کوہ ندا کی پکار
میں اپنی جاب ختم کر کے نکلی، کیلگری کی سردی عروج پر تھی، میں نے ایک سرد آہ بھری، ’‘پردیس’‘ کو ‘‘دیس’‘ بناتے بناتے ہاتھ شل ہوچکے تھے، آنکھوں میں کئی ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں تھیں، میں نے آہ بھر کر سوچا:
‘‘کیا میرے بچے اس قیمت کا اندازہ لگا سکیں گے جو ہم نے پردیس کو دیس بنانے کے لئے ادا کی ہے۔’‘
میرے اندر سے کوئی چپکے سے بولا:
‘‘نہیں! ہر نئی نسل کو پچھلی نسل کی قربانیاں بھول جاتی ہیں۔ یہ شاید وقت کا اصول ہے۔’‘
میری آنکھوں میں نمی آگئی، میں نے اپنے گرد اوور کوٹ لپیٹا، مفلر درست کیا اور پیدل ٹرین اسٹیشن کی طرف چل پڑی، برف نے گرد و نواح کا نقشہ بدل دیا تھا۔ میرے ذہن میں خیال آیا ہم جیسے خوابوں کے سوداگر فگار جسم لئے پھرتے ہیں مگر خوابوں کی سوداگری سے باز نہیں آتے۔۔۔ میرا شدت سے دل کیا کہ میں امی کی گود میں سر رکھ کر سو جاوں۔میں نے سوچا:
‘‘یہ آگاہی تو عذاب ہے۔ کیا کیا رنگ دکھاتی ہے۔میں نے رب سے آگاہی کی عطا کی دعا کیوں کی تھی؟’‘
انھی سوچوں میں غلطاں ٹرین اسٹیشن پہنچی، میں نے اس بوڑھی عورت کو خالی اسٹیشن پر اکیلے بیٹھے دیکھا، میں روز وہاں سے گزرتی تھی اور روز اس کو تنہا بیٹھے دیکھتی تھی، آج تک میں نے اس سے بات نہیں کی تھی مگر آج نجانے کیوں میں اس کے پاس بیٹھ گئی اور بولی:
‘‘ماں’‘ کس کو ڈھونڈتی ہو؟
وہ لفظ ‘‘ماں‘‘ سن کر چونکی اور بولی:
تم نے مجھے ‘‘ماں’‘ کہا، کیا کوہ ندا نے ابھی تمھیں نہیں نگلا؟
میں رو پڑئی اور بولی:
’’ہائے کوہ ندا نے مجھے کب کا نگل چکا، اب تو میرے پیروں میں آکاس بیلیں اگ گئی ہیں، میرے ہونٹوں پر پتوں کے پہرے ہیں، میں اب پا با زنجیر ہوں۔ میری روح چیختی ہے مگر میں کچھ کر نہیں سکتی۔’‘
وہ بوڑھی عورت ہنس پڑی اور بولی:
‘‘ابھی تازہ تازہ کسی کو کھو کر آئی ہو اور کسی کے کھو جانے کے غم سے لرزاں ہو، کسی کی منتظر آنکھیں پیچھے چھوڑ آئی ہو، زندگی کی ریس میں دوڑنے والے اکثر آہستہ چلنے والوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔’‘
میں بےتحاشہ ہنسی، میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں بولی:
میں نے تو اطاعت کی تسبیح پڑھی، میں تو ریس میں بھاگ ہی نہیں سکی، مجھے تو ‘‘احساس’‘ نے دیوانہ بنا دیا ہے، ‘‘آگاہی‘‘ کا کوڑا مجھے دن رات زخمی کر رہا ہے، میں ننگے پیر سلگتے کوئلوں پر چل رہی ہوں۔ کوہ ندا تو بالکل معصوم ہے ایک بچے جیسا، یہ تو کسی کو دعوت نہیں دیتا، اس کی ندا تو ایک تنبیہہ ہے کہ ابن آدم سوچ سمجھ کر مجھ میں قدم رکھنا۔
’’یہ تو ابن آدم ہے جو دیوانہ وار اس کی ندا پر لبیک کہتا آتا ہے۔’‘
وہ حیرت سے بولی:
‘‘کوہ ندا کے باسی تو احساس سے عاری ہو جاتے ہیں، اسی لئے تو خوش رہتے ہیں، اپنے پیروں میں گرنے والوں کو مسلتے، کھچلتے بس آگے کی طرف سفر کرتے ہیں۔ تو ان شیشہ گروں کے بیچ کیا کر رہی ہے؟‘‘
میں بےاختیار تڑپ تڑپ کر روئی اور بولی:
‘‘پتا ہے کوہ ندا کے اختتام پر کیا ہے؟‘‘
وہ اداسی سے سر ہلا کر بولی:
‘‘پتا نہیں کیا ہے؟ میرے بچے گئے تو پھر لوٹے نہیں۔ ’‘
میں نے آہستہ سے کہا:
‘‘کوہ ندا پھر’‘ بند ’‘ہے ایک پتھریلے موڑ کے بعد آگے کچھ نہیں ہے۔’‘
بوڑھی عورت کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، وہ بے تابی سے بولی:
‘‘تجھے کیسے پتا ہے؟ کیا تو ساحرہ ہے؟‘‘
میں ہنسی اور بولی:
‘‘کوہ ندا صرف دور دیسوں میں نہیں ہوتے، یہ ہر جگہ، ہر زمانے میں موجود ہیں۔ جب لوگوں کے احساسات ٹھٹر جائیں، ان کو تہمتیں لگانے کی عادت ہو جائے، جب رشتے بوجھ بن جائیں، جب آنکھوں میں محبتوں کے بجائے نفرت کے شرارے کوندنے لگیں تو پھر ایسے لوگ کوہ ندا کے باسی ہو جاتے ہیں۔کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو الفت کے تقاضے نبھاتے نبھاتے اس کے مکین ہو جاتے ہیں، یہاں ہر قسم کا انسان ہے مردم گزیدہ، محبت گزیدہ یہاں چارہ گر بھی رہتے ہیں۔ یہاں عشق نبھانے والے بھی ہیں اور عشق کو طوق سمجھنے والے بھی ہیں۔’‘
میں نے اس بوڑھی عورت کا ہاتھ پکڑا اور کہا:
‘‘کوہ ندا کے اندر کا حال کچھ ایسا ہے جیسا میری دادی مجھے بچپن میں ایک کہانی سناتی تھیں کہ شہزادہ ایک انمول رتن لینے ایک جادوگری میں گیا، وہاں طرح طرح کی آوازوں کا شور تھا، مڑکر دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا، وہاں بےشمار پتھروں کے مجسمے تھے، مگر شہزادہ صرف شہزادی کے بارے میں سوچتا چلتا گیا اور انمول رتن لے کر پلٹا، تو جادو نگری کا جادو ٹوٹ چکا تھا اور تمام پتھروں کے مجسمے گوشت پوست کے انسان بن چکے تھے۔’‘
میں سانس لینے کو رکی اور بولی:
‘‘ماں! میں وہ انمول رتن ڈھونڈنے والوں میں سے ہوں، اس سفر میں اگر میرے پیروں پر آکاس بیلیں اگ آئیں ہیں اور لبوں پر پتوں کا پہرہ ہے تب بھی انمول رتن تو میں ڈھونڈ کر رہونگی۔’‘
بوڑھی عورت کی آنکھوں میں روشنی آ گئی، اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی:
‘‘سدا سہاگن رہو، سکھی رہو۔’‘
بوڑھی عورت اپنے گھر کی طرف چل پڑئی اب میں تنہا اسٹیشن پر بیٹھی تھی۔ دور ٹرین کی گڑگڑاہٹ گونج رہی تھی، شاید میری ٹرین آنے والی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.