لال سنگھ عرف لالی بارہمولہ کا ایک خوش باش ٹرک ڈرائیور تھا جو حاجی صمد ڈار کا ٹرک چلا لیا کرتا تھا۔ حاجی صمد ڈار قصبہ سوپور کا ایک صاحب ثروت آدمی تھا جسکے یہاں بیس پچیس کارندے ہر دم دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے۔ ہر سال وہ لاکھوں ٹن ڈیلیشیس سیب دلی کی منڈیوں کو فراہم کرتا تھا۔ اُسکے چار چھ ٹرک مہینے کے تیس دن سرینگر دلی شاہراہ پر دندناتے ہوئے نظر آتے تھے۔ لالی کو چھوڑ کے باقی سبھی ڈرائیوروں سے پائی پائی کا حساب لیا جاتا تھا لیکن اس محا سبے کے باوجود وہ مالک کی آنکھوں میں ایسے دھول جھونک لیا کرتے تھے کہ مالک تو مالک فرشتوں کو بھی اس ہیرا پھیری کی خبر نہیں لگ جاتی تھی۔ ایک لالی تھا جو اس احتساب کے دائرے سے باہر تھا۔ کوئی بھی نوکر اس سے حساب مانگنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ حاجی کی ناک کا بال تھا۔ پر اتنی قرابت داری ہونے کے باوجود وہ ایک پیسے کی بے ایمانی نہیں کرتاتھا۔ جو کچھ کما کے لاتا تھا وہ منشی کے منہ پر مار دیتا تھا۔ چنانچہ اس کی ایمانداری کو دیکھ کر آج تک کوئی بھی ملازم اس کے کردار پر انگلی نہیں اُٹھا پایا تھا۔ شاید اس کی ان ہی خوبیوں نے اسے حاجی کا چہیتا بنا دیا تھا۔
لالی شادی شدہ تھا پر ابھی تک اس کی بیوی گورمیت کور کی گود ہری نہ ہونے پائی تھی۔ گورمیت کور بھی اپنے شوہر کی طرح ہی بڑی ہنس مکھ اور جی دار عورت تھی۔ جب بھی کبھی رشتے ناتے میں کسی کے یہاں کوئی آفت آفتاد پڑتی تھی تو گورمیت سب سے پہلے سدھ لینے پہونچ جایا کرتی تھی۔ ظاہر میں تو وہ دھان پان سی عورت تھی مگر دل گردہ کسی جیالے مرد سے کم نہ تھا۔ اتنی ککڑی ہونے کے باوجود وہ دس بیس آدمیوں سے لڑنے بھڑنے کا دم خم رکھتی تھی۔ لالی کو گورمیت کی اس مردانگی پر ناز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہفتوں اسے گھر میں اکیلے چھوڑ کر جاتا تھا اور اُسے اُسکی زرا بھر بھی فکر نہ ہوتی تھی۔
لالی کو تو بس ایک ہی غم کھائے جا رہا تھا کہ شادی کے چار سال گزر جانے کے باوجود گورمیت اب تک ماں نہ بن پائی تھی۔ اس نے حاجی کی صلاح پر کئی لیڈی ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ پیر فقیروں کے گنڈے تعویذ آزمائے۔ کئی آستانوں پر جاکر دھاگے باندھے مگر اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی گورمیت کور کی کوکھ بنجر کی بنجر ہیرہی۔ رات کو جب بھی کہیں محفل جمتی تھی تو وہ پی پا کے اپنے دل کا درد اگل دیتا تھا۔ یار دوست جھٹ سے مشورہ دینے لگتے تھے کہ وہ گورمیت کو چھوڑ کے کسی اور سے بیاہرچا لے۔ لالی گورمیت کو چھوڑنے کے خیال سے بپھر اٹھتا تھا۔ وہ اپنے سنگی ساتھیوں کو من بھر کی گالیاں دے کر وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا تھا۔ دراصل وہ گورمیت کو جنونکی حد تک چاہتا تھا۔ اس کو چھوڑنے کے خیال سے ہی وہ تڑپنے اور تلملانے لگتا تھا۔
ایک دن جب وہ جموں سے سری نگر لوٹ رہا تھا تو پتنی ٹاپ پر اس نے پانی پینے کی غرض سے اپنا ٹرک کھڑا کیا۔ پتنی ٹاپ کی یہ پہاڑی چیل اور دیودار کے پیڑوں سے چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے۔ یہاں کا ٹھنڈا پانی روح کو سیراب کر دیتا ہے۔ اُسنے پانے کے جھرنے کے نیچے کھڑے ہو کر اوک سے پانی پی لیا۔ جب وہ پانی پی کر اپنے ٹرک کی جانب بڑھنے لگا تو اچانک اس کی نظر ایک ہرن کے بچے پر پڑی جو ایک جھاڑی کے پیچھے بے سدھ پڑا تھا۔ اس نے آگے بڑھکر ہرن کے بچے کو ہلاجھلا کر دیکھ لیا۔ یہ دیکھ کر اس نے طمانیت کا سانس لیا کہ وہ ابھی تک زندہ تھا۔ اس نے اسے گود میں اٹھا لیا اور ادھر ادھر دیکھ کر وہ اس بچے کو ٹرک میں ڈال کر وہاں سے چلتا بنا۔ راستے میں ہرن کے بچے کو ہوش آگیا اور وہ اپنی ٹانگیں ہلانے جھلانے لگا۔ لالی نے بٹوت میں جاکر اپنا ٹرک ایک دوکان کے آگے روک لیا اور پھر وہ ٹرک سے اتر کر ایک دودھ کی بوتل خرید کر لے آیا۔ وہ یہ بوتل لے کر پپو سنگھ ڈھابے والے کے پاس چلا گیا اور اس سے آدھا لیٹر دودھ گرم کرنے کے لئے کہا۔ سردار پپو سنگھ دودھ کی بات سن کر ہنس پڑا اور چھیڑنے والے انداز میں بولا، ”کے پاپاجی! جنگل دے شیر بھی دودھ پین لگے کیا؟“
”فالتو گلاں نہ کر۔ آدھا لیٹر دودھ چھیتی(جلدی) گرم کرکے دے۔“ وہ پپو سنگھ کو پیار سے ڈانٹتے ہوئے بولا۔
پپو سنگھ نے دودھ گرم کروادیا اور لالی نے یہ دودھ بوتل میں ڈالا اور تب تک اسے ہلتا رہا جب تک یہ دودھ ٹھنڈا نہ ہوا۔ وہ دودھ کی بوتل لے کر ٹرک میں سوارہوا اور پھر ہرن کے بچے کو اپنی اولاد کی طرح گود میں بٹھا کر اسے دودھ پلانے لگا۔ ہرن کا بچہ بہت بھوکا تھا اس لئے منہ میں نپل ڈلتے ہی وہ جھپ جھپ چسر چسر کے دودھ پینے لگا۔ اس بچے کو اس طرح دودھ پیتے دیکھ کر لالی کی آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ بڑے آرام اور یکسوئی سے اسے تب تک دودھ پلاتا رہا جب تک وہ شکمسیر نہ ہوا۔ اس بیچ پپو سنگھ کو کرید سی لگی۔ وہ اپنا کام دھندھ چھوڑ کر ٹوہ لینے کی غرض سے لال سنگھ کے ٹرک کے پاس پہونچ گیا اور دز دیدہ نظروں سے ٹرک کے اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے جب اندر کا منظر دیکھ لیا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ لالی ہرن کے بچے کو گود میں لے کر ایسا خوش اور مسرور دکھائی دے رہا تھا۔
جیسے گورمیت نے اپنا پہلا بچہ جن لیا ہواور اس کا باپ لالی اسے پہلی بار گود میں لے کے بیٹھا ہو۔
گورمیت چراغ میں بتی ڈال رہی تھی کہ لالی ہرن کے بچے کو گود میں اٹھائے چوروں کی طرح دبے پاؤں گھر میں داخل ہوا۔ اچانک گورمیت کی نظر اس پرپڑی تو وہ حیرت و مسرت سے تقریباََ چیختے ہوئے بولی، ”ہائے ربا میں مر جاواں۔ یہ توسی کی لے کے آئے ہو؟“
”یہ ہرن دا بچہ میں توڑے واسطے لے آیا ہوں۔ تو کار وچ اکیلی رہندی ہے نا سو تو اس دے نال کھیلا کرنا۔ اسے اپنے ہاتھوں وچ کھلانا پلانا، اسے پیار دلار کرنا۔ ا سوچ تیرا ٹیم بھی پاس ہوگا اور اس بےزبان نو جینے دا سہارا بھی مل جائیں گا“
”پر وہ سب تو ٹھیک ہے۔ پہلے مینوں یہ دسو کہ یہ زنانی ہے یا۔۔۔؟“
”مینوں کے پتا۔ آپے دیکھ لو نا“ لالی نے شرماتے ہوئے کہا اور پھر بچے کو گورمیت کی گودمیں ڈال دیا۔ گورمیت نے پونچھ اٹھا کر فوراََ جنس کا پتا لگا لیا۔ وہ خوشی سے چیخ کر بولی”او جی یہ تو زنانی ہے۔“ کہہ کر گورمیت نے بچے کو سینے سے لگا لیا اور پھر اس کے نرم نرم ملائم بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی، ”ہائے کنا پیارا بچہ ہے۔ ہائے ہائے اسکی اکھاں دیکھو جی کنی سونی ہے۔ ایسا نہیں لگدا جیسے اسکی اکھاں وچ کوئی سرمہ پا کے چلا گیا ہو“
”اے گورمیتے تو کنی واری کشمیری گانے وچ چشم آہو، چشم آہو دی تشبیح سنی ہے۔ جب کدی عاشق اپنی معشوق دی اکھاں کی تعریف کر دا ہے تو وہ ان اکھاں نو چشم آہو کہہ کے بلاندہ ہے۔ چشم آہو دا مطبل ہرن دی دو سونی سونی، سرمہ والی اکھاں۔ دیکھو تو یہ کس پیار نال تینوں تک رہا ہے“
گورمیت نے ایک بار پھر اس بچے کو سینے سے لگا لیا اور پھر اس کے سنہری روئیں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔
دھیرے دھیرے گورمیت اور لالی اس ہرنی کے بچے کے پیار میں ایسے ڈوب گئے کہ وہ دنیا و مافہیا کو ہی بھول گئے۔ انہوں نے اس کا نام ”مکھنی“ رکھ دیاکیونکہ وہ مکھن کی طرح نرم وملائم تھی۔ مکھنی بھی بہت جلد ان سے ہل مل گئی۔ وہ چند لمحے ادھر اُدھر کھیلتی، قلانچیں بھرتی اور پھر جاکر گورمیت کے پہلو میں جاکر بیٹھ جاتی تھی۔ گورمیت اسے قلانچیں بھرتی دیکھتی تو اس پر ہزار جان سے واری واری ہو جاتی تھی۔ مکھنی بڑی معصوم اور سندر تھی۔ پتنی ٹاپ کے جنگل کے بیچ سے نکل کر پتا نہیں یہ اُس جھاڑی تک کیسے پہونچ گئی تھی۔ لالی نے عقل کے گھوڑے دوڑا کر یہی اندازہ لگا لیا تھا کہ اسکی ماں کو کوئی جنگلی جانور کھا گیا ہو اور یہ ماں سے بچھڑ کر بھٹکتے بھٹکتے سڑک کی طرف نکل آئی ہو۔ یہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ یہ لالی کی نظر میں آ گئی۔ رات کا وقت ہوتا تو یہ کسی جنگلی کتے کے منہ کا نوالہ بن گئی ہوتی۔
ایک بار یہ خبرگاؤں میں کیا پھیل گئی کہ لالی سنگھ کے گھر میں ہرن کا بچہ پل رہا ہے۔ لوگ باگ ایسے امڈ پڑے جیسے یہ ہرن کا بچہ نہ ہو بلکہ کوئی پہونچا ہو امستملنگ ہو جس کے دیدار کرنے سے ان کے سارے گناہ دھل جائیں گے۔ لالی کو اس وقت بڑی کوفت اور جھنجھلاہٹ ہوتی تھی جب پاس پڑوسی منہ اٹھائے چلے آتے تھے اور پیر زمین پر رکھتے ہی مکھنی کے حسب نسب کے بارے میں الٹے سیدھے سوال کرنے لگتے تھے جیسے مکھنی یہاں کی گدی سنبھالنے والی ہو۔ پتا نہیں لوگ ہر بات کی تہہ تک کیوں پہونچنا چاہتے ہیں۔ لالی سنگھ کو لوگوں کا اسطرح بے روک ٹوک گھر میں آنا جانا کھٹک رہا تھا پر وہ اسکا اظہار نہیں کر پا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ خبر گاؤں سے نکل کرقرب و جوار میں پھیل گئی۔ لالی سنگھ کا گھر زیارت گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ کبھی کبھی اُسکے جی میں آتا تھا کہ وہ ابھی مکھنی کو گھر سے دفاہ کردے اسکی وجہ سے اس کے گھر کا رین چین و سکوں غارت ہو گیا تھا۔ ساتھ میں چائے پانی کا خرچہ بھی بڑھ گیا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے مکھنی دو سال کی ہو گئی۔ وہ اب بھی لالی اور گورمیت سے دور نہیں رہ پا رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ ترنگ میں آکر ان دونوں کو سر سے ٹھوکے مارنے لگتی تھی۔ لالی تو ہنس ہنس کے مکھنی کی یہ مار سہہ لیتا تھا البتہ گورمیت بعض اوقات برہم ہو کر مکھنی کو جی بھر کے کوسنے دینے لگتی تھی اور ساتھ ہی اُس پر دو چار ہاتھ بھی جما دیتی تھی۔ اس کے اس تیکھے ترش برتا و کے باوجود وہ بڑی لاابالی پن سے جئے جا رہی تھی اور اسے کھانے کو وہ ساری چیزیں مل جایا کرتی تھیں جن کی اس کو ضرورت تھی۔ اس بیچ کشمیر کے حالات اچانک بگڑ گئے۔ آئے دن عام لوگ مرنے کٹنے لگے۔ اقلیتی فرقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ کئی کنبے اپنا گھر بار چھوڑ کر جموں چلے گئے۔ لالی کو بھی اس خون خرابے سے تشویش ہونے لگی، حالانکہ حاجی صمد ڈار نے اُسے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ اسے بلا وجہ کوئی پریشان نہیں کرے گا پھر بھی اس کا جی گھبرا رہا تھا۔ اس نے سا ری زندگی بےفکری کے عالم میں گزاری تھی۔ وہ خوف و دہشت میں جینے کا عادی نہ تھا، اس لئے ہر دم اُسے یہ فکر ستانے لگی کہ اگر یہ خون خرابہاسطرح چلتا رہا تو وہ ایسے ماحول میں کیسے جی پائےگا؟
جس دن اسی کے محلے کے تین سکھ پریوار راتوں رات اپنا سامان ٹرکوں میں لاد کر چوری چھپے گاؤں چھوڑ کر چلے گئے، اسے دیکھ کر لالی کی بچی کھچی آس امید بھی ٹوٹ گئی۔ اسے لگا کہ وہ ننگی تلوار کے سایے میں جی رہا ہے۔ ایک رات اس نے گورمیت کو اپنے پاس بٹھا کر پوچھا۔
”کھیر سنگھ بھی نس گیا۔ پرتھوی سنگھ بھی اپنا پورا ٹبر لے کے چل پیا۔ ہون تو دس اسی کی کریں۔ اتھے رہ کے ڈر مر کے جئیں یا اسی بھی اس پار جموں چلے جائیں؟“
گورمیت نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
”اپنا کار چھڑ کے جاویں دل تو نہیں مندا پر کے کریں۔ توسی حلات تو دیکھ ہی رہے ہو۔ کل دو نکے نکے بچے بم پھٹن سے مر گئے۔ ہائے ربا یہ اس سورگ نو کی ہو گیا۔ کسبیری دی نظر لگ گئی اسے۔ کنے چین آرام نال اسی اتھے رہ رہے تھے۔ ہون اتھے رہنا وبال ہو گیا۔ میری گل من لو جی۔ چھوٹا موٹا سامان ٹرک میں ڈال کے مینوں جموں لے چلو۔ پیٹ بھر روٹی نہ ملے۔ کم سے کم چین نال تو جی لیں گے نا۔“
لالی نے گورمیت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے سہارا دیتے ہوئے کہا۔
”فکر کرنے دی کوئی لوڑ نہیں۔ واہگورو سب ٹھیک کرےگا۔ مینوں بس ایک ہی پریشانی لگی ہے کہ اسی اگر چلے گئے تو مکھنی کا کے ہوئےگا۔ وہ ساڑھے قول چل تو نہیں پائےگی۔ مان لو کہ راستے وچ پیسہ پوسہ کھلا کے اسی مکھنی کو جموں لے گئے تو یہ اتھے کیسے رہ پائےگی؟ کدی پولیس دی نظر وچ آ گئی تو؟ پولیس بھی چھڑو۔ یہ ادھر دی گرمی کیسے سہہ پائےگی؟“
”میں تو ایک ہی گل جان دی ہوں۔ مکھنی ساری زندگی ساڑھے نال نہیں رہ سکدی۔ میری گل مانو۔ مکھنی نو راتی پاس کے جنگل میں چھڑ کے آجاو۔ یہ بھی چین نال جیپائے گی اور اسی بھی شانتی نال رہ پائیں گے۔ اسے اپنے آپ سے الگ کرکے جنا دکھ تینوں ہوگا اس سے کہیں زیا دہ دکھ تو مینوں ہوگا۔ میں نے تو اسے اپنی اولاد کی طرح پالا ہے پر کے کریں۔ اسے اتھے اے ویں چھڑ کے جائیں گے تو کوئی بھی اسے حلال کر دے گا۔ کیا توسی چاہو گے کہ یہ کٹ کے مر جائے؟“
مکھنی کے ایسے خوفناک انجام کا تصور کرکے لالی سنگھ کا کلیجہ کانپ اٹھا۔ اسنے گورمیت کی طرف تعریفی نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔
”تیری گل سولہ آنے سچ ہے۔ کہتے ہیں کہ ہرن دا گوشت بڑا لذیذ ہوندا ہے۔ جس مکھنی کو ہم نے بچے کی طرح پال پوس کے وڑا کیا اسے میں کسی قصائی دی چھری کے واسطے چھڑ کے نہیں جاوں گا۔ میں آج راتی مکھنی کو جنگل میں چھڑ کے آوں گا۔“
گورمیت نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور پھر وہ دونوں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔
دھندلے کا وقت تھا۔ لالی سنگھ نے پگڑی اتار کر طاقچے پر رکھ دی اور پھر وہ سر پر پٹکا باندھ کے مکھنی کے پاس چلا گیا۔ پہلے اس کی گردن سہلائی اور پھر ٹٹکاری مارتے ہوئے وہ اسے گھر سے باہر لے جانے لگا۔ گورمیت دروازے کی اوٹ میں کھڑی روتی ہوئی آنکھوں سے مکھنی کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ باہر ہو کا عالم طاری تھا۔ لوگ جیسے اپنے اپنے بلوں میں دبک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ لالی مکھنی کو ہنکارتے ہوئے پاس کے جنگل تک لے گیا اور پھر اس کی رسی کھول کر اُسے دو ایک تھپکے مارتے ہوئے آگے دھکیل دیا۔ مکھنی اندھیرے میں ہری ہری گھاس دیکھ کر گھاس کی پتیاں توڑ توڑ کر چبانے لگی۔ لالی اسے چرتا چھوڑ کر وہاں سے سر پر پاؤں رکھ کر بھا گا۔ وہ جب گھر پہونچا تو اُس نے دیکھا کہ گورمیت پھپھک پھپھک کر رو رہی تھی۔ لالی جونہی نیچے بیٹھ گیا تو اُس نے روتے ہوئے لالی سے پوچھا۔
”چھڑ آئے میری مکھنی کو؟“
”ہاں چھڑ آیا۔“ لالی نے روہانسا ہو کر سر نہوڑے ایسے جواب دیا جیسے وہ کوئی عظیم گناہ کرکے آیا تھا۔ مکھنی کی جدائی اس کے دل کو بھی برما رہی تھی پر وہ کیا کرتا۔ مکھنی کے بقا کے لئے ایسا بےرحم فیصلہ لینا بہت ضروری تھا۔ کبھی کبھی ہم کو اپنے من کو مار کر دوسروں کے بھلے کے لئے ایسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں جو ہمارے ضمیر کے منافی ہوتے ہیں۔ لالی نے بھی جو کچھ کیا تھا وہ اپنے دل کا خون کرکے اپنے جذبات کا گلا گھونٹ کر کیا تھا۔
وہ رات انہوں نے روتے اور آہیں بھرتے ہوئے گزاری۔ گورمیت تو ایک پل بھی سو نہیں پائی۔ اس کے احساس کو جیسے مکھنی کے نرم و ملائم بال کانٹے بن کرچبھ رہے تھے۔ اس کے جذبات کو جیسے اس کی سرمئی آنکھیں رہ رہ کے برما رہی تھیں۔ اچانک وہ بستر سے اُٹھی اور تیزی سے دروازے کی جانب لپکی۔ جونہی اس نے دروازہ کھولا اس کے منہ سے مارے خوشی کے چیخ نکل پڑی۔
”او جی یہ دیکھو کون آیا ہے۔ اوئے اپنی مکھنی لوٹ کے آ گئی ہے۔“ یہ کہہ کر وہ مکھنی سے لپٹ گئی اور پاگلوں کی طرح اسے چومنے لگی۔ اتنے میں لالی باہر آ گیا۔ اس نے جب مکھنی کو دیکھا تو وہ دھک سے رہ گیا۔ وہ گورمیت ہر بگڑتے ہوئے بولا۔
”اوئے یہ اتھے پھر کاہے کو مرنے چلی آئی۔ دفا کر اسے۔“ کہہ کر وہ اسے گھر سے باہر دھکیلنے لگا۔ اب کے گورمیت اس پر چڑھ بیٹھی۔
”ہائے ہائے یہ توسی کی کررہے ہو۔ کیوں اسے ٹھوڑے مار رہے ہو۔ اوئے یہ ساڑھی مکھنی ہے گلی محلے دی کوئی آوارہ کتیا نہیں۔ چلو اندر چلو۔“ وہ اسے اندر دھکیلنے لگی۔
لالی اس بار اپنا آپا کھو بیٹھا۔ وہ گورمیت پر بگڑتے ہوئے بولا۔
”تیری مت ماری گئی ہے کیا جو تو اس کرکے اس سورنی پر جھپیاں پا رہی ہے۔ اوئے تو تو مرےگی ہی نال اسے بھی مروا دے گی۔ بھول گئی راتی کے گل ہوئی تھی۔ مکھنیاتھے رہےگی تو آج نہیں تو کل ماری جائےگی۔ اوئے وہ مجید قصاب کب سے اس پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ تو اس کرکے نکل جائےگی اور وہ مجید قصائی اس کے ٹوٹے ٹوٹے کرکے رکھ دےگا۔ تیرے کو پتا ہے۔ ہرن کا جڈا گوشت ہوندا ہے نا وڑا لذیذ ہوندا ہے۔ کیا تو چاہندی ہے کہ یہ قصائی کی چھری سے مر کٹ جائے؟“
اب کے گورمیت کور ایکدم کچی دیوار کی مانند نیچے بیٹھ گئی اور پھر مکھنی کی طرف پیٹھ کرکے بولی۔
”میں اکھیا جی۔ لے کے جاو اسے۔ مینوں اسکی زندگی پیاری ہے۔ اس کی موت نہیں۔“
اگلے روز لالی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مکھنی کو جنگل کے باہر نہیں بلکہ جنگل کے اندر چھوڑ کے آئےگا تاکہ وہ پھر اس جنگل سے باہر نہ نکلنے پائے۔ چنانچہ وہرات کا بڑی بےصبری سے انتظار کرنے لگا۔ مکھنی ان ساری باتوں سے بے خبر گورمیت کے بغل میں بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔ لالی رسی ہاتھ میں لے کر کب سے تیار بیٹھا تھا۔ وہ تو بس اندھیرا ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ جب رات کی سیاہی چاروں اور پھیل گئی تو لالی مکھنی کو لے کر گھر سے نکلا اور اندھیرے میں راستہ تلاش کرتا ہوا گرتے پڑتے مکھنی کو لے کر جنگل میں گھسا۔ جنگل کا یہ عالم تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ مکھنی کو ہانکتا ہوا جنگل کے بیچوں بیچ پہونچ گیا۔ چار سو ہو کا عالم طاری تھا۔ سائیں سائیں کرتی ہوائیں اس ڈراونے ماحول کو اور زیادہ ہولناک بنا رہی تھیں۔ وہ اس بات سے بےخبر بڑی بے خوفی سے آگے بڑھتا چلا گیا کہ فوج غیرملکی دراندازوں کو گھیرنے کے لئے جنگل میں گھات لگا کے بیٹھی ہے۔ اُس پر تو بس ایک ہی دھن سوار تھی۔ وہ مکھنی کو ایسی سرحدوں تک لے کے جانا چاہتا تھا جن کے بیچ رہ کراُسکی زندگی محفوظ رہے اور جہاں وہ آزادی سے جی سکے۔ جہاں کسی قصاب کی بے رحم چھری اس کی گردن نانپنے کے لئے بے تاب نہ ہو۔
گورمیت بڑی بے صبری سے لالی کے گھر لوٹنے کا انتظار کر رہی تھی۔ صبح ہوئی وہ نہیں لوٹا۔ گورمیت کو فکر ہونے لگی۔ جب صبح سے دوپہر ہو گئی تو گورمیت کور کو اب کے تشویش ہونے لگی۔ وہ گھر سے نکل کر ادھر اُدھر دوڑی بھاگی۔ اُسنے گاؤں کا چپہ چپہ چھان مارا۔ وہاں نہ ملا تو جنگل کو کھنگالا۔ اُسنے ہر جگہ اُسے تلاش کیا مگر اُسے لالی کیا لالی کی گرد تک نہ ملی۔ اب کے دل میں یہ کھڑکا لگا کہ کوئی نہ کوئی انہونی ہوئی ہے۔ وہ جب تھک ہار کے گھر کی طرف واپس لوٹ گئی تبھی دو پولیس والوں کو گھر کے باہر کھڑے دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ دوڑ کر ان کے پاس چلی گئی اور دھڑکتے دل سے ایک سپاہی کی بانہہ پکڑ کر اس سے پوچھا۔
”کے قہر ہو گیا جی۔ میرا مرد۔۔۔؟“
”تیرا مرد اب رہا نہیں۔ رات کو اسے فوجیوں نے مغالطے میں دہشت گرد سمجھ کر گولی مار دی۔“
گورمیت کور ایک پل کے لئے سن ہو کر رہ گئی پر دوسرے ہی پل وہ سینے پر دو ہتھڑ مار کر پولیس اسٹیشن کی طرف بے تحاشہ بھاگنے لگی۔ گاؤں والے بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ وہ روتی چلاتی اُس کمرے تک پہونچ گئی جہاں لالی کی گولیوں سے چھلنی لاش پڑی تھی۔ وہ لاش پر گر کر بین کرنے لگی۔ اپنی چھاتی پیٹنے لگی۔ اپنے سر کے بال نوچنے لگی۔ گاؤں والے بت بنے کھڑے کھڑے اسے ولاپ کرتے دیکھ رہے تھے۔
لالی کا داہ سنسکار کرنے کے بعد جب گاؤں والے اسے گھر پر لے کر پہونچے تو یہ دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے کہ اس کے رشتہ دار اس کا سامان ٹرک میں لاد رہے تھے۔ گاوں کی ایک بزرگ خاتون جان دیدبھیڑ سے نکل کر اس کے پاس جاکر کھڑی ہو گئی اور پھر اُسے سہارا دے کر بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
”اس گاؤں کو چھوڑ کے مت جا گورمیت۔ مت جا۔“ جان دید کی آنکھیں اشک بار تھیں اور ان بھیگی آنکھوں میں ایک التجا تھی، ایک فریاد تھی۔
”اب اتھے رہ کے کیا کروں گی۔ جب بھاڑ ہی کھیت کو کھائے تو رکھوالی کون کرے۔ نا جی میں اب اتھے نا رہوں گی جی۔“ کہکر وہ گاڑی میں سامان لدوانے لگی۔ وہ جونہی ٹرک کی طرف بڑھی تو دفعتاََ مکھنی سامنے سے دوڑتی ہوئی چلی آئی اور جاکر گورمیت کے بغل میں جاکر کھڑی ہو گئی۔ گورمیت ایک پل کے لئے سن ہو کر مکھنی کودیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہ گئی لیکن دوسرے ہی پل وہ اس کی طرف غصے سے دیکھ کر چلائی، ”جنم جلی میرے خصموں نو کھا گئی۔ اب اتھے کیا لینے آئی ہو؟“
مکھنی بے بس اور لاچار نظروں سے گورمیت کی اور دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ گورمیت کا کلیجہ پھٹ پڑا اور وہ مکھنی سے لپٹ کر رونے لگی۔ جی کا بوجھ ہلکا کرکے وہ ڈرائیور سے بولی، ”پرا جی! سامان تھلے اتار دو۔ ہون میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ ہون میں اتھے ہی مکھنی نال رہوں گی“ کہہ کر وہ ایک بار پھر مکھنی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.