Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرسی

MORE BYکرشنا راجا نرائن

    کہیں بغیر کرسی کے بھی کوئی گھر ہوتا ہے؟

    اچانک جیسے کنبے کا ہر فرد یہی سوچنے لگا تھا۔ آخر کرسی کو فیملی ایجنڈا میں شامل کر لیا گیا اور اس پر گفتگو ہونے لگی۔

    پرسوں کنبے کے ایک پرانے شناسا ملنے آئے۔ وہ سب جج تھے۔ اب کیا وہ ہم لوگوں کی طرح لنگی اور قمیص پہن کر نہیں آ سکتے تھے؟ نہیں صاحب وہ تو آئے سوٹ بوٹ میں۔ ہمارے گھر میں تین پایوں والا ایک اسٹول تھا، وہ بھی صرف تین چوتھائی فٹ اونچا۔ دراصل اس کا استعمال دہی بلونے کے لیے کیا جاتا تھا۔ پاتی، ہماری دادی اسی پر بیٹھا کرتی تھیں۔ دادی بھاری بدن کی تھیں۔ اس لیے دادا نے بڑھئی سے کہہ کر اسٹول قدرے چوڑا بنوایا تھا۔

    ہمارے مہمان بھی بھاری بھرکم ہی تھے۔ چوں کہ فرنیچر کے نام پر گھر میں اور کچھ تھا ہی نہیں۔ اس لیے ہم وہی اسٹول اٹھاکر لائے۔ انھوں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کنارے پر رکھ کر اس پر بیٹھنے کی کوشش کی۔ اس واہیات اسٹول کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اگر آپ نے اپنا وزن ٹھیک سے اس کے تینوں پایوں پر نہیں ڈالا تو وہ الٹ جاتا تھا۔ اس پر چڑھ کر چھینکے سے گھی چرانے کے چکر میں ہم نہ جانے کتنی بار گر چکے تھے۔

    بےچارے سب جج صاحب! ہم انھیں خبردار کرنے ہی والے تھے کہ وہ دھپ سے لڑھک گئے۔ میں، میرا بھائی اور ہماری چھوٹی سی بہن۔۔۔ ہم تینوں کے لیے ہنسی پر قابو پانا دشوار ہو گیا، اس لیے سب بھاگ نکلے پچھواڑے والے باغ میں۔ ہماری ہی ہی ٹھی ٹھی شاید رک جاتی لیکن رکنے والی ہی تھی کہ بہن نے مہمان کی نقل بنائی اور فرش پر لڑھک گئی۔ تب کیا تھا۔ ہم اور جی کھول کر ہنسے۔

    ہمارے ہنسنے کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ ہم نے دیکھ لیا تھا کہ مہمان کے لڑھکنے پر ہمارے ماں باپ بھی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تو جب ہم سب کی طرف سے خوب ہنس چکے اور دبے پیروں چلتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مہمان جا چکے تھے۔ ساتھ ہی اسٹول بھی وہاں نہیں تھا۔ ’’وہ کیا اسٹول لے کے چلے گئے؟‘‘ بہن نے مجھ سے پوچھا۔

    اس واقعے کے بعد یہ طے پایا کہ ہمارے گھر کے لیے ایک کرسی ضرور بنوائی جائےگی۔ لیکن اس سلسلے میں ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ گاؤں کے کسی گھر میں بھی کوئی کرسی نہیں تھی جسے بطور نمونہ دکھایا جا سکے اور تو اور کوئی بڑھئی بھی نہیں تھا جسے کرسی بنانی آتی ہو۔

    ’’یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم لوگ شہر جاکر ایک کرسی خرید کر لا سکتے ہیں۔‘‘ میرے بھائی پیدانا نے تجویز پیش کی۔ اپا (والد) نے اسے فوراً مسترد کر دیا، ’’وہ مضبوط نہیں ہوگی۔‘‘

    انائی نے بتایا کہ پڑوس کے گاؤں میں ایک بڑا ہوشیار بڑھئی رہتا ہے۔ ایسی کوئی کرسی نہیں جو اس نے نہ بنائی ہو۔ اس کی تعریف تو گورنر نے بھی کی۔ جب ماں نے پھوپی کی باتوں کا آخری جملہ سنا تو اپنا منھ دوسری طرف کو پھیر لیا جیسے کہہ رہی ہوں، ’’ہاں ہاں۔۔۔ تم تو لال بجھکڑ ہو۔ سارا کچھ تمہارا دیکھا سنا ہوا ہے۔‘‘ میرے والد نے ایک کارندے کو بلایا اور اسے پڑوس کے گاؤں میں بھیجاکہ وہ جاکر اس بڑھئی کو بلا لائے۔ تب تک ہم لوگ یہ طے کرنے میں لگے رہے کہ کرسی کے لیے لکڑی کس قسم کی استعمال کی جائےگی۔

    ’’سب سے اچھی ٹیک رہےگی۔ ادھر ادھر لے جانے میں ہلکی اور ساتھ ہی مضبوط بھی کہ جلدی ٹوٹے نہیں۔‘‘ دادی نے کہا۔ وہ اپنی ٹانگیں پھیلا کر خود ہی انھیں دبا رہی تھیں (پاتی کو اپنی ٹانگوں سے بڑا لگاؤ تھا۔ ہمیشہ وہ انھیں سہلاتی رہتی تھیں)

    تبھی ہمارے ماموں، مامانار ادھر آنکلے۔ پیدانا، دوڑا اور ان کے لیے اسٹول اٹھا لایا۔ تھوڑی سی دیر کو تو پورا کنبہ ایک بار پھر ہنسی کے فوارے چھوڑنے لگا۔

    مامانار جب بھی ہمارے گھر آتے اپنی مخصوص جگہ پہ بیٹھا کرتے تھے۔ ان کا سر کاٹ کے ہاتھ پہ رکھ دو تو بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوں گے اور وہیں بیٹھیں گے، دوسری کسی جگہ نہیں۔ اسٹور روم کے دکھن کی جانب جو دیوار تھی اسی کے کھمبے سے ٹِک کر وہ بیٹھا کرتے تھے اور جیسے ہی وہ بیٹھتے ان کا پہلا کام یہ ہوتا کہ وہ اپنی چوٹی ڈھیلی کرتے، اسے اچھی طرح جھٹکار کر اپنا سر کھجاتے اور پھر سے کس کے باندھ لیتے۔ ان کا یہ رسمی کام بھی ہمیشہ ایک مستقل مزاجی کے ساتھ انجام پاتا تھا۔ اس کے بعد پھر وہ اپنے آس پاس کے فرش کا معائنہ کرتے۔

    انّا بڑی مضحکہ اڑانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے، ’’تمہارے سر سے کوئی سکہ گرتا تو دکھائی دیا نہیں ہمیں۔ تھا کیا؟‘‘ اس طرح کے ہلکے پھلکے کاغذی تیر ماموں پر ہمیشہ ہی چلائے جاتے رہتے تھے لیکن وہ ان کے درمیان خاموش بیٹھے پتھر سے بنی گنیش جی کی مورتی کی طرح مسکراتے رہتے جیسے کہہ رہے ہوں، ’’تم سب میرے سگے ہو، اب تم مجھے نہیں چڑاؤگے تو دوسرا کون ہے جو چھیڑےگا۔ جب ہم حد سے آگے بڑھ جاتے تو اما ہمیں ڈانٹ پلاتیں۔ لیکن ہمیں خوب پتہ ہوتا کہ یہ ڈانٹ کتنی مصنوعی ہے۔ اس کا اختتام عموماً یہ ہوا کرتا تھا، ’’۔۔۔ گدھے کہیں کے۔ تم سب گدھے ہو۔‘‘

    جیسے ہی مامانار آرام سے اپنے مخصوص گوشے میں بیٹھ جاتے، اما کچن کا رخ کرتیں۔ کسی میمنے کی طرح ابّا ان کے پیچھے پیچھے ہولیتے۔ تھوڑی دیر بعد اما راہداری میں برآمد ہوتیں۔ ان کے ہاتھ میں چھاچھ سے بھرا مگ ہوتا جس میں وہ ذائقے اور خوشبو کے لیے ہینگ ڈالتی تھیں۔ ہم لوگوں کی تفریح کے لیے اپا ان کی نقل بناتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلتے چلے آتے۔ جیسے کہہ رہے ہوں، ’’دیکھو ذرا، ان کا بھائی آیاہے اس لیے کتنے اہتمام سے چھاچھ لیے چلی آ رہی ہیں۔‘‘

