مظہر رات دیر تک جگتا رہا، صبح اٹھتے ہی اس نے اپنا فیصلہ بلا جھجک اپنی بیوی کے گوش گزار کر دیا تھا، اس کی آنکھوں میں حیرت اور دکھ کے سائے لہرانے لگے تھے اور آنسوؤں کی لڑیاں ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے رخساروں کو بھگو رہی تھیں۔
’’بولو! میں کیا کر سکتا ہوں، ڈاکہ ڈالوں چوری کروں، تمہیں اچھی طرح یہ بات معلوم ہے، سب ذرائع آزما چکا ہوں، اب کوئی قرض بھی دینے کو تیار نہیں‘‘۔
’’اور وہ تمہارے بے غیرت بھائی، موٹی بھینس جیسی ماں، دولت کی تجوری پر سانپ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھی ہے، اسے اپنی بیٹی کا ذرا احساس نہیں اور باپ بھی تمہارے لئے تو ناکارہ ہے، کام کا نہ کاج کا، ڈھائی سر اناج کا، بڑا پارسا بنا پھرتا ہے اپنے آپ کو سالک کے درجے تک لے جانے کے لئے دنیا تیاگ کر بیٹھا ہے‘‘۔
’’کیسا بےدرد ہے سالا،‘‘
’’ایسے نہ کہو مظہر، اللہ والوں کے پاس دھن دولت نہیں ہوتا ہے، وہ تو بس دعاؤں کا خزانہ لٹاتے ہیں، دعاؤں کی بارش ہو رہی ہے، جب ہی تو میں۔۔۔‘‘
’’کیا جب ہی تو میں؟ اس حال پر پہنچ گئی ہوں‘‘۔
’’میرا مطلب ہے مظہر ان کی دعاؤں کی بدولت صبر و تسکین کے سمندر میں غوطہ زن ہوں، اس حقیقت سے واقف ہو گئی ہوں کہ دنیا ایک دلفریب پری کی مانند ہے، جو اپنی ایک جھلک دکھا کر آسمانوں کی وسعت میں گم ہو جاتی ہے، طلسم کدے میں کھو جاتی ہے اور مجھ جیسے نادان لوگ اس کا پیچھا کرتے کرتے گر جاتے ہیں، اپنی ہستی کو مٹا دیتے ہیں، وہ اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں کہ آج نہ سہی کل سہی، بقا سے فنا کی طرف کوچ کرنا ہے، پھر غم کیسا؟‘‘
’’سب قطار میں لگے ہوئے ہیں، روحیں پرواز کرتی جاتی ہیں، قطار آگے ہی بڑھتی جاتی ہے کبھی نہ ختم ہونے کے لئے، میں بھی سب سے آگے کھڑی ہوں بہت دور جانے کے لئے۔ لیکن مجھے غم نہیں، ہاں تکلیف کا احساس ضرور ہے کہ جسم و جاں روح کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘
’’آ گیا نا ابا کا رنگ، ان کی ہی زبان میں بات کرنے لگی ہو‘‘۔
’’ہوں‘‘ اس نے ہنکارہ بھرا، پھر سانس کھینچ کر بولی۔ ’’آنا چاہئے ان کا رنگ، بیٹی ہوں ان کی‘‘۔
’’دیکھو ! جب حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو کہتے تھے کہ ہم نے اللہ کا رنگ قبول کیا ہے، اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ بہتر ہو سکتا ہے‘‘۔
’’حضرت ابراہیمؑ اللہ کے دوست تھے‘‘۔
’’میں اللہ کی گناہ گار بندی اینے بابا کی دوست ہوں، اور دوست کا رنگ ضرور چڑھتا ہے، مجھ پر بابا کا رنگ چڑھ گیا ہے‘ اور تم نے سنا نہیں خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘۔
’’نگو تمہاری یہ باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں‘‘۔
’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو مظہر، بابا نے بھی ٹھیک ہی کہا تھا، اجالا اندھیرا ایک ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے‘‘۔
’’تم زبان کو لگام دو میں اتنا بھی جاہل نہیں ہوں‘‘۔
’’کیا ہوا مظہر!‘‘ اس نے ایک بار پھر گہرا سانس لیا، جیسے اس کا سانس حلق میں اٹکا ہوا ہو اور وہ آزاد کرنے کی تگ و دو میں اذیت بھرے پل گزارنے پر مجبور کردی گئی ہو۔
’’طعنے مارتی جاتی ہو‘ پھر کہتی ہو کیا ہوا۔۔۔‘‘
’’سوری مظہر سچ سورج کی طرح ہوتا ہے، جو گاہے بگاہے اپنا چہرہ عیاں کردیتا ہے کبھی تیز دھوپ تو کبھی ہلکی ہلکی، نرم نرم سی مٹیالے بادلوں اور سرد ہواؤں کی ساتھ سورج کی ادائیں دیکھنے کو ملتی ہیں، خاموش ہو جاؤں نگو‘‘۔
’’خاموش ہو جاؤں؟‘‘
’’ہاں!‘‘ وہ جملے کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہی رہا۔
’’سنو! آج میری ایک پیر صاحب سے ملاقات ہوئی ہے، ملاقات بھی کیا میں ان کے آستانے پر گیا تھا، بڑی شہرت رکھتے ہیں ان کا علاج آج سے شروع کر دو، روحانی علاج ڈاکٹر کی دواؤں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے‘‘۔
’’جیسے تمہاری مرضی‘‘۔ اس نے ایک بار پھر لمبا سانس لیا اور تکلیف کی شدت سے آہیں بھرنے لگی، بےاختیار اس کا ہاتھ اپنے جسم کے مساموں کو مس کرنے لگا۔
’’اتنی ساری چیونٹیاں کہاں سے آ گئی ہیں، چین نہیں لینے دیتیں، پل پل مجھے بے قرار رکھتا ہے۔‘‘
’’خیر تم مجھے دوا دے دو میں سونا چاہتی ہوں‘‘۔ اس نے ایک سردہ آہ بھر کر کہا۔
’’ٹھیک ہے تم کھانا کھا لو دوا کھاؤ اور سکون سے سو جاؤ‘‘۔
’’سوچتی ہوں محبت کا انجام اتنا بھیانک کیسے ہو سکتا ہے کہ میں موت کی وادی پر قدم رکھ دوں گی‘‘۔ وہ سسکنے لگی۔
’’نگینہ میری جان،! تم جلد ہی جی اٹھوگی، اللہ تنکے میں جان ڈال دیتا ہے وہ معجزات دکھاتا ہے۔‘‘
شاید، اس نے گیلی آنکھوں کو خشک کیا اور گولیوں کو حلق سے اتارنے لگی۔
مظہر نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، ماتھے پر بوسہ لیا اور اس کے جسم پر پڑی چادر کو درست کرنے لگا۔
اسی اثنا میں بڑی آپا کا فون آ گیا وہ سیل فون تھامے کمرے سے باہر چلا گیا۔
’’اب بھائی کے کان بھریں گی! زیادہ ناز نخرے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، اپنا خیال رکھنا، یہ نہیں عیادت کرتے کرتے خود ہی بستر پر پڑ جاؤ، نگینہ کا کیا آج مری کل دوسرا دن، میں نے تمہارے دکھ اور پریشانی کا علاج ڈھونڈ لیا ہے، لڑکی سرکاری ملازم ہے پیسے والے لوگ ہیں! بس ذرا عمر کی زیادہ ہے پر اس سے کیا ہوتا ہے، پیسے والی تو ہے نا، ساری عمر عیش کرنا۔ مظہر مائیک بند کر نا بھول گیا تھا، شاید اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ باآواز بلند بات کر رہا ہے، نگینہ نے سرد آہ بھری اور دل ہی دل میں سوچا ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو، وہ کسی اور کے لئے کہہ رہا ہو۔ خواہ مخواہ بدگمانی کا زہریلا پرندہ میری سماعت کے گرد چکر لگانے لگا ہو اور میرے دل و دماغ پر ضرب لگانے کی سعی کر رہا ہو، لیکن تین دن پرانی ہی تو بات ہے جب میں نے اپنے کانوں سے سنا تھا اس وقت بھی مائیک آن تھا وہ سمجھے تھے کہ میں گہری نیند سو رہی ہوں، لیکن نیند کہاں؟ جسم میں سوئیاں چبتی رہتی ہیں۔
بڑی آپا کہہ رہی تھیں، ’’تم اس کلموئی کو کسی خیراتی ہسپتال میں داخل کرا دو کب تک اس کی دیکھ بھال کرتے رہوگے کئی لڑکیاں میری نگاہ میِں ہیں، تم اشارہ کرو، اسی دن نکاح ہو جائےگا۔‘‘
’’آپا یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں، نگینہ میری بیوی ہے، زمانے کی مخالفت لے کر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا بنایا تھا، وہ اور بات ہے کبھی کبھی تنگ ہو جاتا ہوں اور وقتی طور پر چھٹکارا پانا چاہتا ہوں اور رہی شادی کی بات تو اس بات کو آپ بھول جائیں، وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائےگی‘‘۔
فون سننے کے بعد مظہر کمرے میں آیا اس کی طرف غور سے دیکھا پھر دھیمے سے بولا، میں پیر صاحب کے پاس جا رہا ہوں، پانی پر دم کروانے کے لئے، خضر اور سفینہ کو بھی ساتھ لے جارہا ہوں، زیادہ تکلیف ہو تو فون کر لینا!‘‘۔
’’کہاں ہیں میرے بچے، ایک نظر دکھا دو پھر لے جانا‘‘۔ وہ اولاد کی محبت میں تڑپنے لگی۔
’’وہ سو گئے تھے ابھی اٹھے ہیں اور میں انہیں ساری عمر کے لئے ہی تھوڑا لے جا رہا ہوں، تمہاری طبیعت بہتر ہوگی تب لے آؤں گا‘‘۔
اس کی آنکھیں چھلکنے لگیں، بچوں کو اس نے بھینچ بھینچ کر پیار کیا، خضر چار سال کا تھا اور سفینہ تین سال کی، دونوں ماں سے ایک ہی سوال کرتے، ’’ماما آپ کو کیا ہو گیا ہے، سارا دن بیڈ پر لیٹی رہتی ہیں‘‘۔
’’نہ ہمارا ناشتہ بناتی ہیں اور نہ نہلاتی ہیں‘‘۔
’’بیمار ہوں نا بیٹا‘‘۔
’’ڈاکٹر سے دوا لائیں‘‘۔
’’لاتی تو ہوں‘‘۔
’’اچھا سنو خضر! سفینہ سے کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کرنا، اس کا خیال رکھنا۔‘‘
’’لکھتا (رکھتا) ہوں‘‘۔
’’نہیں جب بڑے ہو جاؤ، تب اسے پڑھانا لکھانا، اس کی شادی کرنا، جیسے میں اسے اور تمہیں ہر دم اپنے سینے سے لگا کر رکھتی ہوں، تم دونوں کو دیکھ کر جیتی اور مرتی ہوں‘‘۔
خضر کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا، البتہ مرنے کی بات پر بلک اٹھا۔
’’ماما! مرنے کی بات نہیں کیا کریں۔ سب کی ماما زندہ ہوتی ہیں، پھر آپ کیوں؟‘‘
وہ سچ مچ رونے لگا۔
نگینہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی، مظہر نے بچوں کو علیحدہ کیا۔
نگینہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔
’’اللہ میرے بچوں کی حفاظت کرنا‘‘۔
’’چلو منہ ہاتھ دھو لو، پھر آئس کریم کھائیں گے اس کے بعد گھومنے جائیں گے‘‘۔ سفینہ ماں کی گود سے اترنے کو تیار نہیں تھی، ماں کے کلیجے سے لگی سسک رہی تھی، جیسے سب کچھ سمجھ رہی ہو، آنے والے وقت سے خوفزدہ ہو۔
جاتے جاتے مظہر نے ہولے سے کہا ’’نگینہ بچوں کو تمہاری خواہش کے مطابق تمہاری نسرین خالہ کے پاس چھوڑ دوں گا، وہ بےاولاد ہیں زیادہ توجہ اور محبت دیں گی‘‘۔
’’اور ہاں کچھ پیسے یا کوئی قیمتی چیز ہو تو دے دو، تمہارے لئے پھل اور بچوں کے لئے یونیفارم اور کتابیں خریدنی ہیں‘‘۔
’’قیمتی چیز؟ مظہر، نگینہ تو پتھر میں بدل گئی ہے، میرے پاس جو کچھ تھا وہ اماں ابا کے علاج میں خرچ ہو گیا۔‘‘
’’ہاں میں جانتا ہوں نگو، حالات ہی ایسے تھے دونوں کا ہی ایکسیڈنت ہو گیا، نہ موٹر سائیکل پر سفر کرتے اور نہ حادثہ ہوتا، اور نہ کومے میں جاتے، ہسپتال کا بل ۵لاکھ دیا اور علاج کا خرچ علیحدہ۔‘‘
’’لیکن جانیں دونوں کی پھر بھی نہ بچ سکیں، چکا دوں گا احسان نہ جتاؤ، میں تمہاری پائی پائی ادا کر دوں گا‘‘۔ ’’حساب چکانے عالم برزخ میں آؤگے۔‘‘
’’نگینہ ایسی باتیں نہیں کرو میرا دل دکھتا ہے‘‘۔
’’ٹھیک ہے مظہر، تم جلدی آنا، آج میری طبیعت زیادہ خراب ہے‘‘۔
’’بالکل فکر نہ کروں گا، یوں گیا، یوں آیا‘‘۔ اس نے چٹکی بجاکر کہا۔
اس کے جانے کے بعد اماں کا فون آ گیا تھا۔
’’بیٹا! مظہر نے خون بدلوایا‘‘۔
’’جی اماں!‘‘
’’ہماری شکلوں سے جلتاہے نہ جانے ہم نے اس کا کیا بگاڑا ہے ایک تو پھول سی بچی حوالے کر دی اور اگر مطالبات نہ پورے کرو تو دشمنی پر اتر آتا ہے۔‘‘
’’تم کلمہ پڑھتی رہو، تمہارے ابا اور میں شام کو چکر لگائیں گے، ثمینہ اور اس کے بچے نکل گئے ہیں، تمہارے پاس بس پہنچنے ہی والے ہوں گے‘‘۔
جواب میں وہ کچھ نہ بولی، بس سسکیوں کی آوازیں تھیں اور ماں کا کلیجہ پھٹ رہا تھا۔
ثمینہ نے آتے ہی جے ساتھ پوچھا، ’’نگو خون بدلوایا؟‘‘
’’جی آپا‘‘
’’لیکن تمہارا رنگ تو زرد ہو رہا ہے‘‘۔
’’آپا کیا خون بدلنے سے سرطان ختم ہو جاتا ہے اور زندگی خوش آمدید کہتی ہے؟‘‘
’’کیوں نہیں، دیکھو گلوکار اخلاق احمد سالہا سال زندہ سلامت رہا، بس مسئلہ خون بدلوانے کاہی ہے‘‘۔
’’ہاں آپا اصل مسئلہ ہی خون کا ہے، کسی کا سفید خون کسی کا لال اور کسی کا کالا، یا نیلا اور شاید میرا خون کالا ہو چکا ہے۔ کیا آپ مجھے اپنا لال خون زندگی کی لہریں مارتا ہوا دے سکتی ہیں؟‘‘
’’صرف ایک بوتل شاید میری زندگی کا چراغ دوبارہ جل اٹھے‘‘۔
’’گڑیا رانی! ایک بوتل سے کام نہیں چلتا ہے، کم از کم چھ بوتلیں یا اس سے بھی زیادہ، ہاں اگر میرے جسم میں اضافی خون ہوا اور ڈاکٹرون نے اجازت دی تو میں اپنی لاڈلی بہن کی شریانوں کے لئے اپنا خون ضرور دوں گی، تم نے مظہر سے بات کی۔‘‘
’’نہیں وہ ایک بارخون دے کر آج تک پچھتا رہے ہیں اور اپنی نقاہت کا روناروتے رہتے ہیں‘‘۔
’’ٹھیک ہے میں جبران اور فرقان سے کہوں گی کہ وہ اپنی چہیتی خالہ کی زندگی بچانے کے لئے اپنا خون ضرور دیں‘‘۔
’’نہیں آپا اب اس کی ضرورت پیش نہیں آئےگی، چراغ سحری ہوں، نہ جانے کب ہوا تیز چلے اور دیا بجھ جائے‘‘۔
’’ایسے نہیں کہتے، لور دانے کیلے کا جوس نکالا ہے جلدی سے پی لو‘‘۔
’’ردا نلکی سے پلا دو خالہ جان کو‘‘۔
’’ماں مجھے ٹیوشن پر جانا ہے، جلدی چلیں، یاسر باآواز بلند بولا۔’’ ہاں چلتی ہوں، ’’ذرا خالہ کی طبیعت سنبھل جائے‘‘۔
’’آپا!‘‘ اس نے بہن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔
’’بولو میری شہزادی کیا بات ہے؟‘‘
’’آپا میرے بچے‘‘ وہ بلکنے لگی۔
’’تم ان کی فکر نہ کرو، تم جلد ٹھیک ہو جاؤگی، خود اپنے بچوں کی پرورش کرنا، پڑھانا لکھانا، شادیاں کرنا، ان کے بچے کھلانا‘‘۔
’’کیسی باتیں کرتیں ہیں آپا! سفرطویل اور مسافر بےدم، کیسے کٹےگا‘‘۔
’’ایسی باتیں نہیں کرتے نگو! مایوسی کفر ہے‘‘۔
’’مگر حقیقت کو مجھے تسلیم کرنا ہے، رات ہونے والی ہے سورج ڈوب رہا ہے، چمکتی ہوئی چیزیں سیاہی میں بدل گئی ہیں‘‘۔
’’اماں! جلدی چلیں مجھے ٹیوشن کا کام بھی کرنا ہے‘‘۔ اسی دوران افتخار کا فون آ گیا۔
’’آپ آ گئے‘‘۔
’’جی آ گیا، بھوکا بیٹھا ہوں، بہن کی تیمارداری کے لئے چل دیں کم از کم کھانا تو پکا جاتیں‘‘۔
’’کیا کروں وقت ہی نہیں ملا‘‘۔
’’ٹھیک ہے میں بازار سے لے آتا ہوں، کیسی طبیعت ہے نگینہ کی‘‘۔ ان کا لہجہ بدل گیا۔
’’زیادہ اچھی نہیں ہے، آپ دعا کیجئے‘‘۔
تھوڑی ہی دیر بعد ثمینہ بہن کو تسلیاں دیتی ہوئی باہر نکل گئی۔
نگینہ کو وہ دن یاد آ گئے! جب اس نے مظہر سے شادی کرنے کے لئے گھر والوں کو ناراض کر دیا تھا سب نے سمجھایا تھا کہ تم نے ماسٹر کیا ہے اور مظہر نے صرف بی اے، معمولی نوکری ہے، کیسے گزارہ ہوگا، لیکن نگینہ پر عشق کا بھوت سوار تھا، مظہر یونیورسٹی میں ہی ملازمت کرتا تھا، غربت کا مارا تھا لیکن اس کی شخصیت نے نگینہ کو اس کا اسیر کر دیا تھا، بہت جلد پسندیدگی نے محبت کی جگہ لے لی تھی اور محبت عزت و مرتبے کی حقدار تھی، سو وہ بہت جلد شادی کے بندھن میں بندھ گئے، نگینہ کے والد نے مظہر کی غربت کو دیکھتے ہوئے ایک فلیٹ اور گاڑی جہیز میں دے دی تھی تاکہ ان کی بیٹی سکھ سے رہ سکے اور افلاس کی چکی میں پسنا نہ پڑے، لیکن تنگدستی کی سولی پر چڑھنا اس کا مقدر تھا، مظہر شادی کے چند دن بعد ہی ملازمت کو خیرباد کہہ کر گھر کا ہی ہو رہا تھا، جب نگینہ اصرار کرتی تو وہ بے حد اطمینان سے جواب دیتا۔
’’دیکھو نگو! جب تک کوئی بھی اچھی نوکری نہیں ملے گی میں ملازمت نہیں کروں گا اور پھر تمہارے گھر والے ہم دونوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ہر ماہ پابندی سے پیسے، کپڑے، پھل فروٹ سبھی کچھ تو بھیجتے ہیں‘‘۔ ’’لیکن مظہر! یہ اچھی بات تو نہیں ہے تمہاری مردانگی پر یہ ایک طمانچہ ہے جو تم پیار سے سہہ لیتے ہو۔‘‘
’’طمانچہ‘‘ وہ غصے سے آگ بگولہ ہو گیا۔ ’’لوگ تو اپنی بیٹیوں کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے ہیں‘‘۔
’’انہوں نے بھی بہت کچھ کیا ہے مظہر! اب کیا کریں، گھر اور گاڑی تمہارے والدین کے علاج معالجے میں لگ گیا‘‘۔ ’’دیکھو! نگو طعنے نہ مارا کرو‘‘۔ اس نے اس بار نرمی سے کہا۔
’’یہ میری مجبوری تھی اور پھر میاں بیوی ہی ایک دوسرے کے کام آتے ہیں‘‘
’’مظہر میںیہ بات اچھی طرح جانتی ہوں، تمہاری محبت میں میں سب کچھ ہار چکی ہوں، اب بچا ہی کیا ہے میرے پاس؟‘‘
’’سرطان زدہ خون اور بس‘‘۔
’’نگو! ایسی باتیں نہ کرو‘‘۔
’’اچھا لو جوس پی لو، تھوڑی ہی دیر ہوئی ہے جب میں نے جوسر سے نکالا تھا، ابھی تازہ ہی ہے‘‘۔
’’اٹھو شاباش‘‘
’’مجھ سے اُٹھا نہیں جائےگا مظہر!‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے میں چمچے سے تمہارے منہ میں ڈال دیتا ہوں، سر ذرا اونچا کرو‘‘۔
نگینہ نے بمشکل ہی دو چارچمچ حلق میں اتارے تھے کہ اس پر بے چینی کی کیفیت طاری ہو گئی۔
اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے خون کی شریانوں میں ڈھیر ساری چیونٹیاں داخل ہو گئی ہوں۔
ڈاکٹر بہت عرصے سے مظہر سے خون بدلووانے کا کہہ رہے تھے، اس نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی نگینہ کے والدین کو ڈاکٹر کی ہدایات کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔ اس بار وہ دعاؤں کے سوا کچھ نہیں دے سکتے تھے، نگینہ کا جب بھی خون بدلا گیا، انہوں نے ہی خون کا انتطام کیا تھا اور مظہر کو بھی اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا تھا یہاں تک کہا تھا کہ وہ اپنی موٹر سائیکل فروخت کر دے، جواب میں زبان درازی پر اتر آیا تھا۔ اور اب ان کی خاموشی پر مظہر آپے سے باہر ہو گیا تھا وہ ایسے موقعوں پر اس کے والدین اور بہن بھائیوں کو برے برے القابات سے نوازتا، اگر نگینہ اعتراض کرتی تو اس سے بھی بدظن ہو جاتا۔
وہ اکثر سوچا کرتی کیا مظہر لالچی ہے؟ اسے میری پرواہ بالکل بھی نہیں ہے، چاہتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا ابھی اس بیماری کو لاحق ہوئے سال بھر بھی مشکل سے ہوا ہے اور یہ مجھ سے بیزار سا رہنے لگا ہے لیکن بظاہر تو یہ محبت کے دعوے بھی کرتا ہے اور تیمار داری بھی دن رات کر رہا ہے، ہو سکتا ہے اس کا جذبہ سچا ہو، وہ واقعی مجھے دل و جان سے چاہتا ہو، یہ غربت بھی بہت بری بلا ہے، اچھے اچھے رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتی ہے۔
سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی اور نہ جانے کب تک سوئی اسے اندازہ ہی نہیں ہوا، کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا اور مظہر نا جانے کہاں تھا؟
اس نے آنکھیں ملتے ہوئے وال کلاک پر نگاہ دوڑائی تو رات کے دو بج رہے تھے۔
اسے ذہنی و جسمانی تکلیف نے بے کل کیا ہوا تھا، تکلیف سے تڑپ رہی تھی، بہت دیر تک چیختی رہی، ’’مظہر کہاں ہو؟ میرا سانس رک رہا ہے، جلدی آؤ میرے پاس‘‘۔
دیر تک وہ اسی اذیت میں مبتلا رہی۔
شاید مظہر دوسرے کمرے میں سو گیا ہے، اس کا اندازہ درست تھا، موؤذن کی آواز سن کر اس نے بستر سے اٹھنے اور سر ڈھانپنے کی کوشش کی لیکن اس سے اٹھا نہیں گیا، اسی دوران مظہر آنکھیں ملتا ہوا آ گیا۔
’’ارے ارے کیا کر رہی ہو‘‘۔
وہ سسکیوں کے ساتھ رونے لگی۔
’’نگینہ! کیا ہوا میری جان‘‘۔
’’جان بھی کہتے ہو اور جان بھی لیتے ہو‘‘۔ اس نے بڑی مشکل سے جملہ ادا کیا، مظہر سمجھ نہ سکا وہ کیا کہہ رہی ہے۔
’’کیا تکلیف زیادہ ہے؟‘‘
’’ہاں، بہت زیادہ ہے‘‘۔
’’میرا سانس۔۔۔ سانس۔۔۔ رک رہا ہے، میں بچوں گی نہیں، میرا دل کہتا ہے‘‘۔
’’نگو کیوں ایسا سوچتی ہو؟‘‘
’’مجھے ہسپتال لے چلو‘‘۔
وہ بڑی مشکل سے سانس لے رہی تھی۔
صبح مکمل آب و تاب کے ساتھ نمودار ہو گئی تھی، دودھ والا دودھ دے گیا تھا، کچرے والے نے بیل بجائی حسب معمول پڑوس سے افسری خالہ بھی اس کی خیریت لینے آ گئیں۔
وہ خالہ کو دیکھ کر مزید سسکنے لگی۔
خالہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، ’’نگو بڑی آپا کو فون کر دوں‘‘۔
’’نہیں نہیں‘‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے نفی میں جواب دیا۔
’’وہ تو۔۔۔ ڈھو، ڈھو‘‘۔
افسری خالہ اور مظہر دونوں سمجھ گئے تھے کہ نگینہ اپنا وہ ہی جملہ پورا کرنا چاہتی ہے، جسے وہ اکثر دھراتی رہتی ہے کہ وہ تو میرے جنازے پر ڈھولک بجانے آئیں گی۔
’’اچھا اچھا، تم پریشان نہ ہو‘‘۔
’’خالہ۔۔۔ سانس۔۔۔ اٹک۔۔۔‘‘
’’اچھا! میری بچی! ابھی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں‘‘۔
’’مظہر شکل کیا دیکھ رہے ہو؟ ٹیکسی کرو یا عمر سے کہو گاڑی نکالے، وہ ابھی آفس نہیں گیا ہے‘‘۔
’’جلدی کرو‘‘۔
عمر دروازے پرگاڑی لے آیا، خالہ نے پچھلی سیٹ پر اسے اپنے ساتھ بٹھانے کی کوشش کی پھر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا، اور سر سہلانے لگیں۔ آیات قرآنی کا ورد کرتی رہیں۔
’’خالہ! میں مرجاؤں گی، مرجاؤں گی‘‘۔
’’نگینہ ایسا نہ سوچو، میری بچی! ہر بیماری کا علاج ہے‘‘۔
’’عمر سے میں نے کہا تھا، اس نے پیسوں کا انتظام کر لیا ہے، آج ہی خون کا بندوبست کرتے ہیں‘‘۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں کیوں؟ وہ اگر میرا بیٹا ہے تو تمہارا بھائی ہے نا‘‘۔
’’سانس۔۔۔ سانس۔۔۔ سانس۔۔۔ سانس‘‘۔
اسٹریچر پر اسے لٹاکر ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا۔
مظہر کچھ پڑھ رہا تھا، یا دعا مانگ رہا تھا۔
مظہر کمرے سے باہر کھڑا ہو گیا، جبکہ خالہ اندر چلی گئیں ڈاکٹر کے چیک اپ کرتے کرتے نگینہ کی آنکھیں خلاء میں اٹک گئیں۔
خالہ سمجھ گئیں اور کمرے سے باہر آ گئیں۔
مظہر کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی روشنی تھی۔
اسے بھی اندازہ ہو گیا تھا، کمرے کے سامنے ہی کھڑا تھا، پھر خالہ کی طرف دونوں ہتھیلیاں ہلا کر اشارۃ پوچھا۔
’’کیا وہ مر گئی؟‘‘
اسی دوران ڈاکٹر مکمل چیک اپ کے بعد باہر آ گئی۔ ’’آپ کون ہیں ان کی؟‘‘
’’پڑوسن منہ بولی خالہ‘‘۔
’’اور یہ حضرت؟‘‘
’’نگینہ کے شوہر‘‘
’’شوہر۔۔۔؟‘‘ اس نے اتنی حقارت سے ’’شوہر‘‘ کا لفظ دہرایا، جیسے زمین پر آخ تھو کر رہی ہو۔
’’آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اس میں بالکل خون نہیں تھا، اسے خون کی ضرورت تھی، کیسے شوہر ہیں آپ؟‘‘
’’افسوس، کاغذی کارروائی مکمل کرکے آپ ڈیتھ باڈی لے جاسکتے ہیں‘‘۔
مظہر کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دو قطرے نکلے نہ معلوم خوشی کے تھے یا غم کے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.