Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لال اور پیلا

خواجہ احمد عباس

لال اور پیلا

خواجہ احمد عباس

MORE BYخواجہ احمد عباس

    چاروں دیواروں پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ نیلے نیلے کرشنا، گوری گوری پتلی کمروالی گوپیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ سفید پروں والے ہنس کنول کے پھولوں کے درمیان پانی میں کھڑے تھے۔ ایک مغل شہزادی جھروکے سے اپنے گھوڑا سوار عاشق کو جھانک رہی تھی۔ مہاتما بدھ سمادھی لگائے مکتی کے دھیان میں کھوئے ہوئے بیٹھے تھے۔ ایک راجپوت حسینہ آئینے میں اپنا ہی عکس دیکھنے میں مگن تھی۔۔۔ خوب صورت چہرے، سڈول جسم، کٹیلی آنکھیں، ابھرے ہوئے سینے، لمبے لمبے کالے بال، کھلے ہوئے پھول، ناچتے ہوئے مور۔۔۔ اور اوپر چھت پر رنگ برنگے بادل نیلے آسمان میں تیر رہے تھے اور ان بادلوں سے ہوتی ہوئی بھگوان اندر کی سنہری رتھ چلی جارہی تھی۔

    گوپال کے اس چھوٹے سے تاریک کمرے میں آرٹ کی ایک دنیا آباد تھی۔ تخیل کا مایا بازار لگا ہوا تھا، جہاں حسن تھا، رومان تھا، رنگینی تھی، شانتی تھی۔

    مگر جب کھڑکی میں سے اس نے باہر دیکھا تو وہاں اصلیت کی دنیا بسی ہوئی نظر آئی۔ نیچے گلی کے بیچوں بیچ ایک گندی نالی بہہ رہی تھی۔ ایک طرف کوڑے کاڈھیر لگا ہوا تھا۔ ایک خارش زدہ کتا، ایک مریل سی گندی سی بلی کو کاٹنے کے لیے دوڑ رہا تھا۔ موٹے موٹے چوہے کوڑے کے ڈھیر پر ایسے اطمینان سے گھوم رہے تھے، جیسے یہ ان کی سیر کرنے کی کوئی پہاڑی سڑک ہو۔۔۔ گندی نالی کے کنارے ایک اَدھ ننگا بچہ بیٹھا ہوا پاخانہ کر رہا تھا۔ نکڑوالی پنواڑن کی دکان کے سامنے چند گاڑی والے اور مزدور بیڑی پی رہے تھے اور پنواڑن سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ بچے جو ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے، ریل کا کھیل کھیل رہے تھے، ایک طرف سے آئے اور چھک چھک کرتے سیٹی بجاتے ہوئے دوسری طرف سے گزرگئے۔

    سامنے والی چال کے پیچھے ہی۔۔۔ ایلومونیم کے برتنوں کا کارخانہ تھا جس کی ٹھک ٹھک کھٹ کھٹ دھڑ دھڑ دن رات چلتی رہتی تھی۔ چال کی چھت سے ملی ہوئی کارخانے کی چمنی تھی جو ہر وقت دھواں اگلتی رہتی تھی اور جب ہوا اس رخ کی چلتی تو دھواں ان ساری چالوں کی کھڑکیوں میں سے اندر آتا ہے۔ ہر چیز پر۔۔۔ دیواروں پر، کپڑوں پر، بستروں پر کالا پوڈر مل دیتا، اسی لیے جہاں تک ہوتا، گوپال اپنے کمرے کی کھڑکیاں بند ہی رکھتا تھا کہ کہیں کارخانے کا دھواں اس کی تصویروں کو خراب نہ کرجائے۔ اس کے علاوہ کھڑکی کے باہر کا منظر اسے ہمیشہ برا لگتا تھا۔ جب کبھی وہ کھڑکی کھولتا، اسے گندگی کے ڈھیر اور گندی نالی دیکھ کر ازحدکوفت ہوتی تھی اورجتنی جلدی ممکن ہوتا وہ کھڑکی بند کرکے اپنے کلا بھون میں بندہوجاتا۔ خوب صورت تصویروں میں گم ہوجاتا اور باہر کی اصلیت اور اس کی گندگی، بدبو اور شور کو بھول جاتا۔

    مگر آج گرمی بہت تھی۔ بند کمرے میں دم گھٹ رہا تھا۔ اس لیے دھوئیں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھی گوپال نے کھڑکیوں کے پٹ کھول دیے۔ باہر سے ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ہی بدبو کاجھونکا آیا اور ساتھ ہی کارخانے کی چمنی کے دھوئیں کا غبار۔۔۔ مگر آج اس نے کھڑکی کھلی رکھی اور دیر تک گلی میں آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا۔ ایک نئی نظر سے۔۔۔ اور آج اسے یہ گلی ایک نئی گلی نظر آئی۔۔۔

    گوپال ایک مزدور تھا۔ سامنے والے ایلومونیم کے کارخانے میں کام کرتا تھا مگر وہ ایک فن کار بھی تھا بلکہ اصل میں وہ ایک فن کار ہی تھا جو پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور تھا۔ اس نے اپنی زندگی کو دوحصوں میں بانٹ رکھا تھا۔ چوبیس گھنٹے میں سے آٹھ گھنٹے کارخانے کی گرم اور بدبودار ہوا میں، دوسرے پسینے میں نہائے ہوئے، میلے کچیلے کپڑے پہنے مزدوروں کے ساتھ وہ کام کرتا۔ باقی سولہ گھنٹے آرٹ اور تخیل کی دنیا میں بسر کرتا۔

    ایک رومانی دنیا جہاں نہ مزدور تھے، نہ کارخانے، نہ دھواں، نہ بدبو، نہ گندگی بلکہ خوب صورت چہرے تھے۔ پھولوں سے ڈھکی ہوئی سرسبز وادیاں تھیں۔ اونچے اونچے برفیلے پہاڑ تھے۔ جب تک وہ اپنے کمرے میں رہتا، وہ اسی دنیا میں کھویا رہتا۔ جو کچھ بھی کارخانے سے مزدوری ملتی، اس میں سے کمرے کے کرایہ دینے اور ایک وقت کھانا کھانے کے بعد جو کچھ بھی بچتا، اس سے رنگ خریدتا، آئیل پینٹ، واٹر کلر، کینوس، کاغذ۔۔۔ اور تصویریں بناتا رہتا۔ دیوتاؤں کی تصویریں، جن کے نقش اس کے دماغ پر بچپن سے جمے ہوئے تھے۔ خوبصورت عورتوں کی تصویریں، جو صرف اس کے تخیل کی بستی میں تھیں۔ ان پھولوں کی تصویریں، جنھیں اس نے کبھی سونگھا نہیں تھا۔ ان پھولوں کی تصویریں، جن کو وہ کبھی خرید کر رکھ نہ سکا تھا۔

    چند گھنٹے کے لیے وہ سوتا بھی تو وہ ان تصویروں کو سپنے میں دیکھتا رہتا اور کبھی کبھی خواب میں اسے کوئی ایسا خوبصورت منظر دکھائی دے جاتا کہ وہ بے قرار ہوکر اسی وقت اٹھ کھڑا ہوتا اور لالٹین جلاکر پینٹ کرنا شروع کردیتا۔ اس نے سیکڑوں کینوس لال پیلے کرڈالے تھے۔ جب کینوس خریدنے کے لیے دام نہ ہوتے تو کاغذ پر تصویریں بناتا۔ کاغذ ختم ہوجاتے تو دیواروں پر، چھت پر، یہاں تک کہ ٹوٹی ہوئی کرسی کے تختے پر بھی دونوں طرف اس نے تصویریں بناڈالی تھیں۔

    مگر جن چیزوں کی وہ تصویریں بناتا، ان کا اس کی اپنی زندگی سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔ اس کی زندگی میں بھلا حسن کہاں تھا۔ یہاں تو غریبی، محنت، گندگی، بدبو تھی۔ اور گوپال کا خیال تھا کہ ان چیزوں کا آرٹ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آرٹ کو صرف خوب صورت چیزوں سے سروکار ہونا چاہیے اورخوب صورتی گوپال کو صرف اپنے تخیل میں میسر آسکتی تھی۔۔۔

    گوپال تصویریں کیوں بناتا تھا؟ اس کا جواب شاید وہ خود بھی نہ دے سکتا تھا۔ اس کی کوئی تصویر آج تک نہ بکی تھی۔ کسی اخبار یا رسالے میں اس کی تصویروں کا ذکر کبھی نہ چھپا تھا۔ آرٹ کی دنیا میں کوئی اس کا نام بھی نہ جانتا تھا۔ پھر وہ تصویریں کیوں بناتا تھا؟ شاید اس لیے کہ اس کا باپ تہواروں کے موقعہ پرمٹی سے دیوتاؤں کی مورتیاں بنایا کرتا تھا اور بچپن سے گوپال کو اپنے باپ کے رنگ چراکر کاغذ پر لکیریں کھینچنے کا شوق ہوگیا تھا۔۔۔ شاید اس لیے کہ اسکول میں ڈرائنگ کی کلاس کے سوا اور کسی کام میں اس کا جی نہ لگتا تھا اور ڈرائنگ ماسٹر نے اس کی بنائی ہوئی تصویریں دیکھ کر اس کی ہمت بڑھائی تھی۔ یا شاید اس لیے کہ گوپال غریب تھا اور ایک گندی گلی میں، ایک بدبودار چال میں رہتا تھا اور اسے اپنے من کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایک نکاس کی ضرورت تھی۔ یتیم اور غریب گوپال کے دل میں خوب صورتی اور نرمی اور محبت کی ایک عجیب پیاس تھی جس کو تصویریں بناکر ہی وہ بجھا سکتا تھا۔۔۔

    گوپال تصویریں کیوں بناتا تھا؟ شاید اس لیے کہ جب وہ سترہ برس کا تھا، اس نے ایک لڑکی سے محبت کی تھی۔ ایک لڑکی جو اس کے پڑوس میں رہتی تھی۔ جو حسین تھی، امیر باپ کی بیٹی تھی اور غریب گوپال کی پہنچ سے باہر تھی۔۔۔ اور اس لیے اس محبت کا وہ کبھی اظہار نہ کرسکا تھا۔ وہ محبت اس کے دل ہی دل میں گھٹ رہی تھی مگر بجھی نہیں تھی۔ راکھ میں دبی ہوئی چنگاری کی طرح چپ چاپ سلگتی رہی تھی اور برسوں بعد جب وہ اپنا قصبہ چھوڑ کر بمبئی آگیا تھا اور وہ لڑکی ایک ڈپٹی کلکٹر کے چار بچوں کی ماں بن چکی تھی، تب بھی محبت کا وہ جذبہ گوپال کے دل میں سلگ رہا تھا اور اس کے اظہار کا بھی ان تصویروں کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہیں تھا۔

    رجنی کو گوپال نے صرف دیکھا تھا۔ کبھی اس سے بات بھی نہ کرپایا تھا۔ بس دور سے اس کی پوجا کی تھی اور اسی لیے اب بھی بڑے ادب اور احترام سے اپنی تصویروں میں گوپال اس کی پوجا کر رہا تھا۔ کبھی سرسوتی کے روپ میں تو کبھی شکنتلا کے، کبھی مغل شہزادی کے لباس میں، تو کبھی راجپوت راج کماری کے شنگھار میں۔ بچاری کی نگاہوں نے رجنی کو لافانی حسن کی ایک پتلی بنا دیا تھا۔ ایک شاعرانہ ہیولیٰ۔۔۔ ایک دیوی۔۔۔ جس کو اس دنیا کی چلتی پھرتی، بولتی چالتی خوب صورت لڑکیوں سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ جس کی آنکھیں ہرن جیسی تھیں اور کمر اتنی پتلی کہ گویا تھی ہی نہیں اور انگلیاں اتنی پتلی کہ۔۔۔

    آج گوپال پھر رجنی کی یاد کو ایک نئی تصویر کے سانچے میں ڈھالنا چاہتا تھا۔ اگلے ہفتے شہر میں آرٹ کی نمایش ہونے والی تھی اور گوپال اس میں ایک نئی تصویر بناکر بھیجنا چاہتا تھا۔ ایسی تصویر جس میں اس کے پورے آرٹ کا نچوڑ ہو، جو سچ مچ شاہ کار ہو، جسے دیکھ کر ہر کوئی اس کے فن کا لوہا ماننے پر مجبور ہوجائے۔۔۔ کون جانتا ہے، شاید اس کی تصویر کو انعام بھی مل جائے۔۔۔ مگر اس کااصل مقصد نہ انعام تھا نہ شہرت۔ وہ تو اپنے من کے سلگتے ہوئے پریم کو آرٹ کے روپ میں امرکرنا چاہتا تھا۔ رجنی کی ایک ایسی تصویر بناکر جس میں اس کا تمام حسن، اس کی جوانی، اس کی آنکھوں کی مستی، اس کے سڈول جسم کا ہر عضو ایسی خوب صورتی سے ابھر آئے کہ دنیا دیکھے او رعش عش کرے۔ اور شاید رجنی بھی اس تصویر کو کہیں دیکھے۔۔۔ اور اتنے برس کے بعد اس تصویر کی زبان سے گوپال اپنی گونگی محبت کا سندیسہ رجنی تک پہنچاسکے۔۔۔

    ہاں تو آج وہ رجنی کی تصویر بنانا چاہتا تھا۔ خالی کینوس چوکھٹے پر چڑھا ہوا اس کے برش کی مار کا انتظار کر رہا تھامگر رجنی کے گالوں میں سرخی بھرنے کے لیے گلابی رنگ چاہیے تھا اور آج گوپال کے پاس لال رنگ ختم ہوچکا تھا۔ بازار سے نیا رنگ خریدنے کے لیے پیسے بھی جیب میں نہیں تھے۔ اتنا لال رنگ بھی نہیں تھا کہ تصویر میں رجنی کے ماتھے پر ایک بندی ہی بناسکے۔۔۔

    پھر اس نے سوچا کہ میں رجنی کی تصویر نہیں کرشنا کی تصویر بناؤں گا۔ اس کے خوبصورت نیلے بدن میں بچپن کی معصومیت او رملائمت بھردوں گا۔ اس کے چہرے پر امر بچپن کی شوخی اور شرارت ہوگی۔۔۔ مگر آج اس کے پاس نیلا رنگ بھی تو نہیں تھا۔۔۔

    تو پھولوں سے ڈھکی ہوئی ایک سرسبز پہاڑی۔۔۔ دور سورج ڈوب رہا ہو اور سندر پہاڑنیں سروں پر گاگریں اٹھائے چشمے سے پانی لارہی ہوں۔۔۔ مگر اس کے پاس ہرا رنگ بھی نہیں تھا۔

    لال رنگ نہیں تھا، گابی نہیں تھا، پیلا نہیں تھا، سبز نہیں تھا، نیلا نہیں تھا، گیروا نہیں تھا۔۔۔ بس ایک رنگ باقی تھا۔ کالا۔ سیاہ رنگ۔۔۔ یوں کہ یہ رنگ اب تک اس نے اپنی تصویروں میں استعمال ہی نہیں کیا تھا مگر کالے رنگ سے کوئی خوب صورت رومانی تصویر تھوڑا ہی بنائی جاسکتی ہے۔ کالا رنگ تو اداسی کا رنگ ہے۔ غریبی اور بدصورتی کا رنگ ہے۔ دیویوں کا نہیں راکشسوں کا رنگ ہے۔ کالے رنگ سے رجنی کی تصویر نہیں بنائی جاسکتی۔۔۔ بال کرشنا کی تصویر نہیں بن سکتی، نہ کسی سندر راج کماری کی، نہ مغل شہزادی کی۔۔۔ نہ ہری بھری پھولوں سے لدی پہاڑی کی، نہ ڈوبتے ہوئے سورج کی رنگارنگی کی۔۔۔ اس بدصورت، بدہیبت، منحوس رنگ سے تو بس اس اندھیری، گندی، بدبودار گلی کی تصویر ہی بن سکتی ہے۔۔۔

    اس گلی کی تصویر؟ نہیں نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے بھلا۔ اس بھیانک منظر کی تصویر دیکھنا کون پسند کرے گا؟ مگر۔۔۔

    اس بار گوپال نے کھڑکی کے باہر جھانک کر نیچے گلی کو دیکھا تو اسے چالوں کی ٹیڑھی میڑھی دیواروں میں، ان کے اوپر چھائی ہوئی چمنی اور اس سے نکلتے ہوئے دھوئیں میں، کھیلتے ہوئے بچوں میں، پنواڑن کی دکان کے آگے لگی ہوئی بھیڑ میں ایک عجیب انوکھا فن کارانہ نقشہ ابھرتا ہوانظرآیا۔