    ہینگ ڈالی ہوئی چھاچھ کی خوشبو سونگھ کر ہم لوگوں کا جی چاہتا کہ اما کے ہاتھ سے لے کر وہیں کی وہیں سب خود پی جائیں۔ ہم لوگوں کا خیال تھا کہ مامانار ہمارے یہاں آتے ہی اس لیے ہیں کہ انھیں بہترین چھاچھ پینے کو ملے گی۔ ہماری گائے کے دودھ سے بنے دہی کی چھاچھ ہوتی ہی اتنی عمدہ تھی۔ مامانار کے بارے میں ہمارا ایک خیال اور بھی تھا۔ وہ یہ کہ علاقے کے سب سے کنجوس آدمی وہی ہیں۔ ہمیں پورا یقین تھاکہ انھوں نے کبھی کسی کو ایک تنکا بھی اٹھاکر نہیں دیا ہوگا۔

    اما، یعنی اپنی بہن کے لیے دودھارو گائے خریدنے وہ خود کناورم گئے تھے۔ یہ گائے اپنی سیاہ زبان کی وجہ سے بڑی مشہور تھی۔ میں اور میری چھوٹی بہن اس کے بچھڑے پر جان چھڑکتے تھے۔ ماما جب بھی آتے، جانے سے پہلے گائے کا طواف کرتے اور پیار سے اسے تھپکتے، (انھیں ڈر تھاکہ گائے کو خود انھیں کی نظر لگ جائےگی۔) ساتھ ہی وہ اس کی تعریف بھی کرتے جاتے جب کہ دوسروں کے لیے کیا مجال جو کبھی ان کے منھ سے کچھ اچھے بول پھوٹیں۔ میرے دونوں چھوٹے بھائیوں کو ہمیشہ یہ خوف ستاتا رہتا تھاکہ گائے کا دودھ سوکھا تو مامانار گائے کو بچھڑے سمیت گھر اٹھا لے جائیں گے۔ جدائی کے اس ڈر سے جہاں وہ بچھڑے کا زیادہ لاڈ کرنے لگے تھے وہیں مامانار سے زیادہ چڑھنے بھی لگے۔ جب وہ شوق سے چھاچھ کی چسکیاں بھرتے، یہ دونوں بچے نظرہی نظر میں ان کو چٹکیاں کاٹ رہے ہوتے تھے۔

    مامانار نے کرسی میں بڑی دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ انھوں نے تو یہ تک کہا کہ وہ خود اپنے گھر کے لیے بھی ایک کرسی بنوائیں گے۔ ہم لوگوں کو اس خیال سے بڑی خوشی ہوئی کہ ہماری اس مہم میں ایک اور شخص شامل ہو رہا ہے۔ گویا ہمارا پارٹنر۔

    ماما نے کہا کہ نیم کا درخت سب سے اچھا رہےگا۔ اس سے جسم کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور بواسیر کا مرض بھی نہیں ہوتا۔ جب وہ نیم کے فوائد پر لکچر جھاڑ رہے تھے، اپا حیرت سے آنکھیں گول گول کرکے ان کا منھ تک رہے تھے۔ ابھی پرسوں ہی اپا نے ایک کھیت مزدور سے ایک نیم کا درخت کاٹ کر اسے سوکھنے کو ڈالنے کے لیے کہا تھا۔ وہ درخت بہت پرانا تھا اور عرصۂ دراز سے ہمارے جانوروں کی چرا گاہ میں کھڑا تھا۔ اس کی لکڑی ہیرے کی طرح سخت تھی۔ ہمارے بڑے بھائی، پیدانا نے کہا، پوواراسو کی لکڑی سے بنی کرسی سب سے اچھی رہےگی۔ اس میں گرہیں بہت کم ہوتی ہیں اور لکڑی عمدہ کوالٹی کی ہوتی ہے، چمک دار اور مضبوط۔

    بڑی بہن نے کہا، ’’یہ ساری لکڑیاں ہلکے رنگ کی ہوتی ہیں۔ دیکھنے میں بدصورت۔ کچھ دنوں میں ہی ہمیں بری لگنے لگیں گی۔ میرے خیال میں تو لکڑی کا رنگ یا تو پختہ گنے جیسا ہو یا پھر تل کی کھلی جیسا۔ لیکن ویسے تمہاری جو خواہش ہو۔ ہمارے ذہن میں ایک بہت ہی آرام دہ شیشے جیسی چمکتی سیاہ لکڑی کی کرسی کوند گئی جس کے سامنے کے پائے خوب صورتی سے تراشے گئے تھے اور پچھلے پایوں میں ایک دلکش خم تھا۔ ہم نے یوں جمائی لی جیسے اس کرسی میں بیٹھے آرام کر رہے ہوں۔ ہم میں سے ہرفرد سوچ رہا تھا کہ اسی کی رائے صحیح ہے۔ بہرحال فوری طور پر دو کرسیاں بنوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک ہمارے گھر کے لیے اور دوسری مامانار کے لیے۔

    دونوں کرسیاں آ گئیں تو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو گیا کہ کون سی ہم رکھیں اور کون سی مامانار کو دے دیں۔ ایک دیکھو تو دوسری کو دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ رام لکشمن کی طرح ایک جیسی تھیں۔ ہم لوگوں نے ایک رکھ لی اور دوسری مامانار کو بھجوا دی، گرچہ یہ شک دل میں رہ ہی گیا کہ انھیں زیادہ اچھی والی تو نہیں دے دی۔

    ہم سب باری باری کرسی پر بیٹھے۔ اس پر سے اٹھنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ لیکن اٹھنا تو تھاہی، اس لیے کہ دوسروں کو بھی اس پر بیٹھنے کا موقع دینا تھا۔ پیدانّا نے کرسی پر بیٹھ کر بڑی تعریفی آواز نکالی۔۔۔ آہا۔۔۔ آ۔۔۔ پھر کرسی کے بازوؤں پر ہاتھ پھرائے۔ اس کے بعد وہ اس پر پیر چڑھا کر ان کی قینچی بناکر بیٹھ گیا۔ اتائی نے کہاکہ کرسی کے لیے غلاف سینا ضروری ہے ورنہ بہت جلد گندی ہو جائےگی۔

    چھوٹی بہن اور بھائی کے درمیان اکثر کرسی کے لیے لڑائی ہو جاتی تھی۔ بہن بھائی سے کہتی، ’’تم بہت دیر سے چڑھے بیٹھے ہو۔ اب میری باری ہے۔ ہٹو۔‘‘

    ’’ایو۔۔۔ پر میں تو ابھی بیٹھا ہی ہوں۔ اما ذرا دیکھو تو اس کو۔‘‘ وہ منھ بسور کر کہتا جیسے رو دےگا۔

    ہمارے گھر میں کرسی آنے کی خبر گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ بچے اور بڑے سب جھنڈ بنا بنا کے ہمارے یہاں اسے دیکھنے کو آئے۔ کچھ نے تو اسے ٹھوکا بجایا بھی۔ ایک بزرگ نے اسے اٹھاکر کہا، ’’کافی بھاری ہے۔ مضبوط بنی ہے۔‘‘ انھوں نے گویا بڑھئی کی تعریف کی۔

    کچھ دن گزر گئے۔

    ایک رات ایک شخص نے دروازے پر دستک دی۔ پیدانا نے، جو اندرونی برآمدے میں سویا ہوا تھا، اٹھ کر دروازہ کھولا۔ آنے والوں نے بتایا کہ گاؤں کے ایک اہم انسان کا انتقال ہو گیا ہے اور ان لوگوں کو کرسی کی ضرورت ہے۔

    چوں کہ مرنے والے کو ہم لوگ بھی جانتے تھے، اس لیے اس کی آخری رسومات میں ہم بھی شریک رہے۔ جسد خاکی کو ہماری کرسی پر سہارا دے کر بٹھا دیا گیا تھا۔

    ہمارے گاؤں میں مرنے والے کو زمین پر بٹھایا جاتا تھا۔ ( تامل ناڈو میں کہیں کہیں یہ رسم ہے کہ متوفی کو بٹھاکر رکھتے ہیں۔ سب لوگ اس سے آکر آخری ملاقات کرتے ہیں۔) وہ کہیں لڑھک نہ جائے اس ڈر سے سِل کھڑی کرکے اس کا سہارا دے دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جوٹ کے بورے میں جوار باجرے کا بھوسا بھرکر اسے بھی سہارے کے لیے لگا دیا جاتا تھا۔ اس موٹے ’’تکیے‘‘ کے سہارے بٹھایا گیا مردہ جسم یوں لگتا تھا جیسے اس پر جھک کر آرام کر رہا ہو۔

    ہمارے گاؤں والوں نے کرسی پر مردے کو بٹھانے والی یہ نئی رسم کہاں سے شروع کی یہ تو پتہ نہیں لیکن ہماری کرسی کے لیے مصیبت کھڑی ہو گئی۔ گاؤں والے فرش کے ٹکٹ سے ترقی کرکے کرسی کے ٹکٹ تک پہنچ گئے تھے۔

    جب کسی کے گھر کرسی کا یہ کام ختم ہو جاتا وہ اسے لاکر ہمارے گھر کے اوسارے میں چھوڑ جاتے۔ گھر کے بچے اب اس کی طرف دیکھنے سے ہی ڈرتے۔ اسے نوکروں کے حوالے کر دیا جاتا کہ پوال کے پولے بناکر اسے اچھی طرح رگڑیں اور کم از کم پندرہ بالٹی پانی سے دھوکر پاک کریں۔ اس کے باوجود کئی دنوں تک کوئی اس پر بیٹھنے کی ہمت نہ کرتا۔ ہماری سمجھ میں نہ آتاکہ اسے دوبارہ استعمال میں واپس لانے کے لیے کیا کریں۔

    خوش قسمتی سے ایک دن ہمارے گھر ایک مہمان آ نکلے۔ ہم لوگ ان کے لیے کرسی اٹھاکر لائے۔ ’’تکلف نہ کریں۔ میں یہاں بیٹھ جاؤں گا۔‘‘ انھوں نے کہا اور دری کی طرف بڑھ گئے۔ ہم گھبرائے کہ وہ فرش پر بیٹھ جائیں گے۔ پورا کنبہ ان کے پیچھے پڑ گیا کہ وہ فرش پر نہ بیٹھ کر کرسی پر بیٹھیں۔ جیسے ہی وہ بیٹھے میری چھوٹی بہن اور بھائی پچھواڑے کے باغ میں بھاگ گئے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ آکر جھانک جاتے تھے کہ دیکھیں کرسی پر بیٹھے مہمان کے ساتھ کیا گزری۔

    دوسرے دن ایک مقامی بزرگ آ نکلے اور خود اپنی مرضی سے کرسی پر بیٹھے۔ ان کے بیٹھنے سے ہمیں مزید اطمینان ہوا۔ (پیدانا نے میرے کان میں چپکے سے کہا، پتہ ہے وہ اس پر بیٹھنے کی مشق کر رہے ہیں۔ پاجی کہیں کا۔

    یوں ہم نے اس کرسی کو دوبارہ استعمال کے لائق بنایا۔ پہلے تو گھر کے بڑے اس پر بیٹھے، بچے اب بھی ڈر ہی رہے تھے۔ میری چھوٹی بہن بھائی سے کہتی بھیا پہلے تم کرسی پہ کیوں نہیں بیٹھتے۔ وہ فوراً ٹپ سے جواب دیتا۔ تم بیٹھ کر دیکھونا۔ پڑوس والی گلی سے سُگنتی اپنے ننھے بھائی کو لیے ہوئے ہمارے یہاں آئی اور اسے کرسی پر بٹھا دیا۔ اس کے بعد سے گھر کے بچے بغیر ڈرے ہوئے کرسی پر پھر سے بیٹھنے لگے۔ لیکن پھر ایک رات کسی کی موت ہوئی اور اس کے گھر کے لوگ کرسی مانگ لے گئے۔ پھر یہ برابر ہونے لگا۔ جب بھی اس طرح کی ضرورت ہوتی، کرسی مانگ لی جاتی۔

    ہم لوگ کرسی دیتے ہوئے اداس لگ رہے تھے۔ کرسی مانگنے والوں نے اسے دوسرا ہی رنگ دیا۔ انھوں نے سمجھا ہم ان کے غم میں شریک ہیں اس لیے اداس ہیں۔

    رات میں کوئی کرسی مانگنے آتا تو ہم لوگ نیند میں خلل پڑنے کی وجہ سے بہت ناراض ہوتے۔ ایک دن اکا نے غصہ ہوکر کہا۔ پتہ نہیں یہ کم بخت ایسے وقت کیوں مرتے ہیں کہ دوسروں کی نیند حرام ہو۔ انا نے برہم ہوکر کہا، ’’اچھی کرسی بنوائی ہم نے۔ ہمارے گاؤں کی لاشوں کے بیٹھنے کے لیے۔ چھی!‘‘ پھوپھی نے کہا، ’’یہ اس لیے ہو رہا کہ اس کو اچھی ساعت بچار کے نہیں بنوایا گیا۔‘‘

    آخر پیدانا کو ایک ترکیب سوجھی۔ ہم دونوں نے اسے صرف اپنے تک ہی رکھا۔

    ایک دن اما نے مجھے کسی کام سے مامانار کے گھر بھیجا۔ وہ بڑی شان سے اپنی کرسی پر بیٹھے منھ میں پان کی گلوری رکھتے دکھائی دیے۔ انھیں پان لگاتے اور پھر اسے چباتے دیکھنا خود اپنے آپ میں ایک دلچسپ مشغلہ تھا۔ وہ نہایت احتیاط کے ساتھ آہستہ سے پاندان کھولتے جیسے ڈر رہے ہوں کہ کہیں ان کے محبوب پاندان کو چوٹ نہ لگ جائے۔ یہ ایک بالشت چوڑا، ایک ہاتھ لانبا اور کوئی چار انگلی اونچا پاندان تھا جسے وہ روزانہ صاف کرکے ایسا چمکاتے کہ سونے کی طرح چم چم کرنے لگتا۔ پھر وہ اس کے اندر کا سازو سامان ایسے احترام کے ساتھ نکالتے جیسے وہ پاندان نہ ہوکر پوجا کی سامگری رکھنے والا بکس ہو۔ گرچہ وہ پانوں کو پونچھ کر صاف کر لیتے تھے لیکن ان کی ڈنڈیاں نہیں توڑتے تھے۔ (وہ ایسے ہی کنجوس تھے۔)

    اگر انھیں کوئی زیادہ خشک پتہ ملتا تو وہ اس کی نسیں نکال دیا کرتے تھے۔ ان کی اس حرکت سے ہمیں ایک پرانی کہبت یاد آتی جو دراصل پانی کی پہیلی تھی۔ وہ ٹوٹی ہوئی سپاری کو سونگھتے۔ لوگوں کا خیال تھاکہ سپاری کو سونگھنے سے اس سے نشہ نہیں ہوتا۔ پھر وہ اس پر پھونک مارتے۔ پھونکنے سے سپاری میں موجود وہ ننھے کیڑے یا بھنگے نکل جاتے ہیں جو یوں آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ ایسا لوگوں کا خیال تھا۔ مامانار کا سونگھنے اور پھونکیں مارنے کا عمل بتدریج تیز ہوتا۔۔۔ پھُوں پھُوں کی آوازیں بھی زور پکڑتیں پھر ایک زوردار تھپاک کے ساتھ وہ سپاری منھ میں ڈالتے۔

    یہ جاننے کے لیے کہ کوئی شخص کتنا صفائی پسند اور سلیقہ مند ہے، چونے کا ڈبہ دیکھنا چاہیے۔ یہاں مامانار کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ انگلی پر چونا لے کر چاٹتے تو انگلی کو ادھر ادھر کبھی نہیں پونچھتے تھے۔ ڈبہ اتنا صاف ستھرا ہوتا کہ چاہیں تو احتراماً اسے آنکھوں سے لگالیں۔ ان کی ایورریڈی ٹارچ جو انھوں نے پندرہ سال پہلے خریدی تھی، آج بھی ایسی ہی تھی جیسے ابھی خریدی گئی ہو۔ صاف ستھری چمکدار اور اب بھی کام میں آتی ہوئی۔ ہم لوگوں نے بھی تقریباً اسی وقت یہی ٹارچ خریدی تھی۔ وہ لیک کرنے لگی تھی۔ اس میں گڈھے پڑ گئے تھے اور رنگ مٹ میلا ہو گیا تھا۔ وہ ایسا مریض لگتی تھی جو بس قریب المرگ ہو۔

    ان کے گھر میں ان کے علاوہ کوئی اور کرسی استعمال نہیں کرتا تھا یا کر نہیں سکتا تھا۔ وہ صبح اٹھتے ہی پہلا کام یہ کرتے کہ کرسی کو اچھی طرح پونچھتے۔ اگر اسے کہیں اور لے جانے کی ضرورت ہوتی تو یہ کام وہ خود ہی کرتے۔ اتنی ملائمیت سے اسے اٹھاتے اور یوں ہولے سے لے جاکر جگہ پر رکھتے جیسے وہ پانی سے چھلکتا ہوا مٹی کا برتن ہو۔

    مجھے دیکھتے ہی مامانار نے میرا استقبال کیا۔ آؤ آؤ میرے پیارے بھانجے۔ پان کھاؤگے؟ لیکن پھر خود ہی انھوں نے جواب دیا۔ اگر اسکول جانے والے لڑکے پان کھانے لگے تو مرغیوں کے سینگ نکل آئیں گے۔

    میں نے انھیں اما کا پیغام دے دیا اور خود واپس گھر چلا آیا۔

    رات کو ایک نہایت غیرمتوقع وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ سب لوگ سوئے ہوئے تھے۔ میں نے پیدانا کو جگایا۔ کچھ لوگ آئے ہوئے تھے جن کے گھر کسی کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ کرسی لے جانے کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ پیدانا ان کو سڑک پر لے گیا۔ پیچھے پیچھے میں بھی چلا۔ جب وہ آنے کا مدعا بیان کر چکے تو پیدانا نے بڑے اطمینان سے ان سے کہا، کرسی؟ ارے وہ تو ہمارے مامانار کے یہاں ہے۔ جائیے ان کے یہاں چلے جائیے، وہ دے دیں گے۔ ان کو وہاں بھیج کر ہم لوگ بے آواز قہقہے لگاتے گھر لوٹ آئے۔

    بستر میں کروٹ بدلتے ہوئے ننداسی آواز میں اپا نے پوچھا، ’’کون تھا؟‘‘

    ’’اور کون ہوتا۔ کچھ لوگوں کو اناج داہنے کے لیے ہمارے بیل چاہییے تھے۔‘‘

    اپا نے پھر کروٹ بدلی اور آرام سے سو گئے۔

    اب مامانار کے جنگل میں برسات ہو رہی تھی۔

    کئی دنوں کے بعد میں مامانار کے گھر گیا۔ دیکھا فرش پر بیٹھے پان بنا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں مسکراکر میرا استقبال کیا۔ میں نے کہا ارے یہ کیا، کرسی کہاں گئی؟ ایسے کیسے بیٹھے ہیں؟ میں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ پان پر چونا لگاتے ہوئے انھوں نے میری طرف غور سے دیکھا، مسکرائے اور بڑے پرسکون انداز میں بولے، ’’میں نے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ کرسی کو اب صرف اسی کام کے لیے رکھیں۔ آخر اس کے لیے بھی تو کرسی ضروری ہے۔ ہے نا؟‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آیا اس کے جواب میں کیا کہوں۔ جلدی سے بھاگا گھر کی طرف کہ یہ خبر پیدانا کو دوں۔ لیکن گھر پہنچنے سے کچھ دور پہلے میرے قدموں کی رفتار معمول پر آ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے