کوپی
پیار کا کیا پتہ چلتا ہے؟ کب ہو؟ کس سے اور کیسا ہو؟ یہ تو نشہ ہے کہ چڑھے تو یوں لگے ہوگیا، کچھ ہوگیا۔
بیگم صاحبہ ماشاء اللہ دودھوں نہاتی، پوتوں کھیلتی تھیں۔ گھر میں کس چیز کی کمی تھی؟ ہر شے وافر، اس وافر کا مصرف ہی جان کاروگ ہوگیا۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں پال پوس کر بڑا کرچکی تھیں۔ بچے اپنی اپنی جگہ ذمہ دار اور سمجھ دار تھے۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا زندہ ہوتا تو وہ بھی اب تک آٹھ نوبرس کا ہوتا۔ چھوٹی بیٹی نچھی کے لاڈ پیار ایک عرصے تک چلتے رہے لیکن وہ بھی سیانی ہوچکی تھی۔ بیگم کے میاں خاں صاحب ادھیڑ عمر کی انتہائی مصروف زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس عمر میں نہ تو ان کے پاس پاگل کیے رکھنے والے جذبات تھے اور نہ بڑھاپے کی مایوسیاں اور پچھتاوے۔ چالو مشین کی طرح ہر پرزہ ٹھیک اور عادی تھا۔
بیگم صاحبہ کو گھر کا کام اب کام نہ لگتا تھا۔ یوں بھی خاں صاحب اچھے عہدے پر فائز تھے۔ اردلیوں، چپراسیوں اور چوکیداروں کی کمی نہ تھی، ہر کام کے لیے ہاتھ باندھے حاضر باندیاں، بیکار پڑی جماہیاں لیتی رہتیں۔ پڑھی لکھی تھیں لیکن اب کتابوں میں کیا رکھا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتیں، ’’جوانی کیا گئی جینے کا مزا جاتا رہا۔‘‘
ایک روز انہوں نے اچانک جانے کس خیال کے تحت نوکروں کو جمع کیا اور اچھا خاصا لیکچر د یتے ہوئے کہا، ’’جاہلو! تمہاری آئندہ نسلیں بھی جاہل ہی مریں گی۔ تم نوکر ہو۔ تمہارے بچے بھی برتن مانجھیں گے اور ہنڈیا چاٹیں گے؟‘‘ نوکروں نے جواب دیا، ’’جناب ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے۔ کیا کریں؟ گھوڑے اور گدھے بوجھ نہ ڈھوئیں تو بھوکے مرجائیں۔‘‘ بیگم صاحبہ کو ان کے اس احمقانہ جواب پر نہایت غصہ آیا۔ گویا انہیں شکست ہوگئی ہو۔
’’جیو بھائی جیو۔۔۔ ہماری جیئے بلا۔‘‘
’’بھلا کوئی بہتر زندگی کا راستہ خاک سجھائے، جب کہ لوگ اس پر چلنا قانون فطرت کی نفی کرنے کے مصداق سمجھتے ہیں۔‘‘ وہ بیٹھی بڑبڑائے جاتی تھیں کہ خاں صاحب آئے۔ بیوی کا حال چال پوچھا تو پھٹ پڑیں۔ اپنی ذات کے اظہار کا خیال تھا یا اصلاح قوم کا جذبہ کہ انہوں نے ایک اسکول کھولنے کی اسکیم میاں کے سامنے پیش کی۔ خاں صاحب بیوی کا دل بہلائے رکھنا چاہتے تھے۔ بولے، ’’بیکار ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ بس غریب پروری شروع کردو، یہ ایسا کام ہے جو کبھی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے گا۔ مشغلے کا مشغلہ، ثواب کا ثواب۔‘‘
بیگم تو پہلے ہی تہیہ کیے بیٹھی تھیں۔ غریب والدین کو آمادہ کرنے میں بھی دیر نہ لگی۔ ہفتے کے اندر اندر گھر کے پچھلے آنگن میں دوتین درجن بچے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جمع تھے۔ برآمدے کی سیڑھیوں پر بچے بیٹھ جاتے اور بیگم صاحبہ سامنے کرسی ڈالے آنکھوں پر عینک چڑھائے بوڑھی استانیوں کی طرح ہاتھ میں چھڑی پکڑے سبق رٹوایا کرتیں۔ بچے تختیوں کی جگہ کچا فرش استعمال کرتے اور قلموں کے بجاے شہادت کی انگلیاں۔۔۔ لکھائی کا پیریڈ شروع ہوتا تو بچے زمین پر یوں رینگنے لگتے جیسے کیڑے۔ قاعدے اور دوسری ضروریات کی چیزیں بیگم صاحبہ نے خاص اپنی جمع شدہ پونجی سے خریدیں۔ پانی کے لیے کورے مٹکے رکھوا دیے گئے۔ گھنٹی کی جگہ ٹین کا کنستر لٹکادیا گیا، جسے بچے وقت بے وقت کھڑکاتے تو بیگم صاحبہ کا پارہ چڑھ جاتا اور دل مسرت اور طمانیت سے یوں بھر جاتا جیسے وہ صرف یہی کام کرنے کے لیے دنیا میں تشریف لائی ہیں۔
ان ڈھیر سارے بچوں میں بعض کند ذہن تھے یا اپنے گھر کے ماحول کی وجہ سے پڑھائی میں دلچسپی نہ لیے تھے، بعض اوسط درجے کا ذہن رکھتے تھے۔ بیگم صاحبہ کسی کے ساتھ تخصیص نہ برتتی تھیں۔ لگن اور پیار سے پڑھاتیں۔ انعام اور مٹھائی کالالچ بھی دیتی تھیں لیکن تین سالہ ہمایوں نے ان کے جی کو اپنی طرف یوں کھینچ لیا تھا جیسے وہ ان کا اپنا بچہ ہو۔ چھوٹا سا ذہن، سانولا، صحت مند ہمایوں کچھ ایسا دلکش تھا کہ بیگم صاحبہ کی نظریں اکثر اسی پر جمی رہتیں۔
’’تو یہ ہے کہ قدرت کیسے کیسے موتیوں کو مٹی میں ر ول دیتی ہے۔‘‘ وہ گھر والوں کے سامنے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتیں۔ پیار کی پرکھ کا انحصار کچھ عمر پر نہیں۔ بعض لوگ بڑھاپے تک اس رمز کو نہیں سمجھ سکتے اور کچھ بچپن ہی میں اس کا شعور رکھتے ہیں۔ ہمایوں اگرچہ چھوٹا سا تھا مگر محبت بھری نگاہ کو پہچانتا تھا۔ پھر بڑے گھر کی آسودگی۔ بیگم صاحبہ کے ساتھ ایسا مانوس ہوگیا کہ دن بھر گھر کا رخ نہ کرتا۔ وہ پچکار دلار کرکے بھیجتیں یا سو جاتا تو کوئی اٹھاکر لے جاتا۔ لیکن دوسری صبح گیٹ پر منے منے ہاتھوں کی دستک ہوتی، ’’اماں جان واجہ کھولیے۔ آگیا ہوں۔‘‘
مامتا، بیگم کے سارے حواسوں کو چمکادیتی اور گیٹ کھولنے کے لیے لپکی چلی جاتیں۔ چھوٹے سے میلے کرتے کا کھلا گریبان، پشت کی طرف ڈھلکا ہوا۔ آگے سے دامن اٹھاہوا۔ ننگو منگو سا ہمایوں گیٹ کھلنے کا انتظار کر رہا ہوتا۔ بیگم کو دیکھتے ہی فوراً ماتھے پر ہاتھ رکھ د یتا۔
’’چھلام اماں جان۔‘‘ بیگم صاحبہ جھوٹ موٹ چونکتیں۔
’’ارے۔۔۔ تو اتنی صبح۔۔۔ اور تو جانگیہ کیوں نہیں پہنتا رے۔۔۔ ننگو منگو۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے اس کا بازو کھینچتی اندر لے جاتیں۔ جب بیگم صاحبہ تلاوت کلام پاک کر رہی ہوتیں، ہمایوں کچھ دیر چپ چاپ سنتا رہتا۔ پھر کلام پاک کے اوراق کو انگلی سے چھونے کی کوشش کرتا تو بیگم صاحبہ ہولے سے ہاتھ جھٹک دیتیں، ’’گندے ہاتھ ہیں بیٹے۔‘‘ پھر وہ گندے ہاتھ دھلوانے کے لیے لوگوں کو جگاتا پھرتا۔
’’باجی! اٹھیے نا۔۔۔ آپا جاگو بھی دن ہوگیا۔۔۔ ابوچھوئے ہیں ہاہا۔۔۔‘‘
بھائی جان کے پلنگ کے قریب جاکر وہ ابو کا مذاق اڑاتا۔۔۔ جھوٹی نیند کے نشے میں کوئی کھلی آنکھ سے دیکھتا تو ہمایوں جھٹ سے ’’چھلام‘‘ داغ دیتا۔ اپنی پیاری باتوں سے اس نے گھر کے تمام افراد کے من موہ لیے تھے۔ عفت آپا نے جو انگریزی ادب کی طالبہ تھیں، اس ننگے پیارے بچے کا نام ’’کیوپڈ‘‘ رکھ دیا۔ اب سارا گھر اسے کیوپڈ کہتا۔ ہمایوں کے گھر میں اس طرح گھل مل جانے سے بیگم صاحبہ کو یوں لگتا جیسے ان کا چھوٹا بیٹا نعمان واپس آگیا ہو، جس کے لیے تنہائی میں بیٹھ کر وہ آنسو بہایا کرتی تھیں۔
بچوں کا اسکول جیسا تیسا چل نکلا تھا۔ بیگم صاحبہ مصروف رہتیں۔ ان کی مصروفیات میں ہمایوں کا کتنا حصہ تھا، انہیں معلوم نہ تھا۔ وہ ایک محبوب ذمہ داری تھی کہ سب خوشی خو شی نبھاتے۔ عفت آپا یونیورسٹی سے لوٹتیں تو کبھی خالی ہاتھ نہ آتیں۔ بھائی جا ن بازار سے کھلونا نہ لاسکتے تو کاغذوں اور تیلیوں سے پھر کیاں، جہاز اور جانے کیا کیا بناکر دیتے رہتے اور باجی نچھی اپنی سلائی، رنگائی، دھلائی کے سارے ارمان ہمایوں پر پورے کرتیں۔ گھر بھر کے کپڑوں میں سے بچے ہوئے ٹکڑے خوب کام آرہے تھے۔ وہ مختلف رنگوں کے ٹکڑوں کو ملاجلا کر لباس کے نئے نئے ڈیزائن ایجاد کرتیں۔ ہمایوں کے سڈول بدن پر ایسے پھبتے کہ سب داد دیتے۔
نچھی نے ہمایوں کو کیوپڈ سے ’’کوپی‘‘ کہنا شروع کیا تو سب لوگ ہمایوں کو یکسر بھول گئے۔ کوپی پیارا اور مختصر نام تھا جو خود کوپی کو بھی پسند تھا۔ وہ بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتا، ’’میں کوپی ہوں۔۔۔ پیار کا تیر چلانے والا د یوتا۔‘‘ یہ بات اسے عفت آپا نے اچھی طرح رٹوادی تھی۔
غریب بستی کے لوگ کوپی کو دولت مند گھرانے کا لاڈلا دیکھ کر جلتے تھے۔ بیگم کو طرح طرح وسوسے اور وہم ستانے لگے۔ انہوں نے کوپی کی ماں سکینہ کو بلاکر کہا کہ اگر وہ پسند کرے تو بچہ مستقل ان ہی کے گھر میں رہے۔ وہ اسے اپنے بچوں کی طرح پالیں پوسیں گی اور پڑھا لکھا کر نوکر کروائیں گی۔ سکینہ کو اور کیا چاہیے تھا۔ اک ذرا مامتا کی جابر لہرنے کلیجے کو تلپٹ کیا۔ اسے تسلی تھی کہ بچہ ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہے گا اور اس کی زندگی بھی بن جائے گی۔
کبھی کبھی جانے کیوں چھوٹے چھوٹے لقمے بناکر کوپی کے منہ میں ڈالنے کے لیے سکینہ کا جی تڑپ اٹھتا۔ اس کے اور بھی چار چھ بچے تھے لیکن کوپی آٹھویں دسویں روز اس سے ملنے کے لیے آتا تو وہ اسے ٹھونس ٹھونس کر دال روٹی کھلاتی۔ وہ مزے مزے سے کھائے جاتا۔ شام کو واپس جاتا تو کپڑے میلے اور پیٹ میں زیادہ کھانے کی وجہ سے اینٹھن ہوتی۔ بھائی جان ڈاکٹر تھے، گھر پر علاج معالجہ کرلیتے۔ اس روز کی بک بک سے تنگ آکر بیگم صاحبہ نے نیا حکم دیا کہ سکینہ اپنے تمام بچوں کو ملانے کے لیے آیا کرے۔ جس دن سکینہ بچوں سمیت آتی تو برآمدے میں چارپائیاں ڈال دی جاتیں اور دال بھات کی دعوت ہوتی۔ بہن بھائی جانے لگتے تو کوپی تھوڑی دیر کے لیے چپ سا ہوجاتا۔ سکینہ حسرت بھری نظریں ڈال کر چل دیتی۔ بیگم صاحبہ سے یہ نظریں برداشت نہ ہوتی تھیں۔ ایک دن ان سے رہا نہ گیا تو انہوں نے سکینہ کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’دیکھ بی بی اگر تو اپنے بچے کی بہتری چاہتی ہے تو تھوڑی سی جذبات کی قربانی دینی پڑے گی۔‘‘
’’اچھا بیگم صاحبہ۔‘‘ سکینہ بظاہر مسکراتی ہوئی رخصت ہوئی مگر اس کی ڈ بڈبائی ہوئی آنکھوں کے خیال سے بیگم صاحبہ کا جی ہمیشہ غوطے کھاتا رہا۔
رفتہ رفتہ کوپی کو اپنے گھر والے اور ماحول بھولتے گئے۔ اب وہ ذرا سی بھی گندگی برداشت نہ کرتا تھا۔ مزاج کے خلاف کوئی بات ہوئی، ضد کرنے لگا۔ اسکول کے دوسرے بچوں سے اپنے آپ کو الگ اور ارفع سمجھتا۔ کیونکہ اس کے پاس رنگ برنگی بش شرٹیں، نئے نئے سوٹ اور بوٹ، سوئٹر اور خو بصورت ٹوپیاں تھیں۔۔۔ اسکول کے معاملات میں وہ اچھا خاصا بیگم کا مدد گار ثابت ہو رہا تھا۔ ہاتھ کی چھڑی پکڑے، ادھر ادھر بھاگتے بچوں کو گھیر لاتا اور ان کی منی منی شکایتیں بھی کرتا۔۔۔ بچے اس سے دبتے تھے۔ بعض جی دار موقع پاکر چھوٹے سے کوپی کی اچھی طرح مرمت کر چھوڑتے۔ وہ روتا چیختا بیگم صاحبہ کے پاس آتا۔ وہ بچوں کی ماؤں کو بلواتیں اور رعب سے کہتیں، ’’اپنے لڑکوں کو سمجھاؤ۔۔۔ میں تو سب کا بھلا چاہتی ہوں۔ کوئی بچہ ہی ایسا ہے۔ خود پیار لیتا ہے۔‘‘
ایک ماں نے چمک کر کہا، ’’اپنا اپنا نصیب ہے بیگم صاحبہ! آپ نے اسے گود لے لیا ہے تو اپنے بچوں کی طرح اچھے اسکول میں بھجواؤنا۔‘‘
عورت کی اتنی بات بیگم صاحبہ کے سینے کو چھیدتی چلی گئی۔ اب خلوص سے زیادہ انا کا سوال تھا۔ وہ اپنے پیار کو نیچا نہ دیکھنا چاہتی تھیں۔ اچھے اسکول میں داخلے کے لیے تگ دو شروع ہوئی۔ ہزار کوششوں اور سفارشوں سے انگریزی اسکول میں سیٹ مل گئی۔ اب کوپی بڑے ٹھاٹھ سے بھائی جان کے ساتھ اسکوٹر پر بیٹھ کر پڑھنے جاتا۔
نئے اسکول میں کوئی نہ جانتا تھا کہ اس کا باپ پھیری والا ترکاری فروش ہے اور اس کی ماں لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھتی ہے اور اس کے ڈھیر سارے بھائی بہن نہایت ندیدے، کمزور، زرد رو اور گندے ہیں۔ بات بے بات گالیاں دیتے اور لڑتے ہیں۔ کوپی تو صاف ستھرا صحت مند بچہ تھا اور پھر آنکھوں میں فرشتو ں کی سی معصومیت اور قناعت۔۔۔ اور ایک دلفریب مسکراہٹ کہ آسودہ حالی کی شاہد تھی۔ دمکتی رنگت کہتی تھی، کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔ وہ اپنی عمر کے مطابق آداب مجلس بھی سیکھ گیا۔ میز کرسی نہ ہو تو اسے کھانے کا مزہ ہی نہ آتا۔ بڑوں کے درمیان نہایت تمیز اور سلیقے سے بیٹھتا اٹھتا اور بات چیت کرتا۔ نچھی اس کی اتالیق تھی اور ہمجولی بھی۔ وہ اس کی بات مانتا بھی تھا اور ٹالتا بھی۔
کوپی کچھ سمجھ دار ہوا تو خاں صاحب نے اچھے علاقے میں نیا گھر بنوالیا۔ بھائی جان نے وہاں اپنا کلینک کھول لیا۔ نچھی کا کالج بھی اسی طرف پڑتا تھا اور کوپی کا اسکول بھی۔ اس کے علاوہ جب سے انہوں نے کوپی کو گود لیا تھا، غریب طبقہ در پردہ ان کے خلاف ہوگیا تھا۔ عورتیں تو برملا کہا کرتیں، ’’کیا لال جڑے تھے چھوکرے میں۔‘‘
ضد میں آکر، ایک ایک کرکے، لوگوں نے اپنے بچوں کو بیگم صاحبہ کے اسکول سے اٹھالیا۔ گلیوں میں آواز پھرتے، بیگم کی ٹیں تو ٹوٹی۔ غریبوں اور جاہلوں میں محبت اور نفرت دونوں وقتی جذبے ہوتے ہیں۔ غور و فکر اور ریا کاری کے نہ ہونے کے باعث کوئی جذبہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہتا۔ خاں صاحب نے اس علاقے سے اپنا ڈ یرہ اٹھاکر اپنا بھلا کیا۔ نئے گھر میں جانے سے سب کو فائدہ ہوا۔ پر سکینہ کو یوں لگتا تھا جیسے زندگی کی کچھ سانسیں کم ہوگئی ہیں۔ خاں صاحب کی کوٹھی کیا خالی ہوئی، سکینہ کی گود خالی ہوگئی۔ اتنے بچوں کی ماں سکینہ، کوپی کے لیے کوکھ پکڑ کر رہ گئی۔ روتی تھی اور یاد کرتی تھی۔ اس کامیاں بھی ایک دو روز چپ سادھے رہا۔ سکینہ کی اداسی ختم نہ ہوئی تو تنگ آکر اس نے بیوی کو دوچار لگائیں اور کہا، ’’جو لڑکا مرجاتا تو کیا کرلیتی۔ بھلے لوگ اس کی زندگی بنانا چاہتے ہیں اور تیری مامتا موڑا ہی نہیں لیتی۔۔۔ جا۔۔۔ جاکر لڑکے کو واپس لے آ۔‘‘
ہفتہ عشرہ بعد کوپی ملنے کے لیے آتا تو سکینہ کھوج کھوج کر پوچھتی، ’’تو باجی والے کمرے میں مسہری پر ہی سوتا ہے نا؟ تجھے میز پر ہی کھانا کھلاتے ہیں نا؟ اور تو کار میں اسکول جاتا ہے؟‘‘
بیگم صاحبہ کے اسکول میں کہیں بھی تو ڈھیل نہ تھی۔ یونہی آتے جاتے کوپی سیانا ہو گیا۔ سکینہ کو اسے واپس لانے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ بارہویں سال میں قدم رکھ کر بچے زقندیں بھرنے لگتے ہیں۔ کبھی جوانی کا احساس ہوتا ہے کبھی بچپن کا۔۔۔ من مانی کرنے کو جی بے قرار رہتا ہے۔ گھر سے باہر کی دنیا میں تحقیق و دریافت کے لیے طبیعت مچلتی ہے اور وجود کے اندر چونکا دینے والی دنیائیں جنم لیتی ہیں۔ بچے چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے نئے وجود کو جلدی تسلیم کرلیں۔ اپنی ذات آزمانے اور منوانے کے مواقع کچھ گھر سے باہر ہی میسر آسکتے ہیں۔
کوپی اس عمر کو پہنچا تو اسے قید و بند سے آزاد ہونے کے کئی مواقع تھے۔ سکینہ کے گھر میں ہر قسم کی نازیبا حرکات کی جاسکتی تھیں، جہاں چاہے، جس طرح چاہے اٹھے بیٹھے، آئے جائے، گالی دے یا برائی کرے، کوئی نہ ٹوکتا تھا۔ چھٹی کے روز ملنے کے لیے آتا تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کے پر اگ آئے ہیں اور پنجرے کی تیلیاں کمزور پڑ گئی ہیں۔ وہ انہیں توڑنا چاہے تو کسی وقت بھی توڑ سکتا ہے۔ یہاں ہر وقت گھڑکیاں دینے والی باجی نچھی نہ تھیں۔
’’دیکھو، یونیفارم بدلو پھر کھانا ملے گا۔ امی یہ گندے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ امی اس نے میرا نیل پالش کاغذوں پر لیپ کر پھول بنائے ہیں۔ وغیرہ۔‘‘ نہ عفت آپا تھیں کہ ساتھ چلتے ہوئے کہیں، ’’تمیز سے چلو۔ راستہ دیکھ کر چلو۔ یہ کبوتر، یہ پتنگ ایک دن ضرور تیرا ایکسیڈنٹ کروائیں گے۔‘‘
ماں کے گھر میں تو وہ پتنگ لوٹتا لوٹتا، گلیاں، بازار، جوہڑ اور کوڑے کے ڈھیر، سب اپنے پاؤں سے پامال کردیتا اور اسے کوئی روک نہ سکتا تھا۔ بھائی جان اسکول کاکام نہ کرنے پر کان کھنچائی کرنے یہاں نہ آتے تھے۔ سکینہ کے گھر کی فضا کھلی اور آزاد تھی۔ پڑھا لکھا رہے ہیں تو اپنے فائدے کو۔ روٹی، کپڑے پر پڑھا لکھا غلام کیا برا؟‘‘
سکینہ ان پڑھ اور غریب تھی جو بیٹے کو پیدا ہوتے ہی لکشمن داس سمجھتی تھی۔ اس کے دوسرے دو لڑکے تنوروں پر روٹی برتن پکڑانے پر ملازم ہوگئے تھے۔ وہاں وہ کھانا بھی کھاتے اور دس روپے ماہوار ماں کو بھی لاکر دیتے۔ سکینہ ان پر اعتماد کرتی تھی۔ ان کے مقابلے میں کوپی نازوں میں پلا، بگڑا ہوا چھوکرا تھا۔ کبھی ماں کے لیے کوئی تحفہ وغیرہ لے بھی آتا تو سکینہ کا دل خوش نہ ہوتا۔
ادھر بیگم صاحبہ کے گھر میں کوئی چور گھس آیا تھا۔ چھوٹے موٹے کپڑے، لڑکیوں کی زیبائش کی چیزیں، پن، پنسلیں، آئے دن کوئی نہ کوئی چیز غائب ہوتی۔ شروع شر وع میں کسی کو بھی اندازہ نہ ہوا لیکن جب تواتر سے چوریاں ہونے لگیں تو گھر کے ملازمین سے پوچھا گیا۔ ڈرایا، دھمکایا اور تنخواہ کاٹنے تک کی دھمکیاں دی گئیں۔ چیزیں گم ہونے کا تسلسل تو نہ ٹوٹا البتہ وقفے لمبے ہونے لگے۔ کوپی پر کوئی بھی شک کرنے کو تیار نہ تھا۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ کوپی پر الزام لگانا گناہ خیال کرتا۔ بیگم کے منہ سے بات نے نکلنا چاہا بھی تو انہوں نے روک لی، گویا بھرے بازار اپنی توہین کا اعتراف کرنے کا ان میں یارا نہ تھامگر کوپی کے لیے اتنے برسوں سے پلا ہوا پیار کا پودا اتنی پکی جڑیں پکڑ چکا تھا کہ شبہ کی آنچ اسے جھلسا تو سکتی تھی، جڑ تک جلا نہ سکتی تھی۔
کوپی اب گھر سے دن دن بھر غائب رہتا۔ کوئی پوچھتا تو بے تکا سا جواب دیتا یا بسورنے لگتا اور بیگم کا جی ابل آتا، ’’اے ہے اس عمر میں لڑکے ایسے ہی کرتے ہیں۔ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
وقت گزرتا گیا۔ بیگم صاحبہ بچوں کے بیاہ شادیوں کے چکر میں پڑگئیں۔ اب کوپی کی عمر سترہ برس تھی۔ اس نے میٹرک پاس کرلیا تھا اور بیگم صاحبہ سوچ رہی تھیں کہ کہ اسے کالج میں داخل کروادیں۔ عفت آپا شادی کے بعد بچوں والی ہوگئی تھیں۔ بھائی جان پسند کی لڑکی کے خیال میں اب تک کنوارے بیٹھے تھے۔ نچھی نے کسی کو پسند کرکے فیصلہ بھی دے دیا تھا۔ منگنی ہوچکی تھی۔ مہمان نوازیاں زو روں پر تھیں۔۔۔ آنا جانا، مہمان، ملنے والے۔۔۔ نچھی ہر وقت مصروف رہتی۔ وہ اب کوپی کے ساتھ کم سے کم بحث کرتی اور کوپی اپنے آپ کو تنہا تنہا محسوس کرتا۔
نچھی کے ساس سسر آئے ہوئے تھے۔ وہ گھبرائی گھبرائی گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھی۔ اپنے ہاتھوں سے قسم قسم کے کھانے تیار کرکے سجائے لگائے۔ آخر میں خود بننے سنورنے لگی تو منگنی کی انگوٹھی غائب۔۔۔! اتنے ارمان بھرے دن شگون کی انگوٹھی گم ہوجائے۔ لوگوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔ دبی د بی باز پرس ہوئی۔ نچھی کی ساس کے کان میں بھنک پڑی تو وہ چیخ اٹھیں، ’’کوپی سے پوچھو۔۔۔ اس عمر میں بچوں کو ایسی لت پڑجاتی ہے۔۔۔ پوچھ لینے میں کیا حرج ہے۔‘‘
کوپی نے بڑی بی کو یہ کہتے سنا تو منہ پھلائے گھر سے چلا گیا۔ اس کے اس طرح چلے جانے پر سب افراد پریشان تھے۔ انہیں بڑی بی سے شرمندگی بھی تھی اور ان پر غصہ بھی آرہا تھا۔ گھر کو ایک مسلسل ا ور بوجھل قسم کی خاموشی نے گھیر لیا۔ کوئی بھی ایک دوسرے سے کھل کر بات نہ کرتا تھا۔ رات کے کھانے پر بھی مزیدار گفتگو نہ ہوسکی۔ کسی نے بھی خوشگوار موضوع چھیڑنے کی کوشش نہ کی۔ میز پر کوپی کی جگہ خالی تھی۔ اس کی غیرموجودگی کا سب کو احساس تھا۔ وہ دیر تک اس کی واپسی کا انتظار کرتے رہے۔ حتیٰ کہ رات ڈیڑھ بج گیا۔
نیند ابھی کچی پکی تھی۔ باہر کے کمپاؤنڈ کا گیٹ زور سے کھڑکا۔ بیگم صاحب دوپٹہ سنبھالتیں، اللہ اللہ کرتی اٹھیں۔ پر یہ کوپی کے ہاتھوں کی دستک تو نہ تھی۔۔۔ وہ تو آہستہ سے بجاتا ہے۔ بیگم سوچتی اور قیافے لگاتی چلیں۔ گھر کے تمام افراد، نوکر چاکر جاگ اٹھے تھے۔ بتیاں روشن ہوگئیں۔ بیگم نے باہر جھانک کر د یکھا۔ کئی مرد کھڑے تھے۔
’’پولیس۔۔۔‘‘ بیگم صاحبہ کا جی دھک سے رہ گیا۔۔۔ اسی اثنا میں ان کا بیٹا دیوانوں کی طرح چیختا اندر داخل ہوا۔
’’امی امی۔۔۔ کوپی مرگیا۔۔۔ اس نے خودکشی کرلی امی!‘‘
پھر کیا تھا۔ آن کی آن میں گھر میں کہرام مچ گیا۔
کوپی کا خط پڑھ کر سب نے مان لیا کہ اس نے خود کشی کی ہے۔ اس کی لاش دیکھ کر سب کو یقین تھا کہ وہ مرگیا۔۔۔ لیکن یہ کوئی نہ جان سکا کہ وہ کیوں مرگیا۔۔۔ کیوپڈ کا تیر الٹا کیوں چل گیا؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.