    چالوں کی دیواریں ایک دوسرے پر اس بے ڈھنگے انداز سے گری پڑ رہی تھیں، جیسے لڑکھڑاتے ہوئے شرابی ایک دوسرے کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہوں۔ دیواروں کے سایے زمین پر کالی تکونیں بنارہے تھے۔ روشنی اور سایہ۔ سایہ اور روشنی۔ ڈھلتے ہوئے سورج کی ترچھی کرنوں نے ایک طرف کی دیواروں پر اجالا کر رکھا تھا اور دوسری طرف سایہ۔ روشن دیواروں پر کالی کالی کھڑکیاں ایسی لگتی تھیں جیسے اندھی بے نور آنکھیں۔۔۔ کھیلتے ہوئے غریب بچے کٹھ پتلیاں لگتے تھے اور ان کے لمبے ترچھے سایے ایسے پڑ رہے تھے جیسے ان کے بھیانک مستقبل کی پرچھائیاں ابھی سے پڑ رہی ہوں۔

    مریل بلی کے پیچھے دوڑتا ہوا خارش زدہ کتا کسی ہزاروں برس پرانے زمانے کی یاد دلارہا تھا، جب جنگل کا قانون چلتا تھا اور ہر طاقت ور جانور اپنے سے کمزوروں کو نوالا بنانا اپنا حق سمجھتا تھا۔ دیوار کے نیچے کھڑے ہوئے مزدوروں کی میلی کچیلی دھوتیوں میں سے نکلی ہوئی کالی ٹانگیں ایسی لگتی تھیں جیسے وہ پتلے پتلے کالے کالے ستون ہوں، جن پر اس ساری عمارت کابوجھ ہو۔۔۔ اور اوپر کھپریل کی تکونوں کے اوپر کارخانے کی چمنی ایک مہیب انگلی کی طرح آسمان کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔۔۔ اور اس میں سے نکلتا ہوا دھواں آسمان میں اس طرح پھیل رہا تھا جیسے کوئی سیاہ شیطانی پرچم ہوامیں لہرا رہاہو۔۔۔

    گوپال جو اس گلی اور اس کی ہر چیز سے نفرت کرتا تھا، اس کو بھی آج ماننا پڑا کہ اس منظر میں ایک تصویر ضرور ابھرتی نظر آتی تھی۔ ایک بھیانک اور بدصورت تصویر۔۔۔ اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ شاید اس اندھیرے بدصورت منظر کو پینٹ کرانے کے لیے ہی قسمت نے اس سے تمام خوش نما لال اور پیلے اور نیلے اور سبز رنگ چھین لیے تھے۔۔۔

    اور پھر اس نے سوچا، اچھا ایسا ہے تو یہی سہی۔ میں دو سال سے دیوی، دیوتاؤں راج کماریوں، شہزادیوں کی رنگارنگ تصویریں بناتا رہا ہوں اور دنیا نے انہیں دیکھنے اور پرکھنے سے انکار کردیا ہے۔ میں اپنے آرٹ کے مندر میں رجنی کی پوجا کرتا رہا ہوں مگر اس نے کبھی بھولے سے بھی مجھے یاد نہیں کیا۔ میں نے اس کے چرنوں میں قوس قزح کے سارے رنگ رکھ دیے مگر اس نے میری بھینٹ کو کبھی سویکار نہیں کیا۔ میں نے اپنے آرٹ کے یے مزدوری کرکے، بھوکا رہ کر اپنی نیند اورآرام اور اپنے خون کی قربانی دی مگر کسی نے میرے آرٹ کی طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھا۔ اب میں اس دنیا، اس سماج سے یہ بھیانک تصویر بناکر ہی انتقام لوں گا تاکہ لوگ دیکھیں کہ کہاں اور کس حال اور ماحول میں غریب گمنام فن کار اپنی زندگی گزار رہا۔۔۔ اور اسی لمحے تصویر کا نام بھی بجلی کی طرح کوندتا ہوا اس کے دماغ میں آگیا، ’’جہاں میں رہتا ہوں۔۔۔‘‘ اپنے رنگوں کے ڈبے کو اٹھاکر وہ کھڑکی میں لایا اور اس میں سے لال اور نیلے اور پیلے اور سبز رنگوں کی خالی پچکی ہوئی ٹیوبیں باہر گلی میں پھنک دیں اور کالے رنگ کی بھری ہوئی ٹیوب ایسے اٹھائی جیسے وہ اس کاہتھیار ہو۔

    دو دن اور دو رات وہ برابر اس تصویر پر کام کرتا رہا۔ کھانا پینا، نہانا، دھونا، داڑھی بنانا، کپڑے بدلنا سب کچھ بھول گیا۔ اس کے دماغ میں دھن تھی تو یہی کہ اس اندھیری گندی گلی کی تصویر میں اس سارے سماج کی تصویر کھینچ کر رکھ دے جو اس اندھیرے اور گندگی کو پروا ن چڑھاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے کینوس پر نہ صرف گلی کے خط و خال نظر آنے لگے بلکہ اس کی گلی کی روح بھی ابھر آئی۔۔۔ اس روح کا احساس گوپال کو آج پہلی بار ہوا تھا۔ تصویر بناتے ہوئے اس نے اپنی گلی کو ایک نئے ڈھنگ سے دیکھا۔ کلا کار کی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی نگاہ گلی کی گندگی اور اندھیرے کو چیرتی ہوئی اس انسانیت تک پہنچی جو اس گندگی اور اندھیرے میں چھپی ہوئی تھی۔

    اب گوپال نے دیکھا کہ اس کی گلی اینٹ، پتھر اور لکڑی کے ڈھیروں سے مل کر نہیں بنی، بلکہ ان انسانوں کی زندگی کے تانے بانے سے بنی ہے جو اس میں رہتے ہیں۔ پہلی بار اس نے دیکھا کہ یہاں کے رہنے والے جان بوجھ کر گندے نہیں رہتے، گندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ اس نے دیکھا کہ پنواڑن کی دکان کے سامنے لگا ہوا نل صرف دو تین گھنٹے کے لیے چلتا ہے، وہ بھی صبح سویرے، جب آس پاس کی سب چالوں کی عورتیں اپنی اپنی گاگریں لے کر پانی بھرنے آتی ہیں اور پانی کی ایک ایک قیمتی بوند پر کتنا لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور پھر نل میں پانی آنی بند ہوجاتا ہے۔ کتنی ہی عورتیں خالی گاگریں لیے میونسپلٹی کو گالیاں دیتی ہوئی واپس چلی جاتی ہیں۔ سو اس نے اپنی تصویر میں صبح کا وقت ہی رکھا اور دکھایا کہ عورتوں کی قطار خالی گاگریں لیے انتظار میں کھڑی ہیں۔ ایک گاگرنل کے نیچے رکھی ہے اور نل میں سے ایک ایک بوند، صرف ایک بوند، ٹپک رہی ہے۔۔۔

    اب گوپال نے دیکھا کہ اس گلی کے رہنے والے گندے ہیں مگر برے نہیں تھے۔ وہ آپس میں لڑتے تھے، گالم گلوچ کرتے تھے مگر ان کے دلوں میں کینہ اور لالچ نہیں تھا۔ وہ محنت مزدوری سے جھکے جھکے پریشان ضرور رہتے تھے مگر ان کے چہروں پر سے مسکراہٹ بالکل غائب نہ ہوتی تھی۔ وہ اب بھی ہنس سکتے تھے اور ہنستے تھے۔۔۔ اور گوپال نے کوشش کی کہ یہ سب کچھ اس کی تصویر میں آجائے۔ مگر جب تصویر بن کر تیار ہوئی تو گوپال کو اطمینان نہ ہوا۔ اسے محسوس ہوا کہ تصویر میں کسی چیز کی کمی ہے۔ گلی کی اس روح کی کمی تھی جو وہاں کے رہنے والوں کی ہنسی، مسکراہٹ، چیخ و پکار، بچوں کے کھیل کود میں ظاہر ہوتی تھی، اس امید کی کمی تھی جو اس گلی کے رہنے والوں کے دلوں میں ابھی تک زندہ تھی۔۔۔ مگر اس روح کو، امید کو، اس تڑپ اور جوش کو، اس گلی کے مستقبل کو کیسے اس تصویر میں دکھائے؟

    رات بھر گوپال کھڑکی میں بیٹھایہی سوچتا رہا مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا۔۔۔ یہاں تک کہ سویرا ہوگیا اور سوتی ہوئی گلی آنکھیں ملتی ہوئی جاگ اٹھی۔ عورتیں پھر لائن بناکر نل کے پاس کھڑی ہوگئیں۔ پنواڑن نے اپنی دکان کو جھاڑنا پونچھنا شروع کردیا۔ سویرے کی شفٹ والے مزدور کارخانے کو جانے لگے۔ کتنی ہی رسوئیوں سے دھواں نکل کر چمنی کے دھوئیں میں ملنے لگا۔ یہی سب کچھ تو اس نے اپنی تصویر میں بھی دکھایا تھا۔ مگرجب اس کی نگاہ چھتوں پر سے ہوتی ہوئی اوپر اٹھی تو دفعتاً اسے معلوم ہوا اس کی تصویر میں کس چیز کی کمی تھی؟ سرخی کی کمی تھی۔

    سارے آسمان پر سویرے کی گلابی شفق پھوٹی ہوئی تھی، جیسے کسی حسینہ نے۔۔۔ جیسے رجنی نے۔۔۔ سوکر اٹھتے ہی اپنے چہرے پر پاوڈر سرخی مل لی ہو اور اس گلابی آسمان کے پس منظر کے ساتھ گلی کی گندگی اور سیاہی تھی۔ کالی رات جو اب ختم ہو رہی تھی، جو سویرے کی سرخی میں گھلتی جارہی تھی۔۔۔ اس کی تصویر کے آسمان کو بھی سویرے کی، نئے دن کی، امید کی سرخی سے جگمگا اٹھنا چاہیے۔ یہ احساس بجلی کی تیزی کے ساتھ اس کے دماغ پر چمکا۔ مگر یہ سرخی آئے کہاں سے؟ اس کے پاس لال رنگ تھاہی نہیں۔ نہ بازار سے خریدنے کو پیسے تھے۔ نہ کسی سے ادھار لاسکتا تھا۔

    مگر تصویر کے آسمان میں سرخی تو ضرور ہونی چا ہیے۔۔۔

    گوپال کو یاد آیا کہ اسی دن تصویر کو نمایش کے لیے بھیجنا ہے۔۔۔ مگر سرخی نہ ہوئی تو تصویر مکمل نہ ہوگی، ادھوری رہے گی۔ ادھوری ہی نہیں جھوٹی ہوگی۔ مگر سرخی کہاں سے آئے؟

    آسمان پر سرخی چھائی ہوئی تھی مگر گوپال کے ہاتھ وہاں تک نہ پہنچ سکتے تھے کہ آسمان کے چہرے سے اتار کر اپنی تصویر میں سرخی بھردے۔

    تو کیا تصویر ادھوری رہے گی؟

    نہیں نہیں۔۔۔ گوپال کو ایسا لگ رہا تھا کہ تصویر ادھوری رہی تو اس کی زندگی، اس کی محنت اور اس کا آرٹ سب بے کار ہوگا۔۔۔ تین راتوں کو جاگنے کے بعد اس کا سر چکرا رہا تھا۔ ہاتھ پاؤں بخار سے جل رہے تھے۔۔۔ گال تمتما رہے تھے۔۔۔

    اسے اپنا کمرہ، سب تصویریں، مہاتما بدھ، بھگوان کرشنا، ساوتری اور شکنتلا، مغل شہزادی، اور راجپوت راج کماری، کنول کے پھول، ہری بھری وادیاں۔۔۔ ہر چیز گھومتی ہوئی لگ رہی تھی۔۔۔ بس ایک چیز اپنی جگہ قائم تھی۔ اس کی نئی بنائی ہوئی تصویر جو مکمل ہونے کے لیے، شاہ کار بننے کے لیے سرخی کے چند قطروں کی منتظر تھی۔۔۔

    نہ جانے کیسے اور کب گوپال ایک ٹوٹے ہوئے شیشے کے سامنے کھڑا ہوگیا، جس میں دیکھ کر وہ شیو کرتا تھا۔ آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر وہ ڈر گیا۔ داڑھی بڑھی ہوئی، بال پریشان اور گرد میں اٹے ہوئے، قمیص کے کالر پر کالے پینٹ کے دھبے، آنکھوں میں لال لال ڈورے، تمتماتے ہوئے گالوں پر سرخی۔۔۔ بخار میں جلتے ہوئے کھولتے ہوئے، دوڑتے ہوئے خون کی سرخی۔

    آرٹ نمایش میں سب سے زیادہ بھیڑ ’’جہاں میں رہتا ہوں‘‘ تصویر کے سامنے تھی۔ اول انعام بھی اسی کو ملا تھا۔

    آرٹ کو سمجھنے والے، آرٹ کو پرکھنے والے، آرٹ کو خریدنے والے، آرٹ کو بیچنے والے، آرٹ کی دلالی کرنے والے، آرٹ کی پوجا کرنے والے، آرٹ کے بارے میں لمبی چوڑی ڈینگیں مارنے والے، سب ہی وہاں موجود تھے۔ سب ہی گوپال کی تعریف کر رہے تھے۔

    ’’یہ ہے سچی کلا۔‘‘

    ’’زندگی کا اصلی روپ۔‘‘

    ’’کتنی جان ہے اس تصویر میں، منہ سے بولتی ہے۔‘‘

    ’’گوپال نے تصویر نہیں بنائی، زندگی کو آئینہ دکھایا ہے۔‘‘

    ’’مگر دوسوروپے بہت ہیں اس تصویر کے۔‘‘

    ’’آرٹ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔‘‘

    ’’اس تصویر سے رومانی آرٹ کا دور ختم اور نئے آرٹ کا دور شروع ہوتا ہے۔‘‘

    ’’کتنی گہری نگاہ ہے آرٹسٹ کی۔ ہر چھوٹی سی چھوٹی چیز تک پہنچی ہے۔‘‘

    ’’ایسا لگتا ہے کہ آرٹسٹ نے مہینوں اس گلی میں جاجاکر وہاں کے غریبوں کی زندگی کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔‘‘

    ’’اس پوری گلی کو کالے رنگ سے پینٹ کیا ہے۔۔۔ اس خیال کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔ کتنی اداسی ہے اس سیاہی میں۔ کتنا دکھ، کتنا درد، کتنا گہرا سناٹا۔ جیسے ایک گلی کی تصویر نہ ہو۔۔۔ دنیا کے سارے غریبوں کی زندگی کی تصویر ہو۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ مگر آسمان پر جوشفق کی سرخی ہے۔۔۔ اصل کمال تو یہ ہے جس سے تصویر کا مطلب ہی بدل جاتا ہے۔ بجائے مایوسی اور نِراشا کے یہ تصویر عوام کے روشن مستقبل کی جھلک دکھاتی ہے۔‘‘

    ’’یہ سرخ رنگ کااستعمال واقعی خوب کیا ہے۔‘‘

    ’’اور یہ معمولی رنگ نہیں ہے۔۔۔ یہ خون کی طرح سرخ ہے جس میں ہلکی ہلکی سیاہی دوڑتی جارہی ہے۔۔۔‘‘

    ’’آرٹسٹ نے جان کر یہ رنگ استعمال کیا ہے۔۔۔ گویا نئے سویرے کی سرخی عوام کے خون سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘

    ’’عوام کے خون سے یا آرٹسٹ کے خون سے؟‘‘

    اور اس پر سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ اتنے میں کسی نے کہا، ’’گوپال آرٹسٹ کو بھی دیکھا؟‘‘

    سب کی نگاہیں گھوم گئیں، ’’کہاں؟ کدھر؟‘‘

    ’’وہ کیا ہے۔ دبلا سلا، سوکھا سا نوجوان جودیوار کا سہارا لیے دور سے اپنی تصویر کی طرف دیکھ رہا ہے۔‘‘

    ’’جی نہیں۔ وہ نہیں ہوسکتا۔ اتنا بڑاآرٹسٹ اور ایسے پھٹے پرانے کپڑے؟‘‘

    ’’مگر میں کہتا ہوں یہی ہے گوپال۔‘‘

    ’’بیمار معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔۔۔ چہرے کا رنگ تو دیکھو۔ بالکل پیلا لگتا ہے۔ بدن میں خون ہے ہی نہیں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے