کتنے مہر دین
یہ کہانی پہاڑی رستوں کی طرح کئی موڑ لےگی۔ اس کہانی کا ٹریک اور منظر آپ کا جانا پہچانا اور مانوس ہے۔ یہ کہانی اپنی مٹی سے پھوٹی ہے اور ایسی زہرناک کہانیاں پھوٹتی رہتی ہیں۔ سفر کے دوران گردوپیش پر نظر رکھیےگا، منظر بدلنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ابھی پہاڑی سفر کے دوران پھولی ہوئی سانس بھی بحال نہیں ہوتی کہ خبر آتی ہے رات کی تاریکی میں پورا منظر نامہ بدل گیا۔ صبح آنکھ کھلنے پرنئے چہرے اگ آتے ہیں۔ آپ کو ایسی جلدی بھی کیا ہے ابھی تو ہمیں اس کہانی کا سرا پکڑنا ہے اور سرا پکڑنا دہشت گردوں کی طرح آسان ہے کیا؟ آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ ہر کھیل کا نتیجہ نکلنے میں وقت تو لگتا ہے۔ یہ تو وقت بتائےگا کون دہشت گرد تھا۔ لیکن ہماری اس کہانی میں دنیا کی کسی بھی تنظیم کا کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔ بلاخو ف وخطر اِس کہانی کا مطالعہ کیجیے۔ جب آپ کہانی مکمل کر لیں گے تو اس وقت تک امید کی جا رہی ہے کہ رزلٹ نکل آئےگا۔ گو نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہےگا لیکن تھوڑی دیر کہانی پڑھ لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ ہم اور بھی تو اتنے بہت سے کام یونہی کر لیا کرتے ہیں۔
رکیے یہ ایک گاؤں کا منظر ہے۔
ستو دونوں گھٹنوں میں بالٹی پھنسائے گائے کا دودھ نکال رہی ہے۔ وقفے وقفے سے وہ دودھ کی دھاروں کا رُخ بالٹی کی بجائے گائے کے منہ کی طرف کر دیتی ہے۔ گائے ہونٹ چاٹنے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ یہ جو، ستو اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے بمشکل اٹھی ہے اور بالٹی لیے جا رہی ہے یہ اس کا بڑھاپا ہے۔ نہیں معلوم یہ عمر گزار چکی ہے یا عمر سے گزر گئی ہے۔
وہ جب اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ مہر دین کے کھوہ پر آئی تھی تو ایوب خان کا عہد تھا۔ اور مشرف کے عہد تک آتے آتے وہ زمانے کا سرد و گرم گزار چکی تھی۔ جب وہ آئی تھی تو اس کا جسم گائے کی دودھ کی طرح سفید اور مکھن کی طرح چکنا تھا۔ اس کا یہ خیال خام ثابت ہوا کہ وہ سدا جوان رہے گی کیونکہ فوجی حکومت تو لمبے عرصے تک جوان رہ سکتی ہے لیکن انسان کو تو کہولت آ لیتی ہے۔ وہ جب پہلی بار گائے کا دودھ نکال کر اٹھی تھی تو اس کی ناک کی بائیں جانب منحنی سا چمکیلا کوکا اور کانوں میں بندے تھے۔ مہر دین کئی روز سے کھوہ پر آ رہا تھا۔ ایک روز مہردین نے پانی پلانے کے بہانے اسے اپنے پاس بلایا تو وہ اتھری گھوڑی کی طرح پاؤں پٹختی اندر کمرے میں چلی گئی۔ اسے مہردین سے گھِن آئی وہ اسے ایک آنکھ نہ بھایا۔ اسے مہر دین کی نظریں اپنے پنڈے میں کھبتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ اس روز وہ انہی زہریلی نظروں کی ڈسی آدھا دودھ نکالے بالٹی اٹھائے جب کمرے میں گئی تو اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ مہردین کے حقے کی گڑگڑاہٹ کی آواز اسے زہر لگ رہی تھی۔
زمینوں کا مالک ہے تو کیا ہوا۔۔۔؟ میں اس کی رکھیل نہیں بنوں گی، جس کھوہ پر جاؤ یہ سالے وہاں ڈسنے کو موجود ہوتے ہیں۔ غریب کی تو عزت ہی نہ ہوئی نا۔ جب جی چاہا رکھ لیا اور جب جی اوبھ گیا نکال دیا۔
بابا۔۔۔ حکومت پھر بدل رہی ہے۔۔۔ مہردین نے حقے کی نال منہ سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
ہاں چودھری جی۔۔۔ یہ کھیل تو ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ اوپر ہی اوپر کھیلے جاتے ہیں۔ ہماری زندگی تو ان جانوروں میں انہی کی طرح گزر جاتی ہے۔ ہمیں کیا خبر دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ جو پتہ لگ وی جائے تو ہم نے کون سا تیر مار لینا ہے۔ ہمیں تو تڑکے تڑکے بیلوں اور زندگی کو ہانکنا ہے۔ حکومت کی بات چھوڑیں جی۔ نہر سوکھ گئی ہے، کل فصل کو پانی لگانے کے لیے ٹیوب ویل نہ چلا لیں۔
ہاں ہاں۔۔با لکل۔
بابا سویرے سویرے چلانا،میں نے کپڑے بھی دھونے ہیں۔ ستو بولی۔
ستو کے کپڑے دھونے کا سن کر مہردین کے اندر بیٹھے شیطان نے بھرپور انگڑائی لی اور وہ ستو کے گیلے کپڑوں سے جھانکتے بدن کا چوبیس گھنٹے پہلے ہی لطف لینے لگا۔ ستو اس کے حواس پر ایسی سوار ہوئی کہ وہ اسے ہر صورت میں حاصل کرنے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ اس کے دماغ میں جتنے بھی ہرکارے تھے الیکشن کے دنوں کی طرح اس نے انہیں آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ الیکشن جیتنا تو اس کے لیے کوئی ایسا مشکل مرحلہ نہیں تھا۔ مدِ مقابل کو مروایا جا سکتا ہے۔ ووٹ خریدے بھی جا سکتے ہیں۔ بیلٹ بکس اٹھا کر بھاگنا بھی کوئی ایسا جانگسل مرحلہ نہیں۔ شناختی کارڈ حاصل کرکے انگوٹھے لگائے جا سکتے ہیں۔ جو دنیا سے گزر گئے ان کے شناختی کارڈ بھی با آسانی استعمال ہو سکتے ہیں لیکن ستو کوئی الیکشن تو ہے نہیں جسے آسانی سے جیت لیا جائے۔ وہ تو ایک دھڑکتا وجود ہے۔ اسے اٹھا کر گھر میں ڈال لینا بھی مشکل نہیں تھا لیکن مہردین اسے ایم این اے کی سیٹ کی طرح مستقل اپنے پاس رکھ کر اس سے لطف اٹھانا چاہتا تھا۔
عید کے روز ستو سوتیلی ماں کے ساتھ مہردین کے گھر آئی تو اس کی بیوی کو دیکھ کر اسے سکتہ ہو گیا۔ اس نے ایک نظر پلٹ کر اپنے وجود پر ڈالی اور پھر کن اکھیوں سے مہر دین کی بیوی کو دیکھا۔ بادامی آنکھ، ستواں کھڑی ناک،سونے کی گانی گردن میں، دونوں کلائیوں میں سونے کی چوڑیاں،رنگت دودھ سے بھی اجلی، پاؤں میں پائل اور ملتانی کھسہ، ہاتھوں میں رچی مہندی اور پانچ انگوٹھیاں، ستو اسے تکتی ہی رہ گئی۔ وہ سوچنے لگی اتنی خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے انہیں جانوروں کی طرح ادھر ادھر منہ مارنے کی عادت کیوں ہے؟ ستو مہردین کی بیوی کا زیور دیکھنے میں ایسی مگن ہوئی کہ اسے اس کا حسن بھول گیا اور وہ زیورات میں ہی کھو کر رہ گئی۔
زیورات آہستہ آہستہ وہ اپنے بدن پر سجانے لگی۔ پہلے اس نے کانوں میں بڑے بڑے جھمکے ڈالے،گانی اور پھر کٹمالا، دونوں ہاتھوں میں سونے کی بارہ بارہ چوڑیاں ڈال کے انہیں غور سے دیکھنے لگی۔ یہ میں ہوں ستو۔۔۔؟ یا کوئی اور ہے۔ میں یونہی اپلے تھاپتی اور زندگی برباد کرتی رہی۔ اک ذرا سی دیر میں کیسے زندگی بدل گئی۔
وہ اس وقت چونکی جب اس کی ماں نے اسے مہر دین کی بیوی کے کہنے پر برتن دھونے کا کہا۔ برتن مانجھتے مانجھتے وہ اندر سے ایک فیصلہ کر چکی تھی۔ برتن دھوتے ہوئے ہاتھ میں سے صابن پھسل کر گرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
مہر دین نے میٹرک میں فیل ہونے کے بعد ہی سیاست میں قدم رکھ لیا۔ امتحان اور سیاست کا فرق اسے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملا۔ میٹرک کے بعد آوارہ گردی سے بچانے کے لیے اس کے باپ نے زمینیں اس کے حوالے کر دیں۔ زمینوں کی دیکھ بھال کے دوران ایک دراز قد گٹھے ہوئے بدن والی عورت نے اسے اپنے بدن میں لپیٹ لیا۔ وہ اسی کا ہو کر رہ گیا۔ یہ اس کی گناہ آلود زندگی کا پہلا باب تھا۔ وہ جلد ہی اس باب سے اکتا گیا۔ اسے خیال آیا اب کوئی اور باب پڑھنا چاہیے۔ دولت کی ریل پیل ہو تو ایسے اسباق میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
وہ نت نئی عورت کی تلاش میں رہنے لگا اور اس کے باپ کو اس کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی۔ اسے شادی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے منہ کو گناہ کے خون کی چاٹ لگ گئی وہ شکاری کتوں کی طرح پگڈنڈیوں پر، گنے کے کھیتوں میں، کپاس کی کھڑی فصل میں، ہر جگہ اپنے شکار کی تلاش میں رہنے لگا۔ موقع پاتے ہی وہ شکار کو دبوچ لیتا۔
باپ کی خونخوار مونچھوں کے سامنے اس نے ہتھیار ڈال کر شادی کر لی۔ اس کی منکوحہ ساتھ کے گاؤں سے انہی جیسی فراعینی برادری میں سے تھی۔ سہاگ رات میں اس نے کمرے میں قدم دھرا تو بھینی بھینی خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔ یہ خوشبو پگڈنڈیوں کی خوشبو سے یکسر مختلف تھی۔ گھونگٹ الٹنے کی دیر تھی۔ اسے حیرت نے آ لیا۔ کیا اتنی مکمل اور خوبرو عورت میری بیوی ہو سکتی ہے۔ اس نے ایک نظر اپنے آپ پر ڈالی۔ چپٹی ناک قدرے موٹے ہونٹ رنگ گہرا سانولا اور مسلسل سگریٹ نوشی سے پیلے دانت۔ کہاں میں اور کہاں یہ کپاس کی طرح نرم اور ملائم میری بیوی، کیا یہ مجھے قبول کر لےگی۔۔۔؟ حالانکہ وہ اسے قبول کر چکی تھی۔۔۔ نہیں نہیں یہ مجھے قبول نہیں کرےگی۔ میرے ساتھ اس کا نبھاہ مشکل ہوگا۔ یہ کسی اور کے ساتھ تعلقات نہ پال لے۔ اس کے اندر وہم نے انگڑائی لی۔
گھونگٹ الٹتے ہی اس نے بیوی کے سینے میں ایسا تیر پیوست کیا جو ساری عمرناسور بن کر رستا رہا۔ ایک ایسا فقرہ جو مکمل زہر آلود تھا۔ اور اس کا پورا زہر اس نے بیوی کے وجود میں انڈیل دیا۔
یہ پہلی رات ہے۔ یاد رکھنا اگر زندگی میں میرے علاوہ کوئی اور تمہارے بستر پر آیا تو میری طرف سے تین طلاق۔۔۔ اس کی آواز بھاری اور جذبات سے خالی تھی۔
اسے یوں محسوس ہوا اس کی پوری زندگی زمین بوس ہو گئی۔ منہ دکھائی کی اتنی بڑی قیمت۔۔۔؟ پوری رات حیوانوں کی طرح وہ اس کا جسم بھنبھوڑتا رہا۔ اور کروٹ لے کر سو گیا۔
الیکشن کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ مہر دین کی کوٹھی پر بڑی چہل پہل رہنے لگی۔ علاقے کی کئی ٹیکسیاں جن کے ڈرائیور دن بھر اڈے پر سواری کے انتظار میں تاش اور نوگیٹی کھیلتے رہتے تھے انہوں نے اپنی ٹیکسیوں پر مہردین کے نام اور انتخابی نشان پینٹ کرا لیے۔ ان کے لیے بابِ رزق کھل گیا۔ مہینے بھر کی بچت ان کے لیے ایک ایسا اطمینان تھی جس سے وہ اپنی گاڑی کی مکمل مرمت اور گھر کے چھوٹے موٹے رکے ہوئے کام نکال سکتے تھے۔ انہیں پٹرول اور ڈیزل کی فکر بھی دامن گیر نہیں تھی کیونکہ صبح ہی صبح مہر دین کا منشی انہیں ٹینکی بھروانے کے لیے مہردین کی دستخط شدہ چِٹ پکڑا دیتا۔
الیکشن کے دنوں میں ستو وقتی طور پر پس منظر میں چلی گئی۔ ایک وقت میں ایک ہی الیکشن لڑنا ممکن تھا۔ وہ اپنے سیٹ کے لیے تگ ودو میں تھا اور ادھر ستو کے اندر زیور نے ایسی جڑ پکڑی کہ وہ مہردین کے لیے بےقرار رہنے لگی۔ حویلی میں رہنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ سارا دن چائے اور کھانے کا سلسلہ چلتا رہتا۔ ستو نے مہردین کی سیٹ سے پہلے اسے جیت لیا۔
مہر دین نے اپنی بیوی کے دل میں جو طلاق کا بیج ڈالا تھا اس کا خوف اسے بےچین رکھنے لگا۔ اسے زندگی سے اکتاہٹ ہونے لگی بیزاری اس کے ر گ وپے میں رچتی چلی گئی۔ جس روز مہر دین نے الیکشن جیتا۔ سارا دن ڈھول اور شہنائیاں بجتی رہیں۔ سارا دن وہ مبارک باد دینے والوں میں گھرا رہا۔ وہ لوگ بھی مبارک باد دینے چلے آئے جنہوں نے اسے ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ ہر آنے والا خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مہردین کے قریب بیٹھنا چاہتا تھا۔ اس نے منشی کو ہدایات جاری کیں کہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو بہترین کھانا کھلایا جائے اور ان کو فوری ان کی محنت کے چیک دیے جائیں۔
ستو کے ساتھ وہ اس کی پہلی رات تھی۔ اگلی صبح اسے دارالخلافہ پہنچنا تھا۔ اس کے ذہن میں موجود مسائل وقتی طور پر ستو کے جسم میں چھپ گئے۔ ستو نے اس سے الیکشن کی خوشی پوری پوری وصول کی۔ ستو کو معلوم نہیں تھا کہ وہ دونوں الیکشن جیت چکا ہے۔
کہا تھا۔۔۔ ناابھی پہاڑی سفر میں پھولی ہوئی سانس بھی بحال نہیں ہوتی کہ خبر آتی ہے رات کی تاریکی میں پورا منظر نامہ بدل گیا۔ صبح آنکھ کھلنے پرنئے چہرے اگ آتے ہیں۔ مہر دین جب دارالخلافہ پہنچا تو وہاں اس کی حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب اس نے وہاں ممبران سے علیک سلیک کی تو ہر ممبر کا نام مہر دین تھا۔ ایک دو ناموں میں تو مماثلت ممکن تھی لیکن یہ کیسے ہو گیا کہ سارے ہی مہر دین نکلے۔ اس نے متعدد ممبران سے ہاتھ ملایا۔ اسے یوں لگا سب ستو سے مل کر آرہے ہیں۔ ان سب میں ایک شخص سب سے الگ تھلگ بیٹھا سگار پی رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر مہردین کی تختی نہیں تھی۔
یہ کون ہے۔۔۔؟ کہاں سے آیا ہے۔۔۔؟ یہ اپنی ستو کیوں ساتھ نہیں لایا۔۔۔؟ مہردین اس کے پاس جا بیٹھا۔ اس کے اندر بے شمار سوال بےقابو گھوڑے کی طرح زبان کی زمین پر دوڑنے کو تیار بیٹھے تھے۔
آپ کا تعارف۔۔۔؟
مجھے احمد دین کہتے ہیں۔۔۔!
آپ چودھری ہیں، وٹو، ٹوانے، ہراج، سید، ملک۔۔۔ یا۔۔۔!
وہ شخص مسکرایا۔۔۔ مسکراہٹ بڑی معنی خیز تھی
میرے نام کے ساتھ کوئی سابقہ لاحقہ نہیں ہے۔
میں نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ اپنے نوکروں کو ساتھ لائے ہیں یا نہیں۔ سابقہ لاحقہ یقینی طور پر آپ کے ملازمین یا باڈی گارڈز کے نام ہوں گے۔
وہ شخص پھر مسکرایا۔۔۔
عجیب شخص ہے۔ صرف مسکرانے پر اکتفا کرتا ہے
میں آپ کی تعلیم پوچھ سکتا ہوں۔۔۔؟
میں نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے بعد اپنی مزید تعلیم کے لیے جرمنی کی ایک یونیورسٹی کا انتخاب کیا ہے۔۔۔!
تو گویا آپ ان پڑھ نہیں ہیں۔
نہیں
تو پھر یہاں اسمبلی میں کیا لینے آئے ہیں۔۔۔؟
ملک کی قسمت سنوارنے۔۔۔!
یہ اسمبلیاں چلانا پڑھے لکھے لوگوں کا کام نہیں ہے۔ چونکہ اس ملک کی اکثریت ناخواندہ ہے اس لیے اسے صرف ہم ہی سمجھ اور چلا سکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے جہالت کیا ہوتی ہے۔۔۔ لیکن یہ آپ الیکشن میں جیت کیسے گئے۔۔۔؟
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہونے والے اس الیکشن میں کچھ بوریا نشین،درویش اور مولوی بھی حصہ لے رہے تھے۔ میں نے سوچا مجھے بھی قسمت آزمانی چاہیے۔ شاید ہماری دھرتی کی تقدیر سنور جائے۔ اس دھرتی میں اچھے لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے۔ اچھے اور مخلص لوگ نہ ہوتے تو زمین الٹ گئی ہوتی۔ ہمیں امید کا دامن کسی بھی لمحے ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہر اندھیرے میں روشنی کی ایک نہ ایک کرن موجود ہوتی ہے۔ جو ایک روز پورے اندھیرے کو نگل جاتی ہے۔
مہردین کو یقین ہو گیا کہ یہ ممبر عوام کی بے وقوفی کی وجہ سے اسمبلی میں پہنچ گیا ہے۔ اس نے یہاں کون سے تیر چلا لینے ہیں۔ اسے تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ علاقے کی سڑکیں کیسے پکی کراکے نوٹوں کی طرح ووٹ سمیٹے جاتے ہیں۔ اسے تو یہ بھی خبر نہیں ہوگی کیسے بجلی کے خالی کھمبے لگواکر بجلی کے جھوٹے وعدوں پر سادہ لوح عوام کو بےوقوف بنایا جاتا ہے۔ اس تعلیم یافتہ نے تو کبھی بجلی بھی چوری نہیں کی ہو گی اسے کیا معلوم لاکھوں روپے کی بجلی کیسے چوری کی جاتی ہے اور پھر بڑے آرام سے سیدھے سبھاؤ عوام پر ٹیکس لگاکر حساب سیدھا کر لیا جاتا ہے۔
وہ اس کے ساتھ اسمبلی کے لان سے کینٹین تک آیا۔ چائے کے دوران باتیں ہوتی رہیں۔ مہردین کو احمد دین سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس نے احمد دین کو اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی۔ اور اس بات پر اصرار کیا کہ آپ مجھے بہت بھائے ہیں اس لیے باہم رابطہ رہے تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی۔ احمد دین کے جانے کے بعد اسے پھر ستو کی یاد آئی۔ وہ سوچنے لگا یہاں اتنے بڑے شہر میں رات کیسے کٹےگی اور یہاں تو آنا بھی اب معمولات زندگی کا حصہ ہے۔ یہاں بھی ایک ستو کا ہونا ضروری ہے۔ وہ سوچ رہا تھاجس چیز کی چاٹ لگ جائے اسے چھوڑنا مشکل ہوتا ہے شراب ہو،عورت یا سیاست۔۔۔!
بہت دنوں بعد وہ گاؤں لوٹا تھا۔ اپنی لینڈ کروزر پر اس نے سیر کا پروگرام ترتیب دیا۔ ڈرائیونگ کے دوران اس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ رات میں اس کی بیوی نے ایک ایسے موضوع پر اس سے بات چھیڑی کہ اسے لا جواب کرکے رکھ دیا۔ وہی بات اس کے ذہن سے نکالے نہیں نکل رہی تھی۔ بات کھل کر کہہ دی گئی ہوتی تو اسے سلجھانے کا راستہ نکال لیتا۔ لیکن اس کی بیوی نے اسے ادھوری بات کے عذاب میں ڈال دیا تھا۔ رات ابھی تک اس کے وجود سے چپکی ہوئی تھی۔
تم نے پہلی ہی رات طلاق کا کہہ کر مجھے عذاب میں ڈال دیا ہے۔ مجھے اپنے وجود سے نفرت ہو گئی ہے۔ خاوند اگر محبت عزت اور وقار نہ دے سکے تو کم سے کم اسے عذاب بھی نہیں دینا چاہیے۔ جانے تم لوگ شادی کیوں کرتے ہو۔ تمہیں جنسی تسکین کے لیے کتنی ہی عورتیں مل جاتی ہیں تو پھر ایک عورت کو کیوں باندھ کے رکھنا چاہتے ہو۔۔۔؟ہمارا کیا قصور ہے۔۔۔؟ کیا یہ معاشرہ صرف مرد کا ہے۔ کیا ہماری طرح تم لوگوں کی عزت داغ دار نہیں ہوتی۔ دولت کیوں تم سب کو کالے کرتوتوں کے باوجود صاحب توقیر بنائے رکھتی ہے۔ میں نے تو تمہارے سوا کسی کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک رات تو صبر کر لیا ہوتا۔ مجھے آزما تو لیا ہوتا۔ میں نے ایک فیصلہ کر لیا ہے۔
تم کون ہوتی ہو اپنا فیصلہ کرنے والی۔۔۔؟ مہردین کی آواز میں غصے کی آمیزش تھی۔
مہر دین۔۔۔ مجھے معلوم ہے مشرقی عورت کا اپنے خاوند کو نام لے کر پکارنا اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن مہردین میں کیا کروں۔ میں نے مجبوری میں یہ فیصلہ کیا ہے۔ تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اب ہم بھی اسمبلی میں پہنچ گئی ہیں۔ اگلے کسی بھی دورانئے میں اگر تعلیم کی پابندی مزید بہتر اور سخت کر دی گئی تو تم سارے کے سارے مہردین باہر بیٹھے رہ جاؤگے۔
بیوی کے لہجے پر اس کا خون کھولنے لگا۔ اسے احمد دین اور اس کی تعلیم اور مستقبل کا ہیولا بھی نظر آیا لیکن سرِ دست وہ گھر میں الجھا ہوا تھا۔ گھر کی اسمبلی اس کے گلے میں اٹک گئی تھی۔
تو کیا تم کسی طریقے سے اسمبلی میں آواز اٹھاؤ گی۔۔۔؟
نہیں۔
پریس کانفرنس کے ذریعے مجھے رسوا کرنے کا ارادہ ہے تمہارا۔۔۔؟
نہیں۔
میرے خلاف کتاب چھاپ کر مجھے پوری دنیا میں ننگا کرکے قہقہے لگاؤگی۔؟
با لکل ہی نہیں۔!
تم نے جو کرنا ہے کر لو۔
لینڈ کروزر کے سٹیرنگ پر اس کی گرفت سخت ہو گئی۔ اس کے ہونٹ بھینچ گئے۔ ارادہ تو اس کا ستو کی طرف جانے کا تھا لیکن سینے میں بائیں جانب اٹھنے والے درد نے اسے ہر چیز بھلا دی۔ باڈی گارڈ نے سیٹ سنبھالی اور اسے فوری ہسپتال لے جایا گیا۔ دل کا دورہ شدید تھا۔
بیماری کے دوران وہ زیادہ تر نوکروں کے رحم وکرم پر رہا۔ اس کی بیوی کی سرد مہری نے اسے اندر سے چور چور کر رکھا تھا۔ ایک ہی سال میں دل کے دورے کے بعد اسے فالج نے آ لیا۔ وہ بستر کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ اسمبلیاں، زمینیں اور عورتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ موت سامنے کھڑی تھی اور زندگی بھر کے اعمال حشرات الارض کی شکل میں اسے نوچنے لگے تھے۔ ایک تسلی کے سہارے وہ بستر پر سانس لے رہا تھا کہ بیوی کو میں نے جس انداز میں پہلی رات باندھ لیا تھا اب کم سے کم وہ تو آزاد نہیں ہو سکتی۔ لیکن رات گئے اس کی آنکھ کھلتی تو بیوی کی دل خراش آواز اس کی سماعت پر برسنے لگتی۔ میں نے ایک فیصلہ کر لیا ہے۔
فیصلہ کرنے کی بجائے اگر سنا دیا ہوتا تو میں اس عذاب سے تو نہ گزرتا۔ یہ عذاب تو دل کے دورے اور فالج سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ روح اٹکی ہے میری۔۔۔!
ناشتے میں ایک ملازم اسے دلیہ کھلا رہا تھا۔ اس کی بیوی لاؤنج سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی انداز بتا رہا تھاکہ وہ تیار ہوکر کہیں نکل رہی ہے۔ اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں پوچھا کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟
عدالت میں۔۔۔!
کیوں۔۔۔؟
خلع کی درخواست دینے اور ہاں کل رات ستو آئی تھی تمہاری رکھیل۔ اسے میں نے کہہ دیا ہے کہ مہر دینوں کی اسے کیا کمی ہے۔ تمہاری بجائے کوئی اور مہر دین تلاش کر لے۔
رکو۔۔۔ یہ تو بتاؤ تم خلع کیوں لینا چاہتی ہو۔ تم تو کسی کو بھی چھو کر آزاد ہو سکتی تھیں۔
مجھے اپنی عزت بہت پیاری ہے۔ میرے بستر پر آج تک کوئی نہیں آیا۔
تو پھر خلع۔۔۔؟
میں نے احمد دین سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.