Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لب گور

صائمہ ارم

لب گور

صائمہ ارم

MORE BYصائمہ ارم

    نچلے اور نچلے متوسط طبقے کی معدوم ہوتی لکیر پہ بسے اس محلے کے باسیوں میں صبح سویرے ہی ہاہاکار مچ گئی۔ محلے کی عورتیں ایک دوسری کو یہ خبر سنانے کے لیے اتنی بےصبر ہو رہی تھیں کہ اپنے مردوں کی گھروں سے رخصتی کا انتظار کرنے کی روادار بھی نہیں تھیں۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ رات بھر کے باسی بستر لپیٹے بغیر اور ٹھنڈا چولھا چھوڑ، تھڑے پر جا پہنچے۔ شاید اسی لیے آج اچھو پہلوان کی دکان پر رش بھی بڑھ گیا تھا۔ دودھ دہی کی دکان پر روزانہ کے خریدار اور لسی پیڑے کے ساتھ نان کلچے کے شوقین چٹورے، بڑے بڑے لقمے لیتے، زوردار ڈکار مارتے، ڈھیلی قمیض کو پیٹ کے گھیر پر پھیلاکر جسم کوادھر ادھر سے کھجاتے اور ہر پھر کر وہی بات کرتے چلے جاتے تھے۔ دکان کے باہر سڑک پر رکھی میل بھرے نقش و نگار والی پلاسٹک کی کرسیاں بھرتی جا رہی تھیں۔ جو ایک مرتبہ دکان پر آیا، واپس جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ دھندے کا یہ رخ دیکھ کر اچھو نے گھر سے موڑھے اور پھر پیڑھے بھی منگوا لیے تھے۔ چھوٹا بلا بھاگ بھاگ کر لسی، نان، چھولے ہر ایک تک پہنچا رہا تھا۔ آج وہ بھی زیادہ مستعد تھا۔ بکری زیادہ ہوتی تو اسے کمیشن زیادہ ملتا۔ سنیما میں کترینہ کی نئی فلم لگی تھی۔ اس کے بیلی کب کے یہ فلم دیکھ آئے تھے اور روز اس کو فلم کے منظر سنا سنا کر جلاتے تھے۔ کتنے دنوں سے وہ چاہتا تھا کہ سنیما دیکھ آئے پر ابّے کو اس کی روزانہ آمدنی کا خوب حساب رہتا تھا پائی پائی وصول کر لیتا۔ آج کی کمائی تو میں غائب کر لوں گا۔ بلا جی جان سے گاہکوں کی خدمت میں مگن تھا۔

    اکبر بھی آیا تو اس نیت کے ساتھ تھا کہ صرف پائے لے کر واپس چلا جائےگا، گھر میں رات کے بچے اُبلے چاول رکھے تھے، ناشتے کے کچھ پیسے بچ جاتے۔ پائے کا سالن اور ابلے چاول یوں بھی اسے پسند تھے، حالانکہ اس کی ماں اکثر کہا کرتی تھی، صبح صبح چاول نہ کھایا کر۔ پیٹ میں درد ہوگا۔ لیکن جب بھی رات کو چاول ابالے جاتے، وہ صبح پائے کا سالن ضرور خریدتا۔ ماں کو مرے تو عرصہ ہو گیا تھا۔ مرنے سے پہلے اس کے پیٹ میں شدید درد اٹھا تھا۔ ڈاکٹر کہتا تھا کہ وقت پر آپریشن ہو جاتا تو شاید اماں بچ جاتی۔ پر اماں کو بھی پتا تھا کہ اس کا سو روپے روز کی ہوائی روزی کمانے والا پتّر آپریشن کہاں کراتا پھرےگا۔ ایک روز اس نے اکبر کے کام پر جانے کا انتظار کیا اورجب وہ واپس آیا تو پتا چلا کہ اماں پیٹ کے درد سے مر گئی۔ اماں تو صبح صبح چاول نہیں کھاتی تھی، پھر وہ کیسے مر گئی؟ ان دنوں وہ اکثر ایسا ہی سوچا کرتا تھا۔ مائیں تو سب پتروں سے پیارکرتی ہی ہیں۔ اس کی ماں کو بھی اس سے بہت پیار تھا۔ پہلوٹھی کا لڑکا تھا اور پھر خو بصورت بھی۔ اماں کے بہت ارمان تھے۔ اسے بابو دیکھنا چاہتی تھی، من چاہی بہو لانا چاہتی تھی۔ بابو تو وہ اسے نہ بنا سکی غریب کا لڑکا، پڑھتا بھی تو کتنا پڑھتا اور کہاں پڑھتا۔

    گھر کے قریب کارپوریشن کے سکول میں، جس کی سرخ چونا پھری اینٹوں کی عمارت نے اسے لال سکول کا مقبول عام نام دے دیا تھا، بڑے چاؤ سے داخل کرایا گیا تھا۔ سکول میں لہک لہک کر الف مد آ اور اے فار ایپل، بی فار بیٹ پڑھتے ہوے تو اسے دقت نہیں ہوئی۔ مسئلہ تو تب شروع ہوا جب اس کے ماسٹر نے اسے آدھی چھٹی کے وقت اپنی ٹانگیں دبانے کو کہا۔ نیم تاریک کمرے میں، کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی پر اوندھے لیٹے ہوے، ماسٹر نے اس اپنی رانوں پر چڑھ جانے کو کہا تھا۔ چل وے کا کا، ذرا دو ٹانگوں پہ چڑھ جا۔ ہولے ہولیچتڑوں تک آ اور پھر پیر کی تلی تک واپس جا۔ ماسٹر کی موٹی موٹی ٹانگیں اس کے ننھے ننھے پیروں تلے ذرا سا دب جاتیں۔ اس کے قدم جمانے کو وہاں بڑی جگہ تھی۔ آدھ گھنٹے کے بعد ماسٹر نے اسے آٹھ آنے دیے اور شاباشی دے کے رخصت کر دیا۔ وہ کمرے سے نکلا تو ذرا سی دیر کو اس کی آنکھیں برآمدے کی تیز روشنی میں چندھیا سی گئیں اور اس سے پہلے کہ اسے کچھ ٹھیک سے نظر آتا، کسی نے اسے زور سے دھکا دیا۔ وہ سنبھلتے سنبھلتے بھی زمین پر جا گرا تھا۔ حرامی، کنجر، اب فسٹ بھی آئےگا! دو تین لڑکے اسے ٹھڈے مار رہے تھیاور وہ زور زور سے چیخ رہا تھا۔ کون ہے؟ کون ہے حرامی، اپنی ماں کا یار؟ ماسٹر کی دہاڑ بلند ہونے میں شاید دو تین منٹ لگے ہوں گے لیکن اتنی دیر میں وہ لڑکے اسے مار پیٹ کر بھاگ چکے تھے۔ اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا اور یونیفار م کی قمیص پھٹ گئی تھی۔ آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے کچے برآمدے کی مٹی کے ساتھ مل کر اس کے چہرے پر گہری لکیریں کھینچ دی تھیں اور وہ ایک دم اپنی عمر سے کئی برس بڑا لگنے لگا تھا۔ ماسٹر نے اس کی طرف دیکھا تو ایک ٹھنڈا سایہ سا اس کے چہرے پر آیا۔ چل تیرا منھ دھلا دوں۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور صحن میں لگے نل کی طرف چلا کہ اکبر نے ایک زوردار چیخ ماری اور اپنا ہاتھ چھڑا، گھر کی طرف بھاگتا چلا گیا۔ ماسٹر کی دی ہوئی اٹھنی بھی وہیں کہیں گر گئی تھی۔ بعد میں بڑی پچھ پرتیت ہوئی، ابا بھی سکول گیا، ماسٹر نے بھی ان لڑکوں کا پتا چلا لیا اور ابّے کے سامنے ان کو ننگا کر کے، الٹا لٹا کر، پانچ پانچ چھتر بھی لگائے۔ اماں نے بھی بہت دلار کیا، سکول جانے کے لیے طرح طرح کے لالچ دیے۔ اس کی پسندیدہ مٹھائی منگوائی حالانکہ پہلے دن جب وہ مار کھا کے گھر گیا تھا تو سب سے پہلے اماں نے ہی کہا تھا کہ اب وہ اسے سکول نہیں بھیجےگی پر وہ دوبارہ سکول نہ گیا سو نہ گیا۔

    کئی مہینے ادھر ادھر پھرنے کے بعد اماں نے اپنی ایک سہیلی کے مشورے پر اسے دو گلی چھوڑ کر ایک ٹیوشن سینٹر میں ڈال دیا، جہاں کی استانی روز اسے سبق بھی دیتی تھی اور سارا سودا بھی اسی سے منگواتی تھی۔ اکبر کو یہ انتظام پسند تھا۔ استانی سبق یاد نہ کرنے پر مارتی بھی نہیں تھی اور اکثر تو اسے یاد ہی نہ رہتاکہ سبق تھا کیا۔ ایسے موقعوں پر اکبر اسے وہی سنا دیتا جو اسے یاد ہوتا اور شاباشی بھی وصول کر لیتا۔ باہر دکانوں پر جانا اور رنگ رنگ کا سودا لانا بھی اسے پسند تھا۔ اب تو استانی عورتوں والی خاص چیزیں بھی اسی سے منگوانے لگی تھی۔ نیچے کے کپڑے، اور بال اڑانے کا پاؤڈر۔ اماں کو پیسے تو سکول سے دگنے دینے پڑتے پر اکبر کو روز بستہ اٹھا کر، خوشی خوشی استانی کے گھر جاتا دیکھتی تو اس کی کمر میں ایک سیدھا پن پیدا ہو جاتا۔ پورے محلے میں وہ استانی کی تعریفیں کرتی پھرتی تھی، جس نے اس کے سکول سے بھاگے لڑکے کو پھر پڑھائی پر لگا لیا تھا۔ گھر میں جب کوئی سوغات بنتی، یعنی جب کبھی پاس کے کھیتوں سے تازہ ساگ چن کے لایا جاتا، درانتی سے کتر کرسارا دن، لکڑیوں کے چولھے پر رکھی مٹی کی ہانڈی میں، نمک مرچ اور باتھو ڈال کر پکایا جاتا اور پھر اماں کے مضبوط ہاتھ آدھی رات تک اسے گھوٹتے رہتے، یہاں تک کہ وہ ریشم کی طرح ملائم ہو جائے، تو اگلی صبح اماں مہینے بھر دودھ سے اتار کر جمع کی ہوئی بالائی کا دہی بناتی اور اسے بلو کر مکھن نکالتی، اور ساگ کو خالص مکھن کا تڑکا لگا، پیالہ بھر، استانی کو ضرور بھیجتی۔ ایسا ہی اگر چلتا رہتا تو اکبر ضرور پڑھ لکھ کر بابو بن جاتا، جیسا ا س کی ماں چاہتی تھی اور روز صبح صاف ستھرے کلف لگے کپڑے پہن کر دفتر جایا کرتا، لیکن ایک دن ابا، کسی کلف والے کی گاڑی کے نیچے آکر مر گیا۔ ابے کی میت ہسپتال سے گھر آئی تو محلے والوں نے ایمبولینس کے سامنے اکھٹے ہو کر بڑے نعرے لگائے۔ بڑا تھانیدار خود میت کے ساتھ آیا تھا اور جنازے تک ساتھ گیا تھا۔ اس نے تو پہلے دن کی روٹی بھی دینا چاہی پر نانے نے اسے روک دیا۔ جمائی کے مرنے پر پہلی روٹی، میکے والوں کی ہوتی ہے۔ نانے نے اپنی لاج بھی تو رکھنی تھی۔

    تیجے پر تھانیدار پھر آیا اور بڑی دیر تک بڑے مامے اور چھوٹے چاچے سے باتیں کرتا رہا تھا۔ اس کے جانے کے بعد چھوٹے چاچے نے اماں کو بتایا، اس کی سائیکل کی بریک خراب تھی اور وہ بغیر کوئی اشارہ دیے اچانک دائیں طرف مڑ گیا تھا اور اس کی سائیکل پر بتی بھی نہیں تھی۔ اب اس حادثے میں صاحب کا کیا قصور۔ انھوں نے تو ہارن بھی بجایا اور بریک بھی لگائی۔ ابے کی آ گئی تھی۔ اللہ کی کرنی میں کسی کا کیا دخل۔ صاحب بیچارے کو تو خود بہت افسوس ہے، اسی لیے تو اس نے اپنا ہرجانہ نہیں مانگا۔ اس کی گاڑی پر یہ بڑا ڈینٹ پڑ گیا اور سامنے کی بتی بھی ٹوٹ گئی۔ اچانک بریک لگانے سے اس کی گاڑی کے ٹائر بھی رگڑ کھا گئے ہیں۔ وہ بھی نئے لینے ہوں گے۔ کچھ بھی تو نہیں مانگا، اوپر سے راشن کا ذمہ بھی لے لیا ہے تیری پوری عدت تک۔ اماں ٹکر ٹکر اسے دیکھتی رہی اور پھر گھر میں چار مہینے کا راشن اور چھوٹے چاچے کی بیٹھک کے سامنے نئی موٹر سائیکل آ گئی۔ اماں کی عدت پوری ہوتے ہوتے، بڑے مامے نے بھی اپنے گھر کی چھت مرمت کرا لی تھی اور اماں سے کہا تھا کہ وہ بچوں کو لے کر نانے کے گھر آجائے۔ اماں نے انکار کر دیا۔

    اکبر کی امڈتی جوانی کو دیکھ کر اسے سہارا ہوتا تھا۔ پر اس کے پیچھے کی چھ اولادوں نے بالآخر اس سے استانی کا گھر چھڑوا دیا۔ ملازمت اسے ملتی نہ تھی اور مزدوری اس کے بس کی نہیں تھی۔ کئی مہینے دفتروں کے دھکے کھانے کے بعد، پہلی مرتبہ اس نے مزدوری کی۔ اینٹیں ڈھو ڈھو کر اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے اور پورے بدن کے پٹھیاکڑ کر انھی اینٹوں کی طرح سخت ہو گئے تھے۔ ٹھیکیدار سے مزدوری کے پیسے لینے کے بعدجب وہ ادھ بنے نیم تاریک کمرے میں لگے نل پر منھ دھونے آیا تو اس نے نل کے ساتھ لگے لوہے کے پائپ پر ٹنگے، چٹخے ہوے شیشے کے ٹکڑے میں اپنی شکل دیکھی چہرے پر مٹی، اور پسینہ بہنے سے بنی ہوئی لکیریں۔ اس نے زور سے چیخ ماری اور روتا ہوا گھر کی طرف بھاگ اٹھا۔ مزدوری کے پیسے بھی وہیں کہیں گر گئے تھے۔

    اس دن کے بعد سے کبھی اس نے مزدوری نہیں کی۔ اماں کی وجہ سے اس کے ایک محلے دار نے اسے اپنی دکان کے سامنے پھلوں کی ریڑھی لگانے کی اجازت دے دی تھی۔ وہ صبح صبح منڈی سے سوہنے اور تازہ پھل لے کر آتا، انھیں قرینے سے اپنی ریڑھی پر سجاتا اور دکان کے سامنے، ترپال کے سائے تلے، ریڑھی لگا لیتا۔ سارا دن پھل بیچتا اور منھ دھوتا رہتا تھا۔ وہ کمانے لگا تو اماں کو اپنی دوسری خواہش یاد آئی۔ چاچے کی روزی جوان ہو گئی تھی۔ بڑی سوہنی بھی تھی۔ گورا رنگ، بھورے لمبے بال، پتلی کمر، بارہ جماعتیں بھی پاس تھی۔ اماں نے اس کا رشتہ پکا کر دیا۔ روزی گھر آئی تو اکبر کو مولوی صاحب کی باتیں سچ لگنے لگی تھیں۔ وہ جنت کی باتیں کر تے تھے۔ حو ریں ایسی ہی ہوتی ہوں گی۔ اکبر کا دل چاہنے لگا تھا کہ وہ نمازیں پڑھے، پر ہر روز صبح صبح، فجر سے بھی پہلے، جب اس کا بدن اسے جگا دیتا تو وہ ساتھ سوئی روزی کے پنڈے پر ہاتھ پھیرتا۔ اس کا لمس پا کر روزی کی آنکھ بھی کھل جاتی اور وہ ایک ان کہے منصوبے کے تحت اٹھ کر بیٹھک کی طرف بڑھ جاتے، کہ ایک کمرے کے گھر میں اکثر کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ سویا ہی ہوتا تھا، صرف بیٹھک کے نا م پر بنا کمرہ ان کی خلوت کا رازداں ہو سکتا تھا۔ اس کی فجر روز قضا ہو جاتی اور وہ روز سوچتا کہ جب فجر ہی نہیں پڑھی تو باقی نمازیں پڑھنے کا کیا فائدہ اور جب اماں نے بیٹھک کو اس کا کمرہ بنا دیا تو جنت کے دروازے یوں بھی اس پر کھل گئے تھے۔ پر زیادہ دیر تک کھلے نہ رہ سکے تھے۔ بڑے لڑکے کی پیدائش پر بہت خوشی منائی گئی، اماں نے کئی بار نظر اتاری۔ پھر جوڑی ملانے کی خواہش ہوئی تو اوپر تلے تین لڑکیاں پیدا ہو گئیں۔ اماں کی خوشی بھی ماند پڑ گئی تھی اور خرچہ بھی بڑھ گیا تھا۔ اس نے رات دیر تک پھل بیچنے شروع کیے پر پورا نہیں پڑتا تھا۔ پھر ایک روز فجر سے پہلے جب اس نے روزی کے پنڈے پر ہاتھ پھیرا تو اسے پتا چلا کہ وہ ہولے ہولے سسک رہی ہے۔ وہ بے چین ہو گیا تھا اور اگلے ہفتے ہی اس نے ادھار لے کر اور اماں سے جھگڑا کر کے روزی کو ٹائپنگ کے سکول میں داخل کرا دیا۔ چھ مہینے کے اندر اندر روزی نے ٹائپنگ بھی سیکھ لی اور اسے نوکری بھی مل گئی۔ بچے پہلے بھی اماں کے پاس رہتے تھے اور اب بھی اماں ہی انھیں سنبھالتی تھی۔

    روزی خوش رہنے لگی تھی۔ روز نہا دھو کے تیار ہوتی تو اور بھی اچھی لگتی۔ اسے اپنے فیصلے پر غرور سا ہوتا۔ پھر ایک رات روزی کو اکبر سے بھی زیادہ دیر ہو گئی۔ وہ واپس آئی تو کسی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس نے مہینے بھر کی تنخواہ کے برابر پیسے اکبر کی ہتھیلی پر رکھ دیے تھے۔ آج کام زیادہ تھا۔ اوورٹائم لگایا ہے۔ اکبر چپ کا چپ رہ گیا اور اسے چپ دیکھ کر اماں بھی خاموش ہو گئی تھیں۔ اماں کی یہ خاموشی اس وقت بھی نہ ٹوٹی جب روزی ہر روز دیر سے آنے لگی۔ پھر ایک دن فجر سے پہلے جب اکبر نے اس کے پنڈے پر ہاتھ پھیرنا چاہا تو روزی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ وہ حیرت سے اٹھ کر بیٹھ گیا تھا اور بہت دن تک اسے یاد رہا کہ روزی نے کہا تھا، تمھارے بدن سے سڑے پھلوں کی بدبو آتی ہے۔ پہلے تو و ہ دن میں کئی بارصرف منھ دھوتا تھا، اب کئی بار نہانے بھی لگا پر سڑے پھلوں کی بدبو نے اس کا بدن نہ چھوڑا۔ ہاں روزی اسے چھوڑ گئی اسے بھی، بچوں کو بھی اور چاچے کو بھی۔

    اماں کی موت کے بعد سےآج کی خبر سننے تک اسے لگتا تھا کہ اب اسے کبھی حیرت ہوگی نہ افسوس، پر ایسی خبر تو زندگی بھر کسی نے سنی نہ ہو گی۔ توبہ توبہ، کیسا زمانہ آ گیا!بےاختیار اکبر بھی وہیں بیٹھ گیا تھا۔

    لو! اللہ معاف کرے۔ ہر بندے کو اپنی اخیر یاد رکھنی چاہیے۔ جیدے نے تو حد ہی کر دی۔ لو، بھلا کوئی یوں بھی کر سکتا ہے۔ جیدے نے نہیں مرنا؟وہ بیمار نہیں ہو سکتا؟ اگر کوئی اس کے ساتھ ایسا کر دے تو؟

    شوکت زور زور سے اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے ہوے اونچا اونچا کہہ رہا تھا۔ کرسیوں، پیڑھوں اور موڑھوں سے ذرا ہٹ کر، دکان کے بنے پر اپنے آپ کو بمشکل ٹکا کے تقریباً اکڑوں بیٹھے پیٹر نے شوربہ سڑکتے ہوئے سر کو ذرا سا اٹھا کر شوکت کے ہاتھوں کی طرف دیکھا، اور دل ہی دل میں ایک دفعہ پھر اس کی بہادری کا معترف ہوگیا۔ کیا بات ہے ملک صاحب کی۔ ہاتھوں پر ابھی تک نشان ہیں، پھر بھی ان کو کتنا درد ہے اس خبر کا۔ اپنی تکلیف کا تو احساس ہی نہیں رہا۔ اسے ایک مہینے پہلے کا واقعہ پھر یاد آ گیا تھا۔ شوکت نے اپنے گھر کے ساتھ بنے کچے احاطے میں طرح طرح کے کیمیکلز، مٹی کے تیل اور پٹرول کے ڈرم رکھے ہوئے تھے۔ جب ایک روز کسی نے تالا توڑ کر پٹرول کا چھوٹا پیپا اٹھا لیا تو اسی احاطے میں بنے ایک کچے پکے سے کمرے میں پیٹر کو بھی جگہ مل گئی تھی۔ وہ دن بھراپنی ریہڑی میں محلے بھر کا کوڑا اٹھاتا اور گلیوں میں جھاڑو دیتا رہتا تھا، اور رات کو اس کمرے میں آ کر سو جاتا۔ برسات کے دنوں میں گٹر بند ہو جاتے تو اس کی مانگ اور کمائی بڑھ جاتی۔ پیٹر کا کرایہ بچ جاتا تھا اور احاطے کی چوکیداری بھی ہو جاتی تھی۔ محلے والوں کو شوکت کے اس ذخیرے سے بہت فائدہ ہوتا تھا۔ جب بھی پٹرول کی قیمت بڑھتی اور بازار سے پٹرول غائب ہو جاتا تو اس مشکل وقت میں شوکت ہی سب کے کام آتا تھا۔ نئے نرخ سے تو وہ ایک پائی کم نہ کرتا تھا لیکن کم سے کم محلے والوں کو، یا ان کی سفارش پران کی جان پہچان کے لوگوں کو، پٹرول دینے سے انکار بھی نہ کرتا۔ اور ایسے موقعے تو اب اکثر آنے لگے تھے۔ خود پیٹر نے کئی مرتبہ اس سے پٹرول لے کر دگنے داموں بیچ دیا تھا۔ ان دنوں پٹرول کے نرخوں میں لمبے اضافے کی خبر تھی۔

    تبھی ایک صبح شوکت نے احاطے میں مال اتروایا تو پیٹر نے بھی اس کی مدد کی تھی۔ کھوتے ریہڑی والے نے بھی چار پھیرے لگا لیے۔ مال سے پورا احاطہ بھر گیا تو کچھ پیپے اس نے اپنے پکے گھر کی بیٹھک میں بھی اتروا لیے۔ آخری چکر میں وہ تھک گیا۔ خود شوکت کا بھی برا حال تھا۔ اس نے پیٹر کو اندر چائے کا کہنے بھیجا اور خود وہیں کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ سلگا لی تھی۔ ابھی پیٹر پوری طرح کمرے سے نکلا بھی نہیں تھا کہ شوکت کے چلّانے کی آواز آئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو خوف سے اس کی ٹانگیں بیجان ہوگئیں اور وہ ایک جھٹکے سے دہلیز کے پار، گلی میں جا گرا۔ اس سے تو چیخا بھی نہیں گیا تھا۔ شوکت کی کرسی کے بالکل قریب رکھا مٹی کے تیل کا پیپا دھڑادھڑ جل رہا تھا۔ دائرے میں ناچتے وحشی آگ کے موٹے شعلے سرخ سرخ یا پیلے یاشاید نارنجی، پیٹر کو کچھ پتا چل رہا تھا نہ اس کو رنگوں کے اتنے نام آتے تھے؛ ہاں شعلوں کے اوپر پل بھر میں جمع ہو جانے والے سیاہ، گاڑھے، دم گھونٹ دینے والے دھویں کے رنگ کو وہ خوب پہچان گیا تھا۔ اپنی پوری کھلی آنکھوں سے اسی دھویں میں اسے شوکت دکھائی دیا تھا دونوں ہاتھوں میں ٹین کا جلتا ہوا پیپا اٹھائے، چہرہ لپٹوں سے دور رکھنے کی کوشش میں ذرا سا دائیں طرف گھمائے ہوئے، سانس روک کر آنکھیں ذرا ذرا سی میچے باہر کی طرف بھاگتا ہوا۔ بیٹھک کی دہلیز پار کرتے ہی شوکت نے پیپا پورے زور سے گلی میں لڑھکادیا تھا۔ آگ کے شعلے گلی میں دور دور تک پھیل گئے لیکن پٹرول کے دوسرے ڈرم بچ گئے تھے۔ پھر اتنی دیر میں گلی کے سوئے جاگے باسی بھی پوری طرح بیدار ہو گئے۔ شور تو بہت مچا لیکن آگ کو مچنے سے روک لیا گیا تھا۔ بعد میں کئی روز تک اس محلے میں باتیں ہوتی رہیں، کچھ لوگوں نے دبی دبی آواز میں ممکنہ نقصانات کا ذکر کرنے کی بھی کوشش کی تھی، لیکن شوکت کے جل کر سوکھے کیلے کی طرح پھٹ جانے والے ہاتھوں اورسب سے اونچے، دس مرلے کے ٹائل لگے تین منزلہ گھر نے ایسی آوازوں کو بلند ہونے سے روک دیا اور گونج رہ گئی تو شوکت کی بہادری کے قصے کی۔

    پیٹر کو وہ گاڑھا دھواں یاد آیا تو اس نے ایک دم زور سے سانس کھینچا اسے یاد ہی نہیں رہا کہ اس کے منھ میں شوربے کا ایک بڑا گھونٹ بھی ہے۔ اسے اچھو لگ گیا، وہ کھانستے کھانستے بے حال ہو گیا لیکن اس وقت کوئی بھی اس کی کھانسی کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا۔ آخر وہ اٹھا، ہا تھوں کی اوک بنا کرسرکاری نل سے پانی پیا، قمیص کے میلے دامن سے آنکھیں اور ناک پونچھی اور بنے پر ذرا سا ٹک کر دھیان سے شوکت کی بات سننے لگا۔

    اس دن، اس دن جب میرے گھر آگ لگی تھی، اس دن تو یہ جیدا بڑا اچھل رہا تھا۔ میرے دونوں ہاتھ جل گئے، اس نے پوچھا تک نہیں۔ اپنے بھائی ہی کو روئے جا رہا تھا، مادر چود۔ اگر میں اس دن وہ پیپا اٹھا کے گلی میں نہ پھینکتا تو پورا محلہ مارا گیا ہوتا۔ اس وقت میرا ہی حوصلہ تھا۔ باقی سب کی تو مت ماری گئی تھی۔

    ہاں، یہ بات تو ٹھیک ہے۔ میری تو واقعی ماری گئی تھی، پیٹر نے پھر سوچا۔

    اب اس کے بھائی پر دو چار چھینٹے پڑ گئے تھے تو کیا ہو گیا تھا؟ میں نے کوئی جان بوجھ کے پھینکا تھا جلتا ہوا تیل؟ اس نے بھی تو اس کی منجی بیچ گلی میں رکھ دی تھی۔ اتنا ہی درد تھا بھائی کا تو رکھتا نا اپنے گھر کے اندر! یاد ہے چاچا، پورے دس ہزار دیے تھے میں نے۔ قصور تھا کوئی میرا؟ پھر بھی دیے تھے اور کیا کہتا تھا تب؟بھائی کا گوشت بیچنے والا نہیں ہوں میں! یہ موت کا دھندا بند کراؤں گا۔ واہ! بڑا آیا دھندا بند کرانے والا۔ پھر پکڑ لیے پیسے۔ آپ نے ہی تو پکڑائے تھے چاچا۔ کتنا احسان جماتا تھا کہ ہاں چھوڑ دیا، محلے داری ہے۔ یاد ہے، یاد ہے نا؟ چوتیا سالا! اب دیکھوجو کِیا ہے اپنے بھائی کے ساتھ! شوکت مسلسل چاچے نور محمد کو گواہ بنائے جا رہا تھا۔ چاچے نورے کے ساتھ، اکبر، پیٹر اور دوسرے سننے والوں کو بھی لگا کہ دو چار چھینٹے ہی تھے، پوری ٹانگ کی کھال تھوڑا ہی اتر گئی تھی۔ یہ بھی نہ پڑتے اگر شیدا اپنی ٹانگ پرے کھینچ لیتا یا منجی سے اٹھ کر بھا گ ہی جاتا۔ اب شوکت تو اس کے فالج کا ذمہ دار نہیں تھا نا۔

    ہاہ ہا۔۔۔ چاچے نور محمد نے اپنا پٹکا سر سے اتار کر ہولے سے جھاڑا، سدا کی نم گدلی آنکھوں کو دھیرے سے پونچھ کر منظر کی دھند صاف کرنا چاہی اور ناکام ہو کر پٹکا پھر دوہرا کر کے سر پر رکھ لیا۔ بھائی بھائی دے ویری ہوندے، تے بھائی بھائی دیاں بانہواں۔۔۔ ایک وقت تھا پتر، سگے رشتے تو کیا، یاری میں لوگ جان دے دیتے تھے۔ جیدے شیدے کا باپ بڑا یار تھا میرا۔ نکے نکے، میرے ہاتھوں کے پلے ہیں دونوں۔ کیا بتاؤں، کتنا دل کڑھتا ہے میرا۔ نذیر سے بڑی دوستی تھی میری۔ اکھٹے نکلے تھے بچھیکی سے۔ جوانی کا جوش تھا، ڈولوں میں سختی تھی، نوا نوا ویاہ ہوا تھا، ہم دونوں کا۔ ماسی روکتی رہی، میری زنانی پلا سر پہ لیتی رہی، آپا چوڑیاں کھنکھاتی رہی، پر ہم دونوں پٹھوں نے لاہور کی گڈی پکڑی اور سٹیشن پر آکر ہی دم لیا تھا۔ چاچے نور محمد نے اپنے بازو کو دیکھا جس کی کمزوری سفید ڈھیلے کرتے میں نمایاں ہو رہی تھی۔ نصف صدی سے بھی پہلے کے قصے یاد کرتے کرتے اس کی آنکھوں میں سچ مچ آنسو بھر آئے اور وہ پھر پٹکا اتار، آنکھوں پہ رکھ، سسکنے لگا۔

    ایک لمحے کے لیے ماحول میں ایک نامانوس سی خاموشی چھا گئی، جیسے بھاگتی ہوئی ریل گاڑی سٹیشن سے پہلے ہی کہیں اجاڑ میں اچانک رک جائے۔ شوکت کو کچھ بےچینی سی ہوئی۔ زمانہ تو اب بھی نہیں بدلا چاچا، اب بھی رشتے ناطے نبھاتے ہیں لوگ۔ یاد نہیں، جب تیری ٹانگ ٹوٹی تھی تو کتنی خدمت کی تھی تیری بہو نے تیری؟ کھلاتی پلاتی تھی، اٹھاتی بٹھاتی تھی۔ چاچی بیچاری تو خود محتاج تھی اس وقت۔ اس جیدے کنجر کی طرح کا تو کوئی نہیں ہوتا نا۔ تیری بہو عورت ہو کر تیری خدمت کرتی رہی۔ اس کنجر نے اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا اپنے سگے بھائی کو۔ شوکت نے پھر سب حاضرین کو اہم ترین معاملے کی طرف متوجہ کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔

    منیر ے تیلی کو بھی یاد آ گیا کہ سارا دن شیدا گلی کی دھوپ میں سڑتا رہتا تھا۔ ہاں ملک صاحب، خود تو وہ دفتر چلا جاتا تھا اور منجی مکان کے شیڈ تلے پڑی رہتی تھی۔ وہاں تو آٹھ بجے ہی دھوپ آ جاتی ہے۔ کئی اوقات تو میں نے خدا خوفی کی، اسے کھینچ کر ادھر ادھر کر دیا۔ پر ملک جی، توبہ توبہ!اتنی بو آتی تھی اس میں سے۔ نِمانا اوپر ہی وڈا چھوٹا پیشاب کرتا رہتا تھا نکل جاتا ہوگا نمانے کا۔ کوئی صاف بھی نہیں کرتا تھا۔ جیدا تو ایک دفعہ سویرے اور ایک دفعہ رات کو منجی پہ بیٹھ کے بھائی کو چمچے بھر بھر دلیہ کھلا دیتا تھا۔ اور بس، سمجھتا تھا کہ فرض پورا ہو گیا۔ اب جو چیز اندر گئی ہو، وہ باہر تو آئےگی نا۔ اس کا کوئی دھیان نہیں۔ میں نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ اس نے بھائی کو صاف کیا ہو، نہلایا دھلایا ہو۔ روٹی پانی کھلانے جب بیٹھتا تھا پاس، تو اسے بھی بو تو آتی ہوگی؟ بےرحمی سرکار، بےرحمی۔ ایک دن تو میں نے پیٹر کو پیسے دیے، اس نے کنستر بھر بھر کر پانی ڈالا، اسے الٹا پلٹا کر دھویا، منجی بھی ساتھ ہی دھو دی تھی۔ بڑی ہمت کی پیٹر نے! توبہ، اللہ معاف کرے، گلی میں کپڑے تو نہیں اتارے جا سکتے تھے نا، پھر بھی شلوار اٹھاکر اور قمیص اتار کر دھو ہی دیا نمانے کو۔ اتنے بڑے بڑے زخم بنے تھے اس کی کمر پر، پیپ پڑ گئی تھی۔ میں نے جیدے کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ زخموں پہ لگانے والی کوئی دوائی ہی دے دے، اس کی زنانی نے تو جی دروازہ ہی نہیں کھولا۔ میں نے تو تبھی فیصلہ کر لیا تھا جی کہ جب اس کے گھر والوں کو پروا نہیں تو میرا کیا مامے کا پتر ہے؟ پھر نہیں پلٹ کر دیکھا جی میں نے۔ روز بڑا جی کڑھتا تھا، اس کے پاس سے گزرتے ہوئے۔

    چل چپ کر منیرے، کسی کی ماں، بہن کا نام نہیں لیتے چوک میں۔ عزتیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ جیدے کی زنانی کے ذکر پر اکبر کے چہرے کے بگڑتے زاویوں کو شوکت نے بھانپ لیا تھا، اس لیے بروقت ٹوک دیا۔

    ہاں جی، ویسے بھی ذمہ داری تو جیدے کی تھی۔ اپنے گھر کو بھی اس نے ہی سنبھالنا تھا۔ مرد کی پکڑ بھاری ہو تو زنانی کی کیا مجال جو ہاتھ سے نکل جائے۔ منیرے تیلی نے اپنی طرف سے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی اور اکبر کا وہاں بیٹھنا نا ممکن کر دیا۔

    تو بھی نا، کھوتے کا کھر ہی رہے گا ساری عمر!تیل نکالتے نکالتے تیرے دماغ کا بھی تیل نکل گیا ہے۔ اکبر کے اٹھ جانے پر شوکت کو افسوس ہوا خوامخواہ ایک اچھا سامع کم ہو گیا تھا، اس لیے اس نے منیرے تیلی کی گدی پر ایک زوردار ہاتھ جمایا۔

    منیرے تیلی کی زبان سے اپنا نام سن کر پیٹر چونک سا گیا تھا اور بنے سے اٹھ کر، شوکت کے قریب، زمین پر متوقع سے انداز میں بیٹھ گیا تھا۔ بات کا رخ بدلتا دیکھ کر اسے مایوسی سی ہوئی۔ سوکھے سوکھے چتڑوں کے نیچے رکھی اینٹ پر اس نے پہلو بدلا اور ذرا سا کھنکھارا۔ بلی کے ایک چھوٹے، مریل سے بچے نے سہمے سہمے انداز میں چچوڑی، زمین پر پھینکی ہڈیوں کی خوشبو سونگھتے ہوے، میز کے نیچے گھسنے کی کوشش کی تو شوکت کی پنڈلی سے ہلکا سا چھو گیا۔ اپنی لٹھے کی کڑ کڑاتی شلوار کے پائینچے پہ اجنبی سرسراہٹ محسوس کر کے شوکت نے بے اختیار پاؤں پیچھے کیا اور سرسراہٹ کی وجہ تلاشنے کے لیے نظر گھمائی۔ اس کی نظر کے محیط کو پہلے اس کے پیٹ کے عرض نے اور پھر پیٹر کے مدقوق چہرے نے مختصر کر دیا اور اکبر کی روانگی کا افسوس کچھ ماند سا پڑ گیا۔ شوکت سے نظر ملتے ہی پیٹر نے لنڈے سے خریدے بھورے سوتی پاجامے کا پائینچہ ذرا سا اٹھا کر ٹانگ کو کھجانا شروع کیا اور دھیرے سے بولا، وہ ملک جی، بُوٹے سے جب بات کی تھی میں نے۔۔۔

    ہاں، ہاں! شوکت کو سارا قصہ یاد آگیا۔ پیٹر نے اپنے برادری بھائی سے بات کرائی تھی میری۔ منشی ہسپتال والے اٹھا کے لے گئے شیدے کو۔ پر وہاں بھی اپنی حرامزدگی سے باز نہیں تھا آیایہ جیدا۔ پتہ ہی غلط لکھو ادیا۔ ایک دو دن تو جاتا رہا وہاں، پھر بھاگ گیا۔ بوٹے بیچارے کی تو سختی آ گئی، اس نے بڑے ڈاکٹر کے سامنے ذمہ داری لی تھی۔ بھاگا بھاگا آیا میرے پاس۔ میں اور پیٹر جا کے لے آئے اسے۔۔۔

    ملک چاچا، بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے! منظور کوچوان کے نوجوان لڑکے ارسلان کو بھی اپنا دکھڑا یاد آ گیا تھا، اس نے اپنے جوش میں شوکت کی بات کاٹ دی اور شوکت کی پیشانی پہ پڑے بل کو بالکل نہ دیکھا۔ اس دن جب میری ٹیم کے لڑکے کھیل رہے تھے گلی میں، میں نے شاٹ ماری تو گیند چاچے شیدے کو جا لگی۔ توبہ، اتنا رولا ڈالا شام کو چاچے جیدے نے! ابے کے پاس پہنچ گیا شکایت لے کے۔ میں نے بھی ابے سے کہا کہ اب ہم کہاں کھیلیں؟ ہر گلی کی اپنی ٹیم ہے، کوئی نہیں کھیلنے دیتا اپنی گلی میں۔ نا جی نا، نہ مانا۔ بس لڑتا رہا کہ کہاں لے جاؤں بابے کو؟ گھر میں جگہ نہیں، پرائیویٹ ہسپتا ل کا پیسہ نہیں، سرکاری داخل نہیں کرتے، اور گلی والے کچھ خیال نہیں کر رہے۔ اس کا پیٹنا دیکھ کے ابے نے پابندی لگا دی کہ کوئی گلی میں نہ کھیلے۔ بس اتوار کی اتوار مون مارکیٹ کی سڑکوں پرجا کے کھیلتے رہے ہم۔ پریکٹس نہیں کی پورا مہینہ۔ کوئی میچ نہیں جیتا ہم نے۔

    حوصلہ کاکے، حوصلہ! شوکت نے دوبارہ بات شروع کی تو لہجہ خاصا تیز تھا۔ جب بڑے بات کر رہے ہوں تو بیچ میں نہیں بولتے۔ بات ختم کرتے کرتے شوکت کی آواز ذرا مدھم پڑ گئی۔ اس نے عرصے بعد ارسلان کو اتنے غور سے دیکھا تھا سیدھا تنا ہوا جسم، سانولا رنگ، جوانی کی سرخی سے ذرا تمتمایا ہوا، آنکھوں میں ایک بےباک چمک، اور کچھ کر گزرنے کو بے تاب ہاتھ۔

    معاف کر دو ملک جی۔ لونٹھے کا لونٹھا ہو گیا پر عقل ابھی گٹوں میں ہے جی۔ چل وے ارسلان، سلام کر سب کو اور گھر جا، تجھے کالج سے دیر ہو رہی ہے!منظور جہاں دیدہ تھا، فوراً بول اٹھا۔ ارسلان نے ایک شکایتی سی نظر باپ پر ڈالی، کچھ کہنے کو منھ کھولا، پھر موڑھے سے اٹھ کر شوکت کو خصوصی اور باقی سب کو عمومی سلام کر کے نکلتا چلا گیا۔ شوکت کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی اسے جاتا ہوا دیکھتے رہے۔

    ہاہ۔۔۔ کیا ٹور ہے اس جوان کی!ایک وقت تھا، ہم بھی ایسے ہی چلا کرتے تھے، چاچے نور محمد کو پھر گزرا زمانہ یاد آیا۔

    بس دعا کریں چاچا، یہ بھی آپ کے تنویر کی طرح سعادت مند اور کماؤ نکلے۔ میرا بڑھاپا بھی سنور جائے، منظور کو چوان نے موقع غنیمت جان کر سب کی توجہ ارسلان سے پھیر دی۔ وہ بڑا وہمی تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو بھی سختی سے منع کر رکھا تھا کہ کسی سے ارسلان کی پڑھائی بارے بات نہ کرے۔ پچھلے مہینے جب ارسلان کو وظیفہ ملا تو اس نے محلے میں مٹھائی بانٹی نہ بیوی کو گھر میں میلاد کرانے دیا۔ اس بات پر میاں بیوی میں خوب چخ چخ ہوئی تھی۔ بیوی نے تو غصے میں کہہ دیا تھا، تو وہابی ہو گیا ہے۔ میلاد نہ کرایا تو اگلا وظیفہ نہیں ملے گا۔ منظور نے یہ طعنہ بھی برداشت کر لیا۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ جب ارسلان کو بڑی نوکری ملےگی تو وہ بڑا میلاد کراےگا اور چھوٹے گوشت کی چار دیگیں اتارےگا۔ پھر دیکھیں گے کون اسے وہابی کہتا ہے! اور اسی دن وہ اپنا ٹانگہ گھوڑا بھی بیچ دےگا۔

    ویسے بھی اب شہر میں ٹانگوں کا رواج ہی کہاں رہا تھا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی اہلکار اسے ٹکر جاتا۔ گھوڑے کی لید کا جرمانہ اسے بھرنا پڑ جاتا تھا اور اس روز اس کی آدھی کمائی گندگی میں نکل جاتی۔ اس مصیبت سے بچنے کے لیے اس نے گھوڑے کی دم کے نیچے چوکور کپڑا بھی باندھا، مزید احتیاط کے لیے اسے دوہرا بھی کر دیا، پر پیشاب کا تو کوئی حل اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اوپر سے سواری بھی نہیں ملتی تھی۔ جب سے موٹر سائیکل رکشوں کا رواج ہوا تھا، اس کے ٹانگے کی ٹخ ٹخ سب کو بری لگنے لگی تھی۔ خدا جانے یہ شیطانی سواری کس نے نکالی تھی۔ نوجوان لونڈے تھوڑے بہت پیسے اکھٹے کر کے موٹر سائیکل خرید لیتے، پھر لوہار سے لوہے کا ایک بڑا سا چوکھٹا بنوا کر آگے پیچھے تین تین سواریوں والی سیٹیں بنوا کر مکینک سے اس کے نیچے دو چھوٹے ٹائر لگوا لیتے۔ موٹر سائیکل آگے، چوکھٹا پیچھے، ایک دو سواری کی جگہ موٹر سائیکل کی گدی پر بھی نکل آتی۔ بس پھر زوم زوم کرتے، دھواں چھوڑتے، ادھر ادھر مست ناگ کی طرح لہراتے اس کے قریب سے یوں نکلتے جاتے کہ وہ تو وہ، اس کا گھوڑا بھی سہم جاتا اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیتا۔ ایک آدھ دفعہ تو وہ بالکل ہی الف ہو گیا۔ رکشوں کی تیزی سے گھبرائے جو دوچار بوڑھے اس کے ٹانگے میں بیٹھ جاتے تھے، اس واقعے کے بعدوہ بھی چالو ہو گئے۔ ایک اور ستم میونسپلٹی نے کیا۔ شہر کی بڑی سڑکوں پر ٹانگوں کا داخلہ ہی بند کر دیا گیا تھا۔ بحکم سرکار، اس تیز رفتاری کے دور میںآہستہ خرامی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پھر ایک اور افتاد آئی۔ ایک دن دو آدمی اس کے دروازے پرچاک سے کچھ لکھ گئے۔ وہ شام کو واپس آیا تو ارسلان نے بتایا کہ میونسپلٹی والوں کا نوٹس ہے۔ اسی وقت اس نے شوکت ملک کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ ملک صاحب نے کمال مہربانی کی اور اگلے دن اس کے ساتھ میونسپلٹی کے دفتر چلے گئے۔ وہاں پہنچ کے پتا چلا کہ اس نے شہری رہا ئشی علاقے میں مویشی پال رکھے ہیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال بھی نہیں کرتا، جو شہری قانون کے تحت قا بل تعزیر جرم ہے، جس کی سزا بیس ہزار روپے جرمانہ، اور جانور کی ضبطی ہے۔ منظور تو جرم کا لفظ سن کر ہی گھبرا گیا تھا۔ اس نے مدد طلب نظروں سے شوکت کی طرف دیکھا تھا۔ شوکت نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے باہر جانے کا اشارہ کیا۔ پھر کوئی تین گھنٹے تک منظور دفتر کے چک لگے دروازے کے سامنے بیٹھا، نائب قاصد کو بوتلیں، چائے کی پیالیاں اور سموسوں کی پلیٹیں اند رلے جاتے دیکھتا رہا۔ شوکت کی طرح کے کئی اندر رہے اور اس جیسے کئی باہر۔ شوکت باہر آیا تو منظور لپک کر اس کے سامنے آیا تھا۔ چل بھئی چل!اسی کے ٹانگے میں بیٹھ کر شوکت محلے میں واپس پہنچا اور اسے بتایا کہ کام ہو گیا ہے۔ اب وہ دروازے سے نشان صاف کر دے۔

    بھئی، اس افسر نے تو میرا بڑا حیا کیا۔ یہ جب تک ہیتب تک تو میرا ذمہ، اگر بدل گیا تو تیری قسمت!

    میری قسمت تو جی آپ کے جوتوں کی طرح کالی ہے، منظور آہستہ سے بولا تھا۔ شوکت نے آدھا جملہ سنا اور جان لیا کہ اب وہ اپنی اگلی بات بھی کہہ سکتا ہے۔

    بھائی، تو محلے دار ہے، تو نے تو میری مدد نہیں کی تھی، پر میں تو محلے داری کی شرم رکھتا ہوں نا۔

    منظور بھی شاید اسی جملے کا منتظر تھا۔ نہ نہ ملک جی، میری کیا مجال!اس وقت بھی میں نے آپ کو بتایا تھا، ارسلان کے پکے پرچے ہو رہے تھے۔ اب وہ فارغ ہے۔ کل سے آپ کا حساب دیکھنے آ جائےگا، آپ کا اپنا بچہ ہے جی۔

    ہنہ، اب ضرورت تو نہیں ہے، پر تم بھیج دینا، کچھ سیکھ لےگا حساب کتاب۔ سرکاری سکولوں میں تو کچھ پڑھایا نہیں جاتا، شوکت نے ایک فتح مندانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا اور اگلے تین مہینے باپ کی مددکے بدلے ارسلان شوکت کے سودی کاروبارکا حساب دیکھتا رہا تھا۔

    کاکا سنبھالنے والا بھی ہونا چاہیے۔ میں نے اور نذیر نے اکھٹے شیدے اور تنویر کو بھیجا تھا کویت۔ تنویر مکینکی جانتا تھا چنگی طرح۔ وہی پتا کر کے آیا تھا سرکاری ویزے کا۔ ایجنٹ کو بھی اسی نے پکڑا تھا۔ تیری دونوں چاچیاں روتی تھیں کہ پہلے آپ پنڈ چھوڑ کے آئے، اب منڈوں کو دیس نکالا دے رہے ہو۔ ہاہ۔۔۔ کیا زمانہ تھا! آدھا محلہ خالی ہو گیا تھا۔ دستکار، ڈرائیور، مکینک بس جس کے ہاتھ میں کوئی بھی ہنر تھا، نکل گیا وہ باہر۔ تھیلے بھر بھر کے سامان لاتے تھے واپس۔ تنویر بتاتا تھا، وہاں مل کے رہتے تھے۔ جو پردیسی ہونے کا دکھ ہوتا تھا نا، وہ بھی دور ہو جاتا تھا۔ ان کے کفیل بھی ان سے خوش تھے۔ بڑی دعوتیں ہوتی تھیں ہماری۔ جس کو بھی پتا چلتا کہ منڈے باہر گئے ہیں، وہ آگے پیچھے پھرنے لگتا۔ کتنی لڑکے تھے جان پہچان والے، جن کو تنویر نے بلوا لیا۔ اپنے پاس ٹھہرایا بھی۔ مجھے اور تیری چاچی کو تین بار حج بھی کرایا۔ وہ تو جب فراڈ شروع ہوے تو میں نے تنویر کو روک دیا۔ ایسے ہی نیکی گلے نہ پڑ جائے۔

    شوکت کو یاد آیا۔ چاچا، تیرے پتر نے تو کما یاہی ہے نا! اس شیدے نے تو گھر بار بھی نہیں بنایا۔ چاچے نذیر کی زندگی میں ایک دو بار جب آیا تو سب نے کتنا کہا تھا کہ ویاہ کر لے۔ تب تو اسے ہیرا منڈی کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔ کہتا تھا، جب بازار سے دودھ ملتا ہے تو گھر میں بھینس کیوں باندھوں؟ تنویر بھی تو اسی لیے پیچھے ہٹ گیا تھا نا۔ سنا ہے، وہاں بھی اس نے کوئی راستہ ڈھونڈھ لیا تھا، شیخوں کے تلوے چاٹ کر۔

    اسلامی ملک میں ایسا نہیں ہو سکتا ملک صاحب، خورشید ابھی ابھی سبزی منڈی سے واپس آکر، ناشتہ کرنے وہاں پہنچا تھا۔ اس نے شوکت کی بات سے اختلاف کیا۔

    او تجھے کیا پتا! سڑے بینگنوں کے کیڑے گھس گئے ہیں تیرے دماغ میں۔ تو بس بیٹھا موٹی مرچیں بیچا کر۔ تو کبھی گیا ہے وہاں؟شوکت نے اس انداز میں کہا کہ جیسے وہ ہر مہینے کسی نہ کسی اسلامی ملک کو فتح کر کے آتا ہو۔ اس کے بے ہنگم قہقہے سے اس کا پیٹ بھی ہنسنے لگا اور اس کے ہنستے پیٹ کے احترام میں سب حاضرین نے بھی ایک فرمائشی قہقہہ لگایا۔

    نہ جی! خورشید اپنے سڑے بینگنوں کے کیڑوں میں مست تھا۔ شیدے نے بھی بڑا کمایا تھا جی۔ اتنا کمایا تھا کہ میرا تو اپنا جی چاہنے لگا تھا کویت جانے کو۔ مسلمانوں کا جلوہ دیکھ کے خوشی ہوتی تھی۔ کیسے چنگے مسلمان ہیں، اپنے بھائیوں کی کیسی مدد کرتے ہیں، کتنا پیسہ ہے ان کے پاس! پھر میں نے سوچا کہ ہم سب اکھٹے ہو جائیں گے۔ اسی مٹی سے سونا مل جائےگا ہمیں بھی۔ پردیس جانے کی کیا ضرورت۔ ایسا ہو بھی جاتا۔۔۔ ہاہ ہائے! لعنت ہو امریکہ پر!وہ جب لڑا دیا عراق کو کویت سے۔۔۔ وہ کیا نام تھا جی عراقی بادشاہ کا؟ خورشید نے نام یاد کرنے کی کوشش کی، پھر مداخلت کے لمحے کو قریب آتا دیکھ کرکوشش ترک کردی۔ بڑا تگڑا بادشاہ تھا جی۔ اکڑ کے کھڑا ہو گیا جی امریکہ کے سامنے۔ سازش کر دی جی انھوں نے۔

    کوئی تگڑا وگڑا نہیں تھا۔۔۔ پٹھو تھا پٹھو! اچھو پہلوان کو خاصی تپ چڑھی تھی خورشید کی بات پر۔ اس کے دہی بلوتے ہاتھ رک گئے تھے اور وہ اتنی دیر میں پہلی مرتبہ اس معاملے میں بولا تھا، ورنہ ابھی تک تو اس کی زبان بلّے کو حکم دینے میں ہی متحرک رہی تھی۔ پہلے سارا بارود لیا امریکہ سے۔ پھر اپنے ہی مسلمان بھائیوں پہ چلا دیا! اچھو اپنی گدی پر ہل ہل کے کہنے لگا۔

    امریکہ نے دیا تو لیا نا اور چنگا کیا کیوں نہ لیتا؟ ان کو انھی کے داؤ سے مارا اس نے۔ کچھ نہیں کر سکے ماں کے یار، تو بھائی کو بھائی کے سامنے لے آئے۔ یہ انگریز سالے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ یہاں بھی تو گوروں نے یہی کیا تھا۔ خورشید کو عراقی بادشاہ کے خلاف کچھ سننا گوارا نہیں تھا۔

    تیل کی لڑائی تھی ساری، تیل کی! اچھو بھی ہار ماننے والا نہیں تھا۔ وہ جیسے خم ٹھونک کر اکھاڑے میں اتر آیا تھا۔ امریکہ کو تیل چاہیے تھا اور کیا! تیرے بادشاہ کو بانس پہ چڑھا کے پہلے ایران کی گانڈ میں دیا۔ اس کا اپنا تیل نکل آیا تو کویتیوں کی چوت میں گھسیڑ دیا۔

    چپ کر بے! خورشید کا پارہ چڑھ گیا تھا۔ زبان کو لگام دے۔ تیرے گھر سے لے کے گیا تھا تیل؟اس کا اپنا تھا، جس کو چاہے دے، جس سے چاہے لے۔

    اوئے، اوئے، کیا بکواس کر رہے ہو! آپس میں لڑنے کی کیا بات ہے؟ شوکت کی موجودگی میں کوئی اتنی زور سے بولے، اس سے اس کی مردانگی کو ٹھیس پہنچتی تھی، سو دہاڑ کر بولا۔

    شوکت کی شہ پاکر سبھی منصف بننے لگے تھے۔ قدیر مستری خشک ہاتھوں کی پھٹی لکیر وں پہ نظریں جما کر بولا، خورشیدے، تجھے پتا بھی ہے پہلوان کی کمزوری کا۔ کیوں چھیڑتا ہے پھر؟ کبھی سوچا کیا بیتتی ہے اس پہ گلابے کو دیکھ کے؟ ہاہ، ایسا سوہنا جوان، پر انکھیاں لے گیا خسرہ۔

