لال خط
گھر کے آنگن سے آنے والی آواز وں کی رفتار اور معیار میں عروج دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ کسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کچھ اقدامی قدم بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ ہر طرف فکری شور و غل اور فرائض سے بھری باتیں کی جا رہی ہیں۔ بڑے اپنے رعب اور بڑائی کو بر قرار رکھتے ہوئے ہر چیز کو درست کرنے کا حکم دے رہے ہیں اور چھوڑے اس حکم کو عمل میں لانے کی غیر معمولی کاوشوں میں مبتلا ہیں۔
ارے کیا ہوا حلوائی آیا کہ نہیں؟ میرے والد نے اپنی رعب بھری آواز میں میری والدہ سے پو چھا۔ مجھ سے کیا پوچھتے ہیں؟ میرے سر پر اور بھی کام ہیں والدہ نے اپنا پلّو جھاڑ تے ہوئے جواب دیا۔ ارے اس بار پہلے سے زیادہ خدمت گذاری سے کام لینا ہے سنا ہے لڑکے کے گھر والے نوابی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے والد نے اپنے فرائض کی اہمیت کو اپنی فکر کے شباب سے گزارتے ہوئے کہا۔
آج کے روز ہمارا چار دیواری والا نامی مکان بھی لب مسکراہٹ سے مزین تھا۔ اس پر لگی لائٹ اور جھالریں اس کے اس عیب کو چھپا رہیں تھیں جو کہ عرصہ دراز سے اس پر رنگ و روگن نہ ہو نے کی وجہ سے ابھر آئے تھے اور اس کے خستہ ہو نے پر ہمارے اوپر لگے ہوئے غریبی کے الزامات کو صادق بیٹھا رہے تھے۔ بیکار کے اس گھر میں جس مین مکھیاں اور مچھر بھی آنے سے گریز کر تے تھے آج یہاں پر انسان نامی جاندار بھی مو جود تھے۔ ویسے تو ہمارے حالات ابتر ہو نے کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہ تو ہمارے رشتہ دار ملنا پسند کرتے تھے ا ور نا ہی پڑوسی۔ پتا نہیں اس دن سب کو کیا ہوا تھا نہ جانے سب کس لالچ اور حرص کی غرض ایک دوسرے کی مدد و استعانت میں لگے تھے۔ بچے کھیل کود مین مشغول تھے اور گھر کے شورو غل بڑھانے میں سب سے بڑا کردار ادا کر رہے تھے۔ گھر میں سبھی اپنی حیثیت اور بساط کے مطا بق اپنے ما خوذہ کاموں میں مبتلا تھے
اور مسرّت کے ساتھ ان کاموں کو انجام دینے کی کا وشوں میں مبتلا تھے۔ گھر کے ایک کونے میں گیت بھی گائے جا رہے تھے جس میں کہیں نہ کہیں اس بات کو اہمیت دی جا رہی تھی کہ آنے والا وقت مسرت اور شادمانی کا ہے۔ نیز گھر کی ہر شئے مستقبل میں آنے والی خوشی کی پیشن گوئی کر رہی تھی۔
کیا ہوا جی ابھی تک مہمان نہیں آئے کافی دیر ہو گئی ہے میری والدہ نے میرے والد کو کام کرتے ہوئے پوچھا۔ ہاں دیر تو کافی ہو چکی ہے۔ میری بات ہوئی تو تھی جا وید (بچولیہ) سے اس نے شام پانچ بجے کا وقت دیا تھا لیکن ابھی تو چھے بجنے کو آئے والدہ نے اپنی فکر کو جملے سے منسلک کر تے ہوئے کہا۔ رو کو میں جاوید کو فون کرتا ہوں اور معلوم کرتا ہوں کے تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟۔۔۔
یہ سارے مذاکرات میری نظروں کے سامنے ہو رہے تھے اور مجھے فکر ہو رہی تھی کہ اس بار بھی کہیں اونچ نیچ ہوئی تو میرے والد کی ساری محنت ا ور منت و سماجات غرق ہو جائے گیاور آئندہ سے ان کو ئی ادھار نا دے گا۔ ہمارے معا شی حالات اس لائق بھی نہیں ہیں کہ ان کو معاش کے نام سے مو سوم کیا جائے۔ میرے بابا کچھ وقت پہلے پھیری کیا کرتے تھے اور کباڑا جمع کرکے اس سے رختہ سفر کے مانند لایا کر تے تھے جو اونٹ کے منہ میں ذیرہ کے مانند ہو پاتا تھا اور کبھی خدا پر بھروسہ کرکے فاقہ کر لییا کر تے تھے اس امید سے کے آج اگر خدا فاقہ کرا رہا ہے تو ہو سکتا ہے کہ کل کچھ غلطی سے اچھا میسّر ہو جائے ورنہ تو دال کے پانی کو سالن اور پاپڑ کے نام کو روٹی سمجھ کر اس سے زیادہ نا تو کبھی جانا تھا اور نہ ہی سمجھا تھا۔
بہر کیف کسی طرح سے زندگی کی گاڑی نہ جانے کن پہیوں پر چلتی آرہی تھی اور ہر دم ایسا لگتا تھا کہ اب مزید جی نہیں پائینگے اور بھوک و پیاس سے مر جا ئینگے لیکن خدا پیدا کرنے والے کے ساتھ کھلانے والا بھی ہے۔ ان سارے مصائبی لمحات سے دو چارہو ہی رہی تھی کہ اچانک سے میرے ضمیر نے مجھے دستک دی اور جھنجھوڑ کر کہنے لگا۔۔۔ ارے بد بخت کب تک لڑکی بن کر دکھاتی رہی گی؟ اور کب تک دوسروں کے لئے موم کا پتلا بنی رہی گی؟ اب تجھے بنو سنگار زیب نہیں دیتا۔ اب تجھے تری حقیقت پر بھی شرم آتی ہے؟ آج تجھے تری حقیقی شکل پسند نہیں؟ تو کیوں حقیقی حسن پر مجازی حسن کو فوقیت دیتی ہے؟ میں یہ ساری باتوں کو سوچتے ہوئے ایک مجسمہ کی مانند بیٹھی تھی جس پر بولنا اور ہلنا ممنوع تھا اور جس کو نمائش کے لئے تیار کیا گیا تھا ان لو گوں کے لئے جن کے پاس وہ الزامی حقوق تھے جو کہ وہ بغیر کسی دلیل اور پختگی کے اس مجسمہ عائد کر سکتے تھے۔
انہیں سب باتوں کو سوچتے ہوئے کافی وقت نکل گیا جیسے ہی خیالی دنیا سے با ہر آئی تو احساس ہوا کہ گھر کے ماحول اور حالات میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی ہے۔ سب ایک دوسرے سے مخا طب ہو کر خا موشی سے کام لے رہے ہیں ایسا لگ رہا تھا کہ گو یا ان کو ایک دوسرے سے سوال کر نے پر مجبور کیا گیا ہو۔ ہر چیز گھر میں متا نت اور سنجیدگی کے ساتھ پڑی ہوئی تھی اور سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ گھڑی کی ٹک ٹک بھو شور و غل کی مترادف تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گھر میں چاروں طرف عذاب خاموشی نا زل ہوا ہو۔ گھر کے اس ویران ماحول نے میری فکر کو ڈر میں تبدیل کر دیا تھا میرے سینے میں محصور فکر کو ابا لے لے رہی تھی اور اس مصنوعی خلعت سے باہر آنے کی کو شش کر رہی تھی جس کو زمانے نے اس کے عورت ہو نے پر اس پر تھوپ دیا تھا۔ لیکن افسوس زمانہ کی فرسودہ روایات ہمیشہ کی طرح مجھ پر غالب رہیں اور بار بار اس طعنہ کے ساتھ مجھ کو قیدی بناتی گئیں کہ تو عورت ہے تجھ پر صبر و استقامت کا دامن فرض ہے اس سے با ہر نکلنا تیری حیثیت اور بساط میں نہیں۔
ہر وہ چیز جو گھر کی رنگینیاں بڑھانے اور عیب کو چھپانے کے لئے گھر میں مو جود تھی وہ سب مجھ پر ہنس رہی تھیں اور مجھے میری لا چارگی اور کم ظر فی پر طعنہ دے رہی تھیں۔ ایک بار پھر انہیں رسومات اور فرسودہ خیالات کی جیت ہوئی جن کو زمانہ نگاہ الفت سے سرشار کرتا ہے۔ میں اپنے دل میں دعائیں، دماغ میں فکر اور آنکھوں میں انتظار لئے بیٹھی رہی اور سوچتی رہی کہ اس دینا میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ کیوں دیا گیا؟ کیا صرف اس کے لئے سر زمین پر سب سے خوبصورت یا صرف اس لئے اس سے زیا دہ چالاک اور خود غرض کوئی نہیں۔۔۔ بہر حال ایسی گفتگو کا سلسلہ میرے لئے کوئی خاص بات نہیں تھی کیونکہ اکثر جب میں پریشان رہتی تھی تو اپنے ضمیر اور کردار کو معیوب جان کر اپنے غصہ سے نجات پا لیتی تھی۔ ایک بار پھر میرا گمان میری پیشن گوئی پر صادق آیا اور اس کی تصدیق میرے والد کے اس جملہ کے بعد ہوئی جب کہ میں نے انہیں دھیمی آواز سے میری والدہ سے کہتے ہوئے سُنا کہ لڑکے والوں کو پانچ لاکھ روپئے چا ہئیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.