Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لمحہ ایک گمان کا۔۔۔

رخشندہ روحی مہدی

لمحہ ایک گمان کا۔۔۔

رخشندہ روحی مہدی

MORE BYرخشندہ روحی مہدی

    اسی چوکور کشادہ کمرے میں نرملا اور میں نے نئی زندگی کی شروعات کی تھی۔۔۔

    سامنے دیوار پر فیکسڈ نرملا کی قد آدم تصویر پر دھول جمی ہے۔ سانولی، سخت۔۔۔مضبوط اور پکے اردوں والی نرملا!! سکون کی طویل سانس بھرتے ہوئے میں نے اپنے بیڈروم کی دونوں کھڑکیاں کھول دیں۔۔۔

    ہوا کا گرم جھونکا نرملا کی تصویر سے ٹکرایا۔۔۔تصویر کافی حد تک واضع ہو گئی۔۔۔سختی سے بھنچے ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست بھوؤں اور گالوں کی ابھری ہڈیوں کے درمیان گرد کی دبیز پرت کو چھید تی آنکھیں مجھے ایک ٹک گھورنے لگیں۔۔۔نرملا کی آنکھوں سے امڑتے ناگواری کے طوفان کی پرواہ کئے بغیر میں جلدی سے گرد آلود فرش پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا۔ اے۔ سی۔ آن نہیں کیا۔ یہ کام میں نرملا کے دفتر جانے کے بعد اکثر کرتا تھا۔ بیڈ کے سامنے بچھا رہنے والا ایرانی قالین کو نے میں کھڑا میری عارضی آزادی پر مسکرا رہا ہے۔۔۔

    میں رامپور سے ممبئی نوکری کی تلاش میں آیا تھا۔۔۔

    لوکل ٹرین میں نرملا سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ ٹرین میں چڑھی تو کافی پریشان اوجلدی میں لگ رہی تھی۔ اس کو پسینے تر اور گرمی سے گھبرایا ہوا دیکھ کر میں نے اپنی سیٹ چھوڑ دی۔

    ’’تھینکس‘‘ نرملا نے غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا اور جلدی سے میری چھوڑی ہوئی سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔

    میرا دل ٹرین کی رفتار کے ساتھ دوڑ پڑا۔۔۔

    وہ اگلے اسٹاپ پر اتر گئی اور میں بھی۔۔۔

    اسٹیشن سے باہر نکلے تو اس کی گاڑی مع ڈرائیور موجود تھی۔۔۔میں سر جھکائے آگے بڑھ گیا۔۔۔

    ’’سنئے۔۔۔‘‘وہ مجھ سے مخاطب تھی۔

    میں نے غیریقینی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’میں چرچ گیٹ جا رہی ہوں ۔آپ کو ادھر جانا ہو تو میرے ساتھ چلئے۔۔۔‘‘

    دھوپ کے خطرناک تیور دیکھتے ہوئے اس آرام دہ دعوت کو مان لینا ضروری تھا۔

    راستہ لمبا تھا۔۔۔میں نے اسے اور اس نے مجھے اپنے بارے میں بتایا۔۔۔

    جلدی جلدی چار ملاقاتوں میں میرے ذہن نے یہ قبول کر لیا کہ نرملا کے ساتھ جیون کی ڈور باندھ لینا سمجھداری ہے۔۔۔

    کل ملا کر نرملا اچھی عورت اور اچھی بیوی ثابت ہوئی۔ دو چار باتوں کو گھٹاکر۔

    چمچماتے فرش پر کیچڑ سے لتھڑے میرے جوتوں کے نشان۔۔۔سیگریٹ کے ٹوٹے ہر کمرے میں جا بہ جا۔۔۔بودار موزوں کے گولے بیڈ کے نیچے گھومتے ہوئے۔۔۔ہر وہ غیر مہذب حرکت جو مجھے اچھی لگتی۔۔۔نرملا اور میرے بیچ جنگ کا بگل بجاتی۔

    ڈارئینگ روم کے وال ٹو وال کارپٹ پر کئی بار چائے الٹ گئی اور۔۔۔نرملا نے کام کرنے والی کو نکال دیا۔۔۔لیکن ڈرائینگ روم میں میرا داخلہ ایک حد تک ممنوع ہو گیا۔

    ہاں ان باتوں کے علاوہ اسکو میرے ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے اور نوکروں سے ہمدردی کرنے کے بےجا شوق سے بھی سخت نفرت تھی۔اچھا ہوا جو نرملا کو شادی سے پہلے میری ان کوالیٹیز کا علم نہ ہوا نہیں تو۔۔۔مجھے اسی وقت واپسی کا ٹکٹ کٹا کر رام پور کی ٹرین میں بٹھا دیتی۔

    میرے پہلے بیٹے آدرش کی پیدائش کے بعد۔۔۔مستقل طور پر اولاد کے جھنجھٹ سے چھٹی پا چکی تھی وہ۔ میرااحتجاج بےقیمت تھا۔۔۔

    آدرش کو مجھ سے ہر طرح سے الگ بنانے کے لئے ڈے بورڈنگ اسکول میں ایڈمیشن دلوایا تھا نرملا نے اور اسکول پورا ہوتے ہی آدرش کو کالج کی پڑھائی کے لئے یو ایس لے جا نے کی پوری تیاری کرنے کے بعد مجھے بتایا تھا۔ بڑے ملکوں کے طور طریقے وہ اچھی طرح جانتی ہے۔۔۔وہ خود کئی بار بزنس ٹریپ پر یورپ اور امریکہ جاتی رہی ہے۔لیکن نوجوان بیٹے کو اکیلا بھیجنا اسے ٹھیک نہ لگا۔

    آدرش کے روشن مستقبل کے لئے میں نے اپنی پرائیویٹ نوکری چھوڑ دی۔ نرملا کا بزنس تو خیر سے پھلا پھولا تھا۔ اس کے دونوں بھائی اور بھروسے کے منیجر نے سارا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا اور۔۔۔نرملا آدرش کو اور مجھے بھی لے کر چھ سال کے لئے یو ایس چلی گئی۔۔۔بہ مشکل پونے چار سال گزرے۔۔۔میں وہاں بھی وبالِ جان بن گیا۔

    اور آخرکار نرملا نے تنگ آکر کچھ وقت کے لئے مجھے ممبئی بھیج دیا ہے۔

    میں اپنی سوچ پر شرمندہ سا۔۔۔نرملا کی تصویر کی غضبناک نظروں کی تاب نہ لا سکا۔۔۔اور دھول سے اٹے بیڈ پر نرملا کی تصویر سے منھ چھپاکے لیٹ گیا۔۔۔

    نرملا اپنے بزنس اور آدرش کے مستقبل کی معماری میں بےحد بزی رہتی اور۔۔میں کافی فری!

    میری مصروفیات میری طرح کم تر تھیں۔صبح ۱۰ بجے اپنے معمولی سے دفتر جانا، شام چار بجے واپس گھر لوٹ آنا۔۔۔

    گھر آتے ہی نرملا کے لائے امپورٹڈ شاور جیل سے نہا کر قیمتی ڈیوڈورینٹ میں بس کر تازہ استری کئے کپڑے پہن لینا۔۔۔

    چھت پرشام کے سورج کو الوداع کہتے ہوئے تاروں کے کارواں کا پرشوق استقبال کرنا۔

    اور۔۔۔

    برابر والی کوٹھی کی برساتی کے صحن اور میری چھت کی مشترکہ قد آدم د یوار سے لگ کر بوگن ویلیا کے گلابی پھولوں کے گچھوں کے درمیان چھپ کر گوری گوری شرمائی لجائی مسز احمد کو تاکنا۔

    مسز احمد بڑے سے دوشالے میں چھپی رہتیں۔۔۔میری طرف پیٹھ کئے اپنے کاموں میں مشغول دھوپ میں ان کے سنہری بال اور زیادہ سنہری ہو جاتے۔۔۔

    احمد صاحب کسی ریاست کے نواب رہے ہیں شاید۔ بڑا شاہی مزاج رکھتے ہیں۔ نماز پانچ وقت سے زیادہ کی بلا ناغہ ادا کرتے۔۔۔لیکن حقوق اجواز سے مکمل طور پر نابلد۔۔۔کھانے کے وقت بیگم احمد صاحب کے سامنے سفید چینی کی پلیٹ میں بھاگم بھاگ توے سے اتری گرما گرم روٹیاں رکھتیں۔۔۔اور زرادیر ہونے پر۔۔۔احمد صاحب کی دھاڑ کے ساتھ۔۔۔وہ روٹی کے ساتھ سینک دی جاتیں۔۔۔قورمے کے مصالہ کے ساتھ بھون دی جاتیں۔۔۔ان کا گورا گورا چہرہ لال لال ہو جاتا۔۔۔اور۔۔۔نرم گرم روٹیوں کا تانتا بندھ جاتا۔۔۔مسز احمد اکثر میرے گھر کے دروازے کے باہر نرملا سے میرے پودھوں کی تعریف کرتیں۔ گھر کے اندر آتے ہی نرملا کا شہنشاہی حکم صادر ہوتا۔۔۔اور۔۔۔چھت کے دروازے کا تالا بند ہو جاتا۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ۔۔۔میرے پا س ڈپلیکیٹ چابی رہتی تھی۔

    دیوالی پر نرملا احمد صاحب کے یہاں ملازمہ کے ہاتھ پرساد بھجواتی۔۔۔اور عیدپر وہ لوگ اپنے گاؤں چلے جاتے۔

    ایک عید پر احمدصاحب کو چھٹی نہیں ملی۔

    اور خوش قسمتی سے اس دن دروازہ میں نے کھولا۔

    کنچن سی دھلی دھلائی کایا پر سادگی سے لپٹی بسنتی لکھنوی چکن کی ساڑی میں۔۔۔وہ میرے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں۔۔۔چار انگلیاں چاند سی پیشانی تک لے جاکر جھجھک گئیں۔۔۔آنکھوں پر بدستور سنہری دراز پلکوں کی جھالر گری رہی۔۔۔میرے ندیدے پن کو دیکھے بغیر محسوس کرکے بےطرح بوکھلا گئیں اور۔۔۔دروازے کے آٹومیٹک ہینڈل کو مخاطب کرکے مدھم سر میں گنگنائیں۔۔۔’’عید مبارک۔۔۔یہ سوئیاں۔۔۔‘‘

    ہاتھوں میں بلوریں پیالہ۔۔۔نہیں۔۔۔بلوریں ہاتھوں میں پیالہ تھامے وہ میرے عین مقابل تھیں۔۔۔دل چاہا پیالے کے ساتھ انہیں بھی رکھ لوں۔۔۔لیکن انکی نازک کلائیوں پر ظلم کیسے برداشت کرتا۔۔۔میں نے جلدی سے پیالہ پکڑ لیا۔ پیالے پر انکی ملایم انگلیوں کی لطیف گرماہٹ کو میں نے اپنی سرد انگلیوں میں محسوس کیا۔

    وہ جا چکی تھیں۔

    اس دن میں نرملا کو یہ سمجھانے میں قاصر رہا۔۔۔کہ صبح سویرے میری بنائی بیڈ ٹی اتنی شیریں کیسے ہو گئی۔۔۔نرملا کو ڈائبٹیز تھی۔

    نرملا نے چائے کا ایک گھونٹ لے کر غصے سے آنکھیں تریریں تھیں۔

    رات میں ٹمٹماتے تارے گنتے ا کثر میں اپنے پیارے ٹرانسیسٹر کا والیوم بڑھا دیتا اور چپکے سے سر اٹھا کر مسز احمد کی چھت پر جھانک لیتا۔۔۔وہ پیٹھ موڑے احمد صاحب کے تڑخے ہوئے تلوؤں میں اپنے حریری پوروؤں سے مالش کرتی ہوتیں۔۔۔اور احمدصاحب کے دلدوز خراٹوں کی گونج سنتے سنتے اونگھتی ہوئی کمرے کے در کو بھیڑ لیتیں اور میں گانے کی والیوم کو دھیما کرتے ہوئے نیچے اتر آتا۔۔۔نرملا بے سدھ سوئی ہوتی اور میں یہ سوچتا کہ۔۔۔۔

    مسز احمد باہر بھی تو سو سکتی ہیں۔۔۔مسٹر احمد کے برابر والے خالی فولڈنگ بیڈ پر!!

    آج بھی میرا پیارہ ٹرانسسٹر یہیں سایڈ ٹیبل پر وموجود ہے۔۔۔ہائی اسکول کے بہترین ریزلٹ پر پتا جی نے مجھے انعام میں دیا تھا۔۔۔جلدی سے سارے سوئچ گھما ڈالے۔ میرا ٹرانسسٹر میرا گرم جوش لمس پاکر لہک اٹھا۔

    ’تجھے کیا سناؤں میں دل ربا تیرے سامنے میرا حال ہے۔

    تیری ایک نگاہ کی بات ہے میری زندگی کا سوال ہے۔

    اس دن یہی گاناسنتے ہوئے میں اپنے پودھوں سے گفتگو میں مصروف تھا۔۔۔میری نظر بے ارادہ اٹھ گئی۔ دیوار کے پار۔

    احمد صاحب کے ململ جھک سفید کرتے میں گھلی ملی سفید انگلیاں گاڑے وہ کڑھائی کر رہی تھیں۔۔۔میں بظاہر انجان سا اپنے پودھوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس مہا نگر میں جہاں کسی کو میرے لئے وقت نہیں۔۔۔وہ ہی تو ہیں میرے اپنے۔۔۔

    بوگن ویلیہ کے گلابی گچھوں کے درمیان میں نے جھانکا۔۔۔ململ کا جھک سفید کرتا سرخ گل بوٹوں سے سجنے لگا۔۔۔وہ بار بار اپنی انگلی جھٹکتی رہیں۔۔۔مگر تازہ تازہ سرخ خون کرتے کے گریبان کو سرخ کرنے لگا۔۔۔آستینوں والے لمبے بنیان اور ٹخنوں کھلے پاجامے میں احمد صاحب باتھ روم سے باہر نکل آئے تھے۔۔۔کرتے پرابھرتے تازہ گل بوٹے جمعہ کی نماز میں آڑے آ گئے۔۔۔بلوریں کلائی پر احمد صاحب کی گرفت سخت ہونے لگی۔۔۔

    میرے زبان پر گانے کے بول دم توڑ گئے۔۔۔تازہ گلاب کی نرم و نازک ٹہنی میرے ہاتھ میں چلتی لوہے کی بڑی قینچی کی ضد میں آ گئی۔۔۔اورادھ کھلا گلاب بےجان ہوکر گر پڑا۔۔۔میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوکر ٹوٹے ہوئے پھول کو اٹھا کر پیار سے تھپتھپانے لگا۔۔۔میں نے ہمت بٹور کر ادھردیکھا۔۔۔

    انکی چھت خالی تھی۔۔۔میرے دل میں امید کی منی سی کرن سر اٹھاکر بولی۔ کاش۔۔۔عید پر اس سال احمدصاحب کو چھٹی نہ ملے۔۔۔!!

    میں نے کروٹ بدلی۔۔۔ایک عرصہ کے بعد اپنے میلے بستر پر اپنے پن کا احساس بڑھ گیا۔۔۔میں نے تکیے کو لات مار کر بستر سے نیچے گرا دیا۔۔۔شرٹ اتار کر دور اچھال دی۔

    نرملا کی قدآدم تصویر مجھے اب اور بھی ناراضگی سے گھور رہی ہے۔۔۔ماتھے کی بڑی بندیا۔۔۔۔مانگ میں سیندور اور عنابی بنارسی ساڑی میں۔۔۔ہونٹ غصے میں بھنچے ہوئے۔۔۔آنکھوں میں حقارت۔۔۔میں شرمندہ ہونے لگا۔۔۔۔نرملا گرم کی نظروں کی تاب نہ لاکر آنکھیں کس کے بند کر لیں۔۔۔صبح جلدی سے ہو جائے اور میں اپنی چھت پر جاؤں۔۔۔بوگن ویلیا کی گلابی پنکھڑیوں سے آنکھ مچولی کھیلوں۔۔۔اپنے پودھوں کے گلے شکوے دور کروں!!

    صبح اندھیرے ہی۔۔۔ایک عجیب سے شور نے مجھے بیدار کر دیا۔۔۔میں نے دھول سے اٹی گھڑی میں وقت دیکھنے کی کوشش کی۔ آنکھیں مل کر دیکھا۔۔۔شاید پانچ بجے تھے۔۔۔گھٹی گھٹی نرم چیخ سن کر میں اپنی شرٹ ڈھونڈھتا ہوا بستر سے کودا۔۔۔اور چھت کی طرف دوڑا۔۔۔سویرے کی ہلکی دھند کی تہہ میں دیوار کے پار۔

    مسز احمد اور احمد صاحب ایک دوسرے میں الجھے ہوئے تھے۔۔۔احمد صاحب صرف نیلے چوخانے تہبند میں۔۔۔اور مسز احمد پہلی بار بغیر دوشالے کے۔۔۔میری نیند سے بوجھل آنکھیں اور پھولی ہوئی سانس دونوں جم گئے۔

    مسز احمد کا سنہرا جوڑا احمد صاحب کی مٹھی میں کانپ رہا تھا۔۔۔مسز احمد کے ہاتھ سے پودھوں میں پانی کی دھار دیتا ربڑ کا پائپ چھوٹ گیا۔۔۔مسز احمد کی حریری ہتھیلیاں لرزنے لگیں اور احمد صاحب کی کھچڑی داڑھی کے سامنے جڑ گئیں۔۔۔وہ کمر کے بل جھکی جا رہی تھیں۔ درد کی کرب ناک لہریں انکے سرخ چہرے سے دوڑ کر میرے دل پر شگاف ڈالنے لگیں۔ انکی سنہری پلکیں اب تک انکی آنکھوں پر ڈھکی تھیں۔۔۔اسی کشاکش میں۔۔۔سنہری جوڑا بکھر گیا۔

    میرے دل کی بڑھتی ہوئی دھڑکن ڈوب گئی۔۔۔احمد صاحب نے انکی کانپتی حریری ہتھیلیاں چیتے کی سی پھرتی سے اپنے قبضے میں کر لیں۔۔۔دیوار پر چڑھ نے کے لئے میں بوگن ویلیا کے بڑے گملے پر کھڑا ہو گیا۔۔۔بلوریں کلائیاں احمد صاحب نے ایک جھٹکے سے جھنجھوڑ دیں۔ بلوریں کلائیوں پر ضرب۔۔۔میرے دل میں چھن چھن کرکے انکی شیشے کی نازک کلائیاں چرمرائیں۔

    احمد صاحب نے فرش پر پڑا پانی سے بھرا ربڑ کا موٹا پائپ اٹھا لیا۔۔۔میں نے کس کے دیوار کو جکڑ لیا۔۔۔اور ایک قدم دیوار پر جمانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔پائپ سے ابلتی پانی کی تیز دھار انکی بےداغ چاند پیشانی پر۔۔۔انکی شفاف گردن پر۔۔۔اور انکے چمکتے سونا بکھیرتے بالوں پراور۔۔۔

    انکی نارنجی قمیص کے بندگریبان پر۔

    وہ گنگا جل سے دھلی دھلائی۔۔۔پوتر دیوی۔

    میں بےدل۔۔۔بےجان۔۔۔بےاختیار۔۔۔دیوار پر چڑھنے لگا۔۔۔وہ پانی کی دھار سے بوکھلائی ادھر ادھر بچنے لگیں۔۔۔سڑا سڑ کی آوازیں میرے دماغ کو معروف کرنے لگیں۔

    میں دیوار پر آدھا لٹک کر انکی طرف کودنے کو تیا رہوا۔

    ہچکیوں کی لڑیوں نے انکے بھرے بھرے وجود میں ارتعاش پیدا کر دیا۔۔۔وہ احمد صاحب کے قدموں میں جھکنے لگیں۔۔۔انکی حریری ہتھیلیاں اب بھی جڑی ہوئی تھیں۔۔۔

    بھاری پائپ کے بوجھ سے احمد صاحب ہانپ گئے۔ وہ پائپ کو بھیگی ہوئی مسز احمد کے اوپر پھینک کر کمرے میں کوچ کر گئے۔۔۔سرخ چہرہ۔۔۔بھیگی مسز احمد۔۔۔اچک کر میں نے ایک پیر دیوار پر رکھا میرا ایک پیر اب بھی لٹک رہا تھا۔

    سنہری پلکوں کی جھالر میری جانب اٹھی۔

    ہرے سمندر کناروں سے ابل پڑے۔۔۔ہرے سمندر وں میں سنامی آ چکا تھا۔۔۔آنسوؤں سے لبریز انکی سبز پتلیاں مجھے دیکھ رہی تھیں۔۔۔انکی آپس میں جڑی ہتھیلیاں اب میری طرف اٹھنے لگیں۔ ایک پیر دیوار پر اور دوسرا لٹکاہوا۔۔۔میں ہرے سمندروں میں ڈوب گیا۔۔۔نوخیز صبح کے ماتھے پر سورج کی سیندوری لالی بکھر گئی۔

    سہمی سہمی شبنمی مسز احمد۔۔۔بند گلابی ہونٹوں میں مسکرا دیں۔۔۔بلوریں نازک ہتھیلیاں ایک دوسرے سے جدا ہوئیں۔۔۔اور ابلتے ہرے ہرے سمندروں پر بادبان بن گئیں!!!

    وہ اپنی آنکھیں اپنی ہتھیلیوں سے ڈھانپے شرم سے مسکرائے جا رہی تھیں۔

    بوگن ویلیا کے پھولوں کے گچھے مہک اٹھے۔ میرے پودھوں میں کھلے سرخ گلاب، موگرے اور چمیلی کے پھول سر اٹھا کر میرے ساتھ دیوار کے پار تاکنے لگے۔

    میں کسی آزردہ وجود کے مسکرانے کی خوبصورت وجہ بن سکا!! وہ مقدس دیوی۔۔۔میرے دل کے کھلتے کنول کی پھیلی پتیوں پر براجمان تھیں۔۔۔

    آج۔۔۔زندگی میں پہلی بار۔۔۔مجھے اپنا بےکار وجود بھاری بھرکم لگنے لگا۔

    میں دھم سے اپنی ٹھنڈی چھت پر گر پڑا۔

    ایک لمحہ ضائع کئے بغیر میں اپنے بیڈروم کی طرف دوڑ گیا۔

    چرمی بیگ کی اندرونی جیب سے اپنا پاسپورٹ نکالا۔۔۔

    دس سال کے ملٹی پل یو ایس ویزا کی اسٹیمپ لگے صفحے کو پاسپورٹ سے ایک جھٹکے میں الگ کر دیا۔

    اور۔۔۔اس صفحے کے ان گنت ننھے ننھے پرزے کر دئے۔

    اور۔۔۔ننھے ننھے پرزوں کو اپنی ہتھیلی پر رکھا۔

    اور۔۔۔ایک زوردارپھونک مارکر۔۔۔کھڑکی کے باہر کھلی فضا میں اڑا دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے