایوسی بھی ہوئی اور حیرت بھی۔ وہ غمزدہ کھڑکی کے سامنے بیٹھا کائنات کی بیکرانی کو تکتا رہا۔ ایک بات تو طے ہو چکی تھی کہ جہاں کاغذ قلم ہوگا، وہاں کردار نہیں آ سکتا۔ اسے جیسے ان دونوں سے کوئی ازلی بیر تھا۔ دوسرے لوگوں نے جو ڈھیروں کردار تخلیق کئے وہ بھی تو کاغذپر ہی تھے تو ان لوگوں نے انہیں کیسے رام کر لیا تھا؟ وہ جان گیا تھا کہ اس سوال کا جواب بہت ٹیڑھا ہے اور وہ اس کا جواب کبھی نہیں جان پائےگا۔

    کردار اس کے سامنے پہروں کھڑا رہتا اور وہ بے بسی کے ساتھ اسے تکتے تکتے کرسی پر ہی اونگھ جاتا۔ ملازم چپ چاپ اس کے کمرے میں کھانا رکھ جاتے۔ کبھی صفائی ستھرائی بھی کر دیتے۔ وقت نے ملازموں سے دبے پاؤں چلنا سیکھ لیا تھا۔ اس کے گھر میں کئی بار ماتم ہو ا، شہنائیاں بجیں۔ اس کے سارے ماں جائے قبل از وقت ہی مرکھپ چکے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی پچاس سے آگے نہیں بڑھا۔ اب گھر پر حکمرانی ان کے بچوں کی تھی۔ اس کے کمرے میں آنے والے چہرے بدل چکے تھے۔ ایک نہیں بدلا تھا تو صرف وہ ہی نہیں بدلا تھا۔ تبدیلی یہ آئی تھی کہ اس کے تمام بال سفیدہو چکے تھے اور اب اس میں وہ ہمت نہیں رہی تھی، جو کبھی تھی۔

    ایک شام جب وہ کھڑکی میں بیٹھا اپنے کردار کو بےبسی کے ساتھ سامنے دیکھ رہا تھا، اچانک اس کی طبیعیت بگڑنا شروع ہو گئی۔ اس نے چیخ چیخ کر گھر والوں کو آواز دینے کی کوشش کی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ اسے شدت سے اپنے بڑھاپے کا احساس ہوا۔ آج پہلی بار اسے کردار سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ وہ غصے سے کانپتا ہوا اٹھا اور کاغذ قلم لے کر کرسی پر آن بیٹھا۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ آج میں کردار کی شکل بگاڑکر اس سے بدلہ لوں گا۔ قلم مستعدی سے خودبخود چلنا شروع ہو گیا جیسے کب کا اسی بات کا منتظر ہو۔جوں جوں وہ کردار کی شکل بگاڑنے کی کوشش کرتا، وہ اور خوبصورت ہوتا جاتا تھا۔ بلکہ وہ اس کے تصور سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتا جا رہا تھا اس کاغصہ ٹھنڈا پڑنا شروع ہو گیا۔ جو ہاتھ پہلے غصے سے کانپ رہا تھا، اب خوشی سے تھرتھرا رہا تھا۔ وہ دیر تک کردار کے خال وخد سنوارنے میں مگن رہا۔ اب وہ نڈھال ہو چکا تھا۔ نقاہت کی وجہ سے قلم سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ اسے خبر نہیں ہوئی کہ کب اس کے ہاتھ سے قلم گر پڑا۔ وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو گیا۔

    اس نے خواب میں اپنا بچپن دیکھا۔ وہ اپنے والدین اور بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہا ہے۔ ان کے ماں باپ بچوں کی اٹکھیلیوں سے بےنیاز اپنی باتوں میں مصروف ہیں۔ بچوں نے گھر بھر میں اودھم مچا رکھا ہے۔کھیل کود میں مرکزی کردار اسی کا ہے۔ اس کے بہن بھائی تھک ہار کر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ انہیں پھر بھی کھیلنے پر مجبور کر رہا ہے۔ جس گھر میں وہ کھیل رہے ہیں، وہ کوئی اور گھر ہے جسے اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے جس کے درمیان میں یہ گھر واقع ہے۔ دور تک کوئی اور مکان نہیں ہے۔دھوپ بہت چمکدار ہے لیکن اتنی تیز نہیں کہ چبھن کا احساس ہو۔منظر بہت واضح ہے۔بچوں نے ابھی اور کھیل کود کرنی تھی کہ اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے حالانکہ مطلع بالکل صاف ہے، آسمان پر دور تک کوئی بدلی نہیں ہے۔ سب حیران ہیں کہ بارش کہاں سے آ گئی۔ اس نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کے دیکھا۔ ننھے ننھے قطرے اس کے چہرے پر ٹپکے۔ پانی کا قطرہ دھپ سے اس کے چہرے پر گدگدی کرتا ہوا گرتا اور مدھم سی پھوار کے ساتھ اس کے پورے چہرے پر پھیل جاتا۔ گرم دھوپ میں ٹھنڈا پانی، وہ بہت حیران ہوا اس کے قدم وہیں جم گئے۔ سب گھر والے بھاگ کر کمروں میں چلے گئے لیکن وہ کافی دیر آنکھیں میچے چہرے کو پانی سے دھلتا ہوا محسوس کرتا رہا۔ اچانک اسے احساس ہو اکہ پانی گرم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ گرمائش اتنی بڑھ گئی کہ اب اسے رخساروں پر جلن محسوس ہونے لگی ہے۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ نیند میں روتا رہا تھا اسے اپنے حلق میں کثیف نمک کا ذائقہ محسوس ہوا۔ اس احساس سے اس کا گلہ رند گیا۔ اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ یہ کیا اس کا تو پورا چہرہ ہی یوں گیلا تھا جیسے سوتے میں کسی نے اس پر پانی ڈالا دیا ہو۔ اس نے ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی ناکام کوشش کی کہ وہ کب کرسی سے اٹھ کر بستر پر آیا تھا؟ اس نے روشنی جلائی تو اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔

    پورا کمرہ خونم خون ہو چکا تھا۔ دیواروں اور فرش پر خون کے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ لفظ خون میں لتھڑے ادھر ادھر یوں بکھرے پڑے تھے جیسے رہزنوں نے نہتے قافلے پر شب خون مارا ہو۔ وہ دم سادھے یہ سب دیکھتا رہا۔ لفظوں کو کسی نے پٹخُ پٹخ کر دیواروں پر دے مارا تھا۔ کاغذ ویسے ہی کورا پڑا تھا جیسا اس نے لکھنے سے پہلے چھوڑا تھا۔ لفظ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کون سا حصہ کس لفظ کا ہے؟ کچھ لفظوں کے جسم بالکل سالم تھے، ان پر خراش تک نہیں آئی تھی لیکن وہ سب کے سب مر چکے تھے۔ کچھ ایسے تھے جو آخری سانسیں لے رہے تھے۔ اس نے پرنم آنکھوں سے لفظوں کو سمیٹنا شروع کر دیا۔ کمرے کے کونوں کھدروں سے اس نے ڈھونڈ ڈھونڈکر انہیں نکالا اور ایک جگہ پر اکٹھا کیا۔ الفاظ کی ڈھیری لگا کر سامنے بیٹھا وہ خود کو کوستا رہا۔ اس خونریزی کا ذمہ داروہ اپنے آپ کو ٹھہرا رہا تھا۔ اسے رہ رہ کر پچھتاوا ہو رہا تھا کہ اس نے کردار تخلیق کرنے کی کوشش ہی کیوں کی؟ صبح ہونے سے پہلے اس نے اپنا کمرہ اچھی طرح دھو کر صاف کر دیا۔ اس نے پوری کوشش کی کہ کمرے میں کوئی ایک چھینٹا بھی پڑا نہ رہ جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملازم صبح اس کے کمرے میں آئے اوراسے شک ہو جائے۔ اس نے سوچا کہ منہ اندھیرے ہی وہ ان تمام الفاظ کو گٹھڑی میں باندھ کر جنگل میں کسی جگہ دبا آئےگا۔ اور دوبارہ کبھی ذہن میں کوئی کہانی یا کردار تخلیق کرنے کا خیال بھی نہ آنے دےگا۔

    اس نے ایسا ہی کیا ۔کسی کو شک نہیں ہوا کہ وہ کب گھر سے گیا اور واپس اپنے کمرے میں آبھی گیا۔ جرم کا احساس ہر دم اسے گھیرے رکھتا۔ اس کا ہاتھ بار بار قلم کی طرف اٹھتا لیکن وہ خود کو پوری قوت سے روک لیتا۔ اب کردار ہر دم اس انتظار میں رہتا کہ کب وہ کاغذ پر قلم رکھے اور وہ اپنے خدوخال واضح کردے لیکن پچھلے واقعے نے ا سے بہت خوفزدہ کر دیا تھا۔ اب دوبارہ وہ خود کو کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ ایک رات جب وہ کھڑکی کے سامنے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اس رات میرے ساتھ کیا ہوا؟ اس کے ذہن میں خیال آیا، ہو سکتا ہے کردار کا حلیہ بگاڑنے کی خواہش کی وجہ سے یہ سب ہوا ہو؟ اگر اب میں محبت کے ساتھ لکھنے بیٹھوں تو ممکن ہے وہی کردار تخلیق کردوں جو میری تنہائی کا ساتھی ہو؟ یہ سب سوچتے ہوئے وہ کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا۔ اس نے کہانی کے آغاز میں کردار کے خدوخال کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا۔ بہت آسانی وہ لکھتا چلا جا رہا تھا۔ کہانی کے واقعات اسی ترتیب میں لکھے جا رہے تھے جس ترتیب سے وہ لکھنا چاہ رہا تھا۔ کہانی مکمل ہو چکی تھی۔ کردار پوری آب وتاب کے ساتھ تخلیق ہو چکا تھا۔ اب وہ مطمئن تھا۔ اس نے کاغذ لپیٹا اور قلم کے ساتھ الماری میں رکھ دیا۔ لکھتے لکھتے صبح ہو گئی تھی لیکن اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت گزرا ہی نہیں۔ اب وہ ایسا کردار تخلیق کر چکا تھا جس کے ساتھ وہ جب چاہے ملاقات اور بات کر سکتا تھا۔ پچھلے واقعے کے برعکس رات بھر جاگنے کے باوجود وہ تازہ دم تھا۔ آج منہ اندھیرے ہی وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا۔

    جان بوجھ کر وہ جنگل کے ان حصوں میں گیا جہاں کردار اس کے دماغ میں بار بار آکر اسے تنگ کرتا تھا۔ ہر جگہ رک کر اس نے کردار کو تصور میں لانے کی کوشش کی لیکن بہت زیادہ سوچنے کے باوجود بھی اس کا چہرہ اور اس کے خدوخال اس کے ذہن میں نہیں آئے۔ صرف ایک ہی احساس تھا کہ وہ الماری میں بند پڑا ہے، اب باہر کہیں اس کا وجود نہیں ہے۔ اسے الفاظ میں قید کرنے کا تصور اتنا مسحورکن تھا کہ پل بھر کو اسے یوں لگا جیسے رات اس نے کوئی کہانی لکھی ہی نہیں، محض اس نے اک خواب دیکھا جس میں وہ کہانی لکھ رہا ہے۔ کچھ نہ لکھ سکنے کا بھیانک تصور ذہن میں آتے ہی وہ گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اب اس کا مسئلہ صرف یہ تصدیق کرنا تھا کہ رات اس نے کچھ لکھا بھی ہے یا نہیں۔ بڑھاپے میں اسے یوں بھاگتا دیکھ کر لوگ کف افسوس ملنے لگے۔ وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ بوڑھے کا دماغ گھوم گیا ہے۔ جیسے تیسے وہ اپنے کمرے میں پہنچا۔ سامنے دیکھتے ہی لڑکھڑا کر گر پڑا۔

    کہانی الماری سے باہر میز پر پڑی تھی لیکن کردار کہانی میں نہیں تھا۔ کاغذ کے وہ حصے جن پر اس نے کردار کی شکل وشباہت کی تصویر کشتی کی تھی، بالکل خالی پڑے تھے، باقی الفاظ جوں کے توں موجود تھے۔ اس نے پور اکمرہ چھان مارا اور ساتھ اپنے آپ کو کوسنا بھی شروع کر دیا کہ آج بغیر سوچے سمجھے اسے اتنی جلدی باہر جانے کا خیال کیوں آیا۔کمرے میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں اس نے تلاش نہ کیا ہو، کھڑکی کے راستے کہیں باہر نہ کود گیا ہو؟ اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا لیکن وہاں کچھ ہوتا تو اسے نظر بھی آتا۔سامنے میز پر پھیلے کاغذ اور وہاں سے غائب الفاظ، اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اس نے رات خواب میں نہیں بلکہ حقیقت میں کہانی لکھی تھی۔

    کافی دیر وہ کاغذپر بکھرے لفظوں کے درمیان پھیلی خالی جگہوں کو گھورتا رہا۔ اب آہستہ آہستہ اسے گئے دنوں کی یادیں ستانے لگیں۔ کرداروں کی محبت نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ آنسو جھریوں میں اٹک اٹک کر زمین پر گرنے لگے۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے کی اب اس میں تاب نہیں تھی۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ پوری زندگی وہ ایک بار بھی جی بھر کے نہیں رویا تھا۔اب وہ دھاڑیں مار مار کر رونا چاہتا تھا لیکن کوئی ایسا کندھا نہیں تھا جس پر سر رکھ کے وہ بے اختیار ہو سکتا۔ سب سے زیادہ دکھ اسے اپنے کردار پر ہو رہا تھا جس نے عمر کے اس حصے میں اسے دھوکا دیا تھا۔ اسے پہلی بار اکلاپے کا خیال آیا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اس دنیا میں رہ جانے والا اکیلا شخص ہے۔ لوگوں سے مکالمہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بولی بھی بھول چکا تھا۔ اس نے آنسو پونچھ کر اور خیالات کے منہ زور سلسلے کو روک کر سامنے دیکھا۔ آنسوؤں نے سامنے کا منظر دھندلا دیاتھا۔ اس لئے پہلے تو وہ غور نہیں کر سکا۔ میز پر کہانی کے بالکل پاس اس کا کردار بیٹھا تھا۔ خوشی پھانس کی طرح اس کے گلے میں اٹک گئی۔ کردار وہی تھا لیکن محبت سے شرابور وہ آنکھیں نہیں تھیں۔ ان نگاہوں میں قہر بھرا تھا جو عین اس کی آنکھوں میں گڑھی تھیں ۔جب اس نے اسے بیٹھے ہوئے دیکھا تو وہ بہت چھوٹا سا تھا لیکن جوں جوں وہ بوڑھے کو گھورتا جا رہا تھا اس کی جسامت بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔

    جونہی وہ چھلانگ لگاکر میز سے نیچے اترا۔ اسے جان کے لالے پڑ گئے۔ بڈھے کے جسم میں جیسے بجلیاں دوڑ گئیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ کمرے سے باہر اور پھر بھرے بازار میں تھا۔ اب کردار اس کے پیچھے اور وہ آگے ہوا سے باتیں کرتا جا رہا تھا۔ لوگوں نے اسے ہمیشہ ویرانے سے آبادی کی طرف بھاگتے دیکھا تھا لیکن آج اس کا رخ جنگل کی طرف تھا۔ اس کی رفتار نوجوانی کے زمانے سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اسے اتنی تیزی سے جنگل کی طرف بھاگتے دیکھ کروہ انگلیاں دانتوں تلے دبائے جہاں کھڑے تھے، وہیں جم گئے۔ آج بھاگنے والاوہ اکیلا نہیں تھا اس کے پیچھے کوئی اور بھی تھا جوپل پل اس کے قریب ہو رہا تھا۔اس کی رفتار اتنی زیادہ تھی کہ کوئی اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ پلک جھپکتے میں دونوں اڑتی ہوئی دھول میں گم ہو گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے