سرکاری ہسپتال کے ایمرجینسی وارڈ میں اپنی ماں کے پاس پی پی ای کٹ پہنے بیٹھی ندھی نے ایک نگاہ پورے کمرے میں ڈالی۔ کووڈ مریضوں کے لئے بنائے اس ایمرجینسی وارڈ میں اس کی ماں کے بیڈ کے علاوہ پانچ بیڈ اور لگے تھے۔ جن میں سے چار بیڈوں پر مریض لیٹے ہوئے تھے۔ ایک بیڈ خالی تھا۔ کچھ لوگ ایمرجینسی وارڈ کے ساتھ لگتے ویٹنگ روم میں بیٹھے تھے۔ جو دوسرے مریضوں کے رشتہ دار تھے۔ ڈاکٹر نے ندھی کو بھی باہر بیٹھنے کے لئے کہا تھا۔ مگر وہ روتے ہوئے اپنی ماں کے پاس بیٹھنے کی درخواست کرنے لگی۔ ڈاکٹر کے بار بار منع کرنے کے بعد بھی وہ نہیں مانی اور اپنی ایک دوست جو اسی ہسپتال میں کچھ مہینے پہلے زچہ بچہ کی ڈاکٹر بن کر آئی تھی سے بھی فون پر اس ڈاکٹر کو سفارش کروا ڈالی تھی۔ آخر کار ڈاکٹر نے ندھی کو پی پی ای کٹ پہنوا کر اس شرط پر اجازت دی تھی کہ جب تک ماتا جی ایمرجینسی میں ہیں تب تک آپ ان کے پاس بیٹھ سکتی ہیں۔ ان کو کووڈ وارڈ میں شفٹ کرنے کے بعد ہم آپ کو ان کے پاس جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تین نرسیں اور دو وارڈ بوائے ایمرجینسی وارڈ میں مریضوں کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے تھے۔ ندھی نے ایک گہری سانس لی اور اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی،
’’بھگوان میری مما کو تندرست کر دو۔ اس کے علاوہ میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں۔‘‘
ندھی نے دیکھا کہ بیڈ نمبر چار پر لیٹے مریض کی طبیعت بگڑنے لگی تھی۔ پہلے تو نرسوں نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی مگر جب اس کی حالت اُن کے قابو میں نہ آئی تو ایک نرس دوڑ کر ڈاکٹر کو بلا لائی، ڈاکٹر بھی کافی کوشش کرنے کے باوجود اس مریض کی سانسوں کو سہارا نہ دے سکا۔ وارڈ بوائے تیزی سے اس لاش کو اُٹھا کر باہر کی طرف لے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر وہاں لیٹے سبھی مریض بہت سہم گئے تھے۔ ندھی نے اپنی ماں کی طرف دیکھا وہ ابھی بھی سو رہی تھی۔ شاید دوائیوں کے زیرے اثر وہ گہری نیند میں تھی۔ ندھی نے بھگوان کا شکر ادا کیا کہ اس کی ماں نے یہ سب کچھ نہیں دیکھا تھا۔
ندھی کی ماں کی طبیعت پچھلے کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں چل رہی تھی۔ ندھی اس کا علاج ایک پرائیویٹ ڈاکٹر سے کروا رہی تھی۔ مگر جب چھ سات دن علاج کروانے کے بعد بھی بخار نہیں ٹوٹا تو ڈاکٹر نے ندھی کو ماں کا کرونا ٹیسٹ کروانے کو کہا۔ ڈاکٹر کے کہنے پر ندھی نے پرائیویٹ ایجنسی سے ہی اپنی ماں کا ٹیسٹ کروایا۔ اسے یہ سب اکیلے ہی کرنا پڑ رہا تھا، کیونکہ اس کے پتا کی عرصہ ہوا موت ہو چکی تھی۔ اس کا کوئی اور بہن یا بھائی بھی نہیں تھا۔ ٹیسٹ کروانے کے دوسرے دن جب رپورٹ ندھی کے ہاتھوں میں آئی تو اس کے ہوش اُڑ گئے۔ اس کی ماں کرونا پازیٹو تھی۔ جب اس نے رپورٹ ڈاکٹر کو دکھائی تو ڈاکٹر اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولا،
’’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کرونا کی ابھی شروعات ہے۔ 14دن گھر میں ہی کوارنٹائن کرنے سے ماتا جی ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں دوائی بدل دیتا ہوں۔ آپ ان کو 14دنوں کے لئے گھر میں ہی رکھیں اور خود بھی ذرا احتیاط رکھیں۔ ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال ضرور کریں۔ ان سے تھوڑی دوری بنا کر رکھیں۔ بے فکر رہیں ماتا جی ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘
گھر میں جب پانچ دن گزرنے کے بعد اس کی ماں کی طبیعت بہتر ہونے کی بجائے اور بگڑنے لگی تو ندھی اسے سرکاری ہسپتال لے آئی۔ یہاں ڈاکٹر نے ایمرجینسی وارڈ میں اسے سنبھالتے ہوئے کچھ انجیکشن اور دوائیاں دیں۔ جس سے اسے کچھ راحت ملی تھی۔ ڈاکٹر نے ندھی کو تسلی دیتے ہوئے کہا
’’اب آپ کی ماں کی طبیعت پہلے سے کافی ٹھیک ہے۔ ابھی کچھ دیر یہاں ایمرجینسی وارڈ میں رکھنے کے بعد ہم ان کو کووڈ وارڈ میں شفٹ کر دیں گے۔ ابھی وہاں کوئی بیڈ بھی خالی نہیں ہے۔‘‘
تقریبًا ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ تب سے ہی ندھی اپنی ماں کے بیڈ کے پاس بیٹھی تھی۔ ندھی نے دیکھا کہ جس بیڈ پر کچھ دیر پہلے مریض کی موت ہوئی تھی وہاں ایک نئے مریض کو لا کر لٹا دیا گیا تھا۔ اس مریض کی حالت کافی نازک لگ رہی تھی۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا۔ ڈاکٹر اسے فرسٹ ایڈ دینے میں لگ کیا تھا۔ ندھی سوچنے لگی کہ پتا نہیں ہم لوگوں سے ایسا کون سا پاپ ہو گیا ہے جو بھگوان نے اس بیماری کے روپ میں اتنی بڑی سزا دی ہے۔ ہزاروں لوگ ہر روز مر رہے ہیں۔ دیش بھر میں لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود یہ بیماری ختم نہیں ہو رہی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی،
’’بھگوان اب تو بہت ہو گیا۔ ہمیں معاف کردو اور اس بیماری کو ختم کرکے دنیا پر رحم کر دو۔‘‘
تبھی ندھی کی ماں نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں اور ندھی کی طرف دیکھتے ہوئے کروٹ بدلنے لگی۔ ندھی نے اسے سنبھالتے ہوئے کہا،
’’آرام سے مما۔‘‘
جب ندھی کے سہارے سے اس کی ماں نے کروٹ بدل لی تو ندھی نے واپس ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’اب کیسا محسوس ہو رہا مما۔؟‘‘
اس کی ماں کمزور سی آواز میں بولی،
’’پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہی ہوں۔ بیٹی مجھے تھوڑا پانی پلا دو۔ حلق سوکھ رہا ہے۔‘‘
جی مما۔‘‘
کہتے ہوئے ندھی نے سہارا دے کر اپنی ماں کو بیڈ پر بیٹھایا اور پاس رکھا پانی کا گلاس اُٹھا کر اس کے منہ کو لگا دیا۔ ایک نرس تیزی سے ان کے قریب آکر بولی،
’’اُٹھ گئیں ماتا جی۔ یہ لیجئے ایک گولی کھا لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ جب ماتا جی نیند سے جاگ جائیں تو انھیں یہ گولی کھلا دینا۔‘‘
کہتے ہوئے نرس نے ایک گولی اس کے منہ میں ڈال دی۔ ندھی پھر اپنی ماں کو پانی پلانے لگی۔ نرس دوسرے مریض کے پاس چلی گئی تھی۔ دوائی دینے کے بعد ندھی نے اپنی ماں کو بیڈ پر لٹا دیا۔ ٹیبل پر بیٹھ کر ندھی اپنی ماں کے چہرے کی طرف مسکراکر دیکھنے لگی۔ اس کی ماں نے کچھ کہنا چاہا لیکن اچانک اس کی سانس اکھڑ گئی۔ یہ دیکھتے ہی اس نے جلدی سے نرس کو آواز لگائی۔
’’سسٹر۔۔۔ سسٹر۔۔۔ پلیز۔۔۔‘‘
دو نرسیں دوڑتی ہوئی ان کے بیڈ کے قریب آئیں اور ماں کی اکھڑی سانسیں دیکھ کر ایک نرس دوڑ کر ڈاکٹر کو بلا لائی۔ ڈاکٹر آکر اس کی سانسوں کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ ندھی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ پل بھر میں یہ کیا ہو گیا۔ ابھی تو ممابالکل ٹھیک تھی۔ اچانک سے انھیں سانس لینے میں تکلیف کیوں ہونے لگی۔ یہ سوچتے ہوئے وہ پریشان کھڑی اپنی ماں کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ پھر وہ ڈاکٹر کے قریب ہو کر بولی،
’’ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہے میری مما کو۔۔۔؟!‘‘
ڈاکٹر نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا،
’’فکر مت کرو۔ میں کوشش کر رہا ہوں۔ اصل میں ماتا جی کا آکسیجن لیبل کم ہو گیا ہے۔ جس وجہ سے ان کو سانس لینے میں دقت پیش آرہی ہے۔ اس بیماری میں اکثر مریضوں کو یہ پرابلم پیش آرہی ہے۔ میں اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا ہوں۔ اگر پھر بھی سانسیں نارمل نہیں ہوئی تو ماتا جی کو آکسیجن لگانی پڑے گی۔‘‘
ندھی ڈاکٹر سے التجا کرتے ہوئے بدلی۔
’’ڈاکٹر صاحب پلیز آپ ابھی میری مما کو آکسیجن لگا دیں۔ تاکہ انھیں سانس لینے میں پریشانی نہ ہو۔ مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جا رہی۔‘‘
ڈاکٹر مایوس ہو کر بولا،
’’پچھلے چھ دنوں سے ہمارے پاس آکسیجن نہیں ہے۔ اس بارے میں ہم سرکار کو بتا بھی چکے ہیں۔ مگر سرکار کی طرف سے نہ تو ہمیں کوئی جواب مل رہا ہے اور نہ ہی آکسیجن۔ آپ چاہیں تو خود آکسیجن کا انتظام کر لیں اور اگر آپ ماتا جی کو کسی دوسرے ہسپتال لے جانا چاہتی ہیں تو لے جا سکتی ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی ندھی کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے وہ بے بسی کے عالم میں بولی،
’’میرے پاس اتنے روپے نہیں ہیں کہ آکسیجن کا انتظام کر سکوں یا انھیں کسی دوسرے ہسپتال لے جا سکوں۔‘‘
ڈاکٹر گہری سانس لیتے ہوئے بولا،
’’پھر تو اب آپ پرارتھنا ہی کریں تاکہ ان کا آکسیجن لیبل ٹھیک ہو جائے۔ کیونکہ اب بھگوان ہی کچھ کر سکتا ہے۔ اس مامعلہ میں میرے ہاتھ تو اب کھڑے ہیں۔‘‘
کہتے ہوئے ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا۔ نرسیں بھی خاموشی سے دوسرے مریضوں کے پاس چلی گئیں۔ ندھی روتے ہوئے اپنی ماں کے چہرے کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ وہ ندھی سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ مگر کہہ نہیں پا رہی تھی۔ ندھی کو لگا کہ اس کی ماں اسے کہنا چاہ رہی تھی کہ بیٹی مجھے بچا لے میں جینا چاہتی ہوں۔ اسے اپنی ماں کی آنکھوں میں ایک آس محسوس ہو رہی تھی۔ مگر ندھی اس وقت اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔ اپنی ماں کو سانس لینے میں ہو رہی تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہو گئی تھی۔ اچانک ندھی اپنے آپ سے بولی،
’’نہیں، نہیں میں اپنی مما کو اس طرح مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ میں دوں گی میری مما کی سانسوں کو سہارا۔‘‘
کہتے ہوئے اس نے تیزی سے اپنا ماسک ہٹایا اور اپنی ماں کے قریب جا کر اس کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر سانس دینے کی کوشش کرنے لگی۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ وہاں موجود نرسوں اور وارڈ بوائز میں سے کسی کا بھی اس طرف دھیان نہیں گیا۔ ایک ہی منٹ نعد اس کی ماں کی سانسیں تھم گئیں۔ ندھی اس کی چھاتی دباتے ہوئے زور سے بولی،
’’مما۔۔۔ مما۔۔۔!‘‘
نرسوں نے جب اس کی آواز سنی تو دوڑ کر اس کے قریب آکر بولیں،
’’یہ تم کیا کر رہی ہو۔۔۔؟ پاگل ہو گئی ہو تم۔۔۔؟! ذرا بھی عقل نہیں تمھیں۔۔۔؟!‘‘
ندھی اُن کی باتوں کو ان سنی کرکے ڈاکٹر کے کمرے کی طرف دوڑ گئی۔
’’ڈاکٹر صاحب پلیز آپ میری مما کو دیکھیئے وہ بالکل خاموش ہو گئیں ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نے اس کی طرف دیکھا تو اسے ڈاٹتے ہوئے بولا،
’’تمھارا دماغ ٹھیک ہے کیا۔۔۔؟! تمھیں ماسک اتارنے کے لئے کس نے کہا تھا۔؟!‘‘
ندھی جذباتی ہو کر بولی،
’’آپ میری چھوڑئیے اور چل کر میری مما کو دیکھئیے۔۔۔ پلیز ڈاکٹر۔‘‘
ڈاکٹر تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا اس کی ماں کے بیڈ کے پاس پہنچا اور اچھی طرح سے چیک اپ کرنے کے بعد ندھی کو دلاسا دیتے ہوئے بولا،
’’آئی۔ ایم۔ سوری۔ آپ کی ماں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘
ندھی حیرانگی سے بولی،
’’دنیا میں نہیں رہی۔۔۔؟! نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میری مما مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ انھیں صرف سانس لینے میں دقت آ رہی تھی نا۔۔۔ میں اپنی سانسوں سے مما کی سانسوں کو ٹھیک کروں گی۔‘‘
کہتے ہوئے وہ اپنی ماں کے چہرے کی طرف لپکی۔ ایک نرس نے اسے پکڑ کر دور دھکیل دیا۔ وہ فرش پر گر گئی۔ ڈاکٹر غصے سے بولا،
’’کیا ہو گیا ہے تمھیں۔۔۔ کچھ عقل ہے۔۔۔ تمھاری ماں کرونا سے مری ہے۔ اسے ٹچ کر کے کیا تم نے بھی اب بیمار ہونا ہے۔۔۔؟!‘‘
ڈاکٹر کا اشارہ پا کر دونوں وارڈ بوائے لاش اُٹھا کر لے گئے تھے۔ ندھی فرش پر بیٹھی پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے روئے جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ ٹھگی سی اُٹھی برتن اُٹھا کر تھکے قدموں سے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ویٹنگ روم میں پہنچی۔ سامنے دیوار پر ایل ای ڈی چل رہی تھی۔ ویٹنگ روم میں بیٹھے لوگوں میں سے کچھ ایل ای ڈی کی طرف دیکھ رہے تھے تو کچھ آپس میں باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ اچانک ندھی کی نظر ایل ای ڈی پر پڑی۔ جس پر ایک منتری جی بول رہے تھے۔ منتری جی کی باتیں سن کر ندھی کے اندر انگارے سلگنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ آگ بگولہ ہو گئی۔ اس کے اندر کا لاوا پھوٹا اور وہ زور سے چیخی۔
’’جھوٹ بولتا ہے حرامزادہ۔‘‘
لوگ اس کی طرف حیرانگی سے دیکھنے لگے کہ لڑکی کو اچانک کیا ہو گیا۔ ندھی نے برتنوں والا تھیلا زور سے ایل ای ڈی کی طرف دے مارا۔۔۔ منتری جی جو کہہ رہے تھے۔
’’ہمارے پاس آکسیجن کی کوئی کمی نہیں۔ آکسیجن نا ہونے کا جھوٹا پرچار کرکے اپوزیشن پارٹیاں صرف اور صرف ہماری سرکار کو بدنام کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ میں آپ کو وشواش دلاتا ہوں۔ ہماری سرکار کی طرف سے کووڈ کے مریضوں کو آکسیجن کی بالکل بھی کمی نہیں آنے دی جا رہی ہے۔ آپ چاہیں تو ہسپتالوں میں جا کر چیک کر سکتے ہیں۔۔۔‘‘
اب خاموش ہو گئے تھے۔ کیونکہ اہل ای ڈی ٹوٹ چکی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.