کچھ تلخ کچھ شیریں
ہمارے کمرے کے بڑے آئینے میں دیکھتے ہوئے میں گردن لچکارہی تھی کل دیکھے سنیما میں ناچنے والی بائی کی طرح۔ اتنے میں دروازے کی اور سے آواز آئی۔
’’واہ! بہت خوب!‘‘
ایک دم سے دہل گئی میں۔ شریمان جی صبح کی چہل قدمی ختم کرکے واپس آ چکے تھے۔ ان کے تو سارے کام بس گھڑی کی سوئیوں کی طرح ہوا کرتے ہیں، ہلکی سی آہٹ تک نہیں ہوئی۔
میں کونے میں رکھی ہوئی میز کے پاس جاکر ڈانٹ پھٹکار کے انتطار میں چپ چاپ سر جھکاکر کھڑی ہو گئی۔
’’دیکھ رہا ہوں کہ بہت تیز ہوتی جارہی ہو تم!‘‘
میں نے ہنسی کو دبایا۔ وہ غصہ ہونے لگتے ہیں تو مجھے ہنسی آنے لگتی ہے۔ یہ مرد سمجھتے ہیں عورتیں ان کے غصے سے ڈر ہی تو جاتی ہیں۔
’’تمہیں اداکاری کرناہے، گھر کا کام کاج نہیں کرنا۔ گھر میں جھگڑا کرنا اچھا لگتا ہے، چغلی کھانا پسند ہے کیوں؟‘‘
میں کاغذ پر کوا کا پر بنا رہی تھی۔
’’کاغذ خراب مت کرو۔‘‘
میں نے پنسل رکھ دی۔
’’میں تم سے بات کر رہا ہوں۔‘‘
میں نے دوبارہ پلو منہ سے لگا لیا اور چپ چاپ کمرے سے باہر نکلنے لگی مگر میری دبائی ہوئی ہنسی ان کی تیز نظروں سے چھپی نہ رہ سکی، وہ گرجے، ’’اور خواہ مخواہ ہنسنے کی بے ہودہ عادت پڑ چکی ہے تمہیں!‘‘
اور مجھے سر پر یک چپت کا پرشاد مل گیا۔ ان کی چپت غصہ ہو جانے کی علامت ہوتی ہے۔ نیچے آتے ہی سات بجنے کی ٹن ٹن کانوں میں پڑی۔ ان کے نہانے کا سمے ہو چکا تھا۔ میں پانی اتارنے کو لپکی ورنہ پھر سے۔۔۔
لیکن سماوار کے پاس پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سماوار ٹھنڈا برف۔ اونہہ جیٹھانی جی کے سارے کام ایسے ہی ہوتے ہیں، ایک کام بھی ڈھنگ کا نہیں ہوتا۔ مجھے غصہ آ گیا۔
’’یہ کیا؟ سماوار میں آج کوئلے ہی نہیں ڈالے گئے۔‘‘
اس طرح کوئی زور سے بولے تو ماتاجی ضرور سن لیتی ہیں۔ ہماری ساس کے کان بہت تیزہیں اور زبان توکان سے بھی زیادہ تیز، پوجا گھر سے ان کی آواز گونجی۔
’’کیا؟ گھر کا کام کاج چھوڑ کے سویرے سویرے کہاں نکل گئی وہ۔ موئی سدا کی کام چور ہے۔‘‘
ان کا چرخہ شروع ہوتے ہی مجھے خود ہی شرمندگی سی ہونے لگی۔ مجھے ہی جیٹھانی جی سے کہنا چاہئے تھا۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کیا کر رہی ہیں، میں جو اندر گئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہ دیوان خانے میں زمین پر لیٹی ہوئی ہیں اور ان کا دم چڑھا ہوا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بڑی مشکل سے اٹھ بیٹھیں اور بولیں۔
’’بہت سانس پھول رہا ہے میرا۔ ذرا قابو میں آ جائے تو سماوار جلاتی ہوں۔‘‘
مجھے بہت برا لگا۔ میں نے کہا، ’’ہائے رام اتنادم چڑھا ہوا ہے آپ کا، آپ بھلا کام کیسے کریں گی؟ میں بستر لگائے دیتی ہوں آپ آرام کیجئے۔ سماوار میں خود جلالوں گی۔‘‘
لیکن ہماری بات چیت پوجا گھر تک پہنچ ہی گئی۔ اماں وہیں سے بولیں کون بول رہا ہے ادھر دیوان خانے میں۔ اَنّ پورنا ہی ہے نا وہاں!؟
جیٹھانی جی اٹھنے کے لئے پھر سے چھٹپٹانے لگیں۔ میں نے اشارہ کیا کہ لیٹی رہیں اور وہ بول اٹھی۔ ’’ان کا سانس پھول رہا ہے۔ میں جلا لیتی ہوں سماوار‘‘ یہ سنتے ہی پوجا گھر میں زلزلہ آ گیا۔
’’کیا؟ مزے سے لیٹی ہوئی ہے کیا وہ مہارانی؟ حد ہو گئی بوا اس عورت کی۔ بارہ مہینے اور اٹھارہ کال یکساں اس کی بیماری لگی رہتی ہے دن بھر میں چار تنکے ادھر سے ادھر کرتے نہیں بنتا۔ شادی ہوتے ہی پتی کو کھاگئی اور اب مجھے پہنچانے پر تلی ہوئی ہے۔‘‘
جیٹھانی کو ایک دم رونا آ گیا۔ وہ منہ میں بولیں، ’’سچ مچ میں ہی بھنڈپیری ہوں، کم نصیب ہوں۔ پہلے اپنے شوہر کی جان لے لی اوراب احدیوں کی طرح پڑی مفت کی روٹیاں توڑ رہی ہوں۔‘‘ اور انہوں نے تڑاتڑ اپنے گالوں پر تھپڑ برسانے شروع کر دیے۔
میں نے جھٹ ان کے ہاتھ پکڑلئے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ اچانک میرا دل بھر آیا اور میں نے ان کے بدن پر سے ہاتھ پھیرا وہاں اور بیٹھتی تو رونا ہی آ جاتا، اس لئے میں نے ان سے کہا، ’’ٹھہریئے میں آپ کے لئے چائے بناکر لاتی ہوں۔ اس سے طبیعت سنبھل جائےگی۔‘‘
وہ بولیں، ’’نہیں نہیں اب طبیعت کو سنبھال کر کیا کروں گی۔ مر جانے دو مجھے تو بہتر ہوگا۔‘‘
اب اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ میں نے خاموشی سے اسٹو باہر لاکر جلایا اماں کی آواز آئی، ’’کون کھڑبڑ کر رہا ہے ادھر؟ نارائن آ گیا ہے کیا؟ بیٹا نارائن ذرا پوجا گھر میں آکر جائیو۔‘‘
نارائن ہمارے منجھلے دیور ہیں ایک دم سیدھے سادے۔ بےوقوف ہی کہنے نا! لیکن اماں ان پر بہت جان دیتی ہیں۔ جب تب پوجا گھر میں بلاکر کچھ نہ کچھ کھا نے کو دیتی رہتی ہیں۔ البتہ ہمارے صاحب، پر سب جلتے ہیں پوچھئے بھلا کیوں؟ سب سے زیادہ پیسے جو کماتے ہیں۔
اماں کو سنائی نہ دے اس لئے اسٹو کو زیادہ پمپ نہیں کیا۔ اتنے میں منجھلی دیورانی لپک جھپک وہاں پہنچ گئی۔ انہیں گمان ہے کہ وہ بہت حسین ہیں۔ اس لئے ہر وقت بننا سنورنا اور کچھ کام نہ کرتے ہوئے دوسروں پر رعب جمانا ان کا فر ض ہے۔ انہیں مرچیں لگتی ہیں اس بات سے کہ لوگ مجھے خوبصورت بتاتے ہیں اور میرے پتی کی تنخواہ بھی زیادہ ہے۔ اسی لئے وہ ہمیشہ میری چغلی کھاتی رہتی ہیں۔
’’کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہوں نے میری طرف دیکھا اور جان بوجھ کر اونچی آواز میں بولیں، اب کیا اوپر کے کمرے میں چائے چاہئے؟‘‘
پوجا گھر سے آوازآئی، ’’کون چائے بنا رہا ہے؟‘‘
میں نے منجھلی دیورانی کو غصے سے دیکھا وہ فوراً ٹھسا دکھاتی ہوئی بولیں، ’’میری طرف دیکھ کر آنکھیں کیو ں نکال رہی ہو؟ گھر میں تین تین بار چائے بنتی ہے اور شکر ختم ہو جائے تو اماں مجھ پر ناراض ہوتی ہے۔‘‘
جیٹھانی جی نے گھگھیاتے ہوئے کہا، ’’سچ مچ مجھے چائے نہیں چاہئے۔ رہنے دو تم ورنہ تمہیں مفت میں باتیں سنناپڑیں گی۔ مجھ مردار کا کیا ہے؟ مر جاؤں تو سب کو راحت ملے۔‘‘
اتنے میں اماں پوجا گھر سے باہر آ گئیں اور مجھ سے بولیں، ’’سوشیلا، دیکھ رہی ہوں کہ تم بھی دن بدن بہت بے ہودہ ہو رہی ہو۔ تم سے کس نے کہا ہے کہ ہر کام میں دخل دیا کرو۔‘‘
اور پھر وہ مجھے بےتحاشا باتیں سنانے لگیں۔ لیکن میں نے منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا بیٹھی بلی کے بچے کو دیکھتی رہی، جیٹھانی جی البتہ مارے لاج کے مری جا رہی تھیں۔
اتنے میں زینہ کھڑکا۔ وہ نہانے کے لئے نیچے اتر رہے تھے۔ اچانک ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ نہانے کے لئے گرم پانی نہ ملنے پر وہ کوئی ہنگامہ نہ کریں اس لئے میں نے انہیں آنکھوں سے اشارہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ (اماں کو بہوؤں کا شوہروں سے زیادہ بات چیت کرنا پسند نہیں) لیکن حضور تو اپنی ہی دھن میں مگن تھے۔ کوئی موٹی سی کتاب دماغ میں چکرا رہی ہوگی اور کیا؟
نتیجہ یہ ہوا کہ نہانی سے غصے میں لال پیلے ہوتے ہوئے باہر نکلے اور لگے چلانے، ’’یہ کیا، آج نہانے کے لئے گرم پانی نہیں ہے؟ کرتی کیا ہو تم عورتیں گھر میں بیٹھے بیٹھے؟‘‘
میں نے انگلی ہونٹوں کے قریب لے جاکر انہیں چپ ہو جانے کا اشارہ کیا تو زور سے پوچھنے لگے، ’’آں؟‘‘ مرد بھی ایسے ہوتے ہیں۔ آخر مجھے کہنا ہی پڑا، ’’آج ٹھنڈے پانی ہی سے نہا لیں آپ۔‘‘
وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر بولے، ’’کیوں؟‘‘
میں نے غصے سے کہا، ’’میں جو کہہ رہی ہوں‘‘
اس پر جناب خاموش ہی ہو گئے۔
لیکن منجھلی دیورانی بھلا یہ موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتیں؟ رسوئی گھر سے نکل کربیچ ہی میں ناک گھسیڑدی‘‘ کیا؟ جیجاجی کو ٹھنڈے پانی ہی سے نہانے کے لئے کہہ رہی ہو تم؟ اور جو انہیں سردی لگ جائے تو؟ گرم پانی دینا ایسا کون سا مشکل کام ہے۔ ٹھہر جاؤ میں ہی دیئے دیتی ہوں انہیں پانی گرم کرکے۔‘‘ اور جان بوجھ کر وہ ان کے بالکل قریب سے ہوکر اندر چلی گئیں۔
مجھے ایک دم طیش آ گیا، منجھلی دیورانی کی اس طرح اگوائی کرنے کی بری عادت ہے، مردوں کے آگے پیچھے پھریں گی، بایاں پیر نچائیں گی، لاڈسے باتیں کریں گی اور دوسروں کی برائی کریں گے۔ ہمیں نہیں آتا بابا اس طرح دوسروں کے مردوں کے آگے ناچتے پھرنا۔‘‘
میں نے چائے کی پتیلی اتاردی اور جیٹھانی جی سے کہا، ’’آپ خودہی لے لیجئےگا اب چائے چھان کر۔‘‘
پھر جھٹ سے پانی کا بڑا پتیلا اسٹو پر رکھا، کھچ کھچ کھچ اسے پمپ کیا اور پانی ابلتے ہی لے جاکر ان کی بالٹی میں بھق سے انڈیل دیا۔ تھوڑا سا پانی ان پر بھی اڑکر گرا۔‘‘ ارے ارے، پاگل تو نہیں نا ہو گئیں تم؟‘‘
’’جی ہاں، ٹھنڈا پانی کتنا ملاؤں، بتائیے۔‘‘
وہ بولے، ’’ہاں، بس بس، اجی ہو کیا گیا ہے تمہیں کہ اس طرح تاؤ دکھا رہی ہو؟ تمہیں نہیں گرم کرنا تھا پانی تو بھابی کر دیتیں۔‘‘
میں نے چڑکر کہا، ’’نہیں چاہئے میرا گرم کیا ہوا پانی تو لائیے پھینک دیتی ہوں میں۔‘‘
’’کیا مطلب ہے؟‘‘
’’نہیں سمجھیں گے آپ، ایسی باتیں کتابوں میں نہیں لکھی ہوتیں۔‘‘ اور میں گھر کے اندر آ گئی مرد بھی کتنے بھولے ہوتے ہیں۔
دیوان خانے میں جیٹھانی جی چائے کے ہلکے ہلکے گھونٹ لے رہی تھیں۔ اتنے میں ان کا لڑکا کرشنا وہاں پہنچ گیا ماں کو چائے پیتے دیکھ کر چلانے لگا، ’’یہ کیا؟ تم اکیلے ہی چائے پی رہی ہو اور ہم مانگیں تو ڈانٹنے لگتی ہو۔ مجھے بھی دو چائے۔‘‘
جیٹھانی جی ہلکی آواز میں بولیں، ’’کرشنا بیٹے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے تمہاری چھوٹی چاچی نے مجھے چائے بناکر دی ہے۔ تم سمجھدار ہو باہر جاکر پڑھنے بیٹھو۔‘‘
کرشنا ہاتھ پیر پٹکتا ہوا بولا، ’’تم تو مجھے کچھ بھی نہیں دیتی ہو۔ بابا تو مجھے گودی لے کر مٹھائی دیتے تھے، گھومنے بھی لے جاتے تھے۔ تم توبس پڑھنے بٹھاتی ہو، کام کراتی ہو۔ ٹھہر جاؤ میں ابھی اندر جاکر سارے لڈو کھا لیتا ہوں۔‘‘
جیٹھانی جی کی آنکھوں سے دوبارہ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور منہ تک لائی ہوئی چائے کی طشتری انہوں نے نیچے رکھ دی۔ میرے لاکھ اصرار کرنے پر بھی وہ چائے ان سے نہیں پی گئی۔ ادھر کرشنا رسوئی میں جاکر کھڑبڑ کرنے لگا اور اماں نے چلانا شروع کر دیا۔ جیٹھانی جی پھولتی ہوئی سانسوں کے باوجود ادھر بھاگیں اورہاتھ لگے بلونے سے انہوں نے کرشنا کو اس طرح پیٹنا شروع کر دیا گویا جان نکال کر دم لیں گی۔
میں نے جھٹ آگے بڑھ کر کرشنا کو ان سے چھڑا لیا اور باہر لے گئی۔ وہ ہچکیاں لیتا ہوا بولا، ’’ماں بہت بری ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’نہیں بابا، ہم ہی لوگ برے ہیں۔‘‘ اور اسے دو میٹھی گولیاں دیں۔ وہ فوراً ہنسنے لگا، میری آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ اسے ہنستا دیکھ کر میرے دل میں اتھل پتھل ہونے لگی۔ میں نے گردن موڑی اور رسوئی گھر میں چلی گئی۔
اتنے میں پوجا گھر بول اٹھا، ’’چھوٹی بہو، رگھو جاگ گیا؟‘‘
رگھو ہمارے چھوٹے دیور ہیں۔ ایسے دبلے پتلے جیسے ایندھن کی لکڑی۔ موٹے شیشوں کی عینک لگاتے ہیں۔ امتحان میں فیل ہوتے رہتے ہیں اور اپنے لمبوترے چہرے کو اور بھی لٹکا کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس طرح بیٹھے رہنا انہیں کیسے اچھا لگتا ہے بھگوان جانے!‘‘
اماں نے پھر وہی سوال دہرایا۔ میں نے جواب دیا، ’’اب تک آٹھ نہیں بجے ہیں، ان کے اٹھنے کا سمے کہاں ہوا ہے ابھی۔‘‘
وہ بولیں، ’’بہواس کی پریکشا قریب آ رہی ہے نا، پڑھنے کے لئے سویرے اٹھنے والا ہے وہ۔۔۔ اور کل بخار بھی تھا اسے، کہہ تو رہا تھا۔‘‘
چھوٹے دیور کے بخار کے تو روز ہی لاڈ چار ہوا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کو بتائیں تو وہ کہتے ہیں، ’’اسے کچھ نہیں ہوا ہے، آپ اس کی شادی کر دیجئے۔‘‘ لیکن اماں کہتی ہے، ’’تعلیم پوری ہونے سے پہلے شادی نہیں ہو سکتی۔‘‘ ان کا جی چاہتا ہے چھوٹے دیور خوب پڑھ لکھ لیں اور ہمارے مسٹر سے بھی زیادہ تنخواہ پائیں، سب لوگ کیوں ’’ان‘‘ سے اتنا بیر رکھتے ہیں؟
میں نے آہستہ سے کہا، ’’بہت ہو چکے چونچلے۔‘‘
فوراً پوجا گھر سے آواز ابھری ’’کیا کہا؟‘‘
میں نے کہا ’’کچھ نہیں‘‘ اور چھوٹے دیورجی کو جگانے کے لئے چلی گئی۔ وہ بستر پر پڑے جاگ رہے تھے اور منہ ہی منہ میں کچھ بدبدا رہے تھے۔ میں نے دروازہ ہی میں کھڑے ہوکر کہا، ’’بھیا! اماں جگانے کے لئے کہہ رہی ہیں۔‘‘
دیورجی کاچہرہ اور لمبوترا لگنے لگا۔ پھر وہ بولے، ’’بھابی ذرا یہاں آؤ، دیکھو مجھے بخار تو نہیں ہے؟‘‘
’’مجھے نہیں آتا بخار دیکھنا، میں کرشنا کے ہاتھوں تھرمامیٹر بھجوا دیتی ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
چھوٹے دیور جلدی سے بولے، ’’ارے، لیکن۔۔۔‘‘
’’جلدی سے نیچے آجائیے ورنہ چائے ٹھنڈی ہو جائےگی۔‘‘
وہ بولے، ’’تم اوپر ہی لے آؤ چائے‘‘
میں نے کہا، ’’مجھے کام ہے‘‘
چھوٹے دیور نے بستر ہی میں تھوڑا سا اٹھ کر کہا، ’’بھابی میری داڑھی بڑھی ہوئی تو نہیں ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے نہیں معلوم‘‘ اور نیچے جانے لگی تو وہ زینے میں مل گئے۔
’’کیوں اٹھا نہیں اب تک وہ مورکھ۔‘‘
’’بس اٹھ رہے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
وہ غصے میں بھرے ہوئے دیورجی کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کی میز پر پڑی ہوئی انگریزی کی ساری ناولیں اٹھاکر پھینک دیں اور کورس کی کتاب ان کے ہاتھ میں دے کر زبردستی انہیں کرسی پر بٹھا دیا۔
ہنستے ہنستے میرا برا حال ہو گیا۔ اتنے میں سسرجی کے کمرے کے بند دروازے کی اور میرا دھیان چلا گیا اور میں دہل کرچپ ہو گئی۔ ہمارے سسرجی بہت تیز مزاج اور ہوشیار انسان ہیں۔ اکثر اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے بیٹھے نہ جانے کون سے حساب کیا کرتے ہیں۔ گھر میں کیا چل رہا ہے اس کی انہیں خبر ہی نہیں ہوتی، البتہ وہ کسی کو سبق سکھانا چاہیں تو پھر اس کی شامت ہی آ جائےگی۔ وہ ہر روز شام کو باہر نکل جاتے ہیں اور پھر رات گئے پان چباتے ہوئے گھر لوٹتے ہیں۔
میں زینے میں چپ سادھے کھڑی رہی تاکہ دیورجی کے کمرے سے شریمان جی کے باہر نکلتے ہی ان کاایک مرتبہ سامنا ہو جائے۔ اتنے میں سسرجی کے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھلا اور منجھلی دیورانی چائے کی خالی پیالی لے کر باہر نکلیں۔ مجھے دیکھتے ہی وہ اس بری طرح چونکیں کہ چائے کی پیالی ان کے ہاتھ سے گر کر کھن سے ٹوٹ گئی۔ میں چپ چاپ زینے سے اتر کر نیچے چلی گئی اور پھر تھوڑی دیر تک میرامن کسی کام میں نہ لگ سکا۔
منجھلی دیورانی البتہ رسوئی میں اپنے پتی پر غصہ نکال رہی تھیں، ’’بس بیٹھے رہتے ہیں۔ ذرا وہ ناریل توڑیے۔۔۔ اور جاتے جاتے وہ پیڑا بچھاتے جائیے۔‘‘ اور منجھلے دیورجی بڑے آرام سے گھرکے سارے کام کرتے جا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میری حالت چوروں جیسی ہو رہی تھی۔
سب لوگ کھانا کھانے بیٹھے تو میں نے گھی پروسنا شروع کر دیا۔ گھی اور دہی پروسنے کا کام اماں ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کیا کرتی ہیں۔ اس وقت چھوٹے دیورجی کی تھالی میں دو چمچے گھی زیادہ گر جاتاہے اور کرشنا اوران کی تھالی میں نہیں کے برابر۔ اسی لئے گھی ڈالنے کاکام میں نے جان بوجھ کر اپنے ذمے لے لیا۔ سسرجی کو چمچا بھر گھی دے کر میں آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ وہ بولے، ’’رک کیوں گئیں؟ میں نے بس تو نہیں کہا۔‘‘
میں نے گھی اور ڈال دیا پر مجھے خواہ مخواہ ڈر سا لگنے لگا۔ اتنے میں ’’انہوں‘‘ نے مجھے بھی گھور کر دیکھا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا کچھ ہو جائے تو ’’انہیں‘‘ لگتا ہے میں بڑی لچی، جھگڑالو اور چغل خور ہوں۔
کھانا ختم ہوتے ہی میں جلدی جلدی سب سمیٹ ڈھانک کر اوپر گئی تو دیکھا جناب کپڑے پہن کر باہر جا چکے تھے۔ اتنا غصہ آیا۔
پرلی جانب کے کمرے سے منجھلی دیورانی کی ڈانٹ سنائی دی۔ میں فوراً کان لگاکر سننے لگی۔ منجھلی دیورانی کہہ رہی تھیں۔ ’’داڑھی کتنی بڑھا رکھی ہے۔ ذرا آئینہ تو دیکھئے۔‘‘
’’رہنے دو، کیا فرق پڑتا ہے مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’ہوں، آپ اس طرح ہونق بنے پھرتے ہیں اور مجھے یہاں وہاں شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔‘‘
’’پھر کیا کہتی ہو تم؟ اب کر لوں داڑھی؟‘‘
’’نہیں، نہیں کیوں کرتے ہیں مجھ پر اتنا احسان!‘‘
’’تمہیں تو کوئی بات پسند نہیں آتی۔ جاؤں میں اب؟‘‘
’’مجھے دس روپے دیجئے۔‘‘
’’دس روپے! مہینے کے اخیر میں کہاں سے لاؤں اتنے روپے؟‘‘
ہچکیاں، منانا، رونا، منت سماجت کرنا۔ ڈانٹنا۔
آخر منجھلے دیورجی اترا ہوا چہرہ اور جھکی ہوئی گردن لے کر زینہ اتر گئے۔ منجھلے دیورجی بھی عجیب انسان ہیں۔ منجھلی دیورانی ان کو جتنا ڈانٹتی پھٹکارتی ہیں وہ اتنا ہی ان کے آگے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔‘‘
دوپہر کو برتن مانجھ کر اوپر جانے ہی والی تھی کہ کوکن سے اماں کے بھائی کی لڑکیاں ہمارے ہاں آ گئیں۔
ان میں باہر نکلے ہوئے دانتوں والی بولی، ’’پھوپھی، پھوپھی، تمہارے لئے کوکن سے گنڈیریاں لائی ہیں اور کاجو بھی۔‘‘ اور گنڈیریوں کے چند ٹکڑے اور مٹھی بھر کاجو، اماں کے سامنے ڈال دیئے۔
اماں ایک دم کھل گئیں اور بولیں، ’’بہت اچھا کیا بیٹی! آج کل اتنا خلوص بھی کون دکھاتا ہے۔‘‘
’’پھوپھی کیسی باتیں کرتی ہیں تمہارے لئے خلوص نہیں ہوگا تو اور کس کے لئے ہوگا؟‘‘
’’ارے ایسا تو تم لوگوں کو محسوس ہوتا ہے ورنہ اس گھر میں تو میرا ہونا ہی برا لگتا ہے لوگوں کو۔‘‘
’’اچھا تمہاری بہوئیں اس حد تک جا چکی ہیں! انہیں بری لگتی ہو تو کیا ہمیں تو اپنی لگتی ہو۔ اب ہمارے ساتھ کوکن میں چلو۔‘‘
پھر تھوڑی ہی دیر میں گھرکے کونے کھدرے ٹٹولے جانے لگے۔ اچھے خاصے سبک بناوٹ کے دو پیتل کے ڈبے غائب ہو گئے، صندوق میں رکھی ہاتھی دانت کی کنگھیاں لا پتا ہو گئیں اور نہ جانے کتنی چھوٹی موٹی چیزیں گم ہو گئیں۔ منجھلی دیورانی نے جلدی جلدی اپنی ساری چیزیں ٹرنک میں بند کر دیں اور تالا ڈال دیا۔ مجھے نہیں سوجھی یہ ترکیب۔ نتیجے میں میری دو ساڑیاں غائب ہو گئیں۔ آخر میں میرا ایک ریشمی جمپر سینے سے لگائے ہوئے ایک بولی، ’’پھوپھی! مجھے بالکل ٹھیک بیٹھےگا نا یہ پولکا؟ ‘
اماں بولیں، ’’توپھر لے کیوں نہیں جاتی۔ وہ سلوالےگی نیا۔ یوں بھی ٹرنک کے ٹرنک بھرے پڑے ہیں کپڑوں سے۔ کیا کرنے ہیں اتنے ڈھیر سارے کپڑے!‘‘
کیا بتاؤں کتنا غصہ آیا مجھے۔ انہوں نے بڑے شوق سے اس جمپر کے لئے ریشمی ٹکڑا لاکر دیا تھا مجھے۔ لیکن بات جب اس سے بھی آگے بڑھی اور ایک چھوٹی لڑکی نے ان کے قلم کو ہاتھ لگایا تومیں نے ایک جھٹکے کے ساتھ اس سے وہ چھین لیا۔ اس لڑکی نے اماں سے شکایت کرنے کی کوشش کی لیکن اماں کو وہ شکایت سنائی ہی نہیں دی۔ ہمارے صاحب کا گھر میں دبدبہ ہی ایسا ہے۔
ان سب کے لئے سوجی اور چائے بناتے بناتے میر ی جان نکل گئی اوران موؤوں نے کھایا بھی اتنا کہ دو نوالے تک نہیں چھوڑے۔ جیٹھانی جی کا کرشنا بے چارا اتنا سا منہ لئے آس پاس پھرتا ہی رہ گیا۔
جانے سے پہلے ان لڑکیوں نے ایک مرتبہ پھر دیواروں پر لگے تختے ٹٹول ڈالے اماں جہاں پیسے رکھتی ہیں وہ کونے والا تختہ بھی۔ لیکن مجھ مت ماری کو اس وقت کوئی شک نہیں ہوا۔
آخر پانچ بجے مجھے اوپر جانے کی فرصت ملی۔ چھوٹے دیورجی کالج سے واپس آ چکے تھے۔ بولے، ’’چلو بھابی کیرم کھیلیں۔‘‘
میں نے کہا میرا سر دکھ رہا ہے‘‘ اور کمرے میں جاکر اندر سے کنڈی چڑھا لی انہوں نے ایک کتاب پڑھنے کی تاکید کی تھی لیکن کتاب پڑھنے لگتی ہوں تو مجھے نیند آنے لگتی ہے ذرا آنکھ لگ رہی تھی کہ نیچے اماں کا چیخنا چلانا شروع ہو گیا۔ اب کیا ہو گیا، کون جانے؟‘‘
اتنا غصہ آیا مجھے کہ جس کی حد نہیں۔ آپ کوسن کر ہنسی ا ٓئے گی لیکن مجھے غصہ آ جائے تو کچھ نہ کچھ کھانے کو جی کرنے لگتا ہے۔ جی چاہا لوکی کا حلوا منگاکر کھاؤں ڈھیر سا۔ میں نے اپنی پیٹی کھولی تو کھلے پیسے نہیں تھے۔ آخر پانچ روپے کا نوٹ نکالا اور جانکی نوکرانی کی لڑکی کو لوکی کا حلوا لانے کے لئے کہنے کی خاطر دبے پاؤں نیچے اتری لیکن پچھواڑے پہنچنے سے پہلے ہی اماں نہ جانے کدھر سے آ ٹپکیں اور بولیں، ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘
میں چونک پڑی، ’’کہیں تو نہیں‘‘ اور میرے ہاتھ سے پانچ روپے کا نوٹ نیچے گرپڑا۔ اماں نے نوٹ دیکھا اور سر پر ہاتھ مار کر بولیں، ’’ہار گئی بابا میں تم سے! ‘’میں نے گھبراکر پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘
’’شاباش! اور مجھی سے پوچھتی ہو کہ کیا ہوا۔ میرے تختے پر سے پانچ روپے تمہیں نے اٹھائے ہیں نا۔‘‘
’’جی نہیں، میں نے نہیں لیے یہ میرے پانچ روپے ہیں۔‘‘
’’اچھا، اچھا کہتی ہو میرے ہیں۔ پھر ہاتھ میں پانچ کا نوٹ لے کر پچھواڑے یوں چوروں کی طرح کیوں ٹہل رہی ہو؟‘‘
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دوں۔ میں ایک دم بوکھلا گئی تھی گھر کے سارے لوگ میرے اردگرد جمع ہو گئے اور جس کے جو منہ میں آیا کہنے لگا۔ آخر سسرجی نے مجھے آواز دی۔ مجھے ایک دم سے رونا آگیا۔ آج تک کسی نے مجھ پر ایسا الزام نہیں لگایا تھا۔ اگر ’’انہیں‘‘ یقین آ گیا تو۔۔۔؟
سسرجی نے شانت لہجے میں پوچھا، ’’بہو، تم نے لیے ہیں وہ پانچ روپے؟‘‘ ان کے شانت انداز سے میں اور بھی گھبرا گئی۔ اتنے میں ’وہ‘ کام پر سے واپس آ گئے۔ سسرجی کے کمرے میں داخل ہوکر بولے، ’’کیسا ہنگامہ ہے؟‘‘
چھوٹے دیورجی نے فوراً نمک مرچ لگاکر سارا قصہ بیان کیا، میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’آپ کے سر کی قسم، میں نے پیسے نہیں چرائے!‘‘
انہوں نے ایک مرتبہ میری طرف دیکھا اور زور سے بولے، ’’کیا حماقت ہے! وہ چوری ووری ہرگز نہیں کر سکتی۔ کیا میں اسے پیسے نہیں دیتا۔‘‘
یہ سنتے ہی سب خاموش ہو گئے، سسرجی بھی۔ میں موقع غنیمت جان کر وہاں سے سٹک گئی۔ اماں تو ایسی تلملائیں کہ کیا کہوں۔ اتنے میں جیٹھانی جی کا کرشنا بےوقوف کی طرح وہاں آ نکلا۔ اماں نے فوراً اس کی بانہہ پکڑ لی اور بولیں، ’’موئے تونے ہی چرائے ہوں گے پیسے!‘‘ اور اسے بےتحاشہ مارنے پیٹنے لگیں۔
وہ رو رو کر کہنے لگا، ’’قسم سے میں نے نہیں چرائے پیسے، قطعی نہیں چرائے۔‘‘
لیکن اس بےچارے کی کون سنتا ہے؟
اتنے میں مجھے تختے ٹٹولنے والی لڑکیو ں کا خیال آ گیا اور جی چاہا جاکر ابھی اپنا شک ظاہر کر دوں اور کرشنا کو چھڑا لوں۔ لیکن مجھے ڈر لگنے لگا اور پھر ’’وہ منظر نہ دیکھنا ہی اچھا‘‘ یہ سوچ کر میں وہاں سے ہٹ گئی۔ بغل کے کمرے میں جیٹھانی جی دیوار سے چپکی کھڑی تھیں اور کرشنا کو ہونے والی مارپیٹ سن رہی تھیں۔ کرشنا زور سے چلایا تو انہوں نے منہ میں ساڑی کا پلو ٹھونس لیا، کانوں میں انگلیاں دے لیں پھر بھی ان کا بدن ہچکیوں سے ہل رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔
ان کی یہ حالت دیکھ کر میں گھبرا گئی۔ ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں گھرکے اندر لے جانے کو جی چاہا، لیکن ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جیٹھانی جی کی حالت ان کے کانوں تک پہنچانے کا ارادہ کرکے اوپر کمرے میں گئی۔
اوپر جاکر دیکھا تو جناب آئینے کے سامنے کھڑے ہاتھ ہلا ہلاکر اور منہ بگاڑ بگاڑ کر انگریزی میں زور سے جانے کیا کیا بول رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر ایک دم میرے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑا۔ میں پلنگ پر بیٹھ کر پیٹ پکڑکر ہنسنے لگی۔
و ہ پہلے تو چونکے پھر مجھ پر برسنے لگے۔ لیکن نہ انہیں غصہ کرنا آتا ہے اور نہ مجھے ہنسی روکنا۔
آخر انہوں نے بھی ہنسنا شروع کر دیا۔
اور پھر جیٹھانی کی بات جہاں کی تہاں رہ گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.