لمحے
کہانی کی کہانی
لمحاتی خوشی کے بعد صدمہ سے دوچار ہونے کی کہانی ہے۔ اماکانت بس میں دو بچوں والی ایک خوبصورت عورت کو دیکھتا ہے، وقت گزاری کے لئے وہ اس سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ پہلا جھٹکا اسے تب لگتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت اس کی ہم مذہب نہیں ہے اور پھر جب وہ بس سے اترتی ہے تو اس کو لنگڑا کر چلتے ہوئے دیکھ کر اس پر ہمدردی کا جذبہ طاری ہو جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ فساد انسان کی سوچ کو کس طرح تبدیل کرتے ہیں اور ان کا نفسیاتی ردعمل کیا ہوتا ہے، اس کی ایک جھلک اس کہانی میں پیش کی گئی ہے۔
سوم کا دن تھا۔ یوں تو میں اپنے دوستوں کی بہت قدر کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ دوستوں کی صورت تک نہ دکھائی دے اور میں محض اپے لیے ہی ہوکر رہ جاؤں۔ میرے دوستوں کی تعداد بہت کم ہے، اس لیے مجھے ایسے دن بھی میسر آ جاتے ہیں۔
جس روز کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہ اسی قسم کا دن تھا۔ صبح کا وقت تھا، پیشتر اس کے کہ کوئی دوست میرے مکان پر پہنچ کر ’’اماکانت! اماکانت!‘‘ کے نعرے لگاتا، میں چائےسے فارغ ہوکر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ نہ بیوی، نہ بچے، نہ ملازمت، نہ کاروبار، نہ خوشی، نہ غمی، عجب رندانہ کیفیت میں زندگی بسر ہو رہی تھی۔ میری بیکاری سے گھر والوں کی ناخوشی کے باعث دل پر اداسی چھائی رہتی تھی۔ کوئی ذمہ داری نہ ہونے کی وجہ سے دماغ ہلکا رہتا تھا۔ اپنی بیوی نہ ہونے کے سبب سے ذہن پر رومانیت کا تسلط تھا۔
بس اسٹینڈ پر پہنچ کر دیکھا کہ کناٹ پلیس جانے کے لیے بس تیار کھڑی ہے۔ اندر اکا دکا مسافر بیٹھے ہیں، میں نے فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر جیب میں سے’کیملز‘ کی ڈبیا نکالی اور بڑے اطمینان سے ایک سگریٹ کو سہلاتا رہا، پھر اسے ہونٹوں میں دبایا اور سلگا کر طویل کش لیا۔ بالآخر کوٹ کے کالر درست کرتا ہوا بس کے اندر داخل ہو گیا۔ آٹھ بجے تھے۔ بھلا سردی کے موسم میں کسی کو کیا پڑی تھی کہ گھر کی گرم فضاسے نکل کر باہر کو اٹھ بھاگے۔ چنانچہ بس میں ایک عجیب سکون طاری تھا۔ چند لوگ ایک دوسرے سے پرے پرے بیٹھے دھیرے دھیرے باتیں کرنے میں محو تھے۔
میں نے پہلے تو عورتوں اور لڑکیوں کا جائزہ لیا۔ تین لڑکیاں تھیں اور دو عورتیں۔ لڑکیاں گوری تھیں۔ دو دو چوٹیاں، آنکھیں بڑی نہ چھوٹی، باتیں میٹھی نہ پھیکی۔۔۔ لیکن گال۔۔۔ اف توبہ۔۔۔ اس قدر بیہودہ گال! ہڈیاں ابھری ہوئیں اور گہری گہری لکیریں جو ہنستے وقت اور گہری ہو جاتی تھیں۔۔۔ اب دوسری عورت کی جانب دیکھا۔۔۔ ہرے رام! وہ تو صورت سے بالکل آیا لگی۔ شاید سچ مچ کی آیا ہو۔ اسی بات سے مجھے خیال آیا کہ ہم لوگ بچوں کے لیے کس قدر بدصورت آ یائیں مقرر کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عمر بھر ہمارے بچوں کی جمالیاتی حس پنپنے نہیں پاتی۔۔۔ خیر اب ایک عورت کا جائزہ لینا باقی تھا۔ وہ میری جانب پیٹھ موڑے بیٹھی تھی۔ اس کے کندھے پر ننھے بچے کا سر ٹکا تھا اور ایک بچی سامنے کی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ گویا وہ کم از کم دو بچوں کی ماں تھی۔
دل پر مایوسی کا جذبہ طاری ہونے لگا۔ بیس پچیس منٹ کا یہ سفر یونہی کٹ جائےگا۔ دل بہلاوے کی کوئی حسین صورت دکھائی نہ دےگی۔ کیا یہ سفر جماہیاں لیتے ہی بتانا پڑےگا۔ سوچا۔۔۔ اگر دو بچوں کی ماں بدصورت ہے تو اپنی بہنوں سے بڑھ کر کیا ہوگی۔ یہی نا کہ ان کے برابر ہوگی یا ذرا بہتر۔ آخر یہی طے پایا کہ اس خاتون کے عین پیچھے والی سیٹ پر ڈیرا جمایا جائے۔ پچھلی سیٹ پر چپکے سے بیٹھ کر میں نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بالوں کی تہ جمائی اور پھر انتظار کرنے لگا کہ وہ ذرا ادھر ادھر گھوم کر دیکھے تو صورت کا جائزہ لیا جائے۔ لیکن وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر سامنے کی جانب منہ کیے چپکی بیٹھی رہی۔ یہاں تک کہ بس چل دی۔
مجھے بےچینی سی محسوس ہونے لگی۔ بارے کنڈکٹر نے آکر دام طلب کیے۔ ٹکٹ لیتے وقت خیال آیا کہ کاش اس خاتون سے تھوڑی بہت بات چیت ہو چکی ہوتی تو اس کے ٹکٹوں کے دام دے کر اچھے خاصے مراسم پیدا کیے جا سکتے تھے۔ جب اس کی باری آئی تو اس نے منہ پھیر کر دیکھا۔ رخ روشن کا جلوہ دکھائی دیا۔۔۔ دل دھک سے رہ گیا۔ وہ واقعی بہت حسین تھی۔ تارا سی آنکھیں، نازک لب اور درخشاں پیشانی۔۔۔ خلافِ امید اس عورت کو حسین پاکر ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس سے گفتگو کیوں کر شروع کی جائے۔ کون سا موضوع مناسب رہےگا۔ موسم۔۔۔؟ لیکن ہندوستان میں ابھی موسم کے موضوع پر گفتگو کا آغاز کرنا خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔ اس عورت سے یہ کہنا کہ آہا! کیا ہی خوشگوار موسم ہے محض بیکار ہوگا۔ سنیما، ایکٹر، ایکٹرسیں، بسیں، سڑکیں۔۔۔ نہیں، نہیں، یہ باتیں مہمل ہیں۔۔۔ اتنے میں عورت کے شانے کے ساتھ لگے ہوئے ننھے بچے نے آنکھیں کھولیں اور حیرت و استعجاب سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ بڑا پیارا بچہ تھا۔ میں نے اس کے گال پر ہلکی سی چٹکی لی تو اس کے چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ پھر میں نے دونوں انگلیوں سے اس کی ٹھڈی کو ہلکے ہلکے سہلانا شروع کیا تو وہ ہنسنے لگا۔۔۔ میں جانتا تھا کہ اس کی ماں کو اس بات کاعلم ہو چکا ہے۔ بچےکے کانوں کے پیچھے داد کے نشان دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے جرأت سے کام لے کر پوچھا، ’’کیوں جی! ننھے کے کانوں کے پیچھے داد ہو رہا ہے۔۔۔‘‘
’’جی۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘
’’تو کیا آپ اس کا علاج نہیں کرائیں گے؟‘‘
’’علاج تو ہو رہا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا ہومیوپیتھی علاج کرا رہی ہیں؟‘‘
’’جی نہیں، ہے تو ایلوپیتھی۔‘‘
’’ایک ڈاکٹر ہیں رچی رام۔ ہومیو پیتھی علاج کرتے ہیں۔ خصوصاً بچوں کے علاج میں تو انہیں مہارت حاصل ہے۔ اگر یہ علاج مؤثر ثابت نہ ہوا، تو ان سے رجوع کیجیےگا۔‘‘
’’بہتر۔‘‘
’’بہت ہی پیارا بچہ ہے۔‘‘ میں نے سلسلہ کلام جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ عورت نے بچے کو شانے سے ہٹا کر کھڑکی کے ساتھ پیٹھ لگا لی۔ اب اس کا رخ قریب قریب میری جانب تھا۔ اس نے بچے کو زانو پر بٹھا کر دیکھنا شروع کیا کہ وہ واقعی حسین ہے یا نہیں۔ پھر جیسے دل ہی دل میں اس نے میرے قول کی تائید کرتے ہوئے میٹھی نظروں سے میری جانب دیکھا۔
’’آپ کو بچوں سے خاصا لگاؤ ہے۔ کیا آپ کے بھی بچے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ میں نے قدرے جھینپ کر کہا، ’’ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی۔‘‘
’’کیوں شادی نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’یونہی۔‘‘ میں نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا، ’’یہی، ابھی بے کار ہوں۔ جب تک آمدنی کی معقول صورت نہ ہو، دل میں شادی کا خیال بھی نہیں آ سکتا۔‘‘
’’لیکن آپ بیکار کیوں ہیں؟‘‘
میں اس جرح سے گھبرا گیا تھا، ’’میں نے پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے۔ کرنے کے بعد پشاور میں کاروبار شروع کیا تھا۔ آمدنی کی صورت نظر آنے لگی تو فساد شروع ہو گئے اور مجھے ادھر بھاگنا پڑا۔۔۔ اب نئے سرے سے کام کرنے کا خیال ہے۔‘‘
عورت کی آنکھوں میں اداسی کی جھلک دکھائی دی۔ اس وقت وہ کچھ کھوئی کھوئی سی نظر آ رہی تھی۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے حسین چہرے کے خد و خال کا بغور جائزہ لینے لگا۔ کیا وہ میری خاطر اداس تھی؟ ایک لمحے کے لیے ہی سہی۔۔۔! کاش! مجھے بھی ایسی ہی موہنی بیوی مل جائے۔ کہتے ہیں کہ عورت مرد کے دلی جذبات کو بہت جلد پہچان لیتی ہے۔ عورت نے نظریں جھکا لیں اور پھر قدرے تامل کے بعد نہ معلوم کیوں۔۔ بڑی بچی کی جانب اشارہ کر کے مسکراکر بولی، ’’یہ میری بیٹی ہے۔‘‘
’’آؤ بیٹی! میرے قریب آؤ۔۔۔‘‘ میں نے ہاتھ پھیلائے۔ وہ مارے شرم کے آگے نہیں بڑھی تو میں نے خود ہی بڑھ کر اسے گود میں بٹھا لیا۔
’’آہاہاہا۔۔۔ بڑی اچھی ہے ہمارے بے بی۔۔۔ اچھا تو تم پڑھتی ہو کیا؟‘‘ لیکن وہ بڑے اہتمام کے ساتھ شرماتی رہی۔ عورت بولی، ’’بتاؤ نا بےبی! تم سے کے مرتبہ کہا ہے کہ یونہی مت شرمایا کرو۔‘‘ میں نے سوچا، کس قدر مہذب ہے یہ عورت۔ اس کی بات چیت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ پڑھی لکھی اور خاصی سلجھی ہوئی ہے۔ ماں کے سرزنش کرنے پر بیٹی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’کیا پڑھا ہے بھئی ہمیں بھی سناؤ۔۔۔ تم تو بہت اچھی بے بی ہو۔ تمہیں تو پڑھا لکھا یاد ہوگا سارا، بولو یاد ہے؟‘‘
’’ہاں جی۔‘‘ بےبی نے بڑی بڑی آنکھیں اٹھا کر بھرپور نظروں سے میری جانب دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس بات کا اقبال کرنے میں اسے بہت فخر محسوس ہو رہا ہے۔
’’اچھا بھئی پھر سناؤ نا! کیا پڑھا ہے تم نے؟‘‘
’’اے، بی۔ سی۔ وائی۔ زیڈ۔‘‘
اس پر ہم دونوں قہقہہ مار کر ہنسے۔ میں اور وہ عورت۔ ہم دونوں جو ایک دوسرے سے بہت دور تھے، لیکن قہقہوں کی ملی جلی آواز سے یوں محسوس ہونے لگا جیسے کسی فلم کے ہیرو اور ہیروئین کوئی سحر انگیز ڈوئیٹ گا رہے ہوں۔ عورت نے بمشکل ہنسی روکتے ہوئے کہا، ’’اری بےبی! تجھے اے، بی، سی، ابھی تک یاد نہیں ہوئی۔ سی کے بعد ایک دم وائی زیڈ؟‘‘
اب ہماری ملاقات قابل اطمینان درجے تک آن پہنچی تھی۔ اب بیشتر خدشات دور ہو چکے تھے۔ ہم دو بہت اچھے واقف کاروں بلکہ دوستوں کی طرح گفتگو کرنے لگے۔ بیس یا پچیس منٹ کے سفر میں زیادہ باتیں نہیں ہو سکتی تھیں، لیکن اگر احساسات کو لیجیے تو لمحہ بھر میں کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ ایک میٹھی نظر تھی کہ زندگی کے ان لمحوں کو رنگین بناتی چلی گئی۔ اس کی آواز میں ایسا لوچ اور رسیلاپن تھا کہ مدتوں کانوں میں شہد سا گھلتا رہا۔ ادھر ادھر کی باتوں میں ہم اس قدر محو تھے کہ اردگرد کی کچھ خبر نہیں رہی تھی۔۔۔ جب میں نے جنگل میں شیر کے فرضی شکار کی کہانی سنائی اور جھوٹوں ہی کہہ دیا کہ میں نے شیر کے سامنے کھڑے ہو کر اس پر گولی چلائی تھی تو عورت کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ حیرت سے بولی، ’’لیکن میں نے تو سنا ہے کہ شیر کا شکار مچان پر بیٹھ کر کیا جاتا ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ میں نے بے پروائی سے سگریٹ کا بجھا ہوا ٹکڑا ہوا میں پھینکتے ہوئے جواب دیا، ’’لیکن کہنہ مشق شکاری مچان پر کبھی نہیں بیٹھتے ہیں۔‘‘
وہ سچ مچ میری بات پر ایمان لے آئی۔ باتوں باتوں میں مجھے خیال آیا کہ مرد کے دل میں عورت کی کشش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورت کے سامنے وہ دل کھول کر جھوٹ بول سکتا ہے اور عورت بھی ہردم جھوٹ سننے کے لیے تیار رہتی ہے۔ ہوشیار سے ہوشیار عورت بھی بالآخر اسی مرد کو پسند کرتی ہے جس کے جھوٹ پر وہ اعتبار کر سکے۔ عورت طفلانہ انداز سے کئی بات پوچھتی رہی اور میں بڑی توجہ سے ان کے جواب دیتا رہا۔۔۔ گناہ و ثواب، پیار، محبت، عشق و حسن اور شرافت و خباثت کی گھلی ملی سی یہ ملاقات کس قدر دل کش اور جان لیوا تھی۔۔۔ اس سہانی صبح کو دو اجنبی مسافروں کی مختصر سی ملاقات، تاریخ عالم کا کس قدر اہم واقعہ!
عشق کی منزل تو کیا آتی۔۔۔ البتہ بس کی منزل قریب آ رہی تھی۔ بے بی ابھی تک میری گود میں بیٹھی تھی۔ دفعتاً مجھے محسوس ہوا کہ کام نکل جانے کے بعد بےبی کو تو میں بھول ہی گیا تھا۔ میں نے محجوب ہوکر بےبی کی بغلوں کو گدگدایا، ’’ارے بے بی! تم تو کوئی بات ہی نہیں کرتیں۔۔۔ کیا تم ہم سے خفا ہو۔‘‘ وہ چپ رہی۔
’’بولو۔۔۔ بےبی۔‘‘
’’لاہیں۔‘‘ بےبی نے انکار کے طور پر سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا تو بتاؤ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’میرا لام؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’سول تاناں۔‘‘
’’سلطانہ۔‘‘ عورت نے کہا۔ مجھے پہلی مرتبہ اس بات کا علم ہوا کہ وہ مسلمان ہیں۔ سلطانہ کی بغلوں کو گدگداتے ہوئے میرے ہاتھ رک گئے۔ میں نے قدرے ہچکچاتے ہوئے دریافت کیا، ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘
’’جی۔‘‘ یہ کہہ کر عورت نے میری طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔
’’نہیں کچھ نہیں۔‘‘ میں ہنس دیا، ’’مجھے ہوا کیونکہ بظاہر۔۔۔‘‘ پھر قدرے بھدی سی خاموشی طاری ہو گئی۔ بات کچھ بھی نہیں تھی۔۔۔ میں نے سکوت توڑتے ہوئے پوچھا، ’’فساد کے دنوں میں آپ دہلی ہی میں تھیں؟‘‘
’’جی ہاں ہم سب یہیں تھے۔‘‘
میرے دل کو نہ معلوم کیا ہونے لگا۔ میں نے رکی رکی آواز میں پوچھا، ’’آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟‘‘ عورت نے قدرے سکوت کیا، ’’بس کچھ نہ پوچھیے۔ مالی نقصان بہت ہوا، جانیں بچ گئیں۔ یہی غنیمت سمجھیے۔ کناٹ پلیس میں ہماری دکان لٹ گئی۔ مکان میں فسادی گھس آئے۔۔۔ لیکن پیشتر اس کے کہ کوئی نقصان ہوتا پولس آ گئی۔۔۔‘‘ میرا سر جھک گیا۔۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اسٹینڈ پر پہنچ کر بس رک گئی۔ اس خیال سے کہ عورت تنہا ہے اور بچے دو، شاید اسے میری مدد کی ضرورت ہو، میں نے اپنی سیٹ سے اٹھنے میں تامل کیا لیکن عورت کے ہلکے پن سے روشن ہوا کہ میری مدد درکار نہیں ہے۔ چنانچہ میں شریف مرد کی طرح اٹھ کر چل دیا۔ چند قدم چلنے کے بعد میں نے یونہی گھوم کر دیکھا کہ وہ عورت اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھ رہی ہے، لیکن اس کے قدم اکھڑے اکھڑے دکھائی دیتے تھے۔ وہ قدرے لنگڑا کر چل رہی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ اگر اس کی ٹانگ میں یہ نقص نہ ہوتا تو وہ قدم قدم پر فتنے جگاتی۔ ایسی حسین عورت اور یہ عیب!
دفعتاً ہماری نظریں ملیں۔۔۔ غالباً وہ سمجھے بیٹھی تھی میں چلا گیا ہوں۔ مجھے ایک مرتبہ پھر اپنے سامنے پا کر وہ پریشان سی ہو گئی جیسے کہہ رہی ہو، ’’آخر تم نے مجھے لنگڑا کر چلتے ہوئے دیکھ لیا نا؟‘‘ محجوب ہو کر اس نے اپنا گلابی ہوتا ہوا چہرہ جیسے جھکا لیا اور پھر جیسے روٹھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ میں اسے منانے کے لیے آگے بڑھا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا اور اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے دل ہی دل میں کہا، ’’معزز خاتون! تم بہت حسین ہو۔ تم حسن کی پتلی ہو، تم کیا جانو میں ان چند دلفریب لمحوں کے لیے تمہارا کس قدر شکر گزار ہوں۔۔۔‘‘ اور پھر میں نے قدرے بلند آواز میں کہا، ’’معاف کیجیےگا۔۔۔ آپ کچھ پریشان سی نظر آتی ہیں۔ کیا آپ کو کہیں آگے جانا ہے۔ تانگہ لاؤں۔۔۔؟ یا آپ کو کسی کا انتظار ہے؟‘‘
اس نے سر پر دوپٹہ سنوارتے ہوئے جواب دیا، ’’جی جانا تو قریب ہی ہے۔۔۔ وہ نہیں آئے۔۔۔ ملازم کو بھیج دیتے۔۔۔ ملازم کو تو آنا ہی چاہیے تھا۔۔۔‘‘ میں نے آگے بڑھ کر لڑکی کو گود میں اٹھا لیا اور بولا، ’’چلیے میں آپ کو چھوڑ آؤں۔‘‘ وہ بغیر کچھ کہے میرے ساتھ ہولی۔ ابھی ہم پندرہ بیس قدم ہی چلے ہوں گے کہ وہ بول اٹھی، ’’لیجیے وہ لڑکا۔۔۔ ہمارا نوکر چلا آ رہا ہے۔‘‘
ہم رک گئے۔ میں نے جھجکتے ہوئے ٹانگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا، ’’کیا پیدائشی نقص ہے؟‘‘ اس نے قدرے تامل کیا۔ پھر اپنی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈالتے ہوئے مسکراکر بولی، ’’جی نہیں۔۔۔ جب فسادیوں نے ہمارے مکان پر حملہ کیا تو ایک سوربیر نے لاٹھی گھما کر ماری تھی۔۔۔‘‘ میرا دل بیٹھنے لگا۔ لرزتے ہوئے ہاتھوں سے میں نے بچی کو نوکر کی طرف بڑھایا۔۔۔ میری پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کی بوندیں پھوٹ پڑیں۔ کانپتے ہاتھ سے جیب میں رومال ٹٹولنے لگا۔ رخصت کے موقع پر کچھ کہنا چاہا لیکن ہونٹ پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ چنانچہ میں کچھ اس انداز سے دو قدم پیچھے ہٹا جیسے وہ قدیم بابلیوں کی حسین شہزادی ہو۔ میری آنکھیں جھک کر اس کے قدموں پر جم گئیں۔ میں نے تصور ہی تصور میں اس کے پاؤں پر سر رکھ دیا۔
پھر اچٹتی ہوئی نظروں سے اس کی جانب دیکھا تو معلوم ہوا کہ اب ان آنکھوں میں وہ روکھاپن نہ تھا نہ سختی اور پھر مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ مہربان ہوتی ہوئی کسی خود سر ملکہ کی طرح کہہ رہی ہے، ’’مابدولت خوش ہوئے۔۔۔ مابدولت نے نہ صرف تمہیں بلکہ تمہاری ساری قوم کو معاف کیا۔۔۔‘‘
ایک مرتبہ پھر ہم نے ایک دوسرے کی جانب شکر گزار نظروں سے دیکھا۔۔۔ اور پھر ہم ایک دوسرے سے دور ہونے لگے۔ یہاں تک کہ بالآخر ایک دوسرے کی نظروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.