    قدیر مستری کی بات سن کر خورشید کی نظر جھک گئی۔ اسے یاد آیا کہ اچھو پہلوان کا غصہ بجا تھا۔ اوپر تلے کی چھ لڑکیوں کے بعد جب اللہ نے ساتویں مرتبہ امید دلائی تو شاہ صاحب کی ہدایت پر اچھو نے زیارت کی منت مان لی تھی۔ مزید احتیاط کی خاطر یہ بھی مان لیا کہ معصومین کے مزار پر جا کر دعا کرےگا اور چادر چڑھائےگا۔ مولا کا کرم ہوا اور اسے بیٹے کا منھ نصیب ہوا گول مٹول، لال گالوں والا۔ بڑے چاؤ سے اس کا نام گلاب علی رکھا تھا۔ اس کی بیوی نے اسے امام حسین کا فقیر بنایا۔ مانگے تانگے کے کپڑے اسے پہناتی تھی۔ اچھو کو ان دنوں سواے کربلا نجف کے کچھ نہیں سوجھتا تھا۔ اس نے سوچ لیا کہ زیارتوں پہ جائےگا اور حج کر کے واپس آئےگا۔ غلامانِ علی کے قافلے میں جگہ بھی پکی کرا لی۔ اپنی اکلوتی بھوری بیچ کر سفر کے لیے پیسے بھی اکھٹے کر لیے۔ بس بی بی پاک دامناں پہ آخری سلام باقی تھا کہ عراق، ایران جنگ چھڑ گئی۔ ویزے بند ہو گئے اور نہ بھی ہوتے تو اب وہاں جانے کی کوئی صورت نہ رہی تھی۔ وہ انتظار کرتا رہا، کرتا رہا۔ سارا سارا دن بیٹری والا ریڈیو، جس پر پہلے وہ نور جہاں کے گانے سنتا تھا، کان سے لگائے رہتا، سکول کے لڑکوں سے اخبار پڑھواتا اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ خبریں، تجزیے اور کالم سنتا جن میں جنگ کے بارے کوئی بات ہوتی۔ جمع جتھا ختم ہونے لگا، روٹی کے لالے پڑ گئے، پر وہ زادِ راہ کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا تھا۔ دوبارہ بھوری خریدتانہ دکان کھولتا۔ پھر علی کا گلاب مرجھانے لگا۔ اسے ایک دن زور کا بخار آیا اور اگلے دن پورا جسم چھوٹے چھوٹے سفید پانی بھرے دانوں سے بھر گیا۔ چھوٹے سے حلق میں، آنکھوں کے اندر، کانوں میں، کہاں نہیں تھے دانے۔ ماں لے کر حکیم کی طرف بھاگی، پھر بڑے ڈاکٹر کی طرف۔ اور جب اجل کے سائے ننھے بدن کو سیاہ کرنے لگے تو زاد راہ کو ہاتھ لگ ہی گیا۔ اس دن اچھو چوک میں رویا تھا۔ اپنا لمبا چوڑا بھاری بدن، زمین پر پھینک پھینک کر رویا۔ کون تھا محلے میں اس کی ٹکر کا کہ اسے سنبھال لے، وہ بھی ایسی دکھ کی حالت میں۔ بس روتا رہا، روتا رہا، پھر خود ہی اٹھ کر شاہ صاحب کے دروازے پر پہنچا اور فریاد کی کہ منت پوری نہ ہونے میں اس کا کیا گناہ، مولا جانتے ہیں کہ وہ تیار تھا، تو شاہ صاحب نے تسلی دی کہ مولا اس کی نیت کو جانتے ہیں۔ نیت قبول ہوئی، اس کے گلاب علی کی جان بچ جائے گی، ہاں جو کفارہ بھی آئے اس کو صبر سے بھگت لے۔ اچھو وہاں سے اٹھا تو اسے پتا چلا کہ اس کا بچہ بچ گیا ہے ہاں، نہ پوری ہوئی منت اس کی آنکھیں لے گئی ہے۔

    واقعہ ایسا نہ تھا کہ آسانی سے بھلایا جا سکے۔ چوک کی فضا افسردہ سی ہو گئی۔ شوکت کو کچھ خیال ہوا۔ چل اوبلے، آج ذرا، سب کو اَدھ رِڑکا پلا، میری طرف سے۔ اس نے فیاضی کا مظاہرہ کیا اور بڑھتا ہوا جھگڑا، اور بعد کی اداسی دہی کے کونڈے میں جم کے رہ گئے۔

    میں تو جی، شیدے کی بات کر رہا تھا۔ حالات معمول پر آئے تو خورشید کو، شوکت کی موجودگی میں، اپنا جوش گستاخی سا لگا۔ شیدا پرانا یار ہے جی، لنگوٹیا۔ کویت سے اکیلا نکلا تھا، بس جان بچا کے۔ سڑکوں سڑکیں سفر کرتا ہوا، خجل خراب ہوتا ہوا، پندرہ، بیس دنوں میں پہنچا تھا یہاں۔ ایسا خالی ہاتھ بھی نہیں تھا جی، وہ تو جی اپنے ہی لوگوں نے لوٹ لیا اسے۔ جب اس نے یہاں پلاٹ خریدے تھے، جعلی پلاٹ بیچ دئے بیچارے کو۔ آپ تو جانتے ہیں جی۔۔۔

    خورشید کو ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بھیانک غلطی کرنے جا رہا ہے۔ شوکت نے بر وقت اسے ٹوک دیا، اتنا درد ہے اس کا تو کچھ کرتا کیوں نہیں؟ کم سے کم جیدے کو تو سمجھا۔

    میں کیسے سمجھاؤں جی، میری کون سنتا ہے؟اسے اللہ سمجھائے تو سمجھائے۔

    خورشید نے اپنے بھولپن میں شوکت کو نئی راہ سجھا دی تھی۔ اس سے پہلے کہ سب کو یاد آ جا ئے کہ شیدے کو جعلی، کئی کئی بار کے بکے ہوے پلاٹ لے کے دینے والا اور دیوانی مقدموں میں الجھانے والاشوکت تھا، اس راہ کاسوجھ جانا بڑی کارآمد بات تھی۔

    سورج بھی ان کی باتیں سننے کے لیے منڈیروں پہ چڑھ آیا تھا اور اس کی تیز کرنیں دھوپ کو سرکاتی ہوئی ان کے سروں تک پہنچ گئی تھیں۔ اچھو کی دکان کے چھجے سے ٹنگی ترپال ان کا راستہ روکنے میں ناکام ہو رہی تھی۔ اٹھ جانے کے لیے اب مناسب ترین وقت تھا۔ کم از کم شوکت کو یہی احساس ہوا۔

    میرا خیال ہے سجنو، یہاں بیٹھے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک جان کا سوال ہے۔ ہم ایسے تو اس معاملے کو نہیں چھوڑ سکتے۔ چلو اللہ کے گھر چلتے ہیں، مولانا صاحب سے بات کرتے ہیں۔ وہ ضرور کوئی سبیل نکالیں گے، شوکت نے تقریر کرنے کے انداز میں کہا اور کسی کے سوچنے سمجھنے سے پہلے اٹھ کر چاچے نور محمد کا بازو تھام لیا۔ ان دونوں کو اٹھتا دیکھ کر باقی بھی دھیما دھیما بسم اللہ، اللہ اکبر کہتے، دکھتے گھٹنوں پہ ہتھیلی کا زور دے کر اٹھنے لگے۔

    اکبر اچھو پہلوان کی دکان سے منیرے تیلی کی زبان کا گھاؤ لے کر نکلا تو اس کی حالت کسی اناڑی کی سی ہو رہی تھی جس نے پہلی مرتبہ دم لگایا ہو۔ راستے لمبے ہوتے جا رہے تھے اور اسے لگ رہا تھا کہ شاید وہ ماں کے پیٹ سے پیدل چلتا ہوا نکلا تھا اور قبر تک یوں ہی چلتا رہےگا۔ اس کے دماغ میں خیالات لکن میٹی کھیل رہے تھے، یا شاید پکڑن پکڑائی، یا پھر کبڈی۔۔۔ ایک خیال تیزی سے ہلا بولتا۔ ابھی وہ شعور کی لکیر پوری طرح پار نہیں کر پاتا تھا کہ ایک اور خیال کسی ماہر کھلاڑی کی طرح پورے زور سے ابھر کر پہلے خیال کی کمر کو چھو لیتا اور پھر دونوں میں زور آزمائی ہونے لگتی۔ اتنے میں ایک اور خیال جا نے کہاں سے آ ٹپکتا اور دونوں الجھے ہوے کھلاڑیوں کو ٹھینگا دکھاتے ہوے لکیر کی دوسری طرف جا نکلتا تھا۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ اسے چاچے شیدے کا فالج سے ٹیڑھا چہرہ یاد آ رہا تھا، جسے ہر روز گلی سے گزرتے ہوے نہ دیکھنے کی شعوری کاوش میں وہ کن انکھیوں سے دیکھتے ہوے بڑھتا چلا جاتا تھا چھوٹا سا، آنکھیں ہمیشہ مندی ہوئیں، منھ ہمیشہ کھلا ہوا، اور زبان ہمیشہ بائیں طرف کو نکلی ہوئی۔ جلی ہوئی سیاہ رنگت پہ سدا بڑھی ہوئی ڈاڑھی، جیسے چیونٹیوں کے سفید سفید انڈے۔ پھر یہ انڈے بڑھ کر پیٹ کے کیڑوں جیسے ہو جاتے، سفید، باریک، ذرا ذرا سر اٹھائے، نامحسوس طریقے سے ہلتے ہوتے۔ اسے خیال آیا کہ ایک دفعہ جب وہ مٹی بہت کھانے لگا تھا اور اس کا رنگ بھی پیلا پڑ گیا تو اماں نے اسے ڈسپنسر سے ایک سفید رنگ کی دوائی لا دی تھی۔ ابا نے اسے گود میں جکڑ کر اس کا ناک بند کیا۔ جب اس نے رونے کے لیے پورا منھ کھولا تو اماں نے جھٹ پوری دوائی کی شیشی اس کے منھ میں خالی کر دی تھی۔ اس دن اماں نے حاجت بھی اپنے سامنے کرائی تھی اور جب وہ فارغ ہو کے اٹھا تو اسے اپنی گندگی کی ڈھیری میں سفید سفید سے دھاگے نظر آئے۔ اس نے جھک کر غور سے دیکھا تو وہ دھاگے زندہ ہو گئے اور ان کے سرے بے چینی سے ہلنے لگے۔ وہ سخت ڈر گیا اور چیخیں مارتا ہوا اماں کی گود میں چھپ گیا تھا۔ اماں کا خیال آتے ہی اسے اپنا گھر یاد آیا اور بیٹھک کے نام پہ بنا کمرہ بھی جہاں ہر روز اس کی فجر قضا ہوتی تھی۔ فجر کا سوچتے سوچتے اسے روزی کی یاد آئی۔ روزی کا سفید پنڈا، بچوں کے بعد ذرا بڑھا ہوا پیٹ اور پیٹ کے دونوں طرف چرے ہوے ماس کے نشان۔ وہ ہر صبح روزی کی قمیص اتار کر ان نشانوں پہ ہاتھ پھیرتا، پھر آہستہ آہستہ اس کا ہاتھ روزی کی بھری چھاتیوں کی طرف اٹھتا چلا جاتا اور پھر چھاتیوں کے ابھار پر رکھے خشک، خفیہ طور پر رس بھرے، کالے پشاوری شہتوت۔۔۔ روزی کے بارے سوچتے سوچتے اس کا ہاتھ اپنی قمیص کے نیچے شلوار کے نیفے پر جا پہنچا تھااور وہ ناڑے کی گانٹھ پر انگوٹھا رکھے، دو انگلیوں سے شلوار کی سلوٹوں میں اپنے نیم خفتہ بدن کو سہلائے چلا جا رہا تھا۔ دو نو عمر لڑکے اس کے قریب سے گزرے اور ٹھٹھا مار کر ہنسے۔ وہ ایک دم چونکا اور شرم سے تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ پھر نہ جانے کیسے اس نے خود کو استانی جی کے جانے پہچانے گھر کے سامنے کھڑے پایا۔ سیمنٹ کی تین سیڑھیاں، بیچ میں بنی سپاٹ ڈھلان، اوپری زینے کے ساتھ لوہے کا زنگ آلود دروازہ جو ہمیشہ کی طرح کھلا تھا، دروازے کے پار لٹکتا ہوا کتھئی رنگ کا پردے نما کپڑا جو شاید کبھی عنابی رہا ہو۔۔۔ وہ سوچنے لگا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے اور اگر آ گیا ہے تو اب کیا کرے؟دستک دے یا چپ چاپ لوٹ جائے؟پردہ ہوا سے ہلا تو اس کی نظر استانی جی کے صحن میں پڑی۔ کئی عورتوں میں گھری استانی جی سامنے ہی بیٹھی تھیں۔ انھوں نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ واپس پلٹتا، اس نے دیکھا کہ استانی جی اپنی پلنگڑی سے اٹھ کر باہر آ رہی ہیں۔

    کیا حال ہے، اکبر پتر؟ بڑے دنوں بعد آیا ہے۔ آج ٹھیلا نہیں لگایا تو نے؟ ہمیشہ کی طرح استانی جی نے پردے کی اوٹ سے پوچھا تھا۔

    بس استانی جی، ادھر سے گزر رہا تھا، سوچا آپ کو سلام کر لوں، اس نے بھی ہمیشہ کا لگا بندھا جملہ دہرا دیا۔ چنگا کیا پتر، بڑا بیبا بچہ ہے تو۔ اللہ تجھے سلامت رکھے۔ ذرا سے ردوبدل کے ساتھ استانی جی کا جواب بھی معمول کے مطابق ہی تھا۔ اب اسے اللہ حافظ کہہ کے چلے جانا تھا، لیکن صبح سے کچھ بھی تو معمولی نہیں ہو رہا تھا وہ کھڑا رہا۔ استانی جی کے چہرے کی سلوٹ ذرا گہری ہو گئی۔ اچھا، بیٹھک کھلی ہے۔ تو بیٹھ جا!چند لمحے اس کے جانے کا انتظار کرنے کے بعد استانی جی نے کہا اور اندر کی طرف مڑ گئیں۔

    اکبر بیٹھک کے باہری دروازے سے اندر داخل ہوا۔ کمرے کے فرش پر بچھی دری پر تین چار لڑکے قاعدہ لیے بیٹھے، ایک ہی رِدم میں ہل ہل کر کچھ یاد کر رہے تھے۔ اکبر کے اندر داخل ہونے پر ان کا سُر تو مدھم ہوا لیکن جسم اور لبوں کی حرکت میں کچھ فرق نہیں آیا۔ کمرے کی دیوار کے ساتھ لگے، بغیر ہتھے کے، اسپرنگ والے پرانے صوفے پر بیٹھنے تک اکبر کو کوئی خبر نہ تھی کہ وہ استانی جی سے کیا بات کرےگا۔

    کاکا، جا ذرا، بھٹی کی دکان سے ایک ٹھنڈی بوتل تو پکڑ لا۔ میرا کہہ دینا، حساب میں لکھ لے گا۔ استانی جی نے بیٹھک میں آتے ہی سب سے چھوٹے لڑکے کو نکڑ کی دکان پہ چلتا کیا۔ اکبر کے رسمی انکار سے بھی پہلے لڑکا دہلیز پار کر چکا تھا۔ اب استانی جی اکبر کی طرف متوجہ ہوئیں۔

    آج بڑی رونق ہے گھر میں، اکبر نے بات شروع کرنے کی نیت سے کہا۔

    ہائے، اللہ بچائے ایسی رونقوں سے پتر!زنانیاں اکھٹی ہوئی ہیں۔ کہہ رہی ہیں، جیدے کے گھر جانا ہے۔ تو نے بھی تو خبر سنی ہوگی۔۔۔

    ہاں استانی جی، اچھو کی دکان سے سن کر آ رہا ہوں۔ اکبر کو چکر سا آنے لگا، بمشکل اس نے کہا تھا۔

    ہاں، ادھر بھی سویرے سے سب جمع ہو رہی ہیں۔ آپا رقیہ بھی آئی ہیں۔ سب کہتی ہیں کہ جا کے رفیعہ کو سمجھاتی ہیں، جیدے نے خیال نہیں کیا تو وہ ہی کچھ سوچ لے، جیٹھ بھی تو سسر سمان ہوتا ہے۔ پھر اس کے آگے تین تین بیٹیاں ہیں، بڑی بدنامی کی بات ہے پتر، پورا محلہ تھو تھو کر رہا ہے۔ ایسی سنگدل مشہور ہو گئی تو کون اپنے پتر کی بارات لے کر اس کے دروازے پر آئےگا؟ سب ڈر جائیں گے۔ کہیں گے، جیسی ماں ویسی بیٹی۔

    یہ تو چاچے کو سوچنا چاہیے تھا نا استانی جی۔ کہتے ہیں، مرد کی پکڑ۔۔۔ اکبر کے حلق میں منیرے تیلی کا جملہ اٹک گیا تھا۔

    نہ پتر، آپا رقیہ کو تو میں نے صاف کہہ دیا، میں رفیعہ سے کچھ نہیں کہوں گی۔ جب بھا شیدا بیمار ہوا تو اس نے بھا جیدے کی ناک میں دم کر دیا تھا۔ گھر میں نہیں رہنے دیتی تھی۔ ایک طرح تو بات اس کی بھی ٹھیک تھی۔ تم بتاؤ، ایک کمرہ آگے، ایک پیچھے، نہ کوئی صحن، نہ کمروں میں کوئی آڑ۔ بچیاں بھی جوان ہیں۔ بھا شیدے کا تو کچھ ڈھکا چھپا تھا نہیں۔ بڑی شرم کی بات تھی۔ اپنے گھر میں ہی قیدی بن کے رہ گئی تھیں سب۔ کون اٹھائے، کون دھلائے! آپا تو سمجھتی نہیں ہیں۔ میرے سر ہو رہی ہیں۔ کہتی ہیں، ولایتی کپڑے بھی تو رفیعہ ہی پہنتی رہی ہے اور کچھ نہیں تو پچھلے کمرے کی دوچھتی میں رکھی پیٹی کے جاپانی سامان کو دیکھ لے کس نے لا کے دیا تھا وہ سامان؟ محلے کی عورتیں بھی انھی کے ساتھ ہیں۔ دیکھو، کون بات کرے اور کیسے کرے۔ استانی جی نے اکبر کے ادھورے جملے کو گویا سنا ہی نہیں تھا۔ وہ اپنی پریشانی میں تھیں۔ اچھا پتر، تو بوتل پی، میں اندر جاتی ہوں۔ یہ مسئلہ ایسے حل ہونے والا نہیں۔ چھوٹے لڑکے کو بوتل پکڑے اندر آتے دیکھ کر استانی جی اٹھیں اور میزبانی کی رسم نبھا، محلیداری کا فریضہ ادا کرنے چل دیں۔ اکبر نے بوتل اسی لڑکے کے ہاتھ میں رہنے دی اور خود منیرے تیلی کے جملے کا سرا پکڑے پھر گلی میں نکل آیا۔

    شوکت کی سربراہی میں محلے داروں کا وفدچوک سے نکل کرگلی کے آدھ میں پہنچ چکا تھا، جب اپنے دھیان میں گم اکبر نے منیرے تیلی کو دیکھا۔ اب پلٹنے کا مطلب اپنی پکڑ کی کمزوری کا اعتراف کرنا تھا، اس لیے وہ آگے بڑھ کران میں شامل ہو گیا۔ شوکت نے اسے دیکھا ضرور اور ایک مطمئن سا ہوکا بھی بھرا، لیکن کہا کچھ نہیں۔ یوں بھی وہ جانتا تھا کہ زیادہ بولنا کمّیوں کا کام ہیجنھیں ہر بات کی صفائی پیش کرنے کی عادت ہوتی ہے؛چودھری تو بس آنکھ کے اشارے سے کام لیتا ہے اور اگر وہ بولنے پہ آ جائے تو پھر کوکتی کوئل بھی اپنے کالے پر سمیٹ کر آم کے بور میں چھپ جاتی ہے۔ اس نے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اپنی اٹھی مونچھ کو سہلایا۔ اب اس کے پاس مربعے نہیں تھے تو کیا ہوا۔ شہر کی تقریباً ہر نئی بستی میں اس کے پاس ایک دو خالی پلاٹ تھے۔ کچھ کچے پکے مکان بھی اس نے رشتیداروں کے نام سے لے رکھے تھیجن کا کرایہ ہر مہینے وہ سود پر ضرورت مندوں کو دے دیتا تھا۔ پھر علاقے کا ناظم اس کا پکا دوست تھا۔ پچھلے الیکشن میں سارے پیسے اسی نے تو لگائے تھے۔ ووٹروں کو پولنگ سٹیشن تک لانے کے لیے اس نے اس روز اپنی ساری گاڑیاں بھی منگوا لی تھیں جو دوسرے دنوں میں شہر اور شہر سے باہر کی سڑکوں پہ دوڑتی رہتی تھیں۔ اس کے پاس مربعوں سے زیادہ کچھ تھا۔ بیوی بچے بہت کہتے تھے کہ یہ محلہ چھوڑ کر امیروں کے کسی علاقے میں بسا جائے۔ اس کی بیوی کو کسی نے کہا تھا کہ اس علاقے میں بچوں کے اچھے رشتے ملنا نا ممکن ہے۔ شہروں میں لوگ گھر بار دیکھتے ہیں، علاقہ دیکھتے ہیں۔ ان کی ضد پر اس نے ڈیفنس میں دو دو کنال کا جوڑا پلاٹ لے کر ایک شاندار گھر بھی بنوا لیا تھا۔ اب وہ سب وہیں رہتے تھے۔ شوکت بھی کچھ عرصہ ادھر رہا، پھر اسے اپنا پرانا محلہ یاد آنے لگا تھا۔ وہاں جب وہ اپنے گیٹ سے باہر نکلتا تو چوکیدار کے سوا کسی کا ہاتھ اس کے سلام کو نہیں اٹھتا تھا، کوئی بڑھ کر اس کے پٹکے کی سلوٹ دور نہیں کرتا تھا اور وہ کسی کی گدی پر ہاتھ جما کر اسے ماں بہن کی گالی نہیں دے سکتا تھا۔ وہاں سب نو گزے ہوں نہ ہوں، لگتے ضرور تھے۔ وہ اپنے دس مرلے کے پکے ٹائل لگے تین منزلہ مکان میں واپس آگیا۔ ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ جا کر راشن پانی کا خرچہ بھی دے آتا اور بیوی بچوں سے بھی مل لیتا۔ بچے بھی مست، وہ بھی راضی۔ اس نے سر کے اشارے سے گویا اکبر کو وفدمیں شمولیت کی اجازت دے دی۔

    اچھو پہلوان کی دکان سے چلنے والا چھوٹا ساقافلہ، قبرستان کی باہری دیوار سے جڑ کے بنی مسجد یا حبیب اللہ تک پہنچتے پہنچتے، اچھا خاصا جلوس بن چکا تھا۔ شوکت چاچے نور محمد کا ہاتھ کب کا چھوڑ چکا تھا اور بالکل کسی سیاسی رہنما کی طرح، جو اپنے مخالف کو خفیہ طور پر مرعوب کرنے اور اپنی شان دکھانے، حواریوں سمیت اس کے علاقے میں بے دھڑک گھستا چلا آ رہا ہو، تیز تیز قدم اٹھاتا، مسجد کی طرف بڑھا جا تا تھا کسر تھی تو صرف یہ کہ اس کا سینہ پھولوں کے ہاروں سے چھپا ہوا نہیں تھا۔

    محلے میں شیدے کی خبر تو پھیل چکی تھی۔ چوک سے نکل کر، مسجد تک جاتے ہوئے، راستے میں جس کو بھی پتا چلاکہ مولانا صاحب کے پاس اس معاملے کے سلجھاؤ کی خاطر جایا جا رہا ہے، وہ ساتھ ہو لیا۔ گھروں کے باہری کمروں میں بنی چھوٹی چھوٹی کریانے کی دکانوں کے مالکوں میں سے بھی بعض نے اپنے بچوں میں سے کسی کو بلا، دکان پر بٹھایا اور خود دین و آخرت کی کامیابی کا نسخہ پانے جلوس میں شامل ہو گئے تھے۔ ایک دو گلیوں سے، کرکٹ کھیلنے میں مصروف چند لڑکوں کو بھی جوش آیا اور وہ بھی اپنے گیند بلے ہاتھ میں لیے یوں ساتھ ساتھ چلنے لگے جیسے مسجد کا نہیں، میدانِ جنگ کا ارادہ ہو۔

    مسجد والی گلی خاصی کھلی تھی۔ مرکزی بازار سے شروع ہو کر یہ گلی مسجد پرختم ہوتی تھی۔ یہیں سے ایک اور گلی نکلتی تھی، جس کے ایک طرف گھروں کی قطار اور دوسری جانب قبرستان کی دیوار تھی۔ یہ دوسری گلی تھوڑی دور جا کر مرکزی شاہراہ سے مل جاتی تھی۔ اس جلوس کی وجہ سے یہ کھلی گلی، کچھ تنگ تنگ دکھنے لگی۔ مرکزی شاہراہ سے مڑنے والے دو چار موٹرسائیکل سواروں کو جنازے کا بھی شائبہ ہوا اور انھوں نے احتراماً اپنی سواری کی رفتار کم کر لی، ایک آدھ تو سواری سے اتر کر کھڑا بھی ہو گیا، لیکن جب جلوس ان کے قریب سے گزرتا گیا اور اخیر میں کچھ کم رفتار بوڑھے رہ گئے اور کاندھوں پرکسی میت کی کوئی چارپائی نظر نہ آئی تو وہ مایوسی سے سر ہلاتے اپنی سواریوں کی رفتار یک دم بڑھا کر پیچھے رہ جانے آہستہ خرام بوڑھوں کی منتشر سی ٹولی کے بیچ میں سے نکلتے چلے گئے۔ مسجد کے اونچے، محرابی مرکزی دروازے تک پہنچتے ہوے شوکت کے تیز قدم کچھ دھیمے پڑ گئے۔ خورشید تیزی سے آگے بڑھا اور مسجد کے زینے چڑھ گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے بلا ٹیکتے ہوے دو لڑکے بھی اندر داخل ہوے۔

    السلام علیکم، خورشید نے آخری زینہ چڑھتے ہی بآوازِ بلند گویا شوکت کی آمد کی اطلاع دی۔ دروازے کے ساتھ کی دیوار میں جوتے رکھنے کا باقاعدہ انتظام موجود تھا لیکن مرکزی راستہ چھوٹی چھوٹی چپلوں، پھٹے پرانے بوٹوں اور ٹوٹے یا کئی بار کے گانٹھے ہوئے چمڑے کے کھسوں کی بیترتیب ڈھیریوں سے اٹا ہوا تھا۔ خورشید نے اپنی چپل اتار کر ہاتھ میں تھامی اور پاؤں سے ایک آدھ ڈھیری کو کھسکا کر شوکت کے کھڑے ہونے کی جگہ بنا دی۔ اسی اثنا میں شوکت بھی داخل ہوا تو خورشید نے لپک کر اس کے جوتے اتارنے میں اس کی مدد کی اور اس کے جوتے، اپنی چپلوں پر رکھ کر، بغل میں دبا لیے۔

    مسجد کے اندر کئی بچے دو رویہ قطاروں میں، شلوار قمیض پہنے، چوکڑی مارے، گود میں سپارہ اور سر پر ٹوپی رکھے، اونچے نیچے سروں میں مبہم الفاظ رٹ رہے تھے۔ انھوں نے اتنے بہت سے افراد کو اذان کے بغیر اندر آتے ہوئے دیکھا تو کچھ حیرت زدہ سے ہوے، لیکن ان کی رٹائی میں خلل نہیں آیا۔ بچوں کی پڑھائی پر کم اور نگرا نی پر زیادہ مامور نو جوان اٹھ کر تیزی سے ان کی طرف آیا اور بڑے احترام سے شوکت کا ہاتھ پکڑ کر مہمانوں کے حجرے کی طرف لے گیا۔

    شوکت کو کچھ مایوسی سی ہوئی۔ مولانا صاحب کے دیدار کب نصیب ہوں گے؟ معاملہ کچھ گمبھیر ہے، فوری توجہ کا طالب، حجرے میں پہنچنے سے بھی پہلے شوکت نے نوجوان سے پوچھ لیا۔

    آپ تشریف رکھیے۔ حضرت کو آپ کی آمد اور مسئلے، دونوں کی خبر ہے۔ مجھے آپ کی خدمت پر مامور کرنے کے بعد سے وہ اسی سلسلے میں مصروف ہیں۔ ابھی جلوہ افروز ہوتے ہیں، نوجوان نے، جس کی ابھی مسیں بھی پوری طرح نہیں بھیگی تھیں، نہایت بزرگانہ انداز میں شوکت کو جواب دیا اور واپسی کی اجازت چاہی۔

    شوکت نے آگے بڑھ کربیٹھنے کے لیے مناسب مقام کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ حجرہ کیا، اچھا خاصا ہال کمرہ تھا۔ چھت پر لاثانی کی شیٹوں کا آرائشی کام تھا اور مناسب روشنی کے انتظام سے کمرے میں مقدس روشنی پھیلی ہوئی تھی جس میں فرشی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ فرش پر خوبصورت، دیدہ زیب مخملی قالین بچھے تھے، جن پر مناسب فاصلے سے گاؤ تکیے اور دبیزکشن رکھے تھے۔ ایک طرف زمین سے قریب دو فٹ اونچا، سات فٹ چوڑا چبوترہ سا تھا، جس کی آرائش اور آسائش میں خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ شوکت کو بیٹھنے کے لیے مناسب مقام مل گیا۔ جیسے ہی شوکت چبوترے کے قالین پر بیٹھا، اس کے سب ساتھی بھی فرش پر بیٹھ گئے۔ زیادہ تر نے چبوترے کے قریب ترین جگہ پسند کی، البتہ چاچے نور محمد کو شوکت نے خود آواز دے کر اپنے ساتھ بٹھا لیا تھا، کہ آخر بزرگی کا بھی کچھ وقار ہوتا ہے۔

    کمرے کی دیواروں سے سیمنٹ کی مہک آرہی تھی، اور تازہ پلستر پر کیے رنگ روغن میں یوں تو ابھی نئے پن کی چمک باقی تھی لیکن کچھ اکھڑا ہوا سا محسوس ہوتا تھا جیسے پلستر کو مناسب وقت تک دھوپ نہ لگنے دی گئی ہو۔ یہ حجرہ نیا بنا ہے؟ منیرے تیلی نے خا صی اونچی آواز میں نہ جانے کس سے پوچھا۔ منیرا تیلی چھوٹی عید کے بعد پہلی مرتبہ مسجد آیا تھا، اور عید پر بھی اسے صحن میں جگہ ملی تھی۔ یہ تو شوکت صاحب کا ساتھ تھا جس کی وجہ سے ان میں سے اکثر کو پہلی مرتبہ مہمانوں کے حجرے کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔

    دو تین مہینے ہوئے ہیں، قدیر مستری نے خود کو منیرے کا نامعلوم مخاطب قرار دیتے ہوے جواب دیا۔ پھر ایک ثانیے کو خاموش ہو کر مدھم مگر واضح سرگوشی میں کہا، قبرستان کی دیوار توڑ کر مسجد کی توسیع کی گئی ہے۔

    قدیر مستری کی بات سن کر، گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے شوکت کو سردی سی محسوس ہوئی اور وہ یوں سیدھا ہوا کہ جیسے گاؤ تکیے سے نہیں، کسی کچی قبر کی ڈھیری سے ٹیک لگائے ہوئے ہو۔

    قبرستان بھی اللہ کا، مسجد بھی اللہ کی۔ یہ تو بہت اچھا ہوا ہے۔ خالی پڑی زمین پر سجدے ہوں، اس زمین کے تو بھاگ کھل گئے ہیں، ورنہ نہ جانے کس کس کی گلتی ہڈیاں یہاں ہوتیں، کیڑے کلبلاتے اور کن بد بختوں کے اعمال کا عذاب، ان کے ساتھ ساتھ یہ زمین بھی بھوگتی۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں، قبر میں جب کسی مردے پر عذاب آتا ہے تو دھرتی بھی کانپتی ہے۔۔۔ ان کی خاطر کے لیے بڑے سے تھال میں رکھے مٹی کے کٹوروں میں شربت لیے، اندر داخل ہوتے ہوے جوان مولوی نے بھی قدیر مستری کی بات سن لی تھی، اس لیے رعب دار لہجے میں جواب دیا۔

    ہاں جی ہاں، میں تو خود یہاں تھا جی جب قب۔۔۔ زمین صاف کی گئی تھی جی، گھبراہٹ کے باوجود قدیر نے پھسلتی زبان کو بر وقت قا بو کر لینے پر سکھ کا سانس لیا۔

    جوان نے مسکرا کر اسے دیکھا اور سب کو شربت کے کٹورے پیش کرنے لگا۔ ہاتھ میں نقرئی تھال تھا مے، سرخ شربت سے لبا لب شیشے کا نازک سا جگ اور چند گلاس لیے ایک اور جوان مولوی سیدھا چبوترے کی طرف گیا تھا، وہ تعظیماً ذرا سا جھکا اور شوکت کو شربت کا گلاس پیش کیا۔ شوکت نے گلاس لے کر پاس بیٹھے چاچے نور محمد کی طرف بڑھا دیا اور خود دوسرا گلاس اٹھا لیا۔ نوجوان مولوی نے جگ اور بقیہ گلاس چبوترے پر ان کے درمیان رکھ دییاور الٹے قدموں واپس ہونے لگا تو شوکت نے پوچھا، مولانا صاحب زیادہ مصروف ہیں کیا؟ ابھی تک دیدار کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔

    نوجوان مولوی نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے کہ اتنے میں حجرے کے داخلی دروازے پر ہلچل سی مچی۔ اطمینان سیپاؤں پسار کر بیٹھے محلے دار چوکنے ہو کر اپنی اپنی جگہ سے اٹھنے لگے۔ زیادہ تر نے اپنے ہاتھوں میں تھامے بھرے، ادھ بھرے کٹورے حجرے کی دیوار کی جڑ کے ساتھ، زمین پر رکھ دیے تھے اور دروازے کی طرف لپک گئے تھے۔ ہجوم کی وجہ سے جن کو دروازے پر جانے کا موقع نہ مل سکا وہ کچھ حسرت آمیز بےتابی سے، اچک اچک کر، لوگوں کے سروں کے اوپر سے، مولانا کی ایک جھلک کے متلاشی ہوے۔ شوکت نے دو تین بڑے بڑے گھونٹ لے کر گلاس خالی کیا اور اٹھ کر چبوترے سے نیچے اترا۔ قدیر مستری، جو چبوترے کے قریب کھڑا تھا اور جسے آگے جانے کا موقع نہیں ملا تھا، اس کی نظر چبوترے سے اترتے شوکت پر پڑی تو اس نے بڑھ کر اسے سہارا دیا اور اپنے آگے کھڑے دو تین لوگوں کے کاندھے پر تھپکیاں دے کے اور دو چار کو ادھر ادھر دھکیل کر شوکت کے گزرنے کے لیے جگہ بنائی۔ باقیوں کو بھی احساس سا ہوا اور مولانا صاحب اور شوکت کے درمیان ایک راستہ سا بن گیا۔ دست بوسی کے لیے بے تاب لوگوں کی طرف بزرگانہ پرشفقت بےنیازی سے ہاتھ بڑھاتے ہوے مولانا صاحب پُر تمکنت انداز میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے۔ تین نوجوان، خوبصورت لڑکے، سفید شلوار قمیص پہنے، شلواریں ٹخنوں سے اونچی کیے، سر پر پنج پلی ٹوپی اوڑھے، مولانا کو لوگوں کی زیادہ قربت سے پوشیدہ طور پر محفوظ رکھتے ان کے ہم قدم تھے۔ گوری، صحتمند، بھری ہوئی گول پنڈلیوں کو چھپانے میں قدرے ناکام مولانا صاحب کا لمبا، ڈھیلا لبادہ ان کے جسم پر بہت جچ رہا تھا۔ لبادے پر سیاہ عبا، جس پر سنہری زردوزی کی نازک سی بیل لشکارے مار رہی تھی؛کاندھوں پر سنہری رومال، جس کا ایک حصہ سر کو بھی ڈھانپے ہوے تھا اور رومال کے نیچے، سر پر بل والی نیچی سیاہ پگڑی؛ پگڑی سے نکلے، کندھوں کو چھوتے، مہندی سے رنگے سرخ بالوں کی لٹیں، اور اسی کی ہم رنگ، پیٹ کے بالائی ابھار تک دراز سرخ گھنگھریالی ڈاڑھی۔ شوکت مولانا صاحب سے کچھ مرعوب سا ہوا لیکن اس نے بر وقت خود کو یاد دلایا کہ اس وقت وہ سر پنچ کی حیثیت سے مسجد میں آیا ہے۔ اس کے بڑھتے قدم کچھ سست ہو گئے۔

    مولانا نے شوکت کو دیکھا تو گرمجوشی سے دونوں بانہیں پھیلا دیں۔ مرحبا مرحبا ملک صاحب۔ آپ تشریف لائے، کیا خوب!

    شوکت بڑھ کر مولانا سے بغل گیر ہوا۔ تین مرتبہ گالوں سے گال چھونے کے بعد وہ چبوترے کی طرف چلے گئے۔

    حضرت، بہت انتظار کرایا آپ نے!جب سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے اور پنچایت کا ماحول سا پیدا ہو گیا تو شوکت نے شکوہ کیا۔

    بس ملک صاحب، ہم معذرت خواہ ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں، ہم اشراق کے بعد کچھ وظائف میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ زندگی فانی ہیاور یہ بندہ بہت گنہگار۔ ساری عمر کے بعد اب احساس ہوا ہے۔ یہ بھی اسی کی توفیق ہے کہ آخری سانس سے پہلے دنیا کی ناپائیداری کھول دی اس مالک نے۔ آج صبح کی خبر نے ویسے بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔ سفاکی، اللہ، سفاکی!مولانا کی آواز بھرانے لگی۔ ایک خلیفے نے بڑھ کر ساتی رومال پیش کیا جسے مولانا نے آنکھوں پر لگا لیا۔ ایک آدھ لمحے کے بعد مولانا گویا ہوئے، اشراق کے وقت خبر ملی، اسی وقت خصوصی دعا اور وظائف کا اہتمام کرایا ہم نے۔ تب سے مدرسے کے سب بچے آیاتِ سکینہ کا ورد کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی استخارے کی خاطر خود کو گوشہ خاص میں بند کر لیا تھا۔ وظائف کے بعد سے اب تک حکم کے انتظار میں تھے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔

    مولانا بدستور محو گفتگو تھے۔ شوکت کو ان کی ڈاڑھی کے گھنگھریالے بالوں میں کوئی چیز چمکتی محسوس ہوئی، جیسے روٹی کے ذرے، لیکن وہ ایسے چکنائی زدہ نہیں ہوتے۔۔۔ شاید پراٹھے کا کوئی حصہ، ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے۔۔۔ شاید پوڑی کے ریزے وہ طے نہیں کر پایا تھا۔

    بس اسی میں دیر ہو گئی، ورنہ آپ کو انتظار کی زحمت دینا ہرگز منظور نہیں۔ مولانا صاحب دنیاداری ترک کر چکے ہیں۔ بس وہ خلیفہ جو دینی علوم میں بہت مہارت حاصل کر لیں، انہی کو منزل آخر تک پہنچانے کی کاوش میں لگے رہتے ہیں۔ اب تو آپ امامت بھی نہیں کراتے، صرف عیدین پر یا بڑے میلاد پر دیدار عام بخشتے ہیں، مولانا کے خاموش ہوتے ہی خلیفہ خاص نے مودبانہ انداز میں کہا۔ مولانا کو بہت دکھ تھا اس خبر کا۔ جب صبح کاکے نعمان نے ہمیں یہ خبر سنائی، ہماری فہم ناقص میں کچھ نہیں آیا، تو حضرت کا در کھٹکھٹایا۔ حضرت نے شرفِ بازیابی بخشا تو رخِ انور پہ نگاہ پڑتے ہی اندازہ ہو گیا کہ حضرت کو کشف ہو چکا ہے۔ آپ کا چہرہ مبارک متغیر تھا، لیکن آپ نے ہم سب کو صبر کی تلقین کی تھی۔

    ابھی آپ لوگوں کی تشریف آوری سے پہلے انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کی میزبانی کروں جب تک حضرت اللہ کے حکم کا انتظار کرتے ہیں، خلیفہ ثانی نے بھی اپنی رائے کا اظہار ضروری سمجھا تھا۔

    اس اثنا میں مولانا صاحب منقش یاقوت کی تسبیح پر نہ جانے کن آیات کا ورد کرتے ہوے، عالمِ استغراق میں جا چکے تھے۔ شوکت کو پکارنے میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہوئی کسی اور میں تویہ ہمت نہیں تھی کہ مولانا، پیر و مرشد، افضل السالکین حضرت عارف الٰہی مد ظلہ کے استغراق میں مخل ہونے کاگمان بھی کر سکیں۔

    وہ تو ٹھیک ہے پر یہ دنیا کا نہیں، دین کا مسئلہ ہے۔ اللہ کے ایک عاجز بندے کا سوال ہے، خلیفہ جی۔ اب ہم مولانا کے پاس نہ آئیں تو کہاں جائیں؟یہی تو سمجھا سکتے ہیں اسے۔ خون کا لحاظ ہی کر لے وہ! شوکت نے ذرا سا لہجہ بلند کر کے بظاہر خلیفہ اول کو سنایا۔

    مولانا صاحب نے آنکھیں کھولیں۔ بجا فرمایا ملک صاحب، ہمیں بھی یہی حکم ہوا تھا۔ اسی لیے تو ہم آپ سے ملاقات کا انتظار کر رہے تھے۔ آپ کو شاید علم نہیں اس جیدے کی حرکات کا۔ اسے اللہ کے گھر کی حرمت کا احساس نہیں، وہ اللہ کے بندوں کا کیا احساس کرےگا۔ ہم تو مایوس ہیں اس سے۔ اس سے پہلے بھی ہم بذات خود اس کو سمجھا چکے ہیں۔ اتنا کہہ کے مولانا پھر خاموش ہو گئے۔

    زمین پر بیٹھے، مدرسے کے طالب علم زاہد نے خلیفہ کی آنکھ کا نا معلوم اشارہ پا کر جوش سے کہنا شروع کیا، دو مہینے پہلے جب بڑی گیارھویں شریف کا ختم تھا مسجد میں، تو بڑا رش تھا یہاں۔ آدھی رات تک میلاد ہوتا رہا۔ پھر دیگیں کھلیں۔ تہجد سے ذرا پہلے فرصت ملی۔ خلیفہ جی نے حکم دیا کہ سب جلدی جلدی تھوڑی نیند لے لیں، ورنہ تہجد جائز نہیں ہو گی۔ ہم سب جہاں تھے، وہیں لیٹ گئے۔ باہر کا بڑا دروازہ بھی کھلا رہ گیا۔ صبح جب میں اٹھا تو صحن میں کوئی پڑا تھا۔ پہلے تو میں نے دھیان نہیں دیا، سب کو اٹھایا تو اس کو بھی جا کے ہلانے لگا۔ بس جی، منھ سے چادر جو کھینچی تو میری تو چیخ ہی نکل گئی۔ میں نے سمجھا کوئی بندہ مار کر اِدھر پھینک گیا ہے۔ بھاگا بھاگا خلیفہ جی کے پاس پہنچا۔ یہ آئے، دیکھا کہ بندے کی سانس چل رہی ہے، شکر کیا اللہ تعالیٰ کا جی۔ بابے کو تو کوئی سہانتا نہیں تھا، اوپر سے تہجد کا وقت بھی نکلا جا رہا تھا...خیر، بابے کو کھینچ کھانچ ایک طرف کیا۔ فجر ویلے محلے کے بابے آنے لگے تو انھوں نے پہچانا۔ اتنی دیر میں اس بابے نے پوری مسجد پلید کر دی۔ بدبو الگ، ہائے ہائے الگ۔

    اس وقت ہمیں مولانا صاحب کو زحمت دینی پڑی، اب خلیفہ نے زاہد کی بات اچک لی۔ سب نمازی بہت پریشان تھے۔ اللہ کا گھر ہے جی، کوئی خیراتی ہسپتال تو نہیں۔ چپ چپیتے بندہ پھینک جاؤ، ایسا تو ادھر بھی نہیں ہوتا، وہاں بھی ذمہ داری لینی پڑتی ہے۔ سب کو پیٹر کی بات یاد آئی۔ کوئی ہبی نبی (اونچ نیچ )ہو جائے تو؟

    مولانا ایک دفعہ پھر عالم حیرت سے باہر آئے اور بولے، اس بیچارے کی حالت دیکھ کر ہم نے چاہا کہ ہم اس بیچارے کی خبر گیری کریں۔ اس دن بھی مجھے دنیا نے الجھا لیا۔ مسجد کمیٹی کا اجلاس بلوایا۔ آپ ان دنوں محلے میں نہیں تھے، اس لیے آپ کو شاید اس اجلاس کی خبر نہ ہوئی۔ خیر، مسجد کمیٹی کا متفقہ فیصلہ تھا کہ جیدا اپنے بھائی کی نگہبانی کا حق جس طرح ادا کر سکتا ہے، کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ہم کچھ بھی کر لیں، خون کا رشتہ تو جیدے کے ساتھ ہے۔ چلو، بندہ بشر ہے، گناہ کبیرہ کا بھی مرتکب ہو سکتا ہے، معافی کا در تو کھلا چھوڑنا چاہیے نا۔ پھر ہم نے بھی سوچا کہ جیدے کو توبہ کا موقع نہ دینا سخت ناانصافی ہو گی۔ قیامت کے روز جب اس پر عذاب آئےگا تو یہ ہم سے شکایت کرےگا کہ ہم جانتے تھے اور ہم نے سمجھایا نہیں۔ اسی لیے ہم نے جیدے کو بلوایا، دو گھنٹے مسجد کا حرج کر کے اسے سمجھایا۔ بتایا کہ اللہ باری تعالیٰ اپنا حق معاف کر دیتا ہے، اپنے فرض میں کوتاہی برداشت کر لیتا ہے، اپنے بندے کا حق معاف نہیں کرتا۔ قیامت کے دن اپنے بھائی سے حق کیسے بخشوائے گا؟اس سے کہا کہ وہ اپنے بھائی کو واپس لے جائے، توبہ کرے اور اس کی خدمت کر کر اللہ سے معافی کا خواستگار ہو، اللہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

    مولانا پھر رقت زدہ ہوئے توخلیفہ ثانی نے آگے بات کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس دن تو بہت روتا رہا، اپنی مجبوریاں بتاتا رہا۔ کہتا تھا، گھر میں بیوی صحیح طرح دیکھ بھال نہیں کر سکتی، بچیوں کو بھی تائے سے شرم آتی ہے، تنخواہ بھی بہت کم ہے، پورا نہیں پڑتا، پھل فروٹ کہاں سے لائے، دوا دارو کہاں سے کرے، اکیلی جان، سارا دن دفتر میں صاحب لوگوں کے لیے بھاگنا، گھر آ کر بابے کی خدمت کیسے کرے۔ ہم جانتے تھے کہ جان چھڑا رہا ہے۔ صاحب لوگوں کے لیے بھاگ سکتا ہے، بھائی کے لیے نہیں؟ لیکن ہم نے اللہ کے حکم کے مطابق پردہ پوشی کی اور اس کا عیب اسے نہ جتایا، یہاں تک کہ مسجد کمیٹی نے اسے پانچ ہزار روپیہ اسی وقت مسجد فنڈسے نکال کر دیا تھا۔ لے گیا بابے کو مدرسے کے لڑکوں نے ریڑھی بھی لا دی۔ پھر ہفتے بعد دوبارہ آ کے رونے پیٹنے لگا۔ پیسے بٹورنے کا بہانہ بنا لیا تھا اس نے۔ کہتا تھا، بچیوں کی فیس بڑھا دی ہے سکول والوں نے، بڑی کا داخلہ بھجوانا ہے، سارے پیسے لگ گئے۔ اللہ معاف کرے، کیسے کیسے لوگ ہوتے ہیں!مسجد کی تو اپنی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ ہم یہاں بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، تبلیغ کا کام کرتے ہیں، یہاں رہنے والے بچے اپنے گھروں کو تج کر آتے ہیں، ان کی بھی ساری ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ کھانا کپڑا۔۔۔

    منیرے تیلی کے انہماک میں صبح شام روٹی اکھٹی کرنے والے مدرسے کے بچوں کی آواز نے خلل ڈالا۔ لا حول ولا! منیرے نے فوراً سر جھٹک کر خلیفہ ثانی کی بات سننے کی کوشش کی تھی۔

    خلیفہ ثالث، جو ابھی پوری طرح مولانا کی خلافت کا اہل نہیں ہوا تھا، زیادہ دیر ضبط نہ کر سکا۔ کافروں کی حکومت ہے ہم پر!کافروں کا کھاتے ہیں اور دین کے نام پر روشن خیالی یاد آ جاتی ہے۔ اوقاف والوں سے جو ملتا ہے اس میں تو ایک وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی۔ یہ تو سر پھرے ہیں جو دین کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔ ابھی مسجد کی توسیع کا معاملہ تھا۔ پچاس دفتروں کے چکر لگائے، بیسیوں افسروں سے ملاقاتیں کیں، تب جا کے بل منظور ہوا۔ اب ہم رشوت تو دیں گے نہیں۔ اللہ کے آسرے پر جہاد کرتے ہیں، دین کی خاطر۔ مسجد کمیٹی نہ ہو تو یہاں دیا جلانے کوتیل بھی نہ رہے۔

    شوکت کو یاد آیا کہ چھ مہینے سے مسجد کی بجلی کا خرچہ اس نے لے رکھا ہے، اور یہ بھی یاد آیا کہ اسی میٹر سے ایک موٹی سی تار مسجد سے ملحقہ مولانا صاحب کے آستانے میں بھی جاتی ہے اور مولانا اور ان کے اہل خانہ کو گرمیوں میں ٹھنڈک اور سردیوں میں گرمائش کی سہولت پہنچانیکا باعث بنتی ہے اب دنیا داروں پران خانہ نشینوں کا اتنا حق تو بنتا ہے۔ اس کے کندھے کچھ اور سیدھے ہو گئے اور اس نے مولانا صاحب کو براہ راست مخاطب کرنے کا فیصلہ کیا۔

    بس جی، خداخوفی ہی سب کچھ ہے۔ جتنا جس سے ہو سکتا ہے، وہ کرتا ہے، اسے کرنا چاہیے۔ دنیا ہی تو سب کچھ نہیں۔

    بجا فرمایا ملک صاحب!مولانا کو بھی شاید میٹر سے نکلتی تار یاد آ گئی تھی۔ آپ جیسے اصحاب سے ہی دین کی محفل میں رونق ہے۔ آپ تو ما شا اللہ مسجد کمیٹی کے سب سے فعال رکن ہیں، دین کے کاموں میں سب سے آگے رہتے ہیں۔ آپ جیسے اصحاب کی وجہ سے ہی اس محلے پر عذاب نہیں آیا، ورنہ تو جو جیدے نے کیا، اللہ چاہے تو دھرتی پھٹ جائے، اور جیدا اپنی سنگدلی کے ساتھ اس میں دھنس کر رہ جائے، مولانا نے ایسی بھاری بھر کم آواز میں کہا کہ زمین پر بیٹھے سب افراد کو دھرتی ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ انھوں نے اپنے پہلو بدلے، بعضے بے اختیار اکڑوں بیٹھ گئے۔

    دھرتی کی تھر تھراہٹ بند ہونے سے پہلے گاڑیوں کے تیز ہارنوں، چیختے ٹائروں کی بریک اورتیزی سے کھلتے بند ہوتے، گھسٹتے دروازوں کی آواز نے مولانا صاحب کو بھی چونکا دیا۔ زاہد پھرتی سے اٹھ کر باہر کی جانب لپکا اور اس سے پہلے وہ واپس آتا، ایک دو طالب علم ہانپتے کا نپتے حجرے میں آ گئے۔

    باہر ٹی وی والے آئے ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں! دین کے نا بالغ، نادان مجاہد اپنے شوق میں ادب کے قرینے بھول سے گئے۔

    مولانا صاحب اور شوکت بیک وقت اٹھے۔ ان سے پہلے باہر جانے کے لیے پر تولتے محلے کے لوگ کھڑے ہو چکے تھے اور بمشکل ان کی روانگی تک خود کو روک رہے تھے۔ ان کے نکلتے ہی جملہ حاضرین، یہاں تک کے مدرسے کے بیشتر بچے، نگرانوں سے لاپرواہو کر باہر آ گئے۔

    قبرستان کی باہری دیوار کے ساتھ تین چار بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں، ایک دو مرکزی شاہراہ سے اندر کی طرف مڑتی ہوئی بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ کئی ننگ دھڑنگ یا ناکافی لباس پہنے بچے، قمیض کا دامن چوستے، ایک ہاتھ سے ٹانگوں کے بیچ کھجاتے، متجسس نگاہوں سے ان گاڑیوں کے گردا گرد جمع تھے۔ نوجوان لڑکے، اپنی قمیص کا کالر ٹھیک کرتے، پشت سے ہاتھ اندر ڈال کر تنگ جینز کی پینٹ کو چوتڑوں پر ٹھیک سے چڑھاتے، جیب سے کنگھی نکال کر سنورے ہوے بالوں کو مزید سنوارتے اور دھوپ کی سستی سی عینک لگا کر متو قع انداز میں کیمرے والوں کی طرف دیکھتے تھے۔ چاروں طرف سے بند کالے شیشوں والی ویگن نما ان گاڑیوں کے اندر کا احوال اسی وقت جانا جا سکتا تھا جب دروازہ کھلتا اور دھوپ سے سنولائے، پختہ چہروں والے جوان آدمی اندر سے باہر نکلتے۔ اندر مختلف مشینیں تھیں، جن پر کئی بلب سے جل بجھ رہے تھے۔

    کیمرے اور مائیک تھامے کئی افراد قبرستان میں بکھر گئے۔ مولانا، شوکت اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ کر چند ایک ان کی طرف بھی بڑھے۔ وہ سب اس واقعے کے عینی شاہدین سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ کچھ کیمرے قبرستان کے سامنے گھروں کی قطارکو فلما نے لگے۔ مولانا صاحب نے اپنا عمامہ درست کیا اور شوکت نے زور سے کھنکھار کر اپنی آواز میں بہتری پیدا کی۔ قبرستان جا نے والوں میں سے ایک ٹولی کو بالآخر من چاہا منظر مل گیا۔ کیمرامین نے ہاتھ میں تھا ما کیمرا کندھے پہ رکھ کر چالو کیا۔ سرخ رنگ کی جلتی بجھتی بتی نے افضل کو گویا اشارہ کیا اور افضل ہاتھ میں مائیک تھامے سنسنی خیز لہجے میں کہنے لگا:

    ناظرین، انسانی بے حسی کی ایک اور مثال! ایک بھائی اپنے بوڑھے معذور بھائی کو زندہ قبرستان میں پھینک گیا۔ دیکھیے، اس شخص کی بےبسی اور اس کی اذیت کا اندازہ کیجیے جس کوجیتیجی قبرستان کی مٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ دیکھیے اور سو چیے، اس شخص کی حالت کا ذمہ دار کون خون کا رشتہ یا حکومت کی نا اہلی؟

    آخری جملہ بولتے ہی اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ کیمرے والے نے، وسعت بڑھاتے ہوے، قبرستان کا ایک لمبا، کھلا منظر قید کیا، پھر آہستہ آہستہ منظر، کچی قبروں کے بیچ میں رکھی شیدے کی منجی تک محدود ہو گیا اور زوال آمادہ سورج سوچتا رہا کہ اس منجی کو یہاں تک پہنچانے والے، جیدے کے علاوہ، باقی کاندھے کن کے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے