Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کوئی ایک سوار

سنتوکھہ سنگھ

کوئی ایک سوار

سنتوکھہ سنگھ

MORE BYسنتوکھہ سنگھ

    سورج کی ٹکلی ساتھ تانگہ جوت کر اڈے پر لگاتے ہوئے بارو تانگے والے نے ہانک لگائی، ’’ہے کوئی ایک سوار رکھنے جانے والا بھائی؟‘‘ سردی کے موسم میں اتنی صبح کسی سبب سے بھلے ہی کوئی سوار آ جائے، نہیں تو روٹی پانی کھاکر دھوپ نکلنے کے بعد ہی آدمی گھر سے نکلتا ہے۔ لیکن بارو اس موقع کو بھی کیوں کھوئے؟ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے بھی وہ سب سے پہلے اپنا تانگہ اڈے پر لگانے کی سوچتا۔

    بارو نے بازار کی طرف منھ کرکے اس طرح زور سے ہانک لگائی جیسے اسے کل ایک سوار کی ہی ضرورت ہے لیکن بازار کی طرف سے ایک سوار بھی نہ آیا۔ پھر اس نے گاؤں کی طرف سے آتی الگ الگ پگڈنڈی کی طرف آنکھیں اٹھاکر امید کے ساتھ دیکھتے ہوئے ہانک لگائی۔ نامعلوم کبھی کبھی سواریوں کو بھی کیا سانپ سونگھ جاتا ہے؟ بارو سڑک کے ایک طرف پٹری والے کے پاس بیٹھ کر بیڑی پینے لگا۔

    بارو کا چنچل گھوڑا آرام سے کھڑا نہیں رہ سکتا۔ اس نے دو تین بار نتھنے پھلاکر خراٹے مارے اور پھر اپنے آپ دوتین قدم چل پڑا۔ ’’بس او بیٹا! اتاؤلا کیوں ہوتا ہے، چلتے ہیں۔ آنے دے کسی آنکھ کے اندھے اور گانٹھ کے پورے کو۔‘‘ مستی سے ہنستے ہوئے بارو نے لپک کر گھوڑے کی لگام تھامی اور اس کو کس کر تانگے کے بمبو کے ساتھ باندھ دیا۔

    اسٹیشن پر گاڑی نے چیخ ماری۔ گاڑی کی چیخ بارو کے دل میں لگ گئی۔ اس نے گاڑی کو ماں کی گالی نکالی اور ساتھ ہی ریل بنانے والے کو بھی۔ ’’پہلے جنتا نکلی تھی اب ڈبہ! سالی گھنٹے گھنٹے کے بعد گاڑیاں چلنے لگ پڑی ہیں۔‘‘ سواری کے لیے بارو نے ایک بار پھر سے اونچی آواز میں ہانک لگائی۔

    اس نے ایک بیڑی اور سلگائی اور اتنا گہرا کش لیا کہ آدھی بیڑی پھونک دی۔ بارو نے دھوئیں کا غبار چھوڑتے ہوئے بیڑی کو گالی نکالتے ہوئے پھینک دیا۔ مرچ کی مانند اس کا دھواں تیکھا لگ رہا تھا۔

    گھوڑے کو چین نہیں تھا۔ اس نے ایک دو بار پیر اٹھا اٹھا کر زمین پر مارے۔ منھ میں پھنسی لوہے کی لگام چبا چباکر تھوبڑا گھمایا۔ تانگے کی چولیں ہلیں۔ چررمرر کی آواز نکلی، پنکھوں کی رنگ برنگی کلغی ہوا میں پھڑکی اور بالو کے پاس لٹکے ریشمی رومال ہلنے لگے۔ بارو کو اپنے گھوڑے کی چستی پر ناز ہوا۔ اس نے پچکار کر کہا، ’’ٹھہرجا بیریا کرتے ہیں ابھی ہوا کے سنگ باتیں۔‘‘

    ’’بارو تیرا گھوڑا بہت چنچل ہے، کودتا پھاندتا رہتاہے۔‘‘ پھیری والے نے کہا۔

    ’’کیا دانت ہیں؟‘‘ بارو فخر سے بولا، ’’لباس تو دیکھ تو، بدن پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔‘‘

    ’’جانور بچتا بھی تبھی ہے۔‘‘ نتھو نے یقین سے کہا۔

    اچھا خاصا دن نکل آیا تھا لیکن کھنے جانے والا ایک سوار بھی ابھی تک نہیں آیا تھا اور بھی تین چار تانگے اڈے کے اندر آکھڑے ہوئے تھے اور کندن بھی سڑک کی دوسری طرف کھنے کے رخ کی طرف تانگہ کھڑا کرکے سواریوں کے لیے ہانک لگانے لگا تھا۔ ہاتھ میں جھولا لیے ایک شوقین جیسا بابو بازار کی طرف سے آتا دکھائی دیا۔ بارو اس کی چال پہچاننے لگا۔ بابو اڈے کے اور قریب آ گیا لیکن ابھی تک اس کے پیروں نے کسی جانب کا رخ نہیں کیا تھا۔

    ’’چلو ایک سوار سرحد کا، کوئی ملوٹھ جانے والا ہو۔‘‘ آوازیں اونچی ہونے لگیں لیکن سواری کی مرضی کا پتہ نہ چلا۔ بارو نے کھنے کے لیے ہانک لگائی۔ سوار نے سر نہ اٹھایا۔ ’’جنٹل مین آدمی کیوں کر جلدی منہ سے بولتے ہیں؟‘‘ بارو نے دل ہی دل میں ملامت کی اور بابو کھنے کی طرف کھڑتے مانگے کے پاس آ کھڑا ہوا۔ ’’اور ہے کوئی سواری؟‘‘ اس نے مشکل سے بول کر پوچھا۔ بارو نے ادب کے ساتھ جھولا پکڑتے ہوئے کہا، ’’لے لیں۔۔۔!‘‘ لیکن بابو نے جھولا نہیں دیا اور ہوا کو دیکھتا ہوا خاموشی سے کھڑا رہا۔

    ’’یوں ہی گھنٹہ بھر تانگے میں بیٹھے رہنے کا کیا مطلب؟‘‘

    بارو نے زور لگاکر ایک سوار کے لیے ہانک لگائی جیسے اسے صرف ایک ہی سوار کی ضرورت ہو۔ بارو ذرا ٹہلتے ہوئے تانگے کے اگلے حصے کے قریب آ گیا۔ بارو نے بڑے صبر کے ساتھ ایک اور ہانک لگائی۔

    بارو نے اپنا جھولا تانگے کی اگلی سیٹ پر رکھ دیا اور خود پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر ٹہلنے لگا۔ بارو نے دلار سے گھوڑے کی پیٹھ تھپتھپائی اور پھر تانگے کی پچھلی سیٹیں یوں ہی کچھ ٹھیک ٹھاک کرنے کا دکھاوا کرنے لگا۔ اتنے میں ایک سائیکل سوار آکر تانگے کے پاس رک گیا۔ سائیکل سوار نے اس پر بیٹھے بیٹھے تھوڑی دیر بابو کے ساتھ بات کی اور وہ اپنا جھولا اٹھانے لگا۔ بارو نے بےچارگی سے کہا۔ ’’ہوا سامنے کی ہے باؤجی۔‘‘ سائیکل سوار بابو کو لےکر روانہ ہو گیا۔

    دن چڑھ رہا تھا۔

    بارو مایوس ہوکر ایک بار پھر سڑک کے کنارے پٹری والے کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس کا من سیزر سگریٹ پینے کے لیے للچایا لیکن دوپیسے والی سگریٹ ابھی وہ کس حوصلے کے ساتھ پیے؟ آج مشکل سے ایک ہی پھیرا لگنے کی امید تھی۔ کھنے کے لیے چار آنے سواری تھی۔ چھ سواریوں سے زیادہ لے جانے کا حکم نہیں ہے۔ تین روپے تو گھوڑے کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے دل میں ضرب سی لگنے لگی۔ اس طرح وہ یہاں پر کیوں بیٹھے؟ وہ وہاں سے اٹھ کر تانگے کی پچھلی گدی پر بیٹھ گیا۔ اس لیے کہ دور سے دیکھنے پر سواری کو تانگہ خالی نہ لگے۔

    تانگے پر بیٹھا وہ لارالپا، لارالپا گانے لگا اور پھر ہیر کا بند لیکن جلد ہی اس کا دل اچاٹ ہوگیا۔ ٹپے اس کے ہونٹوں کو بھول گئے۔ وہ دور فصلوں کی طرف جھانکنے لگا۔ بل کھاتی پگڈنڈیوں پر کچھ راہی چلے جا رہے تھے۔ قریب آتے ہی راہ گیروں کو بارو نے دھیان سے دیکھا۔ سفید اور چوکھانے کھیس اوڑھے کل چار جاٹ تھے۔ بارو نے سوچا پیشی بھگتنے والے ہوتے ہیں اس طرح کے چودھری۔ اس نے تانگے کو موڑکر ان کی طرف کرتے ہوئے آواز لگائی، ’’کھنے جاؤ گے لمبردارو؟ آؤ، بیٹھو، چلیں۔۔۔‘‘

    سواریوں نے کچھ کن من سی کی، پھر ان میں سے کسی نے کہا، ’’جانا تو ہے اگر جلدی چل پڑو۔۔۔‘‘

    ’’ابھی لو، بس بیٹھنے کی دیر ہے۔‘‘ بارو نے گھوڑے کے منھ کے پاس سے لگام پکڑ کر تانگے کا رخ اڈے کی طرف کر دیا۔

    ’’ہمیں تحصیل پہنچنا ہے، سمرالے پیشی ہے۔‘‘

    ’’اجی بیٹھیے تو سہی، پنچھی کو پر نہیں مارنے دوں گا۔‘‘

    سواریاں تانگے میں بیٹھ گئیں۔ ایک سواری کے لیے ہانک لگاتے ہوئے بارو نے تانگے کو اڈے کی طرف سرکا دیا۔

    ’’ابھی اور چاہئے ایک سواری؟ آخر تانگے والا ہی نکلا۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔

    ’’چلو اسے اپنا گھر پورا کر لینے دو۔‘‘ کسی نے جواب دیا، ’’سمجھ لو ہم آواز پڑنے کے بعد پہنچ جائیں گے۔‘‘

    اڈے سے بارو نے تانگہ بازار کی طرف بھگا دیا۔ بازار کے کنارے بارو نے تانگے کے بمبو پر تن کر آواز لگائی، ’’ہے کوئی اکیلا سوار کھنے کے لیے بھائی۔‘‘

    ’’اکیلے سوار کو راستے میں لوٹوگے؟‘‘ بازار سے کسی نے بارو کے ساتھ مسخری کی۔ بازار میں ہنسی پھیل گئی۔ بارو کے سفید دانت اور لال بوٹ دکھائی دینے لگے۔ اس کی گالیں پھول کر چمکنے لگیں اور ہنسی میں ہنسی ملاتے ہوئے سواری کے لیے ہانک لگاتے ہوئے اس نے گھوڑے کو موڑ لیا۔ اڈے پر آکر کھنے جانے والے راستے پر سڑک کے ایک طرف تانگہ روک کر خود پٹری والے کے پاس جا بیٹھا۔

    ’’وہی بات کی نا؟‘‘ تانگے والے کو ٹالتے دیکھ کر ایک سوار بولا، ’’ارے بھائی تانگے والے ہمیں اب یوں ہی پریشان کروگے؟‘‘

    ’’اجی ہمیں رکنا نہیں ہمیں لمبردار، بس ایک سواری کی تلاش ہے، مل گئی تو ٹھیک نہیں تو چل پڑیں گے۔‘‘ بارو نے تسلی دی۔

    سواریوں کی بےچینی دیکھ کر کندن نے اپنے تانگے کو ایک قدم اور آگے کرتے ہوئے ہانگ لگائی، ’’چلو چاروں سوار لے کر کھنے کو؟‘‘ چڑھانے کے لیے وہ بارو کی طرف گھورنے لگا۔

    ’’باز آ جا رے نائی کے، باز آجا اپنی کرتوتوں سے‘‘ بارو نے کندن کی طرف آنکھیں نکالیں اور سواریوں کو ہوا لگنے سے بچانے کے لیے اس نے لڑکیوں اور عورتوں کی آتی ہوئی رنگ برنگی ٹولی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ہم چلتے ہیں سردارو! ابھی بس! وہ آ گئی ہیں سواریاں۔‘‘

    ٹولی کی طرف دیکھتے ہوئے بارو سوچنے لگا، بیاہ کرنے کی سجی سنوری سواریاں ہیں جیسے دو تانگیں بھر جائیں، چاہی تو، اس طرح کی سواریاں پیسے اچھے دے جاتی ہیں۔ ٹولی نزدیک آ گئی۔ کچھ عورتیں، لڑکیاں ہاتھوں پر رومال سے ڈھکی ہوئی ٹوکریاں، طشتریاں اور تھال اٹھائے ہوئے تھیں۔ ان کے پیچھے گھونگھٹ والی دلہن اور ننھی ننھی بچیاں تھیں۔ بارو آگے بڑھ کر بیٹی جیسا بیٹا بن کر ایک مائی سے بولا، ’’آؤ مائی جی، تانگہ تیار ہے۔ بس آپ کی راہ دیکھ رہا تھا۔ بیٹھو کھنّے کے لیے۔‘‘

    ’’ارے نہیں ویر۔۔۔‘‘ ماں نے سرسری طور پر کہا، ’’ہم تو ماتا کے تھان (مندر) پر ماتھا ٹیکنے جا رہی ہیں۔‘‘

    ’’چنگامائی چنگا۔۔۔‘‘ بارو ہنس کر بےچین سا ہو گیا۔

    ’’ارے بھائی چلوگے کہ نہیں؟‘‘ سواریوں میں سے ایک نے کہا، ’’انہیں کہاں ہوتا ہے صبر؟‘‘ بارو بھی ہربار انہیں کیسے کیسے طریقوں سے ٹال رہا تھا۔ ہار کراس نے صاف صاف کہا، ’’چلتے ہیں بابا۔ آ جانے دوایک سواری کو کچھ بھاڑا بھی تو بنے۔۔۔‘‘

    ’’تم اپنا بھاڑا بناؤ، ہماری تاریخ نکل جائےگی۔‘‘ سواریاں بھی سچی تھیں۔

    کندن نے پھر چھیڑتے ہوئے سنا سنا کر کہا، ’’بعض لوگ بھولے ہوتے ہیں، کہاں پھنس گئے، اگلا تو چلتا ہی نہیں۔ اگر چلا بھی تو کہاں پر اوندھا پڑا ہوگا پیروں پر لہو رستا۔۔۔ گھوڑا اگر اٹھ بھی گیا تو راستے میں اڑ جائےگا، سرے نہیں لگےگا۔‘‘

    سواریاں کان کی کچی ہوتی ہیں۔ بارو کو ایک چڑھے ایک اترے لیکن وہ چھیڑچھاڑ کو ابھی بھی برداشت کرتی ہوئی کندن کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے بولی، ’’نائی کے رے نائی کے، تیری موت منڈرا رہی ہے۔ پہلے ماں کے پاس جاکر اپنی گاڑی کو تو سدھروالا، ڈھینچوں ڈھینچوں کرتی ہے۔ یہیں کھڑا بھونکے جا رہا ہے۔ نیچ ذات۔‘‘

    لوگ ہنسنے لگے لیکن جیسی حالت بارو کی تھی وہی کندن اور دوسرے تانگے والوں کو بھی تھی۔ کسے سواریاں نہیں چاہیے تھیں۔ کس نے گھوڑے اور گھر والوں کے پیٹ نہیں بھرنا تھا۔ نہ تو بارو بیچ میں سے چلے نہ کسی اور کو چلنے دے۔ کہاں منحوس اڑا ہوا ہے آگے۔ کندن نے اپنی جڑ پر چیرا لگاتے ہوئے غصے میں آواز لگائی۔ ’’چلو چاروں کو لے کر کھنّے کی طرف چلتا بمبو کاٹ۔ چل منٹوں سکنڈوں میں کھنے پہنچاتا چل، بھاڑا بھی تین تین آنے۔۔۔‘‘ اور اس نے اپنا ٹانگہ ایک قدم اور آگے کی طرف کر لیا۔

    بارو کی سواریاں پہلے ہی توبہ کر رہی تھیں اور پھر سواریاں کسی کی سگی بھی نہیں ہوتیں۔ تنگ آکر وہ تانگے سے اترنے لگے۔ بارونے کندن کو للکارتے ہوئے ماں کی گالی نکالی اور دھوتی کو لانگڑ لگاکر کہا، ’’اتر بیٹا تانگے سے نیچے۔‘‘

    کندن بارو کو غصے میں تنا ہوا دیکھ کر کچھ کھسیایا لیکن وہ تانگے سے نیچے نہیں اترا اور بولا، ’’منھ سنبھال کر نکالنا گالی۔ کالی زبان والے۔‘‘ بارو نے ایک گالی نکالی اور ہاتھ میں پکڑی سننی پر انگلیاں جوڑتے ہوئے کہا، ’’پہئے کے گزوں میں سے تہرا رکے نکال دوں سالے کو۔۔۔‘‘

    ’’تم ہاتھ تو لگاکر دیکھو۔‘‘ کندن اندر سے ڈرتا تھا لیکن اوپر سے بھڑکتا تھا۔

    ’’اوئی کہتا ہوں باز آجا نائی کے۔ لہو کے بوند تک زمین پر گرنے نہیں دوں گا۔ کھڑے کھڑے لہو پی جاؤں گا۔‘‘ بارو غصے میں تھا کہ کندن اس کے برابر کی گالی کیوں نہیں نکالتا۔

    آس پاس کی سواریاں دونوں کے منھ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

    ’’میں نے تجھے کچھ کہا ہے۔ تو فالتو میں ناک پھلا رہا ہے۔‘‘

    ’’میں تو ہانک لگا رہا ہوں، تو باندھ لے اپنی سواریوں کو۔‘‘

    ’’میں صبح سے تیرا منھ دیکھ رہا ہوں، چوٹی اکھاڑ دوں گا۔‘‘

    ’’اکھاڑ دےگا تو چوٹی؟‘‘ کندن برابر مقابلہ کرنے لگا۔

    ’’تو میری سواریوں کو بٹھائےگا۔‘‘

    ’’ہاں بیٹھاؤں گا۔‘‘

    ’’بیٹھا کر تو دیکھ۔‘‘ بارو نے آستین چڑھا لی۔

    ’’آبابا۔۔۔‘‘ کندن نے ایک سوار کو کندھے سے پکڑا۔

    بارو نے جھٹ سے کندن کا گریبان پکڑ لیا۔ کندن نے بھیبارو کو لپیٹ لیا۔ دونوں الجھ پڑے۔ پکڑو، چھڑاؤ کی آوازیں آنے لگیں۔ آخر دوسرے تانگے والوں اور سواریوں نے دونوں کو چھڑا دیا۔ اڈے کے ٹھیکیدار نے دونوں کو ڈانٹ ڈپٹ دیا۔ سبھی نے یہی کہا کہ سواریاں بارو کے تانگے میں ہی بیٹھیں گی۔ تین تون آنے فالتو کی بات ہے۔ کسی نے لینے نہ دینے۔ کندن کی سبھی نے لعنت ملامت کی۔ سواریاں پھر سے بارو کے تانگے میں جاکر بیٹھ گئیں۔

    بارو کو اکتایا اور دکھی دیکھ کر سواریوں کو اب اس سے ہمدردی ہو گئی تھی۔ سارے مل جل کر اس کا تانگہ بھرا پرا کرکے چلوانا چاہتے تھے۔ سواریوں نے بھی کہہ دیا کہ وہ کچھ پل اور ٹھہر جائیں گی۔ یہی اپنا گھر پورا کر لے۔ اس غریب نے بھی اپنا اور جانور کا پیٹ بھرنا ہے۔

    اتنے میں بازار کی طرف سے آتے پولیس کے حوالدار نے قریب آکر پوچھا، ’’ارے لڑکو، کھنے جانے کے لیے کوئی تانگہ تیار ہے؟‘‘ پل بھر کے لیے بارو نے سوچا، ’’آ گئی مفت کی سواری نہ پیسہ نہ دھیلا۔‘‘ جھٹ سے اس نے سوچا، ’’پولیس کو نہ تو کی ہی نہیں جاتی۔ اس کی وجہ سے دو سواریاں زیادہ تو بیٹھا ہی لوں گا۔ نہیں دےگا بھاڑا نہ سہی۔‘‘ اور بارو نے کہا، ’’آئیے حوالدار جی، تیار ہی کھڑا ہے تانگہ، بیٹھیے آگے۔‘‘

    حوالدار تانگے میں بیٹھ گیا۔ بارو نے ایک سوارکے لیے ایک دو تگڑی آوازیں لگائیں۔ ایک لالہ بازارکی طرف سے آیا اور بغیر پوچھے بارو کے تانگے پر آکر بیٹھ گیا۔ دوایک بڑھیا سڑک کی طرف سے اڈے کے لیے آ رہی تھیں۔ بارو نے بے چین ہوکر پوچھ لیا، ’’مائی کھنے جاؤگی؟‘‘ بڑھیا جلدی جلدی پیر بڑھانے لگی او رایک نے ہاتھ کے اشارے سے کہا، ’’ذرا رکنا ویر۔‘‘

    ’’جلدی کرو مائی جلدی۔‘‘ بارو کے پیر جیسے کلبلا رہے تھے۔ بڑھیا جلدی جلدی آکر تانگے میں بیٹھنے لگی۔

    ’’ارے بھائی کیا لوگے؟‘‘

    ’’بیٹھ جاؤ مائی، تسلی سے، تم سے زیادہ نہیں لوں گا۔‘‘

    آٹھ سواریوں کے ساتھ تانگہ بھر گیا۔ دو روپئے بن گئے تھے۔ چلتے چلتے مالک اور بھیج دےگا۔ دو چکر لگ جائیں اسی طرح بارو نے ٹھیکیدار کو موصول دے دیا۔

    ’’لو بھائی! اب دوریاں ناپو۔‘‘ پہلی سواریوں میں سے ایک نے کہا۔

    ’’لو جی! لیتے ہیں رب کا نام۔‘‘ بارو گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی مار کے بمبو سے لگام کھولنے لگا۔ پھر اسے دھیان آیا کہ ایک سگریٹ بھی لے لے۔ ایک پل کے لیے خیالوں میں اس نے خود کو ٹپ ٹپ چلتے تانگے کے بمبو پر جھک کر بیٹھے دھوئیں کے فراٹے بھرتے دیکھا اور وہ بھرے ہوئے تانگے کو چھوڑ کر سیزر سگریٹ خریدنے کے لیے پٹری والے کے پاس چلا گیا۔

    بھوکی ڈائن کی طرح امبالے سے لدھیانے جانے والی بس تانگے کے سر پر آ کھڑی ہوئی۔ دوسری ہی پل تانگے میں بیٹھے سواریاں اتر کر بس کے کھڑے پیٹ میں سما گئیں۔ اڈے کا صفایا کرتی ہوئی، ڈائن کی طرح چنگھاڑی بس آگے چلی گئی، کڑوے دھوئیں کے غبار اور دھول کے بگولے اس کے منھ پر پڑ رہے تھے۔ بارو نے اڈے کے بیچوں بیچ سنٹی اٹھاکر دل اور جسم کو پوری طاقت کے ساتھ ایک بار پھر سے ہانک لگائی، ’’جا رہا ہے کوئی۔۔۔ ایک سوار کھنے کی اور بھائی رے۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے